وہ بہت تیزی سے بھاگ رہی تھی بغیر پیچھے دیکھے بس بھاگے جا رہی تھی کہ اچانک اسے ایک چیخ سنائی دی
آ ۔۔۔۔۔اپی
اس نے رک کر کہا اور پلٹ کر پیچھے بھاگی
وہ بھاگ کر آ ئی تو اپنی بہن کو زمین پر خون میں بھرے گرے ھوئے دیکھا
آ پی
آ پی اٹھیں پلیز
آ آ آ پی
آ پ کو کچھ نہیں ھو گا
ہم ابھی یہاں سے نکل جائیں گے
آ پی پلیز آ نکھیں کھولیں
آ پ سن رہی ھیں کہ میں کیا کہ رہی ھوں
آ پی اٹھیں نا
وہ زاروقطار رو کر اپنی بہن کو پکار رہی تھی
مگر اکھڑی ھوی سانسوں کے علاوہ اسے کوئی
جواب نہیں مل رہا تھا
اور پھر ایک آخری جھٹکا کھا کر اس کی بہن
اسے اکیلا چھوڑ جاتی ھے
آ پی
آ پی اٹھیں پلیز
آ پ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتیں
میں مر جاؤں گی آ پ کے بغیر
چھوڑو مجھے
چھوڑووو
ھاتھ مت لگانا مجھے
آ پی مدد کریں میری
اٹھیں نا
آ پی
وہ چیخ کر اٹھی اور خود کو پسینے میں شرابور پایا
یہ خواب اسے پچھلے چھ ماہ سے آ رھا تھا
جب سے اس کی بہن کی موت ھوئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آ پی آ پی
عیلی نے زور سے دعا کے کمرے کا دروازہ
نوک کر کے کہا
آ جاؤ عیلی
آ پی
وہ نا میں نے کھڑکی سے باہر آ سمان میں
کسی بڑی سی چیز کو اڑتے ہوئے دیکھا
پکا وہ نا جیپر کریپر ھے
عیلی بھاگ کر بیڈ پر بیٹھ گئی اور دعا
کے ھاتھوں کو زور سے پکڑ کر کہا
آ ج ان دونوں نے جیپر کریپر مووی دیکھی تھی
جس کی وجہ سے عیلی اب ڈر رہی تھی
وہ ایسی ہی تھی ڈرپوک سی پہلے شوق سے horror movies دیکھتی تھی اور پھر ڈر کر دعا کے ساتھ اس کے کمرے میں سوتی تھی
عیلی میں نے کتنی دفعہ کہا ہے تم سے کہ رییل لایف میں ایسا کچھ نہیں ھوتا ھے یہ صرف ایک مووی تھی
تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے
میری جان
دعا نے عیلی کے بالوں میں اپنا ھاتھ پھیرتے ہوئے کہا
نہیں آ پی سچ میں آ سمان میں کچھ تھا
اگر میں آ پ کے پاس نہ آ تی تو پکا وہ مجھے لے جاتا اور میری تو ہر چیز ہی پیاری ھے پھر تو وہ مجھے پورا ہی کھا جاتا
عیلی ابھی بھی اپنی بات پر قائم تھی
اچھا تو کیا اب وہ جیپر کریپر یہاں نہیں آ سکتا
دعا نے مسکرا کر کہا
نہیں نا
کیوں کہ اب میں آ پ کے پاس ھوں
اور مجھے پورا یقین ہے کہ آ پ مجھے کچھ نہیں ھونے دیں گی
عیلی نے مسکرا کر کہا اور پھر دعا کو ہگی دے کر سو گئی
جبکہ دعا بھی عیلی کے بالوں کو سہلاتے ہوئے نیند کی وادیوں میں اتر گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل صاحب کی دو ہی بیٹیاں تھیں
دعا اور اس سےچھ سال چھوٹی علیشہ
علیشہ صرف دو سال کی تھی جب اس کی ماما فوت ھو گئیں تب سے دعا نے ہی علیشہ کو ایک ماں کی طرح پالا تھا حالانکہ وہ خود ایک بچی تھی
