دو گھنٹے بعد احمد اور ادیان دونوں ٹی وہ دیکھ رہے تھے تب نیوز چینل پر خبر آئ ۔۔سو کلو وزنی بارودی مواد اور ہیروئن نشاور اشیاع برامد ہوئی ہیں ۔۔جس میں پاکستانی بزنس مین عالیان مختیار کا نام آرہا ہے ۔۔پولیس کی تشویش کے بعد یہ سارا معاملہ عملی طور پر سامنے آئیگا ۔۔ادیان نے یہ نیوز سن کر احمد کو مخاتب کیا ۔۔
ادیان؛ تمہارا بیسٹ فرینڈ ہے نا یہ عالیان ۔۔ادیان نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔
احمد؛ تھا پر اب نہیں ۔۔یہ سارا کارنامہ اسکا ہی ہے ۔۔احمد نے صاف گوئ سے بتایا ۔۔
ادیان؛ تمہیں یہ بات پہلے پتا تھی ۔۔ادیان نے تلخ آواز میں پوچھا ۔۔
احمد؛ ہاں پتا تھی اور ۔۔میں نے ہی پولیس کو بتایا ۔۔احمد نے اپنا لہجا برقرار رکھا ۔۔
ادیان؛ تو پھر تم نے یہ کام چھوڑ دیا ۔۔ادیان نے مصنوعی مسکراہٹ سے کہا ۔۔یہ سن کر احمد کے چہرے پر رنگ آکر گزرا ۔۔پر اسے اب کسی سے جھوٹ نہیں بولنا تھا یہ وہ تیہ کر چکا تھا ۔۔
احمد؛ ہاں چھوڑ دیا ۔۔
ادیان؛ گڈ ۔۔اب تمہیں کیا لگتا ہے عالیان تمہیں چھوڑ دے گا ۔۔ادیان نے سوالیہ مظروں سے دیکھا ۔۔
احمد؛ وہ مجھے مار دے گا ۔۔میں جانتا ہوں ۔۔اور میرا کوئ نہیں ۔۔یہ بھی جانتا ہوں ۔۔احمد نے اپنی بات مکمل کی ۔۔
ادیان؛ تم غلط جانتے ہو ۔۔میں تمہیں اتنی جلدی مرنے نہیں دونگا ۔۔کچھ تو لوگ ہے میری زندگی میں ۔۔جنہیں میں کھونا نہیں چاہتا ۔۔ادیان نے اداسی سے کہا ۔۔
احمد؛ مرنے دے یار ۔۔ویسے بھی جتنے گناہ میں نے کئے ہیں ۔۔ہوسکتا ہے قیامت تک معاف ہوجائیں ۔۔جتنا جلدی مروں اتنا اچھا ہے ۔۔احمد کے چہرے پر اداس سی مسکراہٹ تھی ۔۔
ادیان؛ اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔۔اور توبہ کرو بیشک اللہ تعالی سب سے اچھا معاف کرنے والا ہے ۔۔۔
احمد؛ میں توبہ کرتا ہو ادی ۔۔پر مجھے شاید معافی نہیں ملتی ۔۔نماز پڑھتا ہوں تو دل کو سکون نہیں ملتا ۔۔شاید دل ایک ایسے بہور میں پھنس گیا ہے جس میں نہ کوئی راہ ہے اور نا کوئی منزل ۔۔نہ کچھ نظر آتا ہے اور نہ ہی آندھیرا ہے ۔۔کیا کروں میں ۔۔مجھے معافی چاہیے ۔۔مجھے اس لڑکی کو ڈھونڈنا ہے ۔۔مجھے معافی چاہیے ادی ۔مجھے معافی چاہیے ۔۔احمد یہ کہتے کہتے گھٹنو کے بل بیٹھ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔۔ادیان اسکے ساتھ نیچے بیٹھا اور اسے گلے سے لگایا ۔۔ہم اسے ڈھونڈیں گے احمد ۔۔تم بےفکر رہو تمہارا بھائی ابھی زندہ ہے ۔۔
جو ہے ادیان کے دل میں بسی ۔۔
شاید اسی کی اب اسکو تلاش ہوگی !!
