صبح کی آمد آمد تھی۔ سپیدہ سحر نمودار ہو رہا تھا۔ ایسے میں سڑک پر ایک سیاہ بند وین تیزی سے دوڑ رہی تھی۔ وین کے اندر چار آدمی بیٹھے تھے۔ ایک شخص نقاب پہنے بیٹھا تھا۔ وہ ان کا سرغنہ تھا۔
اچانک سرغنہ بولا۔ ’’ہمدانی۔۔۔ کام نہایت ہوشیار اور تیزی سے کرنا ہے ۔۔۔ جس کے ذمے جو کام ہے اسے اپنے دماغ میں بٹھا لے، جیسے ہم اس گاڑی میں بیٹھے ہیں۔ مسٹر علی۔۔۔ تم نے وقت ضائع کیے بغیر پروفیسر کے احمق اسسٹنٹ کو قابو کرنا ہے۔ جمال۔۔۔ تم اس خونخوار کتے کو بے ہوش کرو گے ۔۔۔ کوئی بھی اپنی مرضی سے کوئی دوسرا قدم نہیں اٹھائے گا۔‘‘ باس کی آواز میں یک لخت بے پناہ کرختگی عود کر آئی تھی۔
علی، جمال اور اسٹیرنگ پر بیٹھے ہوئے ہمدانی کے دل کی دھڑکنیں وین سے زیادہ تیز ہو گئیں۔ خاص طور پر جمال کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں ابھر آئی تھیں۔ وہ دل کا مریض تھا، کیوں کہ وہ پہلے بھی اپنے باس کا ساتھ دیتا آیا تھا، اس لیے اس مرتبہ بھی انکار نہ کر سکا۔ وہ لوگ جانتے تھے کہ ان کا نقاب پوش کوئی غیر ملکی ہے۔
باس کہہ رہا تھا۔ ’’اس بے وقوف سراج خان نے خواہ مخواہ یہ مصیبت ڈال دی اور نا جانے خود کس بل میں جا کر چھپ گیا ہے ۔۔۔ یہ تو اتفاق ہوا کہ مجھے اپنے خفیہ ذرائع سے علم ہو گیا کہ اس کی فائل اب پروفیسر نجیب کے پاس ہے ۔۔۔ ویسے اس سنکی بڈھے سے فائل حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔‘‘
باس کے خاموش ہوتے ہی علی بول پڑا ’’باس۔۔۔ پروفیسر نے اپنی حفاظت کے لیے بھی انتظامات کر رکھے ہوں گے؟‘‘
’’بے فکر رہو۔۔۔‘‘ باس نے اس بیگ پر ہاتھ پھیرا، جو اس کے برابر میں رکھا ہوا تھا۔ ’’اس کے ہر زہر کا تریاق میرے پاس موجود ہے۔‘‘
اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ جوں جوں فاصلہ کم ہوتا جا رہا تھا، جمال کی شریانوں میں خون کے دوڑنے کی رفتار بڑھتی جا رہی تھی۔
اچانک ہمدانی بولا ’’باس۔۔۔ پروفیسر کی کوٹھی آ گئی ہے ۔۔۔‘‘
وہ لوگ چوکنے ہو کر بیٹھ گئے۔ ہمدانی نے وین پروفیسر کی کوٹھی سے کچھ فاصلے پر ایک بنگلے کی دیوار کی ساتھ روک دی۔ دونوں بنگلوں میں کچھ فاصلہ تھا۔ درمیان میں ایک چوڑی سڑک بھی حائل تھی۔ چاروں خاموشی سے اترے۔ بیگ باس نے خود پکڑا ہوا تھا۔ باقی تینوں نے ابھی اسلحہ نہیں نکالا تھا۔ قرب و جوار میں کوئی بھی نہ تھا۔ صبح کی روشنی بڑھنا شروع ہو گئی تھی۔ درختوں پر خوش الحان پرندے چہچہا رہے تھے۔ یہاں کے لوگ شاید دیر سے اٹھنے کے عادی تھے۔
باس نے اپنے لباس سے ایک ریموٹ کنٹرول نما لمبی اور چپٹی سی شے نکالی اور اس کا رخ میں گیٹ کی جانب کر کے ایک بٹن دبا دیا۔ اگلے ہی لمحے اس شے کا ننھا منا سا سبز بلب جلنے بجھنے لگا۔ باس کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس جدید ترین ایجاد نے دروازے کے اندر کے تمام میکنزم کو لاک کر دیا تھا۔ دروازے میں ایک خفیہ کیمرا بھی نصب تھا، جو ان کی تصاویر لے چکا تھا، مگر ریموٹ نے ان کی تمام میموری ڈیلیٹ کر ڈالی تھی۔ کیمرے میں اب کچھ باقی نہیں بچا تھا۔
