اگلے دن یونیورسٹی میں عرفان فائزہ کو دیکھ کر بے اختیار اسکے پاس چلا گیا۔
فائزہ لو یو سو مچ۔وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا جو نہ جانے اس سے پہلے وہ کتنی بار کر چکا تھا مگر فرق اتنا تھا کہ پہلے وہ مسکرا رہا ہوتا تھا مگر آج اسکی آنکھیں نم تھی۔
وہ بھی رونے لگی تھی جو سکون اسے ملا تھا اسے وہ اب کہیں غائب ہو گیا تھا۔سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا شخص اسے کمزور بنا رہا تھا۔
تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو نا؟ اس نے روتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا۔
مجھ سے شادی کرو گی نا؟
اسنے پھر ہاں میں سر ہلایا۔چادر ڈھلک کر کندھوں پر آگئی تھی۔
عرفان نے اٹھ کر اسکے سر پر چادر رکھی۔
ہم کورٹ میرج کریں گے فائزہ۔عرفان کی بات سے جیسے اسکی سماعتوں میں کسی نے بم پھوڑ دیا ہو۔
نہیں۔جھٹکے سے اس نے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔
فائزہ پاپا کبھی نہیں مانے گیں اور تمہارا چھوڑنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔
تم نے ایسا سوچا بھی کیوں کہ میں چھپ کر شادی کر لوں گی تم سے۔میرے بھائی نے اپنی سب خواہشوں کا گلا گھونٹ کر ہماری خواہشیں پوری کی۔ہمیں پڑھایا ہمیں اس دنیا میں جینے کا ڈھنگ سکھایا میں انکا مان توڑ دوں؟ نہیں عرفان مجھے جدائی منظور ہے مگر میں مطلب پرست نہیں ہوں کہ اپنی خوشیوں کے لیے بھائی کا مان توڑ دوں تاکہ وہ کبھی عائزہ پر بھی اعتبار نہ کر سکیں۔ وہ چادر میں منہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
وہ اب نارمل ہو چکی تھی خاموشی سے بیٹھے اب وہ آنے والے وقت کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے۔
میں مجبور نہیں کروں گا تمہیں۔وہ اسکی آنکھوں میں وہ اذیت دیکھ چکی تھی جو وہ خود اس وقت محسوس کر رہی تھی۔
اتنے میں ماہی اور تانیہ بھی آگئی۔(مسکان اپنے کسی رشتہ دار کی شادی کیوجہ سے چھٹی پر تھی)سب فرینڈز کو پتہ چل گیا تھا عرفان کے پاپا اس کی شادی کسی اور سے کرنا چاہتے ہیں۔
ہم نے ڈسٹرب تو نہیں کیا تم دونوں کو۔ماہی بولی۔
نہیں۔رونے کی وجہ سے اسکی آواز بھاری ہو گئی تھی۔ماہی نے اسے غور سے دیکھا اور پھر عرفان کو دیکھا دونوں کے چہرے اترے ہوۓ تھے۔
ماہی کو بے اختیار دونوں پر ترس سا آیا۔
(کاش میں تم دونوں کی مدد کر سکتی)۔
مسکان نہیں آئی کیا؟ ان دونوں کو خاموش دیکھ کر فائزہ نے پوچھا۔
نہیں اسکے کسی کزن کی شادی ہے۔تانیہ نے کہا
کمال اور عدیل کہاں ہیں؟ تانیہ نے پوچھا
معلوم نہیں ۔ فائزہ نے جواب دیا۔
