وہ ہوٹل کے کمرے میں بیٹھا کوئی دسویں بار نمبر ڈائل کر رہا تھا ہر بار کی طرح نمبر بند جا رہا تھا غصے میں آ کر اس نے اپنا فون دیوار پر مارا۔ ہمیشہ اس کے غصے کا نشانہ بے جان چیزیں یا دوسرے لوگ بنتے جو اس کی وجہ تھی اس کو وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر کچھ کہہ ہی نہیں پاتا۔دروازے پر دستک دے کر ویٹر نے کہا سر آپ کے لیے ریسپشن پر کال ہے اگلے ہی لمحے وہ ریسپشن پہ تھا السلام علیکم بابا جان شاہ ہم کب سے نمبر ملا رہے ہیں نمبر کیوں بند ہے تمہارا؟ وہ باباجان فون ٹوٹ گیا وہ غصے سے بولے حد ہے ازمیر شاہ آپ اپنے غصے پر قابو کیوں نہیں کرتے ازمیر شاہ نے جیسے کچھ سنا ہی نہیں بابا جان وہ ہے کہاں ارے میری جان تمہاری لاڈلی منکوحہ سو رہی ہے اذمیر شاہ کے دل کو قرار ملا اچھا بابا جان باقی سب کیسے ہیں اچھا اچھا زیادہ بنو مت ہم خوب جانتے ہیں آپ کو بس پریسہ کی ہی پرواہ ہے ازمیر شاہ ک لب مسکرا اٹھے اچھا بابا جان کل آپ سے ملاقات ہوتی ہے میرا کام ختم ہو جاے گا آج۔ اللہ حافظ
پری کی آنکھ کھلی تو وقت دیکھا گھڑی دس بجا رہی تھی فون چیک کیا توشاہ کی کالز دیکھی اف اللہ آج تو شاہ مار ہی ڈالیں گے فوراً کال ملای نمبر بند ۔ لو پھر میرے چکر میں فون شھید ہو گیا خیر بابا جان سے پوچھتی ہوں کب آ رہے ہیں شاہ ۔فریش ہو کر نیچے آئی السلام علیکم بابا جان ہو گئ صبح آپ کی پری شرمندہ سی بو لی بابا جان رات ٹیسٹ کی تیاری کرتے دیر سے سوئ تھی آپ بتائیں آپ کےلاڈلے کب آرہے ہیں کل آئے گا وہ ویسے پری بیٹا آپ کو پتہ ہے وہ آپ سے تھوڑی دیر بات نہ کرے تو وہ کتنا پریشان ہو جاتا ہے پری شرمندہ سی بولی سوری باباجان آئندہ خیال رکھوں گی یاد ہے نہ آپ یونی نہیں جائیں گی ہاں یاد ہے آپ کے لاڈلے کا حکم ہے جب تک وہ نہ آئے میں گھر سے نہ نکلوں لیکن وہ کیا ہے نہ بابا جان کہ آج ہمارا بہت ضروری ٹیسٹ ہے ہم جائیں گے ہر بار شاہ کی نہں چلے گی اس کے ہی کہنے پہ ہم نے ایونگ کلا سز میں ایڈمیشن لیا ہے۔سید ابتہاج عالم نے تاسف سے اپنی پوتی کو دیکھا جو اپنی لا پرواہ طبیعت کی وجہ سے ہمیشہ ان کے جگر کے ٹکڑے کا دل دکھاتی تھی۔
-----------
شاہ کا کام ختم ہوا تو فوراً واپسی کی ٹکٹ کروائی وہ اڑ کر پری کے پاس جانا چاہتا تھا آخر تین دن سے اس نے پری کو دیکھا نہیں تھا ۔جیسے ہی اس نے گھر میں قدم رکھا سامنے ہی وہ دشمن جاں کھڑی تھی شاہ نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا بلیک سوٹ میں میدے جیسی رنگت لمبے کمر تک آتے سلکی بال ۔کم تو بھی نہ تھا لیکن یہ بات شاہ کو کون سمجائے لڑ کیاں اس کی ایک جھلک پہ مرتی ہیں جیسے ہی اس کی نظر اس کے کاندھے پہ لٹکتے بیگ کو دیکھا تو شاہ کے ماتھے پر بل آئے لب بر بڑاے یہ نہیں سدھر سکتی پری کہاں جا رہی ہیں آپ؟ اوہ شاہ آپ کب آئے اس کو گولی مارو یہ بتاو جب میں کہا تھا کہ آپ گھر سے با ہر نہیں جائیں گی جب تک میں واپس نیہں آجاتا تو ؟ شاہ ہمارا ٹیسٹ تھا ارے بھار میں گیا ٹیسٹ میرے لیے آپ کی حفاظت زیادہ ضروری ہے ۔ شاہ اب ہم جائیں پری یار آپ آف کر لیں میں بہت تھک چکا ہوں بالکل نہیں ہم ڈرائیور کے ساتھ چلے جائیں گے
شاہ نے بے بسی سے اس ضدی لڑکی کو دیکھا چلو میں چھوڈ دیتا ہوں سارا راستے شاہ نے پری سے بات نہ کی جو اس کی خفگی ک اشارہ تھا لیکن پری کو کوئی پرواہ ہی نہیں تھی کیوں کی اس کا شاہ اس سے ناراض رہ ہی نہیں سکتا۔
--------
شاہ ہال کمرےمیں داخل ہوا تو آغاجان کو فون پہ مصروف دیکھا انہوں نے شاہ کو دیکھتے کال بند کی ۔ہاں جی شاہ صاحب آ گی گھر کی یاد وہ مسکراتے ہوئے ان کے گلے لگا آغا جان میں تو کافی دیر پہلے ہی آ گیا تھا ابھی تو پری کو یونی چھوڈنے گیا تھا چلیں شاہ صاحب آپ آرام کریں اب ہمذرا ہمدانی سے مل آئیں وہ جب بھی ناراض ہوتے تو ازمیر کو شاہ صاحب ہی کہتے تھے شاہ ان کی خفگی کی وجہ بھی جانتا تھا ملازمہ کو چائے کا کہتے اپنےکمرے میں آیا۔ تھکاوٹ سے چور ہونے کی وجہسے بستر پر لیٹتے ہی نیند آ گئ------