پھر ایک کھٹکے کے ساتھ دروازہ کھل گیا اور وہ چاروں پھرتی سے اسلحہ نکال کر اندر داخل ہو گئے۔ وہ اس عمارت کا نقشہ دیکھ چکے تھے، اس لیے انہیں تجربہ گاہ کے دروازے تک پہنچنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ انہیں کہیں بھی پروفیسر کا اسسٹنٹ اور اس کا کتا نظر نہیں آئے تھے۔ باس نے تجربہ گاہ کے دروازے پر بھی ریموٹ آزمایا، لیکن یہاں ناکامی ہوئی۔ اس نے بیگ میں سے ایک پانچ روپے کا جیسا سکہ نکالا اور دروازے سے چپکا دیا۔ یہ ایک پاور فل میگنٹ بم تھا۔ جتنا طاقت ور دھماکا کرتا تھا، اتنی ہی کم آواز ہوتی تھی۔ باس اور اس کے ساتھی سائیڈ کی دیواروں سے چپک کر کھڑے ہو گئے۔ پانچ سیکنڈ بعد ہی ایک ہلکا سا دھماکا ہوا۔ دروازے میں ایک بڑا سا شگاف پڑ گیا تھا۔ بم نے آہنی دروازے کو پگھلا ڈالا تھا۔ باس نے شگاف سے اندر جھانک کر دیکھا۔
اندر صرف پروفیسر نجیب ہی کھڑا تھا اور نہایت استعجاب اور خوف زدگی کے عالم میں دروازے کی سمت ہی دیکھ رہا تھا۔ باس نے اندر ہاتھ ڈال کر دروازے کا ہینڈل گھمایا۔ دروازہ کھلتے ہی وہ چاروں اندر داخل ہو گئے۔ باس کے ہاتھ میں بریٹا تھا، جس کا رخ پروفیسر نجیب کی کھوپڑی کی جانب تھا۔ باقی تینوں آدمی بھی مختلف اسلحے سے لیس تھے۔
باس سانپ کی مانند پھنکارا۔ ’’مسٹر پروفیسر۔۔۔ تمہارا اسسٹنٹ کدھر ہے؟‘‘
پروفیسر کو تو اپنا وجود ہی دھواں لگ رہا تھا۔ وہ بھلا کیا جواب دیتا۔ باس نے آگے بڑھ کر ایک زور دار تھپڑ پروفیسر کے منہ پر مارا، جو اس کا لاغر بدن برداشت نہ کر سکا اور وہ اُلٹ کر چیختا ہوا صوفے کے پاس گر گیا۔ اس کی بانچھوں کے گوشے سے خون کی پچکاری نکل گئی تھی۔ پروفیسر جہاں گرا تھا، وہاں اختر اور ہیرا موجود تھے، جو صوفے کے پائے کی اوٹ میں چھپے ہوئے تھے۔ پروفیسر مجبور تھا۔ وہ نقاب پوش کو اختر کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا تھا، کیوں کہ اس طرح اس کی ایجاد کا بھی بھانڈا پھوٹ جاتا۔ پھر وہ لوگ اس کی ایجاد سے ناجائز فائدہ اٹھاتے اور اسے اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے۔ وہ خون تھوکتا ہوا کھڑا ہوا اور بولا۔
’’وہ۔۔۔ نہیں ہے ۔۔۔ رات ہی اپنے گھر چلا گیا تھا۔‘‘ پروفیسر نے بمشکل کہا، کیوں کہ منہ میں خون بھرا ہوا تھا۔ ’’مگر۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔؟ کیا چاہتے ہو؟‘‘
اس وقت باس نے پروفیسر کے کھلے ہوئے منہ میں پستول کی نال ڈال دی۔
’’سوالوں سے مجھے بڑی چڑ ہے۔ میں امتحانی پیپروں پر بھی جوابات نہیں لکھتا تھا۔۔۔ بس ہم وہ فائل چاہتے ہیں اور کچھ نہیں۔‘‘ اس نے پستول کی نال نکال لی۔
’’کون سی فائل۔۔۔؟‘‘ پروفیسر کے ذہن میں ایک جھماکاسا ہوا۔
