وہ بے چینی سے یہاں وہاں ٹہل رہا تھا۔۔اسکے اندر تک بے سکونی پھیلی ہوئی تھی۔۔۔جس کی وجہ زشیہ تھی۔۔۔کافی دونوں سے یونی نہیں آرہی تھی ۔۔پتا کرنے پر معلوم ہوا وہ شدید بخار میں ہے ۔۔۔اسے اپنے کیے پر بہت شرمندگی محسوس ہورہی تھی ۔۔۔
وہ اسے دیکھا چاہتا تھا ۔۔اس سے ملنا چاہتا تھا پر کیسے کرتا ۔۔اگر پچھلی دفعہ کی طرح گیا تو پہلے تو وہ بخار میں آئی تھی اب پتا نہیں کیا ہوجاتا۔۔۔
کیا کروں کوئی راستہ مل جائے۔۔پر کیسے ملے۔۔۔وہ خود سے بولا۔۔۔
کیو نا میں اسے اب کچھ سچ بتادوں کہ میں اسکا ویکس ہوں؟ ۔۔اسنے سوال کیا۔
نن۔۔نہیں ویکس کیا پتا وہ پھر سے تم سے دور ہوجائے۔۔۔کیا پتا وہ بھی تہیں ان بچوں کا قاتل سمجھتی ہے۔۔۔اسکے دماغ نے جواب دیا۔۔
نہیں ویکس وہ تمہیں ایسا نہیں سمجھتی ہوگی وہ تمہاری زی ہے جو ہر درد میں تمہارے ساتھ تھی۔۔۔اور پھر آج نہیں کل تو تمہیں سب کچھ بتانا ہے۔۔ دل کی بات پر وہ راضی ہوگیا۔۔دماغ اپنا منہ لےکے چپ ہوگیا ویسے بھی اسکی چلتی کہاں تھی زی کے معاملے میں۔۔
اور ہم دونوں پھر سے ایک ہوجائیں۔۔۔وہ بڑبڑاتا دلکش انداز میں مسکراتا ہوا سکون سے بیٹھ گیا۔۔۔بے چینی کہیں غائب ہوگئی تھی۔۔اسکے اندر تک سکون تھا اب۔۔۔
بی ریڈی زی آرہا ہے تمہارہ ویکس تمہیں اپنا بنانے۔۔۔۔اب اسکو صرف رات کا انتظار تھا۔۔۔
وہ بنا آواز کیے کھڑکی سے اندر آیا۔۔کمرے میں ایک نظر ڈالی تو وہ کمرے میں نہیں تھی۔۔۔باتھروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔۔
یہ کو سا ٹائم ہے باتھ لینے کا۔۔وہ باتھروم۔کے بند دروازے کو دیکھ کر بولا اور کمرے کے دروازے کو اندر سے لوک کر دیا۔۔۔اب وہ سیدہ جاکر صوفے بیٹھ گیا۔۔
جب پانی گرنے کی آواز بند ہوئی تو وہ بنا وقت لیے باتھروم کی دیوار سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔
زی کو مسز کارتھن نے شاور لینے کو کہا تھا وہ تین دن سے بیمار تھی۔۔وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی بخار میں "چھوڑو مجھے"۔۔۔
وہ خود اس رات کو جو ہوا اسے ایک خواب سمجھتی تھی۔۔۔
وہ جیسے باتھروم سے باہر نکلی پیچھے سے ویکس نے اسے گھیرے میں لے کر منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔۔۔اسکے ڈرنے سے پہلے اسے آئینے کے سامنے لے آیا۔۔
زشیہ ویکس کو اپنے کمرے اور اتنے قریب دیکھ کر غصے سے لال پیلی ہوگئی۔۔
چلانا نہیں میں تمہیں کچھ سرپرائز دینے آیا ہوں۔۔اور اگر تم چلائی تو جو یونی میں تمہارے ساتھ کیا اس سے بھی کچھ بڑا کر جاوُں گا۔۔وہ اسکے بھیگے چہرے کو آئینے میں دیکھتا کان میں سرگوشی کرنے لگا۔۔۔
