اگر وہ غلط راستے پر گیا تو اسے یہ پرچھائیاں کچھ نہیں کریں گی اگر وہ صحیح راستے پر گیا تو وہ ضرور اسے روکنے کی کوشش کریں گی۔۔
اور اسی کا ہی فائدہ اٹھا کر اسے زشیہ تک پہنچنا تھا۔ ۔وہ سوچ کر بھاگنے لگا وہ پرچھائیاں بھی کوئی اسے جھپٹنے کی کوشش کرتی تو کوئی آگے آکر حملا کرتی۔ ۔
پر وہ ان سب سے بچتا زشیہ کی خیریت کی دعا کرتا بھاگتا رہا ۔۔۔
چاند کی روشنی دونوں طرف گھنا جنگل جن میں سے جانوروں کی دھاڑنے کی آوازیں آرہی تھی ۔۔
وہ بھاگتا ہر چیز کو چیرتا آگے بڑھ رہا تھا۔ ۔آگے دوراستے تھے ایک پر وہ پرچھائیاں راستا روکے کھڑیں دوسرہ خالی تھا۔ ۔وہ اس۔ راستے کی طرف بڑھا تو اسے تھوڑا سا راستہ ملا۔
اسکے دماغ میں آیا۔۔ نہیں یہ نہیں ۔۔وہ واپس مڑا اور اس خالی راستے پر بھاگا پیچھے وہ بھی چیختی اس پر جھپٹی۔ ۔
زشیہ تیز گاڑی بھگاتی لیزی تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
وہ اپنے گھر سے کافی دوڑ آگئی تھی۔۔اگر اسکے حواس کام کرتے اپنے آسپاس کا ماحول دیکھتی تو وہیں خوف سے بے ہوش ہوجاتی۔
پر اسکی ساری توجہ لیزی کی طرف تھی وہ کیسے بھی کرکے اس تک پہنچنا چاہتی تھی۔
وہ سوچوں میں گھم تیز رفتاری سے گاڑی بھگا رہی تھی جب ایک جھٹکے سے گاڑی رکی۔ ۔یہ جھٹکا گاڑی کو نہیں جیسے اسے لگا تھا۔
وہ پریشان ہوگئی۔ کافی چلانے کی کوشش کی پر کار سٹارٹ نا ہوئی۔ گھبراہٹ سے اسکا برا حال تھا۔ ۔اس حالت میں بھی وہ لیزی کی خیریت کی دعا کرتی پیدل ہی بھاگی۔ ۔
بھاگتے بھاگتے وہ ایکدم رکی۔ بیچ راستے میں کوئی انسان کسی پر جھکا کچھ کر رہا تھا۔ رات کی سیاہی کی وجہ سے اسے کالا لگا۔ پر چاند کی روشنی میں منظر صاف تھا۔
آگئی زشیہ۔ ویلنس کی آواز اسکے کانوں میں پڑی۔ وہ چونک اٹھی ویلنس یہاں کیا کررہا ہے اور وہ اسے کیوں جھکا ہوا ہے زمیں پر اوپر سے کیسے پتا وہ یہاں آرہی تھی۔۔لیزی کہاں اسنے تو اسی جگہ کا کہا تھا۔ ۔ایسے سوال اسکے دماغ میں چلنے لگے۔
ویلنس کی گردن مڑی تو زشیہ کی چیخ نکل گئی۔ وہ اچھل کر دور ہٹی۔
آہہہہ۔ ۔
ویلنس کی میدے جیسی شکل پر کالے چیر اور لال آنکھیں لمبے دانت جن سے خون ٹپک رہا تھا ۔۔اور وہ جس پر جھکا ہوا تھا وہ لیزی کی لاش تھی جس میں سے وہ خون پی رہا تھا۔
وہ ویکس کو پکارتی۔۔واپس پیچھے بھاگی۔ جب پیچھے کسی سے ٹکرائی ۔
اسنے ڈرتے سر اٹھایا تو ویلنس تھا۔
آہ۔ ۔ویکس پلیز مجھے بچالو۔۔ وہ ویکس کو پکارتی جیسے ہی پیچھے مڑی ایک ٹھا کے آواز کے ساتھ منہ کے بل نیچے گری۔ اسکے منہ سے خون بہنے لگا۔
