کوئی انسان بھیڑیا کیسے ہوسکتا ہے۔۔اسنے دل میں سوچا۔۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ویکس پر میرے بعد تم اس بھیڑیوں کے سردار بنو گے میں تہیں ابھی یقین نہیں دلائوں گا وقت تہیں سب کچھ سکھا دیگا۔۔اور یاد رکھنا تمہیں ہمنے بھیڑیوں کا سردار چنا ہے ملکر اور تم ہمارے اس فیصلے کو اپنی بلندیوں پر ضرور پہنچاوُ گے۔۔۔
وہ پھر رکا گہرہ سانس لےکر بولنے لگا اسے بولنے میں تکلیف ہورہی تھی۔۔۔
تمہیں میں صرف یہ بتاوُں گا کہ تمہارہ مقصد صرف ویلنس کو مارنا ہوگا۔۔۔وہ ایک شیطانی طاقتوں والا ایک ویمپائر ہے۔۔سب سے بڑا اور خطرناک۔۔ وہ خود ہی تمہارے راستے میں آئے گا اسکے سینے میں لگا ہمارا خنجر اسے تم تک لائے گا۔۔
اس پر ہم دو بھیڑیوں نے حملا کیا ہے جس سے وہ کافی زخمی ہوگیا ہے پر اب اس پر تیسرا وار تم کروگے جس سے اسکا خاتمہ ہوگا۔۔
وہ ایک معصوموں کا خون پینے اور لمبے پروں والا ویمپائر ہے ۔۔پر اسکی زیادہ توجہ اس انسان پر ہوتی ہے جو بھیڑیوں کے دل کے قریب ہوگا۔۔ اور اسکے ساتھ کافی دغا باز بھیڑیے بھی ساتھ ہیں۔۔۔جو تمہیں تکلیف پہنچانے کی ہر وہ کوشش کریں گے جس سے تم ٹوٹ جاوُ۔۔۔اور اپنے مقصد سے لڑکھڑا جاوُ۔۔۔اور مجھے یقین ہے تم اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوگے۔۔اور میری دعا بھی ہے تم اپنوں کی حفاظت کرسکو۔۔۔مجھے معاف کرنا بچے میں تمہاری زندگی اتنی مشکل نہیں بنانا چاہتا تھا۔۔پر شاید قدرت ہی اس شیطان کو تمہارے ہاتھوں ختم کروانا چاہتی ہے۔۔۔۔
اسنے کہہ کر دوسرے آدمی کو اشارہ کیا جو ویکس کے پیچھے آگیا اور اسکے منہ پر مضبوطی سے ہاتھ رکھ دیا۔۔ویکس نے پھڑپھڑا کر اسکے ہاتھ میں اپنے چھوٹے چھوٹے ناخون گاڑھ دئے۔۔۔پر اسکا ہاتھ نا ہٹا پھر اسکی جان تب نکلی جب وہ شخص جس سے وہ ہمدردی کر رہا تھا۔۔۔اسکے منہ سے لمبے نوکدار دانت نکلے اور اسکے پورے جسم پر کالے بال آگئے تھے۔۔یہ دیکھ کر ویکس چلانا چاہتا تھا پر وہ کچھ نا کر سکا اور اس زخمی شخص نے اپنے لمبے نوکدار دانتوں سے اسکی گردن پر کاٹ دیا۔۔۔ پھر بند ہوتی آنکھوں سے اسنے اس زخمی آدمی کو خاک ہوتے دیکھا اور خود کو کسی کے بازوں میں۔۔۔۔
ویکس کو ہوش آیا تو اسنے دیکھا وہ اپنے گھر میں تھا پر یہ دیکھ کر اسے حیرت کا جھٹکا لگا جب سب اسکے پاس اور کچھ دور بیٹھے پریشانی سے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔اسکی ماں رو رہی تھی اور باپ اسے ہوش میں آتے دیکھ اسکی طرف لپکا اور ایک زوردار ٹھپر دے مارا جس سے اسکے منہ سے خون آگیا۔۔۔کارتھن نے اسے پکڑ لیا ورنہ وہ اسے لوگوں کے بجائے اپنے ہاتھوں سے مار دیتا۔۔۔
چھوڑو مجھے کارتھن میں اسکا خون کر دونگا۔۔اسنے اتنے معصوموں کی جان لی ہے یہ ایک جانور ہے لوگوں کے بجائے میں اس مارنہ پسند کروں گا۔۔۔وہ کہتا پھوٹ پھوٹ کر رودیا اور زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔۔
ویکس اپنے باپ کی حالت اور الزام پر مرنے جیسا ہوگیا تھا۔۔