اوکے میں ان دونوں کو دیکھتی ہوں۔تانیہ کے جانے کے بعد ماہی نے بات کا آغاز کیا۔
اب کیا فیصلہ ہے تم دونوں کا؟
کونسا فیصلہ کیسا فیصلہ ماہی۔جب جدائی لکھی جا چکی ہو تو فیصلے نہیں کیے جاتے۔جدائی مقدر ہے۔وہ آنکھوں میں آئی نمی صاف کر کے جانے لگا۔ماہی نے آہستہ سے اسکا ہاتھ تھام لیے۔تسلی کے کوئی الفاظ نہیں تھے جو وہ اسے کہتی۔
وقت گزرتا جا رہا تھا۔دن ہفتوں میں بدل رہے تھے اور ہفتے مہینوں میں۔مگر اسکی گھر والوں سے ناراضگی میں کوئی کمی نہیں آئی۔وہ صبح سویرے یونیورسٹی چلا جاتا اور رات گئے گھر واپس لوٹتا۔گھر آکر وہ پوری رات اسٹڈی میں جاگ کر گزار دیتا یا ٹیرس پر کھڑے ہو کر سگریٹ پھونکنے میں رات گزر جاتی۔
آج اسکا لاسٹ پیپر تھا وہ معمول کے مطابق رات کو دیر سے گھر واپس آیا مگر مسز جاوید کو لاؤنج میں دیکھ کر اسے پہلے تو حیرانی ہوئی مگر پھر خود کو نارمل ظاہر کرتے ہوۓ وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
رکو بیٹا۔ مسز جاوید کی آواز نے اسکے بڑھتے قدم روک دیا۔
وہ پیچھے مڑ کر انکی طرف دیکھنے لگا۔
مجھے تم سے بات کرنی ہے؟ یہاں آکر بیٹھو۔ وہ نیچے آکر ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔
جی
ماں چاہے جیسی بھی ہو بیٹا مگر اولاد کے لیے اسکا دل بہت حساس ہوتا ہے بہت نرم ہوتا ہے۔آخر کب تک ایسا چلے گا؟ انکی برداشت جواب دے چکی تھی نازوں پلے اپنے بیٹے کو وہ اسطرح نہیں دیکھ سکتی تھی۔سگریٹ کی زیادتی سے اسکے ہونٹ کالے ہو گئے تھے آنکھوں کے نیچے گہرے ہلکے اور سوجے ہوۓ پپوٹےاس بات کی گواہی دے رہے تھے یہ رات کو جاگنے کا اثر ہے۔
جب تک مجھے اپنی پسند نہیں مل جاتی میں خود کو تکلیف دیتا رہوں گا۔
نہیں بیٹا۔مسز جاوید اندر تک دھل گئی
اوکے۔میں کرواؤں گی اسی سے تمہاری شادی۔میں جاؤں گی رشتہ مانگنے۔خدا کے لیے خود کو اذیت مت دو۔
مگر پاپا؟ اسکی سوئی اب بھی پاپا پر اٹکی تھی۔
ان کو میں سمجھا لوں گی۔تم فکر نہ کرو۔میں اور ظلم برداشت نہیں کر سکتی۔
اوہ ماما یو آر گریٹ۔وہ ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
کب لے کے جاؤ گے ان کے گھر؟ وہ آنسو صاف کر کے مسکرا کے بولی۔
جب آپ کہیں۔ماما آپ اس سے ملیں گی تو آپکو یقین آۓ گا کہ وہ واقعی بہت ہی معصوم ،۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے معلوم ہے میرے بیٹے کی پسند اعلیٰ ہی ہوگی۔
اسکی آنکھوں سے خوشی پھوٹ رہی تھی اور مسکراہٹ تو جیسے لبوں سے چپک گئی ہو۔
دل ہی دل میں وہ اسکی دائمی خوشیوں کے لیے دعا گو تھی۔
کیااااا؟ ہوش میں تو ہو۔تم اس لڑکی کے گھر رشتہ مانگنے جاؤ گی۔مسز جاوید نے ان سے فائزہ کے گھر جانے کی بات کی تو وہ بھڑک ہی اٹھے۔
