زبیر احمد نے۔ملازموں کو بھیج کر فلیٹ کی صفائی ستھرائی کروا دی تھی۔عائزہ نے اپنی نگرانی میں صفائی کروائی تھی اور پھر سامان کی سیٹنگ بھی خود کی۔
شام تک وہ تھکن سے چور ہو گئی تھی۔فائزہ کو اس نے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانے دیا وہ مسز جاوید کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتی رہی تھی۔
مسز جاوید کے جانے کے بعد اس نے گھر کا جائزہ لیا عائزہ نے گھر کو چمکا دیا تھا۔
تم نے تو گھر کو چمکا دیا۔عائزہ فریش ہو کر باہر آئی تو اس نے کہا۔
گھر چمک گیا مگر میرا جسم درد سے چور ہے۔
ملازموں نے بھی تو ہلپ کی ہے۔
ان کے سر پر کھڑے نہ رہو تو کام ٹھیک طریقے سے نہیں کرتی۔
کل سے میں باقاعدگی سے یونیورسٹی جاؤں گی۔دوسرا ماہ ہے میں نے یونیورسٹی کا منہ نہیں دیکھا نہ کتاب کھولی ہے پکی فیل ہوں گی میں۔وہ بالوں کو تولیے سے خشک کرتے ہوۓ بولی
میری گمشدگی میں تم یونیورسٹی نہیں گئی؟ فائزہ کو حیرت ہوئی۔
کیسے جاتی رو رو کر دماغ جگہ پر سے ہٹ گیا تھا۔ابھی واپس آیا ہے۔
ہاہاہاہا اسے اسکی پات پر ہنسی آئی۔
آپ مجھ پر ہنس رہی ہیں عرفان بھائی کا جو حال تھا افف ان کی ہارٹ بیٹ بھی سلو ہو گئی تھی بے ہوش ہو گئے تھے وہ۔عائزہ نے اسے گزشتہ دنوں کی روداد سنائی۔
کیااا۔اسے جھٹکا لگا تھا
پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اب وہ بلکل ٹھیک ہیں۔آپکو دیکھ کر انکی دھڑکنیں تیز ہو گئی ہیں۔اس نے شرارت سے آنکھ ماری وہ فائزہ کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ چکی تھی۔وہ اسکی تسلی کے لیے مسکرا دی مگر جی اچاٹ ہو گیا تھا۔
وہ دونوں ساتھ ساتھ ہی گھر پہنچے تھے عرفان نے رات کا کھانا باہر سے لایا تھا۔عائزہ نے کھانا گرم کر کے ٹیبل پر لگایا۔
کھانا کھانے کے بعد چاۓ کا دور چلا۔
بھائی میں نے اور آپی نے آپ کے لیے لڑکی دیکھ لی آپی کی دوست ہے آپ نے دیکھا بھی ہو گا۔اس نے چاۓ کا سپ لیتے ہوۓ کہا۔فائزہ نے ماہی کے بارے میں سرسری سی بات اس سے کی تھی۔
کیاااا؟ ولید ایسے اچھل پڑا جیسے بچھو نے ڈنک مار لیا ہو۔
ہاں بھائی دنیا کا نمبر ون کپل ہوگا۔بس آپ ہاں کیجیے پھر ہم وہاں رشتہ لے کر جائیں گے۔
مجھے شادی نہیں کرنی۔
تو کیا ساری عمر کنوارے رہیں گے عائزہ کی بھی شادی ہو جاۓ گی پھر؟ عرفان نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
تو کیا ہو گا دنیا میں بہت سے لوگ کنو۔۔۔۔
لوگوں کی نہیں آپ کی بات ہو رہی ہے۔فائزہ نے کہا
پلیز بھائی مان جاؤ نا میں آپکی شادی پر ہر ارمان پورا کروں گی۔عائزہ نے التجا کی۔
