وہ عرفان کے کمرے میں دلہن بنی بیٹھی ارد گرد کا جائزہ لے رہی تھی۔پورا کمرہ گلاب کے پھولوں سے سجا ہوا تھا۔
دروازہ کھولنے کی آواز سن کر وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور دوپٹہ آگے کر کے گھونگھٹ نکال لیا۔
اسلام علیکم۔عرفان اس سے کچھ فاصلے پر بیڈ پر بیٹھ گیا۔فائزہ نے آہستہ سا سر ہلا کر سلام کا جواب دیا اس کی دھڑکنیں اس کے پاس بیٹھنے پر بے قابو ہو رہی تھی۔
اب تو اجازت ہے نہ جی بھر کر دیکھنے کی۔ عرفان نے ہاتھ بڑھا کر اسک گھونگھٹ اٹھایا۔۔
اس نے شرم سے سر جھکا لیا۔
ایک حقیر سا تحفہ تمہارے لیے۔اس نے ڈبیہ میں سے سونے کا نازک سا لاکٹ نکالا۔
پہنا دوں؟ عرفان نے اجازت چاہی۔
ن نہیں میں پہن لوں گی۔
ہاہاہا ٹھیک ہے۔وہ اسکے چہرے پر شرم کی سرخی دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔یہی بات تو فائزہ کی اسے اچھی لگتی تھی۔
اس نے آگے بڑھ کر فائزہ کو بانہوں میں لے لیا۔
سجدے کیے ہیں لاکھوں
لاکھوں دعائیں مانگی
پایا ہے میں نے پھر تجھے
آئی لو یو میری جان۔میں تمہیں بہت خوش رکھوں گا کبھی تمہیں مجھ سے شکایت نہیں ہوگی۔کمرے میں عرفان کی ہلکی سی سرگوشی گونجی۔اس نے عرفان کے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں موندھ لی۔
ایک ننھی سی خواہش جو کب سے ان دونوں کے دل میں پل رہی تھی آج پوری ہوئی تھی ان کے دل کی ہر حسرت پوری ہو گئی تھی۔انکا ہر خواب تعبیر پا گیا تھا.
_______
بح جب عرفان کی آنکھ کھلی تو وہ آئینے کے سامنے کھڑی بال بنا رہی تھی وہ آہستگی سے اٹھا اور اسکے پیچھے کھڑا ہوگیا۔
ان بالوں کی مہک واہ۔وہ اسکے بالوں میں اپنا منہ چھپانے لگا۔
پیچھے ہٹیں مجھے بال بنانے دیں۔وہ اپنا آپ چھڑواتے ہوۓ بولی۔
بالکل بھی نہیں۔
پلیز عرفان۔ وہ دیوار کیساتھ جا لگی۔عرفان اور اس کے بیچ دو انچ کا فاصلہ تھا۔
وہ گستاخی کرنے لگا تھا جب دروازے پر دستک ہوئی اس نے شکر کا کلمہ پڑا۔
صبح صبح سارے رومینس کا ستیا ناس کر دیا۔وہ بڑبڑاتے ہوۓ دروازے کیطرف بڑھا۔۔
فائزہ اٹھ گئی ہے؟ مسز جاوید دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔
جی اٹھ گئی۔
آکر ناشتہ کر لو ٹھنڈا ہو جاۓ گا یا کمرے میں بھجوا دوں۔
نہیں ایک ساتھ ناشتہ کریں گے۔
اوکے۔وہ نیچے چلی گئی۔عرفان اس پر ایک نظر ڈالتا شاور لینے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں ناشتے کی ٹیبل پر پہنچے جہاں مسز جاوید انہی کا انتظار کر رہی تھی جبکہ جاوید صاحب ماتھے پر تیوری چڑھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔عرفان کو برا تو لگا مگر وہ خاموش ہو گیا۔
گڈ مارننگ بیٹا۔مسز جاوید نے خفت مٹانے کے لیے کہا۔
گڈ مارننگ۔وہ مسکراتے ہوۓ کرسی پر بیٹھ گئی۔
فائزہ نے مسز جاوید سے باتیں کرتے ہوۓ ناشتہ کیا۔مگر عرفان کا دل و دماغ جاوید صاحب کے رویے کے بارے میں سوچ کر اداس تھا۔
(اگر پاپا کا رویہ فائزہ کیساتھ ٹھیک نہ ہوا تو میں فائزہ کو یہاں سے بہت دور لے جاؤں گا۔دو وقت کی روٹی تو دے سکتا ہوں اسے مگر اسکے ساتھ نا انصافی ہر گز برداشت نہیں کروں گا)
اسکا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا تھا۔