ہاں جاؤں گی میں اپنے بیٹے کو مرتا نہیں دیکھ سکتی آپکی آنکھوں پر بہن کی محبت کی پٹی بندھی ہے۔میں ماں ہوں میرا دل اسکی حالت دیکھ کر تڑپتا ہے۔مسز جاوید نے آنسو ضبط کرتے ہوۓ کہا۔
تم چاہتی ہو یہی کہ میں نجمہ سے قطع تعلق کر لوں۔کومل جو رہنے آتی ہے وہ بھی نہ آۓ۔
ایک بار اپنے بیٹے کے بارے میں سوچیں جاوید۔وہ چند ماہ میں ہی کتنا کمزور ہوگیا ہے رنگت زرد پڑ گئی ہے اسکی۔اپنی اولاد ۔۔۔۔
بس بس۔مجھے مت سمجھاؤ سب جانتا ہوں میں۔جو جی میں آۓ کرو تم ماں بیٹا مگر مجھ سے امید مت رکھنا کہ میں مڈل کلاس لوگوں کے گھر جاؤں گا یا ان سے کوئی رشتہ یا تعلق بناؤں گا۔ وہ اپنا غصہ دروازے پر نکالتے اسٹڈی میں چلے گئے۔
میں تو باپ بیٹے کے درمیان چکی کی طرح پس رہی ہوں۔بیٹے کی مانوں تو باپ ناراض، باپ کی مانوں تو بیٹا، یا اللہ ہمارے لیے آسانیاں پیدا کر۔
وہ بے بسی سے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے لگی۔
موسم کافی خوشگوار تھا۔عائزہ کو کالج اور ولید کو کام پر روانہ کرنے کے بعد وہ گھر کی تفصیلی صفائی میں جت گئی۔
عائزہ کے کالج آنے سے پہلے وہ گھر کو شیشے کی طرح چمکا چکی تھی۔
واؤ آپی آپ نے تو کمال کر دیا۔گھر کا نقشہ ہی بدل دیا۔عائزہ نے تعریف کی۔
ہاں مگر میرا تھکن سے برا حال ہے۔ اب میں غسل کر لوں تم ایک کپ چاۓ کا بنا دو میرے لیے۔ فائزہ نے کاٹن کا پرنٹڈ سوٹ نکالا اور واش روم کیطرف بڑھ گئی اور عائزہ کچن کیطرف بڑھ گئی۔
ابھی اس نے کیتلی میں چاۓ کا پانی رکھا ہی تھا کہ ڈور بیل بجی۔
بھائی کے آنے کا تو وقت نہیں۔پتہ نہیں کون ہے؟ وہ دوپٹہ سر پر درست کرتے ہوۓ گیٹ کیطرف بڑھی۔دروازہ کھولا تو سامنے ایک نفیس سی عورت اور ماڈرن سی لڑکی کھڑی تھی۔
آپ کون؟ عائزہ نے پوچھا۔
یہ فائزہ کا گھر ہے؟ لڑکی نے پوچھا۔
جی۔ اندر آئیے۔ عائزہ دروازے کے سامنے سے ہٹی۔اس نے دونوں کو گیسٹ روم میں بٹھایا اور فائزہ کو بلانے چلی گئی۔
عائزہ نے اسےمہمانوں کی آمد کا بتایا وہ گیلے بالوں کو کلپ میں جکڑتی گیسٹ روم کی طرف بڑھی۔ماہی کو دیکھ کر اسے خوش گوار حیرت ہوئی۔
اسلام علیکم۔وہ ماہی سے مل کر مسز جاوید سے ملی۔
وعلیکم سلام۔مسز جاوید کو وہ کافی سلجھی ہوئی لگی۔
ماہی نے مسز جاوید کا تعارف کروایا۔وہ ان سے کافی دیر باتیں کرتی رہی اور پھر کچن میں چلی گئی۔جہاں عائزہ چاۓ اور دوسرے لوازمات تیار کر رہی تھی۔۔
کیا کر رہی ہو؟ کچھ تیار کیا ہے؟ فائزہ نے اس سے پوچھا۔
ہاں کباب تل رہی ہوں۔اور بھائی کو کال کی ہے وہ باقی چیزیں لے آئیں گے بس آنے والے ہیں۔وہ مصروف سے لہجے میں بولی۔
آگئے بھائی۔بیل کی آواز پر فائزہ بولی۔اس نے جا کر گیٹ کھولا۔
