مطلب کیا ہے تمہارا۔تم رہ سکتی ہو میرے بغیر مگر میں نہیں رہ سکتا مر جاؤں گا میں۔ پل میں اسکی آنکھیں سرخ انگارہ ہو گئی تھی۔
کوئی نہیں مرتا کسی کے بغیر۔جب امی ابو کا انتقال ہوا تو مجھے لگا میں جی نہیں پاؤں گی مگر اب۔۔۔زندگی کسی ایک کے جانے سے رک نہیں جاتی۔میرے جانے سے تمہاری بھی نہیں رکے گی۔وہ دور خلاؤں میں گھورتے ہوۓ بولی۔
مگر میں مر جاؤں گا۔تمہیں چھوڑنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔
پیار میں جیت کر ہارنا پڑتا ہے عرفان۔بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔تم اپنے ماں باپ کی بات مانو۔جہاں وہ کہتے ہیں شادی کر لو۔ نہ جانے اسکے دل کی کیا حالت ہو رہی تھی یہ بات کہتے ہوۓ مگر وہ عرفان کو اسکے ماں باپ کی محبت و شفقت سے محروم نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وہ تاسف سے اسے دیکھتا اٹھا اور سست روی سے ایک طرف چل دیا۔
اور وہ بہت مشکل سے آنسو روک رہی تھی۔دل تھا کہ کسی زخمی پنچھی کی طرح پھڑک رہا تھا مگر وہ ہچکیوں کو دباۓ بیٹھی تھی۔
(یا اللہ کیوں دل ملا کر جدائی ڈال دیتا ہے میرے اللہ کیوں ملاتا ہے جن سے قسمت نہیں ملتی۔)
(کاش کچھ میرے بس میں ہوتا۔کیوں آخر کوئی نہ کوئی محبت کا رقیب نکل آتا ہے)
(پیار میں کیوں کوئی نہ کوئی دیوار بن جاتا ہے؟)
بہت سے سوال اسکے دل میں سے اٹھ رہے تھے جنکا جواب ملنا مشکل تھا۔
وہ یونیورسٹی سے گھر نہیں آیا بلکہ گاڑی لے کر سڑکوں پر بے مقصد گھومتا رہا۔
تھک ہار کر وہ سی سائڈ پر آگیا۔مگر کہیں بھی دل سکون نہیں پا رہا تھا۔
وہ وہاں بیٹھے فائزہ کیساتھ گزرے ایک ایک پل کو یاد کرتا رہا۔
میں نہیں رہ پاؤں گا ایک پل بھی نہیں۔
اے کاش!
کہ ایسا ہو جاۓ۔۔۔۔
جسے چاہا تم نے ہر لمحہ
جسے سوچا تم نے ہر لمحہ
وہ شخص تمہارا ہو جاۓ
تم جس سے محبت کرتے ہو
جسے دیکھ کر جیتے مرتے ہو
جسے کھو دینے سے ڈرتے ہو
وہ شخص تمہارا ہو جاۓ
وہ جس کی یادوں میں کھو کر
تم وقت گزارا کرتے ہو
وہ جس کی باتوں میں کھو کر
خود سے بھی کنارا کرتے ہو
ان تنہا تنہا راتوں میں
جسکو پکارا کرتے ہو
وہ شخص تمہارا ہو جاۓ
اے کاش! کہ ایسا ہو جاۓ
شام کے ساۓ پھیل رہے تھے۔سب لوگ آہستہ آہستہ اپنے گھروں کیطرف جارہا تھے وہ بھی کسی تھکے ہوۓ جواری کیطرح اٹھا اور گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا۔
۔۔۔
گھر آکر وہ اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔لائٹر لے کر سگریٹ جلایا۔
سگریٹ کے دھویں میں بھی فائزہ کا چہرہ ابھر رہا تھا۔وہ سگریٹ پہ سگریٹ پھونک رہا تھا۔
آنکھیں لال انگارہ کی ہوئی تھی ایک ہی دن میں اسکی حالت اتنی عجیب ہو گئی تھی کہ وہ کہیں سے بھی عرفان نہیں لگ رہا تھا۔
دستک کی آواز سے اسکا سکتہ ٹوٹا۔
یس۔
کھانا کھا لیں چھوٹے صاب۔صغراں کھانے کا کہہ کے جانے لگی تھی جب اسنے روک لیا۔
سنیں۔پاپا بھی موجود ہیں وہاں؟
جی صاب۔
اوکے تم جاؤ۔
صغراں کے جانے کے بعد وہ واش روم کیطرف بڑھا۔
فریش ہوکر کھانے کی ٹیبل پر پہنچا جہاں اسی کا انتظار ہو رہا تھا۔
لیٹ ہوگئے تم آج۔مسز جاوید نے پیار سے کہا۔