الینا کو وہاں دو پل رکنا بھی گوراہ نہ تھا ۔۔وہ وہاں سے نکل گئی ۔۔گاڑی سو کی رفتار سے چلاتے ہوئے وہ گھر پہنچی ۔۔اور اپنے پرس سے موبائل نکالا ۔۔کیپٹن ابرار کی میسج اسکے موبائل کی سکرین پر جگمگا رہا تھا ۔۔اس نے نا چاہتے ہوئے اس میسج کو کھولا ۔۔۔
" آہستہ مس الینا ۔۔آہستہ " یہ میسج پڑھ کر اسے احساس ہوا کے اگر وہ ٹریفک پولیس اسے روک لیتی تب وہ واقع مشکل میں پڑجاتی ۔۔پر خیر ۔۔اب جو ہوگیا سو ہوگیا ۔۔وپ اپنے کمرے میں گئ ۔۔اب اسے یہ بھی دیکھنا تھا کے کل جبار اور احمد اسکے کمرے سے کیا کیا لے کر گئے ہیں ۔۔اسنے اپنی الماری کا دروازہ کھولا ۔۔الماری کی آخری دراز جس میں اسکا پاسپورٹ رکھا تھا وہ جا چکا تھا ۔۔چونکہ وہ نکلی تھا اس لئے اسے کوئ پرواہ نہ تھی پر اب اسے کسی چیز کی پرواہ نہ تھی ۔۔۔رات کو آنکھیں بند تکیے سے ٹیک لگائیے وہ بیٹھی تھی سوچوں میں گم ۔۔وہ نہیں جانتی تھی جو شخص اس کی اتنی بیزاتی کرتا ہے ۔۔اتنا رسوا کرتا ہے ۔۔پر اللہ اسے اس شخص کے در پر کیوں بھیج رہا ہے ۔۔کیا اللہ اس سے ناراض ہے ۔۔کیا اس کے لئے اس میں بہتری ہے ۔۔وہ نہیں جانتی تھی ۔۔شاید اللہ اس سے ناراض ہے تبھی اللہ نے اسے عشق جیسے مرض میں مبتلا کیا ۔۔وہ جان گئ تھی ۔۔اسے ادیان کی کوئ بات کا کوئ غم نہیں تھا ۔۔عشق تو وہ ہوتا ہے نا جس میں اچھی بات اچھی پر بری بات بھی بری نہیں لگتی ۔۔۔نا چاہتے ہوئے بھی اس کی طرف کھیچے چلے جانا ۔۔آج کا واقعا اسے یاد تھا ۔۔پر شاید اس سے کوئ فرق نہیں پڑا تھا ۔۔محبت نہیں تھی یہ عشق تھا ۔۔
♡♡♡♡♡♡
ٹھنڈی ہوائوں کے درمیان ادیان سمندر کی لہروں میں پیر مارتا بیچ پر ٹہل رہا تھا ۔۔موبائل اسکے ہاتھ میں تھا ۔۔تب اسنے ایک مولانا کا بیان لگایا ۔۔ہیڈفونز اسکے کانوں میں لگے تھے ۔۔لوگ نا ہونے کا برابر تھے ۔۔اور اسکے کانوں میں بیان کی آواز گونج رہی تھی ۔۔بیان میں مولانا دو جہانوں کے بادشاہ کے محبوب حضرت محمد (ص) اپنے زوجہ حضرت عائشہ (رض) کی ایک قیمتی گفتگو کا تذکرہ کر رہے تھے ۔۔
رسول اللہ(ص) نے فرمایا : آج میں بہت خوش ہوں عائشہ ۔۔مانگو کیا مانگنا چاہتی ہوں ۔جو مانگو گی وہ دیا جائے گا ۔۔
حضرت عائشہ نے فرمایا ؛ یا رسول اللہ ۔۔میں اپنے ابو حضرت ابو بکر صدیق(رض) سے مشورہ کرکے مانگنا چاہتی ہوں ۔۔آپ (ص) نے اجازت دی ۔۔حضرت عائشہ نے جب یہ سب بتایا تب حضرت ابو بکر صدیق(رض) نے فرمایا ؛ عائشہ ۔۔اللہ کے رسول اکرم (ص) سے پوچھو کے معراج کی رات اللہ اور ان کے درمیان جو بتیں ہوئیں ۔۔ان میں سے کوئی ایک بات بتائیں ۔۔
