ویکس جیسے ہی کارتھن کے گھر پہنچا مارک نکل رہا تھا باہر۔۔ویکس نے اچانک ایک زوردار لات اسکے سینے پر ماری جس سے وہ واپس گھر میں اندر جا گرا۔۔
ویکس نے دروازہ بند کر دیا۔۔اور ااکے سامنے جا کھڑا ہوا اپنی لہو ٹپکاتی لال نیلی آنکھوں سے اسے گھور نے لگا۔۔۔جس پر مارک گھبرا گیا۔۔۔
ویکس کارتھن اور مسز کارتھن کا نوچا ہوا لاش دیکھ کر اندر سے کٹ کر رہ گیا۔۔ پھر اسکے کان میں کچھ لفظ گھومے۔۔۔
"آج سے یہ میرا بیٹا ہے اور اسکا نام مارک ہے مارک مائیکل"یہ لفظ ویکس کا سینا چیر رہے تھے۔۔
مارک اس اچانک کے حملے سے اٹھا۔ ۔تو سامنے ویکس کو دیکھا پہلے تو اسکی حالت دیکھ کر گھبرا گیا پھر خود کو سنبھال کر بولا۔ ۔۔
ویکس تمنے مجھے لات کیوں ماری تمہیں شرم نہیں ۔۔۔
کیسی شرم تمنے شرم کرلی کارتھن کو مارتے ہوئے۔ ۔اسکا لہجہ غضبناک اور کاٹدار تھا۔ ۔۔
مارک نے اپنا گلا تر کیا۔ ۔
مت بھولو یہ ہمارا دشمن ہے اسکا یہی حال ہونا چاہیے تھا ۔۔یا اس سے بھی برا۔۔مارک لڑکھڑاتی زبان میں بولا۔۔۔اور جانے لگا۔ ۔
صحیح بولے اس سے بھی برا۔۔ تو جا کہاں رہے ہو ۔۔۔دیکھو گے نہیں دشمن کا حال برا۔ ۔۔ویکس نے اسے کندھے سے پکڑ کر پھر سے آگے کھڑا کیا۔۔۔مارک کے تو ویکس کے سرد لہجے پر پسینے چھوٹ گئے ۔۔
پر مینے تو اسے ختم۔ کر دیا ہے اب کون سا حال کروگے اسکا۔۔مارک نا سمجھی سے اسکی آنکھوں میں دیکھے بغیر بولا۔۔
ویکس اسکی بات پر سرد قہقہہ لگا اٹھا۔ ۔۔تم نے غلط دشمن۔ کو مارا ہے اصلی تو ابھی زندہ ہے۔
ککک کہاں ہے۔ ۔اسنے یہاں وہاں دیکھ کر پوچھا۔۔۔
یہاں ۔۔ویکس نے کہنے کے ساتھ ایک زوردار پنچ اسکے منہ پر مارہ۔۔ جس سے منہ سے خون نکل آیا۔۔
ویکس یہ کیا بکواس ہے میں کب ہوا دشمن۔۔ مارک بناوٹی غیض وغضب میں آیا۔۔میں کیو ماروں گا اپنے باپ کو۔
اب جاکر مارک کسی دوسرے کو بنانا بیوقوف اب ویکس تو نہیں آنے والا تیری گھٹیہ چال میں۔۔اچانک مارک نے اپنا اصلی روپ میں قہقہہ لگایا۔
ہاہاہا۔ ۔آنے کی کیا ضرورت ہے۔ تم تو پہلے سے آچکے تھے۔ وہ مکاری سے قہقہہ لگاتا ویکس کا خون انگاروں پر تپا اٹھا۔ ویکس بنا وقت لیے اس مکار پر جھپٹا۔
پھر دونو آپس میں الجھ گئے ۔۔ویکس نے اسے بہت مارا پر مارک نے بھی دوچار مکے مارے ویکس کو۔۔
ویکس نے اسے اٹھا کر دور پھیکا وہ جاکر صوفے سے لگا اور الٹ کر گرا ۔۔
اسنے اسے سنبھلنے کا موقعہ دئے بغیر اس پر جھپٹا جس سے مارک کی چیخ نکل گئی۔