’’تم اچھی طرح سے جانتے ہو، میں کس فائل کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔‘‘ باس کی آنکھیں نقاب کے پیچھے دہک رہی تھیں۔ ’’جلدی کرو پروفیسر۔۔۔ ہمارے پاس وقت کم ہے ۔۔۔‘‘
ادھر نقاب پوش کے تینوں ساتھی تجربہ گاہ کی تلاشی لے رہے تھے۔ انہوں نے ہر شے تلپٹ کر دی تھی۔
’’مجھے نہیں معلوم تم کس فائل کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟‘‘ پروفیسر میں اب بھی حوصلہ باقی تھا۔
باس نے پستول رکھ کر ایک چاقو نکال لیا اور مزید کوئی وارننگ دئیے بغیر پروفیسر کے بازو میں گھونپ دیا۔ پروفیسر اذیت کے مارے چلانا چاہتا تھا کہ باس نے لپک کر اس کے منہ پر ہاتھ جما دیا۔ پروفیسر کسی زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔ باس نے اپنا منہ اس کے کان کے نزدیک کر کے استہزائیہ انداز میں کہا۔
’’تمہارے جسم میں صرف ایک دو بوتل ہی خون ہو گا۔۔۔ کیوں اسے بھی ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہو بے وقوف بڈھے ۔۔۔؟‘‘
اب وہ چاقو کو پروفیسر کو ایک آنکھ پر لہرا رہا تھا۔
باس نے اس کے منہ سے ہاتھ ہٹایا تو وہ ہانپتا ہوا بولا۔ ’’ریوالونگ چیئر کو کھول لو۔۔۔ فائل اس میں ہے ۔۔۔‘‘
’’ویری گڈ۔۔۔‘‘ باس مسکرا اٹھا اس نے اپنے ساتھیوں کو بلایا اور ایک ساتھی سے کہا ’’ریوالونگ چیئر کو گھما کر نکال لو۔۔۔‘‘
اس کا ساتھی ریوالونگ چیئر کو گھما گھما کر کھولنے لگا۔ پھر اس نے چیئر اتار کر ایک طرف پھینک دی۔ چوڑیوں والی لوہے کی شافٹ کے اندر فائل رول بنی ہوئی نظر آ گئی۔ باس کے ہاتھ میں فائل آئی تو وہ قہقہے لگانے لگا۔
’’یہ ہے وہ مصیبت۔۔۔ جس کے لیے اتنی پریشانیاں مول لینی پڑی ہیں ۔۔۔‘‘ پھر اس نے ایک لمحے میں پروفیسر کے منہ میں دوبارہ پستول کی نال ڈال کر گولی چلا دی۔
صوفے کے پائے کے نیچے موجود اختر نے دیکھا۔ پروفیسر کی گدی چیتھڑوں میں تبدیل ہو کر اُڑ گئی۔ گوشت اور خون کے لوتھڑے فرش پر بکھر گئے۔ پروفیسر کا بے جان لاشہ وہاں کھڑا رہا۔ باس نے اس کے ماتھے پر ایک انگلی رکھ کر دھکا دیا۔ وہ کسی لکڑی کے تختے کی طرح فرش پر گر گیا۔ اختر نے پروفیسر کے مردہ چہرے پر اذیت و تکلیف کے ایسے خوفناک آثار ثبت دیکھے کہ اس کا جسم جھرجھری لے کر رہ گیا۔
پروفیسر کے گرتے ہی باس نے ساتھیوں کو بقیہ کام جلدی نمٹانے کا کہا اور خود پروفیسر کی تلاشی لینے لگا۔ اختر کا دل اچھا پڑا۔ کیونکہ باس نے دوسری چیزوں کے ساتھ لائیٹر بھی نکال کر اپنے بیگ میں ڈال لیا تھا۔ اختر نے سوچا، اگر وہ لوگ اپنا کام کر کے یہاں سے نکل گئے تو وہ ان کا تعاقب کس طرح کرے گا؟ اور پھر وہ لوگ لائیٹر بھی لیے جا رہے ہیں، جس کی مدد سے وہ اپنی اصل حالت میں آ سکتا تھا، ورنہ وہ ہمیشہ ہی ایسا رہے گا۔۔۔ مختصر سا۔ چناں چہ اختر نے ہیرا پر سواری گانٹھ لی۔ ہیرا ایک طاقت ور گھوڑے کی طرح کام دے سکتا تھا۔ اختر نے اس کے گھنے بال مضبوطی سے پکڑ لیے تھے۔ وہ برق رفتاری سے دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ اختر نے پلٹ کر ایک نظر مردہ پروفیسر پر ڈالی تو اس کے رگ و پے میں ایک درد کی لہر دوڑ گئی۔ وہ پروفیسر کی کوئی مدد نہ کر سکا تھا۔ بہرحال اس نے اپنی توجہ آگے مرکوز کر دی۔