سوری۔وہ حد سے زیادہ سنجیدہ نظر آرہا تھا۔جاوید صاحب بڑی گہری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
طبیعت ٹھیک ہے نہ تمہاری۔جاوید صاحب نے اسکی سرخ آنکھوں اور ستے ہوۓ چہرے کو دیکھ کر کہا۔
مجھے بھی تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔مسز جاوید نے بھی کہا۔
جسکی ہر خوشی کو پیروں تلے روندا جاۓ وہ ٹھیک کیسے ہو سکتا ہے۔اس نے سخت لہجے میں کہا۔
کہنا کیا چاہتے ہو تم؟ جاوید صاحب نے ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوۓ کہا
پاپا میں نے آج تک آپکی ہر خواہش ہر حکم کا احترام کیا آپکی ہر بات مانی۔آپ نے جو کہا میں نے بغیر کسی بحث کے قبول کر لیا مگر جہاں تک شادی کا سوال ہے وہ میں اپنی مرضی سے کروں گا۔
میں۔زبان دے چکا ہوں۔ جاوید صاحب سخت لہجے میں گویا ہوۓ۔
آپ نے دی ہے میں نے نہیں۔اب آپ ہی منع کر دیں۔
تم حد سے آگے بڑھ رہے ہو عرفان۔کومل اچھی بچی ہے تم اسکے ساتھ خوش رہو گے۔
لیکن وہ مجھے پسند نہیں ہے۔
کون پسند ہے تمہیں؟
فائزہ۔میری یونیورسٹی فیلو ہے آپ ایک بار اس سے ملیں پاپا آپکو بھی پسند آۓ گی۔
فادر کیا کرتے ہیں اسکے؟
فادر نہیں ہیں۔اسکے بھائی آفس میں جاب کرتے ہیں۔
تو تم چاہتے ہو میں ایک معمولی ورکر کی بہن کے گھر رشتہ مانگوں تاکہ لوگ مجھ پر تھو تھو کریں۔ہوش میں تو ہو تم خوب جانتا ہوں ان مڈل کلاس لڑکیوں کو۔یہ امیر زادوں کو اپنے چنگل میں پھنسا کر ان سے دولت بٹورتی ہیں۔
نہیں پاپا وہ بالکل ایسی نہیں ہے وہ بہت معصوم ہے بہت پاکیزہ اور سب سے الگ ہے ایک بار آپ اس س۔۔۔
بسس۔میں مڈل کلاس گھرانے میں تمہارا رشتہ نہیں کروں گا کل کو لوگ میری بہو کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں پوچھیں گے تو میں کیا کہوں گا معمولی سے ورکر کی بہن ہے۔وہ طنزیہ لہجے میں بولے۔مجھے اس معاشرے میں جینا ہے اور دوسری بات یہ کہ میں کومل۔۔۔
کیا کومل کومل نہیں کرنی مجھے کومل سے شادی۔عرفان نے ان کی بات کاٹ کر کہا۔آپ بڑے لوگوں کے لیے دولت اور ذات پات ہی سب کچھ ہے کبھی اپنی اولاد کی خوشیوں کے بارے میں سوچا ہے؟۔وہ چمچ پلیٹ پر پٹخ کر غصے سے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے روم میں آگیا۔
اسے حاصل کر کے رہوں گا۔
میرے راستے میں کوئی نہیں سکتا۔
جو میرے پیار کے درمیان آیا اسے نہیں چھوڑوں گا میں۔
وہ ایک ایک چیز دیوار پر مار رہا تھا۔اپنے اندر کا غبار نکال کر وہ صوفے پر بیٹھ کر گہرے گہرے سانس لینے لگا۔
اور گاڑی کی کیز اٹھا کر باہر نکل گیا۔مسز جاوید جو شور کی آواز سن کر وہاں آئی تھی۔ اسے باہر نکلتے دیکھ کر اسے روکنے کی کوشش کی مگر وہ ان کے ہاتھ جھٹکتا باہر نکل گیا۔۔۔
_________
ہاۓ اللہ نہ جانے میرا بیٹا کہاں چلا گیا۔کہیں کچھ غصے میں غلط نہ کر بیٹھے۔مسز جاوید پریشانی سے لاؤنج کے چکر کاٹ رہی تھی۔ذرا سی آہٹ پر وہ باہر مڑ کر دیکھتی۔
میرے رب۔میرے پیارے رب میرے بیٹے کی حفاظت کرنا۔
کیا ضرورت تھی اسے غصہ کرنے کی جوان خون ہے بھلا ایسے کوئی ڈانٹتا ہے۔اگر وہ پسند کی شادی کرنا چاہتا ہے تو کیا برائی ہے۔ایک ہی تو بیٹا ہے ہمارا۔مسز جاوید نے آرام و سکون سے صوفے پر بیٹھے اپنے شوہر سے کہا۔
