خوف اس کے جسم کے ریشے ریشے میں سرایت کر گیا۔ اس مرتبہ اس نے بالکل واضح کسی کے گہرے گہرے سانوں کی آوازیں سنی تھیں۔ اس جنگل میں اس کے علاوہ بھلا اور کون تھا۔ آسیبی ہوا درختوں، جھاڑیوں سے اُلجھ کر خوف ناک آوازیں نکال رہی تھیں۔ اندھیرے میں درختوں کے ہیولے بڑے بڑے بھتنوں کی طرح لگ رہے تھے۔ وہ دہشت زدہ ہو کر گھوم گھوم کر چاروں جانب دیکھنے لگا، لیکن وہاں اس کے علاوہ اور کوئی ذی روح نہ تھا۔ یک لخت کوئی پرندہ کسی درخت سے اڑا اور کٹیلی آواز نکالتا ہوا کسی سمت چلا گیا۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آپھنسا۔ پرندے کی یہ اضطراری حرکت خارج از علت نہ تھی۔ ضرور اس کے پیچھے کوئی بات تھی۔ کیا بات تھی۔۔۔ وہ جان نہ سکا۔ وہ آدمی تیزی سے ایک جانب قدم بڑھانے لگا۔ وہ جلد از جلد اس جگہ سے دور نکل جانا چاہتا تھا۔ گرتا پڑتا، جھاڑیوں اور درختوں کی گری ہوئی سوکھی شاخوں سے اُلجھتا ہوا وہ آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ سانسیں تھیں کہ قابو میں نہیں آ رہی تھیں۔ اسے اب بھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اس کا تعاقب کر رہا تھا۔ بار بار وہ پلٹ کر اپنے عقب میں دیکھ رہا تھا، لیکن عقب میں صرف اندھیرے ہی متعاقب تھے۔ اچانک اندھیرے میں وہ کسی درخت کے مضبوط تنے سے ٹکرا گیا اس کے منہ سے سسکی سی نکل گئی۔ اب جو وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر درخت کے تنے کو دیکھتا ہے تو اس کا دم ہی نکلنے لگا۔ وہ درخت کا تنا نہیں تھا، کیوں کہ درخت کا تنا حرکت کر سکتا ہے اور نہ وہ گہری گہری سانسیں لے سکتا ہے۔ وہ کچھ اور ہی شے تھی۔ زندہ شے۔ جو سانسیں لے رہی تھی اور اپنی لال شعلے برساتی آنکھوں سے اسے گھور رہی تھی۔ معاً اس نے اپنے درخت کی موٹی شاخوں جیسے بازو بڑھائے اور خوف سے بے حس و حرکت کھڑے آدمی کو دبوچ لیا۔ اس آدمی کے منہ سے دہشت میں بھیگی ہوئی ایک دل دوز چیخ نکلی۔ اس عفریت نے اس سے کہیں زیادہ بھیانک دھاڑ ماری اور اس آدمی کے دونوں کندھوں کو مخالف سمتوں میں کھینچ ڈالا۔ کیا منظر تھا۔ وہ آدمی اپنی زندگی کی آخری موت گرفتہ چیخوں کے ساتھ کسی کپڑے کی طرح درمیان میں سے پھٹتا چلا گیا۔ خون کے آبشار کے ساتھ اس کا دل، آنتیں اور گردے پھیپھڑے وغیرہ باہر نکل کر جھولنے لگے۔ پیٹا نکل کر بھد سے کچی زمین پر گر گیا تھا۔
اس بلا نے آدمی کے مرتے ہی فاتحانہ انداز میں دھاڑ ماری تھی، جو جنگل کے آخری سرے تک گئی۔ مرنے والے کے دونوں ٹکڑے بلا کے ہاتھوں میں جھول رہے تھے۔