وہ مڑی اور ہاتھوں کی ہتھیلیوں کی مدد سے پیچھے ہٹنے لگی۔ آنسوں لڑیوں کی صورت میں بہہ رہے تھے۔
وہ سسک رہی۔ ویکس کو پکار رہی تھی۔
تھوڑی دیر پہلے جو لیزی کے لیے دعا تھی۔ اب وہ وہی دعا اپنے لیے مانگ رہی تھی۔۔
پلیز مجھے چھوڑ دو مینے کیا کیا ہے پلیز۔ ۔۔وہ سسکتی کہتی پیچھے کو ہونے لگی۔ ۔
ویلنس کا ایک قہقہہ لگا۔ جو اسکی طرح ہی خوفناک تھا۔
کیا کیا ہے ۔وہ ہنسہ۔۔ کچھ نہیں کیا تمنے ۔مجھے میری زندگی چاہیے جس کے لیے تمہیں مارنا بہت ضروری ہے۔
میں تو تمہیں بہت آسان موت دینا چاہتا تھا پر تہیں ہی شوق تھا ایسی موت کا۔
ذرا دیکھو لیزی کو کتنی آسان موت دی ہے ایسی تمہاری ہوتی پر نہیں ۔۔چلو جیسے تمہاری مرضی۔
وہ کہتا آگے آیا تو زشیہ جیسے پیچھے ہوئی اسکا ہاتھ کسی چیز سے لگا۔ ویلنس جیسے اس پر جھکنے لگا زشیہ نے ایک چیخ کے ساتھ وہ چیز اسکے منہ پر دے ماری۔
وہ پٹھر تھا جو ویلنس کو لگنے سے وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر زشیہ سے دور ہوا۔ اور زی اس موقعہ کا فائدہ اٹھاتی ویلنس کے سنبھلنے سے پہلے ہی بنا سوچے جنگل میں بھاگی۔ اسکے پیچھے ویلنس بھی بھاگا۔
وہ اندھیرے میں کانٹوں جھاڑیوں سے لہولہان ہوتی بھاگتی ایک بڑے سے درخت کی آڑ میں چھپی۔ ۔
اسنے اپنے منہ ہاتھ رکھ کر اپنی تیز سانسوں کو بند کردیا۔ وہ پوری پسینے میں بھیگی ہوئی تھی۔
ٹھرٹھر کانپتی ویکس کے آنے کی دعا کر رہی تھی۔ پر اسے ایسی کوئی اپنے بچنے کی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔ وہ بن آواز کے روتی ایسی موت سے پناہ مانگ رہی تھی۔
اچانک ویکس کی آوازیں اسے آنے لگی۔ وہ اسے ہی پکار رہا تھا ۔
وہ اسے آواز دینا چاہتی تھی کہ قریب ہی قدموں کی آواز آنے لگی۔ وہ روتی نفی میں سر ہلانے لگی۔
ویلنس کو اسکی خون کی خوشبو یہی سے ہی آرہی تھی ۔وہ ویکس کی آواز سنتا غصے سے پاگل ہوتا زشیہ کو جلدی ختم کرنے کا ارادہ کرکے اسے ڈونڈھنے لگا اور وہ اسے مل بھی گئی درخت کے پیچھے چھپی ہوئی ۔
زشیہ جو قدموں کی آواز بلکل اپنے قریب سن کر آنکھیں بند کر گئی تھی جب اچانک اسکے پیٹ میں ویلنس نے اپنے کالے لمبے ناخون گاڑھ دیے۔
ویکسسس۔۔۔وہ درد سے چیخی۔۔
ویکس جو ویلنس کی پرچھائیوں کو ختم کرتا اپنی پوری رفتار سے بھاگ رہا تھا جب اسے بیچ راستے میں ایک لڑکی لاش ملی دور سے اسکی روح فنا ہوگئی اسنے سمجھا زی کی ہے پر وہ لیزی کی تھی۔