یہ دونوں شادی شدہ ہیں تو چاہتے ہیں میں بھی یہ پھندا گلے میں ڈال لوں مگر تم کیوں اتنا زور دے رہی ہو؟ عائزہ کے کچھ بولنے سے پہلے ہی عرفان بول پڑا
اس لیے کہ یہ چاہتی ہے بھائی کی شادی ہو پھر میرا نمبر بھی آۓ۔
عرفان بھائی آپ کو کیا کہوں اب؟ وہ اس پر ناراض سی نظر ڈال کر ولید سے مخاطب ہوئی۔
یہ جو آپ کے چہرے پر ہر وقت اداسی چھائی رہتی ہے شادی کرنے سے آپ کے دکھ بانٹنے والی آجاۓ گی بھائی میں آپ کے چہرے پر تنہائی کی پرچھائیاں اور اداسی نہیں دیکھ سکتی۔
اس نے نم لہجے میں کہا ولید نے اسے گلے لگایا۔باتوں سے کتنی لاابالی سی لگتی تھی مگر بھائی کے لیے اسکا دل حساس تھا اس نے بھائی کی تنہائی کو محسوس کر لیا تھا بہنیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔
میں تیار ہوں شادی کے لیے۔ولید نے اسے خود سے الگ کیا۔
یااااہو۔ اس نے بلند نعرہ لگایا۔
سالے صاحب بیوی کے ساتھ کسی اور لڑکی کا دکھ نہ بانٹ دینا یہ نہ ہو چہرے پر اداسی کیساتھ ساتھ زخموں کے بھی نشان ہوں
اس کی بات پر سب کا مشترکہ قہقہ بلند ہوا۔
مسز جاوید کمرے میں آئی تو جاوید صاحب رَف سے حلیے میں بیڈ پر بیٹھے تھے۔
وہ ان کو دیکھ کر واپس پیچھے مڑنے لگی تھی جب جاوید صاحب نے کہا۔
رک جاؤ۔ وہ چلتے ہوۓ ان کے پاس آۓ
کیا میں معافی مانگنے کا حق بھی نہیں رکھتا جانتا ہوں میں نے فائزہ کیساتھ بہت برا کیا وہ مجھے باپ جیسا مان دیتی تھی مگر میں یہ مان بھی نہ رکھ سکا۔
تم مجھے معاف کر دو میں اس سے معافی مانگ لوں گا اس کے قدموں میں گر کر بھی معافی مانگ لوں گا تم مجھے معاف کر دو۔ انہوں نے روتے ہوۓ ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔
یہ کیا کر رہے ہیں؟ مسز جاوید نے انکے ہاتھ تھامے
مر گیا وہ جاوید احمد۔ جو دولت کے نشے میں چور ہر رشتے ناتے کو بھول گیا تھا۔جسکی انا اور غرور نے اسکے گھر کی خوشیوں کو نگل لیا تھا اب وہ جاوید احمد مر گیا۔ ان کے چہرے کو آنسوؤں نے تر کر دیا تھا۔۔
میں نے آپکو معاف کیا جاوید۔دعا ہے وہ دونوں بھی آپکو معاف کر دیں اور دوبارہ یہاں آجائیں۔
مسز جاوید نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا جاوید صاحب نے شکر کا سانس لیا ایک طرف کا مسٔلہ تو حل ہوا تھا اب انہیں عرفان اور فائزہ سے معافی مانگنی تھی۔۔۔۔۔
عرفان ، فائزہ اور عائزہ تینوں ماہی کے گھر اسکے والدین سے رشتے کی بات کرنے گئے تھے۔اس کے والدین نے سوچنے کے لیے وقت مانگا تھا۔عائزہ واپس گھر آتے ہوۓ ماہی سے کہہ آئی تھی کہ انکار مت کرنا۔
واپسی پر عرفان نے عائزہ کو اسکے گھر ڈراپ کیا اور خود اپنے گھر آگئے۔
