احمد کے جانے کے بعد ادیان نے کیمرا آن کیا ۔۔تب اسے الینا دکھی ۔۔وہ کچھ کسٹومرز سے ڈیل کر رہی تھی ۔۔ادیان اپنا کام کرتے کرتے بیچ بیچ میں الینا کو کیمرے میں دیکھ لیا تھا ۔۔۔آدھے گھنٹے بعد ۔۔الینا ادیان کے آفس میں آئ ۔۔
الینا؛ سے یہ آپکو دکھانا تھا ۔۔الینا فائل آگے کرنے لگی ۔۔
ادیان؛ مس الینا ۔۔آپ آج ایک منٹ لیٹ تھیں تو ایک منٹ بعد ہی میں یہ فائل دیکھوں گا ۔۔ادیان نے سنجیدگی سے کہا ۔۔
الینا؛ جی سے ۔۔آپکی مرضی آپ جب دیکھیں ۔۔الینا نے جان چھڑاتے ہوئے جواب دیا۔۔فی الحال وہ کسی بہس میں نہیں پڑنا چاہتی تھی ۔۔ادیان بیٹھا رہا ۔۔ایک منٹ بعد اسنے ینا کے ہاتھ سے فائل لی ۔۔
ادیان؛ مس الینا۔۔کیا آپ کسٹومرز سے ڈیل کرنا بھول گئیں ہیں ۔۔ادیان نے سنجیدگی سے کہا ۔۔
الینا؛ سر ۔۔میں سمجھی نہیں۔۔
ادیان؛ میں نے کیمرے میں آپکو دیکھا ۔۔آپ کو اپنا۔۔۔وے آف ٹاکنگ تبدیل کرنا چاہیے ۔۔ادیاننے اسے ہدایت کی ۔۔
الینا؛ سر آپ کیمرے میں مجھے ہی دیکھتے رہتے ہیں ۔۔الینا نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا ۔۔
ادیان؛ مس الینا۔۔۔میں سمجھا نہیں آپ نے کیا کہا ۔۔
الینا؛ کچھ نہیں سر ۔۔میں کوشش کرونگی ۔۔الینا نے مصنوعی سنجیدگی سے جواب دیا ۔۔
ادیان؛ ڈیٹس گڈ ۔۔۔یو کین گو نائو ۔۔ادیان نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔اس لمحے الینا کو اپنی شدید بیزاتی محسوس ہوئ ۔۔پر وہ کچھ کہے بغیر باہر نکل گئ ۔۔۔۔الینا کے جاتے ہی ادیان کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری ۔۔اسے اب مزا آنے لگا تھا الینا کو چڑانے میں ۔۔اور اپنے زندگی میں۔۔اب وہ بے مقصد نہیں جی رہا تھا ۔۔وجہ مل گئی تھی ۔جینے کی--
الینا؛ سمجھتا کیا ہے یہ شخص اپنے آپ کو ۔۔کبھی اتنا اچھا بنتا ہے ۔۔کبھی اتنا برا ۔۔واقع سمجھ سے باہر ہے ۔۔الینا منہ بناتی اپنی ٹیبل پر بیٹھ گئ ۔۔۔فائل کھولتے ہوئے اسے یاد آیا کے ادیان کا سائن بھی کروانا تھا ۔۔۔یا اللہ اتنا امتحان مت لیں ۔۔الینا نے اوپر دیکھتے ہوئے کہا ۔۔اور فائل اٹھائے دوبارہ ادیان کے کیبن میں گئ ۔
الینا؛ سر آپ نے سائن نہیں کیا پیپر پر وہ کردیں ۔۔الینا نے روکھے انداز میں ادیان سے کہا ۔۔