اسکی جان میں جان آئی ۔پھر وہ اٹھا اسے زی کی آوازیں یہی سے آرہی تھی۔
اسنے اپنی تیز نظروں سے دیکھا تو زی کا اسکارف اسے جنگل کی طرف سے ملا وہ بنا وقت لیے اندر بھاگا وہ زی کو پکارتا رہا پر کوئی جواب نا ملا۔
پر اسے ویلنس درخت کے قریب نظر آیا وہ جب تک اس تک پہنچتا اسنے زی پر حملا کردیا تھا۔
ویکس غیض وغضب سے ویلنس کے کندھے پر اپنے لمبے دانتو کو گاڑھ دیا۔ ویلنس چیختا پیچھے ہٹا زشیہ سے۔ اسکے ناخونوں سے زشیہ کا خون ٹپک رہا تھا جو ویکس کو حیوان بنانے کے لیے کافی تھے۔زشیہ ایک جھٹکے سے زمین پر دھڑام سے گری۔۔۔
ویکس کے منہ سے زشیہ کی پکار نکلی۔ ۔
ویکس زشیہ کو زمین پر گرا دیکھ کر ویلنس کو اپنی پوری طاقت سے دور پھیکا اور اس کے سنبھلنے سے پہلے زشیہ کی طرف بھاگا۔۔اسکے پاس بیٹھ کر اسکا سر اپنی گود میں رکھا۔۔
زی آنکھیں کھولو۔۔دیکھوں میں آگیا تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔زی پلیزززز آنکھیں کھولو۔۔وہ اسکی رخسار کو ٹھپٹھپاکر کرب سے کہہ رہا تھا۔۔
پھر اسکی نظر اسکے پیٹ کی طرف گئی جہاں سے پانی کی طرح خون نکل رہا تھا۔۔اسنے جلدی اپنی شرٹ اتاری اور اسکے پیٹ پر باندھ دی۔۔اور اسے درخت کے سہارے بیٹھا کر اسکی سانسیں چیک کی جو مدہم سی چل رہی تھی۔۔
ویکس نے شکر کا کلمہ پڑھ کر ویلنس کو ختم کرنے کے لیے نظریں گھمائی چارو طرف پر وہ نہیں تھا۔۔
اسے درخت کے اوپر سے کچھ آواز آئی اسنے جیسے ہی سر اوپر کیا ویلنس تھا۔۔کسی بھیانک جانور کی طرح درخت پر الٹا رینگتا اسی پر حملا کرنے کے لیے ۔۔۔
اسنے جیسے ویکس کی آنکھوں پر حملا کرنا چاہا ویکس دور ہٹا اور اسکی گردن سے پکر کر زشیہ کی پہنچ سے دور پھنکا اور اس پر حملا کر دیا۔۔۔ویکس اس پر جھپٹا اور اپنے لمبے ناخونوں سے اسکے سنبھلنے سے پہلے اسکی آنکھوں میں گاڑھ دیے۔۔ویلنس کی خوفناک چیخیں پورے جنگل میں پھیل گئی۔۔پھر ویکس نے اپنے پنجے سے اسکی پیشانی سے چیرتا گیا۔۔
ویلنس نیچے تھا ویکس اوپر اسے بلکل قید کیے۔۔۔اور جب دل پر اسکا ہاتھ رکا تو اسنے اس خنجر کو نکالا۔۔اور پھر ایک دفعہ اسکے دل پر وار کیا پھر دوسری دفعہ۔۔پھر اسے ہی کرتا گیا اسکے سامنے صرف زشیہ کا پیٹ سے نکلتا خون گھوم رہا تھا۔
اسنے ویلنس کو کچل دیا تھا۔۔وہ تو شاید مر بھی چکا تھا پر ویکس ۔۔وہ ہوش میں ہوتا تو دیکھتا۔۔۔وہ رکا تب جب زشیہ کی کہرانے کی آواز سنی ۔۔۔