پری نے بے دلی سے ٹیسٹ دیا اس سے شاہ کی خفگی برداشت ہی نہیں ہو رہی تھی وہ ہےہی اتنی نرم و نازک تھی شاہ تو کیا وہ تو کسی کو ناراض کر ہی نہیں سکتی تھی ماہم پری کی اکلو تی دوست ا س کو یوں اداس دیکھ کر اس کے پاس آئی پری کیا ہوا ٹیسٹ اچھا نیہں ہوا ارے نی ٹیسٹ تو اچھا ہو گیا پر ہم سے شاہ خفا ہو گے ۔ تمہا ری غلطی ہونی ہے ورنہ شاہ بھا ئی تو بہت سویٹ ہیں پری تپ کر بو لی تم ہماری جگہ ہوتی تو پتہ چلتا کتنے سویٹ ہیں ان کا بس چلیں تو کہیں سا نس بھی کہیں میریمرضی سے لو ما ہم پری کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر بولی پری وہ بس تمہاری فکر کرتے تم یوں بد گما ن نہ ہو اور پھر میری پیاری سی دوست ہے بھی بہت معصوم بس اسی لیے شاہ بھا ئ تھوڑے زیادہ کا نشس رہتے ہیں مجھے تو یہ سمجھ نہی آتا تم میری دوست ہو بھی کہ نہیں پری نے ماہم کو گھورتے ہوئے کہا اچھا آنکھیں نہ دیکھاٶ چلو کہیں ازمیر شاہ آ ہی نہ گے ہوں اپنی پریسہ کو لینے او ہاں جلد ی چل ویسےتم عجیب ہو ایک طرف اتنی بد گمانی ہے شاہ بھائ کے لیے دوسری طرف اتنی پرواہ پر یسہ نے لاپرواہی سے کند ھے اچکا ئے جس سوال کا جواب پری کو بھی نہیں پتا تھا وہ ما ہم کو کیا جواب دیتی وہ تو خو د ابھی اپنے جزبات سے انجان تھی۔ -----------
شاہ پارکنگ میں پری کا انتظار کر رہا تھا جب سامنے سے پری آتی دیکھائی دی وہ ماہم کو اللہ حافظ بولتی شاہ کی طرف بڑھی تب ہی اچانک سامنے سے آتے وجود سے ٹکڑائی شا ہ کی آنکھیں غصہ سے لال انگارہ ہو گئیں اس سے پہلے وہ اس شخص کی کلاس لیتا پری نے فوراً معزرت کر کے جانے میں عافیت جانی جبکہ وہ شہزادوں سی آن بان والا شخص حیرانی سے اس معصوم سی لڑکی کو دیکھ رہا جو غلطی نہ ہونے پہ بھی معزرت کر گئ تھی جب تک وہ کچھ کہنے کے قابل ہوا وہ جا چکی تھی اس کےلبوں بے اختیار مسکراہٹ آئی وہ اس جل پری کو سوچتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ادھر شاہ کا ضبط جواب دے رہا تھا آخر کیسے کسی غیر نے اس کی پری کو چھوا پری تیز چال چلتی شاہ تک آئی وہ نہیں چاہتی تھی کہ شاہ وہاں کوئی تماشہ کرے وہ جانتی تھی شاہ اگر ان تک پہلے پہنچ جاتا تو سامنے والے کی خیر نہیں تھی۔اب بھی سٹیرنگ ویل پر رکھے شاہ کے ہا تھوں کی رگیں تنی ہوئی تھیں ۔پری نے ہمت کر کے شاہ کو بلایا شاہ آپ تکھے ہوئے تھےڈرائیور کو بھیج دیتے ازمیر شاہ نے افسوس کے سا تھ اپنی منکوحہ کو دیکھا پری جب ایک بات کا جواب آپ جا نتی ہیں تو بار بار اس بات کو دہرانےکا مقصد۔ پری نے ڈرتے ڈرتےشاہ کینطرف دیکھا شاہ وہ وہ ۔۔دراصل کیا کہنا ہے پری آپکو شاہ کے لہجے میں ایک دم نرمیاں گل گئیں وہ شاہ غلطی ہماری تھی ہم نے ہی نہیں دیکھا پری جان اتنی سی بات کے لیے پریشان نہیں ہوتے کہنے کو تو کہہ دیا تھا لیکن پری بالکل بھی مطمن نہ ہوئی تھی وہ جا نتی تھی وہ اس کو تو کچھ نہیں کہتا لیکن اگلے بندے کا ہشر کر دیتا تھا ۔ پری کو گیٹ پاس اتار کے اس کو اندر جانے کا بولتے ہوئے موبائل پہ کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگا چہرے پہ کچھ دیر پہلے کی نرمی مفقود تھی ہاں مجھے ایک بندے کی سارا بائوڈیٹا چاہیے چو بیس گھنٹےکے اندر اگر ایک منٹ بھی اوپر ہوا تو تم کو اوپر پہنچانے میں ایک منٹ نہیں لگے گا مجھے ۔ چھوڈوں گا نہیں پری کو چھوا کیسے غصے سے سٹیرنگ ویل پر مکا مارا پھر ایک خیال ذہن میں آتے ہی زن سے گاڑی بگھا لے گیا---------