اسے ہر شے نئی اور انوکھی لگ رہی تھی۔ پروفیسر کی دریافت کردہ شعاع نے اسے اور اس کے کتے کو نہایت چھوٹا سا کر دیا تھا، جو کسی کے پیروں تلے آ کر بھی مسلا جا سکتا تھا۔ اختر کو یہ سب ایک خواب لگ رہا تھا۔ وہ خود کو کسی فلم کا کردار سمجھ رہا تھا۔ سائنسی فلم۔۔۔ جادو کی فلم۔۔۔ مگر اس کا وجود، ہیرا کا وجود اس کے چھوٹے چھوٹے اعضاء چیخ چیخ کر اس حقیقت کا اعلان کر رہے تھے کہ یہ فلم یا خواب نہیں، بلکہ سچائی ہے۔ اب وہ اپنے مختصر وجود کے ساتھ کس طرح دشمنوں سے نمٹ سکے گا؟ یہ ایک ایسا سوال تھا، جو اس کی چھوٹی سی کھوپڑی پر مسلسل ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا۔
ہیرا چھپتا چھپاتا پھرتی سے دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا کہ یک لخت وہ رک گیا۔ اس کے اچانک رکنے کی وجہ سے اختر آگے کو قدرے جھک گیا تھا اور گرتے گرتے بچا۔ ایک بڑا سا جوتا ان کے راہ میں حائل ہو گیا تھا۔ اگر ہیرا بروقت خود کو نہ روکتا تو دونوں خاموشی کے ساتھ جوتے تلے کچل جاتے اور اختر کی کہانی ادھر ہی ختم ہو جاتی۔ اختر کے ذہن میں سب سے پہلا یہی سوال ابھرا تھا کہ کیا وہ لوگ دیکھ لیے گئے ہیں؟
لیکن جوتے والا آدمی چند لمحے رک کر آگے بڑھ گیا تو اختر کی جان میں جان آئی۔ ہیرا دوبارہ سے بھاگنے لگا۔ وہ بند دروازے کے نیچے کی معمولی دراڑ سے بھی نکلتا چلا گیا، البتہ اس سلسلے میں اختر کو اس کی پشت سے اترنا پڑا۔ باہر نکلتے ہی اختر اس پر دوبارہ سوار ہو گیا۔ ہیرا پوری قوت سے کوریڈور میں بھاگ رہا تھا اس کی رفتار کسی چوہے کی مانند تھی۔ ہیرا بغیر کسی مشکل کے عمارت سے باہر نکل آیا۔ مکمل طور پر صبح ہو چکی تھی۔ سڑک پر بھی کچھ گاڑیاں چلنا شروع ہو چکی تھیں۔ اختر نے سڑک پار ایک بنگلے کی دیوار کے ساتھ سیاہ وین دیکھ لی۔ وہ فوراً سمجھ گیا کہ یہی مجرموں کی گاڑی ہے۔
اس نے ہیرا کو وین کی طرف چلنے کا اشارہ دیا۔ ایک مشکل یہ تھی کہ سڑک پر گاڑیاں آ جا رہی تھیں۔ ان میں خاص طور پر اسکولوں کی گاڑیاں تھیں۔ ہیرا نہایت احتیاط سے سڑک کراس کرنے لگا۔ اختر کو وہ سڑک ایک بے حد طویل اور چوڑا سیاہ ہموار میدان کی طرح لگ رہی تھی۔ گاڑیوں کے ٹائروں سے بچے ہوئے ہیرا سڑک کی دوسری جانب آ گیا۔
اچانک ایک کار سست روی سے ان کے نزدیک سے گزری۔ اس میں اسکول کے چند بچے بھی تھے۔ ایک چشمہ پہنے ہوئے بچے نے نہایت غور سے ہیرا اور اختر کو دیکھا اور حیرت زدہ رہ گیا اور دوسرے بجوں کو بھی بتانے لگا، مگر اتنی دیر میں کار آگے نکل گئی تھی۔
بہت جلد وہ دونوں وین کے پاس پہنچ گئے اب مسئلہ یہ تھا کہ وین میں کس طرح سے سوار ہوا جائے۔ وین کافی اونچی تھی اور زمین پر صرف اس کے ٹائر ہی لگے ہوئے تھے۔ اختر پریشان ہو گیا۔ منزل پر آ کر بھی ناکام ہو رہا تھا۔ مجرم کسی وقت بھی آ سکتے تھے اور پھر وہ وین میں بیٹھ کر چلے جائیں گے۔ اس سے پہلے ہی اسے کچھ کرنا ہو گا۔ چلتے چلتے وہ وین کے عقبی حصے کی جانب آ گیا۔
