صبح عرفان اور کمال دونوں پولیس اسٹیشن گئے اور فائزہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔تقریباً سب کو فائزہ کی گمشدگی کی خبر مل چکی تھی سبھی پریشان تھے۔
وہ دونوں رپورٹ درج کروا کر گھر پہنچے تو جاوید صاحب فوراً انکی طرف بڑھے۔
کروا آۓ ہیں رپورٹ۔کمال نے ان کے بولنے سے پہلے کہا۔انہوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ فائزہ کو ڈھونڈنے کی پوری کوشش کریں گے۔
یا اللہ ہماری بچی مل جاۓ نہ جانے کہاں ہو گی۔مسز جاوید عرفان کو دیکھ کر ٹپ ٹپ آنسو بہا رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد ولید اور عائزہ بھی آگئے۔
عرفان بھائی آپی۔۔۔۔۔ وہ روتے ہوۓ عرفان سے لپٹ گئی وہ جو کب سے آنسو ضبط کیے ہوۓ تھے۔عائزہ سے مل کر رونے لگا وہ اسے کیا تسلی دیتا وہ مشکل سے خود کو سنبھالے ہوا تھا۔ولید نے آہستہ سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
ان سب کے چہرے اترے ہوۓ تھے۔ایک جاوید صاحب تھے جنکا دل خوشی سے باغ باغ ہو رہا تھا مگر شکل ایسی بنائی ہوئی تھی جیسے فائزہ کا غم سب سے زیادہ انہی کو ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔
پولیس نے زبیر صاحب کے گھر آکر چوکیدار سے پوچھ گچھ کی۔اس نے وہی بتایا جو اسے معلوم تھا۔
وہ سب زبیر صاحب کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے اور چوکیدار ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
کیا تم اس لڑکی کے چہرے کے خدوخال بتا سکتے ہو؟ پولیس نے اس سے پوچھا۔
اندھیرا ہونے کی وجہ سے میں نے اسکے چہرے پر غور نہیں کیا مگر اسکے بال کالے اور گنگریالے تھے۔
ہمم۔اگر وہ تمہارے سامنے پھر سے آجاۓ تو کیا تم اسے پہچان لو گئے؟
جی جی پہچان لوں گا۔چوکیدار نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔
زبیر صاحب انہیں ہمارے ساتھ پولیس اسٹیشن چلنا ہو گا جب تک کچھ سراغ ملتا یہ حوالات میں رہیں گے۔
پولیس آفیسر نے زبیر احمد سے مخاطب ہو کر کہا۔زبیر احمد کیا کہہ سکتے تھے وہ خود ایک بڑی مشکل میں پھنس گئے تھے ان کے بیٹے کی آنے والے کل کو مہندی تھی مگر خوشی اور رونق کی جگہ ہر طرف ویرانی چھائی ہوئی تھی۔
اسکی آنکھ کھلی تو سر پر ٹھیسیں اٹھتی محسوس ہوئی وہ سر کو دونوں ہاتھوں سے دباتی یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ یہاں کیسے آئی۔
کافی دیر دماغ پر زور دینے کے بعد اسے رات کا منظر یاد آیا۔
کون تھا وہ جس نے مجھ پر وار کیا ؟
وہ کوشش کر کے بھی اس سوال کا جواب نہ ڈھونڈ سکی اور تھک کر کمرے کا جائزہ لینے لگی جہاں وہ بند تھی۔
یہ ایک تہ خانہ تھا جس میں اس کے علاوہ دو اور لڑکیاں بھی قید تھی جو ہوش و حواس سے بے خبر پڑی تھی۔
یہ کون ہیں؟ وہ ان کے پاس گئی مگر دروازے کی چرچراہٹ اور بولنے کی آواز سن کر وہ اپنی جگہ پر آکر لیٹ گئی اور آنکھیں بند کر لی۔
دو لوگ جن میں ایک عورت تھی اور ایک مرد تہ خانے میں داخل ہوۓ۔
یہ ابھی ہوش میں نہیں آئی؟ زاہد نے حیرت سے پوچھا
نہیں شاید۔عورت نے جواب دیا
ہوش میں آۓ تو اسے کچھ کھانے کو دے کر انجکشن لگا دینا۔
اور یہ دونوں؟ اس نے باقی دو لڑکیوں کی طرف اشارہ کیا۔
یہ جب ہوش میں آئیں تو پھر سے انجکشن لگا دینا فلحال میں خود ادھر ہی ہوں۔
وہ دونوں اب سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔
