ڈرائنگ روم سے اُبھرنے والی آوازیں بتدریج تیز ہوتی جا رہی تھیں۔ یہ آوازیں پروفیسر نجیب اور ڈاکٹر بیدی کی تھیں، جو کسی مسئلے پر گفتگو کر رہے تھے۔ یہ بحث گزشتہ دو گھنٹوں سے جاری تھی اور نان اسٹاپ ابھی تک نشر ہو رہی تھی۔ اختر آدھا گھنٹہ تو ان کے ساتھ بیٹھا رہا، لیکن پھر بیزار ہو کر اپنے کمرے میں آ گیا۔ وہیں اس کا پالتو کتا ہیرا تھا۔ اختر ہیرا کے ساتھ کھیلنے لگا۔ ادھر ڈرائنگ روم میں معاملہ شائستگی کی حد سے نکل کر گرمی گفتار تک جا پہنچا تھا۔ وہ دونوں کسی بھی موضوع پر بات چیت کرتے تھے تو اپنی اپنی برتری ثابت کرنے پر تلے رہتے تھے۔ دونوں ہی ڈھیٹ ہڈی ثابت ہوتے تھے۔ اکثر نتیجہ لڑائی اور خفگی کی صورت میں ہی نکلتا تھا۔ اختر دونوں کو دل ہی دل میں خوب بے بھاؤ کی سنانے لگا۔
پروفیسر نجیب ایک سائنس دان تھا۔ اس نے چند چیزیں ایجاد کر لی تھیں اور ایک مخصوص طبقے میں کافی مشہور ہو گیا تھا، مگر وہ سنکی پروفیسر کے نام سے زیادہ جانا جاتا تھا۔ پرانے دوستوں کا کہنا تھا کہ شروع شروع میں پروفیسر نجیب بڑا سنجیدہ اور با رعب قسم کا ہوا کرتا تھا، مگر جب سے اس کی بیوی اور ایک بچہ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوئے تھے تب سے وہ کچھ بہک گیا تھا۔ اس کا علاج بھی ہوا۔ دماغ تو کچھ بہتر ہو گیا، مگر مزاج میں چڑچڑا پن آ گیا تھا۔ بات بات پر کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ لوگوں سے کٹ کر رہنے لگا۔ کسی بھی محفل یا تقریب میں شرکت نہیں کرتا تھا۔
ڈاکٹر بیدی اس کا گہرا دوست تھا۔ وہی اس کے پاس چلا آتا تھا۔ پروفیسر نجیب کافی عرصہ سے لیزر شعاعوں پر تحقیق کر رہا تھا۔ شروع میں تو ڈاکٹر بیدی نے اس کی معاونت کی، مگر نوک جھونک اور تکرار کی وجہ سے وہ دست بردار ہو گیا۔ پروفیسر نجیب نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اور اکیلے ہی اپنے کام میں لگا رہا۔ ڈاکٹر بیدی کہتا تھا کہ وہ یہ موضوع چھوڑ کر کسی اور چیز پر طبع آزمائی کرے، مگر پروفیسر بھلا اس کی بات کیوں مانتا۔
اس کی رہائش شہر کے آخری سرے یعنی مضافاتی علاقے میں تھی۔ اس نے اپنی تجربہ گاہ عمارت کے ایک حصے میں بنا رکھی تھی۔ اس جگہ کوٹھیاں اور بنگلے ایک دوسرے سے کچھ کچھ فاصلے پر تھے۔ اختر پروفیسر نجیب کا ماتحت تھا۔ وہ حادثاتی طور پر پروفیسر کی ماتحتی میں آیا تھا۔ ایک رات وہ چوری کی نیت سے پروفیسر کی کوٹھی میں داخل ہو گیا تھا، لیکن پروفیسر نے دروازے میں پوشیدہ کیمرے کی مدد سے اسے اسکرین پر دیکھ لیا تھا۔ ایک کمرے میں پروفیسر نے قید کر دیا اور بے ہوش کر کے باندھ دیا تھا۔ ہوش میں آنے کے بعد اختر نے اسے اپنی دکھوں سے لبریز داستان سنا کر خاصا مغموم کر ڈالا۔ پروفیسر نے آبدیدہ ہو کر اسے نوکری کی پیش کش کی، جس میں کھانا پینا رہائش اور دیگر سہولتیں بھی تھیں۔ اختر نے جھٹ نوکری قبول کر لی۔ ویسے ہی وہ دنیا میں اکیلا تھا۔ صرف اس کے ساتھ ایک کتا تھا، جسے بعد میں وہ اپنے ساتھ ہی رکھنے لگا تھا۔ ہیرا کو اس نے بچپن سے پالا تھا اور ہیرا بھی اس سے بہت مانوس ہو گیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر ہیرا اس کی اکثر باتیں بالکل ٹھیک سمجھ لیتا تھا۔ اختر نے ہیرا کو بہت کچھ سکھایا تھا۔ وہ فارغ اوقات میں ہیرا کو ٹریننگ ہی دیتا رہتا تھا۔ پروفیسر نجیب کے پاس ڈھیروں پیسہ تھا، جو اس نے بینکوں میں محفوظ کرا رکھا تھا، اس لیے اسے کسی قسم کے اخراجات کی فکر نہ تھی۔ وہ فکر معاش سے لاتعلق ہو کر اپنی لیبارٹری کے جھمیلوں میں ہی الجھا رہتا تھا۔ بینک سے ہر ماہ خاصی بڑی رقم مل جاتی تھی۔
کچھ دیر بعد اختر نے اپنے کمرے سے نکلا تو اس نے سامنے ڈاکٹر بیدی کو آتے دیکھا۔ اس کے چہرے کے بگڑے ہوئے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ سخت جھنجلایا ہوا اور غصے میں ہے۔ وہ اختر کو دیکھتے ہی بولا۔
’’انتہائی نامعقول۔۔۔ اور پرلے درجے کا بے وقوف ہے وہ شخص۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنی بائیں ہتھیلی پر گھونسا مارا۔
’’یہ کس کے لیے عقیدت کے پھول نچھاور کیے جا رہے ہیں؟‘‘ اختر نے جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنے چہرے پر مصنوعی حیرت بکھیر لی۔
’’وہ۔۔۔ پروفیسر۔۔۔ سنکی۔۔۔ تمہارا باس۔۔۔‘‘ بیدی ابھی تک گیلی لکڑی کی طرح سلگ رہا تھا۔ ’’یعنی۔۔۔ حماقت کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے ۔۔۔ وہ تو ساری حدود پار کر گیا ہے ۔۔۔ ایسا پاگل آدمی زندگی میں میری نظر سے نہیں گزرا۔‘‘
’’اب تو گزر گیا ناں؟‘‘ اختر نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
’’یعنی عجیب دماغ پایا ہے موصوف نے ۔۔۔ اور ہم تو بالکل ہی گدھے ہیں ۔۔۔‘‘
’’اللہ بہتر جاننے والا ہے ۔۔۔؟‘‘ اختر نے ہلکی آواز میں کہا۔
ڈاکٹر بیدی اپنی سنائے جا رہا تھا۔ ’’وہ تمہارا احمق باس کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔‘‘ اتنے عرصے میں لیزر شعاعوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے اور اب تک معمولی سی کامیابی بھی حاصل نہ کر سکا۔ نہ جانے وہ ان شعاعوں کا اچار ڈالے گا۔۔۔ بتاتا بھی نہیں ہے کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے۔ دوسرے ممالک کے سائنس دان کہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں اور ہم ابھی تک وہیں کھڑے تالیاں بجا رہے ہیں۔ ارے میں تو کہتا ہوں وہ اپنا دماغ اتنے عرصے کسی ہوا میں اڑنے والی آب دوز پر خرچ کرتا تو کب کی بن اچکا ہوتا۔‘‘
ڈاکٹر بیدی پروفیسر خاصا نالاں لگتا تھا۔ اس سے قبل اختر کچھ کہتا پروفیسر نجیب آتا دکھائی دیا۔ ہیرا دھیمی آواز میں بھونکنے لگا۔
پروفیسر قریب آتا ہوا بولا۔ ’’بیدی یہ تمہاری آواز کو کیا ہو گیا۔۔۔ ابھی تو اچھے خاصے گئے تھے۔‘‘
بیدی تلملا اٹھا۔ ’’ جب سے تم نے کاٹا ہے ۔۔۔ بے وقوف انسان۔۔۔ میں جا رہا ہوں لعنت ہے مجھ پر۔۔۔ اگر میں آئندہ یہاں آیا۔‘‘ وہ پیر پٹخ کر اچھل پڑا۔
