اختر بڑی بے تاپی سے انسپکٹر عاصم کا منتظر تھا۔ نیچے ہیرا ٹیبل کے پائے کے ساتھ لگ کر اونگھنے لگا تھا۔ اختر ٹیبل پر ہی رہا۔ اس طرح انسپکٹر عاصم کو اسے تلاش کرنے میں دشواری نہیں ہوتی۔ نہ جانے کتنی گھڑیاں بیت گئیں۔
اچانک اس نے دروازے کا ہینڈل گھومتے دیکھا۔ اختر جلدی سے ٹیلی فون کی اوٹ میں ہو گیا۔ پھر دو ہیولے اندر گھس آئے۔ اختر نے کبھی انسپکٹر عاصم کو نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے وہ یہی سمجھا کہ وہ انسپکٹر عاصم اور ان کے کسی ماتحت کے ہیولے ہیں۔ آنے والے سیدھا ٹیبل کے پاس آئے۔ پھر ان میں سے ایک نے سوئچ بورڈ کے کئی بٹن دبا دئیے۔ کمرا روشن ہو گیا۔ دوسرے آدمی نے لیمپ کو ٹھوکر مار کر ایک طرف کیا۔ وہ دونوں لاش کو دیکھنے لگے۔ پھر ایک نے ٹیبل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تم کدھر ہو۔۔۔ سامنے آؤ۔۔۔‘‘
یقیناً وہ اختر سے ہی مخاطب تھا۔ اختر فوراً ٹیلی فون سیٹ کے عقب سے نکل کر سامنے آ گیا اور اپنے دونوں ننھے منہ ہاتھ لہراتا ہوا چلایا۔
’’میں ادھر ہوں ۔۔۔ یہاں ۔۔۔‘‘
دونوں آدمیوں نے حیرت اور تعجب بھری نظروں سے دنیا کا عجوبہ دیکھا۔ ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں۔ انہیں اپنی نگاہوں پر اعتبار نہیں ہو رہا تھا کہ وہ واقعی اتنے مختصر سے انسان کو جیتی جاگتی حالت میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک آدمی نے جھک کر اسے بغور دیکھا اور پوچھا۔
’’تمہارا کتا کہاں ہے؟‘‘
اختر نے بتایا۔ ’’وہ نیچے ہے میز کے پائے کے ساتھ۔۔۔‘‘
دوسرے آدمی نے جھک کر ہیرا کو ہتھیلی پر اٹھا لیا۔ ہیرا بھونکنے لگا تھا۔
’’آپ انسپکٹر عاصم ہی ہیں ناں؟‘‘ اختر نے اس سے سوال کیا۔
اس آدمی نے اختر کو اٹھایا اور تمسخرانہ انداز میں ہنستا ہوا بولا ’’انسپکٹر عاصم بے چارہ تو اب تک باس کی قید میں ہو گا۔۔۔ ہم تو اپنے باس اسٹینلے کے آدمی ہیں ان کے ہی حکم پر ہم تمہیں لینے آئے ہیں۔‘‘
اختر کا دل دھک سے رہ گیا۔ یہ سب کیا ہو گیا ہے؟ اسٹینلے کو بھلا کس طرح علم ہو گیا کہ وہ ادھر ہے۔ کہیں اسٹینلے نے اس کا فون تو ٹریس نہیں کر لیا تھا۔
اس آدمی نے اختر اور ہیرا کو اپنی شرٹ کی جیب میں ڈال لیا اور ہنستا ہوا کہنے لگا ’’اب تم دونوں کچھ دیر یہاں آرام کر لو۔‘‘
اختر بے بس ہو گیا تھا۔ اس کی تلوار یعنی وہ سوئی ٹیلی فون کے پاس ہی پڑی رہ گئی تھی، لیکن بھلا ایک سوئی سے وہ ان دونوں کا کیا بگاڑ سکتا تھا۔ اس کا دماغ تیزی سے بچاؤ کی ترکیب سوچ رہا تھا، مگر جیب سے نکلنا فی الحال اس کے بس میں نہیں تھا۔ چناں چہ اس نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا۔ موقع کی مناسبت سے بچاؤ کے بارے میں کچھ عملی قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ حالات کا پانسہ جس انداز میں اچانک پلٹا تھا، اس نے اختر کی عقل ماؤف کر دی تھی۔ جو کچھ اس نے سوچا تھا بالکل اس کے برعکس ہی ہو گیا تھا۔ انسپکٹر عاصم کو بھی سوچے سمجھے جال میں پھنسایا گیا تھا۔ اس آدمی کی بات سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ ان لوگوں نے انسپکٹر عاصم کو بھی پکڑ لیا ہے۔ اب نہ جانے وہ لوگ اس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ ان دونوں کی باتوں سے لگتا تھا کہ وہ دونوں چوکی دار کے بے ہوش کر کے اندر گئے تھے۔ انہوں نے کمرے کی تلاشی لی اور ڈائری سمیت کئی چیزیں اٹھا لیں۔ پھر وہ مرنے والے کی لاش لے کر باہر نکل گئے۔
ایک گاڑی میں کافی دیر تک سفر جاری رہا اور آخر کار وہ مختلف مراحل سے گزر کر اپنے باس اسٹینلے کے سامنے پہنچ گئے۔ اسٹینلے انسپکٹر عاصم کول اچکا تھا۔ اس وقت انسپکٹر عاصم اور ایس آئی خالد اس کے سامنے ایک بڑے سے پنجرے میں قید تھے۔ اسٹینلے ان کو مسکراتی فاتحانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اسٹینلے نے اپنے آنے والے ساتھیوں سے پوچھا۔
’’جمال کی لاش کہاں ہے؟‘‘
’’اسے ہم لے آئے ہیں ۔۔۔ اب تک عرفان نے اسے برقی بھٹی میں ڈال دیا ہو گا۔‘‘
’’بہت اچھے ۔۔۔‘‘ اسٹینلے نے تحسین آمیز نظروں سے دیکھا۔
’’باس۔۔۔ ہم آپ کے لیے حیرت انگیز تحفے بھی لائے ہیں۔‘‘ اس آدمی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر نہایت احتیاط سے اختر اور ہیرا کو نکالا اور ان کے باس کے آگے رکھی میز پر ڈال دیا۔
اسٹینلے آگے جھک آیا اور حیرت پاش نظروں سے اختر اور ہیرا کو دیکھنے لگا۔ اس کی حیرت کے ساتھ دل چسپی بھی بڑھ رہی تھی۔
’’کمال ہے ۔۔۔ یہ تو جادو ہو گیا ہے۔‘‘ اسٹینلے بڑبڑایا۔ ’’پروفیسر نجیب نے ان کو چھوٹا کس طرح کیا ہے؟‘‘
’’یہ بات تو یہی بونا ہی بتا سکتا ہے۔‘‘ اس کے آدمی نے تجویز دی۔
اسٹینلے نے جھکے جھکے اختر سے پوچھا۔ ’’تم بتاؤ۔۔۔؟ پروفیسر نے تم دونوں کو کس طرح اتنا مختصر سا کر دیا ہے؟‘‘
اختر نے نفی میں سر ہلایا۔ وہ لائیٹر کے بارے میں بتانا نہیں چاہتا تھا۔
اسٹینلے نے اسے انکار کرتے دیکھ کر ہاتھ بڑھایا اور اختر کو ہتھیلی پر اٹھا لیا۔ پھر بولا۔ ’’ تو تم بتانا نہیں چاہتے ۔۔۔ چلو کوئی بات نہیں ۔۔۔ ویسے میں کسی بات کے پیچھے نہیں پڑتا۔۔۔ مگر ساتھ ساتھ میرے چند شوق ہیں۔‘‘
اس نے معنی خیز نظروں سے اختر کو دیکھا۔ اس کے لبوں پر ایک عجیب و غریب مسکراہٹ تھی۔ ’’سب سے پہلا شوق یہ ہے کہ میں اپنی بات کا جواب ضرور چاہتا ہوں ۔۔۔ چاہے اس کے لیے مجھے دوسرے کی جان ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑے۔‘‘
یہ کہتے کہتے اسٹینلے ایک بڑے سے ایکوریم کے پاس آ گیا تھا، جس میں مختلف اقسام کے بہت سی چھوٹی بڑی رنگ برنگی مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ ایکوریم میں کئی شوپیسز اور کھلونے بھی پڑے تھے۔ اس کی تہہ میں خوبصورت اور سوراخوں والے پتھر بھی دکھائی دے رہے تھے، جن کے سوراخوں سے چھوٹی مچھلیاں آ جا رہی تھیں۔ ایکوریم کے اوپر ایک چھوٹا سا پلاسٹک کا کھلونا آدمی بیٹھا تھا۔ جس کے ہاتھ میں فشنگ راڈ تھی۔ اس کی ڈور ایکوریم میں کافی نیچے تک جا رہی تھی۔ اسٹینلے نے اختر کو ایکوریم میں ڈال دیا۔ وہ اوپر سے کھلا ہوا تھا۔ اختر کے لیے یہ ایکوریم کسی گہری جھیل سے کم نہ تھا۔ یہ اس کی خوش بختی تھی کہ وہ تیرنا جانتا تھا۔ جب اختر ایکوریم میں ایک چھپا کے کے ساتھ گرا تو فوری طور پر اس کا جسم تیر کی طرح سیدھا ہونے کی وجہ سے کافی گہرائی میں ڈوبتا چلا گیا۔ یہ گہرائی اختر کی جسامت کے حساب سے بہت زیادہ تھی۔ پھر اس نے ایک دم سنبھالا لیا اور اپنے اردگرد دیکھا۔ رنگ برنگی مچھلیاں اس کے قریب سے گزر رہی تھیں۔ اختر کو وہ مچھلیاں خود سے بہت بڑی بھی لگ رہی تھیں۔ ایکوریم میں مچھلیوں کا چارا ڈالا جاتا ہے تو وہ ایک جگہ جمع ہو کراس پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ اس وقت بھی مچھلیاں یہ سمجھی تھیں کہ ان کے چارا ڈالا گیا ہے۔ کئی مچھلیاں یوں تیر کی طرح جھپٹی تھیں، جیسے شارک مچھلی اپنے شکار پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اختر کے چہرے پر پانی میں بھی ہوائیاں اُڑنے لگی تھیں۔ اس کی آنکھیں اپنے حلقوں سے باہر نکلنے کو آ گئی تھیں۔ اس نے فوراً ہاتھ پیر چلائے۔ مچھلیاں ’’چارے‘‘ کو حرکت کرتے دیکھ کر کچھ بدک گئیں اور انہوں نے منہ مارنے کی کوشش نہیں کی، البتہ اس کے گرد و پیش ہی منڈلاتی رہیں۔ فرض کریں آپ اختر کی جگہ ہوں اور گہرے پانی کے اندر زندگی کی بقاء کی جد و جہد میں مصروف عمل ہوں ایسے میں آپ کو آپ سے بڑی مچھلیاں گھیر لیں تو آپ کی کیا حالت ہو گی؟ بس کچھ ایسی ہی صورت حال اختر کو درپیش تھی، لیکن اس نے اپنے ہوش وحواس برقرار رکھے تھے اور ایک نہایت قریب آنے والی ٹرانس پیرنٹ فش کے منہ پر لات ماری۔ گو کہ لات میں زیادہ طاقت نہیں تھی، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ وہ مچھلی گھبرا کر دور چلی گئی۔ اختر کا دم اُکھڑ رہا تھا۔ ایکوریم کے نچلے حصے میں رکھے ہوئے پتھروں کی درمیان میں سے ہوا کے بلبلے خارج ہو رہے تھے۔ اختر اچانک ہی ایک بڑے ہوا کے بلبلے کی زد میں آ گیا۔ اگلے ہی لمحے اسے یوں لگا جیسے اس کا جسم کسی ریگستانی ریت کے بگولے میں پھنس گیا ہے۔ بلبلے کے اندر اختر کا جسم اُلٹ پلٹ ہوتا ہوا پانی کی سطح پر آ گیا۔ اختر کے پھیپھڑے پھٹنے کے قریب ہو گئے۔ اوپر آ کر ہی اسے سانس لینا نصیب ہوا۔ نیچے سے بلبلے تواتر کے ساتھ خارج ہو رہے تھے۔ اختر بلبوں کی زد سے نکل گیا۔ وہ سطح پر آ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ تب اس نے اسٹینلے اور اس کے ساتھیوں کے چہروں کو ایکوریم سے بہت قریب دیکھا وہ لوگ بڑی دل چسپی کے ساتھ اسے دیکھ رہے تھے۔ ناگہاں ایک موٹی سی سیاہ مچھلی پانی سے نکل کر اوپر اچھل پڑی۔ جب وہ واپس گرنے لگی تو اس کا رخ اختر کی طرف تھا۔ بروقت اختر نے اسے دیکھ لیا۔ غیر ارادی طور پر وہ فوراً غوطہ مار گیا۔ مچھلی اس کے عین قریب ہی پانی میں داخل ہوئی تھی اور اس کی جانب بڑھی۔ اختر کی رفتار مچھلی سے تیز نہیں تھی۔ چناں چہ اس نے پلٹ کر ہاتھ پیر چلائے۔ مچھلی کا رخ تبدیل ہو گیا اور وہ دوسری جانب ہو گئی۔ اختر بدحواسی میں ایکوریم کی تہہ میں رکھے پتھروں تک آ گیا۔ یک لخت اسے یوں لگا جیسے اس کے عقب میں کوئی ہے۔ وہ تیزی سے پلٹا۔ ایک لمبی سی مچھلی لہراتی ہوئی اس پر لپک رہی تھی۔ اس مچھلی کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ اس سے خوف زدہ ہونے والی نہیں ہے۔ اختر فوراً پتھروں کے درمیان تیر گیا۔ مچھلی اس پر سے نظریں نہیں ہٹا رہی تھی۔ وہ ادھر بھی اس کے پیچھے آ گئی۔ یہ دیکھ کر اختر ایک بڑے پتھر کے آر پار سوراخ میں گھس گیا۔ وقتی طور پر اسے اطمینان ہو گیا تھا کہ مچھلی اس جگہ نہیں آ سکتی تھی، لیکن وہ آخر کب تک وہاں چھپا رہتا۔ اسے سانس لینے کے لیے پانی کی سطح پر تو جانا پڑتا۔ اچانک اسی لمبی مچھلی نے پتھر کے سوراخ میں منہ ڈال دیا وہ اختر کے اتنے قریب آ گئی تھی کہ اس کا کھلا ہوا منہ اختر کو چھو گیا تھا۔ اختر گھبرا کر پیچھے ہٹا۔ مچھلی نے منہ اور اندر گھسیڑ دیا۔ اختر نے اپنی شرٹ اُتاری اور مچھلی کے کھلے ہوئے منہ میں ڈال دی۔ مچھلی بری طرح مچلی، لیکن اختر کی شرٹ اس کے تیز دانتوں میں اٹک گئی۔ اتنے میں اختر پتھر کے سوراخ کے دوسرے راستے باہر نکل گیا۔ اس کا سانس بند ہونے لگا تھا۔ اسی وقت لمبی مچھلی نے پتھر کے سوراخ سے اپنا منہ نکالا اور وہ اپنا منہ ادھر ادھر ہلاتی ہوئی سطح کی طرف اٹھنے لگی۔ اختر کو اور کچھ نا سوجھا تو اس نے قریب سے گزرتی ہوئی اسی مچھلی کی دم دونوں ہاتھوں سے پکڑ لی، کیوں کہ وہ یہ بھی دیکھ چکا تھا کہ مزید کئی مچھلیاں اس کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ وہ اکیلا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا اور پھر اب اس کا دم بھی اکھڑنے لگا تھا۔ مچھلی پانی میں کسی تارپیڈو کی طرح لپک رہی تھی۔ اختر اس کی دم پکڑے اس کے ساتھ ساتھ اوپر اٹھتا چلا گیا۔ مچھلی اپنی پوری قوت سے پانی کی سطح سے نکل کر ہوا میں اچھلی۔ اختر بھی مچھلی کے ساتھ ہوا میں اڑ گیا تھا اور اچانک ہی اختر نے اس کی دم چھوڑ دی۔ مچھلی تو واپس پانی میں چلی گئی، لیکن اختر اوپر ہی رہ گیا، اس لیے کہ اس نے پانی سے نکلتے ہی وہ ڈور دیکھ لی تھی، جو پلاسٹک کے گڈے کے ہاتھ میں پکڑی فشنگ راڈ کی تھی۔ وہ اس کے عین اوپر آ گئی تھی۔ اختر نے ہوا میں ہی وہ مضبوط ڈور پکڑ لی۔ اب وہ ڈور پکڑے لٹکا ہوا تھا۔ مچھلیوں نے اسے یوں بچ نکلتے دیکھا تو وہ بپھر گئیں۔ کئی مچھلیاں اُچھل اُچھل کر اس پر منہ مارنے کی کوششیں کر رہی تھیں، مگر اختر بری طرح تھکا ہونے کے باوجود ڈور کے ذریعے اوپر چڑھتا چلا گیا اور مچھلیوں کی پہنچ سے دور ہو گیا۔ بڑی محنت اور جستجو کے بعد آخر کار وہ اس تختے پر آ کر لیٹ گیا جس پر پلاسٹک کا گڈا بیٹھا تھا۔ اختر کی سانسیں بری طرح پھولی ہوئی تھیں۔ وہ موت کے منہ میں جا کر لوٹ آیا تھا، ورنہ اسے اپنی زندگی کی کوئی امید ہی نہیں رہی تھی۔ سانسوں کی بحالی کے دوران اختر دیکھ چکا تھا کہ کمرے میں اور کوئی نہیں ہے۔ اسٹینلے اپنے چیلوں کے ساتھ باہر چلا گیا تھا۔ صرف انسپکٹر عاصم اور ان کا ساتھی پنجرے میں بند دکھائی دے رہے تھے۔ پنجرے کا دروازہ لاک تھا۔ اختر نے بے چینی سے ہیرا کی تلاش میں نگاہیں دوڑائیں اور ہیرا کو دیکھ ہی لیا۔ ٹیبل پر ایک کانچ کے گلاس میں ہیرا بھی اسے دیکھ کر بری طرح اچھل اچھل کر اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اختر نے ہیرا کو دیکھتے ہی زور زور سے دونوں ہاتھ فضا میں لہرائے۔ ہیرا خوش ہو گیا تھا۔ وہ بھونک بھی رہا تھا، لیکن اختر کو اس کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اب مسئلہ یہاں سے نیچے اترنے کا تھا۔ ایکوریم ایک لمبے ڈوائیڈر پر رکھا ہوا تھا۔ فی الحال تو اسے ایکوریم کے اوپر سے ڈوائیڈر کی سطح پر آنا تھا۔ وہاں سے فرش تک پہنچنا بعد کا مسئلہ تھا۔ اس کام کے لیے بھی اختر نے وہی فشنگ راڈ کی ڈور استعمال کی
اور با آسانی ڈوائیڈر کی سطح پر آ گیا۔ پنجرے کے اندر سے انسپکٹر عاصم اور ایس آئی خالد پلکیں جھپکائے بغیر اختر کی تمام حرکات بغور دیکھ رہے تھے۔ اب فرش پر اترنے کا مرحلہ آ گیا۔ وہاں کوئی ایسی چیز نہیں تھی، جس کی مدد سے وہ لٹک کر فرش تک پہنچ جاتا۔ اختر اس بار کچھ پریشان ہو گیا تھا۔ وہ ایسے ہی فرش پر کودنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔ انسپکٹر عاصم نے اس کی پریشانی کو بھانپ لیا۔ تب انہوں نے ایک خیال کے تحت اپنی شرٹ اتاری اور پنجرے کی سلاخوں کے درمیان میں سے ہاتھ نکال کر اسے ڈوائیڈر کے نیچے پھینک دیا۔
ساتھ ہی انہوں نے بلند آواز میں اختر کو مخاطب کیا۔
’’میں نے شرٹ نیچے پھینک دی ہے ۔۔۔ اس پر چھلانگ لگا دو۔‘‘
اختر بھی شرٹ کو دیکھ چکا تھا۔ یہ بہتر ترکیب تھی۔ اس میں جسمانی ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ نہیں تھا۔ چناں چہ اختر اللہ کا نام لے کر شرٹ پر کود گیا۔ وہ کسی تنکے کی طرح اڑتا ہوا شرٹ پر آ گرا۔ توقع کے مطابق وہ بالکل محفوظ رہا تھا۔ اختر تیزی سے پنجرے کی قریب پہنچا۔ انسپکٹر عاصم اور خالد جھک کر اسے دیکھنے لگے تھے۔
اختر نے کہا۔ ’’انسپکٹر صاحب۔۔۔ میں نے ہی آپ کو فون کیا تھا۔۔۔ لیکن شاید کسی نے فون پر ہماری گفتگو سن لی تھی۔۔۔ اس لیے ہم اس حال کو پہنچ گئے ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اب اسٹینلے یہاں سے بھاگنے کی تیاریوں میں مصروف ہو گا، کیوں کہا س کا مقصد تو حل ہو چکا ہے۔‘‘
انسپکٹر عاصم بولے ’’پروفیسر سراج خان والی فائل تو اس کے پاس پہنچ چکی ہے ۔۔۔ لیکن ابھی اس کا ایک کام اور بھی رہتا ہے ۔۔۔ اس نے ابھی مجھے بتایا تھا وہ اور اس کے آدمی سراج خان کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔۔۔ وہ چاہتا ہے کہ فارمولے کی فائل کے ساتھ سراج خان کو بھی ساتھ لے جائے، تاکہ اسی سے فائل پر کام کروایا جائے اور فارمولے کو ٹھوس شکل دی جائے۔‘‘
اختر حیرت سے بولا۔ ’’لیکن سراج خان تو بہت دنوں سے لا پتا ہے ۔۔۔ نہ جانے وہ زندہ بھی ہے یا مر چکا ہے؟‘‘
’’میرا بھی یہی خیال ہے ۔۔۔‘‘ انسپکٹر عاصم نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’اگر وہ زندہ ہوتا تو اب تک کہیں نہ کہیں اس کا کوئی نشان مل چکا ہوتا۔۔۔ اور کچھ نہیں تو وہ کم از کم کسی بھی ذریعے پروفیسر نجیب سے رابطہ ضرور کرتا۔‘‘
’’یہ بھی قابل غور بات ہے۔‘‘ اختر نے تائید کی پھر کہا۔ ’’انسپکٹر صاحب اس وقت سب سے بڑا مسئلہ آپ کی اور آپ کے ساتھی کی رہائی کا ہے ۔۔۔ اور اس پنجرے کا لاک اسی کی چابی سے ہی کھل سکتا ہے ۔۔۔ میں دوسری جگہوں پر جا کر دیکھتا ہوں ۔۔۔ شاید چابیوں کا سراغ لگ جائے ۔۔۔‘‘
