وہ پھر سے ہلنے کی کوشش کرنے لگی پر ناکام گئی۔خوف سے اسکا چہرہ سفید ہوگیا۔۔ پور پور کانپ اٹھا۔ہاتھ پیچھے کو بندھ گئے۔۔اب صرف منہ ہی تھا جس سے چلا کر اپنا بچاوُ کر سکتی تھی۔۔پر ویکس تو اسکی ہر بات پہلے جانتا تھا کہ وہ کیا کرنے والی ہے۔۔وہ چیختی چلاتی اس سے پہلے ہی اسکے نازک ہونٹوں پر کسی کا مضبوط ہاتھ اسکا منہ قید کرگیا۔۔
وہ بغیر آواز کے رونے لگی۔۔رات کے دو بجے کمرے کے بیچ وہ قیدی بنی کھڑی تھی۔۔اسے کچھ دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔صرف محسوس ہورہا تھا جسکی وجہ سے اسکی آدھی جان نکلنے کو تھی۔۔وہ اندر ہی اندر اپنے ماں باپ کو چلا چلا کر پکار رہی تھی۔۔
پر انہیں یہ وہم گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اس وقت انکی بیٹی کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔۔
زشیہ روتی تڑپتی خود کو چھڑوانے کی ناکام کوششوں میں جاری تھی۔۔اے سی میں بھی وہ پسینے میں بھیگ گئی تھی۔۔۔جب کچھ بھی نا کرسکی تو خود کو بے بسی سے چھوڑ دیا۔۔۔
اسکے ایسا کرنے پر ویکس جو مسلسل اسے قابو میں کررہا تھا مسکرا دیا۔۔
آخر ہرنی آہی گئی بھیڑیے کے حصار میں۔۔الفاظ اسکے کانوں میں پڑے پر وہ ہوش میں ہوتی تو سمجھتی وہ تو خوف سے سارے حواس کھو بیٹھی تھی صرف ڈری ہوئی ہرنی کی طرح روتے ہوئے یہاں وہاں دیکھ رہی تھی۔ ۔۔
جب وکس نے اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دئے۔ ۔زشیہ کے پورے جسم میں کرنٹ دور گیا۔ ۔وہ سرخ ناک اور سرخ سنہری آنکھوں سے نفی میں گردن ہلانے لگی۔ ۔
پر وہ ویکس ہی کیا جسے کچھ بے بسی دیکھے کسی کی۔ ۔وہ اسے نظر اندار کرتا اسکی خوشبو کو اپنے اندر اتارنے لگا۔ ۔زشیہ کی خوشبو نے جیسے اس پر نشہ کردیا تھا۔ زشیہ نے ایک دوسری کوشش کرنے کے لیے سر کو جھٹکا دیا۔ ۔جس پر ویکس کو غصہ ہونے لگا۔ ۔اسنے اسکے بالوں سے پکڑ کر سر جھٹکے سے پیچھے کیا منہ پر ہاتھ نا ہونے کی وجہ سے ایک زوردار چیخ نکلی۔ ۔
ممااااا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے ساتھ ہی ویکس نے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹ پر رکھ دیے۔ ۔یہ آخری لمس تھا جو اسنے محسوس کیا۔۔۔ پھر وہ اپنے ہوش حواس کھو بیٹھی ۔۔ویکس نے اسے بیڈ پر ڈالا اور اور اس پر چادر ڈال کر غائب ہوگیا۔ ۔۔
مسز کارتھن جو سوئی ہوئی تھی اچانک زشیہ کی چیخ پر ہڑبڑا کر اٹھی۔اور تیزی سے اسکے کمرے کی طرف بھاگی۔ ۔
زی بیٹا تم ٹھیک ہو۔ ۔۔اسنے دروازہ نوک کرتے پوچھا پر کوئی جواب نا آیا۔ ۔