یہ دیکھ کر وہ خوش ہو گیا کہ وین کے عقبی حصے کی طرف درختوں کی ٹوٹی ہوئی سوکھی شاخیں پڑی تھیں، جن میں سے کئی سوکھی ڈنڈیاں وین کی بیک لائٹس تک جا رہی تھیں۔ ان کے ذریعے بیک لائٹس پر پہنچا جا سکتا تھا۔ بیک لائٹس پر لوہے کی جالیاں لگی ہوئی تھیں، جو اُن کی سیفٹی کے لیے لگائی جاتی ہیں۔
عین اسی لمحے اختر نے چاروں مجرموں کو واپس آتے دیکھا وہ تیز تیز قدموں سے وین کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اب اختر کے پاس وقت محدود تھا، چناں چہ اس نے ہیرا کو جلدی سے اشارہ کیا۔ ہیرا ایک ٹریننگ یافتہ کتا تھا۔ اختر نے اسے بہت کچھ سکھا رکھا تھا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ اختر کے اشاروں کو بخوبی سمجھ لیتا تھا۔ ہیرا فوراً سوکھی شاخ پر کسی چیتے کی طرح چڑھ گیا۔ وہ بڑی احتیاط سے اوپر جاتی ہوئی ڈنڈی پر چڑھ رہا تھا۔ اختر بڑی بے تابی سے اسے دیکھ رہا تھا اور دعا کر رہا تھا کہ وہ سلامتی کے ساتھ لوہے کی جالی تک پہنچ جائے اور ایسا ہی ہوا۔ ہیرا لوہے کی جالی تک آ گیا۔ اس کی انگلیاں نہیں تھیں، اس لیے وہ ایک تار کو منہ میں دبا کر دوسرے تار پر سکڑ کر بیٹھ گیا۔ مجرم وین تک آ پہنچے تھے۔ اب اختر نے شاخ پر چڑھنا شروع کر دیا۔
ابھی وہ آدھے ہی راستے پر تھا کہ پوری وین ہل گئی۔ وین کے دروازے کھولے گئے تھے۔ اختر گرتے گرتے بچا۔ اس کا ایک ہاتھ چھوٹ گیا تھا۔ بڑی مشکلوں سے اس نے خود کو گرنے سے بچایا۔ دروازے بند ہوئے۔ اختر نے دوبارہ اوپر کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔
واہ کیا سچویشن تھی۔ وین کا انجن اسٹارٹ ہو رہا تھا اور ابھی اختر جالیوں سے کئی انچ نیچے تھا۔ پھر وین کو جھٹکا لگا۔ اب وہ کسی بھی لمحے آگے بڑھ سکتی تھی۔ اختر نے ایک خطرناک فیصلہ کیا۔ وہ شاخ پر کھڑا ہوا اور پوری قوت سے دوڑا۔ عین اسی لمحے وین آگے بڑھی۔ اختر نے چلاتے ہوئے لمبی چھلانگ لگا دی۔ اس کے دونوں ہاتھ آگے کی جانب پھیلے ہوئے تھے۔ بس آخری لمحے میں اس کے ہاتھوں میں لوہے کی جالیوں کا ایک تار آ گیا، جو اس کے لیے کسی موٹے سریے سے کم نہ تھا۔ اب اختر وہ لوہے کا تار پکڑ کر لٹکا ہوا تھا اور وین تیزی سے سڑک پر دوڑ رہی تھی۔
ہیرا بڑی بے قراری سے اپنے مالک کو زندگی اور موت کے درمیان لٹکا دیکھ رہا تھا۔ اختر کا پورا جسم پسینوں میں بھیگ گیا تھا۔ اس نے سارے جسم کی طاقت ہاتھوں میں سمیٹ لی تھی۔ اس نے ایک نظر نیچے ڈالی تو چکر آ گئے۔ نیچے تارکول کی سڑک بجلی کی طرح بھاگتی نظر آ رہی تھی۔ اگر وہ گر جائے تو نہ جانے اس کے مختصر سے وجود کا کیا بنتا۔ اس نے جلدی سے چہرہ اوپر کی طرف کر لیا اور پھر پوری قوت سے اپنے بدن کو اوپر اٹھانے کی کوشش کی۔ اسے خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی اور وہ دھیرے دھیرے اوپر اٹھتا چلا گیا۔ پھر اس نے دونوں ٹانگوں کی قینچی ایک سریے میں ڈال دی۔ اس طرح اس کے ہاتھوں پر سے بوجھ ہٹ گیا۔ اب کیا مشکل تھی کچھ ہی دیر بعد وہ بھی ہیرا کے ساتھ جالیاں تھامے بیٹھا تھا اور عقبی مناظر کو دیکھ رہا تھا۔