انسپکٹر عاصم اور ایس آئی خالد ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے۔ جیسے اختر نے کوئی انہونی بات کر دی ہو، مگر انہوں نے کچھ کہا نہیں۔ اختر نے ایک نظر اس ٹیبل پر ڈالی۔ جس پر کانچ کے گلاس میں ہیرا قید تھا۔ اگلے ہی لمحے وہ تیزی سے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا۔ نہایت آسانی سے وہ دروازے کے نیچے سے نکل گیا۔ دروازہ کراس کرنے کے بعد اس نے خود کو ایک بڑے ہال کے اندر پایا۔ اس ہال میں کئی طویل سائیڈ ٹیبلیں دیواروں سے منسلک نظر آ رہی تھیں۔ ان ٹیبلوں کے اوپر دیوار میں اسے بہت سی اسکرینوں دکھائی دیں۔ وہاں اسکرینوں کے آگے اسٹول پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ اسکرینوں پر عمارت مختلف حصے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ آدمی وہاں بیٹھے بیٹھے پوری عمارت کے چپے چپے پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ ساتھ ساتھ وہ کچھ کھاتا بھی جا رہا تھا۔ اختر نے دیکھا، اس کی پینٹ کی جیب سے چابیوں کا ایک بھاری گجھا لٹک رہا تھا۔ یقیناً اس میں ہی پنجرے کی چابی بھی ہو گی، لیکن یہ گچھا کس طرح حاصل کیا جائے؟ اختر تیزی سے کوئی ترکیب سوچ رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر ٹیبلوں کے نیچے پھیلے ہوئے بجلی کے تاروں پر پڑی۔ ایک خیال اس کے دماغ میں شعلے کی طرح لپکا۔ اختر خوشی کے مارے اچھل پڑا تھا۔ اگر یہ ترکیب کار گر ثابت ہوئی تو چابیوں کا حصول آسان ہو جائے گا۔ وہ اپنی ترکیب پر عمل پیرا ہونے کے لیے جلدی سے تاروں کی طرف بڑھا۔ یہ تار اوپر جا کر مختلف مشینوں کو بجلی فراہم کر رہے تھے۔ ان کو کھینچ کر مشینوں سے نکال لینا اختر کے باس کی بات نہیں تھی۔ ایک پتلے تار کے درمیان اختر نے جوڑ سے کچھ فاصلے پر تار کو پکڑا اور کھینچا تو دونوں جوڑ الگ ہو گئے۔ اب بجلی کا ننگا تار اس کے ہاتھ میں تھا۔ اختر بڑی احتیاط سے اسے کھینچتا ہوا اسٹول کے پائے کے نزدیک لے گیا۔ وہ آدمی اپنی عبرت ناک موت کی چاپیں نہ سن سکا۔ اب وہ ایک ٹھنڈی بوتل منہ سے لگائے غٹا غٹ پانی پی رہا تھا۔ اختر نے وقت ضائع کیے بغیر تار کو ہلا کر اسٹول کے پائے سے لگا دیا اور خود ٹیبلوں کے نیچے بھاگا۔ دوسرے ہی ثانیے اس نے آدمی کی ایک چیخ سنی۔ وہ آدھی تھرتھرائی ہوئی آواز میں بری طرح لرز رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس نے ابھی ابھی ڈھیر سارا پانی بھی پیا تھا، جس نے کرنٹ کی قوت کو بے تحاشا بڑھا دیا تھا، لہٰذا بچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ آدمی تھر تھر کانپتا ہوا اسٹول سے نیچے آ گرا۔ اس وقت تک اس کی روح عالم بالا کی جانب پرواز کر چکی تھی۔ مرنے والے کا منہ اختر کی جانب تھا۔ اختر نے اس کی بے نور اور پھٹی پھٹی سی آنکھوں میں اذیت کا بحر بیکراں ساکت و منجمد دیکھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کرنٹ نے اس کے بدن کا خون نچوڑ لیا ہے۔ اس کے ہونٹ سفید پڑ چکے تھے۔ اختر اس کی جیب کے پاس آیا۔ چابیوں کا گچھا تقریباً جیب سے نکل کر گرنے کو تھا۔ اختر نے ایک چابی پکڑ کر معمولی سا جھٹکا دیا تو گچھا نیچے آ گرا۔ اس میں بہت سی چابیاں لگی ہوئی تھیں۔ اس وجہ سے وہ بے حد وزنی ہو گیا تھا، کم از کم اختر کے لیے۔ اختر نے طاقت لگا کر اسے کھینچا، مگر گچھا اپنی جگہ سے حرکت بھی نہ کر سکا۔ وہ اس مہم میں کامیاب ہو کر بھی ناکام ہو رہا تھا، یعنی ہاتھی تو سوراخ سے نکل گیا، اس کی دم پھنسی رہ گئی۔ اختر امید و بیم کی کیفیت میں وہاں دیکھنے لگا۔ کافی دور اس نے ایک گتے کا کارٹن پھٹا پڑا دیکھا، جس میں مختلف چیزیں اسے نظر آ رہی تھیں۔ ان چیزوں کو ناکارہ سمجھ کر کارٹن میں بھر دیا گیا تھا۔ کسی خیال کے تحت وہ کارٹن کی طرف بڑھا۔ قریب پہنچ کر اس نے دیکھا کہ پھٹے ہوئے کارٹن میں خراب تار، چند پرانے رجسٹر اور پیڈ پڑے تھے۔ ان کے علاوہ مشینوں کے ناکارہ پرزے بھی دکھائی دیتے تھے۔ ایک چیز نے اختر کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ وہ ایک باریک ستلی کی لچھی تھی۔ اختر کو بروقت ایک ترکیب سوجھ گئی۔ وہ لچھی کو کھینچتا ہوا چابیوں کے گچھے کے پاس لے آیا اور اس کی باریک، لیکن مضبوط ڈور کا ایک سرا چابیوں کے چھلے میں باندھ دیا اور پھر لچھی کو کھولتا ہوا اس کا دوسرا سرا لے کر پہلے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ ڈور کا سرا لے کر انسپکٹر عاصم اور ایس آئی خالد کے قریب آ گیا۔ دونوں حیرت ناک نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ ان کو اس قدر حیرانی تھی کہ وہ اپنی سمجھ کا استعمال ٹھیک سے نہ کر سکے۔ اختر نے سرا پنجرے کی سلاخوں کے پاس ڈال دیا اور شوخ نظروں سے ان دونوں کو دیکھنے لگا۔
انسپکٹر عاصم اور خالد دوبارہ جھک گئے۔
’’یہ۔۔۔ یہ کیا ہے ۔۔۔؟‘‘ انسپکٹر عاصم نے تعجبانہ لہجے میں سوال کیا۔
’’ایک ڈور ہے ۔۔۔ اسے اٹھا کر کھینچیں ۔۔۔‘‘ اختر نے اشارہ کیا۔ ایس آئی خالد نے ڈور کا سر اٹھایا اور اسے کھینچنے لگا۔ پھر جب انہوں نے دروازے کے نیچے سے چابیوں کا گچھا نمودار ہوتے دیکھا تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ خوشی اور جوش کے مارے ان کے منہ سے کوئی آواز نہ نکل سکی، البتہ دونوں کے چہرے نئے جذبے کے ساتھ تمتمانے لگے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد انہوں نے پنجرے کا دروازہ کھول لیا اور وہ باہر آ گئے۔
انسپکٹر عاصم تشکرانہ لہجے میں بولے ’’نوجوان۔۔۔ تم نے واقعی بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ۔۔۔ ورنہ ہم تو یہی سوچ بیٹھے تھے کہ شاید ہمیں اس قید خانے سے رہائی نصیب نہیں ہو گی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھے اور ڈوائیڈر کے نیچے پڑی ہوئی اپنی شرٹ اٹھا کر پہن لی۔ ایس آئی خالد نے اختر کو ہتھیلی پر اٹھا لیا تھا۔
اختر نے کہا۔ ’’میرے کتے ہیرا کو اس گلاس میں سے نکال لیں۔‘‘
انسپکٹر عاصم نے ہیرا کو نکال لیا۔ ان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
وہ خالد سے کہنے لگے۔ ’’خالد۔۔۔ خدا کی قسم۔۔۔ یہ منظر میری زندگی کا سب سے انوکھا اور یادگار منظر ہے۔ میں اس کو شاید کبھی بھلا نہ سکوں گا۔‘‘
’’مجھے خود یقین نہیں آ رہا ہے سر۔۔۔‘‘ خالد کبھی ہیرا اور کبھی اختر کو دیکھ رہا تھا۔ انسپکٹر عاصم دروازے کی طرف لپکے، لیکن دروازہ لاک ملا۔ چابیوں کے گچھے کو آزمایا گیا۔ خوش قسمتی سے ایک چابی اسی لاک کی نکلی۔ وہ بڑے ہال نما کمرے میں آ گئے، جہاں وہ آدمی مرا پڑا تھا۔
انسپکٹر عاصم نے حیرت سے اختر کو دیکھا ’’تم نے اسے کیسے مارا۔۔۔؟‘‘
اختر نے اسٹول کے ساتھ لگے تار کی طرف اشارہ کیا۔ ’’کرنٹ سے ۔۔۔‘‘
انسپکٹر عاصم پاگلوں کی طرح تار کو دیکھنے لگے۔
پھر ان لوگوں نے اسکرینوں کی طرف دیکھا۔ جہاں عمارت کے مختلف حصے دکھائی دے رہے تھے۔ معاً ان کی نظریں فون پر پڑی۔ انہوں نے خالد اور اختر کو مخاطب کیا۔
’’تم دونوں ان اسکرینوں پر نظر رکھو۔ میں فون کرتا ہوں ۔۔۔‘‘
انسپکٹر عاصم نے اپنے آفس کے نمبر گھمائے۔ دوسری جانب سے کسی ہیڈ کانسٹیبل نے فون ریسیو کیا۔ انسپکٹر عاصم کی آواز سن کر وہ حیران پریشان رہ گیا تھا۔ انسپکٹر عاصم نے اسے کہا کہ وہ فوراً آپریٹر سے نمبر معلوم کرے اور فوراً اس جگہ ریڈ کرے۔ جتنی نفری ہو سکے لے آئے۔ ہیڈ کانسٹیبل نے ان کی ہدایت پر عمل کیا اور آپریٹر نے اس فون نمبر کا ایڈریس معلوم کیا، جہاں سے انسپکٹر عاصم نے فون کیا تھا۔ خوش قسمتی کہہ لیں یا اتفاق کہ آپریٹر کوئی دوسرا آدمی تھا۔ وہ آپریٹر مختار جو مجرموں سے ملا ہوا تھا، وہ اپنی ڈیوٹی ختم کر کے جا چکا تھا۔ انسپکٹر عاصم نے مطمئن ہو کر فون بند کر دیا۔ ادھر خالد اور اختر اسکرینوں پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ اسٹینلے کے آدمی ہتھیار لیے عمارت میں پھیلے ہوئے تھے اور کسی بھی خطرے سے نمٹنے کو پوری طرح چوکس تھے، لیکن خود اسٹینلے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ انسپکٹر عاصم اس جگہ کی تلاشی لینے لگے، کیوں کہ وہ اپنے ہتھیاروں سے محروم کر دئیے گئے تھے اور ان کے پاس دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لیے کوئی آتشیں اسلحہ نہیں تھا۔ یہ ہال نما کمرا شاید عمارت کا کنٹرول روم ہی تھا۔ انسپکٹر عاصم نے ہال سے ملحقہ ایک اسٹور دیکھا، جہاں آکسیجن سلنڈروں کے علاوہ اور بھی کئی گیس سلنڈر موجود تھے۔ وہ ان کے کسی استعمال میں آتے ہوں گے۔ ادھر ہی انہوں نے ایک چرمی بیگ دیکھا وہ بیگ اٹھائے اسٹور سے باہر نکل آئے۔ اختر نے جونہی بیگ دیکھا، وہ خوشی سے اچھل کر چیخ پڑا اور حلق پھاڑ کر چلایا۔