فریش ہو کر ولید مہمانوں کے کمرے کیطرف بڑھا۔تعارف وغیرہ کے بعد مسز جاوید اصل بات کرنے کی ہمت باندھ رہی تھی (جب فائزہ اور عائزہ چاۓ ، کباب، نمکو اور باقی لوازمات کیساتھ حاضر ہوئیں۔)
ان دونوں کے جانے کے بعد مسز جاوید نے اپنے آنے کا مقصد کا بتایا۔
کیا کھچڑی پک رہی ہے اندر؟ عائزہ اور فائزہ باہر کھڑی اندر ہونے والی میٹنگ کے نتیجے کا بڑی بے تابی سے انتظار کر رہی تھی۔
مجھے کیا پتہ میں خود باہر کھڑی ہوں۔فائزہ کے ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکان چھا گئی۔
صدقہ نہ اتار لوں آپکا؟
کیوں ؟
نظر نہ لگ جاۓ کہیں۔آپ کے اندر کی خوشی آنکھوں اور ہونٹوں سے پھوٹ رہی ہے۔عائزہ نے گہری نظر اس پر ڈالتے ہوۓ۔
چل جھوٹی۔بہت باتیں بناتی ہو ہاں۔فائزہ نے اسکے کان کھینچے۔
آہ آپی۔ اس نے اپنے کان چھڑواۓ۔
کافی دیر بعد ماہی کمرے سے باہر آئی۔
فائزہ تمہیں اندر بلا رہے ہیں۔ ماہی نے فائزہ سے کہا۔
میں بھی آجاؤں۔عائزہ نے جلدی سے کہا۔
ہاہاہا آجاؤ۔
وہ تینوں اندر گئی۔فائزہ کو مسز جاوید نے اپنے پاس بٹھایا۔اور اپنی انگلی سے سونے کی انگوٹھی اتار کر فائزہ کی انگلی میں پہنا دی۔
مسز جاوید اسے بہت پیار کر رہی تھی اور وہ شرمائی لجائی سی بیٹھی تھی۔
عائزہ اور ماہی بہت خوش تھی اور ولید بھی اپنی بہن کی خوشی پر خوش تھا۔
ارے یہ کال کیوں نہیں اٹھاتی۔کون ہے؟ مسز جاوید اس کے بار بار بجتے موبائل سے تنگ آکر بولی۔وہ دونوں فائزہ لوگوں کے گھر سے ہوکر اپنے گھر جارہی تھی۔
آپکا بیٹا ہے آنٹی۔
تو کال اٹھاؤ اسکی۔وہ پریشان ہوگا۔مسز جاوید کو اسکی فکر ستانے لگی۔
ہاہاہا۔موبائل پر پھر بپ ہوئی اس نے جلدی سے کال پک کی۔
ہیلو ماہی کال کیوں نہیں اٹھا رہی تم؟ کہاں ہو آپ لوگ ؟ کیا کہا فائزہ کے گھر والوں نے؟ اس نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر دیے۔
وہ عرفان دراصل بات یہ ہ۔۔۔۔
ماہی پلیز جو بھی بات ہے جلدی بتاؤ۔وہ اسکی بات کاٹ کر بولا۔
عرفان میں کیسے تم کو بتاؤں؟
ماہی میرا دل بند ہو رہا ہے پلیز مجھے اور مت آزماؤ۔عرفان رو دینے کو تھا۔
ہاہاہا پریشان ہوگئے۔فائزہ کے گھر سے ہاں ہو گئی ہے۔ماہی نے اسے اور پریشان کرنا مناسب نہ سمجھا۔
ماہی تم تم سچ کہہ رہی ہو۔
ہاں۔
میں تمہیں کیسے بتاؤں میں کتنا خوش ہوں۔میں ہواؤں میں اڑ رہا ہوں۔اسکی خوشی اسکے آواز سے ظاہر ہو رہی تھی۔
اوکے گھر آکر بات کرتی ہوں۔باۓ ۔کال بند کر کے مسز جاوید کو عرفان کی حالت بتانے لگی۔
وہ خوشی سے سب دوستوں کو کال کر کے بتا رہا تھا اور ان کی مبارک باد بھی وصول کر رہا تھا۔