’’زبردست۔۔۔ ویری گڈ۔۔۔‘‘ ناصر اچھل پڑا وہ ویڈیو پر انگریزی خوف ناک فلم دیکھ رہا تھا۔ یہ سین دیکھ کر وہ بے اختیار اچھل ہی گیا تھا۔ اسے ہارر فلمیں دیکھنے کا جنون تھا۔ جو بھی نئی مووی آتی تھی وہ پہلی فرصت میں لا کر دیکھ لیتا تھا۔ گھر والے اس کی اس ہابی سے پریشان تھے۔ اس کی والدہ اسے اکثر ٹوکتی رہتی تھیں، لیکن ناصر مانتا ہی نہیں تھا۔ رات کو جب سب سو جاتے تھے تو وہ خاموشی سے فلم لگا کر دیکھتا تھا۔ کل سارے گھر والے ایک رشتے دار کی شادی میں شرکت کے لیے دوسرے شہر گئے تھے۔ ناصر نے کالج کی مصروفیات کا بہانہ تراشا تھا۔ مقصد صرف نئی انگریزی فلمیں دیکھنا تھا۔ ناصر کے علاوہ وہاں دو ملازم بھی تھے، جو سرونٹ کوارٹرز میں نیند کے مزے لوٹ رہے تھے۔
ناصر نے پوری فلم دیکھ کر ہی ٹی وی اور وی سی ڈی آف کیے۔ فلم کے سنسنی خیز مناظر اب تک ناصر کی آنکھوں میں گھوم رہے تھے۔ وہ ابھی لائٹ آف کرنے کے لیے سوئچ بورڈ کی جانب بڑھا ہی تھا کہ اچانک ہی اس نے رکھوالی کے کتوں کے بھونکنے کی تیز تیز آوازیں سنیں ناصر چونک گیا۔ کتے تب ہی بھونکتے تھے۔ جب کوئی غیر معمولی بات ہو۔ ناصر کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ خوف ناک فلم کے اثرات ابھی تک ذہن سے زائل نہیں ہوئے تھے۔ وہ اپنے جسم میں بے پناہ سنسنی محسوس کر رہا تھا۔ جیسے وہ بھی کسی خوفناک فلم کا کردار ہو۔ اس نے کھڑکی کا ایک پردہ ہٹا کر جھانکا تو اسے اندھیرے میں دونوں کتوں کے مدھم اور مٹے مٹے سے ہیولے نظر آئے جو لان میں اِدھر اُدھر بے چینی کے عالم میں بھاگ رہے تھے۔ ناصر نے پردہ برابر کیا تو ایک دم کتوں کی آوازیں رک گئیں۔ وہ خاموش ہو گئے تھے بالکل خاموش، جیسے کسی نے ہاتھ مار کر ٹیپ ریکارڈ بند کر دیا ہو۔ ناصر کا دل سر میں آ کر دھڑکنے لگا۔ اس کے مسامسوں سے پسینے کی دھاریں پھوٹ پڑیں۔ خوف برف کی طرح آہستہ آہستہ جمنے لگا۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کتے کیوں خاموش ہو گئے۔ ناصر کے دماغ میں بیک وقت کئی سوالات کی یلغار ہو گئی، لیکن وہ کسی بھی طریقے سے خود کو مطمئن نہ کر سکا۔ پھر اس نے سنبھالا لے کر ہمت کا دامن پکڑا اور دروازہ کھول کر کوریڈور میں آ گیا۔ پورا گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ سناٹے کے بھوت خاموش قہقہے لگا رہے تھے۔ ناصر نے زور سے نوکروں کو آوازیں لگائیں۔
’’رشید۔۔۔ افضل۔۔۔‘‘ مگر جواب ندارد۔ وہی جان لیوا سناٹا۔
وہ کئی مرتبہ چلایا، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ڈر کے مارے ناصر کا برا حال ہو گیا تھا۔ کتوں کی آوازیں بھی دوبارہ نہیں آئی تھیں۔ نہ جانے ان کے ساتھ کیا ہو گیا تھا۔ ناصر کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی بھیانک خطرہ اس کے سر پر موت کے پرندے کی طرح چکرا رہا ہے۔ اسے کبھی اتنا خوف محسوس نہیں ہوا تھا جتنا آج محسوس ہو رہا تھا۔ اس کے پیروں میں واضح کپکپاہٹ شروع ہو گئی تھی۔ وہ دوبارہ کمرے میں گیا اور ٹارچ نکالی۔ اب وہ کوریڈور سے لان کی جانب بڑھ رہا تھا۔ بیرونی گیٹ کے اوپر لگے بلب روشن تھے، جن کی ہلکی زرد روشنی نے اس کی کچھ ڈھارس باندھی تھی۔ وہ ابھی لان تک پہنچا ہی تھا کہ یک بارگی وہ بلب بھی بجھ گئے۔ ناصر کا پورا بدن ہل کر رہ گیا۔ اگر ٹارچ نہیں ہوتی تو یقیناً وہ بھاگ نکلتا۔ لائٹ کو بھی ایسے ہی وقت جانا تھا۔ وہ ٹارچ کی روشنی میں بڑھتا ہوا سرونٹ کوارٹرز آ گیا۔ اس نے دیکھا رشید کے کوارٹر کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ یہ ایک اچنبھے والی بات تھی۔ رشید اور افضل اپنے کوارٹر کے دروازے اندر سے بند کر کے سوتے تھے۔ ہو سکتا ہے رشید سونے سے پہلے دروازہ بند کرنا بھول گیا ہو، لیکن یہ بات ناصر سے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ وہ خوف اور تجسس کی ملی جلی کیفیت میں آگے بڑھا اور دروازہ عبور کر کے اندر آ گیا۔ ٹارچ کی روشنی میں اس نے اندر جو کچھ دیکھا تو اس کی حرکت قلب رکتے رکتے بچی۔ اسے چکر آ گئے۔ خود کو گرنے سے بچانے کے لیے اس نے دروازے کی چوکھٹ کا سہارا لیا تھا۔
اندر کا منظر انتہائی ہول ناک تھا۔
ناصر کو ایسا لگا جیسے اس کی کھوپڑی تن سے جدا ہو کر فضا میں معلق ہو گئی ہے یا وہ اب تک کوئی ہارر مووی دیکھ رہا ہے۔ پورے کمرے کی دیواروں پر خون کی چھینٹیں لگی ہوئی تھیں۔ تازہ اور سرخ چمکتا ہوا خون، چھت کا پنکھا لائٹ کے جانے کے بعد بھی اب تک آہستہ آہستہ گھوم رہا تھا۔ اسی رفتار سے ناصر کو اپنا سر بھی گھومتا ہوا لگ رہا تھا۔ وہ چیخنا چاہتا تھا، لیکن اس کی قوت گویائی مصلوب ہو کر رہ گئی تھی۔ وہ بھاگنا چاہتا تھا، مگر خوف کی زنجیروں نے اس کے قدموں کو جکڑ لیا تھا۔ پھر اس نے اپنے عقب میں گہری سانسوں کی غیر انسانی آوازیں سنیں۔ ناصر خوف سے کانپتے ہوئے پلٹا۔ اس کے ذہن میں انگریزی فلم کا وہ منظر گردش کر رہا تھا، جس میں مرنے والا آدمی جنگل میں ایسے ہی گہرے سانسوں کی آوازیں سنتا ہے۔
اس کے عقب میں کوئی کھڑا تھا۔
ناصر نے اسے دیکھا۔ اس کے حواس ہوا بن کے اڑ گئے۔ اف۔۔۔ نہ جانے کیا شے تھی وہ۔ اس سے زیادہ ناصر میں ہمت نہیں تھی۔ اس کی حرکت قلب رک گئی۔ اچھا ہی ہوا کہ وہ پہلے ہی مر گیا۔ ورنہ پھر اسے اپنا جسم پھٹتے ہوئے دیکھنا پڑتا۔ اس عفریت نے ناصر کو پکڑا اور کاغذ کی طرح دو حصوں میں پھاڑ ڈالا، جس طرح اس نے دونوں کتوں اور رشید کو مارا تھا۔ سرونٹ کوارٹر سے کچھ دور دور بڑے بڑے پودوں کی اوٹ میں دونوں کتوں اور رشید کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ وہاں اب تک وہ خوف ناک غراہٹ گونج رہی تھی۔