پروفیسر نے عقب سے ہانک ماری۔ ’’اچھا ہوا تم نے اپنے اوپر خود ہی لعنت دے دی تم ہو ہی اسی قابل۔۔۔ ہم سے بھی پیشگی لعنت کھاتے جاؤ۔‘‘
ڈاکٹر بیدی تیز تیز آواز میں بولتا ہوا چلا گیا۔ اختر بیرونی گیٹ بند کر کے آیا تو پروفیسر نجیب نے اس سے پوچھا۔ ’’تم سے کیا کہہ رہا تھا یہ۔۔۔؟‘‘
’’بول رہے تھے کہ تمہارا باس دنیا کا سب سے خطرناک پاگل۔۔۔ احمق۔۔۔ گاؤدی، سر پھرے ۔۔۔ چرئیے ۔۔۔‘‘ اختر اپنے دل کا ارمان بھی نکال رہا تھا کہ نجیب نے چیخ کر اسے روک دیا۔
’’بس۔۔۔ بس۔۔۔ زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنا پوچھا کروں اتنا ہی جواب دیا کرو۔۔۔‘‘
’’میں بھی اتنا ہی بتا رہا تھا۔۔۔ ابھی تو کئی خوبیاں باقی ہیں ۔۔۔‘‘
’’بکو مت۔۔۔‘‘ پروفیسر نے اسے جھڑک دیا۔ ’’ڈاکٹر بیدی خود بے وقوف انسان ہے ۔۔۔ ایسے لوگ خود تو کچھ نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی ترقی کرتے دیکھ نہیں سکتے تم دیکھ لینا فرزند۔۔۔ ایک روز دنیا میرے کارنامے پر مجھے سرا ہے گی۔ یہ بیدی گھر کا بیدی بھی میرے آگے پیچھے دم ہلاتا پھرے گا۔‘‘
اختر نے سنجیدگی اختیار کر کے پوچھا ’’ویسے سر۔۔۔ میں آپ کا اسسٹنٹ ہوں، لیکن آپ نے مجھے بھی نہیں بتایا کہ آخر آپ لیزر شعاعوں پر کس قسم کی تحقیقات کر رہے ہیں ۔۔۔ کہیں آپ طب کی فیلڈ میں تو نہیں گھس گئے؟۔۔۔ شعاعوں سے علاج کرنے کا سلسلہ تو کب کا شروع ہو چکا ہے۔‘‘ دونوں کمرے میں آ گئے تھے۔
’’بیٹھ جاؤ۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے پروفیسر صوفے پر بیٹھ گیا۔ اختر بھی اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ آج پروفیسر موڈ میں نظر آ رہا تھا۔ ’’ہر سائنس دان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کوئی منفرد چیز ایجاد کرے، تاکہ اس کا نام رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے اور ساتھ ہی اس کے ملک کا نام بھی روشن ہو۔ ہو سکتا ہے میں جلد اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مجھے اپنے مقصد کے حصول میں برسوں بیت جائیں۔ یہ پہلا موقع ہے، میں تم سے کچھ چھپا رہا ہوں، ورنہ میرے باقی تمام معاملات تم سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔۔۔ مگر کیا میں اس معاملے میں فی الحال راز داری میں ہی رکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔ خیر تم یہ بتاؤ۔۔۔ تم پروفیسر سراج خان کو جانتے ہو۔۔۔؟‘‘
’’پروفیسر سراج خان۔۔۔‘‘ اختر سوچتا ہوا بڑبڑایا پھر چونکا۔ ’’وہ ۔۔۔ وہ تو نہیں کچھ عرصہ پہلے جو پراسرار طور پر غائب ہو گیا تھا؟‘‘
’’ہاں ۔۔۔ وہی وہی۔۔۔‘‘ پروفیسر نجیب نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔ ’’وہ میرا بہت اچھا دوست تھا۔۔۔ ہم نے ساتھ ساتھ کافی وقت گزارا ہے۔ وہ مجھ پر بہت بھروسا اور اعتماد کرتا تھا۔ سنو فرزند۔۔۔ جو بات میں تمہیں بتا رہا ہوں، اسے راز میں ہی رکھنا۔۔۔ میں اب اس بات سے تم کو بے خبر نہیں رکھنا چاہتا۔۔۔ لا پتا ہونے سے کچھ عرصہ قبل سراج خان مجھ سے ملا تھا۔ وہ بہت پریشان رہنے لگا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ کچھ لوگ اس کے پیچھے لگ گئے ہیں اور وہ اس سے کسی فارمولے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ وہ نامعلوم لوگ مجرمانہ ذہنیت کے لوگ تھے۔ سراج خان نے اس فارمولے کی فائل میرے حوالے کر دی تھی اور ایک روز وہ پراسرار طور پر غائب ہو گیا۔ کسی کو کچھ پتا نہیں چل سکا کہ وہ کہاں چلا گیا۔ اس کی تجربہ گاہ میں ابتری پھیلی ہوئی تھی۔ مجرموں نے وہاں کی تلاشی بھی لی، لیکن انہیں کچھ حاصل نہ ہو سکا، کیوں کہ فائل تو میرے پاس تھی۔ سراج خان کی لیبارٹری میں مجرموں کی پولیس سے جھڑپ ہوئی۔ کئی مجرم بھی مارے گئے۔ فرار ہوتے ہوئے زندہ بچنے والے مجرموں نے سراج خان کی پوری لیبارٹری ٹائم بم سے تباہ و برباد کر ڈالی تھی۔ اب محض وہ کسی کھنڈر کے طرح رہ گئی ہے۔ سرج خان کے بارے میں تا حال کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ کہ وہ خود کہیں غائب ہوا ہے یا اسے اغوا کر لیا گیا ہے ۔۔۔ زندہ بھی ہے کہ نہیں۔ یہ معاملہ اسرار کی دھند میں پوشیدہ ہے۔ اگر مجرموں کو اس بات کا علم ہو گیا کہ فارمولے کی فائل میرے پاس ہے تو وہ مجھے بھی نقصان پہچانے کی کوشش کریں گے، کیوں کہ وہ ہر قیمت پر فائل حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
پروفیسر کے خاموش ہونے کے بعد اختر نے متفکر انداز میں کہا۔ ’’اوہ۔۔۔ یہ تو بڑا پیچیدہ اور سنگین مسئلہ ہے۔‘‘ پھر کچھ سوچ کر بولا۔ ’’سر۔۔۔ ہم سادہ لباس والے پولیس والوں کی مدد کیوں نہ لیں؟‘‘
’’ایسا سراج خان بھی کر سکتا تھا، مگر وہ اپنے فارمولے کی تشہیر نہیں چاہتا تھا، چنانچہ ہمیں بھی اسے خفیہ رکھنا ہو گا۔۔۔ اگر کل کو سراج خان واپس آ کر اپنی فائل مانگتا ہے تو پھر میں اسے کیا جواب دوں گا۔‘‘
’’ویسے سر۔۔۔ آپ نے سراج خان کے فارمولے والی فائل تو پڑھی ہو گی؟ وہ کس نوعیت کی ہے؟‘‘ اختر نے سوالیہ انداز میں پروفیسر نجیب کو دیکھا۔
’’نہایت عجیب۔۔۔ حیرت انگیز۔۔۔ عقل و فہم سے بالاتر۔۔۔‘‘ پروفیسر نے مضطرب اور متذبذب لہجے میں بتایا۔ ’’یقین کرو فرزند۔۔۔ انتہائی کوشش کے باوجود میں خود بھی کچھ نا سمجھ سکا تھا۔۔۔ پوری فائل میں جیومیٹریکل لائنیں آڑھی ترچھی سیدھی اور عمودی لکیریں بنی ہوئی ہیں۔ جگہ جگہ دائرے اور چوکور خانے ۔۔۔ مستطیل بنے ہوئے ہیں ۔۔۔ اور بہت سی جگہوں پر دائروں اور خانوں میں چوہوں کی تصویریں بھی بنی ہوئی ہیں۔ بعض صفحوں پر خوف ناک انسانی شکلیں بھی ملتی ہیں۔ ان انسانی اسیکچز میں انسان کو بھیانک انداز میں بنایا گیا ہے انسان کی دُم بھی ہے اور دُم کے آخر میں تیر جیسا پھل بھی ہے۔ دو انسان اور چوہے لڑ رہے ہیں ۔۔۔ ان تمام تصاویر سے میں کوئی بھی ٹھوس نتیجہ اخذ نہیں کر سکا ہوں۔‘‘
پروفیسر نجیب یہاں تک بتا کر خاموش ہو گیا۔
کمرے میں گمبھیرتا چھا گئی تھی۔ اختر کو اپنے بدن میں سنسنی کی بے شمار لہریں دوڑتی بھاگتی محسوس ہو رہی تھیں۔ ہیرا بھی بے چینی سے دم ہلا رہا تھا۔