ادیان؛ اول تو آپ کو میں یہ یاد دلانا چاہونگا کے میں آپکا باس ہوں ۔۔اور اخلاقیات بھی کوئی لفظ ہے ۔۔آپ سمجھ تو گئیں ہونگی کے میں نے یہ کیوں کہا ۔۔اس لئے اگلی مرتبہ دیہان رکھیے گا ۔۔
الینا؛ جی سر ۔۔الینا کے آنکھوں میں نمی اتری ۔۔
ادیان؛ دوسری بات ۔۔میں اپنے ورکرز سے چاہتا ہوں کے وہ اپنے دماغ کو حاضر رکھیں ۔۔یہ کہتے ہوئے ادیان نے اسکے ہاتھ سے فائل لی اور سائن کیا ۔۔۔آپ جاسکتی ہیں ۔۔ادیان نے تنبہہ کی ۔۔
الینا؛ اوکے کہتی ہوئی کیبن سے باہر نکلی ۔۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔۔وہ کرسی پر بیٹھی رہی تھوڑی دیر ۔۔پھر سر جھٹک کر اپنا کام دوبارہ شروع کیا ۔۔
¤♡♡♡♡♡♡¤
احمد ؛ جبار سری لنکا والا کام کروایا تم نے۔۔ حمد نے غصے سے پوچھا۔۔
جبار؛ شروم کے کام میں بزی تھا ۔۔پر جلدی کروا دونگا ۔۔جبار نے جواب دیا۔۔
احمد؛ یار وہ مجھے جان سے مار دیگا ۔۔احمد نے اسٹیرنگ پر غصے سے ہاتھ مارا ۔
جبار؛ کون ہے وہ آخر ۔۔اور کیوں تم اس کے لئے ایسے کام کرتے ہو ۔۔جبار نے ہمدردی سے پوچھا۔۔
احمد؛ میرا ایک راز اسکے پاس ہے جبار ۔۔میں بےبس ہوں ۔۔وہ شخص سب کے سامنے بہت شریف بنتا ہے ۔۔پر ایک نمبر کا خابیس انسان ہے ۔۔احمد نے تلخ آواز میں کہا۔۔
جبار؛ تو تم کیوں مان رہے ہو اسکی بات ۔۔ہم اسکو مل کر پھساتے ہیں ۔۔کوئ تو اسکی کمزوری ہوگی ۔۔۔بس وہ ہاتھ میں آجائے ۔۔پھر تمہاری جان چھوٹ جائے گی ۔۔تم یقہن رکھو احمد ۔۔تم نے میری جان بچاکر مجھے خرید لیا ہے احمد ۔۔اب میں تمہاری جان بچائونگا ۔۔بے فکر رہو میرے دوست ۔۔جبار نے احمد کے کندھے کو تھپتھپایا ۔۔احمد نے اطمینان سے ہامی میں سر ہلایا ۔۔
♡♡♡♡♡♡
ادیان آفس میں بیٹھے ہوئے اپنا کام کر رہا تھا ساتھ میں چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔۔وہ ہرٹ ہوئی تھی پر اسے مزا آرہا تھا ۔۔وہ اسکا کل ردعمل دیکھنے کے لئے بےتاب تھا ۔۔۔زندگی خوبصورت ہے ۔۔ہاں خوبصورت ہے ۔۔یہ آواز اسکے دل سے آئ تھی ۔۔اتنے عرصے بعد اللہ نے اسے خوشی دی تھی ۔۔وہ جانتا تھا اللہ اس سے وہ چھینے گا نہیں ۔۔اللہ ظالم نہیں ۔۔وہ جانتا تھا ۔۔پر آزمائش ۔۔وہ یک دم سوچ میں پڑ گیا ۔۔اللہ آزماتا ہے ۔۔دل جس بات پر نہیں مانتا ۔۔اللہ اسی بات پر آزماتا ہے ۔۔پر صبر تو میری فطرت میں ہے ۔۔پہلے ماں باپ کے وفات پر صبر کیا ۔۔اب میرے اللہ مجھے آزمائش میں مت ڈالیے گا ۔۔وہ دل ہی دل میں اللہ سے التجا کر رہا تھا ۔۔اس وقت اسنے اللہ کو اپنے سب سے قریب پایا تھا ۔۔اپنی سب سے پاک و خالص جگہ پر ۔۔اپنی روح میں ۔۔