اسکے کہنے پر زشیہ جو چلا کر اپنی مما کو بلانا چاہتی تھی۔۔ایک دم بولتی بند ہوگی اسکی ۔۔ویکس نے آہستہ سے اسکے منہ سے اپنا ہاتھ ہٹایا۔۔۔اور اپنی دھمکی کے کام پر مسکرانے لگا ۔۔
پھر اس سے دور ہٹ کر کھڑا ہوا اور اسکا رخ اپنی طرف کیا۔۔زشیہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی اسکی نظریں دروازے پر تھیں کہ کاش اسکی ماں آجائے اور اسے ویکس کی حرکتوں سے بچا لے۔۔۔
مینے دووازہ لوک کردیا ہے وہ نہیں آسکے گی۔۔۔وہ شرارت سے کہتا ہنسنے لگا۔۔۔پھر ایکدم چپ ہوا وہ زشیہ آنکھیں پھار پھار کر اسے دیکھ رہی تھی۔۔جس سے ویکس کے اندر ہلچل سی مچ گئی۔۔
اب اگر ایسے دیکھتی رہوگی تو مجھ پر الزام مت دینا کہ مینے کچھ غلط کردیا۔۔وہ اسکی بات سمجھ کر سرخ۔ہوگئی۔۔ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹی۔۔جس سے اسکے بھیگے بالوں کی بوندیں ویکس کے چہرے پر لگی۔۔وہ اپنے بھیگے سنہری بال اور بھیگے سرخ چہرے کے ساتھ ایسی لگ رہی تھی کہ کسی کو بھی تباھ کرسکتی تھی۔۔
ویکس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور نظریں پھیر کر اپنی بات کی طرف آیا۔۔۔
میں جو پوچھوں گا کیا تم مجھے اسکے صحیح جواب دوگی؟۔۔ویکس نے اس سے سوال کیا۔۔۔جس پر زی نے نفی سر ہلایا اور جلدی سے جانے لگی۔۔ویکس کو اس پر غصہ آگیا۔۔اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔۔اور وہی ہاتھ سے کمر سے پکڑ کر خود سے بہت قریب کرلیا۔۔تم سے سیدے طریقے سے بات ہی نہیں کرنی چائیے ۔۔اب آئے گی عقل ٹھیکانے ۔۔۔وہ اسکا چہرہ اوپر کر کے بولا۔۔۔
زشیہ۔اس سے جلد سے دور جانا چاہتی تھی ابھی اسے یونی والا منظر بھی نہیں بھولا تھا۔۔۔پہلے تو یونی تک پیچھے تھا اب گھر تک آگیا اور وہ بھی کمرے میں اگر اسکے ہاتھ میں پٹھر ہوتا تو اسکا سر پھار دیتی ۔۔وہ خود کو اس سے دور کرنے لگی۔
چھ۔۔۔۔باقی کے الفاظ اسکے منہ ہی ویکس نے بند کر دیے۔۔
اسکی کمر پر ویکس کی پکڑ اور مضبوط ہوتی جارہی تھی۔۔وہ دونو ہاتھ ویکس کے سینے پر رکے اسے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
اسکا سانس اکھرنے لگا۔۔اسنے ویکس کو دھکا دیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگی۔۔۔
وہ سرخ ٹماٹر ہوگئی تھی۔جب پھر سے ویکس نے اپنی طرف کھینچا اسے لگا وہ مر جائے گی۔۔
اب دوگی جواب ۔۔۔ویکس کی مسکراتی آواز اسکے کان میں پڑی۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی اسنے ہاں میں سر ہلایا۔۔اسے وہ۔زھر سے بھی زیادہ زھریلا لگا۔۔