وہ درد سے ویکس کو پکار رہی تھی۔۔ویکس نے ایک نظر ویلنس پر ڈالی جو خون میں رنگا کچلا ہوا تھا۔وہ اٹھا اور جانے لگا۔۔۔۔
پھر پیچھے مڑ کر دیکھا اور واپس جا کر خنجر سے اسکے ہاتھوں کے ٹکرے ٹکرے کر دئے۔۔اسکا شاید دل نہیں بھر رہا تھا۔۔۔اسکا بس چلتا تو ویلنس کے ذرے ذرے کردیتا۔
وہ جلدی سے زشیہ کی طرف گیا اور اسے بازوں میں بھر کر جنگل سے باہر بھاگا۔۔
راستے پر پڑی لیزی کی لاش کو دوسرے جانور گھسیٹتے جنگل میں لے جارہے تھے۔۔
وہ زشیہ کو اٹھاتا جتنی ایک بھیڑیے کی رفتار تھی بھاگنے کی اس رفتار سے بھاگ رہا تھا۔۔
خون ٹپک ٹپک کر بوندیں گر رہی تھی اسکی بندھی ہوئی شرٹ سے۔۔زیادہ خون بہنے سے اس کی جان کو خطرا بھی ہوسکتا ہے یہی ایک تکلیف اسے اندر سے کھائے جارہی تھی۔۔۔
وہ شہر کے مشہور ہاسپٹل میں اسے لے کر آیا۔ ۔
کارتھن جیسے ہی اپنے گھر پہنچا تو سامنے کا منظر اسے ساکت اور ختم کرنے کے لیے کافی تھا۔
مارک اسکی بیوی مسز کارتھن کے وجود کو گوشت کے لتھروں میں تقسیم کر چکا تھا ۔۔وہ صوفے پر بیٹھا ادے ہی دیکھ رہا تھا۔
ویلکم انکل ویلکم۔۔اتنے لیٹ آئے کیوں؟ دیکھو اپنی غلطی پر آنٹی کو سزا دلوادی ۔۔کیسے شوھر تھے۔
اففف میں شوھر کی بات کر رہا ہوں آپ تو دوست کے ساتھ نہیں تھے مشکل وقت میں ۔۔
تو یہاں کیسے آئیں گے۔ ۔ہاہاہا۔ ۔وہ شیطانیت سے قہقہہ لگاتا ساکت کھڑے کارتھن سے بولا۔
ویسے میری جان نہیں دیکھ رہی؟
میں اس سے کہنے آیا تھا کہ اب ویکس اسے کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ مارک اسے سب سے بہت دور لے جائے گا۔ اسے اب ویکس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ۔وہ اسے اپنے منصوبے بتاتا اسکی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ جتنی دیر میں اپنے بھیڑیے کے روپ میں آتا کارتھن کے پاس بھاگنے کے لیے وقت تھا پر وہ نہیں بھاگا۔
اسکے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اپنے بھائی جیسے دوست کے بیٹے کے زندہ ہونے کی خوشی میں ۔اور ایک دعا تھی ویکس تک اپنی آواز پہنچنے کی۔
مارک اس پر جھپٹا اور کارتھن کے وجود میں کوئی ہلچل نہیں آئی اسنے خود خود کو اس حیوان۔ کے حوالے کردیا۔
مارک نے مسز کارتھن کو زشیہ کا نا بتانے کے لیے یہ حال کیا تھا ۔اور اب کارتھن کو اس لیے مار تھا کہ اسکا الزام وہ ویکس پر لگا سکے اور زشیہ کو اس سے نفرت ہوجائے اور وہ بس اسکی ہوجائے۔