وین کے قریب سے دوسری گاڑیاں بھی شور مچاتی ہوئی نکل رہی تھیں۔ اختر کے دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ یہ کچھ ہی دیر میں کیا سے کیا ہو گیا تھا۔ جیتا جاگتا پروفیسر اس کی نظروں کے سامنے موت کی آغوش میں جا سویا۔ پروفیسر کی لاش تجربہ گاہ میں ہی پڑی تھی۔ جب اس کی لاش دریافت ہو گی اور پولیس والے تفتیش کریں گے تو پروفیسر نجیب کے اسسٹنٹ اختر کو تلاش کیا جائے گا۔ اسے غائب پا کر یہی نتیجہ نکالا جائے گا کہ پروفیسر کو اس کے اسسٹنٹ نے ہی قتل کیا ہے اور وہ اس کی اہم چیزیں لے کر روپوش ہو گیا ہے، کیوں کہ اختر کی گمشدگی ہی اسے قصور وار ٹھہرانے میں اہم کردار ادا کر رہی تھی۔ اب اختر کو کسی نہ کسی طرح خود کو بے گناہ ثابت کرنا تھا اور اپنے مختصر وجود کو بھی اصل حالت پر لانا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہ نا ممکن کام کس طرح انجام دے سکے گا۔ اس نے یہ فاسد اور پریشان کن خیالات ذہن سے جھٹک ڈالے اور خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ آگے دیکھا جائے گا کہ اُسے کیا کرنا ہو گا۔
وین کا سفر جاری تھا۔ ہیرا اور اختر پر انتہائی تیز ہوا کے شدید تھپیڑے پڑ رہے تھے، مگر وہ بڑی مستقل مزاجی سے اسی پوزیشنوں میں بیٹھے رہے۔ خفیف سی بھی غفلت سے وہ تنکوں کی طرح ہوا میں اُڑ سکتے تھے۔
کافی دیر بعد وین کا سفر اختتام کو پہنچا۔ وین ایک جگہ رک گئی تھی، مگر یہ تو کوئی سڑک ہی تھی۔ اختر نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی پھر بند ہونے کی۔ شاید کوئی ادھر ہی اُتر گیا تھا۔ وین آگے بڑھ گئی۔ اختر نے دیکھا، تین آدم نیچے اتر کر ایک جانب جا رہے تھے۔ ان میں سے ایک ان کا باس بھی تھا، جس نے نقاب اُتار کر جیب میں رکھ لی تھی۔
کچھ ہی دیر بعد وین ایک بڑے بنگلے میں داخل ہو گئی۔ کسی ملازم نے میں گیٹ کھولا تھا۔ اندر وین پختہ روش پر چل کر پورچ میں جا رکی۔ ایک جانب کافی بڑا اور سرسبز لان تھا۔ پھر شاید آخری آدمی بھی گاڑی سے اُتر کر اندر چلا گیا۔ اتفاق سے جس سمت اختر اور ہیرا بیٹھے تھے، وہ لان کی جانب تھی۔ اختر کو نیچے ایک پودا کسی بڑے درخت کی مانند لگ رہا تھا۔ اس میں پھول بھی کھلے ہوئے تھے۔ ان کے لیے نیچے اترنا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہ رہا۔ اختر نے ہیرا کو پچکارا اور دونوں نے ایک ساتھ پودے پر چھلانگ لگا دی اور پودے کی ایک نرم شاخ پکڑ کر جھول گئے ہیرا نے اپنے جبڑوں میں شاخ کو دبوچ لیا تھا۔ نازک سی شاخ ان دونوں کے وزن سے آہستہ آہستہ زمین کی طرف جھکتی چلی گئی اور وہ دونوں نہایت اطمینان سے زمین پر اتر گئے۔ وہ مکمل طور پر چھپ گئے تھے۔ اختر گھاس کو دیکھ کر سر کھجا رہا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ گنے یا کیلے کے کھیت میں کھڑا ہے۔ اس نے ہیرا کو دیکھا۔ وہ بھی تھوتھنی بلند کیے کھیت کا جائزہ لے رہا تھا۔