حضرت عائشہ آپ(ص) کے پاس آئیں اور یہ سوال دہرایا جس پر آپ(ص) نے فرمایا : عائشہ اللہ نے مجھ سے فرمایا ۔۔کے جو بندہ کسی دوسرے بندے کا ٹوٹا ہوا دل جوڑے گا ۔۔تو وہ جنتی ہے ۔۔یہ سن کر حضرت عائیشہ خوش ہوگئیں ۔۔اور فوری حضرت ابو بکر (رض) کے پاس گئیں ۔۔اور ساری بات بتائی ۔۔جسے سن کر حضرت ابو بکر (رض) اداس ہوگئے ۔۔حضرت عائیشہ نے فرمایا؛ ابو جان اتنی کم عمل پر جنت مل رہی ہے ۔۔اور آپ اداس ہیں ۔۔حضرت ابو بکر نے فرمایا؛ عائیشہ میں اس لئے اداس ہوں کیونکہ دل جوڑنے پر جنت جیسی شے مل رہی ہے ۔۔تو سوچو دل دل توڑنے پر کیا ہوگا ؟ یہاں بیان کا اختتام ہوا ۔۔ادیان کے چہرے پر نمی اتر آئی ۔۔ادیان کی آنکھوں کے سامنے وہ پل آئے جس میں اسنے الینا کی بیزاتی کی ۔۔اسکا دل دکھایا ۔۔اور پھر اللہ نے اسے یہ سنوایا ۔۔وک سمجھ گیا تھا اس ٹوٹے دل کو اسی کو جوڑنا ہے ۔۔یہ کام اللہ اسی سے کروانا چاہتا ہے ۔۔اللہ چسہتا ہے وہ الینا سے معافی مانگے تو وہ مانگے گا ۔۔وہ ادیان کو ملے نہ ملے ۔۔پر جو اللہ کی رضا ہے وہی ادیان کی رضا ہے ۔۔وہ فوری اپنی گاڑی کے طرف بڑھا اور الینا کے گھر کے طرف جانے والی سڑک پر اپنی گاڑی کا رخ کیا ۔۔
♡♡♡♡♡♡♡♡
عالیان اپنے آفس کی عمارت کے ٹاپ فلور پر کھڑا احمد کو کال ملا رہا تھا دوسری ہی گھنٹی پر احمد نے کال کا جواب دیا ۔۔
احمد ؛ کیسے ہو عالیان ۔۔کیسے فون کیا ۔۔احمد نے روکھے انداز میں کہا ۔۔
عالیان؛ الفاظ ادا کر رہے ہو یا مار رہے ہو ۔۔عالیان نے خوش مزاجی سے پوچھا۔۔
احمد؛ جو سمجھو تم ۔۔۔کیوں فون کیا ہے ۔۔احمد نے اپنا تلخ لہجا برقرار رکھا ۔۔
عالیان؛ تمہاری خیرت کے لئے ۔۔اور کوئ کام تھوڑی ہوسکتا تم سے ۔۔عالیان نے طنزیہ کہا ۔۔
احمد؛ میں ٹھیک ہوں ۔۔خدا حافظ ۔۔احمد نے فون رکھنا چاہا ۔۔
عالیان؛ رکو رکو ۔۔اتنی جلدی بھی کیا ہے مسٹر ۔۔عالیان نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔
احمد؛ تو کرو بکواس ۔۔ٹائم نہیں ہے میرے پاس ۔۔احمد نے اکتاکر کہا ۔۔
عالیان؛ یاد ہے تم نے ایک کام سر انجام دیا تھا احمد ۔۔عالیان نے اپنا نرم لہجا برقرار رکھا ۔۔
احمد؛ میں نے کچھ نہیں کیا تھا عالیان ۔۔تم نے کیا تھا جو بھی کیا تھا ۔۔احمد کی آواز میں درد تھا غصہ تھا یا پھر اس وقت اس جگہ ہونے کا پچھتاوا ۔۔
عالیان؛ بیگس تم تک پہنچا دیئے ہیں ۔۔اس میں ڈرگس ہیں ۔۔دے دے نا اس کمپنی کو ۔۔عالیان نے سنجیدگی سے کہا ۔۔
احمد؛ اب میں تمہارا کام نہیں کرونگا عالیان ۔۔بہت کھیل لیا تم نے مجھ سے ۔۔اب بس ۔۔احمد نے یہ کہتے ہی فون کاٹ دیا ۔۔اب احمد کو اپنا ہر قدم سمنبھل کر رکھنا تھا ۔۔وہ جانتا تھا اب اسکی جان کو خطرہ ہے ۔۔پر اسے اب ایک کام کرنا تھا جو بہت ضروری تھا ۔۔
♡♡♡♡♡♡♡♡