فیصل صاحب اور دعا نے عیلی کو ہر پریشانی اور تکلیف سے ہمیشہ دور رکھا تھا جس کی وجہ سے وہ مکمل طور پر ان دونوں پر ڈیپنڈ تھی
یہاں تک کے عیلی سکول میں بھی دعا کی کلاس میں بیٹھتی تھی وہ بہت ڈرپوک قسم کی لڑکی تھی جسے غیر لوگوں سے خوف آ تا تھا
یعنی دعا اور فیصل صاحب کے علاوہ باقی سب سے خوف آ تا تھا
سکول کے بعد عیلی نے کالج جانے سے انکار کر دیا اسی وجہ سے وہ گھر میں ہی سمپل ایف اے کر رہی تھی جس کی وجہ سے اسے باہر کی دنیا کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتنی خطرناک ہے
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
چھوڑو میرے بابا کو
اسرا نے چیخ کر کہا
چھوڑ دوں
کیسے چھوڑ دو اس دو ٹکے کے ماسٹر کو
تیرے باپ نے اچھا نہیں کیا میرے بھائی کے خلاف رپورٹ درج کروا کے
اس بات کی سزا تو اسے ملے گی
اور ضرور ملے گی
فہد نے گن نکال کر شرافت صاحب کے سر پر رکھی
جسے دیکھ کر اسرا فہد کے آ گے ھاتھ جوڑنے لگی
پلیز بھائی
ایسا مت کریں
ہم رپورٹ واپس لے لیں گے
ہم بھول جائیں گے سب کچھ لیکن پلیز آ پ میرے بابا کو معاف کر دیں
اسرا زاروقطار رو کر فہد کی منتں کر رہی تھی
فہد ایک نظر اسرا پر ڈال کر بولا
ٹھیک ہے
نہیں کرتا کچھ
لیکن اگر دوبارہ میرے بھائی کے بارے میں کچھ بھی بکواس کی تو تمہارے باپ کے ساتھ تمہیں بھی جان سے مار دوں گا
فہد نے گن واپس اپنی جیکٹ میں ڈالی اور باہر نکل گیا
جبکہ اسرا اپنے بابا کے گلے لگ کر رونے لگی
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
فہد اور اسد دو بھائی تھے اسد فہد سے تقریباً 10 سال چھوٹا تھا
گھر والوں کی محبت کے علاوہ فہد کی بے پناہ محبت نے اسد کو بہت بگاڑ دیا تھا
جس سے وہ نشے کے علاوہ لڑکیوں کے چکر میں بھی پڑ گیا تھا پہلے تو ہر لڑکی خود اسد کے پیسوں کی وجہ سے اس سے دوستی کرتی تھی جس کی وجہ سے وہ ہر کسی لڑکی کو ایسا ہی سمجھنے لگا تھا
اسرا بھی اسد کے ساتھ یونی میں پڑھتی تھی اور اسد کو وہ پہلی نظر میں ہی اچھی لگی تھی
جب اسد نے اس سے دوستی کرنے کی کوشش کی تو اسرا نے انکار کر دیا کیونکہ اسرا کے گھر کا ماحول اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا
اسرا کے انکار نے اسد کو تو مانو پاگل ہی کر دیا تھا جس کی وجہ سے اس نے اسرا کا کڈنیپ کروا کر اس سے اپنا مقصد پورا کیا اور اسے چھوڑ دیا
جبکہ اسرا کے بابا چپ نہ رھے اور اسد کے خلاف پولیس رپورٹ درج کروا دی
اور جب اس بات کا فہد کو پتہ چلا تو پہنچ گیا اسرا کے گھر ان سے رپورٹ واپس کروانے کے لیے
وہ ہمیشہ سے اسد کے کارناموں کو چھپاتا آ یا تھا
وہ ایسا ہی تھا اپنے بھائی سے بہت محبت کرنے والا پھر بھلا وہ اپنے بھائی کے بارے میں کوئی بھی بات برداشت کیسے کرتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