’’یہ۔۔۔ یہ بیگ تو مجرموں کے باس کا ہی ہے ۔۔۔ جب مجرموں نے پروفیسر نجیب کو قتل کیا تھا تو یہی بیگ میں نے باس کے ہاتھوں میں دیکھا تھا۔ پروفیسر کی تجربہ گاہ سے باس نے بہت سے چیزیں اُٹھا کر اس میں ڈال لی تھیں۔ یقیناً اس میں وہ جادوئی لائیٹر بھی ہو گا، جس کی وجہ سے میں اور ہیرا اس حال کو پہنچے ہیں۔‘‘
اختر ایک ہی سانس میں کہتا چلا گیا۔ اختر پینٹ اور بنیان میں ملبوس تھا۔ انسپکٹر عاصم نے بیگ کی زِپ کھولی اور اسے فرش پر اُلٹ دیا۔ بہت سی الم غلم چیزیں فرش پر ڈھیر ہو گئیں۔ ان چیزوں میں وہ لائیٹر بھی تھا۔
’’وہ مارا۔۔۔ زبردست۔۔۔‘‘ اختر خوشی سے ناچ اٹھا ہیرا حیرت سے اسے دیکھنے لگا تھا۔ پھر اختر نے لائیٹر استعمال کرنے کا طریقہ بتایا۔ انسپکٹر عاصم نے ہیرا اور اختر کو ٹیبل سے اٹھا کر فرش پر ڈال دیا اور اسی طریقے پر عمل کرتے ہوئے لائیٹر کی نچلی سطح الٹی طرف سے دس مرتبہ دبائی لائیٹر میں لال شعاع نکلی اور ان دونوں پر پڑی ایک تیز جھماکا سا ہوا۔
اگلے ہی لمحے انسپکٹر عاصم اور خالد نے دیکھا کہ اختر اور ہیرا اپنی اصل حالت میں ہال کے فرش پر کھڑے تھے۔ وہ اپنے سابقہ قد و قامت میں آ گئے تھے۔ سب سے پہلے اختر نے اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اور پھر ہیرا کے گلے لگ گیا۔ ہیرا بھی اپنے اصلی قد میں آ کر خوش ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ ان لوگوں کے درمیان ڈائیلاگ بازی ہوتی۔ ایس آئی خالد ایک اسکرین کو دیکھ کر چونک گیا۔
’’ارے یہ کیا۔۔۔‘‘ اس کی آواز نے انسپکٹر عاصم اور اختر کو چونکا دیا۔ دونوں اسکرین کے پاس پہنچے۔ انہوں نے دیکھا کہ اسٹینلے عمارت میں آ گیا تھا اور اپنے کسی ساتھی سے کچھ باتیں کر رہا تھا۔
’’اوہ۔۔۔ اس کا مطلب ہے ۔۔۔ اب یہ ادھر ہی آئے گا۔۔۔‘‘ انسپکٹر عاصم بڑبڑائے۔
’’ہمیں فوراً کچھ سوچنا پڑے گا۔۔۔ دروازے سے باہر نکلنے کا وقت نہیں ہے۔ اسٹینلے کے مسلح ساتھی باہر موجود ہیں۔ وہ ہمیں بھون ڈالیں گے ۔۔۔‘‘ ایس آئی خالد نے تشویش زدہ لہجے میں کہا۔
’’انسپکٹر صاحب یہ دیکھیں ۔۔۔‘‘ اختر ایک دیوار کے ساتھ کھڑا اوپر دیکھ رہا تھا۔ وہاں ایک چوکور سوراخ تھا۔ جس میں لوہے کی پتلی جالیاں لگی ہوئی تھیں۔ اس جگہ شاید ایگزاسٹ فین لگایا جاتا تھا، جسے خراب ہونے کی وجہ سے عارضی طور پر ہٹا لیا تھا۔
’’ویری گڈ۔۔۔‘‘ انسپکٹر عاصم پر جوش لہجے میں کہنے لگے ’’ہم یہاں سے باہر نکل سکتے ہیں، لیکن ہم جانے سے پہلے اس ہال میں ایسا انتظام کر جائیں گے کہ دشمنوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اس کے لیے ہمیں یہاں اپنی موجودگی کا احساس دلانا پڑے گا۔‘‘
’’لیکن ہم ادھر کیا انتظام کریں گے؟‘‘ ایس آئی خالد مضطرب لگ رہا تھا۔
’’دونوں آؤ میرے ساتھ۔۔۔‘‘ انسپکٹر عاصم انہیں ساتھ لیے اسٹور میں آئے اور انہیں گیس سلنڈر دکھائے۔
’’ان سے ہم کام لے سکتے ہیں ۔۔۔ میرے ذہن میں ایک ترکیب ہے۔ انہیں لے کر ہال کے دروازے تک لے چلو۔۔۔‘‘
پھر ان لوگوں نے دو بڑے بڑے سلنڈر ہال میں پہنچا دئیے۔ انسپکٹر عاصم نے ایک سلنڈر دروازے کے لاک کے عین سامنے سیدھی حالت میں کھڑے کر دیے اور بجلی کے تار لاک سے ٹچ کر دیے۔ عین اسی لمحے انہوں نے باہر کئی قدموں کی چاپیں سنیں۔ اسٹینلے ان کی جانب ہی آ رہا تھا۔ اس کے ساتھ کئی ساتھی تھے۔ ایک ساتھی نے آگے ہاتھ بڑھا کر بڑے اطمینان سے دروازے کا ہینڈل پکڑ کر گھمانا چاہا۔ اگلے ہی لمحے وہ ہنس دیا۔ اسٹینلے اور باقی ساتھی چونک کر اسے دیکھنے لگے۔ جسے وہ اپنے ساتھی کی ہنسی سمجھے تھے، وہ موت کے قہقہے تھے۔ اس آدمی کے جسم میں کرنٹ کی نیلی لہریں بالکل واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ فرش پر گر گیا۔ اسٹینلے اور اس کے ساتھی سناٹے میں آ گئے تھے۔
’’یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ کیسے ہو گیا۔۔۔؟‘‘ ایک ساتھی نے ہکلاتے ہوئے کہا ’’دروازے میں کسی نے اندر سے کرنٹ چھوڑ رکھا ہے۔‘‘
’’بالکل ٹھیک سمجھا تم لوگوں نے ۔۔۔‘‘ اندر سے انسپکٹر عاصم کی آواز سن کر وہ سب حیرت سے اچھل پڑے۔
’’تم۔۔۔ تم سب آزاد کیسے ہو گئے؟‘‘ اسٹینلے تو حیرت سے پاگل ہوا جا رہا تھا۔
’’تمہاری بے وقوفی کی وجہ سے ۔۔۔‘‘ اندر سے جواب آیا۔
’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘ اسٹینلے دروازے کو گھورنے لگا۔
’’کس بات کا مطلب پوچھ رہے ہو۔۔۔؟‘‘ انسپکٹر عاصم نے اس کا تمسخر اڑایا۔ ’’میرے آزاد ہونے کا۔۔۔ یا اپنی بے وقوفی کا۔۔۔؟‘‘
’’شٹ اپ۔۔۔‘‘ اسٹینلے اپنے ساتھیوں کے سامنے بے عزتی محسوس کر کے چلا پڑا۔ ’’میں نے تمہیں زندہ چھوڑ کر غلطی کی ہے ۔۔۔ اب تم زندہ نہیں بچو گے۔‘‘
’’آ جاؤ ۔۔۔ہمت کر لو۔۔۔‘‘ انسپکٹر عاصم نے اسے اشتعال دلایا۔
’’فائر کر کے لاک توڑ ڈالو۔۔۔‘‘ اسٹینلے پھر چیخا۔
’’ایسی غلطی بھی مت کرنا احمق۔۔۔‘‘ انسپکٹر عاصم نے فوراً کہا۔ ’’ میں نے اسٹور میں سے ایک گیس سلنڈر نکال کر دروازے کے لاک کے آگے کھڑا کر دیا ہے ۔۔۔ فائر کرو گے تو عین ممکن ہے کوئی گولی لوہے کی چادر کو پھاڑتی ہوئی گیس سلنڈر میں لگ جائے ۔۔۔ خود ہی سوچ لو۔۔۔ نتیجہ کیا ہو گا۔۔۔؟‘‘
اسٹینلے بے بسی کے عالم میں ناچ کر رہ گیا۔ وہ لوگ دروازے کو چھوسکتے تھے اور نہ اسے کھولنے کے لے لاک پر گولیاں برسا سکتے تھے۔ یہ ایک عجیب بلکہ دلچسپ صورت حال ہو گئی تھی۔ ادھر اختر ایک ٹیبل پر چڑھ کر چوکور سوراخ کی جالیاں ہٹانے کی کوششیں کر رہا تھا۔ اچانک اسٹینلے باہر سے دروازے کے آگے جھکا اور نیچے جھری سے جھانک کر دیکھا تو اسے واقعی گیس سلنڈر کا پینڈا نظر آیا۔ ساتھ ہی اس نے بجلی کا تار بھی دیکھ لیا۔ اس نے پھرتی سے اپنے ایک ساتھی کے ہاتھ سے لمبی نال والی گن چھینی اور دوبارہ جھک کر گن کی نال سے تار کو دروازے سے الگ ہٹا دیا۔ یہ کام اس نے بڑے دھیان سے کیا تھا۔ اگر تار ذرا بھی گن کی نال سے چھو جاتا تو اسٹینلے زندہ نہ رہتا۔ یہ کام کرنے کے بعد اس نے گن کی نال کو سلنڈر کو پیندے سے لگایا اور اپنے ساتھیوں سے دھیمی آواز میں بولا۔
’’اسے زور سے دھکیلو۔۔۔ اندر کھڑا سلنڈر گر جائے گا تو ہم فوراً لاک پر فائر کر کے دروازہ کھول لیں گے ۔۔۔‘‘
اس کے ساتھی اپنے ہتھیار رکھ کر آگے بڑھے اور اس مشقت طلب کام میں جت گئے۔ اس وقت تک اختر نے جالیاں اکھاڑ ڈالیں اور ہلکی سی سیٹی بجا کر انسپکٹر عاصم کی توجہ اس جانب کرائی۔ انہوں نے سر ہلایا اور خالد کو ایک اشارہ کیا۔ خالد نے آگے بڑھ کر دونوں سلنڈروں کے والو کھول ڈالے۔ انسپکٹر عاصم نے دیکھ لیا کہ ان لوگوں نے کرنٹ کا تار بھی ہٹا دیا ہے اور اب وہ سلنڈر گرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یقیناً اس کے بعد وہ لاک پر فائرنگ ہی کریں گے۔ سب سے پہلے ہیرا کو چوکور سوراخ سے دوسری جانب کھڑے اختر کے حوالے کیا۔ پھر خالد بھی نکل گیا۔ انسپکٹر عاصم کو وہاں شدید گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔ گیس پورے ہال میں بھر گئی تھی۔ انہیں اپنا دماغ ماؤف ہوتا محسوس ہوا، لیکن انہوں نے اپنے حواس و اعصاب سنبھالے اور ٹیبل پر چڑھ گئے۔ عین اس وقت انہوں نے سلنڈر گرنے کی آواز سنی۔ اسٹینلے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا۔
خطرہ ایک دم بڑھ گیا تھا۔
انسپکٹر عاصم نے اپنا بدن اٹھا کر سمیٹا اور سوراخ سے گزر گئے۔ دوسری طرف سے اختر اور خالد نے انہیں سنبھال لیا۔ فوراً ہی انہوں نے فائرنگ کی گرج دار آوازیں سنی تھیں۔ اسٹینلے کے آدمیوں نے سلنڈر گرا کر کے دروازے کے لاک پر تڑاتڑ گولیاں برسانا شروع کر دی تھیں۔ اندر گیس کسی بپھرے ہوئے بھوت کی طرح قید تھی۔ رپیٹر کی ایک ہولناک گولی لوہے کی چادر چیرتی ہوئی اندر چلی گئی۔ سرخ انگارے کی مانند دہکتی ہوئی گولی نے اندر شعلے بھڑکا دئیے۔ ایک قیامت خیز دھماکا ہوا۔