کیا کوئی ایسا جسے تم اپنا دوست مانتی ہو دل سے؟۔۔ کوئی ایسا جسے تم ایک پل بھی نا بھولی ہو؟ کوئی ایسا ہے جو تمہیں ہر لمحہ یاد رہا ہو؟جسے تمنے بھولانے کی کوشش نا کی ہو۔۔کیا کوئی ایسا ہے جسے تم آج بھی کہتی ہو وہ تمہیں مل جائے۔۔کیا کوئی ایسا دل کے قریب ہو جسے سب نے غلط کہا ہو پر تمنے اسے سچا مانا ہو ۔۔۔یاد ہے کیا تمہیں زشیہ۔۔۔کوئی تھا جس کا دل ہر لمحے تمہارے قریب رہنے کو کرتا تھا۔۔۔تم سے الگ ہونے کا تو اسنے سوچا بھی نہیں تھا۔۔کیا ایسا کوئی تھا بتاوُ مجھے زی۔۔۔اسکی پکڑ میں شدت تھی ۔۔وہ کرب سے اپنے بارے میں پوچھ رہا تھا۔۔۔
اسے ڈر تھا کہیں وہ اسے یاد ہی نا ہو۔۔۔
زشیہ اپنی دردبھری آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔ایک ہمیشہ کی طرح جس کے لیے گرنے والا آنسوں آج اس پر ہی گرا تھا جس کی یاد پر جس کی معصوم بیتے پلوں پر نکلتا تھا۔۔۔
ہاں تھا۔۔۔تھا نہیں ہے۔۔ویکس ۔۔وہ ہے ۔۔
ہر گذرتے سال، ہر گذرتے مہینے، ہر گذرتے دن ،ہر گذرتے گھنٹے ہر پل وہ میرے ساتھ ہے ۔۔کوئی تھا نہیں ویکس ۔۔ہے۔۔
ہے جس کی آنے کی دعا میں ہر دن کرتی ہوں وہ آج بھی زندہ ہے وہ کہیں نا کہیں ہے ویکس ۔۔اسے صرف اسکی دوست بھول گئی ہے۔۔وہ کہتی پھوٹ پھوٹ کر روتی بیٹھتی چلی گئی۔۔۔وہ چیختا رہا کہتا رہا اسنے کچھ نہیں کیا پھر بھی اسے الگ کردیا گیا اپنوں سے۔۔اس سے اتنی عمر میں سب خوشیاں چھین لی گئی۔۔اسے ظالموں نے ختم کردیا۔۔میں تب بھی انتظار کرتی رہی۔۔پھر۔۔۔وہ ہچکیوں سے روتے بتانے لگی۔پھر اسکے بھائی نے بتایا کہ۔۔۔وہ سسکی۔۔کہ اسکی لاش کو اسنے خود دفنایا تھا۔۔پر اب بھی مجھے انتظار ہے پاگلوں والا انتظار ہے۔کہ ایک نا ایک دن وہ ہر بات کو جھوٹ ثابت کرکے آئے گا ۔۔اور کہے گا کہ دیکھوں میں زندہ ہوں دیکھو ویکسس زندہ۔۔۔۔
وہ رکی اور سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
دونوں کی نظریں ملی۔۔ویکس تمہیں کیسے پتا کہ۔۔۔وہ منہ۔میں ہی بڑبڑائی اور اٹھ کھڑی ہوگئی ۔۔اب ویکس سے برداشت ہونا نا ممکن تھا۔۔اسنے اپنی آنکھیں موندیں سکون کی ایک لہر اسکے اندر تک پھیلتی چلی گئی۔۔وہ بہت پر سکون ہو گیا کہ وہ اسے بھولا نہیں ہے۔۔وہ اسے قاتل نہیں سمجھتی۔۔
اسنے اپنی بانہیں پھیلائی۔۔ہاں زی ویکس زندہ ہے۔۔تمہارہ ویکس زندہ ہے۔۔اسنے بھی تمہاری طرح ہر پل اذیت میں گذارا ہے۔۔
اب مارک تمہارا جال ٹوٹ گیا ۔۔اب تم۔کسی کی زندگی کو یوں تباہ کرنے کے لیے نہیں بچوگے۔۔اسنے دل میں ایک عزم کیا۔۔۔
وہ بے یقینی سے اسے دیکھتی رہی۔کیا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کے لیے آپ روز دعائیں مانگے اور اسکی آنے کی ایک بھی کرن نظر نا آئے پھر اچانک وہ آجائے ۔۔۔
وہ ایکدم اسکے سینے سے لگی اور روتی چلی گئی۔۔ویکس اسے اپنے بھیڑیے سے لیکر ہر بات اسے بتانے لگا صرف اس پر کیے حملے اور مارک کی غداری کے۔۔۔