♡♡♡♡♡♡
الینا کام میں مصروف تھی جب اسکا موبائل بجا ۔۔الینا نے نام دیکھتے ہی کال کاٹ دی ۔۔اسے مختصر وقت کے لئے باہر جانا تھا ۔۔اسے ادیان کی شکل سے نفرت ہو رہی تھی ۔۔میں جارہی ہوں سارا ۔۔تم سر کا بتادینا ۔۔الینا اپنی ساتھ وسلی کرسی پر بیٹھی دوست کو بتا کر وہاں سے نکل گئ ۔۔گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے وہ کال ملانے لگی ۔۔جی کیپٹن میں پہنچ رہی ہوں ۔۔الینا نے فون رکھا اور گاڑی میں بیٹھ خر گاڑی اسٹارٹ کی ۔۔اسے اپنی مقمی جگہ پر پہنچنے میں تقریبا دس منٹ لگے ۔۔اس دفعہ اس نے گاڑی پارک کی اور پارکنگ کے نچلے حصے کی طرف بڑھ گئ ۔۔۔سامنے کیپٹن ابرار تھے ۔۔
الینا؛ جی سر ۔۔الینا نے سر جھکا کر سلام کیا اور اپنے بات شروع کی ۔۔
ابرار؛ اپکے کام کتنا آگے بڑھا ۔۔کیپٹن نے تلخ لہجے میں پوچھا ۔۔
الینا؛ سر احمد اکیلا نہیں اس کے ساتھ جبار بھی شامل ہے بس اب جبار کا پیچھا کرنا ہے ہم اصل شخص تک پہنچ جائیں گے ۔۔الینا نے بتایا ۔۔
کیپٹن؛ مس الینا۔۔۔آپکی کچھ زیادہ نزدیکیاں بڑھ رہی ہیں مسٹر ادیان کے ساتھ ۔۔۔آپ اسے کم کریں ۔۔اور دور رہیں ۔۔اپنے فرض کو نہ بھولیں ۔۔کیپٹن ابرار نے سنجیدگی سے کہا ۔۔
الینا؛ سر وہ صرف ایک مہرا ہے اور کچھ نہیں ۔۔میری جان سے زیادہ مجھے میرا فرض عزیز ہے ۔۔الینا نے اطمینان سے جواب دیا ۔۔
کیپٹن؛ آپ کل کافی شاپ جائیں گی ۔۔شام پانچ بجے ۔۔ٹھیک ۔۔ابرار نے تنبہہ کی ۔۔
الینا؛ ٹھیک سر ۔۔الینا نے سلام کرکے وہاں سے نکل گئ ۔۔
♡♡♡♡♡♡♡♡
الینا واپس گاڑی میں آکر بیٹھی ۔۔اب آفس جاکر اسے ادیان کا سامنا کرنا تھا ۔۔ناجانے وہ شخص کیسا ہے۔۔۔کبھی اتنا سچھا کبھی اتنا برا ۔۔مجھے بس دور رہنا ہے اس سے ۔۔وہ اپنے دل کو اطمینان سے سمجھا رہی تھی ۔۔۔وہ دوبارہ آفس دس منٹ میں پہنچ گئ تھی ۔۔وہ اخلاق توقع ادیان اسکا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔وہ اندر داخل ہوئی ۔۔
الینا نے فوری ادیان کو مخاطب کیا ۔۔
الینا؛ سر مجھے بہت ضروری کام تھا ۔۔اس لئے گئ تھی ۔۔سارا کو بتا دیا تھا ۔۔الینا نے اپنی صفائی پیش کی ۔۔