زی بیٹا دروازہ کھولو۔ تب بھی کچھ جواب نا آیا تو وہ دوسری کیز لے آئی دروازہ کھول کر اندر آئی تو وہ سامنے ہی سوئی ہوئی تھی کمرہ روشن تھا۔ کھڑکی دروازہ بھی بند تھے۔۔
شاید نیند میں ڈر گئی ہوگی۔ ۔وہ خود سے کہتی چل کر اسکی پاس آبیٹھی۔ ۔زشیہ کا چہرہ سرخ آنسوں سے بھیگا تھا۔ ۔مسز کارتھن نے اسکا چہرا صاف کیا اور ماتھے پر بوسہ دیا۔ پھر کچھ دیر بیٹھی رہی اسکے بعد لائیٹ آف کر کے دروازہ بند کرتی چلی گئی۔۔۔
پتا نہیں کیو مجھ سے ہر کوئی اتنا جلدی ڈر جاتا ہے۔ ۔کہنے کے ساتھ ہی ایک قہقہہ لگایا۔ ۔
وہ بیڈ پر بیٹھا تھا۔ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر زشیہ کی حالت پر ہنس رہا تھا۔ ۔
بیٹا ویکس تیرا کیا ہوگا فیوچر میں ۔۔کہنے کے ساتھ ہی بانہیں پھیلا کر بیڈ پر گر گیا۔ ۔
یہ ایک چھوٹا مگر خوبصورت خوشحال گاوُں تھا۔۔جہاں مائیکل اور اسکا دوست کارتھن رہتے تھے۔۔۔
مائیکل ایک اسکول ٹیچر تھا اور کارتھن شہر میں کام کرتا تھا۔۔۔
مائیکل کا ایک بیٹا تھا ویکس ۔اور کارتھن کی ایک بیٹی زشیہ۔۔
دونوں کی بہت گہری دوستی تھی۔۔ویکس اور زشیہ دونوں کی آنکھیں سنہری تھی۔۔ گاوُں کے پاس ہی گھنا جنگل تھا اور بلند پہاڑ تھے۔ ۔۔
ویکس ایک ہوشیار بچا تھا ۔۔پڑھائی اور کھیل میں سب سے آگے ہوتا تھا۔۔
گاوُں میں سب کا لاڈلا تھا جتنا خوبصورت تھا اتنا ہی ہر کسی کی مدد کرنے والا۔۔
زشیہ میں اسکی جان ہوتی تھی۔۔دونوں ایک دوسرے کے بنا ایک پل بھی نہیں رہتے تھے۔۔ویکس زشیہ سے پانچ سال بڑا تھا۔۔۔
مائیکل نے ایک دن ایک زخمی بچے کو گھر لایا ۔۔۔اسکی حالت بہت خراب تھی۔
جسکا علاج کرنے کے بعد جب وہ ٹھیک ہوا تو اس سے اسکا پوچھا گیا جس پر اسنے بتایا کہ اسکا کوئی نہیں ہے اور جنگل میں اس پر جانوروں نے حملا کر دیا تھا جن سے بچتے بچتے وہ اتنا زخمی ہوگیا۔۔
مائیکل کو اس بچے پر بہت رحم آیا جس وجہ سے اسنےاسے اپنا بیٹا بنا کر اپنے گھر میں رکھا اور اس کو مارک نام دیا۔۔۔
ویکس اور زشیہ بہت خوش تھے کہ انکا ایک اور دوست آگیا پر مارک بہت گم صم رہتا تھا کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔۔
اچانک گاوُں سے بچے غائب ہونے لگے اور وہ کہاں غائب ہوجاتے تھے کسی کو پتا نہیں چلتا تھا۔۔
لوگ اس وجہ سے کافی خوفزدہ ہوگئے تھے۔۔پھر انہونے اپنے بچوں کو باہر جانے پر پابندی لگا دی تھی کوئی دور نہیں جاتا تھا۔۔