اختر نے ہیرا سے مخاطب ہو کر کہا ’’پیارے ۔۔۔ جو احساسات تمہارے ہیں، میرے بھی وہی ہیں۔ میرا نصیب بھی کیسا ہے کہ تم سے جا لڑا۔۔۔‘‘ ہیرا زبان نکالے ہانپ رہا تھا۔
’’چل بھئی آگے ۔۔۔ ادھر سے تو باہر نکلیں۔‘‘ اختر نے قدم بڑھائے۔
ابھی وہ کچھ ہی دور گئے تھے کہ اس کے پیر سے کوئی چیز ٹکرائی۔ اختر نے چونک کر دیکھا وہ ایک زنگ آلود سوئی تھی، جو نہ جانے کب سے یہاں پڑی ہوئی تھی۔ اختر نے اسے اٹھا لیا اور تلوار کی طرح لہرایا۔
’’واہ۔۔۔ سوئی سے بھی تلوار کا کام لیا جا سکتا ہے ۔۔۔ مجھے آج معلوم ہوا ہے۔‘‘
اتنے میں ہیرا زور سے بھونکا۔ پھر وہ مسلسل بھونکنے لگا۔
’’ابے کیا ہوا؟ کیوں باجا بجائے جا رہا ہے؟‘‘ اختر نے جھلا کر اسے دیکھا۔ ہیرا ایک طرف دیکھ رہا تھا۔ اختر نے اس سمت میں دیکھا تو اس کے پیروں تلے زمین کسک گئی۔ کئی موٹے موٹے چیونٹے تیزی سے ان دونوں کی جانب دوڑے آ رہے تھے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ اختر نے چیونٹوں کی باریک آوازیں سنی تھیں۔ وہ ’’ چرچر‘‘ جیسی آوازیں خارج کرتے ہوئے بھاگے چلے آ رہے تھے۔ اختر کے سامنے وہ چیونٹے بکروں جیسے قامت وجسامت کے لگ رہے تھے۔ ہیرا نے بھی اپنے تیور بگاڑ لیے اور اس کے جبڑوں سے غراہٹ نکلنے لگی تھی۔
چیونٹوں کی رفتار بہت تیز تھی، اس لیے اختر کو مقابلہ کرنے کے سوا بچاؤ کی اور کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس نے اپنی تلوار سونت لی۔ جونہی آگے والا چیونٹا اختر پر حملہ آور ہوا۔ اس نے تلوار کی نوک چیونٹے کے بڑے اور بھدے سر میں گھونپ دی۔ وہ چیونٹا پاگل ہو کر درد سے گول گول چکر کاٹنے لگا اور اس تکلیف کے عالم میں وہ اپنے ایک ساتھی سے بھڑ گیا۔ اُس نے بھی تلملا کر اپنے ساتھی کو کاٹ لیا۔ دونوں گڈ مڈ ہو کر زمین پر لوٹنے لگے۔ ہیرا بھی ایک چیونٹے سے جنگ کر رہا تھا۔ وہ چیونٹا اپنے اگلے شکنجے نما دانتوں سے اسے قابو کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا تھا، مگر ہیرا نا صرف اچھل اچھل کر خود کو بچا رہا تھا، بلکہ موقع پاتے ہی اسے اپنے پنجوں اور دانتوں سے زخمی بھی کر رہا تھا۔ اختر کی تلوار چاروں جانب حرکت کر رہی تھی۔ ایک چیونٹے نے بڑی پھرتی سے اس پر حملہ کرنا چاہا تو اختر نے اچھل کر اپنے آپ کو بچایا اور تلوار چیونٹے کے کھلے ہوئے منہ میں گھسیڑ ڈالی۔ چیونٹے کے سیاہ خون اُگلتے منہ سے عجیب و غریب تکلیف دہ آواز نکلی۔