کیوں مارا میرے باپ اور معصوم لوگوں کو۔ ویکس چلاتا اسکے آنکھوں منہ ناک کو اپنے طاقتور مکوں سے پھوڑتا گیا۔ مارک چیختا ہاتھ پاوُں مارنے لگا۔ خود کو اس حیوانی سے بچانے لگا۔
پر ویکس پر تو اپنو کا بدلا سر پر سوار تھا۔ مارتا گیا اسکے چہرے کو اپنے مکوں سے کچل کر رکھ دیا ۔کوئی نقش نہیں چھوڑا ۔۔۔چہرا اور اپنا ہاتھ خون میں رنگا ڈالا۔
مارک اسکو دھکا دے کر ایکدم بھیڑیے روپ میں آیا اور ویکس بھی ۔۔
پھر سے دونوں آپس میں الجھ گئے۔ ویکس نے اپنا بڑا سا پنجہ اسکے پیٹ میں ڈالا۔ ۔جس سے مارک کی خوفناک دھاڑیں پھیل گئی پورے گھر میں جس سے ویکس کو سکون مل رہا تھا۔
ویکس نے ہاتھ نکال کر پھر سے اسکے سینے میں گاڑھا اور ایک جھٹکے سے اسکے سینے میں دھڑکتا دل نکال لیا۔۔
اور اسے اپنے پاوُں کے نیچے دے کر کچل ڈالا۔۔مارک کا مردہ وجود زمین جاگرا پھر ویکس اپنے بھیانک روپ کے ساتھ اس پر جھکا اور اسے چھوٹے چھوٹے ذرو میں تقسیم کردیا۔
کچھ دیر بعد اسنے پورے گھر پر پٹرول چھڑکا اور اس گھر کو آگ کے شولوں کے حوالے کردیا۔ خود بنا دیکھے سب کچھ ختم کرتا آگے نکلتا چلا گیا۔۔
زشیہ کو ابھی لڑکیاں ویکس کے سجے کمرے میں بیٹھا کر گئی تھی۔۔وہ گھونگھٹ لیے ایک شرمیلی دلہن کی طرح سر جھکائے ویکس کے انتظار میں بیٹھی تھی۔۔
زشیہ کے ٹھیک ہونے کے بعد ویکس نے اسے مارک کے بارے میں سب کچھ بتادیا تھا اور اسکے ماں باپ کے مرنے کابھی۔
پھر ایک سال ویکس نے زشیہ کی ہاں کے لیے انتظار کیا اور اب جا کر وہ راضی ہوئی شادی کے لیے تو اب وہ دلہن بنی گھبرائی بیٹھی تھی۔
وہ سرخ جوڑے میں کوئی حور لگ رہی تھی۔۔کچھ دیر بیٹھنے کے بعد۔
وہ بیڈ سے اٹھی اور آئینے کے سامنے جاکر کھڑی ہوئی۔ اسکی نظر اپنے نشانوں پر تھی۔ میک اپ سے کافی چھپائے گئے تھے پر ابھرتے ہوئے نشانوں سے صاف ظاہر ہورہے تھے۔۔
وہ اپنے ماضی میں اتنی مگن تھی کہ اسے ویکس کے آنے اور دروازہ بند کرنے کا بھی پتا نہیں چلا۔۔
ویکس اسے اپنے آپ میں اتنا مگن دیکھ آہستہ سے پیچھے قریب آیا اور اسے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ جس سے زشیہ کے منہ چیخ نکل گئی۔
کیا ہے کبھی چیخنے کے علاوہ بھی چپ رہا کرو۔ ویکس نے اسکے کان میں کہہ۔
چھوڑو ویکس۔ وہ بلش کرتی اسکے تنگ گھیرے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔۔جس پر ویکس نے ایک گہرا سانس لیا۔۔
افففف۔۔ ویکس بیٹے تیرا پتا نہیں کیا بنے گا۔ کبھی چھوڑو کے علاوہ یہ بھی کہا کرو۔ مت چھوڑو ویکس۔۔۔وہ اسکی آواز میں منہ بناکر بولا جس پر زی مسکرادی۔۔۔