یہ لڑکی تمہیں کہاں سے ملی؟
سمجھو بس لاٹری نکل آئی میری۔اس نے ایک زور دار قہقہ لگایا۔
ان کے باہر نکلنے کے بعد فائزہ واپس اٹھی۔
تو یہ شخص تھا جس نے۔۔۔۔
کہاں پھنس گئی میں؟
اور عرفان تو کمال کے گھر تھے ان کو پتہ چل گیا ہوگا ۔
اور شاید بھائی کو بھی خبر مل گئی ہو
پتہ نہیں دن ہے کہ رات ہے۔
وہ اٹھ کر پورے تہ خانے کا جائزہ لینے لگی۔
وہ ایک لمبی سرنگ کی طرح کا تہ خانہ تھا۔جس کے ایک حصے میں وہ تینوں تھی اور درمیان میں ایک بڑے سے کپڑے کا پردہ لگایا گیا تھا۔وہ کپڑا ہٹا کر دوسرے حصے میں آئی جہاں کاٹھ کباڑ پڑا تھا وہ چاروں طرف دیکھتی آگے بڑھ رہی تھی جب کسی چیز کے ساتھ اسے ٹھوکر لگی اس نے نیچے مڑ کر دیکھا تو منہ پر ہاتھ رکھ کر چیخ روکی۔۔
وہاں ایک زخمی لڑکی پڑی تھی جس کے منہ پر زخم اور ان پر خون جما ہوا تھا۔
پانچ منٹ گزرنے کے بعد بھی اس پر کپکپی طاری رہی وہ واپس مڑنے لگی تھی جب ایک بار پھر دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔
خوف سے اسکی آنکھیں پھیل گئی اب بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
اندر آنے والا زاہد تھا، اسے ان لڑکیوں میں نہ پا کر اس نے پردہ اٹھا کر دیکھا جہاں وہ کونے میں سہم کر کھڑی تھی اور بری طرح کپکپا رہی تھی۔
اسکی شکل دیکھ کر فائزہ کی جان نکلی جارہی تھی۔وہ شاید جان چکا تھا کہ وہ ہوش میں آچکی ہے۔
یہاں کیوں آئی ہو؟ اس نے کرخت لہجے میں کہا
خوف سے اسکی آواز نہیں نکل رہی تھی۔
اچانک اس نے فائزہ کا بازو سختی سے پکڑا اور اسے زخمی لڑکی کے پاس لے گیا۔
دیکھ رہی ہو اسے۔ اگر کوئی بھی چالاکی یا ہوشیاری کرنے کی کوشش کی تو تمہارا انجام بھی اسی جیسا ہو گا۔وہ غصے سے دہاڑا۔
شبنم شبنم ۔وہ غصے سے اس پر ایک نظر ڈالتا واپس پیچھے مڑا۔یقیناً اس کے لیے کوئی نیا حکم تھا۔ اسکے باہر جانے کے بعد وہ ان دو لڑکیوں کے پاس آئی جو اب تک ہوش میں نہیں آئی تھی۔ وہ انہی کے پاس بیٹھ کر دل ہی دل میں آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد عورت آئی۔ دیکھنے میں خوش شکل تھی اس نے کھانے کی ٹرے فائزہ کے سامنے رکھی۔ ٹرے میں ابلے ہوۓ چاول اور پانی کا گلاس تھا۔ اس نے ٹرے کو ہاتھ نہیں لگایا ایسے ہی خاموش ہو کر بیٹھی رہی۔
کھاؤ۔اس عورت نے کہا
مجھے نہیں کھانا۔ نہ جانے اتنی ہمت اس میں کہاں سے آگئی تھی جو اس نے تین لفظ ادا کیے۔
اس عورت نے ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا۔
یہ تمہارا گھر نہیں ہے اور نہ میں تمہاری ملازم ہوں یہاں پر صرف ایک ہی آپشن ہو گا تمہارے پاس ہماری بات ماننے کا آپشن۔ اب کھاؤ کھانا ۔۔۔
اس عورت کے تھپڑ نے کچھ کام کر دکھایا اس نے چاول کے دو تین نوالے لے کر پانی کا گلاس منہ کے ساتھ لگایا۔ مگر ایک گھونٹ بھر کر واپس رکھ دیا کیونکہ پانی کا ذائقہ کڑوا تھا۔
پیو پانی۔اس عورت نے سخت لہجے میں کہا
فائزہ نے جلدی سے گلاس ہونٹوں کے ساتھ لگا لیا۔
تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ تم ہماری بات مانو اور یہاں سے باہر نکلنے کا کبھی نہ سوچنا۔ اگر باہر نکلنے کی کوشش کی تو صرف اپنے ہاتھ پیر تڑواؤ گی اور کچھ حاصل نہیں ہوگا یہاں جو ایک بار آجاۓ وہ واپس اپنے گھر زندہ نہیں جاتا۔
اسے لکچر دے کر وہ عورت ٹرے لے کر چلی گئی۔