ادیان؛ مس الینا ۔۔یہ کہہ کر ادیان کچھ لمحے کو رکا ۔۔آپ چاہتی ہیں پورے دن مجھ سے ڈانٹ کھانا ۔۔کیا میں سہی کہہ رہا ہوں ۔۔ادیان نے سوالیہ نظروں سے الینا کو دیکھا ۔
الینا سر جھکائے کھڑی رہی ۔۔
ادیان؛ میں آپ سے مخاطب ہوں مس الینا ۔۔
الینا؛ میں جانتی ہوں سر ۔۔آپکو بتانے کی ضرورت نہیں ۔۔آپ کہتے رہیں میں سن رہی ہوں ۔۔الینا نے چڑتے ہوئے کہا ۔۔
ادیان؛ کیا کہا آپ نے مس الینا ۔۔شاید میں نے غلط سنا۔۔ادیان نے نہ سمجھنے والے انداز میں کہا ۔۔
الینا؛ سر آپ نے بلکل سہی سنا ۔۔اب میں کام کرلوں ۔۔اگر آپکی اجازت ہو ۔۔الینا نے اپنے کرسی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
ادیان؛ اگر میں اجازت نہیں دوں تو؟ ادیان نے اپنے چہرے پر سے مسکراہٹ چھپائ ۔۔
الینا؛ تو پھر میں واپس چلی جاتی ہوں ۔۔اور کیا کہہ سکتی ہوں ۔۔الینا نے جان چھڑاتے ہوئے کہا ۔۔
ادیان ؛ آپ کچھ زیادہ روڈ نہیں ہو رہیں مس الینا ۔۔ادیان نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا ۔۔
الینا؛ آپ مجبور کر رہے ہیں ۔۔الینا نے جواب دیا ۔۔
ادیان؛ شاید یہاں آپکا دوست نہیں ۔۔باس ہے ۔۔ادیان نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
الینا ؛ جی میں جانتی ہوں کون ہے میرے سامنے ۔۔اب میں کام کرلوں ۔۔الینا یہ کہتے ہوئے اپنے ٹیبل کی طرف بڑھ گئ ۔۔
ادیان اسے دیکھتا ہی رہ گیا ۔۔وہ الینا کے اس لہجے سے پہلی دفعہ متعارف ہوا تھا ۔۔۔خیر وہ اسکی ہر ادا کا دیوانہ تھا ۔۔چاہے وہ غصہ ہی کیوں نہ ہو۔۔
♡♡♡♡♡♡
عالیان؛ احمد کو جان سے ماردو جبار ۔۔یہ میرا حکم ہے اب وہ پاکستان واپس نا آپائے ۔۔
جبار؛ بہت جلد سر ۔۔جبار نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔۔
عالیان؛ تم میرے ہی کتے ہو جبار ۔۔مجھے تم جیسا وفادار ہی چاہیے ۔۔عالیان نے فخر سے کہا ۔۔
جبار؛ سر میرا تحفہ تیار رکھیے گا ۔۔جبار نے یاد دہانی کروائ ۔۔
عالیان؛ بے فکر رہو جبار ۔۔جب حکم کرو تب ریڈی ہوگا ۔۔
جبار؛ حکم نہیں سر ۔۔التجا ہے ۔۔
سر آپ پر جو ریپ کیس تھا وہ ختم ہوگیا ۔۔جبار نے پوچھا ۔۔
عالیان؛ لڑکی ہی نہیں رہی ۔۔کیس کہاں ہوگا ۔۔عالیان نے قہقہا لگایا ۔۔جبار بھی مسکرادیا ۔۔۔
جبار؛ وہ کہاں گئ سر ۔۔۔مر گئ ۔۔جبار نے سوال پوچھا ۔۔
عالیان؛ نہیں وہ پتا نہیں کہاں سے کہاں ہوگئ ۔۔میرا کیا جائے ۔۔عالیان نے لاپرواہی سے کہا ۔۔
¤♡♡♡♡♡♡¤