دروازے کے آگے دو آدمی کھڑے تھے۔ دھماکے سے سب کے ہی اوسان خطا ہو گئے۔ اسی لمحے ایک اور دھماکے سے دروازہ اپنے قبضوں سے اُکھڑا اور بم کے گولے کی طرح ان دونوں آدمیوں سے ٹکرایا۔ دروازہ انہیں کھڑی حالت میں لیتا ہوا سامنے کی دیوار سے پوری شدت کے ساتھ جا لگا۔ دونوں بدنصیب دروازے اور دیوار کے درمیان کسی غبارے کی طرح پچک کر پھٹ گئے۔ اسٹینلے اور باقی آدمی دھماکے کی شدت سے الٹ کر گر گئے تھے۔ پوری عمارت لرز اٹھی تھی۔ باہر کھڑے مسلح آدمی پاگلوں کی طرح اندر بھاگے چلے آئے۔ اسٹینلے بری طرح چلا رہا تھا اور انہیں پوری عمارت میں پھیل کر قیدیوں کو تلاش کرنے کا کہہ رہا تھا، کیوں کہ اس نے دیکھ لیا تھا کہ ہال خالی پڑا ہے اور ایگزاسٹ فین کے سوراخ پر سے جالیاں ہٹی ہوئی تھیں۔ اس کے آدمی عمارت میں پھیل گئے۔ انسپکٹر عاصم، اختر اور خالد وہاں سے نکل کر ایک لمبی راہداری میں بھاگے۔
دفعتاً سامنے سے دو مسلح آدمی نمودار ہوئے۔ انہیں دیکھتے ہی ان آدمیوں نے فائر کھول دئیے۔ برابر میں ایک زینہ تھا۔ وہ لوگ ان آدمیوں کے فائر کرنے سے پہلے ہی زینے پر بھاگتے ہوئے چڑھ گئے۔ گولیاں شراروں کی طرح سیدھی نکل گئیں۔ وہ آدمی ان کے پیچھے لپکے۔ اوپر منزل پر بھی ویسی ہی لمبی راہداری تھی۔ انہوں نے دونوں اطراف نظریں دوڑائیں۔
ایک نے دوسرے سے اشاروں میں کہا کہ تم دائیں جانب جاؤ۔۔۔ میں بائیں طرف کا انہیں تلاش کرتا ہوں۔
اس آدمی کا ساتھی دوسری طرف چلا گیا۔ پہلا آدمی راہداری میں آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔ اس نے ایک دروازہ کھلا دیکھا۔ بڑی احتیاط سے وہ اندر داخل ہوا اور اس نے ان تینوں قیدیوں کو دیکھا۔ وہ کچھ حیران ہوا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ دو قیدی ہیں، جب کہ یہ تو تین تھے۔
اس نے وقت ضائع کیے بغیر فوراً ان تینوں پر گن تان لی اور دبنگ آواز میں غرایا ’’خبردار۔۔۔ حرکت مت کرنا۔۔۔ ہاتھ اوپر اٹھا لو۔‘‘ لیکن ان پر اس کے لہجے کا کوئی اثر نہیں ہوا وہ اطمینان سے یونہی کھڑے رہے۔
’’سنا نہیں تم لوگوں نے ۔۔۔‘‘ وہ پھر چلایا۔
’’سن لیا ہے ۔۔۔ اب ذرا اپنے پیچھے بھی دیکھ لو۔‘‘ اختر نے مسکراتے ہوئے اس کے عقب میں اشارہ کیا۔
وہ آدمی بھی اپنی دانست میں بڑا ذہین تھا۔۔۔ وہ مڑا نہیں۔ ہنس کر بولا۔ ’’یہ دھوکا پرانا ہو چکا ہے ۔۔۔ بے وقوف کسی اور۔۔۔‘‘ اس کا جملہ درمیان میں رہ گیا۔
ہیرا اس کے عقب میں غرایا تھا۔ اس کے گھومنے سے پہلے ہی ہیرا اپنا کام کر گیا۔ وہ ایک جنگجو اور خونخوار کتا تھا۔ آناً فاناً اس آدمی کو نیچے گرا لیا۔ انسپکٹر عاصم نے بڑھ کر اس آدمی کی گری ہوئی گن اٹھا لی اور اس کی گن پٹی پر دستہ مار کر بے ہوش کر دیا۔ اتنی ذرا سی دیر میں ہیرا نے اس کا اچھا خاصا حلیہ بگاڑ ڈالا تھا۔ اچانک ہی وہ عمارت گولیوں کے دھماکوں سے گونجنے لگی۔ ساتھ ساتھ انہیں انسانی چیخوں کی دل دوز آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا دو مسلح گروہ آپس میں ٹکرا گئے ہیں۔
انسپکٹر عاصم تیزی سے بولے۔ ’’یقیناً‘‘ پولیس کے آدمی آ چکے ہیں اور وہ مجرموں سے مقابلہ کر رہے ہیں ۔۔۔ جلدی آؤ۔۔۔ ہمیں اسٹینلے کو قابو کرنا ہے، ورنہ وہ نکل جائے گا۔ وہ سراج خان والی فائل بھی اس کے قبضے میں ہو گی۔۔۔ آؤ۔۔۔‘‘
وہ کمرے سے نکلے ہی تھے کہ ان پر گولیوں کی ایک باڑ ماری گئی۔ انسپکٹر عاصم آگے تھے اگر وہ فوراً نہ رکتے تو گولیوں سے ان کا جسم چھلنی ہو کر رہ جاتا۔ دوسری جانب جانے والا آدمی پلٹ آیا تھا۔ وہ آدمی ان کو فائر کرنے کا موقع ہی نہیں دے رہا تھا۔ اتنے میں اختر نے انسپکٹر عاصم کو آواز لگا کر مخاطب کیا۔ انہوں نے دیکھا، اختر کے ہاتھ میں ایک موٹی سی بوتل تھی، جس کا منہ لمبا اور پتلا تھا۔ یہ بوتل اس کمرے کی تلاشی لینے پر ایک الماری سے ملی تھی۔
اختر کہہ رہا تھا۔ ’’یہ اس آدمی کا علاج کرے گی۔۔۔‘‘ بوتل میں سفید پانی سا تھا۔
انسپکٹر عاصم نے پوچھا ’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’تیزاب۔‘‘ اختر نے بوتل ہلا کر بتایا ’’اب آپ بوتل کا کمال دیکھیں۔‘‘
ادھر دشمن انہیں للکار رہا تھا۔ باہر سے مسلسل گولیوں کے دھماکے سنائی دے رہے تھے۔
اختر نے بوتل کا منہ مٹھی میں پکڑا۔ ایک دم اوٹ سے باہر آ کر اس نے بوتل دور راہداری میں چوکنے کھڑے دشمن پر اُچھال دی۔ وہ آدمی پہلے ہی بھرا کھڑا تھا۔ اس نے قریب آتی ہوئی بوتل پر فائر کر دیا۔ یہی اس کی زندگی کی سب سے ہولناک غلطی ثابت ہوئی۔ گولے لگنے سے بوتل ہوا میں چکنا چور ہو گئی۔ سارا تیزاب اس آدمی کے چہرے، سینے، ہاتھوں پر آ گرا۔ پھر جو اس نے دل پھاڑ دینے والی چیخیں ماری ہیں۔ اس کا پورا چہرہ ایک لمحے میں جھلس کر رہ گیا۔ یہ لوگ تیزی سے اس کے نزدیک پہنچے۔ تو ایک عبرت انگیز منظر دیکھا۔ اس آدمی کے چہرے پر چربی اور گوشت کے بلبلے اُبھر رہے تھے۔ اور ان میں سے دھواں خارج ہو رہا تھا۔ آنکھوں کے ڈیلے ایک گاڑھے ملغوبے میں تبدیل ہو کر بہہ گئے تھے۔ چہرے پر گوشت تقریباً ختم ہی ہو گیا تھا۔ چند ہی سیکنڈ میں اس کے چہرے کا ڈھانچا نمودار ہو گیا۔ وہ لوگ اس کا انجام دیکھ کر سرتاپا لرز گئے، مگر وہ مجبور تھے۔ اگر اسے نہ مارتے تو وہ ان کو ختم کر ڈالتا۔ وہاں گوشت اور چربی کی ناگوار بو کے ساتھ تیزاب کی تیز بو بھی پھیلی ہوئی تھی۔ انہیں چھینکیں آ گئی تھیں۔ وہ زینے کی طرف لپکے۔ ہیرا بدستور ان کے ساتھ تھا۔ چلتے چلتے ایس آئی خالد نے مرنے والے کی سب مشین گن اٹھا لی تھی۔ پوری عمارت میں پولیس اور مجرموں کے درمیان فیس ٹو فیس مقابلہ ہو رہا تھا۔ چند ایک پولیس والے شدید زخمی ہو گئے تھے۔ بہت سے مجرم بھی مارے گئے۔ انجام آخر وہی ہونا تھا، یعنی مجرم آہستہ آہستہ پسپائی اختیار کرنے لگے اور پھر بچنے والوں نے گرفتاری دے دی۔ انسپکٹر عاصم نے پولیس والوں کو بہت سی ہدایات دیں اور سختی سے حکم دیا کہ کوئی غیر متعلقہ شخص وہاں داخل نہ ہو۔ انہیں وہاں اسٹینلے کی لاش نہیں ملی اور نہ ہی گرفتار شدگان میں اسٹینلے نظر آیا۔ یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ وہ پولیس کی نظریں بچا کر بھاگ نکلا ہوا۔ پولیس والوں نے بڑی پلاننگ سے گھیرا ڈال کر وہاں ریڈ مارا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اسٹینلے ابھی عمارت میں ہی تھا۔ انسپکٹر عاصم کا ارادہ تھا کہ پولیس والوں کی مدد سے اسے تلاش کیا جائے، لیکن اختر نے اس موقع پر مداخلت کی۔
انسپکٹر صاحب۔۔۔ ان لوگوں کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔؟ یہ اپنا ہیرا کس کام آئے گا۔‘‘
انسپکٹر عاصم چونک پڑے۔ ’’او، ہاں ۔۔۔ میں تو ہیرا کو بھول ہی گیا تھا۔‘‘
’’آپ پہلے شخص ہوں گے جو ہیرا کو بھول گئے ۔۔۔ ورنہ ہیروں کو کون بھولتا ہے۔ چلو بھئی۔۔۔ ہیرا صاحب۔۔۔ اسٹینلے بھائی کا کھوج تو لگانا اپنی ناک سے ۔۔۔ یقیناً ان کی بدبو تو تمہیں یاد ہو گی۔‘‘
ہیرا سمجھ گیا۔ اس نے تھوتھنی اٹھا کر فضا میں سونگھا اور عمارت کے اندر دوڑتا ہوا گھس گیا۔ انسپکٹر عاصم، اختر، خالد اور کوئی پولیس والے اس کے پیچھے لپکے۔ کچھ ہی دیر بعد ہیرا عمارت کے انتہائی گوشے میں بنے ہوئے ایک ایسے کمرے میں آ گیا، جہاں پر بے شمار کاٹھ کباڑ جمع تھا۔ وہاں مٹی دھول اَٹی ہوئی تھی۔ ادھر ہی پانی کی موٹر بھی نصب تھی۔ ہیرا ادھر آ کر بہت زیادہ بے تاب ہو رہا تھا۔ ان لوگوں نے اسلحہ نکال کر ہاتھوں میں تیار پکڑ لیا تھا۔ یک بیک ہیرا لکڑی کے بڑے بڑے تختوں کے عقب میں جھپٹا اور بری طرح بھونکنے لگا۔ سب لوگ ادھر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ وہاں ایک بڑا گول ڈھکن فرش پر دکھائی دے رہا تھا۔ یقیناً یہ میں ہول تھا۔ اس کا واضح مطلب تھا کہ اسٹینلے اس میں ہول کے ذریعے فرار ہو گیا تھا۔ یہ دیکھ کر انسپکٹر عاصم کے ماتھے پر اَن گنت شکنیں نمودار ہو گئیں۔
’’وہ یہاں سے ہی فرار ہوا ہے ۔۔۔ اس وقت تک وہ نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہو گا۔‘‘
’’انسپکٹر صاحب ہمیں اس کا پیچھا کرنا چاہیے ۔۔۔‘‘ اختر نے رائے دی۔ ’’میرا خیال ہے وہ ابھی زیادہ دور نہیں جا سکا ہو گا۔۔۔ کیوں کہ میں ہول میں سفر کا کرنا خاص دشوار ہے۔‘‘
انسپکٹر عاصم نے تائید انداز میں گردن ہلائی اور کانسٹیبلوں سے مخاطب ہوئے۔ ’’تم لوگوں کے پاس ٹارچیں ہیں یا نہیں؟‘‘
’’سر ۔۔۔ہم ٹارچیں تو نہیں لائے ۔۔۔ اس وقت ہمیں ان کی ضرورت ہی نہیں تھی۔‘‘ ایک سپاہی نے جواب دیا۔
’’میں نے دیکھی ہیں جی ادھر۔۔۔ ایک کمرے میں ٹارچیں ۔۔۔ بولیں تو لاؤں؟‘‘ دوسرا سپاہی آگے لایا۔