ادیان الینا کے گھر پہنچا اور بنا کچھ سوچے سمجھے اس کے گھر کی گھنٹی بجائ ۔۔پہلی ہی گھنٹی پر آسیا نے دروازہ کھولا ۔۔
آسیا: آپ کون ۔۔آسیا نے اسکی پاکستانیوں جیسی شکل و صورت دیکھ کر اردو میں کہا ۔
ادیان؛ میں ادیان ۔۔الینا کا باس ۔۔ادیان نے نرم لہجے میں جواب دیا ۔۔یہ سن کر آسیا نے شفقت سے ادیان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے اندر لے گئیں ۔۔
ادیان؛ آنٹی آپ کا گھر تو بہت اچھا ہے ۔کس نے ڈیکوریٹ کیا ہے ۔۔ادیان نے گھر کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
آسیا؛ ایک ہی تو بیٹی ہے میری الینا ۔۔وہی کرتی ہے سب ۔۔آسیا نے اداسی سے کہا ۔
ادیان؛ آنٹی تو اس میں اداس ہونے والی کونسی بات ہے ۔۔بیٹیاں بیٹوں سے کم تھوڑی ہوتی ہیں ۔۔ادیان نے کہا ۔۔
آسیا؛ نہیں نہیں وہ بات نہیں ہے ۔۔میری بیٹی تو شیر ہے ۔۔پر کوئی انسان اسکا شکار نہ کرلے ۔۔۔اس سے ڈر لگتا ہے ۔۔آسیا نے اداسی سے کہا ۔۔
ادیان نے نا سمجھتے ہوئے آسیا کی طرف دیکھا ۔۔آسیا نے اسکی نظروں کے کئے گئے سوال کا جواب دیا ؛ آیک دفعہ شکار ہوا تھا ادیان اسکا ۔۔وہ ٹوٹ گئ تھی بری طرح ۔۔پر اللہ نے اسے بکھرنے نہیں دیا ۔۔اب وہ ایک زخمی شیر ہے ۔۔جسکا ماضی خوفناک ہے ۔۔پر آنے والے کل کو اسنے خود خراب کردینا ہے ۔۔آسیا نے اپنے دل کی ساری باتیں کہہ ڈالی ۔۔
ادیان؛ اسکا کل خراب نہیں ہوگا آنٹی ۔۔یہ وعدہ ہے میرا آپ سے ۔۔ادیان نے انھیں امید دلائی ۔۔
آسیا؛ وعدہ مت کرو ادیان ۔۔کل کیا ہوگا کسی کو نہیں پتا ۔۔آئیندہ وعدہ مت کرنا ۔۔آسیا نے تلخ لہجے میں کہا ۔۔
ادیان؛ ٹھیک ہے آنٹی ۔۔۔اور بتائیں ۔۔الینا کہاں ہے ۔۔ادیان نے بات کا رخ موڑا ۔۔
آسیا؛ گئ ہوگی کہیں ۔۔وہ بہت گھومتی رہتی ہے ۔۔گئ ہوگی کہیں ۔۔
ادیان؛ ویسے آنٹی ۔۔کبھی کبھی آنکھیں سب کچھ کہہ جاتی ہیں ۔۔جو زبان سے کہنا ممنوع ہوتا ہے ۔۔میں سمجھ گیا ہوں آنٹی ۔۔آپ الینا کو مت بتائیے گا میرے بارے میں ۔۔اب میں چلتا ہوں ۔۔ادیان گیٹ کی طرف بڑھ گیا ۔۔آسیا اسکے پیچھے پیچھے گیٹ تک چھوڑنے آئیں ۔۔اسکے سر کو چوما ۔۔اور خوب دعائیں تھی ۔۔ادیان کو آسیا میں اسکی ماں محسوس ہوئیں ۔۔پر ابھی وہ ان سے یہ کہہ نہیں سکتا تھا ۔۔وہ پر بات کہہ دینے والا نہیں تھا ۔۔
♡♡♡♡♡♡♡
احمد سڑک کے کونے میں لگا رسیور اٹھا کر پولیس کو کال کرنے لگا ۔۔آج مسٹر ادیان کے شروم کے ایک کلو میٹر آگے ایک پارک میں ڈرگس سپلائے ہونگے ۔۔ہو سکے تو روک لئے گا ۔۔یہ کہتے ہی اسنے فون بند کردیا ۔۔وہ پولیس اتنی قابل ہے کے اب وہ خود اپنا کام کردیگی ۔۔اور جہاں تک ادیان کے شروم کی بات ہے تو وہ پورے شہر میں مشہور ہے ۔۔اب گئے تم عالیان ۔۔تمہیں برباد کردونگا میں۔۔بہت استعمال کرلیا تم نے مجھے ۔۔اب نہیں ۔۔وہ یہ کہتا ہوا اپنا گاڑی میں بیٹھا اور ادیان کے گھر کے طرف نکل گیا ۔۔۔