نہیں پاپا مینے کسی کو نہیں مارا۔۔وہ روتے ہوئے کہنے لگا۔۔جب ایکدم مائیکل دھاڑا۔۔
بند کرو اپنی بکواس تم ایک جانور ہو ایک بھیڑیے ہو تمنے اتنے بچوں کی جان لی ہے ۔۔باہر سب تمہیں ختم کرنے مارنے کے لیے کھڑے ہیں۔۔۔کیا کروں میں تمہارہ کیسے اپنے ہاتھوں سے دوں تمہیں ان لوگوں کو جنکے تمنے بچوں کو نوچا ہے۔۔کیسے دیکھوں تمہیں کچلتے ۔۔۔وہ روتا چلاتا ویکس سے کہہ رہا تھا ویکس کی ماں بے ہوش ہوگئی۔۔زشیہ بھی سمجھ نہیں رہی تھی کے وہ اسکے دوست کو بھیڑیا کیوں کہہ رہے ہیں۔۔۔وہ بھی سب کو روتا دیکھ کر رونے میں مصروف تھی۔۔۔کوئی ویکس کی بات سننے کو نہیں تھا سب کہہ رہے تھے اسنے اتنے خون کیے ہیں پر وہ تو جب بے ہوش ہوا تھا پھر اب ہوش میں آیا تھا بلا وہ کیسے کسی معصوم کی جان لےگا۔۔۔
پھر کارتھن اور اسکے باپ نے مل کر اسے راتو رات ہی بھگانا ہی صحیح سمجھا۔۔آخر باپ تھا کچھ بھی ہو اپنے بیٹے کو یوں لوگوں سے کچلتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔اور بیٹا بھی ایک ہی۔۔۔مارک کو بھی وہ اپنے بیٹا سمجھتا تھا ۔۔اسکے ساتھ ایسا ہوتا تب بھی وہ یہی کرتا۔۔۔
دن کو لوگوں سے کہہ دیا کہ اسے ابھی ہوش نہیں آیا ہے۔۔پر جب رات ہوئی تو اسکے باپ نے روتے زبردستی اسکے ماں کے سینے سے اسے کھینچ کر الگ کیا وہ روتا رہا اسنے کسی کو نہیں مارا چیختا رہا پر اسکے باپ نے اسکی ایک نہیں سنی اور اسے گھر کے پچھلے دروازے سے بھاگنے کا کہا ۔۔ زشیہ اس سے چمٹ گئی وہ اپنے دوست کو کہیں نہیں جانے دے گی۔۔کہتی روتی رہی پر مائیکل نے اسے ویکس سے الگ کردیا اور اسے جانے کا کہا ۔۔وہ نہیں جانا چاہتا تھا اسے ڈر لگ رہا تھا ۔اپنے ماں باپ کی چھاوُں سے الگ ہوکر پر اسے جانا پڑا کیونکہ مائیکل نے خود کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔۔
مارک ایک سائیڈ پر کھڑا سب کچھ خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔جیسے اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کوئی مرے یا جئیے۔۔وہ سب پر ایک الوداعی نظر ڈال کر دس سال کی عمر میں رات کو اندھیرے میں اپنے گھر کی دہلیز پار کی۔۔
پیچھے دونوں گھروں میں کہرام مچ گیا تھا۔۔
وہ رات کے اندھیرے کو اپنی ٹارچ کی روشنی سے چیرتا آگے بڑھ رہا تھا ۔۔ جب پیچھے سے لوگوں کی پیروں اور "پکڑو اسے "کی آوازیں آئی۔۔ویکس یہ سب دیکھ کر ڈر گیا اور روتا اپنے ماں باپ کو چلاتا پکارتا بھاگنے لگا۔۔وہ لوگ تیز بھاگ رہے تھے ۔۔اس تک پہنچنے والے تھے ۔۔وہ اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر بھاگا۔
پھر مما کی پکار کے ساتھ وہ گرا اور ٹارچ اسکے ہاتھ سے کہیں دور جاگری لوگ بھی قریب آرہے تھے اس لیے وہ ٹارچ کو چھوڑ کر ایسے ہی بھاگا ۔۔۔۔
اندھیرے میں وہ بنا دیکھے تیز تیز بھاگ رہا تھا جب ایک آخری پکار کے ساتھ وہاں ایک ماں کی سانسیں ٹوٹی یہاں ویکس اس گاوُں میں اپنی آخری ماں باپ کی پکار کے ساتھ اندھیرے میں نا دکھنے والی کھائی میں جا گرا۔۔۔