کچھ ہی دیر بعد اسے اپنا سر بھاری محسوس ہوا اسے ہر چیز گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔اسکی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہو رہی تھی۔چند منٹ گزرتے ہی وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی۔
کمال کی شادی انتہائی سادگی کے ساتھ ہوئی۔عرفان اور اسکے گھر والے اپنی پریشانی کی وجہ سے شادی میں شامل نہیں ہوۓ۔
ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا پولیس فائزہ کو ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہی تھی مگر اسکا کہیں سراغ نہ مل سکا۔ فائزہ کی تمام دوستوں کو پولیس اسٹیشن چوکیدار کے سامنے بلوایا گیا تھا کہ فائزہ کی ان میں سے کون سی دوست تھی جس نے فائزہ کو باہر بلوایا تھا۔چوکیدار نے ان کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا اور کہا کہ ان میں سے کوئی نہیں تھی اور نہ وہ انہیں پہچانتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات بارہ بجے اسکی گاڑی پورچ میں آکر رکی۔وہ آہستہ قدموں کے ساتھ چلتا وہ گھر کے لاؤنج میں آیا۔فائزہ کیساتھ گزرے پل ایک فلم کیطرح اسکے دماغ میں چل رہے تھے۔
فائزہ کہاں ہو تم؟ یکدم اس نے اونچی آواز میں فائزہ کو پکارا۔
پلیز مجھے اور مت آزماؤ آجاؤ میرے پاس۔دیکھو کتنا تنہا ہو گیا ہوں تمہارے بغیر۔
ت تم نے وعدہ کیا تھا ہمیشہ میرا ساتھ دو گی میرے ساتھ رہو گی کیوں چھوڑ گئی ہو مجھے پھر۔
اسکی آواز سن کر جاوید صاحب اور مسز جاوید باہر آۓ۔وہ گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھا تھا۔
کیا ہو گیا بیٹا۔مسز بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
ماما اسے ڈھونڈ لائیں کہیں سے بھی، ورنہ میری زندگی تھم جاۓ گی ماما میرا دل بند ہو جاۓ گا،
وہ روتے ہوۓ مسز جاوید سے یہ سب کہتا چھوٹا بچہ لگ رہا تھا جو کھلونا ٹوٹنے پر روتا چیختا ہے۔
ہمت کرو عرفان مل جاۓ گی وہ۔جاوید صاحب نے اسے تسلی دی وہ اسکی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئے تھے۔
ک کیا ہوا عرفان؟ مسز جاوید اسے سینے پر ہاتھ مسلتے دیکھ کر بولی۔
عرفان۔۔۔
مگر وہ تکلیف سے تڑپ رہا تھا بار بار سینہ اور بایاں بازو مسل رہا تھا۔
جاوید گاڑی نکالیں اسکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔
گاڑی نکال کر وہ اسے آناً فاناً ہسپتال لے گئے۔۔
کیا ہوا میرے بیٹے کو ڈاکٹر صاحب۔ وہ ڈاکٹر آفاق کے بلانے پر ان کے سامنے بیٹھے تھے۔
مریض کی ہارٹ بیٹ بہت سلو ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید تکلیف ہوئی ہے۔میں نے مڈیسن لکھ دی ہیں ان شأالــــلـــــہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ مریض کو ٹینشن سے دور رکھیں۔
وہ کاغذ پر تیزی سے لکھتے ہوۓ بولے۔
جاوید صاحب بامشکل اپنے آنسو روک رہے تھے۔اپنی انا کی ضد میں وہ اپنے بیٹے کو داؤ پر لگا چکے تھے۔ بے شک انہیں عرفان سے زیادہ کومل عزیز نہیں تھی مگر ان کے اور عرفان کے بیچ کومل نہیں بلکہ انا آگئی تھی۔
وہ نم آنکھوں کے ساتھ تمام ٹیسٹ کی کاپیز اور میڈیکل سرٹیفیکیٹ لے کر باہر آۓ۔
کوریڈور میں ٹہلتا کمال جاوید صاحب کو دیکھ کر بھاگ کر ان کے پاس آیا۔
کیا ہوا انکل؟
انہوں نے ہاتھ میں پکڑا کاغذوں کا پلڑا کمال کو تھمایا اور خود پاس پڑے بنچ پر بیٹھ گئے۔