♡♡♡♡♡♡♡
دو گھنٹے بعد احمد اور ادیان دونوں ٹی وہ دیکھ رہے تھے تب نیوز چینل پر خبر آئ ۔۔سو کلو وزنی بارودی مواد اور ہیروئن نشاور اشیاع برامد ہوئی ہیں ۔۔جس میں پاکستانی بزنس مین عالیان مختیار کا نام آرہا ہے ۔۔پولیس کی تشویش کے بعد یہ سارا معاملہ عملی طور پر سامنے آئیگا ۔۔ادیان نے یہ نیوز سن کر احمد کو مخاتب کیا ۔۔
ادیان؛ تمہارا بیسٹ فرینڈ ہے نا یہ عالیان ۔۔ادیان نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔
احمد؛ تھا پر اب نہیں ۔۔یہ سارا کارنامہ اسکا ہی ہے ۔۔احمد نے صاف گوئی سے بتایا ۔۔
ادیان؛ تمہیں یہ بات پہلے پتا تھی ۔۔ادیان نے تلخ آواز میں پوچھا ۔۔
احمد؛ ہاں پتا تھی اور ۔۔میں نے ہی پولیس کو بتایا ۔۔احمد نے اپنا لہجا برقرار رکھا ۔۔
ادیان؛ تو پھر تم نے یہ کام چھوڑ دیا ۔۔ادیان نے مصنوعی مسکراہٹ سے کہا ۔۔یہ سن کر احمد کے چہرے پر رنگ آکر گزرا ۔۔پر اسے اب کسی سے جھوٹ نہیں بولنا تھا یہ وہ تیہ کر چکا تھا ۔۔
احمد؛ ہاں چھوڑ دیا ۔۔
ادیان؛ گڈ ۔۔اب تمہیں کیا لگتا ہے عالیان تمہیں چھوڑ دے گا ۔۔ادیان نے سوالیہ مظروں سے دیکھا ۔۔
احمد؛ وہ مجھے مار دے گا ۔۔میں جانتا ہوں ۔۔اور میرا کوئ نہیں ۔۔یہ بھی جانتا ہوں ۔۔احمد نے اپنی بات مکمل کی ۔۔
ادیان؛ تم غلط جانتے ہو ۔۔میں تمہیں اتنی جلدی مرنے نہیں دونگا ۔۔کچھ تو لوگ ہے میری زندگی میں ۔۔جنہیں میں کھونا نہیں چاہتا ۔۔ادیان نے اداسی سے کہا ۔۔
احمد؛ مرنے دے یار ۔۔ویسے بھی جتنے گناہ میں نے کئے ہیں ۔۔ہوسکتا ہے قیامت تک معاف ہوجائیں ۔۔جتنا جلدی مروں اتنا اچھا ہے ۔۔احمد کے چہرے پر اداس سی مسکراہٹ تھی ۔۔
ادیان؛ اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔۔اور توبہ کرو بیشک اللہ تعالی سب سے اچھا معاف کرنے والا ہے ۔۔۔
احمد؛ میں توبہ کرتا ہو ادی ۔۔پر مجھے شاید معافی نہیں ملتی ۔۔نماز پڑھتا ہوں تو دل کو سکون نہیں ملتا ۔۔شاید دل ایک ایسے بہور میں پھنس گیا ہے جس میں نہ کوئی راہ ہے اور نا کوئی منزل ۔۔نہ کچھ نظر آتا ہے اور نہ ہی آندھیرا ہے ۔۔کیا کروں میں ۔۔مجھے معافی چاہیے ۔۔مجھے اس لڑکی کو ڈھونڈنا ہے ۔۔مجھے معافی چاہیے ادی ۔مجھے معافی چاہیے ۔۔احمد یہ کہتے کہتے گھٹنو کے بل بیٹھ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔۔ادیان اسکے ساتھ نیچے بیٹھا اور اسے گلے سے لگایا ۔۔ہم اسے ڈھونڈیں گے احمد ۔۔تم بےفکر رہو تمہارا بھائی ابھی زندہ ہے ۔۔
جو ہے ادیان کے دل میں بسی ۔۔
شاید اسی کی اب اسکو تلاش ہوگی !!