ویکس کے مرنے کی بات پورے گاوُں میں پھیل گئی۔۔اسکا باپ بلکل صرف سانس لینے والا مردہ وجود بن گیا۔۔وہیں کارتھن بھی ٹوٹ چکا تھا۔۔۔
وہ گرنے سے بیہوش ہوگیا تھا۔۔پھر جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔۔وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور رونے لگا ۔۔۔
جب اسکے کان میں ایک آواز آئی "رو نہیں بچے تم اپنی دنیا میں ہو یہاں تمہارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا"۔۔۔اسنے جلدی گردن موڑ کر دیکھا تو حیران رہ گیا یہ تو وہیں تھا اسے زخمی شخص کے پاس لیجانے والا۔۔۔وہ ایکدم غصے میں آگیا ۔۔کیوں کاٹا تھا مجھے اسنے کیوں مروائے مجھ سے بچے۔۔کیا گناھ کیا تھا ان بچوں نے,۔۔وہ کہتا روپڑا ۔۔شاید سب کے کہنے پر وہ بھی اپنے آپ کو سمجھ رہا تھا کہ اسنے بچوں کو مارا ہے۔۔
پہلی بات تم نے ان بچوں کو نہیں مارا ،اور دوسری بات تم اب ہمارے سردار ہو تم سے چاہ کر بھی کسی بےگناھ کا خون نہیں ہوسکتا۔۔
مجھے اپنے ماں باپ کے پاس جانا ہے ۔۔وہ ضد کرنے لگا۔۔۔
اگر تم وہاں گئے تو لوگ تہیں مار دیں گے اور تمہارے ماں باپ کوبھی۔۔پھر اس ڈر سے ویکس یہی رہنے لگا اپنوں سے دور ۔۔
کافی وقت گذر گیا ویکس اب انیس سال کا ہوگیا تھا اس وقت میں اسنے کافی کچھ جان لیا تھا اپنے بارے میں اور اپنی حقیقت کو بھی تسلیم کرچکا تھا۔۔وہ ایک سب سے طاقتور اور چالاک بھیڑیا تھا ۔۔اسکی نیلی آنکھوں میں جادو بھی تھا ۔۔۔۔
ایک دن اس آدمی کی موت ہوگئی۔۔تو ویکس کو آزادی ملی اپنے ماں باپ سے ملنی کی۔۔زشیہ کو دیکھنے کی۔۔اسنے وہ لمحہ نا گذارا ہوجس میں ان کو یاد نا کیا ہو۔۔۔
وہ اپنی تیاری کر کے اپنے گاوُں کے لیے نکلا۔۔۔وہ کافی بدل چکا تھا۔۔پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوگیا تھا۔۔اسکی سنہری آنکھیں نیلی ہوگئی تھی۔۔جس سے تو بلکل اس ویکس سے دوسرہ لڑکا لگتا تھا۔۔۔۔
وہ خوشی خوشی دل میں کافی جزبات لیے آیا پر یہاں اپنا گاوُں دیکھ کر اسکی آنکھیں لال ہوگئی۔۔۔صرف میدان ہی میدان تھا وہ دھاڑیں مارنے لگا زمین پر بیٹھا رونے لگا۔۔اسکا دل اس بات پر درد کرنے لگا تھا کہ اب وہ کہاں ڈونڈے انہیں ۔۔
وہ ابھی زمین پر بیٹھا تھا جب اسے اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا اور ساتھ ہی آواز آئی۔۔۔ویکس۔۔۔
اسنے اپنی سرخ۔آنکھوں سے دیکھا تو وہ کوئی گرے آنکھوں والا لڑکا تھا۔۔اسکی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔اسکے دماغ میں دھماکہ ہوا ۔۔مارک۔۔وہ کہتا اسکے گلے لگ گیا اسے اپنے ماں باپ سے ملنے کی ایک کرن نظر آئی۔۔۔مارک یہاں سے سب کہاں چلے گئے۔۔اسنے روتے ہوئے پوچھا تو مارک غم اور کرب سے اسے دیکھنے لگا۔۔کچھ دیر کے بعد وہ منہ موڑے اس سب کچھ بتانے لگا جس اے ویکس کی روح فنا ہوتی جارہی تھی۔۔ویکس تمہارے جانے کے دکھ میں مما تو اس رات ہی چل بسی تھی۔۔