ابھی گھر میں پہنچے پانچ منٹ ہوۓ تھے کہ ڈوربیل بجی۔
تم بیٹھو میں دیکھتا ہوں۔ وہ فائزہ کو کہہ کر گیٹ کی طرف بڑھا۔
کافی دیر بعد جب وہ واپس نہ آیا تو فائزہ گیٹ کی طرف بڑھی۔گیٹ کے بیچ و بیچ جاوید صاحب کھڑے تھے اور وہ ان کے سامنے راستہ روکے کھڑا تھا۔
چلے جائیے پلیز میرا ضبط مت آزمائیے۔وہ دبی ہوئی آواز میں ان سے کہہ رہا تھا۔
اندر آئیے پاپا۔فائزہ نے جاوید صاحب کو اندر آنے کی اجازت دی۔ہٹیے راستے سے عرفان وہ آپکے پاپا ہیں۔
وہ اسے راستے سے ہٹاتی جاوید صاحب کو ڈرائنگ روم میں لے آئی۔
ان کی طرف سے میں سوری کرتی ہوں پاپا جذباتی ہیں تھوڑا۔ اس نے شرمندگی سے کہا
ان کی نظریں شرم سے اور بھی زیادہ جھک گئی وہ اسکے سامنے نظریں اٹھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔
تم جانتی ہو انہوں نے کیا کیا تمہارے ساتھ اور تم ان سے ہمدردیاں جتا رہی ہو۔وہ تیش میں اندر آیا۔
انہوں نے عرفان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔
اب اس معافی میں کوئی منافقت نہیں ہے بیٹا۔معاف کر دو میں بہت بے سکون ہوں مجھے گھر میں تنہائی کاٹتی ہے مجھے میرا ضمیر کچوکے لگاتا ہے۔معاف کر دو میں سکون سے مر سکوں۔ وہ رونے لگے تھے
فائزہ ان کے پاس بیٹھ گئی اور انہیں تسلیاں دینے لگی۔
چپ ہو جائیں پاپا ،مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
عرفان پلیز معاف کردیں دیکھیں خود چل کر آپ کے پاس معافی مانگنے آئیں ہیں۔ مانا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں وہ اولاد کے سامنے ہاتھ جوڑیں۔
اس نے ہامی نہیں بھری تھی۔
پاپا ہیں وہ آپ کے۔فائزہ نے اسے پھر یاد دلایا۔
مجھے معلوم ہے۔
تو معاف کر دو بیٹا سچے دل سے معافی مانگ رہا ہوں۔
مگر میں اب یہاں سے کہیں اور نہیں جاؤں گا ادھر ہی رہوں گا۔ وہ چھوٹے بچے کی طرح پہلے اپنی شرطیں منوا رہا تھا۔
جاوید صاحب نےکچھ سوچ کر اسکی یہ شرط بھی مان لی۔
انہوں نے اپنی باہیں وا کیں۔وہ آگے بڑھ کر ان کے گلے سے لگ گیا۔
تم تو ہیرا ہو میں تمہاری قدر نہیں کر سکا۔جاوید صاحب نے اسے بھی سینے لگایا اسے آج باپ کی شفقت اور پیار بھی مل گیا تھا وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی
ماہی کے گھر والوں کی طرف سے ہاں ہوتے ہی منگنی کی تیاریاں شروع ہو گئی تھی۔عائزہ کی خوشی دیدنی تھی وہ ہر چیز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھی۔
منگنی کے فنکشن کے لیے ہال بک کیا گیا جس کا خرچہ جاوید صاحب نے اٹھایا۔دن گزرتے پتہ بھی نہ چلا اور منگنی کا دن بھی آگیا۔