ادیان ہسپتال کی زمین پر گھٹنے کے بل بیٹھا تھا ۔۔آنکھوں سے بےانتہا آنسو جاری ہورہے تھے ۔۔چہرا آنسوئوں میں تر تھا ۔۔دل میں ایک ہی دعا تھی ۔۔احمد کی زندگی ۔۔اس وقت ادیان کو کوئ الینا کوئی اپنے ماں باپ یاد نہ تھے بس احمد ۔۔وہ نہیں جانتا تھا وہ احمد سے اتنا پیار کرتا ہے ۔۔ادیان تو سب سے ہی پیار کرتا تھا ۔۔ادیان زاروقطار رو رہا تھا پر بے آواز ۔۔۔وہ اللہ سے امید ہار نہیں بیٹھا تھا ۔۔وہ کچھ ایسا نہیں بولنا چاہتا تھا جس سے اسکا اللہ ناراض ہو اور اسکا رب ہی اسکے سب سے قریب تھا ۔۔ادیان کو یک دم سامنے سے ڈاکٹر آتا دکھائ دیا ۔۔ڈاکٹر آپریشن تھیٹر کی طرف تیزی سے جارہا تھا اور ادیان کی زمین سے اٹھنے کی ہمت تک نہ تھی ۔۔۔پر وہ کھڑا ہوا وہ وضو کرنے گیا ۔۔وہاں سب اسے دیکھ کر حیران تھے پر اسے کوئی پرواہ نہ تھی ۔۔وہ وضو کررہا تھا وہ شاید اسکے آنسوئوں ہی کافی تھے وضو کے لئے ۔۔لوگ کہتے ہیں اللہ کی عبادت کے علاوہ رونا ناامیدی ہے پر آج اسے دیکھ کر لگ رہا تھا اللہ کی قرب کی اسے شدید ضرورت تھی ۔۔وہ کوئی بہت نیک یا عاشق رسول (ص) کا دعوہ نہیں کرتا تھا ۔۔وہ تو ایک عام انسان تھا جس اللہ اور اسکے رسول (ص) سے عشق تھا ۔۔یہ عشق کسے کو دکھانے یا اعلان کرنے کے لئے نہیں ہوتا یہ عشق تو دل سے ہوتا ہے ۔۔اور جو دل سے ہوتا ہے وہی افضل و پاک عشق ہے ۔۔۔وہ وضو کر رہا تھا آنسوئوں کا سیلاب ابھی تھما نہیں تھا وہ وضو مکمل کرکے جائےنماز پر کھڑا ہوگیا ۔۔اسنے نفل کی نیت باندھی اور وہ اللہ کو خوش کرنا چاہتا تھا اپنی بات منوانا چاہتا تھا ۔۔احمد کی زندگی چاہتا تھا ۔۔اور اسے اپنی بات منوانا آتی تھی ۔۔وہ سجدے میں جھکا ۔۔اور جو اللہ کے آگے جھکتا ہے اللہ اسے کسی کے آگے جھکنے نہیں دیتا ۔۔وہ پھر سے کھڑا ہوا ۔۔رکوع میں گیا پھر سجدہ ۔۔پھر اسنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ۔۔"دیکھ میرے خدا میں پھر تیری چوکھٹ پر ہوں ۔۔پھر بھیک مانگنے آیا ہوں ۔۔میرے خدا میں جان گیا ہوں کے تجھے اپنے گنہگار بندے کا منگنا پسند ہے وہ میں آج کسی دوسری وجہ سے تجھ سےمانگنے آیا ہوں ۔۔یا میرے خدا مجھے احمد کی زندگی دے دے ۔۔یا میرے خدا تو جو کرتا ہے وہ سب بہتر ۔۔اور تو جو نہیں کرتا وہ اس سے بھی بہتر یہ میں جانتا ہوں ۔۔پر میرے خدا احمد کی زندگی دے دے ۔۔تیرے لئے سب آسان ہے تو جانتا ہے مجھے کیا چاہیے ۔۔پھر بھی میں تیری بارگاہ میں بیان کرتا ہوں خود کے سکون قلب کے لئے ۔۔یا میرے اللہ میری مولا ۔۔مجھے میرے بھائی کی زندگی دے دے ۔۔میں تجھ سے اپنی پچھلی زندگی کا کوئی گلا نہیں کرتا ۔۔پس یہ دعا کرتا ہوں کے میرا حال سدھار دے ۔۔میری زندگی میں چند لوگ ہیں انکو تو نا چھین ۔۔ادیان کو دعا کرتے کرتے دو گھنٹے ہوگئے تھے ۔۔یک دم آپریشن تھئیٹر کا دروازہ کھولا اور ڈاکٹر خوشی سے باہر آیا ۔۔ادیان فوری کھڑا ہوا اور تیزی سے ڈاکٹر کی طرف بڑھا ۔۔ڈاکٹر بھی ادیان کی طرف ہی آرہا تھا ۔۔