عرفان نے گھر آکر چپ کا روزہ رکھ لیا۔کسی کے ساتھ کوئی بات نہیں کرتا تھا۔کوئی بات کرنے کی کوشش کرے تو اسے خالی خالی نظروں سے گھورتا رہتا جیسے فائزہ کی پرچھائیں ڈھونڈ رہا ہو۔ولید اور عائزہ بھی اسے دیکھنے آۓ تھے اور کمال تو اسی کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا۔
شام ہوتے ہی نجمہ پھپھو اور کومل بھی عرفان کی حیرت دریافت کرنے آگئیں۔
ہاۓ کیا ہو گیا میرے بچے کو۔ اسوقت کمرے میں عرفان ، نجمہ بیگم اور کومل ہی تھے۔
کتنا صحت مند تھا اور اب اتنا سا منہ رہ گیا۔وہ اسکے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔
اس لڑکی نے ہی تو تباہ کیا اسے۔ وہ صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھاۓ بیٹھی تھی۔عرفان کا دل کر رہا تھا کہ اسکا منہ نوچ لے
پہلے جال میں پھنسا کر شادی کی اور پھر کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی۔ وہ طنزیہ ہنسی
کمال جو عرفان سے گھر جانے کی اجازت لینے آیا تھا کومل کی بات سن یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔
کمال جو عرفان سے گھر جانے کی اجازت لینے آیا تھا کومل کی بات سن یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔
(کومل بھی تو دشمنی کر سکتی ہے عرفان سے، آخر ٹھکرایا تھا عرفان نے اسے)
اس نے گھر جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور عرفان کے روم میں داخل ہو گیا۔
وہ جو اسے کوئی سخت جواب دینے لگا تھا کمال کو آتے دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
کومل صوفے پر بیٹھی موبائل میں مصروف تھی۔
(کس طرح اسکی پکچر لوں۔کوئی تو آئیڈیا آۓ۔) تھوڑی دیر بعد نجمہ بیگم اور وہ اٹھ کر باہر چلی گئی۔
وہ سر ہاتھوں میں گراۓ گہری سوچ میں گم تھا۔(عرفان مدد کر سکتا ہے، اسکی پکچر عرفان ہی لے سکتا ہے)
عرفان پلیز یار ہمت تو نہ ہارو۔ فائزہ مل جاۓ گی اگر تم ہمت نہ ہارو تو۔
عرفان نے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔
کومل کی تصویر چاہیے وہ تم ہی لے سکتے ہو کومل بھی تو تمہاری دشمن تھی وہ بھی تو فائزہ کو اغواہ کروا سکتی ہے۔کمال نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔
اسکی بات پر عرفان کو اپنی کم عقلی پر غصہ آیا اس نے کومل کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔
مگر کمال وہ کیسے یہ سب کر سکتی ہے؟
اسکا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔تم تصویر کسی طرح لے کر دو۔
وہ میں لے لوں گا۔اسکی آئی ڈی، واٹس ایپ ہیک کر لیتے ہیں مل جاۓ گی کوئی نہ کوئی تصویر۔عرفان نے سوچتے ہوۓ کہا۔
تو پھر دیر کس بات کی۔ابھی کام شروع کرتے ہیں۔کمال نے چٹکی بجا کر کہا۔
کومل کی آئی ڈی ، واٹس ایپ وغیرہ ہیک کروا کر انہیں اسکی کافی ساری تصویریں مل گئی تھی۔جو کمال نے اپنے سیل میں محفوظ کر لی تھی۔
اس نے پولیس اسٹیشن جا کر چوکیدار کو کومل کی تصویر دکھائی۔
کیا فائزہ کو باہر بلانے والے لڑکی یہی تھی؟ کمال نے اس سے پوچھا البتہ عرفان خاموش کھڑا چوکیدار کے تاثرات نوٹ کر رہا تھا۔وہ کچھ دیر تصویر کو دیکھتا رہا پھر اس نے اثبات میں سر ہلایا
ہاں صاحب یہی لڑکی تو تھی۔
غور سے دیکھو دوبارہ۔ کمال نے اسے دوبارہ دیکھنے کو کہا۔
صاحب اسی شکل کی لڑکی تھی مگر اسکے بال گنگریالے تھے۔اس نے پھر تصویر کو غور سے دیکھتے ہوۓ کہا