مارک گاوُں میں تو صرف دوسرے بھیڑیوں کے بنے منصوبے پے لوگوں کو اپنا شکار بنانے آیا تھا۔ پر ویکس اور زشیہ کی دوستی دیکھ اسکا بھی دل زشیہ۔ سے کھیلنے کے لیے کرتا تھا۔
ویکس اسے کہتا تھا کھیلنے کو پر وہ صرف زشیہ سے کھیلنا چاہتا تھا اسے اپنا دوست بنانا چاہتا تھا جو ویکس نہیں ہونے دیتا تھا۔ اس لیے اسکی نفرت ویکس شروع ہوئی۔
وہ ویکس کو ختم کرنا چاہتا تھا پر وہ ایک بھیڑیا بن گیا اگر وہ اسے مار دیتا تو اسے بھیڑیوں کی جھنڈ سے الگ کردیا جاتا۔
البتہ اس نے گاوُں والوں کو بتایا کہ ویکس ایک بھیڑیا ہے اور اسنے ہی بچوں کو اپنا شکار بنایا ہے۔
اسکا یہ منصوبہ کام کرگیا اور اسے گاوُں سے دور کردیا گیا۔ اسے پتا تھا ویکس مرا نہیں ہے۔ پھر بھی وہ سب سے دور تھا اسکے لیے یہی کافی تھا۔
اسکے جانے کے بعد زی بہت بیمار رہنے لگی کارتھن اسے لےکے شہر گیا علاج کروانے ۔
تو پیچھے مائیکل کو مارک کے بارے میں سب پتا چل گیا اور اسنے کارتھن کو بھی بتا دیا۔ یہ بات مارک کو پتا چل گئی اور اسنے دوسرے بھیڑیوں سے مل کر گاوُں پر حملا کر دیا۔
پھر ہر طرف خون کے ندیاں بہنے لگی اس خون میں مائیکل کا بھی خون شامل تھا۔
وقت گذرتا گیا کارتھن کو کافی ڈونڈھنے کے بعد بھی نہیں ملا۔ پھر ویکس آیا وہ ایک سب بھیڑیوں کا سردار اور جادو والی آنکھوں کا بھیڑیا تھا وہ مارک سے چھوٹا مگر طاقتوں میں اس جیسے کئی بھیڑیوں کے برابر تھا۔
پر مارک نے دماغ کا استعمال کرکے اسے کارتھن کے خلاف کردیا۔
پھر وہ تو اپنے غصےمیں پاگل ہوگیا۔ مارک کو زشیہ مل گئی۔
اسے غصہ تب آیا جب زشیہ سالوں بعد بھی اسکی نظر میں ویکس کے لیے مر رہی تھی۔ پھر اسنے اسے کہا کہ ویکس مرگیا ہے ۔اسے یقین دلایا۔
اسنے زشیہ سے دوستی کرلی اور اسکا پیار سے نام زونی رکھ دیا پھر وہ ڈھکے چھپے اس سے اپنے پیار کا اظہار کردیتا تھا۔ پھرسے ویکس آگیا اس بار ویکس اسے بیوقوف بنا گیا۔۔۔
ویکس آئی سی یو کے باہر بیٹھا تھا جب اسکے آدمی کارتھن کا voice record لیکے آئے۔اسنے وہ سنا جس میں اسکے ملنے کی خوشی زشیہ کواسکے حوالے کرنے کی گذارش اور مارک کی تمام چالاکیوں کے بارے میں تھا۔
آخر میں اسے کسی بھی حالت میں کارتھن نے اپنے گھر آنے کا کہا تھا کیونکہ مارک اسے وہیں ملے گا۔
ویکس نے وہ voice سن کر ایک گہرا سانس لیا۔۔
زی تمہارے ہوش میں آنے سے پہلے یہ قصہ ختم کرنا ہوگا۔ خود سے بڑبڑاتا اپنے آدمیوں کو زی کا خیال رکھنے کا کہتے سرخ نیلی آنکھوں اور ویلنس کے خون میں رنگا۔آخری شکار کی طرف گیا۔۔