شام کے پانچ بجے وہ کافی شاپ پہنچ گئ تھی ۔۔وہ اندر داخل ہوئ تب ادیان ایک لڑکی کے ساتھ بیٹھا باتیں کررہا تھا ۔۔الینا حیرانی سے اسے دیکھنے لگی ۔۔تبھی موبائل بجا ۔۔اس نے بامشکل موبائل نکالا ۔۔کیپٹن کا میسج تھا ۔۔
"دل کا ٹوٹنا ہی انسان کو مضبوط کرتا ہے
آپ اس کی مثال بنیں گی "
وہ سمجھ گئ تھی ۔۔کے ابرار اس کی احساسات کو سمجھ گئے تھے تبھی اسے انھوں نے یہاں بھیجا ۔۔حقیقت سے متعارف کرنے کے لئے ۔۔زندگی کی حقیقت دکھانے کے لئے ۔۔سب خودغرض ہوتے ہیں ۔ ٹوٹ تو بہت پہلے گئ تھی جب اسکی بےحرمتی کی گئ تھی ۔۔۔وہ تکلیف اسکے دل کو ہلا دیتی تھی ۔۔پر اسے اب انصاف نہیں بدلہ چاہیے تھا جو وہ بہت جلد لیگی ۔۔اور اب یہ محبت ۔۔۔واقع اسکا فرض اسے اس چیز کی اجازت نہیں دیتا تھا جو وہ کر بیٹھی تھی ۔۔پر ابھی وقت اسکے ہاتھ میں تھا۔۔وقت اسکے ہاتھ میں تھا ۔۔وہ ٹوٹی نہیں تھی صرف احساسات جو غلط راہ پر لے جارہے تھے اب انکا سلسلہ تھما تھا ۔ ۔۔۔شاید وہ ملا تھا تو لگا تھا مل گئیں تھیں منزلیں ۔۔پر صرف دو پل کا ہی تھا خوابوں کا کارواں ۔۔وہ پھر چل دیئے تم کہاں ہم کہاں۔
الینا کو وہاں دو پل رکنا بھی گوراہ نہ تھا ۔۔وہ وہاں سے نکل گئ ۔۔گاڑی سو کی رفتار سے چلاتے ہوئے وہ گھر پہنچی ۔۔اور اپنے پرس سے موبائل نکالا ۔۔کیپٹن ابرار کی میسج اسکے موبائل کی سکرین پر جگمگا رہا تھا ۔۔اس نے نا چاہتے ہوئے اس میسج کو کھولا ۔۔۔
" آہستہ مس الینا ۔۔آہستہ " یہ میسج پڑھ کر اسے احساس ہوا کے اگر وہ ٹریفک پولیس اسے روک لیتی تب وہ واقع مشکل میں پڑجاتی ۔۔پر خیر ۔۔اب جو ہوگیا سو ہوگیا ۔۔وپ اپنے کمرے میں گئ ۔۔اب اسے یہ بھی دیکھنا تھا کے کل جبار اور احمد اسکے کمرے سے کیا کیا لے کر گئے ہیں ۔۔اسنے اپنی الماری کا دروازہ کھولا ۔۔الماری کی آخری دراز جس میں اسکا پاسپورٹ رکھا تھا وہ جا چکا تھا ۔۔چونکہ وہ نکلی تھا اس لئے اسے کوئ پرواہ نہ تھی پر اب اسے کسی چیز کی پرواہ نہ تھی ۔۔۔رات کو آنکھیں بند تکیے سے ٹیک لگائیے وہ بیٹھی تھی سوچوں میں گم ۔۔وہ نہیں جانتی تھی جو شخص اس کی اتنی بیزاتی کرتا ہے ۔۔اتنا رسوا کرتا ہے ۔۔پر اللہ اسے اس شخص کے در پر کیوں بھیج رہا ہے ۔۔کیا اللہ اس سے ناراض ہے ۔۔کیا اس کے لئے اس میں بہتری ہے ۔۔وہ نہیں جانتی تھی ۔۔