ویکس مسکراتا ہوا اسے چپ کرانے کی کوشش کرتا رہا۔۔جب اسکے آنسوں پھر بھی نا رکے تو ویکس نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اپنے سرخ لبوں سے اسکا بہتا سمندر اپنے اندر اتارنے لگا۔۔۔اسکی حرکت پر اسکے آنسوں ایکدم رکے اور وہ۔بلش کرتی چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپاگئی۔۔� اس پر ویکس کا ہلکا قہقہہ لگا۔۔۔
ویکس چلو مما سے ملو وہ تمہیں بہت یاد کرتی ہے۔۔وہ ملے گی تو میری طرح اسے بھی شاک لگ جائے گا۔۔پاپا تو بہت خوش ہوں گے پر وہ آئیں گے پتا نہیں کب۔۔ویکس کو پتا تھا کارتھن کے بارے میں کسی کو نہیں پتا کہ وہ کہاں ہے ۔۔
ویکس کا فون بجنے لگا اسنے ایک نظر زشیہ کو دیکھا۔۔اسکے ماتھے پر لب رکھے۔۔اور بولا۔اب جلد ہی ملیں گے ہمیشہ ایک ہونے کے لیے اب ویکس کو کوئی زشیہ سے الگ نہیں کر سکتا۔۔اور آنٹی اور انکل سے بھی جلدی ہے ملیں گے۔۔
موبائل پر ویکس کے آدمی تھے جنکو اسنے کارتھن کو ڈونڈھنے کے لیے بیجا تھا۔۔۔اور کارتھن مل۔گیا تھا اسکے فلیٹ پر اسکے آدمیوں کے ساتھ تھا۔۔
وہ ایک نظر زشیہ پر ڈال کر جس راستے سے آیا تھا اسی سے چلاگیا۔۔۔
آج پھر وہ اپنی بدصورت شکل۔کے ساتھ لیزی کے سامنے تھا اور وہ ٹھرٹھر کانپ رہی تھی۔اسنے کہا کہ وہ زشیہ کو یہاں بولائے۔۔
اسنے کانپتے ہاتھوں سے زشیہ کو کال ملائی۔۔
زی جو ویکس کے جانے کے بعد بیٹھی اس کے بارے میں سوچ رہی تھی جب لیزی کا نمبر ااکی موبائل اسکرین پر جگمگانے لگا۔۔اس دن کے بعد آج آج اسکی کال آرہی تھی۔۔
اسکا دل تو نہیں کر رہا تھا کال پک کرنے کو پر اسے کسی کو اگنور کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔۔اسنے اوکے کر کے کان سے لگائی اور۔۔۔ہیلو۔۔کہا۔۔
زی پلیز میری گاڑی خراب ہوگئی ہے۔۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے میں یہاں اکیلی کھڑی ہوں میری ہیلپ کردو۔۔۔ پلیز جلدی آنا۔۔۔
اسنے جگہ کا نام بتایا جو ایک سنسان اور جنگل کے قریب تھی اور رات میں تو اور بھی خوفناک ہوگی جگہ۔۔لیزی وہاں کیا کر رہی ہے یہ سوال اسکے دماغ میں آیا۔۔
پر تم وہاں کیا کر رہی ہو اتنی رات کو۔۔اسکو تو سوچتے ہی خوف آرہا تھا جگہ سے۔۔۔
وہ میں تمہیں بتاوُں گی پلیز زی جلدی۔۔۔۔آہہہہہ۔۔۔اسکا جملا مکمل ہونے سے پہلے اسکی چیخ نکلی جو زشیہ کو یہاں پر بھی ہلا کر رکھ گئی۔۔
اسکے ساتھ ہی اسکی کال کٹ گئی۔۔زشیہ موبائل بیڈ پر پھیک کر جلدی سے بھاگی۔۔اپنی ماں کو بھی بتائے بغیر گاڑی اسٹارٹ کی اور تیز بھگانے لگی۔۔۔بغیر یہ سوچے کہ وہ ایک لڑکی ہے لیزی کو کیا بچائے گی۔۔۔