وہ کب سے لائٹ کے آنے کا انتظار کر رہی تھی تاکہ زبیدہ خالہ زبیدہ خالہ کے کپڑے پریس کر سکے مگر بجلی آنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
خالہ کمرے میں گزشتہ دن کی نیند پوری کر رہی تھی ولید باہر کہیں گیا ہوا تھا۔
چاۓ بنا کر پیتی ہوں سر میں کچھ آرام آ جاۓ وہ سر مسلتی ہوئی کچن کیطرف بڑھی۔
چاۓ بنا کر وہ کپ میں ڈال رہی تھی جب اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہے اس نے مڑ کر دیکھا تو زیب کچن کے دروازے میں کھڑا تھا۔
زیب بھائی آپ۔ اس نے جلدی سے دوپٹہ درست کیا۔
مجھے چاۓ مل سکتی ہے۔
جی۔اس نے چاۓ کپ میں انڈیلی اور کپ اسکی طرف بڑھایا۔اس نے صرف ایک کپ چاۓ کا بنایا تھا۔
یہ لیں چاۓ۔
تم کیا پیو گی؟
میں بنا لوں گی اپنے لیے۔
نہیں آدھا کپ تم پی لو آدھا میں۔۔
نہیں می۔۔۔۔
ضد نہیں کرتے۔زیب نے اسکی طرف کپ بڑھایا۔اسکے ڈریس سے اٹھتی مہنگے پہن پرفیوم کی خوشبو عائزہ کو اپنے حصار میں جکڑ رہی تھی۔
مجھے نہیں پینی۔وہ اسکی سائڈ سے گزر کر باہر نکلنے لگی تھی جب زیب نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔دو تین چوڑیاں ٹوٹ کر زمین پر گر گئی۔
زیب بھائی میرا ہاتھ۔وہ رونے لگی تھی۔
اسکے رونے سے گھبرا کر اس نے ہاتھ چھوڑ دیا وہ بھاگ کر کمرے میں اوجھل ہوگیا۔
اور زیب اپنی جلد بازی پر خود کو ملامت کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں آ کر کافی دیر اپنے زخمی بازو کو دیکھ کر روتی رہی جو چوڑی لگنے کی وجہ سے تھوڑا زخمی ہوگیا تھا۔
یہ زیب بھائی نے ایسا کیوں کیا میرے ساتھ۔اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔وہ زیب کے بارے میں ایسا ویسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی وہ ولید سے بھی ایک سال بڑا تھا اور ولید عائزہ سے نو سال بڑا تھا۔
عدیل واپس اپنے شہر چلا گیا تھا وہ اسے سی آف کر کے کمال کیساتھ وقت گزار کر رات دیر سے گھر آیا۔
لاؤنج میں داخل ہوتے ہوۓ اسکی نظر سامنے صوفے پر پڑی جہاں فائزہ بیٹھے بیٹھے سو گئی تھی شاید اسکا انتظار کرتے ہوۓ۔سر ایک طرف کو لڑھک گیا تھا۔
وہ اسکے پاس آیا۔
گلے میں وہی لاکٹ جگمگا رہا تھا جو اسے عرفان نے گفٹ کیا تھا۔عرفان نے آگے بڑھ کر اسے بانہوں میں اٹھا لیا اور اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر لٹایا۔چہرے پر آنے والے بالوں کو پیچھے ہٹا کر کافی دیر وہ اسے دیکھتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔
صبح اسکی آنکھ کھلی تو خود کو بیڈ پر پایا۔کافی دیر بعد اسے یاد آیا کہ وہ تو لاؤنج میں عرفان کا ویٹ کر رہی تھی اور سو گئی تھی۔
اچھا تو کیا عرفان۔۔۔۔ وہ دھیرے سے مسکرا دی۔وہ اٹھنے لگی تھی جب پاس لیٹے عرفان نے اسکا بازو پکڑ لیا
سو جاؤ صبح صبح اٹھ جاتی ہو آرام نہیں تمہیں ۔نیند سے بوجھل آواز آئی۔
وہ واپس لیٹ گئی۔
سنو پاپا نے تمہیں کچھ کہا تو نہیں۔ ایک بار پھر کمرے میں عرفان کی آواز ابھری۔
نہیں مگر انکا رویہ کچھ عجیب سا ہے۔
ٹھیک ہو جاۓ گا تم فکر مت کرو۔
تم میری فکر کیا کرو۔کچھ توقف کے بعد اس نے کہا۔
آپکی کیوں ؟
کہیں کوئی لڑکی تمہارے معصوم شوہر پر نہ قبضہ کر لے۔