عرفان نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لی۔
۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں لیڈیز پولیس کو لے کر گھر آۓ۔
کومل جو مزے سے لاؤنج میں بیٹھی چپس کھا رہی تھی پولیس کو دیکھ کر گھبرا گئی مگر خود کو نارمل ظاہر کرتے ہوۓ دوبارہ چپس کی طرف ہاتھ بڑھایا " یو آر آریسٹ" مگر یہ سن کر اسکا بڑھتا ہاتھ رک گیا۔
پٹ سے آنکھیں کھل گئی۔
نجمہ بیگم اور مسز جاوید بھی گھر میں لیڈیز پولیس دیکھ کر حیران ہوئیں۔
کیا جرم ہے میرا؟ کومل نے اپنے تاثرات چھپاتے ہوۓ کہا
جرم تو تھانے جا کر ہی پتہ چلے گا۔ایک تیز طرار پولیس والی بولی۔
لے جاؤ اسے۔
ارے میری بیٹی کو چھوڑو۔اسے کیوں لے جارہے ہو۔ کومل کو پولیس کے ہاتھوں میں دیکھ کر نجمہ بیگم نے واویلا مچا دیا۔جو بھی تھا مگر نجمہ بیگم کو بیٹی کی چال کا نہیں پتہ تھا وہ اس بارے میں لاعلم تھی۔
پولیس کومل کو پکڑ کر لے جا چکی تھی اور نجمہ بیگم دہاڑے مار کر رو رہی تھی۔
ارے روکا کیوں نہیں انہیں۔میری بیٹی کو لے گئے ہیں۔
پتہ نہیں کیا سلوک کریں گے اسکے ساتھ۔
عرفان بیٹا۔ارے جاوید کو فون لگاؤ۔
عرفان سر جھٹک کر کمرے میں چلا گیا اسے اس وقت اپنے سوا کسی پر ترس نہیں آرہا تھا اسے افسوس اس بات کا تھا کہ پہلے یہ خیال اس کے ذہن میں کیوں نہیں آیا کہ کومل بھی ایسا کر سکتی ہے۔
جاوید صاحب کو یقین نہ آیا کہ اتنی جلدی کومل پکڑی جاۓ گی اب انہیں اپنی موت صاف نظر آرہی تھی۔ انہیں اس بات کا خوف تھا کہیں کومل پولیس کے سامنے انکا نام نہ لے لے ورنہ وہ عرفان اور باقی سب کی نظروں میں گر جائیں گے لیکن ہوا آخر وہی۔
پولیس پہلے اس سے نرمی سے پیش آتی رہی مگر جب کومل نے زبان نہ کھولی تو پولیس نے سختی سے اس سے سچ اگلوایا لیا۔ کومل نے جاوید صاحب اور زاہد کے بارے میں سب سچ بتا دیا تھا اب پولیس نے عرفان کو پولیس اسٹیشن بلوایا تھا۔
کچھ بتایا اس لڑکی نے؟ عرفان پولیس آفیسر کے روم میں بیٹھا تھا۔
ہاں بتا دیا سب۔ مگر جس شخص کے ہاتھ تمہاری بیوی لگی ہے وہ ایک گینگ کا بہت خطرناک آدمی ہے۔ اس سے کے بہت سے کیس پہلے بھی ہمارے پاس آچکے ہیں مگر وہ بچ گیا۔
ہم نے ہر طرح کی معلومات حاصل کر لی ہیں ان کا اڈہ ہے جہاں سے لڑکیوں کو غیر ملک میں اسمگل کیا جاتا ہے۔ان کے اڈے پر چھاپہ مارنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔بس آپ ان کی عزت و آبرو اور سلامتی کے لیے دعا کریں۔بہت جلد آپکو خوشخبری ملے گی۔
ان شأالــــلـــــہ۔ عرفان نے آہستگی سے کہا اسکا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا تھا وہ بمشکل خود کو قابو کر رہا تھا۔
ایک بہت ضروری بات اور اہم بات بتانی تھی آپکو؟ آفیسر نے جھجکتے ہوۓ کہا۔
جی کہیے۔
دراصل جاوید صاحب بھی اس اغواہ میں برابر کے شریک ہیں۔
کیاااا؟ آپ کو غلط فہم۔۔۔۔
نہیں ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ ہم پوری تصدیق کر چکے ہیں۔
میں چلتا ہوں اب۔وہ اٹھ کھڑا ہوا ایک قدم آگے چلنا اس کے لیے مشکل ہو رہا تھا قدم من من بھر کے ہورہے تھے۔سینے سے ہلکی ٹھیسیں نکل رہی تھی۔
وہ بمشکل قدم گھسیٹ کر خود کو گاڑی تک لایا۔ نہ جانے کس طرح وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا آنکھیں بار بار دھندلا رہی تھی۔ اس نے جیب سے سیل نکال کر جاوید صاحب کو کال کی اور فوراً گھر آنے کا کہہ کر کال بند کر دی۔