اسٹیج پر بیٹھی مناہل بلو کلر کے فینسی فراک میں آسمانی پری لگ رہی تھی۔ولید بھی کوٹ پینٹ میں کچھ کم نہیں لگ رہا تھا۔
فائزہ ، تانیہ اور عائزہ ایک جیسے شرارے میں ملبوس تھی جن کے رنگ مختلف تھے۔
نو عمر لڑکیاں زرق برق لباس پہنے گھوم رہی تھی اور عمر رسیدہ لوگ بیٹھے اپنی اپنی گفتگو میں۔مصروف تھے۔
تم خوش ہو نا۔ولید نے اسے دیکھے بغیر کہا
جی (ابھی پوچھ رہا ہے منگنی والے دن پہاڑی تودا) باقی الفاظ اس نے دل میں ادا کیے۔
اس دن آپکی ٹکر سے دو دن مجھے ٹھوڑی میں درد رہا۔
مجھے بھی (کیا عجیب بور قسم کا انسان ہے منگنی والے دن بھی کیا بات کر رہا ہے)
کیا آپ کو بھی؟
میرا مطلب سر میں (پہاڑی تودے سے ٹکرا کر بازو بھی چھل گئی تھی) وہ دل میں اسے کوس رہی تھی۔
وہ کچھ کہنے لگا تھا جب فائزہ نے مناہل کے والدین سے کہا۔
انگوٹھی پہنا دینی چاہیے اب۔ سبھی موجود ہیں یہاں۔
ہاں کیوں نہیں۔ انہوں نے اجازت دی۔
ولید نے فائزہ کے ہاتھ سے ڈبیہ لی اور ماہی کیطرف ہاتھ بڑھایا اس نے دھیرے سے اسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا۔
(نہ جانے کیا کیا ٹوٹکے ہاتھوں پر آزماتی ہے دودھ جیسے گورے ہیں) وہ انگوٹھی پہناتے سوچ رہا تھا۔
سب کی تالیوں میں اس نے انگوٹھی پہنائی اور اسکا ہلکا سا ہاتھ دبا کر چھوڑ دیا۔
اسکی اس حرکت پر ماہی کی دھڑکنیں بے قابو ہو گئی۔
سب انکی دائمی خوشیوں کے لیے دل سے دعاگو تھے۔
۔۔۔۔۔
وہ روم میں مٹھائی کی ٹوکری لینے آئی تھی جب کسی نے اسے اپنی طرف کھینچا ایک زور دار چیخ اسکے منہ سے نکلی۔
شیش۔اس نے منہ پر انگلی رکھی۔
اتنی مشکل سے تو ہاتھ آئی ہو اب شور مچا کر اس موقع کو بھی برباد مت کرو۔
زیب بھائی آپ۔ یہ چھچھوری حرکت کرتے ہوۓ آپکو شرم نہیں آئی۔ وہ اسے دیکھ کر اندر تک کانپ گئی۔
شرم کیسی منگیتر ہو میری۔ وہ اسے نظروں کے حصار میں لیے ہوۓ تھا۔
منگیتر ہوں نا بیوی تو نہیں۔
بیوی بھی بن جاؤ گی جانِ وفا۔
زیب بھائی آپ حد سے بڑھ رہے ہیں بازو چھوڑیں میرا۔وہ اسکی بے باکی پر شرم سے پانی پانی ہو گئی تھی۔
بھااااائی؟ بھائی وائی نہیں ہوں میں تمہارا۔
اچھا اوکے پلیز میرا بازو چھوڑیں۔ وہ روہانسی ہو گئی زیب کے لباس سے آنے والی مہک اسکی سانسوں۔کو اتھل پتھل کر رہی تھی۔
چھوڑ دیتا ہوں مگر ایک بات کہہ کر۔
کیاااا۔وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
بہت اچھی لگتی ہو مجھے پیار کرنے لگا ہوں تم سے نہ جانے کب سے۔ وہ اسکی نظروں میں دیکھتے ہوۓ بولا۔
وہ اسکا بازو چھوڑ کر جا چکا تھا مگر وہ بے حس و حرکت کھڑی اسی کی آواز کے سحر میں کھوئی ہوئی تھی۔