شاید اللہ اس سے ناراض ہے تبھی اللہ نے اسے عشق جیسے مرض میں مبتلا کیا ۔۔وہ جان گئ تھی ۔۔اسے ادیان کی کوئ بات کا کوئ غم نہیں تھا ۔۔عشق تو وہ ہوتا ہے نا جس میں اچھی بات اچھی پر بری بات بھی بری نہیں لگتی ۔۔۔نا چاہتے ہوئے بھی اس کی طرف کھیچے چلے جانا ۔۔آج کا واقعا اسے یاد تھا ۔۔پر شاید اس سے کوئ فرق نہیں پڑا تھا ۔۔محبت نہیں تھی یہ عشق تھا ۔۔
♡♡♡♡♡♡
ٹھنڈی ہوائوں کے درمیان ادیان سمندر کی لہروں میں پیر مارتا بیچ پر ٹہل رہا تھا ۔۔موبائل اسکے ہاتھ میں تھا ۔۔تب اسنے ایک مولانا کا بیان لگایا ۔۔ہیڈفونز اسکے کانوں میں لگے تھے ۔۔لوگ نا ہونے کا برابر تھے ۔۔اور اسکے کانوں میں بیان کی آواز گونج رہی تھی ۔۔بیان میں مولانا دو جہانوں کے بادشاہ کے محبوب حضرت محمد (ص) اپنے زوجہ حضرت عائشہ (رض) کی ایک قیمتی گفتگو کا تذکرہ کر رہے تھے ۔۔
رسول اللہ(ص) نے فرمایا : آج میں بہت خوش ہوں عائشہ ۔۔مانگو کیا مانگنا چاہتی ہوں ۔جو مانگو گی وہ دیا جائے گا ۔۔
حضرت عائشہ نے فرمایا ؛ یا رسول اللہ ۔۔میں اپنے ابو حضرت ابو بکر صدیق(رض) سے مشورہ کرکے مانگنا چاہتی ہوں ۔۔آپ (ص) نے اجازت دی ۔۔حضرت عائشہ نے جب یہ سب بتایا تب حضرت ابو بکر صدیق(رض) نے فرمایا ؛ عائشہ ۔۔اللہ کے رسول اکرم (ص) سے پوچھو کے معراج کی رات اللہ اور ان کے درمیان جو بتیں ہوئیں ۔۔ان میں سے کوئی ایک بات بتائیں ۔۔
حضرت عائشہ آپ(ص) کے پاس آئیں اور یہ سوال دہرایا جس پر آپ(ص) نے فرمایا : عائشہ اللہ نے مجھ سے فرمایا ۔۔کے جو بندہ کسی دوسرے بندے کا ٹوٹا ہوا دل جوڑے گا ۔۔تو وہ جنتی ہے ۔۔یہ سن کر حضرت عائیشہ خوش ہوگئیں ۔۔اور فوری حضرت ابو بکر (رض) کے پاس گئیں ۔۔اور ساری بات بتائی ۔۔جسے سن کر حضرت ابو بکر (رض) اداس ہوگئے ۔۔حضرت عائیشہ نے فرمایا؛ ابو جان اتنی کم عمل پر جنت مل رہی ہے ۔۔اور آپ اداس ہیں ۔۔حضرت ابو بکر نے فرمایا؛ عائیشہ میں اس لئے اداس ہوں کیونکہ دل جوڑنے پر جنت جیسی شے مل رہی ہے ۔۔تو سوچو دل دل توڑنے پر کیا ہوگا ؟ یہاں بیان کا اختتام ہوا ۔۔ادیان کے چہرے پر نمی اتر آئی ۔۔ادیان کی آنکھوں کے سامنے وہ پل آئے جس میں اسنے الینا کی بیزاتی کی ۔۔اسکا دل دکھایا ۔۔اور پھر اللہ نے اسے یہ سنوایا ۔۔وک سمجھ گیا تھا اس ٹوٹے دل کو اسی کو جوڑنا ہے ۔۔یہ کام اللہ اسی سے کروانا چاہتا ہے ۔۔اللہ چسہتا ہے وہ الینا سے معافی مانگے تو وہ مانگے گا ۔۔وہ ادیان کو ملے نہ ملے ۔۔پر جو اللہ کی رضا ہے وہی ادیان کی رضا ہے ۔۔وہ فوری اپنی گاڑی کے طرف بڑھا اور الینا کے گھر کے طرف جانے والی سڑک پر اپنی گاڑی کا رخ کیا ۔۔