ایک بیٹا ہے تو کیا کروں میں۔تمہارے بے جا لاڈ پیار نے اسے ضدی بنایا ہے۔
میری بات مانیں تو اسکی سن لیں وہ لڑکی اچھی ہ۔۔۔۔۔
مطلب کیا ہے تمہارا اپنی بہن سے رشتہ ختم دوں اسے ناراض کر دوں۔یہی چاہتی ہو نہ تم۔ انہوں نے بات کاٹ کر غصے سے کہا۔
نہیں مگر بیٹا بھی تو ہمارا ہے اسکی خواہش بھی تو معنی رکھتی ہے نا۔
میں اسکی کوئی غلط فرمائش ہوری نہیں کروں گا۔اور ہاں اب تم بھی اس ٹاپک پر کوئی بات نہیں کرو گی۔وہ انگلی اٹھا کر وارن کرتے اپنے کمرے کیطرف بڑھ گئے مگر مسز جاوید کی پریشانی اور بڑھ گئی۔
نہ بیٹا جھکنے کو تیار نہ ہی باپ جھکنے کو تیار ہےنہ جانے جیت کس کی ہوگی۔وہ وہی صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی۔
وہ رات کے اس پہر عدیل کے اپارنمنٹ میں آیا تھا۔عدیل کہیں باہر گیا ہوا تھا مگر کمال اپارنمنٹ میں موجود تھا۔(کمال عدیل کا اکیلا پن دور کرنے کے لیے اور ایک سارھ پڑھنے کے لیے اس کے ساتھ ہی رہتا تھا)
اتنی رات کو خیریت؟ کمال نے حال احوال کے بعد پوچھا۔
خیریت ہے۔ عدیل کہاں ہے؟ وہ نظریں چرا رہا تھا۔
باہر گیا ہے۔کمال اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟ وہ اسکی نظروں سے زچ ہوچکا تھا۔
بیٹا جی میں بھی تمہارا دوست ہوں تو ساری دنیا سے اپنے دل کے راز چھپا لے پر مجھ سے نہیں چھپا سکتا۔کمال اسکے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔بتا کیا الجھن ہے؟
وہ چند سیکنڈ اسے دیکھتا رہا پھر اس نے ساری بات کمال کو کہہ سنائی۔
چچ۔چچ۔اب کیا کرو گے؟ چھپ کر شادی کرنی ہے یا جدا رہنا ہے؟
جدا ہونے کا سوال نہیں پیدا ہوتا تمہیں معلوم ہے وہ مجھے کتنی عزیز ہے۔اسے پانا میری زندگی کی اولین خواہش ہے۔
تم ایک بار پھر انکل سے بات کرو انکو سمجھانے کی کوشش کرو شاید وہ مان جائیں۔فائزہ بہت معصوم ہے تمہاری ذرا سی غلطی اسکی عزت داغدار کر سکتی ہے اس لیے انکل کو منا۔۔۔۔۔۔
اتنے میں دروازہ ناک ہوا۔
اوہ عدیل آگیا۔کمال نے جا کر دروازہ کھولا۔
عدیل عرفان کو اپارنمنٹ میں دیکھ کر پہلے حیرت میں مبتلا ہوگیا۔پھر گرم جوشی سے اس سے گلے ملے۔
اوہ یار ایسے مل رہے ہو جیسے سال ہو گئے دن کو یونی میں ہی تو ملے تھے۔کمال نے کہا۔
وہ یونیورسٹی تھی یہ گھر ہے کیوں عرفان۔اس نے ہاتھ میں اٹھاۓ سامان کو ٹیبل پر رکھا۔اور دھپ سے صوفے پر ڈھیر ہوگیا۔
جلدی سے انکل کو منا لو یہ نہ ہو وقت ہاتھ سے نکل جاۓ۔کمال نے سلسلہ کلام وہی سے جوڑا۔
نہیں مانتے وہ اب نہیں کہوں گا انہیں اپنی دولت پر غرور ہے۔عرفان نے غصے سے کہا۔
کیا بات ہو رہی ہے مجھے کوئی بتانا پسند کرے گا؟۔عدیل ان کی باتوں پر غور کر رہا تھا مگر کچھ بھی اسکے پلے نہ پڑا۔
عرفان کے فادر اسکا رشتہ اسکی کزن سے کرنا چاہتے ہیں اور جسے یہ پسند کرتا ہے وہ تم جانتے ہی ہو۔کمال نے جواب دیا۔
کیااا۔عرفان تم نے انہیں فائزہ کے بارے میں بتایا؟ عرفان نے ہلکا سا اثبات میں سر ہلایا۔
پھر کیا کہا انکل نے؟