بہت خوش قسمت ہو تم اور کمال۔اللہ تم دونوں کو نظر بد سے بچاۓ۔عرفان کے بتانے پر عدیل نے کہا۔عرفان کو وہ پریشان سا لگا۔
عدیل تم بھی تو خوش قسمت ہو ایسا کیوں کہتے ہو؟
کچھ نہیں۔تم کیوں پریشان ہوتے ہو اپنی خوشی کو محسوس کرو۔عدیل نے کال ڈسکنٹ کر دی۔بار بار کال ملانے پر عدیل کا نمبر مصروف جا رہا تھا۔
عرفان کو اس نے گہری پریشانی میں دھکیل دیا۔
آخر عدیل کو کیا ہوا؟ وہ تو کبھی سریس نہیں ہوتا پھر اتنی بڑی خوشی پر اسکا موڈ آف۔۔۔
وہ گاڑی کی کیز اٹھا کر پورچ کی طرف بڑھا اسے ابھی عدیل سے ملنا تھا۔
اپارنمنٹ میں پہنچ کر اس نے ڈور بیل بجائی۔
تھوڑی دیر بعد عدیل نے دروازہ کھولا۔
کیا ہوا عدیل؟ تم کال پر اتنے پریشان تھے۔اس نے اندر داخل ہوتے ہوۓ پوچھا۔
اندر آکر بیٹھو تو سہی۔عدیل نے مسکراتے ہوۓ کہا مگر یہ مسکراہٹ زبردستی کی تھی۔
ہاں اب بتاؤ کیا مسلہ ہے کیوں اتنے پریشان ہو؟ عرفان صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔
مسکان کا رشتہ ہوگیا ہے۔ عدیل نے اسے پریشانی کی وجہ بتائی۔
کیااا۔مسکان کیسے مان گئی رشتے کے لیے۔مجھے پوری بات بتاؤ۔
مسکان کے رشتہ دار ہی ہیں لڑکے نے خود مسکان پر رشتے کی کہا۔اور مسکان بھی مان گئی ہے۔منگنی ہو رہی ہے اسکی۔عرفان نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
تم نے مسکان سے پوچھا نہیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا تمہارے ساتھ۔؟
کس حق سے پوچھوں۔اس نے کونسے وعدے کیے تھے میرے ساتھ۔میں ہی پاگل تھا جو اسکی شرارتیں مسکراہٹ کو محبت سمجھ بیٹھا۔
مگر پھر بھی اسے یہ تو معلوم تھا کہ تم اس میں انٹرسٹڈ ہو۔
پوچھا تھا اس سے ۔مگر وہ کہتی ہے تم مجھے کیا دے سکتے ہو؟ زندگی میں محبت کے علاوہ بھی ہر آسائش کی ضرورت ہوتی ہے۔میں دو دن کی محبت کے لیے اپنی زندگی تباہ نہیں کر سکتی۔
مسکان ایسا کیسا کہہ سکتی ہے۔عرفان کو یقین کرنے میں مشکل ہو رہی تھی مگر سچائی یہی تھی۔وہ تسلی کے دو بول بھی عدیل کو نہ بول سکا۔عرفان کو اسکی محبت ملی تھی اور عدیل کی محبت بچھڑ گئی تھی۔
عرفان کے رشتے کی خبر سن کر اسکی پھپھو نے ان سے قطع تعلق کر لیا۔اور فائزہ کے رشتے کی خبر سن کر اسکی خالہ ان کے گھر آگئی۔
ولید بیٹا تم جانتے ہو میں فائزہ کا رشتہ زیب کے لیے کرنا چاہتی تھی اور تم سے بھی اس بارے میں بات کی تھی لیکن پھر بھی تم نے اسکا رشتہ کہیں اور طے کر دیا۔
خالہ آپ سمجھنے کی کوشش کریں آپ جانتی ہیں میں بہنوں کے بارے میں کتنا حساس ہوں اور یہ فیصلہ میں نے سوچ سمجھ کر اور فائزہ کی مرضی سے کیا ہے آخر زندگی تو اسی کو گزارنی ہے نا۔