♡♡♡♡♡♡♡♡
عالیان اپنے آفس کی عمارت کے ٹاپ فلور پر کھڑا احمد کو کال ملا رہا تھا دوسری ہی گھنٹی پر احمد نے کال کا جواب دیا ۔۔
احمد ؛ کیسے ہو عالیان ۔۔کیسے فون کیا ۔۔احمد نے روکھے انداز میں کہا ۔۔
عالیان؛ الفاظ ادا کر رہے ہو یا مار رہے ہو ۔۔عالیان نے خوش مزاجی سے پوچھا۔۔
احمد؛ جو سمجھو تم ۔۔۔کیوں فون کیا ہے ۔۔احمد نے اپنا تلخ لہجا برقرار رکھا ۔۔
عالیان؛ تمہاری خیرت کے لئے ۔۔اور کوئ کام تھوڑی ہوسکتا تم سے ۔۔عالیان نے طنزیہ کہا ۔۔
احمد؛ میں ٹھیک ہوں ۔۔خدا حافظ ۔۔احمد نے فون رکھنا چاہا ۔۔
عالیان؛ رکو رکو ۔۔اتنی جلدی بھی کیا ہے مسٹر ۔۔عالیان نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔
احمد؛ تو کرو بکواس ۔۔ٹائم نہیں ہے میرے پاس ۔۔احمد نے اکتاکر کہا ۔۔
عالیان؛ یاد ہے تم نے ایک کام سر انجام دیا تھا احمد ۔۔عالیان نے اپنا نرم لہجا برقرار رکھا ۔۔
احمد؛ میں نے کچھ نہیں کیا تھا عالیان ۔۔تم نے کیا تھا جو بھی کیا تھا ۔۔احمد کی آواز میں درد تھا غصہ تھا یا پھر اس وقت اس جگہ ہونے کا پچھتاوا ۔۔
عالیان؛ بیگس تم تک پہنچا دیئے ہیں ۔۔اس میں ڈرگس ہیں ۔۔دے دے نا اس کمپنی کو ۔۔عالیان نے سنجیدگی سے کہا ۔۔
احمد؛ اب میں تمہارا کام نہیں کرونگا عالیان ۔۔بہت کھیل لیا تم نے مجھ سے ۔۔اب بس ۔۔احمد نے یہ کہتے ہی فون کاٹ دیا ۔۔اب احمد کو اپنا ہر قدم سمنبھل کر رکھنا تھا ۔۔وہ جانتا تھا اب اسکی جان کو خطرہ ہے ۔۔پر اسے اب ایک کام کرنا تھا جو بہت ضروری تھا ۔۔
♡♡♡♡♡♡♡♡
ادیان الینا کے گھر پہنچا اور بنا کچھ سوچے سمجھے اس کے گھر کی گھنٹی بجائ ۔۔پہلی ہی گھنٹی پر آسیا نے دروازہ کھولا ۔۔
آسیا: آپ کون ۔۔آسیا نے اسکی پاکستانیوں جیسی شکل و صورت دیکھ کر اردو میں کہا ۔
ادیان؛ میں ادیان ۔۔الینا کا باس ۔۔ادیان نے نرم لہجے میں جواب دیا ۔۔یہ سن کر آسیا نے شفقت سے ادیان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے اندر لے گئیں ۔۔
ادیان؛ آنٹی آپ کا گھر تو بہت اچھا ہے ۔کس نے ڈیکوریٹ کیا ہے ۔۔ادیان نے گھر کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