عیلی اٹھ جاٶ میری جان
صبح کے 9 بج گۓ تھے مگر عیلی ابھی تک سورہی تھی
فری جو تھی
نہ کالج جاتی تھی اس لۓ فجر کی نماز پڑھ کر دوبارہ سو جاتی تھی
کیونکہ آج اس کی برتھ ڈے تھی
اور شام تک لاھور سے ان کے کزنز آ رھے تھے اور ان کزنز میں دعا کا شوہربھی شامل تھا
اچھا آپی اٹھ گٸ ھوں
عیلی نے کمبل سے باہر منہ نکال کر کہا
ٹھیک ھے تم فریش ھو جاٶ
میں تمہارا ناشتہ بناتی ھوں
اور اب سونا نہیں دعا کمرے سے نکلتے ھوۓ پلٹ کر بولی اوکے آپی
عیلی اٹھ کر بیٹھ گٸ تو دعا مسکرا کرچلی گٸ
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میں کیا سن رہا ھوں اسد میں نے تمہیں کہا تھا کہ جو بھی باہر کرو اس کا ذکر یا کوٸ شکایت گھر تک نہیں پہنچنی چاھیے
میں لوگوں کی باتیں نہیں برداشت کر سکتا پھر تمہاری شکاییت گھر تک کیسے آئی
حیات صاحب چیخے
اس وقت حیات صاحب اپنے کمرے میں اسد کی کلاس لینے کے موڈ میں تھے اور ایسا فہد کے ھوتے ھوۓ کیسے ممکن ھے
بابا آپ اتنا غصہ کیوں کر رھے ھیں
اچانک فہد کمرے میں داخل ھو کر بولا
آؤ آؤ
تمہارا ہی انتظار ہو رھا ھے
اگر اپنے اس لاڈلے کو اتنا بگاڑ لیا ھے تو اس کےکارناموں کو اچھے سے چھپا بھی لیا کرو
حیات صاحب کسی طرح بھی اسد کو معاف کرنے کے موڈ میں نہیں تھے
آپ ریلیکس رہیں بابا اب سے آپ کو کوٸ شکایت نہیں ملے گی میں نے سب کچھ سنبھال لیا ھے
ٹھیک ھے
اگر تم کہتے ھو تو مان لیتا ھوں
لیکن دوبارہ ایسا کچھ نہیں ھونا چاھیے سمجھے اور اسے بھی اچھے سےسمجھا دو
اور اب جاٶ
فہد نے حیات صاحب کو تسلی دی اور اسد کو اپنے کمرے میں لے گیا
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
شام کو جب عیلی تیار ھو کر باہر آئ تو وہاں ان کے کزنز یعنی حیدر وجیہہ اور ساحر کو دیکھ کر حیران رہ گئی
آ پی یہ سب
آ ؤ آ ؤ عیلی
وجہیہ نے عیلی کو اپنے پاس بیٹھاتے ھوئے کہا
ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ھو
کیسا لگا ہمارا سرپرائز
ساحر نے کہا تھا کہ اچانک ہمارے یہاں آ نے سے تم بہت خوش ھو جاؤ گی
لیکن لگتا ہے کہ تمہیں ہمارا یہاں آ نا اچھا نہیں لگا
وجہیہ نے عیلی کو خاموش دیکھ کر کہا
نہیں تو وجہیہ آ پی
ایسا کچھ بھی نہیں ھے وہ بس میں تھوڑی سی شوکڈ ھو گئی تھی آ پ سب کو اچانک دیکھ کر
آ پی نے بھی تو آ پ کے آ نے کا نہیں بتایا تھا
عیلی مسکرا کر بولی تو وجہیہ کو کچھ تسلی ھوئی
عیلی کو وجیہہ سے کوئی مسئلہ تھا بھی نہیں وہ تو بس حیدر اور ساحر سے چڑتی تھی
حیدر سے اس لیے کیونکہ وہ اس کی فیورٹ بہن کو اس سے چھیننے والا تھا اور ساحر سے اس لیے کیونکہ وہ اسے بہت عجیب سا لگتا تھا