ویکس بھی مسکرادیا۔۔ کیا دیکھ رہی تھی جو فری میں منہ دیکھا دیا۔۔وہ شرارت سے کہتا اپنا سر اسکے کندھےپر رکھ دیا۔ وہ سمجھ تو گیا تھا کیا دیکھ رہی ہے پھر بھی پوچھنے لگا۔۔زی نے نفی میں گردن ہلائی "کچھ نہیں" پھر مدہم سا بولی۔
زی؟ رات کے ان خوبصورت لمحوں میں ویکس نے زشیہ کے کان میں سرگوشی کے انداز میں پکارہ۔۔
ہوں ۔زشیہ کا دل اتنی زور سےدھڑکا کہ اسے لگا پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا۔ اسکی ہٹھیلیاں پسینے سے بھیگ گئی۔
کبھی انکے بارے میں الٹا سلٹا نا سوچنا۔ وہ اپنے لبوں سے اسکے نشانوں کو چھوتا زشیہ کا سانس بند کرگیا۔
ویکسسس۔ زی اسکے قید میں پھرپھرائی۔۔
یہ مجھے تمہارے اور قریب کھینچتے ہیں۔ وہ اسکی پکار کو نظرانداز کرتا۔۔گھمبیر اور خمارآلودہ لہجے میں بولا۔
اسکے الفاظوں منہ ہی بند کر گیا۔۔جیسے رات گذر رہی تھی اسکی شدتیں بڑھتی گئی۔
پکڑو مجھے سیم۔ سام پورے گھر میں بھاگتا ہر چیز توڑپھوڑ کرتا سیم سے کہہ رہا تھا۔ سیم اپنی پھولی سانسوں کے ساتھ سام جو اس سے ایک سال بڑا تھا اس پکڑنے کی کوشش کررہا تھا۔ سام سنہری آنکھوں والا اپنے سے چھوٹے سیم جسکی آنکھیں ویکس جیسی نیلی تھی۔ جو غصے میں بہت تیز تھا۔ اسکے کھیلونے توڑ کر اسے غصہ ڈلانے کی کوشش کر رہا تھا جو غصے میں آ بھی گیا تھا۔ اسے سیم کو غصہ ڈلا کر بہت مزہ آتا تھا۔
رکو تم دونوں۔۔ یہ کیا حشر کردیا ہے گھر کا۔ زشیہ کی چینگارتی آواز دونوں کا بریک لگا گئی۔
مما مینے نہیں یہ سب اس سنہری بلے نے کیا ہے۔۔ سیم کی غصے والی آواز گونجی۔ جس پر سام شرارت سے مسکرا دیا۔
مما مینے نہیں یہ سب اس نیلے غصے والے بلے نے کیا ہے ۔سام نے اپنا کیا سب سیم پر الٹ دیا۔
بند کردو تم دونوں اپنی۔ جلدی سے پورا گھر صاف کرو ۔نہیں تو آج ویکس سے تم دونوں کی خیر نہیں۔ اسکی دھمکی پر پانچ اور چھ سال کے سیم اور سام کے قہقہے لگے۔۔جس پر زشیہ شرمندہ ہوگئی۔
مما چلتی تو ہے نہیں ڈیڈ کے سامنے آپ کی۔ایسے ہی ہم بچوں کو نا دھمکایا کرو۔۔یہ سام تھا شرارتی۔
یہ سچ تھا جب بھی زی ویکس سے ان دونوں کی حرکتوں کا بتاتی ویکس کا ایک ہی جواب ہوتا۔ پہلے تم میرے حق میں آوُ پھر میں اپنے بیٹوں سے تمہارے حق میں بات کروں۔اسکی بات پر زی چڑ جاتی اور کہتی" تم سے تو بولنا گناہ ہے"۔۔ پھر ویکس بھی کہتا "جاوُ جاوُ دوسروں کا حق کھانے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے"جس پر زشیہ غصے سے لال ٹماٹر ہوجاتی اور ان تینوں کے چھت پھاڑ قہقہے گونجتے گھر میں۔ ۔
END