پر پھر جب تمہارے مرنے کی بات گاوُں والوں کی جس سے ڈیڈ بھی زندہ لاش کی طرح ہوگئے تھے۔۔پھر یہ بات بھی کھل گئی کہ ویکس پر جو بچے غائب کرنے کا الزام لگایا تھا وہ ویکس نے بچے نہیں مارے تھے بلکے۔وہ رکا ۔۔۔پھر بولا۔۔۔انکل کارتھن نے دوسرے بھیڑیوں سے غائب کروائے تھے ۔۔اور جب یہ بات کھل گئی گاوُں میں تو اسنے بھیڑیوں سے گاوُں والوں پر حملا کروادیا اور کوئی بچ نا سکا ہر جگہ خون اور چیخیں تھی ۔۔میں کیسے بھی کرکے ڈیڈ کو بچا کر نکلا پر وہ زیادہ چل نا سکے اور مجھے. قسم دے کر جانے کہا پر میں جانا نہیں چاہتا تھا بھیڑیے بھی قریب آرہے تھے پھر مجھے مجبور ہوکر جانا پڑا پر پھر بھی خود نا بچا سکا بھیڑیے کے حملے سے اور اج میں خود ایک بھیڑیا ہوں۔۔
مارک نے آنسوں بہاتے ہوئے ساری کہانی اسے بتائی ۔۔ویکس جو ساکت کھڑا تھا مردا پن سے سب کچھ سن رہا تھا ایکدم دھاڑہ جس سے مارک دور جاگرا۔۔تمنے کیوں میرے باپ کو چھوڑا ۔۔کیوں وہ مارک کوبری طرح پیٹنے پھر مارک نے اسے خود سے دور کیا اسے یقین نہیں ہورہا تھا ویکس اتنا طاقتور ہوگا۔۔۔وہ بھی دھاڑا۔۔۔
تو کیا کرتا میں انہونے خود چلے جانے کو کہا ۔۔مارک غصے سے کہتا چلا گیا چہرے پر سے خون صاف کرتا۔۔
ویکس وہیں زمین پر روتا بیٹھا رہا پھر ایک عزم سے زمین کو چوم کر کہا ۔۔
جس نے بھی آپ لوگوں کو مٹایا ایسے ہی میں اسے مٹاوُں گا اس دنیا سے، ذرے ذرے کردوںگا اسکے۔۔
پھر کافی سال بعد اسے زشیہ ملی یہ دیکھ اسے جھٹکا لگا کہ مارک بھی اسکے ساتھ تھا۔۔۔ان دونوں کے بارے میں معلوم کروانے پر پتا لگا دونوں دوست ہیں اور انکی دوستی کو دوسال ہوگئے ہیں پھر ایک دوسرے کے دل میں جزبات رکھتے ہیں۔۔یہ سب ویکس کو آگ لگانے کے لیے کافی تھا۔۔اانے زشیہ کو ہمیشہ اپنے لیے سوچا تھا اسکے دل میں ہمیشہ اپنے لیے جزبات دیکھنا چاہتا تھا پر یہاں تو وہ اسے یاد نہیں ۔۔اسنے سوچا تھا اگر مارک جو کہہ رہا ہے وہ سچ ہوگا تو وہ کارتھن کو اپنے انجام تک پہنچانے کے بعد زشیہ کو اس سب سے دور لے جائے گا جہاں ان دونوں کے علاوہ کوئی نا ہو ۔۔۔پہلے اسے کارتھن چاہیے تھا۔۔
پر مارک کو تو پتا ہے کہ زشیہ کارتھن کی بیٹی تھی اگر وہ اسے مل۔گئی تھی تو اسے کیوں نہیں بتایا ۔۔وہ خود پر مارک کا ایک جال محسوس کرنے لگا۔۔اسنے زشیہ کو تو اس سے الگ کردیا تھا اب صرف کارتھن سے سب کچھ جاننا تھا۔۔پر وہ پتا نہیں کہاں تھا۔۔کس شہر میں تھا پتا ہی نہیں چل رہا تھا۔۔۔اب اتنا اسے پتا تھا منزل کے قریب ہے وہ۔۔
مارک غصے سے پاگل ہورہا تھا ۔۔ویکس نے اسے اتنا بڑا دوکھہ دیا اسے مشا کی لاش کو زشیہ کی لاش کہہ دیا تھا ۔۔اور وہ اتنا بیوقوف نکلا اسے پہنچان نا سکا۔۔اتنے سالوں۔بعد اتنی محنت کے بعد اسنے زشیہ کی دل میں کچھ جزبات پیدا کیے تھے۔وہ بھی ویکس نے ختم کردیے ہوں گے۔
پر ویکس میں ایسا نہیں ہونے دونگا اب آخری بازی ہوگی زی یا تیری یا میری۔۔وہ کہتا شیطانیت سے قہقہہ لگایا ۔۔۔اب صرف آخری شکار کرنا ہوگا "کارتھن"۔۔ہاہاہا۔۔