ایویں خوامخواہ فری ھونے کی کوشش کرتا تھا اس لئے عیلی کو اس سے بہت نفرت تھی لیکن زیادہ اس سے ڈر لگتا تھا کیونکہ وہ بھی تو بقول عیلی کے اس کے لئے غیر تھا
پھر اسی طرح کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد عیلی نے کیک کاٹا اور صرف فیصل صاحب دعا اور بعد میں وجیہہ کو کھلایا جبکہ حیدر اور ساحر ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے
آ ج عیلی 17 سال کی ھو گئی تھی اور عیلی کو چھوڑ کر باقی سب کو یہ بات پتہ تھی کہ عیلی کے 18 کے ھوتے ہی ساحر اور عیلی کی شادی ھونی تھی جبکہ حیدر اور دعا کی رخصتی
کیونکہ فیصل صاحب ھاٹ پیشنٹ تھے اس لئے جلد سے جلد اپنے فرائض پورے کرنا چاہتے تھے
پھر خوش گوار ماحول میں رات کا کھانا کھایا گیا اور پھر سب سونے کے لئے اپنے کمروں میں چلے گئے
سفر کی تھکاوٹ تھی اس لیے سب لیٹتے ہی سو گئے جبکہ عیلی کو ساحر پر بہت غصہ آ رہا تھا مطلب کہ کوئی اتنا بھی گھورتا ھے اور جب بھی عیلی اس کی طرف دیکھتی تو دانتوں کی نمائش کر دیتا
پتہ نہیں یہ آ تے ہی کیوں ھے ان کی وجہ سے میں آ ج آ پی کے ساتھ نہیں سو سکی اور اب نیند بھی نہیں آ رہی
عیلی کو اس بات کا زیادہ دکھ تھا کہ آ ج کو اپنی پیاری آ پی کو ہگی دے کر نہیں سو سکی
آ خر اب ان غیر لوگوں کے سامنے اپنا مزاق تھوڑی بنانا تھا
پھر یہی سب سوچتے سوچتے عیلی بھی سو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سب کافی دیر تک سوتے رہی سواۓ عیلی کے وہ فجر کے بعد سو ہی نہیں سکی اس لئے باہر لان میں آ کر اپنے پودوں کو پانی دینے لگی
ویسے تو یہ کام مالی کرتا تھا مگر آج عیلی اپنی بوریت کو ختم کرنے کے لیے یہ کر رہی تھی
ارے
تم مرجھا کیوں گئے
لگتا ھے تمہارا کوئی دوست نہیں ھے اس لئے تم سیڈ ھو کر مرجھا گئے ھو ناچلو کوئی بات نہیں تم سیڈ مت ھو میں تم سے دوستی کرتی ھوں اور میں آ پی سے کہوں گی تو وہ بھی تم سے دوستی کر لیں گی
وہ میری بیسٹ فرینڈ ھیں اور دنیا کی بیسٹ آ پی بھی
دیکھنا ہم دونوں تمہیں بہت پیار کریں گے پھر تم بالکل ٹھیک ھو جاؤ گےتھوڑی سی دوستی مجھ سے بھی کر لو
عیلی اپنی ہی باتوں میں لگی ھوئی تھی کہ اچانک اپنے پیچھے سے آ تی ساحر کی آواز سن کے ڈر کر اچھل پڑی
آ آ پ
عیلی ہقلا کر بولی
ھاں میں
ویسے عیلی تم مجھ سے اتنا ڈرتی کیوں ھو
ساحر نے عیلی کو اپنے نظروں کے حصار میں رکھتے ھوئے کہا
ن۔۔۔نہی۔۔۔نہیں تتو
عیلی کہ کر جانے لگی تو اچانک ساحر اس کے راستے میں آ گیا
جب کہ عیلی ساحر کی اس حرکت پر پوری کانپ گئی
اور اب رونے کی تیاری کر رہی تھی
عیلی
عیلی آ کر ناشتہ کر لو
دعا نے اچانک آ کر کہا تو ساحر عیلی کے آگے سے ہٹ گیا جبکہ عیلی نے آنکھوں میں آ ے آ نسوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی اور بھاگ کر دعا کے گلے لگ کر رونے لگی