پھر سب اپنے گھروں میں ہی کھیلنے لگے۔۔آہستہ آہستہ مارک بھی انکے ساتھ کھیلنے لگا پر وہ صرف زشیہ کے ساتھ کھیلنے چاہتا تھا جو ویکس کو قطعی منظور نہیں تھا۔۔
اس لیے وہ ویکس سے کافی چڑتا تھا جو ویکس کبھی محسوس کرنا سکا۔۔۔
ایک دن ویکس اور زشیہ کھیل رہے تھے ۔۔زشیہ چھپ گئی تو ویکس اسے ڈھونڈ رہا تھا جب ایک انجان آدمی نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر جنگل کی طرف لے گیا۔۔
ویکس نے کافی کوشش کی خود آزاد کروانے کی پر اس ہٹیکٹے مرد سے مقابلا نا کرسکا۔۔۔۔
وہ اسکو اسے ہی اٹھائے جنگل میں ایک زخمی شخص جو بند آنکھیں کیے درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اس کے جگہ جگہ سے خون بہہ رہا تھا۔۔
وہ آدمی اسے لیکے اسکے آگے سر جھکائے کھڑا ہوگیا۔۔سرکار ہم بچے کو لے کے آئے ہیں ۔۔اس آدمی نے اس زخمی شخص سے کہہ ویکس تو اسکی حالت دیکھ کر ہی پریشان ہوگیا اور اس آدمی کے ہاتھ میں کاٹ کر خود کو چھڑواکر اسکے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا۔۔۔
انکل آپ ٹھیک ہیں ۔۔آپ آئے میرے گھر یہی قریب ہی ہے وہاں میں آپکی مدد کرکے آپکو ٹھیک کر دوں گا۔۔ویکس اپنے یہاں لانے کا یہی مقصد سمجھا تھا۔۔۔اس زخمی شخص کے پاس بیٹھ کر بولا۔ ۔
اور اس کھڑے شخص سے کہا جو اداسی کا پتلا بنا کھڑا اپنے سرکار کو دیکھ رہا تھا۔۔آپ دیکھ کیا رہے ہیں اسے اٹھانے میں مدد کریں گھر میں ہم اسکا علاج کریں گے۔۔۔
اسکے کہنے پر اس زخمی شخص نے اپنی نیلی آنکھیں کھول کر مسکرا کر اسے دیکھا۔۔۔پھر اپنے سامنے کھڑے آنسوں بہاتے ادمی کو۔۔جس پر وہ بھی اداسی سے مسکرا دیا۔۔۔
نہیں بچے میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔۔مجھے تم سے ایک مدد چاہیے ویسے بھی میرے بعد تمہیں ہی سب کچھ سنبھالنا ہے پھر بھی میں تم سے پوچھوں گا کیا تم میری مدد کروگے۔۔۔اس زخمی شخص نے ویکس سے کہہ جس پر ویکس نے فورن ہی ہاں میں سر ہلایا۔۔۔
اب بچے پوچھو گے نہیں میں میں کون ہوں۔۔۔وہ شخص پھر بولا۔ ۔
نہیں انکل آپ کو علاج کی ضرورت ہے آپ چلو ہمارے گھر۔۔۔ویکس پھر سے کہہ۔۔۔
بچے میری اب زندگی ختم ہے اب سے تمہاری زندگی شروع ہونے والی ہے تو اس لیے میں جو کہہ رہا ہوں اسے گھور سے سنو تمہیں پتا ہونا چاہیے کے آگے تمہاری زندگی کیا ہوگی۔۔اس شخص نے سنجیدگی سے کہہ۔ ۔جس پر ویکس کو بھی متوجہ ہونا پڑا ۔۔
میں ایک بھیڑیا ہوں سب سے طاقتور اور شکتیوں والا۔ ۔ اس کے کہنے پف ویکس کو بلکل یقین نہیں آیا جو اسکے چہرے پر صاف دیکھ رہا تھا۔ ۔اسے لگا یہ شخص پاگل ہے ۔۔۔۔