معصوووم؟ اس نے لفظ کو کھینچا۔بہت بدمعاش ہیں آپ۔اچھا سنیں آج مجھے گھر لے جائیں نا پلیز۔
تیار ہو جاؤ آفس کو جاتے ہوۓ چھوڑ جاؤں گا واپسی پر لیتا آؤں گا۔
نہیں جانا مجھے۔اس نے منہ بسورا۔
ہاہاہا مذاق کر رہا ہوں۔دو دن رہنے کی اجازت ہے۔وہ خوشی خوشی اٹھی۔کتنے دنوں سے اسے بہن بھائی کی یاد ستا رہی تھی۔
وہ پہلی دفعہ آج میکے رہنے آئی تھی۔ولید کے کام پر جانے کے بعد وہ عائزہ کیساتھ لاؤنج میں بیٹھی اسے عرفان نامہ سنا رہی تھی۔مگر عائزہ مسلسل کسی سوچ میں کھو جاتی بار بار اسکا دھیان کہیں اور چلا جاتا اور یہ بات فائزہ نے بھی محسوس کر لی۔
تم کچھ پریشان ہو بتاؤ کیا بات ہے؟
وہ پہلی دفعہ آج میکے رہنے آئی تھی۔ولید کے کام پر جانے کے بعد وہ عائزہ کیساتھ لاؤنج میں بیٹھی اسے عرفان نامہ سنا رہی تھی۔مگر عائزہ مسلسل کسی سوچ میں کھو جاتی بار بار اسکا دھیان کہیں اور چلا جاتا اور یہ بات فائزہ نے بھی محسوس کر لی۔
تم کچھ پریشان ہو بتاؤ کیا بات ہے؟
کچھ نہیں آپی ایسے ہی بس۔
بتاؤ میں بہن ہوں تمہاری۔
وہ خالہ نے جاتے ہوۓ بھائی سے میرے رشتے کی بات کی ہے زیب بھائی کے لیے تو بھائی مجھ سے پوچھ رہے تھے اس بارے میں۔اس نے رک رک کر ساری بات فائزہ کو بتائی۔
تو بھائی تم سے کیا کہہ رہے تھے؟
یہی کہ خالہ کی خواہش ہے یہ اور وہ صرف منگنی کرنا چاہ رہی ہیں شادی پڑھائی کے بعد کریں گی۔اور آخری فیصلہ کرنے کا حق تمہارا ہے۔
اچھا تو تم کیا چاہتی ہو۔کیا تم کسی اور کو۔۔۔
نہیں آپی۔ اس نے فائزہ کی بات کاٹ کر کہا۔
تو؟؟
مجھے وہ زیب بھائی سے ڈر لگتا ہے۔اس نے منمناتے ہوۓ کہا۔
ہاہاہا پگلی کیا وہ درندہ ہے یا جن بھوت؟(عائزہ نے اس دن کی ساری بات فائزہ کو بتا دی)
ان کی اور میری عمر میں بہت فرق ہے وہ بھائی سے بھی بڑے ہیں آپی۔
بس یہی شکایات ہیں یا کچھ اور بھی۔
بھائی کہہ رہے تھے کہ وہ اپنے واحد رشتہ جو خالہ کا ہے اسے نہیں کھونا چاہتے۔ اس لیے وہ بھی چاہتے ہیں میں مان جاؤں۔
مگر تمہاری شادی کے بعد تو بھائی اکیلے رہ جائیں گے اب بھائی کا بھی رشتہ ڈھونڈنا پڑے گا۔
مجھے نہیں کرنی شادی۔وہ شرما کر اندر چلی گئی اور فائزہ مسکراتی رہ گئی۔
وہ رات کے وقت گھر جا رہا تھا جب کمال کی کال آگئی۔
ہیلو۔
واہ کمینے شادی کیا کی تو بھول ہی گیا کہ تیرے دو معصوم دوست بھی ہیں جو تیری یاد میں آدھے پاگل ہو گئے ہیں ۔
اسکے ہیلو کے جواب میں کمال نے نان اسٹاپ بولنا شروع کر دیا۔
آفس کی مصروفیا۔۔۔
چوبیس گھنٹے تو آفس میں نہیں ہوتا۔بیٹا بیوی کا پلو چھوڑ دے۔سنڈے کو بھی تو ایک مس بیل بھی نہیں دیتا۔حد ہو گئی یار۔
کال کر کے تیری بک بک سنتا رہوں۔
مجھے چھوڑ عدیل کو ہی کال کر لیا کر وہ جا رہا ہے۔
کہاں جا رہا ہے عدیل؟
کویت۔مسکان کی شادی ہو رہی ہے اور اس نے تو ہنسنا بولنا مسکرانا سب چھوڑ دیا ہے۔وہ سب کچھ چھوڑ کر کویت جا رہا ہے۔کل رات بارہ بجے اس کی فلائٹ ہے۔
کیا؟ وہ اس مسکان کے لیے خود کو کیوں تکلیف دے رہا ہے۔؟
تو بھی تو فائزہ کے لیے ایسا کر رہا تھا وہ بھی تو۔۔۔
مگر فائزہ نے زیادتی نہیں کی تھی میرے گھر والے نہیں مان رہے تھے مگر مسکان نے سراسر اسکے ساتھ زیادتی کی ہے۔
ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو تم ، خیر تم کل ائیر پورٹ آجانا۔
آجاؤں گا۔
فون رکھتا ہوں اللہ حافظ۔
اللہ حافظ۔۔۔۔
کمال کی باتوں نے اسے شاکڈ کر دیا تھا وہ پریشانی میں فائزہ سے بھی بات نہ کر سکا۔۔
اگلی رات کو وہ فائزہ کو لے کر عدیل کو روانہ کرنے ائیر پورٹ آیا تھا۔وہاں کمال ، تانیہ اور ماہی کے علاوہ عدیل کے چچا تھے۔سب کی آنکھیں نم تھی عدیل ہی ان کو تسلی دے رہا تھا۔نہ جانے کیسے اس نے اپنے دل کو قابو کیا ہوا تھا۔۔
ماہی اسے کہنا میں ہمیشہ اسے یاد کرتا رہوں گا چاہے دنیا کے کسی کونے میں چلا جاؤں۔مسکان کے لیے پیغام دیتے ہوۓ اسکا ضبط ٹوٹ گیا۔۔
سب سے گلے مل کر اس نے پاکستان کو الوداع کہا اور جہاز میں بیٹھ گیا۔
۔۔۔۔
واپسی پر وہ بہت اداس تھا بار بار اسے یونیورسٹی کے وہ دن یاد آرہے تھے جب وہ ہنستے مسکراتے ساتھ ساتھ تھے مگر آج انکا ایک دوست دور چلا گیا تھا۔زندگی کی مصروفیات نے باقی دوستوں کو بھی دور کر دیا تھا۔
فائزہ اسکا دل بہلانے کے لیے باتیں کر رہی تھی مگر اس پر کچھ اثر نہیں ہورہا تھا وہ سڑک پر نظریں مرکوز کیے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔
وہ دو بجے اپنے گھر پہنچے۔عرفان سگریٹ لے کر ٹیرس پر چلا گیا۔فائزہ بری طرح جھنجلا گئی۔
کچھ دیر وہ اسکا انتظار کرتی رہی پھر کچن میں دو چاۓ کپ بنا کر وہ اس کے پاس چلی گئی۔۔۔۔۔
وہ اداس کھڑے سگریٹ کے کش لگا رہا تھا جب فائزہ نے گرم گرم چاۓ اسکی طرف بڑھائی۔
شکریہ۔اس نے چاۓ کا کپ لیا۔
تم سو جاؤ فائزہ۔
آپ کو پریشان چھوڑ کر۔
میں پریشان نہیں ہوں بس اداس ہوں عدیل کے دور جانے سے۔
ریلیکس عرفان۔عدیل کی کامیابی کے لیے دوری تو برداشت کرنی ہو گی نا۔
بات کچھ اور ہے فائزہ۔وہ کسی کی یادوں سے پیچھا چھڑوانے کے لیے گیا ہے وہ خود سے بھی فرار چاہتا ہے۔
مجھے اسکی اس حالت نے اداس کر دیا ہے۔
اللہ بہتر کرے گا۔آپ اداس مت ہوں۔وہ اس کا ہاتھ پکڑ اسے بیڈ روم میں لے آئی۔
آپ اب سو جائیں میں یہ کپ کچن میں رکھ آؤں۔وہ خالی کپ اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
وہ صبح اٹھا تو سر درد سے بھاری ہو رہا تھا۔ا سنے آفس جانے کا ارادی ملتوی کر دیا۔
وہ فریش ہو کر نیچے آیا تو کومل کو دیکھ کر اسے دھچکا لگا۔
ہیلو عرفان۔ وہ مسکراتی ہوئی عرفان کی طرف بڑی۔
تم کب آئی؟ عرفان نے اپنی حیرانی چھپاتے ہوۓ کہا۔
رات کو انکل کیساتھ آئی مگر تم اور تمہاری بیوی باہر گئے ہوۓ تھے۔
بیٹھو بیٹا ناشتہ کرو ٹھنڈا ہو رہا ہے۔
مسز جاوید نے کہا اور جاوید صاحب آفس کے لیے نکل گئے تھے۔
وہ فائزہ کیساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔عرفان کو اسکا یہاں آنا خطرے کا پیش خیمہ لگ رہا تھا۔۔
آج تم آفس سے لیٹ ہو گئے ہو۔کیا تمہاری وائف تمہیں وقت پر جگاتی نہیں ہے۔۔
میں آج آفس نہیں جا رہا۔
اوہ ویری گڈ۔آج تم میرے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہو۔
وہ اس کی بات نظر انداز کرتا وہاں سے اٹھ گیا۔ایک تو پہلے ہی سر میں درد تھا اب کومل کی باتوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔فائزہ کو بھی بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔
______