لیزی جو زشیہ سے بات کر رہی تھی۔۔اسے یہاں بلانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ویلنس کا کالے ناخونوں والا ہاتھ اپنی کمر پر محسوس کر کے اسکی چیخ نکل گئی ۔۔۔اور موبائل ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔۔۔
وہ خود کو کوس رہی تھی جب اسنے ویلنس سے دوستی کی اور اسی دن ویلنس کا بھیانک چہرا سامنے آیا اور وہ بلکل اس کے قید میں آگئی تھی۔۔
پھر اسکا جو بھی برا کام ہوتا وہ لیزی ہی کرتی۔۔اسکے ڈر سے ۔۔
اب تک وہ بچی ہوئی تھی کیونکہ اسے زشیہ کو پھنسانا تھا پر اب وہ بھی آرہی تھی ۔۔۔اب وہ بچ پائے گی یا نہیں۔۔
ویلنس ویکس کو کمزور کرکے مارنا چاہتا تھا جیسے اسنے دوسرے بھیڑیوں کے ساتھ کیا تھا۔۔
انکی کمزوری انکے "اپنے" ہوتے ہیں اور انکو ہی ختم کرکے وہ انہیں ختم کرتا تھا۔۔۔
وہ ٹھرٹھر کانپ رہی تھی اپنے بچنے کی دعا کر رہی تھی۔۔پر یہ بھول گئی تھی اپنے آپ کو بچانے کے لیے اسنے کتنی معصوموں کی جان لی تھی۔۔
ہر بار وہ کیسے بچتی اب تو ویلنس کا کام بھی پورا ہوگیا تھا۔۔
اچانک اسکے لمبے کالے دانت لیزی کے گردن میں گھس گئے ۔۔اسکی چیخیں پوری ماحول کو اور خوفناک بناگئی تھی۔۔۔
ویکس جو اپنے فلیٹ کی طرف جارہا تھا اچانک اسکا دل گھبرانے لگا۔۔وہ تیزی سے دھڑکنے لگا۔۔۔
اسے بےچینی سی محسوس ہورہی تھی۔۔۔اسکے منہ سے خودبخود زشیہ کا نام نکلا۔۔
زی۔۔۔۔ کیا وہ ٹھیک ہے۔۔کہیں ویلنس نہیں نہیں وہ ایسا نہیں کرسکتا ۔۔۔
اسے پتا تھا ویلنس کچھ بھی کرسکتا ہے اسے مارنے کے لیے پھر بھی وہ خود کو تسلی دینے لگا۔۔
وہ کرسکتا ہے کچھ بھی۔۔مجھے زشیہ کے پاس جانا ہوگا۔۔۔وہ خود سے بولا اور موبائل نکال کر اپنے آدمیوں سے کہہ دیا کہ کارتھن کو چھوڑدیں۔۔
اور خود بھاگنے لگا زشیہ کی طرف جب اسکے اوپر ویلنس کی شکل کے ویمپائرز اپنے بڑے پروں سے منڈلانے لگے۔۔اور کچھ نے اسے چارو طرف سے گھیرلیا تھا۔۔یہ صرف اسے زشیہ تک نا جانے کے لیے تھے۔۔اسکی نظر جیسے ہی زمیں پر گئی ۔۔ چاند کی روشنی میں سڑک پر صرف اسکی پرچھائی تھی ۔۔اور ان میں سے کسی کی بھی نہیں تھی۔۔مطلب ویلنس یہاں ان میں نہیں تھا۔۔وہ زشیہ کے پاس یا زشیہ کو ۔۔اسکے دماغ میں سوال بکھرنے لگے۔۔لیزی ۔۔۔
نہیں ۔۔۔وہ چیخا۔۔اسکی چیخ آسپاس کی ہر چیز کو ہلا کے رکھ گئی۔۔مجھے کیسے بھی کرکے زشیہ تک جانا ہوگا ۔۔
اسنے آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھ کر کارتھن کے پورے گھر کاجائزہ لیا پر وہ وہاں نہیں تھی۔ مطلب وہ باہر تھی۔ ۔پر کہاں ۔۔زشیہ کہاں ہو۔۔۔وہ دھاڑہ ۔۔اگر اسے کچھ ہوا تو میں ویلنس تمہاری نسلیں کچل دونگا۔ ۔وہ زور سے بولا۔ ۔جس پر سب پرچھائیوں کا قہقہہ لگا۔ ۔
اب اسے زشیہ تک پہنچنے کے لیے دماغ لگانا تھا۔ ۔اسنے ویلنس کی پرچھائیوں کو دیکھ سوچا۔ اسکا چہرا اور آنکھیں سرخ تھیں۔