احمد کا آپریشن کامیاب ہوگیا ہے اسے چند گھنٹے بعد ہوش آئیگا ۔۔ڈاکٹر نے ادیان کو یہ خوشخبری دی ۔۔شکریہ ڈاکٹر بہت شکریہ ۔۔ادیان ڈاکٹر کا شکریہ ادا کر رہا تھا تب ڈاکٹر نے ادیان کی بات کاٹ کر کہا ۔۔میرا کس بات کا شکریہ ۔۔شکریہ تو آپسے کہنا چاہیے آپ نے جو خون کا انتظام کیا ۔۔اھر آپ خون کا انتظام نہ کرتے تب احمد کی جان خطرے میں تھی ۔۔ادیان یہ سن کر حیران رہ گیا ۔۔پر یہ سب اللہ کی مہربانی سوچ کر اس نے اس بات کو جانے دیا ۔۔اور ڈاکٹر کی بات میں ہاں میں ہاں ملائی ۔۔ڈاکٹر کی وہاں سے جانے کے بعد وہ وہاں بینچ پر بیٹھا اور اللہ کا دل ہی دل میں شکریہ ادا کرنے لگا ۔۔
♡♡♡♡♡♡♡
الینا کچھ دیر پہلے ہی آفس آئی تھی ۔۔آج اسکو تھوڑی دیر ہوگئ تھی ۔۔پر ادیان کے آفس میں ناموجود ہونے پر اسنے اللہ کا شکریہ ادا کیا تھا ۔۔وہ اپنا کام کر رہی تھی جب اسکے دماغ میں ایک ترکیب آئ ۔۔آج اچھا موقع دیکھ کر اسنے ادیان کا چیک کرنے کا سوچا اور وہیں سے وہ کیمرے کا ڈیٹا بھی اڑا دیگی ۔۔۔پر ادیان کے لیپٹاپ کا پاسورڈ کیسے لگانا ہے یہ اسنے سوچا نہیں تھا ۔۔الینا اب لنچ ٹائم کا انتظار کر رہی تھی جب سب کینٹین جاتے ۔۔اور اسے اپنا کارنامہ کرنے کا موقع ملتا ۔۔وہ اپنے لیپ ٹاپ پر کام کررہی تھی۔۔جب اسکی کولیگ نے بتایا احمد کے ایکسیڈینٹ کا اور ادیان آج آفس اسی لئے نہیں آیا ۔۔پر اس نے صرف سنا آگے سے کچھ جواب نہیں دیا جیسے اسے کوئی پرواہ ہی نہ ہو آخر وہ ہیں کون یہ سوچ کر الینا نے اپنے دل کو تسلی دی اور ادیان کا لیپٹاپ ہیک کرنے کی کوشش میں لگ گئ پر ہمیشہ کی طرح ناکامی کے بعد اسے آج ادیان کے کیبن میں جانا ہی تھا ہر حال میں ۔۔لنچ ٹائم کے ہوتے ہی سب کینٹین کی طرف گئے اور الینا ادیان کی کیبن میں ۔۔اسنے جلدی میں اپنے خود کے لیبٹاپ کا پاسورڈ ڈال دیا ۔۔اسکا پاسورڈ الینا تھا اور ادیان کا بھی ۔۔لیپٹاپ کو کھتے دیکھ کر اسے بےحد حیرانی ہوئی پر خوشی بھی ۔۔وہ ادیان کے لیپٹاپ میں ہر فائل دیکتی رہی پر اسے رتی برابر بھی کچھ نہیں ملا تب اسنے ایک فولڈر کھولا جس کیں ادیان کی تصویریں تھی ۔۔ اس لڑکی کی بھی اور الینا کی بھی ۔۔الینا کی کیمرے سے لی گئیں تصوریں تھیں جس میں کسٹومرز سے ڈیل کر رہی تھی کسی میں اپنی چیئر پر بیٹھے عجیب و غریب چہرے بنا رہی تھی الینا کو اپنی تصویرں دیک کر بےاختیار ہسی آئ ۔۔پر وہ لڑکی وہ کون ہے الینا کو اس بات نے تشویش میں ڈالا تھا اگر وہ پہلے کبھی ادیان نے ساتھ تھی تو اب کیوں نہیں ہے ۔۔کافی تصویروں میں اسے احمد بھی دکھائی دیا اور عالیان بھی ۔۔عالیان کی تصویر دیکھ کر الینا کے لیپٹاپ پر چلتے ہاتھ رک گئے ہونٹوں پر سے مسکراہٹ غائب ہوگئ آنکھوں میں غصہ اور آنسوئوں امد آئے ۔۔تو وہ یہ عالیان ہے وہ بس اتنا ہی کہہ سکی ۔۔وہ ایک تصویروں کا کالیج تھا جس میں عالیان کی پچپن سے لیکر اب تک کی تصویریں لگی تھی ۔۔اور وہ جھلک جو الینا کے اس دوپہر دیکھی تھی وہ اسکے سامنے واضع ہوئی تھی ۔۔