’’بولنے کی کیا ضرورت ہے لے آؤ۔‘‘ اختر مسکرا اٹھا۔
وہ سپاہی چلا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے چار ٹارچیں لا کر دے دیں ۔۔۔
انسپکٹر عاصم، اختر، خالد اور دو سپاہی میں ہول میں اتر گئے۔ ہیرا کو ساتھ لیا گیا تھا کیوں کہ اسی کی مدد سے وہ درست راستے پر پیش قدمی جاری رکھ سکتے تھے۔ ٹارچوں کی روشنیاں میں ہول میں گردش کر رہی تھیں۔ میں ہول کافی چوڑا اور کشادہ تھا۔ وہ لوگ آرام سے بغیر کسی دشواری کے اس میں چل رہے تھے۔ ہیرا آگے آئے ان کی راہ نمائی کر رہا تھا۔ اب تک تو میں ہول سیدھا ہی جا رہا تھا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آگے موڑ آئیں یا کئی راستے آئیں۔ تب ہیرا ہی اسٹینلے کی بو محسوس کر کے انہیں ٹھیک راستے پر لے جا سکتا تھا۔ اس جگہ گرمائش کافی تھی۔ ان لوگوں کو اپنے جسموں میں سوئیاں سی چبھتی محسوس ہو رہی تھیں۔ یہ ان کے حق میں بہتر میں ہوا کہ میں ہول میں گندہ پانی زیادہ نہیں تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ ان کے ٹخنوں سے اوپر تک آ رہا تھا۔ ٹارچوں کی روشنی میں انہوں نے وہاں بے شمار قسم کے کیڑے دیکھے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے لال بیگ بھاگتے دکھائی دے رہے تھے۔ بہت سے ان کے کپڑوں پر بھی چڑھ گئے، جنہیں فوراً جھٹک دیا گیا۔ میں ہول میں غضب کی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ صرف ان کے پیروں تلے گندہ پانی احتجاجی انداز میں شڑاپ شڑاپ کر رہا تھا۔ بڑی دیر تک وہ لوگ خاموشی سے آگے بڑھتے رہے۔ آخر ایک جگہ موڑ آ گیا۔ یہاں بیک وقت تین راستے مختلف سمتوں میں جا رہے تھے۔ وہ لوگ ہیرا کی طرف دیکھنے لگے۔ ہیرا ہر راستے پر کچھ دور تک گیا اور سونگھنے کی کوشش کرنے لگتا۔ وہاں گندے پانی کی شدید بو پھیلی ہوئی تھی، اس لیے ہیرا کو کافی دشواری ہو رہی تھی۔ پھر شاید اس نے اسٹینلے کی بو پا لی اور سیدھے ہاتھ والے راستے پر بڑھا۔ ان لوگوں نے ہیرا کی تقلید میں ادھر ہی قدم بڑھائے۔ میں ہول تھا کہ شیطان کی آنت۔ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ کئی جگہ انہوں نے سیمنٹ اور لوہے کے بڑے بڑے پائپ دیکھے تھے، جہاں سے غلیظ سیاہ پانی پر شور آواز کے ساتھ میں ہول میں گر رہا تھا۔ کہیں کہیں ان کونیولے بھی ملے۔ جو انسانی آہٹیں پا کر پوشیدہ مقامات پر تیزی سے روپوش ہو جاتے تھے۔ سفر بہت طویل ہو گیا تھا اور اب بھی اس کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایسے میں خالد نے پریشان ہو کر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
’’سر کہیں ہم راستے سے تو نہیں بھٹک گئے ۔۔۔؟ اب تک تو ہمیں کسی نا کسی مقام پر پہنچ جانا چاہیے تھا۔‘‘
’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ ہم یقیناً درست ہی راستے پر بڑھ رہے ہیں۔‘‘ اختر نے فوراً اس کی تردید کی۔ ’’ہیرا ہمیں غلط راستے پر نہیں ڈال سکتا۔‘‘
ان کے ساتھ آئے ہوئے دونوں سپاہی چپ چاپ ان کا ساتھ دینے پر مجبور تھے۔ انہیں مزید بیس منٹ تک اور چلنا پڑا تھا کہ ہیرا ایک جگہ منہ اٹھا کر دیکھنے لگا۔ وہ تیزی سے آگے آئے۔ تب انہوں نے ایک حیران کن منظر دیکھا۔ اس جگہ میں ہول کی دیوار ٹوٹی ہوئی تھی اور دیوار کے پار انہیں جو کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ وہ ان کو پاگل کر دینے کے لیے کافی تھا۔ دیوار پار انہیں ایک راہداری نما راستہ نظر آ رہا تھا۔ اس راہداری کا فرش، چھت اور دیواریں انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی تھیں۔ مگر شاید اس کی بہت عرصے سے صفائی نہیں ہوئی تھی اور نہ توجہ دی گئی تھی، اس لیے وہ جگہ انتہا سے زیادہ غلیظ اور بدبودار ہو رہی تھی۔ مکڑیوں کے سفید جالے اتنے بڑے اور موٹے تھے کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا چھت سے سفید چادریں لٹک رہی ہیں۔ ان میں اگر کوئی آدمی پھنس جائے تو وہ بھی دشواری کا شکار ہو سکتا تھا۔ میں ہول میں ایسی جگہ کی موجودی تعجب خیز اور انوکھی تھی۔ وہ لوگ ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اسٹینلے اسی جگہ سے نکل کر گیا ہو گا۔ انسپکٹر عاصم نے اندر کا اچھی طرح جائزہ لیا اور اندر داخل ہو گئے۔ ٹارچوں کی روشنیوں کے بڑے بڑے دائرے اس جگہ خوفناک انداز میں گردش کر رہے تھے۔ وہاں قبر جیسی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ فرش غلاظت سے بالکل سیاہ ہو رہا تھا۔ انہیں پھسلن کا بھی ڈر تھا۔ وہ آگے بڑھتے رہے۔ اس لمبے اور پتلے راستے سے گزر کر وہ ایک بڑے کمرے میں آئے۔ یہاں بھی بہت برا حال ہو رہا تھا۔ وہ لوگ مزید حیران ہوئے، کیوں کہ یہ کمرا اپنی ہیت اور گرد آلود فرنیچر سے کوئی تجربہ گاہ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ وہاں کئی اونچے اونچے آہنی شیلفس رکھے ہوئے تھے۔ کمرے کے عین وسط میں ایک پتلی اور لمبی ٹیبل رکھی ہوئی تھی، اس پر شیشے کی مختلف النوع بوتلیں اور شیشے کی ٹیوبزبے ترتیبی کی حالت میں اُلٹی سیدھی پڑی ہوئی تھیں۔ اسی ٹیبل پر کئی چھوٹی پیچیدہ مشینوں کے ساتھ ایک خوردبین بھی موجود تھی، لیکن یہ سب اشیاء بہت ہی دگرگوں حالت میں تھیں اور شاید استعمال کے قابل بھی نہ رہی تھیں۔ وہ لوگ منہ پھاڑے اس ہولناک ماحول کا جائزہ لے رہے تھے۔ اختر نے آگے بڑھ کر ایک شیشے کی بوتل اٹھائی۔ اگلے ہی لمحے اس کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ بوتل کے عقب میں ایک گول مٹول سا چوہا چھپا ہوا تھا۔ وہ اب ٹیبل پر بوتلوں اور نلکیوں کو پھلانگتا ہوا بھاگا جا رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ٹیبل سے کودا اور ایک سوراخ میں گھس کر غائب ہو گیا۔ اختر کا سانس پھول گیا تھا۔ چوہے کی موجودی نے تقریباً سب کو ہی خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ انسپکٹر عاصم نے ٹیبل کے نیچے بہت سے خانوں کے چھوٹے چھوٹے دروازے دیکھے، جو تھوڑے تھوڑے کھلے ہوئے تھے۔ انہوں نے ٹارچ کی روشنی میں ایک دروازہ کھولا۔ روشنی اندر پڑتے ہی کلبلاہٹ شروع ہو گئی۔ وہ پورا خانہ چوہوں کے ننھے منے بچوں سے بھرا پڑا تھا۔ وہ بچے ایک دوسرے کے اوپر قلابازیاں کھا رہے تھے۔ انسپکٹر عاصم نے باری باری تمام خانے دیکھ ڈالے۔ سارے خانے چوہوں کے بچوں سے بھرے ہوئے تھے اور بلا شبہ ان بچوں کی تعداد صرف ان خانوں میں ہی ہزاروں تک پہنچ رہی تھی اور بھی نہ جانے کہاں کہاں چوہوں نے بچے دے رکھے ہوں گے۔ ان کے جسم میں غضب کی سنسنی دوڑ رہی تھی۔ انہیں یوں لگ رہا تھا کہ موت بھیانک شکل میں ان کے پاس ہی منڈلا رہی ہے۔ اچانک اختر نے ان لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرائی۔ اس کی آواز جوش سے لرز رہی تھی۔ انہوں نے دیکھا اختر کے ہاتھ میں ایک پھٹی ہوئی ڈائری تھی۔
اختر دبی دبی آواز میں کہہ رہا تھا۔ ’’یہ۔۔۔ یہ تو پروفیسر سراج خان کی ڈائری ہے ۔۔۔ یہ دیکھیں اندر اس کا نام۔۔۔ یہ لکھا ہے ۔۔۔ اُف میرا خدا۔۔۔ تو ہم سراج خان کی تجربہ گاہ میں آ گئے ہیں ۔۔۔‘‘
انسپکٹر عاصم نے اس کے ہاتھ سے ڈائری چھینی اور اس کے اوراق الٹ کر سرسری نظر ڈالی۔ واقعی وہ پروفیسر سراج خان کی ڈائری تھی۔ وہ لوگ تو اسٹینلے کی تلاش میں نکلے تھے۔ اتفاقی طور پر وہ سراج خان کی تجربہ گاہ میں آ گئے تھے۔ تو کیا اسٹینلے اس جگہ سے واقف تھا۔ انسپکٹر عاصم نے سوچا۔ اختر انہیں بغور دیکھ رہا تھا گویا ان کا ذہن پڑھ کر بولا۔
’’میرا خیال ہے اسٹینلے بھی اتفاق سے ادھر آنکلا ہو گا، کیوں کہ اگر اس نے پہلے ہی یہ جگہ دیکھ رکھی ہوتی تو وہ اس ڈائری کو ہم سے پہلے دریافت کر چکا ہوتا۔‘‘
معقول بات تھی۔ انسپکٹر عاصم کو اس سے متفق ہونا پڑا تھا۔ عین اسی لمحے انہوں نے ایک بھیانک انسانی چیخ سنی۔ وہ لوگ اچھل پڑے۔ انسپکٹر عاصم نے جلدی سے ڈائری کو شرٹ کے اندر ڈال لیا۔ دونوں سپاہیوں کے منہ پر ہوائیاں اُڑنے لگی تھیں۔ ان کے ہاتھ واضح طور پر لرز رہے تھے۔ انہیں خیال آیا کہ اس راستے اسٹینلے ہی گیا تھا۔ یہ چیخ اس کی ہو سکتی ہے۔ شاید وہ کسی مصیبت شکار ہو گیا ہے۔ ہیرا انتہائی مضطرب اور سخت بے تاب ہو رہا تھا۔ جانور آنے والے خطرے سے پہلے ہی واقف ہو جاتے ہیں۔