عائزہ میڈم۔وہاں سب انتظار کر رہے ہیں کہ آپ مٹھائی لائیں گی تو منہ میٹھا کیا جاۓ گا اگر آپ کا کھڑے ہوکر سونے کا شوق پورا ہو گیا ہو تو مٹھائی لے آئیے۔ فائزہ کی آواز پر وہ ایسے اچھلی جیسے نیند سے جاگی ہو۔
جلدی سے مٹھائی کی ٹوکری لی اور ان سب کے پاس آئی۔مگر وہاں تو سب گروپ فوٹو بنانے میں مصروف تھے وہ بھی ٹوکری سائڈ پر رکھ کر ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔۔
ہال سے واپسی پر وہ اپنے فلیٹ کی جگہ ولید کیساتھ انہی کے گھر آۓ تھے۔ وہ بیڈ پر بیٹھی ناخنوں پر سے نیل پینٹ اتار رہی تھی۔
عدیل واپس پاکستان آرہا ہے۔ عرفان نے اسے اطلاع دی۔
وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
مذاق کر رہے ہیں آپ؟ اسے یقین نہ آیا۔
نہیں سچ کہہ رہا ہوں مسکان نے اس سے رابطہ کیا ہے۔اسے ڈائیورس ہو گئی ہے۔
کیا حیرت کا دوسرا بڑا جھٹکا۔
عدیل پاگل ہے پہلے اسکے لیے یہاں سب کو چھوڑ چھاڑ کر پردیس چلا گیا اور اب اس کے کہنے پر وہاں اپنا روزگار چھوڑ کر یہاں آۓ گا۔
فائزہ کو تاؤ آگیا۔
عشق کرنے والے میری جان پاگل ہی ہوتے ہیں۔محبوب پاس ہو تو انہیں اور کچھ نظر نہیں آتا اور جب وہ دور ہو تو انکی دنیا بے رنگ ہو جاتی ہے ختم ہو جاتی ہے۔
تو میں آپ کے پاس ہوں پھر آپ کو موبائل کیوں نظر آرہا ہے۔ فائزہ نے اسے مسلسل موبائل یوز کرتے دیکھ کر کہا۔
اب تم سے شادی جو ہو گئی ہے۔عرفان نے شرارت سے کہا۔
وہ اس پر ناراض سی نظر ڈال کر واپس نیل۔پینٹ اتارنے لگی۔
وہ اٹھ کر اسکے پاس آیا اور اسے بانہوں میں بھر لیا۔
پاس تو بلایا کرو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آجاؤ گا۔ وہ شریر ہوا۔
اندر آجاؤں۔عائزہ نے ہلکی سی دستک دے کر کہا۔
وہ واپس صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔فائزہ اسکی شکل دیکھ کر ہنسنے لگی۔
عائزہ ٹرے کیساتھ اندر داخل ہوئی۔
یہ لیں آپ دونوں کی کافی۔وہ ٹیبل پر کپ رکھتے ہوۓ بولی۔
تھینک یو میری بہنا۔عرفان نے پیار سے کہا
وہ۔مسکراتے ہوۓ باہر نکل گئی۔
فائزہ نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا جو پھر موبائل میں مصروف تھا اس نے شکر کا کلمہ پڑھا اور پرسکون ہو کر کافی پینے لگی۔
وہ آج پورے ایک سال بعد اپنے وطن لوٹا تھا سب کچھ وہی تھا جسطرح سب نے اسے سی آف کیا تھا اسی طرح آج سب اسے ویلکم بیک کہنے بھی کھڑے تھے۔بدل تو وہ خود گیا تھا۔
وہ اب پہلےجیسا عدیل نہیں رہا تھا جسکی آنکھوں میں ہر وقت شرارت ناچتی تھی جو نہ بولے تو اسکی زبان پر کھجلی ہوتی تھی۔
آج سب کے سامنے نیا عدیل کھڑا تھا جس کی آنکھوں میں اداسی تھی ویرانی تھی۔اس کے چہرے پر چٹانوں جیسی سختی تھی اور لب بھنچے ہوۓ تھے۔