اتنے میں موقع پا کر ایک چیونٹے نے اختر کی ٹانگ منہ میں دبانا چاہی، مگر صرف جینز کی پینٹ ہی منہ میں آ سکی۔ اختر نے پوری قوت سے تلوار اس کی گردن پر ماری۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چیونٹے کی گردن بقیہ دھڑ سے علیحدہ ہو گئی۔ دھڑ ایک اور ہی سمت چل پڑا اور سر پینٹ سے چپکا رہ گیا، جو اب تک زندہ تھا۔ اختر نے دانت کچکچا کر چیونٹے کی کھوپڑی پینٹ سے ہٹائی اور فٹ بال کی طرح اچھال کر ایک زبردست کک رسید کی۔ چیونٹے کی کھوپڑی دور ہوا میں اُڑ گئی۔ اتنے میں ہیرا نے اپنے دشمن چیونٹے کی تمام ٹانگیں اکھاڑ ڈالی تھیں۔ اس چیونٹے کا دھڑ زمین پر پڑا کلبلا رہا تھا۔ وہ فتح یاب ہوئے تھے۔ اختر نے جلدی سے ایک مخصوص سیٹی بجائی اور خود ایک طرف دوڑا۔ سیٹی کا اشارہ پا کر ہیرا اس کے پیچھے آنے لگا۔ یکا یک اختر کے سامنے بغیر سر کا چیونٹا آ گیا۔ وہ ابھی تک پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر چکرا رہا تھا۔ اب وہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ وہ اس سے بچتے ہوئے آگے نکلتے چلے گئے۔ وہ ناکارہ زنگ آلود سوئی بہت کار آمد ثابت ہوئی تھی۔ اختر نے اُسے بڑی مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ ہو سکتا ہے آگے بھی وہ کام آئے۔
جلد ہی وہ دونوں لان سے باہر آ گئے۔ اس جگہ انہوں نے چیونٹیاں دیکھیں، مگر وہ دونوں برق رفتاری سے ایک سمت بڑھتے چلے گئے۔ یہ ان کے حق میں بہتر ہی ہوا کہ عمارت میں داخل ہونے کے لیے سیڑھیاں نہیں تھیں، اس لیے وہ دونوں بغیر کسی دقت کے اندر آ گئے۔ عمارت کا فرش انتہائی شفاف اور صاف تھا۔ اختر اور ہیرا دیوار کی جڑ کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ وہاں ان کو کئی دروازے نظر آ رہے تھے۔ ایک دروازے کی نیچے سے وہ کمرے میں داخل ہو گئے۔ اختر نے کمرے کا جائزہ لیا تو ایک ہی نظر میں وہ سمجھ گیا کہ یہ کسی بچے کا کمرا ہے، کیوں کہ اسے وہاں جگہ جگہ ہر قسم کے جھوٹے بڑے کھلونے دکھائی دے رہے تھے۔ کتابیں بھی بے ترتیبی سے بکھری ہوئی تھیں۔ کھلونے نہایت قیمتی اور جدید تھے۔ اختر اور ہیرا حیرت سے کمرے کا ماحول دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ کمرے میں ایک خوب صورت سنگل بیڈ بھی تھا، جس کے نزدیک ایزی چیئر بھی رکھی ہوئی تھی۔
اختر کمرے کا ماحول دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ اسے کسی چیز کا احساس نہ رہا تھا۔ ناگہاں اس نے بیڈ کے برابر رکھی تپائی پر ایک سفید بلی دیکھی، جو دیکھنے میں بالکل اصلی لگ رہی تھی۔ بلی کا منہ اختر کی جانب ہی تھا، لیکن اچانک ہی اختر کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہونے لگے۔ اس نے بلی کے کان ہلتے دیکھے تھے۔ پھر بلی ’’میاؤں‘‘ کی آواز کے ساتھ تپائی سے ایزی چیئر پر کودی۔ چیئر آگے پیچھے ہلنے لگی۔ اختر کے ہوش دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہونے لگے۔ بلی تو اسے ایک ہی لقمے میں پیٹ میں پہنچا دے گی۔ یک لخت بلی نے ایزی چیئر سے چھلانگ لگا دی۔
اختر کا دماغ ماؤف ہو کر رہ گیا۔