آسیا؛ ایک ہی تو بیٹی ہے میری الینا ۔۔وہی کرتی ہے سب ۔۔آسیا نے اداسی سے کہا ۔
ادیان؛ آنٹی تو اس میں اداس ہونے والی کونسی بات ہے ۔۔بیٹیاں بیٹوں سے کم تھوڑی ہوتی ہیں ۔۔ادیان نے کہا ۔۔
آسیا؛ نہیں نہیں وہ بات نہیں ہے ۔۔میری بیٹی تو شیر ہے ۔۔پر کوئی انسان اسکا شکار نہ کرلے ۔۔۔اس سے ڈر لگتا ہے ۔۔آسیا نے اداسی سے کہا ۔۔
ادیان نے نا سمجھتے ہوئے آسیا کی طرف دیکھا ۔۔آسیا نے اسکی نظروں کے کئے گئے سوال کا جواب دیا ؛ آیک دفعہ شکار ہوا تھا ادیان اسکا ۔۔وہ ٹوٹ گئ تھی بری طرح ۔۔پر اللہ نے اسے بکھرنے نہیں دیا ۔۔اب وہ ایک زخمی شیر ہے ۔۔جسکا ماضی خوفناک ہے ۔۔پر آنے والے کل کو اسنے خود خراب کردینا ہے ۔۔آسیا نے اپنے دل کی ساری باتیں کہہ ڈالی ۔۔
ادیان؛ اسکا کل خراب نہیں ہوگا آنٹی ۔۔یہ وعدہ ہے میرا آپ سے ۔۔ادیان نے انھیں امید دلائی ۔۔
آسیا؛ وعدہ مت کرو ادیان ۔۔کل کیا ہوگا کسی کو نہیں پتا ۔۔آئیندہ وعدہ مت کرنا ۔۔آسیا نے تلخ لہجے میں کہا ۔۔
ادیان؛ ٹھیک ہے آنٹی ۔۔۔اور بتائیں ۔۔الینا کہاں ہے ۔۔ادیان نے بات کا رخ موڑا ۔۔
آسیا؛ گئ ہوگی کہیں ۔۔وہ بہت گھومتی رہتی ہے ۔۔گئ ہوگی کہیں ۔۔
ادیان؛ ویسے آنٹی ۔۔کبھی کبھی آنکھیں سب کچھ کہہ جاتی ہیں ۔۔جو زبان سے کہنا ممنوع ہوتا ہے ۔۔میں سمجھ گیا ہوں آنٹی ۔۔آپ الینا کو مت بتائیے گا میرے بارے میں ۔۔اب میں چلتا ہوں ۔۔ادیان گیٹ کی طرف بڑھ گیا ۔۔آسیا اسکے پیچھے پیچھے گیٹ تک چھوڑنے آئیں ۔۔اسکے سر کو چوما ۔۔اور خوب دعائیں تھی ۔۔ادیان کو آسیا میں اسکی ماں محسوس ہوئیں ۔۔پر ابھی وہ ان سے یہ کہہ نہیں سکتا تھا ۔۔وہ پر بات کہہ دینے والا نہیں تھا ۔۔
♡♡♡♡♡♡♡
احمد سڑک کے کونے میں لگا رسیور اٹھا کر پولیس کو کال کرنے لگا ۔۔آج مسٹر ادیان کے شروم کے ایک کلو میٹر آگے ایک پارک میں ڈرگس سپلائے ہونگے ۔۔ہو سکے تو روک لئے گا ۔۔یہ کہتے ہی اسنے فون بند کردیا ۔۔وہ پولیس اتنی قابل ہے کے اب وہ خود اپنا کام کردیگی ۔۔اور جہاں تک ادیان کے شروم کی بات ہے تو وہ پورے شہر میں مشہور ہے ۔۔اب گئے تم عالیان ۔۔تمہیں برباد کردونگا میں۔۔بہت استعمال کرلیا تم نے مجھے ۔۔اب نہیں ۔۔وہ یہ کہتا ہوا اپنا گاڑی میں بیٹھا اور ادیان کے گھر کے طرف نکل گیا ۔۔۔
♡♡♡♡♡♡♡