وہ بےبسی اس کے وجود میں سما گئ تھی جب وہ حادثہ پیش آیا تھا ۔۔میرا کیا قصور تھا ۔۔وہ بامشکل کچھ الفاظ اپنے منہ سے نکال پائ ۔۔اب سارا ڈیٹا اسے لیپٹاپ میں جاچکا تھا ۔۔اسنے کیمرے سے اپنی کلپس ڈیلیٹ کیں اور باہر نکل گئ ۔۔اپنی چیئر پر بیٹھ کر وہ اپنے آپ کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔آج اسے پورے دن آفس میں رہنا تھا یہی اسے احکامات ملے تھے اور وہ اب اپنے دوسرے ساتھی کا انتظار کر رہی تھی ۔۔وہ اپنے اردگرد ہر حرکت کو محسوس کررہی تھی صبح سے پر اسے کوئی بھی حرکت غیرمعمولی نہیں لگی تھی ۔۔
♡♡♡♡♡♡♡
عالیان اپنے گھر میں دو دن سے بند تھا ۔۔وہ باہر لوگوں کا اس ووت مقابلہ نہیں کرنا چاہتا تھا اسے لوفروئل رکنھی تھی ۔۔وہ اپنے جنت جیسے گھر میں صوفے پر بیٹھا احمد کے مرنے کی خبر کا انتظار کر رہا تھا ۔۔جبکہ اس کے بھیجے گئے دونوں شوٹرز نے اس کے مرنے کا یقین دلایا تھا ۔۔پر وہ بھی عالیان تھا ہمیشہ ہر کام بےخوبی مکمل کرنے والا تھا ۔۔عالیان کے لئے کسی کو مروانہ کوئی بڑی بات نہیں تھی ۔۔اسکے مطابق ۔۔سب کو جانا ہے اور یہ خدا لکھ چکا ہے۔۔اب میری کیا غلطی اسے میرے ہاتھوں مروانا لکھا ہے ۔۔اسے اپنے گناہوں کو جسٹیفائے کرنا آتا تھا ۔۔وہ کچھ دیر اپنے سوچوں میں گم رہا خود کو تسلی دیتا رہا ۔۔پھر اسنے نیوز چینل لگایا ۔۔۔وہاں اسکو خبر ملی کے اسکی ایک اور بھاری مقدار میں منشیات پکڑی گئیں ۔۔یہ اسکے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں تھا ۔۔وہ تھوڑی دیر سن بیٹھا رہا ۔۔پس آنکھوں کے سامنے وہ نیوز تھی اور دماغ میں احمد کا چہرا ۔۔پر احمد تو ہسپتال میں ہے یک دم عالیان کو یہ جھٹکا لگا ۔۔ایک اور دشمن ۔۔کون ہے یہ آستین کا سانپ ۔۔عالیان نے سوچتے ہوئے کہا ۔۔وہ کافی نارمل لگ رہا تھا اب ۔۔آخر ٹینشن سے فائدہ کیا ۔۔عالیان کی سوچ احمد کو ہمیشہ سے متاثر کرتی تھی ۔۔عالیان احمد کا آئیڈیل تھا ۔۔وہ ایک دفعہ پارٹی میں ملے تھے ۔۔جب احمد اپنے بابا کے ساتھ کھڑا مختیار صاحب سے مخاطب تھا ۔۔جب مختیار صاحب نے اسے عالیان سے اسکا تعارف کروایا تھا ۔۔عالیان اور احمد صوفے پر جاکر بیٹھ گئے ۔۔
عالیان؛ اور احمد صاحب کیا پلین ہے آپکا ۔۔بزنس یا کچھ اور ۔۔عالیان اسکی رائے لے رہا تھا ۔۔
احمد؛ بزنس ہی کرنگا ۔۔ادیان بھائی بھی بزنس ہی کر رہے تھے ۔۔
عالیان؛ اچھا ہاں ادیان اچھا بزنس مین ہے ۔۔پر اگر تم چاہو تو میں تمہیں گائیڈ کرسکتا ہوں ۔۔عالیان نے خوشمزاجی سے آفر کی ۔۔
احمد نے وہ آفر خوشی سے قبول کی ۔۔اور عالیان نے اسے اپنس کارڈ اسے تھمادیا ۔۔
عالیان؛ تمہاری تعلیم کہاں تک ہے ۔۔
احمد؛ یار اینجینئرنگ کی ہے پر شوق نہیں بلکل ۔۔بابا کا شوق تھا پورا کردیا ۔۔اب اپنا شوق پورا کرنگا ۔۔
عالیان؛ گڈ ویری گڈ ۔۔عالیان یہ کہہ کر صوفے سے اٹھ کر چلا گیا ۔۔احمد بھی اپنے بابا کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا ۔۔وہ ایکسائیٹڈ تھا اب اسے بزنس کرنا تھا جو اسکی خواہش تھی ۔۔
♡♡♡♡♡♡♡