وہ سب سے مسکرا کر مل رہا تھا مگر آنکھیں اسکے لبوں کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔
اس نے رات عرفان کے گھر قیام کیا اور صبح اپنے گاؤں چلا گیا۔
دو تین بعد وہ مسکان سے ملنے واپس شہر آیا تھا۔
اس نے مسکان کو ملنے عرفان کے فلیٹ پر بلایا تھا۔
شام کے وقت مسکان آئی۔اگر عشق نے عدیل کو جلایا تھا اس آگ میں مسکان بھی جھلسی تھی۔
۔۔۔۔۔
میں سوچتی تھی کہ تم سے زیادہ خوبصورت، تعلیم یافتہ اور دولت مند شوہر ملے گا تو میں تمہیں بھول جاؤں گی۔میرے لیے پیار سے زیادہ دولت اہمیت رکھتی تھی۔میں نے پیار کی جگہ دولت کو چنا وہ دونوں عرفان کے گھر ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔
مگر غلطی کا احساس تب ہوا جب بڑے گھر میں چکراتی پھرتی سب کچھ گھر گاڑی ہر آسائش میرے پاس تھی مگر پیار اور جذبات نہیں۔ جس طرح قمیتی موتی کو صندوق میں بند کر دیا جاتا ہے اس طرح میں وہاں بند تھی۔پل پل تم کو یاد کیا
تمہاری شرارتیں تمہارے معنی خیز جملے میں سوچ کر مسکراتی، بے بسی سے روتی تڑپتی۔میری زندگی میں۔سب کچھ تھا مگر پیار اور سکون نہیں تھا یا شاید مجھے تمہارے عشق نے بد دعا دے دی تھی۔
وہ باتیں کرتے ہوۓ رو بھی رہی تھی۔وہ ہمہ تن گوش اسے سن رہا تھا۔
پھر ایک دن شجاع نے تمہاری تصویر دیکھ لی مجھ سے پوچھا تو میں نے کہ دیا کہ میں تم سے پیار کرتی ہوں۔بہت زیادہ لڑائی ہو گئی تھی اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔میں سب چھوڑ کر میکے آگئی تھی پھر اس سے عدالت کے ذریعے ڈئیورس لے لی۔اور اب تمہارے سامنے ہوں۔
اگر تم میری یاد میں پل پل تڑپے ہو تو میں بھی تڑپی ہوں۔
تو۔ عدیل نے پہلی بار زبان کھولی۔
تو معاف کر دو نا۔
کر دیا۔
وہ جانے لگی تھی جب عدیل نے اسکا ہاتھ پکڑا۔
بس یا کچھ اور بھی کہنا ہے۔
کچھ نہیں۔وہ دل کی بھڑاس نکال چکی تھی۔
تو پھر سنو میں آج بھی تمہارے لوٹ آنے کا انتظار کر رہا ہوں۔بتاؤ میرا ساتھ قبول ہے
وہ اثبات میں سر ہلا کر باہر نکل گئی جہاں عرفان اور فائزہ کے علاوہ تانیہ مناہل اور کمال بھی انکا انتظار کر رہا تھا جنہیں عرفان نے بلوایا تھا۔
مسکان کے چہرے پر پھیلی شرم کی سرخی اور عدیل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھ کر ان سب نے خوشی سے یاااہو کا نعرہ لگایا ان کی زندگی خوشیوں سے بھر گئی تھی آج پھر وہ سب دوست اکھٹے خوشیاں منا رہے تھے یونیورسٹی کی یاد تازہ کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسمان پر چمکتا چاند بھی انکی خوشیوں پر مسکرا رہا تھا۔
ختم شد