عیلی میری جان کیا ھوا
رو کیوں رہی ھو ساحر کیا کیا ھے تم نے
دعا نے ساحر کو گھورتے ہوئے کہا
کچھ نہیں بھابھی قسم سے میں نے ٹچ تک نہیں کیا آ پ چاھیں تو پوچھ لیں عیلی سے
ساحر نے گھبرا کر جلدی سے کہا
عیلی بتاؤ کیا بات ہے
دعا نے عیلی کو خود سے الگ کرتے ہوئے کہا
کچ۔۔۔۔۔کچھ ن۔۔۔۔۔نہیں آ آ پی
می۔۔۔۔میں ڈ ڈر گئی تھ۔۔۔۔تھی
عیلی نے روتے ھوئے کہا تو ساحر نے سکون کا سانس لیا
جبکہ دعا عیلی کو لیے اندر چلی گئی
اف
کیا ھو تم عیلی کیسے رہو گی پوری عمر میرے ساتھ
ساحر نے مسکرا کر کہا اور پھر خود بھی گھر کے اندر چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
نہیں آ پی سمجھنے کی کوشش کریں عیلی نہیں مانے گی
آ ج دو دن بعد ان کے کزنز واپس لاھور جا رھے تھے اور پچھلے دو گھنٹوں سے یہ بحث ھو رہی تھی کہ کچھ دن کے لئے دعا اور عیلی بھی ان کے ساتھ لاھور چلیں
جب کہ دعا مسلسل عیلی کی وجہ سے انکار کر رہی تھی کیونکہ عیلی آج تک کبھی کہیں نہیں گئی تھی
تم عیلی کی فکر مت کرو اور جا کر سامان پیک کرو عیلی کو میں خود منا لوں گی
وجہیہ نے غصے سے کہا اور عیلی کے پاس اس کے کمرے میں چلی گئی
جبکہ دعا بھی جا کر سامان پیک کرنے لگی
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
عیلی میں آ جاؤں
وجیہہ نے دروازہ نوک کر کے کہا
آ جائیں آ پی
عیلی اٹھ کر بیٹھ گئی تو وجیہہ بھی اس کے پاس آ کر بیڈ پر بیٹھ گئی
عیلی بچے دادی اور ماما بابا تم دونوں کو بہت مس کرتے ھیں اس لئے انھوں نے مجھے کہا تھا کہ میں تم دونوں کو لاھور لے کر آؤں دعا سے میں نے کہا تو اس نے تمہاری وجہ سے انکار کر دیا لیکن میں نے اسے کہا ھے کہ میں تمہیں منا لوں گی
تم مجھے انکار نہیں کرو گی
میں نے سہی کہا نا عیلی
وجیہہ نے بہت امید کے ساتھ عیلی کے طرف دیکھا تو عیلی کو راضی ھونا پڑا
جبکہ وجیہہ خوشی سے بھاگ کر باقی سب کو بتانے چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
نہیں نہیں آ پی میں فلائٹ سے نہیں جاؤں گی آ پ کو پتہ ھے کہ مجھے کتنا ڈر لگتا ھے اونچائی سے
اگر پلین کریش ھو گیا تو
نہیں نہیں نہیں کبھی بھی نہیں
جب سب ایئر پورٹ کے لئے نکلنے لگے تو عیلی ضد لگا کر بیٹھ گئی
دیر ھو رھی ھے عیلی یار کچھ بھی نہیں ھو گا ساحر نے تنگ آکر کہا
جبکہ عیلی منہ سجا کر بیٹھ گئی
اچھا ٹھیک ہے آ پ سب جائیں ہم کل آ جائیں گے باے روڈ
دعا نے اچانک اپنا فیصلہ سنایا تو سب نے ھاں کر دی اور ایئر پورٹ کے لئے نکل گئے جبکہ عیلی خوش ھو گئی کہ اسے مجبور نہیں کیا گیا مگر کاش وہ آ ج ہی ان کے ساتھ فلائٹ میں چلی جاتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