تمہاری بات بھی ٹھیک ہے مگر میں اسکی خالہ تھی اپنی تھی غیر تو پھر غیر ہیں۔خیر اللہ اس کے نصیب اچھے کرے۔
آمین۔ولید نے دل سے کہا۔
زبیدہ مان تو گئی تھی مگر دل میں حسرت تھی کاش فائزہ میں اپنے زیب کے لیے بیاہ کر لے جاتی۔
فائزہ اور عرفان کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئی تھی آخر کار مہندی کا دن بھی آن پہنچا۔وہ ہاتھوں پر مہندی کے نقش و نگار بنوا رہی تھی اور اس کے پاس بیٹھی لڑکیاں بلند آواز میں گیت گا رہی تھی جن میں عائزہ بھی شامل تھی اور ایک لڑکی ڈھولکی بجا رہی تھی۔
دوسری طرف عرفان خوشی سے جھوم رہا تھا۔عدیل اپنی پریشانی کو بھلا کر اسکی خوشی میں شامل ہوا تھا۔عدیل اور کمال بھنگڑے ڈال رہے تھے۔
ماہی ، تانیہ اور باقی لڑکیاں مہندی کے گیت گا رہی تھی۔مسز جاوید عرفان کی دائمی خوشیوں کے بارے میں دعاگو تھی البتہ جاوید صاحب نے اپنے اکلوتے بیٹے کا مہندی کا فنکشن بھی اٹینڈ کرنا مناسب نہ سمجھا۔وہ بھی مسز جاوید نے انہیں منا کر فنکشن میں لایا کہ لوگ طرح طرح کی باتیں بنائیں گے مگر پھر بھی وہ منہ لٹکا کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔
برات کا فنکشن ہال میں تھا۔نکاح کے بعد عرفان اور فائزہ کو اسٹیج پر لایا گیا۔ریڈ اور سلور کلر کے لہنگے اور چہرے پر کیے گئے خوبصورت میک اپ میں وہ کوئی پری معلوم ہو رہی تھی،تھی۔ چہرے پر شرمیلی سی مسکان اس کے حسن کو اور زیادہ نکھار رہی تھی۔عرفان بھی اس سے کم نہیں لگ رہا تھا۔مسز جاوید بار بار دونوں کی نظر اتار رہی تھی۔
ولید لوگوں کیطرف سے اسکی خالہ، زیب اور عائزہ تھی اور فائزہ کی دوست وغیرہ انکا کوئی اور رشتہ دار نہیں تھا البتہ جاوید صاحب کے ہاں سے کافی رشتہ دار اس فنکشن میں شامل تھے۔
۔۔۔
عدیل ایک طرف کھڑا مسکان کے خیالوں میں کھویا تھا اسکی شرارتیں قہقہیں سب یادیں اس کے ذہن میں آرہی تھی مگر پھر بھی وہ ہونٹوں پہ بناوٹی مسکراہٹ سجاۓ ہوۓ تھا۔اور کمال تانیہ کو تاڑ رہا تھا جو عائزہ اور ماہی کیساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔
۔۔۔
بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔عرفان نے چپکے سے اسکے کان میں سرگوشی کی۔
سب دیکھ رہے ہیں۔وہ بار بار اسکے دیکھنے پر بولی۔
تو کیا ہوا میں اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہوں۔
عرفان پلیز بعد میں جی بھر کے دیکھیے گا مگر ابھی سامنے دیکھیں۔اس نے اسقدر آہستہ سرگوشی کی کہ عرفان نے بامشکل اسکی بات سنی۔ایک شریر سی مسکراہٹ اسکے لبوں کو چھو گئی۔
فائزہ کے لیے یہ احساس ہی کافی تھا کہ اب عرفان اسکا ہے صرف اسکا۔اور وہ رب کی اس عنایت پر جتنا بھی شکر کرتی کم تھا۔
۔۔