’’آؤ۔۔۔ اسے دیکھتے ہیں یقیناً اسے مدد کی ضرورت ہو گی۔‘‘ انسپکٹر عاصم نے تیزی سے کہا اور چیخ کی سمت قدم بڑھا دئیے۔ چاروناچار باقی لوگوں کو ان کی پیروی کرنا پڑی تھی۔ چند موڑ مڑنے کے بعد آخر وہ ایک دروازے کے نزدیک پہنچے۔ دروازے کے دوسری جانب انہیں روشنی دکھائی دے رہی تھی، لیکن یہ آگ کی روشنی تھی۔ چیخ ادھر سے اُبھری تھی۔ قریب آنے پر انہیں عجیب وغریب آواز میں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ ان لوگوں نے بہت احتیاط سے دروازے کی اوٹ لے کر جھانکا اور دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔
ایک ہوش اُڑا دینے والا منظر ان کی آنکھوں کے سامنے لہرا رہا تھا۔ ان پانچوں کے اوسان خطا ہوتے چلے گئے۔ خود انسپکٹر عاصم کو بھی ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے جسم سے جان نکل رہی ہے۔ دہشت کے مارے ان کی ہتھیلیاں بھی پسینوں سے بھیگ گئی تھیں۔ خوف کی لہریں ان کی ہڈیوں میں گھسی جا رہی تھیں، جس کی وجہ سے ان کے اعصاب میں ارتعاش پیدا ہو گیا تھا۔ دروازے کی دوسری جانب ایک بڑی وسیع جگہ تھی۔ اس کے عین وسط میں لکڑیاں چٹ چٹ جل رہی تھیں۔ جس نے وہاں کے سارے ماحول کو روشن اور خوف ناک کر دیا تھا۔ آگ کے نزدیک ہی ایک انسانی جسم پڑا ہوا تھا۔ وہ اسٹینلے تھا۔ وہ مرا نہیں تھا، بس پھٹی پھٹی نظروں سے اپنے اردگرد کا ماحول دیکھ رہا تھا۔ اس کے قریب ہی ایک انسانی قد سے اونچی عفریت کھڑی تھی۔ یہ وہی بلا تھی، جس نے شہر میں خوف پھیلایا ہوا تھا۔ اس کا حلیہ دیکھ کر آنالوگوں کی عقلیں ماؤف ہو گئیں۔ انسپکٹر عاصم کا سابقہ ایک مرتبہ اس عفریت سے پڑ چکا تھا، لیکن انہوں نے اسے ٹھیک سے دیکھا نہیں تھا، صرف اس کو ہیولے کی شکل میں دیکھا تھا۔ اب پہلی مرتبہ وہ اس عفریت کو اچھی طرح سے دیکھ رہے تھے۔ اگر کوئی چوہا انسانی قد وقامت کا ہو جائے تو کیسا لگے گا؟ بس آپ اپنے تصور میں انسانی قامت کا چوہا دیکھیں، سمجھیں آپ نے وہ بلا دیکھ لی۔ اس کی ایک لمبی سی موٹی دُم بھی عقب میں کوڑے کی طرح لہرا رہی تھی۔ ابھی یہ دہشت انگیز منظر اس بلا پر ہی ختم نہیں ہوا تھا۔ وہ لوگ اس بڑی جگہ پر لاکھوں چوہے بھی دیکھ رہے تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شہر بھر کے چوہے یہاں جمع ہو گئے ہیں۔ چوہوں کے اچھلنے کودنے اور کلبلانے کی وجہ سے پورے ماحول میں ایک بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ جلتی ہوئی آگ دیکھ کر انہیں یقین ہو گیا کہ اس بلا میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی موجود ہیں، ورنہ وہ روشنی کے لیے آگ روشن کیوں کرتی۔ اسٹینلے لاکھ بہادر سہی، لیکن اس بلا اور ان گنت خونی چوہوں کے آگے اس کی ساری دلیری ہوا ہو گئی تھی۔ اچانک اس بلا نے جھک کر اسٹینلے کو اٹھا لیا۔ وہ پھر بری طرح ڈاکرانے لگا۔ بلا نے اپنا لمبوترا منہ پھاڑا اور بجلی کی تیزی سے اس کے پیٹ پر اپنے لمبے دانت گاڑ دئیے۔ اُف۔۔۔ ان سے اسٹینلے کی بے پناہ تکلیف اور اذیت دیکھی نہیں گئی تھی۔ بلا اپنا منہ جھٹکوں سے اس کے پیٹ میں اندر گھسا رہی تھی۔ خون کی دھاروں نے بلا کا منہ بھگو ڈالا تھا۔ وہ انتہائی غصے میں نظر آ رہی تھی۔ ان لوگوں نے بلا کی ہولناک ترین غراہٹیں سنی تھیں، جیسے کوئی بہت سی بدروحیں مل کر آوازیں نکال رہی ہوں۔ بلا کے نوکیلے پنجوں نے اسٹینلے کے لباس چیتھڑوں میں بدل دیا۔ اسٹینلے اس کے پنجوں میں کسی بے بس چڑیا کی طرح تڑپ رہا تھا۔ وہ اپنے پھٹے ہوئے پیٹ کو دیکھ رہا تھا، جس میں سے آنتیں اور بھاری پیٹا نکال کر باہر لٹک آیا تھا۔ بلا نے اسے دور اچھال دیا۔ اسی لمحے اسٹینلے کے لباس میں سے کوئی چیز نکل کر گر پڑی۔ انہوں نے آگ کی روشنی میں دیکھ لیا، وہ ایک فائل ہے۔ اختر اور انسپکٹر عاصم سمجھ گئے۔ یہ پروفیسر سراج خان والی فائل ہو گی۔ اسٹینلے کے زمین پر گرتے ہی ہزاروں چوہے خونخوار انداز میں اس پر ٹوٹ پڑے۔ اسٹینلے زیادہ چیخ بھی نہ سکا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا پورا وجود چوہوں میں چھپ گیا۔ یہ پانچوں افراد خوف زدگی کے عالم میں ہوش رُبا منظر دیکھ رہے تھے۔ اسٹینلے اپنے بھیانک انجام سے دوچار ہو چکا تھا۔ ابھی وہ لوگ اس بھیانک منظر کو دیکھ ہی رہے تھے کہ یک لخت انہوں نے اپنے پیروں کے قریب چیں چیں کی آوازیں سنی۔ انہوں نے جلدی سے ٹارچوں کی روشنیاں ڈالیں۔ پیروں کے پاس کئی چوہے کھڑے جارحانہ انداز میں ان پر غرا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر ایک سپاہی کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اس کا چیخنا ہی ایک بھونچال پیدا کرنے کا سبب بن گیا۔ بلا چونک کر ان کی طرف متوجہ ہو گئی اور بھیانک آواز میں زور سے دھاڑی۔ ان کے اعصابوں پر برف کے تودے آن گرے تھے۔ صرف دھاڑنے پر ان کے حواس گم کر رہے تھے۔ انسپکٹر عاصم نے قریب کھڑے چوہوں پر ایک فائر کیا۔ ایک چوہا گولی کی زد میں آ کر پلاسٹک کی گیند کی مانند پھٹ گیا۔ بلا کے ساتھ ہزاروں چوہے ان کی جانب لپکے۔ وہ پانچوں وقت ضائع کیے بغیر واپسی کے راستے پر بھاگے۔ بلا کی رفتار حیرت انگیز طور پر انتہائی تیز تھی۔ آگے آگے بلا کسی سپہ سالار کی طرح چیختی چلاتی اور غراتی ہوئی آ رہی تھی۔ اس کے پیچھے آدم خور چوہوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا لشکر جرار چلا آ رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ چوہے نہیں، بلکہ کالے پانی کا عظیم الشان ریلا ہے۔ جہاں انہیں پروفیسر سراج کی ڈائری ملی تھی، اس جگہ بھاگے بھاگتے انہوں نے ٹیبل پر رکھی ہوئی شیشے کی بوتلیں اور دوسری چیزیں نیچے لڑھکا دی تھیں۔ جلد ہی وہ میں ہول کی ٹوٹی ہوئی دیوار تک پہنچ گئے۔ سب سے پہلے ہیرا کود کر میں ہول میں چلا گیا۔ پھر باقی لوگ کودے۔ سب سے پیچھے ایک سپاہی دہشت زدہ انداز میں گرتا پڑتا آ رہا تھا۔ اس اثناء میں بلا اس کے عقب میں نمودار ہو گئی۔ انسپکٹر عاصم نے اسے دیکھتے ہی اس پر گولیاں برسا دیں۔ چوہا اونچی چھلانگیں لگاتا ہے۔ وہ بلا خطرہ بھانپ کر چھلانگ لگا گئی۔ وہ اتنی اوپر اچھلی تھی کہ چھت کے جالوں کو لیتی ہوئی نیچے آئی تھی۔ اس کا پورا جسم موٹے جالوں میں بھر گیا تھا، لیکن بدنصیب سپاہی پھر بھی نہ بچ سکا۔ چوہوں کا لشکر ان کے پیروں تک آ گیا تھا۔ چوہے اس پر چڑھتے چلے گئے۔ سپاہی کا چہرہ انسپکٹر عاصم کے سامنے تھا۔ وہ اس کے چہرے پر سمٹ آنے والی دہشت کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ صرف پلک جھپکنے کا وقفہ درمیان میں حائل تھا اور سپاہی کا چہرہ بھی چوہوں میں چھپ گیا۔ وہ اب تک کھڑا تھا اور پورے جسم پر چوہے چپکے ہوئے تھے۔ یہ ایک بڑا ہی بھیانک منظر تھا۔ ایسا لگ رہا تھا، چوہوں کا مینار وہاں کھڑا ہے۔ یہ سب کچھ صرف چند سیکنڈ میں ہوا تھا۔ پھر انسپکٹر عاصم بھی اپنے ساتھیوں کے پیچھے بھاگے۔ سب سے خوف ناک صورت حال یہ تھی کہ واپسی کا راستہ بہت طویل تھا اور پھر انہیں اندھا دھند بھاگنا پڑ رہا تھا۔ بلا اور چوہے بدستور ان کے تعاقب میں تھے۔ یہ تو ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ نہ جانے اس طرح کتنے ہی شکار کر چکے تھے۔ اس وقت چوہے ان کے بہت نزدیک آ چکے تھے۔ یہ محسوس کر کے انسپکٹر عاصم گھومے اور قریب آنے والے چوہوں پر گن سے برسٹ دے مارا۔ گولیوں نے کتنے ہی چوہے ادھیڑ کر ان کی صفوں میں اضطراب کی لہر میں دوڑا دیں۔ چوہے اپنے ساتھیوں کی لاشوں کو کھانے میں مصروف ہو گئے، لیکن بلا کی رفتار میں کوئی واقع نہیں ہوئی۔ وہ لمبی لمبی چھلانگیں مارتی ہوئی لحظہ بہ لحظہ انسپکٹر عاصم کے قریب آتی جا رہی تھی اور پھر بلا نے انہیں چھپا لیا۔ اس کے پنجے انسپکٹر عاصم کے کندھوں میں دھنس گئے تھے۔ انہیں ایسا لگا جیسے کندھوں میں دہکی ہوئی سلاخیں گھونپ دی گئی ہیں۔ بے ساختہ ان کے منہ سے ایک تیز چیخ نکل گئی۔ گن پر وہ اپنی گرفت نہ رکھ سکے تھے۔ اختر اور خالد نے پلٹ کر ٹارچوں کی روشنی میں انسپکٹر عاصم کو سخت دشواری میں دیکھا۔ اختر کے ہاتھ میں ایک مجرم کا رپیٹر تھا، لیکن وہ اسے ٹھیک سے استعمال کرنا نہیں جانتا تھا۔ ہیرا بھی بھونک رہا تھا۔ اچانک ہیرا بلا پر جھپٹ پڑا وہ بھی آخر ایک جنگجو نسل کا کتا تھا۔ ہیرا کے جبڑوں میں بلا کی ایک ٹانگ آ گئی۔ اس نے ٹانگ کو بری طرح چبا ڈالا۔ بلا ایک مکروہ آواز میں چیخی۔ اتنے میں خالد اور دوسرے سپاہی نے اسی جانب آتے ہوئے چوہوں کے جم غفیر پر فائرنگ کر دی۔ چوہے ایسے اُچھل اُچھل کر گرنے لگے، جیسے مکئی کے دانے پک پک کر اُچھلتے ہیں۔ ہیرا کی مداخلت سے یہ ضرور ہوا کہ بلا نے انسپکٹر عاصم کو چھوڑ دیا۔ انسپکٹر عاصم نڈھال سی حالت میں میں ہول کی دیوار سے جا گلے۔ اختر نے راستہ صاف دیکھا تو رپیٹر کا رخ بلا کی طرف کر کے فائر کر دیا۔ کان کے پردے پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا۔ رپیٹر کی خوف ناک گولی بے شمار چھروں کی صورت میں ہو کر بلا کے ایک کندھے سے ٹکرائی۔ اگلا لمحہ ایک اور بھیانک منظر لے کر آیا۔ بلا کا ایک ہاتھ ہی کندھے پر سے غائب ہو گیا۔ کٹے ہوئے کندھے کی جگہ سے کھال، گوشت اور سفید ہڈی جھانک رہی تھی۔ پھر خون کا آبشار بہہ نکلا۔ بلا کی چیخیں گولیوں کے دھماکوں سے کہیں زیادہ تیز اور دل ہلا دینے والی تھیں۔ ایسا لگنے لگا کہ میں ہول کی چھت کسی بھی لمحے ان پر آگرے گی۔ اتنی مہلت کافی تھی۔ وہ دوبارہ بھاگ نکلے۔ اختر اور خالد نے انسپکٹر عاصم کو سہارا دے رکھا تھا۔ ان کے دونوں کندھوں سے خون نکل رہا تھا۔ بلا زخمی حالت میں غصے اور جنون میں چلا رہی تھی۔ اس مرتبہ ان لوگوں کے بڑھنے کی رفتار قدرے سست تھی، کیوں کہ انسپکٹر عاصم کے زخمی ہونے کی وجہ سے انہیں بھی کچھ آہستہ بھاگنا پڑ رہا تھا۔ زخمی بلا اور چوہے ایک مرتبہ پھر بجلی کی سرعت سے ان کی طرف آ رہے تھے۔ اب ان لوگوں کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ان کو چیر پھاڑ ڈالیں گے۔ آخر وہ کتنے چوہوں کو گولیوں سے مارتے۔ وہ اب تک لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ اور ان کا جنون اور اشتعال نقطہ عروج کو چھو رہا تھا۔ چوہے نما بلا بھی اپنے خون بہتے کندھے کی پروا کیے بغیر اُچھلتی چلی آ رہی تھی۔ پھر ایک دم ایک معجزہ ظہور پذیر ہوا۔ جس سمت میں یہ لوگ بھاگ رہے تھے، اس سے کچھ آگے میں ہول کی چھت پر ایک پوشیدہ ڈھکن اپنی جگہ سے ہٹا اور سورج کی روشنی کا بڑا سا دائرہ اندر گھس آیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک رسی کی سیڑھی اندر پھینکی گئی اور یکے بعد دیگرے کئی انسان نیچے اتر آئے۔ انہوں نے مکمل حفاظت لباس اور جوتے پہن رکھے تھے۔ ان کی پشت پر کسی قسم کے سلنڈر بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ان آدمیوں کے آہنی ہیلمٹ پر ٹارچوں کی طرح سے روشنی بھی پھوٹ رہی تھی اور ہاتھوں میں موٹی موٹی نالوں والی گنیں تھیں۔ انہیں دیکھتے ہی وہ آدمی زور سے چلائے۔
’’نیچے ہو جاؤ۔‘‘
وہ چاروں ایک دم نیچے تقریباً لیٹ ہی گئے۔ ان کے ہاتھ پیر اور منہ میں ہول کے گندے پانی میں لتھڑ گئے تھے۔ ہیرا ایسے اشارے بخوبی سمجھتا تھا۔ وہ بھی بیٹھ گیا۔ جونہی وہ نیچے ہوئے آنے والوں نے فائر گنوں کے لیور دبا دئیے۔ ایک زور دار بھھک کے ساتھ آگ کا لمبا سا گولا زخمی بلا اور چوہوں سے اژدھے کی طرح جا کر لپٹ گیا۔ بلا کی کریہہ اور آسیبی چیخوں نے ان سب کو کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے پر مجبور کر دیا۔ جلتے ہوئے چوہوں کی قیامت خیز چیں چیں نے میں ہول ہلا کر رکھ دیا تھا۔ آنے والے چوہوں پر آگ کی بارش کرتے ہوئے آگے بھی بڑھ رہے تھے۔ بلا پہلے ہی زخمی تھی، آگ نے اسے مکمل طور پر چاٹ لیا تھا۔ پورے میں ہول میں گوشت اور چربی جلنے کی اس قدر بوبد بھر گئی تھی کہ اُن لوگوں کو اپنا کلیجہ منہ کو آتا محسوس ہو رہا تھا۔ مغز بدبو کی انتہائی شدت سے اُلٹے جا رہے تھے۔ انسپکٹر عاصم، اختر، خالد اور سپاہی اس سیڑھی کے ذریعے اوپر آ گئے۔ کسی نہ کسی طرح ہیرا کو بھی اوپر کھینچ لیا گیا تھا۔ پہلی بار انہوں نے اس جگہ کا جائزہ لیا۔ وہ لوگ اس وقت ایک ویران علاقے میں موجود تھے۔ یہ علاقہ شہری آبادی سے قدرے ہٹ کر تھا اور کچھ ہی آگے جنگل کا علاقہ شروع ہو جاتا تھا۔ اس جگہ بھی میں ہول بنے ہوئے تھے، کیوں کہ ادھر ہی سے گزر کر گندہ پانی دریا میں جا گرتا تھا۔ دس پندرہ منٹ بعد میں ہول سے وہ آدمی نکل کر باہر آ گئے۔ وہ ان لوگوں کا ایک منی ٹرک کھڑا تھا۔ ٹرک میں دو آدمیوں اور تھے، جو ان کے پاس آ گئے تھے۔ انسپکٹر عاصم کے زخمی کندھے دیکھ کر ایک آدمی منی ٹرک سے جا کر فرسٹ ایڈبکس نکال لایا اور زخم جراثیم سے پاک کر کے بینڈیج کر دی۔ انسپکٹر عاصم بڑی تھکن محسوس کر رہے تھے۔ یہ تھکن جسمانی نہیں تھی، بلکہ اعصابی تھی۔ معاملہ نمٹ چکا تھا۔ اسٹینلے اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ گیا تھا۔ شہر میں ہونے والی وحشیانہ اموات کی ذمہ دار عفریت بھی مر چکی تھی۔ خوف ناک چوہے بھی ختم کر دئیے گئے تھے۔ جو بچ گئے تھے، انہیں بھی اندر جا کر جلد ختم کر دیا جائے گا۔ پروفیسر نجیب کا معاملہ بھی واضح ہو گیا تھا کہ اسے در اصل اسٹینلے نے قتل کیا تھا۔ اختر کی پوزیشن بھی صاف ہو گئی تھی۔ انسپکٹر عاصم کے پاس وہ جادوئی لائیٹر بھی تھا اور پروفیسر سراج کی ڈائری بھی۔ انسپکٹر عاصم نے ان آدمیوں سے پوچھا۔
’’آپ لوگوں کو کس طرح علم ہوا کہ ہم یہاں ہیں۔‘‘
وہ لوگ در اصل اس خصوصی ٹیم کے ارکان تھے، جن کے ذمے شہر میں تباہی مچانے والے خونی چوہے کھوجنے اور انہیں مارنے کا کام تھا۔ ان میں سے ایک نے جواب دیتے ہوئے بتایا۔
’’ہمارا تعلق ایک سرکاری ادارے کی خصوصی ٹیم سے ہے ۔۔۔ ہمارا کام ہی ان چوہوں کا پتا لگا کر انہیں ختم کرنا تھا۔ اتنا ہمیں علم ہو گیا تھا کہ یہ خونی چوہے اپنا کام کر کے میں ہولوں میں چھپ جاتے ہیں، لہٰذا ہم میں ہولوں میں ہی ان کو تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ یہاں آ کر ہم نے گولیوں کے دھماکوں کی ہلکی آوازیں سنی تھیں۔ فوراً ہمارے ذہنوں میں یہ خیال آیا تھا کہ شاید ہمارے ہی آدمیوں کی کوئی ٹیم میں ہول میں ہے اور چوہوں پر گولیاں برسا رہی ہے ۔۔۔ لیکن اندر تو کوئی بڑا جانور بھی تھا۔‘‘
انسپکٹر عاصم نے بھی مختصراً اپنی روداد سنا دی۔ وہ لوگ بڑے متحیر نظر آنے لگے۔
’’اوہ۔۔۔ تو اس کا مطلب ہے ۔۔۔ وہ جانور اصل میں وہی بلا تھی، جو بہت سے لوگوں کو چیر پھاڑ کر غائب ہو گئی تھی؟‘‘ وہ لوگ تعجب سے انہیں تکنے لگے۔
انسپکٹر عاصم اور اختر وغیرہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
پھر وہ سب ٹرک کی جانب بڑے۔ عین اسی لمحے انہوں نے اپنے عقب میں ایک ہول ناک دھاڑ سنی۔ وہ سب چونک کر مڑے۔ یہ دیکھ کر ان کی سٹی گم ہو گئی کہ جھلسی ہوئی بلا میں ہول سے باہر نکل رہی تھی۔ ایک ہاتھ نہ ہونے کی وجہ سے اسے باہر نکلنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ اختر کے ہاتھ میں ابھی تک رپیٹر تھا۔ اس نے درمیانی فاصلہ دیکھا۔ وہ زیادہ تھا۔ فائر گن کی آگ بلا تک نہیں جا سکتی تھی۔ چناں چہ اس نے اپنا رپیٹر سیدھا کیا اور اسے لوڈ کر کے ٹریگر دبا دیا۔ رپیٹر کی دہشت اس کے اوسان خطا کر دینے والے دھماکے سے ہے۔ اس کا کارتوس پھٹ کر لاتعداد چھروں میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ہدف کو کسی صورت نہیں بخشتا۔ بلا باہر نکل کر ان کی طرف ہی آ رہی تھی۔ اس کے سیاہ جسم کے بیش تر حصوں سے کھال غائب ہو گئی تھی۔ اندر کا گوشت اور چربی اب باہر آ گئی تھی۔ رپیٹر نے اسے موت کی نیند سلا دیا۔ بلا جھٹکے سے اپنے عقب میں اُلٹ کر گری تھی۔ پھر وہ ہمیشہ کے لیے ساکت ہو گئی۔
’’خس کم۔۔۔ جہاں پاک۔۔۔‘‘ اختر نے کسی فلمی ہیرو کی طرح رپیٹر ہاتھ میں گھمانا چاہا، لیکن وہ نیچے گر گیا۔ اختر شرمندہ ہو گیا تھا۔
اس دہشت ناک ماحول میں انسپکٹر عاصم، خالد اور دوسرے لوگ ہنس دئیے۔ ہیرا بھی مذاق اڑانے والے انداز میں اختر کو دیکھنے لگا، جو جھینپ مٹانے کی خاطر کھسیانی ہنسی کے ساتھ مسکرا بھی رہا تھا، لیکن وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ اس عفریت کا اینڈاس کے ہاتھوں ہوا ہے۔ واقعی وہ خود کو ہیرو تصور کر رہا تھا۔