نہیں مانتے وہ فائزہ پہ۔دو بار بات کر چکا ہوں اور وہ فائزہ کہتی ہے تم جہاں والدین چاہتے ہیں وہاں شادی کر لو۔کچھ سمجھ نہیں آرہا مجھے۔ اس نے بے بسی سے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔
سب بہتر ہو جاۓ گا تم پریشان مت ہو۔ کمال نے اسے تسلی دی۔
خاک ٹھیک ہوگا۔میں جانتا ہوں اپنے پاپا کو۔بہت ضدی ہیں۔کبھی بھی وہ بات نہیں مانے گیں اور اگر میں شادی کر کے اسے گھر لے بھی آؤں تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔
آج سے پہلے ان دونوں نے عرفان کو کبھی اتنا پریشان نہیں دیکھا تھا۔
پریشان مت ہو اللہ بہتر کرے گا۔وہ دونوں اسے تسلی دینے لگے۔
جسے چاہا جاۓ اسے پایا جاۓ یہ ضروری تو نہیں
ہر زخم کسی کو دکھایا جاۓ یہ ضروری تو نہیں
جو نظروں کو بھاتا ہے، منفرد نظر آتا ہے
اسے دل میں بسایا جاۓ یہ ضروری تو نہیں
وہ تو چاند ہے ٹھنڈک سے اسکی جل جاؤں گی میں
اسے ہاتھ لگایا جاۓ یہ ضروری تو نہیں
آنکھیں بند کرنے سے جسکا دیدار ہو جاۓ
اسے پاس بلایا جاۓ یہ ضروری تو نہیں
کچھ لوگ تو یونہی خاص ہوتے ہیں نمرہ
ہر کسی کو اپنا بنایا جاۓ یہ ضروری تو نہیں
رات کی سیاہی ہر طرف پھیل رہی تھی وہ نہ جانے کب سے چھت پر کھڑی تھی ہر چیز سے بے نیاز جیسے وہاں اسکے علاوہ کوئی نہ ہو۔ہوا کی وجہ سے بالوں کی چند لٹیں چہرے پر آگئی تھی جنہیں پیچھے ہٹانے کی اس نے زحمت نہیں کی تھی۔
اس نے عرفان کو تو کہہ دیا تھا والدین کا کہنا مان لو کر لو جہاں وہ شادی کا کہتے ہیں۔۔ مگر اب دل سے اٹھتی ہلکی سی ٹھیسیں جو اب برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔
(کیا میرے لیے ماں باپ کی جدائی کم تھی انکا دکھ کم تھا جو اب عرفان کو یاد یاد کر کر کے روتی رہوں تڑپتی ہوں)
آنسو کی ایک جھری اسکی آنکھوں سے بہہ نکلی۔
(میرے اللہ مجھ پر رحم کریں۔اتنی آزمائش میں نہ ڈالیں جو میں برداشت نہ کر سکوں۔)
وہ آہستہ آہستہ چلتی نیچے اپنے کمرے میں آئی۔عائزہ ہر چیز سے بےخبر نیند کی وادیوں میں اتری ہوئی تھی۔
(کتنا سکون ہے نا اسکے چہرے پہ۔بہت خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو محبت نہیں کرتے۔)
(کاش عائزہ تمہیں پیار نہ ہو اور اگر ہو جاۓ تو جدائی نہ ملے۔آمین)
وہ اسکے لیے دل سے دعا کر واش روم کیطرف بڑھی۔وضو کر کے کمرے میں آئی۔
جاۓ نماز ڈال کر نماز تہجد کی نیت باندھی۔
نماز پڑھ کر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ۔آنسو پھر اسکا چہرہ بھگونے لگے۔
یا اللہ تو تو دلوں کا حال جانتا ہے میرے رب مجھ پر رحم کریں میں بہت کمزور اور لاچار ہوں۔مجھے صبر عطا فرما۔
مجھے اپنی ہر آزمائش کو پوری کرنے کی صلاحیت عطا فرما۔
یا اللہ ۔۔۔۔
اپنی محبت کے لیے دعا مانگنے سے پہلے ہی وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔ہاں یہ محبت ہی ہے کو انسان کو بے بس کر دیتی ہے پتھر سے پتھر دل بھی موم ہو جاتا ہے۔
وہ دعا مانگ کر اٹھی۔جاۓ نماز تہ کر کے الماری میں رکھا اور خود بستر پر لیٹ گئی۔
اسے اپنے اندر ٹھنڈک سی اترتی محسوس ہوئی۔پہلے والی بے چینی و اضطراب اب ختم ہوگیا تھا۔تھوڑی ہی دیر بعد وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