چھوڑو مجھے تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑ نے کی۔۔زشیہ اس سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتی غصے سے آہستہ آواز میں بولی ۔۔۔اگر تیز بولتی تو اسکا تماشہ لگ جاتا ۔۔
ویکس اسکی باتو پر دھیان دئے بغیر اوپر خالی کلاسوں کی طرف لے آیا۔۔یہ دیکھ زشیہ کی جان منہ میں آگئی۔۔
چھوڑو مجھے ورنہ میں پرنسپل کو تمہ۔۔۔۔
وہ چلا کر کہہ ہی رہی تھی جب ویکس نے قطار میں بنی اوپر خالی کلاسوں میں سب سے آخری کلاس جو کونے میں ہونے کی وجہ سے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس میں آکر دروازہ بند کر دیا اور اسے دروازے سے لگا کر اسکے دونوں ہاتھوں کو دروازے سے لگائے اپنے ہاتھ میں قید کر دئے۔۔اور اس سب میں اسے ایک سیکنڈ بھی نہیں لگا۔
کلاس میں اتنا اندھیرا تھا کہ وہ آنکھیں پھار پھار کر بھی دیکھ نے کی کوشش کر رہی تھی پھر بھی کچھ نہیں نظر آ رہا تھا۔ صرف ویکس کی گرم سانسوں کے علاوہ۔۔
وہ خوف سے رونے لگی۔۔
ہاں اب بتاوُ کیا کہو گی پرنسپل سے یہی کہ ویکس مجھے ایک خالی کلاس میں لیکے گیا اور۔۔۔۔۔۔(وہ اسکے بہت قریب ہوا بولتے اسکے ہونٹ زشیہ کی گردن سے ٹچ ہورہے تھے)۔۔ ہم اتنا قریب تھے کہ۔۔۔
آگے تم مجھے محسوس کر رہی ہو کہ میں تمہارے کتنا قریب ہوں تو بتادینا۔۔کہنے کے ساتھ اسکا ہلکہ قہقہہ لگا۔۔
پل۔ی۔۔ز جج۔۔جانے دو۔۔۔ وہ ڈر سے اٹک اٹک کر الفاظ ادا کر رہی تھی آنکھوں سے آنسوں لڑیوں کی صورت میں بہہ رہے تھے۔۔۔ کبھی بھی کوئی اسکے اتنا قریب نہیں آیا تھا۔۔ جس سے اسکی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں۔۔
ویسے ہی وہ لڑکوں سے دور رہتی تھی۔۔اسکی دوستی صرف دو سے تھی۔۔ایک مارک اور دوسرا۔۔۔۔۔اسکے بارے میں سوچتے اسکی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔۔اور مارک کے بارے میں سوچ آتے ہی دماغ میں طوفان چلنے لگا۔۔وہ اس سے انتہائی نفرت کرنے لگی تھی۔۔اگر محبت ہوتی تو محبوب قہری بھی ہوتا تو بھی منہ نا موڑتی ۔پر یہاں تو صرف وقتی جذبہ تھا جسے وہ محبت کا نام دے بیٹھی۔۔
وہ ہمت کرکے اس سے آزاد ہونے کی کوشش کرنے لگی ۔۔اسکی خوائش نکلی کہ وہ اس وقت اس اچانک نازل ہوتی مصیبت سے اتنا دور ہو جائے جتنا آسمان اور زمین کا فاصلا ہے ۔۔
پر وہ ویکس تھا ۔۔ اسکی ہر بات کو سننے والا اسنے اپنا پورا وزن اس نازک پر ڈال دیا اور اسکی کوششوں کو ناکام کرکے اپنے دہکتے ہونٹوں سے اسکے نشانوں کو چھونے لگا۔۔زشیہ کی سانسیں بند ہوگئی۔۔ الفاظ جیسے گھم ہوگئے ۔جسم میں چونٹیاں رینگنے لگی۔
منہ سے بے اختیار سسکی نکلی۔۔وہ بے آواز رو رہی تھی۔۔کیسی سزائیں مل رہی تھی اسکو۔۔
مجھے اپنی چیزیں چھیننی بھی آتیں ہیں اور انہیں سزا دینا بھی۔۔اسکی سرگوشی کانوں میں پڑی۔۔
اور دوسری بات ویلنس سے اتنا دور رہو گی جتنا اس ٹائم مجھ سے ہونے کی خوائش کر رہی ہو۔۔جو ناکام ہے۔۔اور مجھ سے ڈرو مت یہ تو صرف شرعات ہے۔ ابھی تمنے ویکس کو دیکھا ہی کہاں ہے یہ تو صرف ویلنس سے دور کرنے کے لیے اور تمہیں احساس دلانے کے لیے تھا کہ ویکس ابھی ہے۔۔۔۔۔
وہ بولتا اپنی انگلی سے اسکے کانپتے سرخ ہونٹوں کو چھونے لگا۔ ۔وہ اندھیرے میں بھی صاف اجالوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔
اسکی پسینے اور آنسوں میں بھیگی حالت کو بھی۔ ۔۔ اسکے ہونٹ خوبخود مسکرانے لگے اسکی حالت پر۔ ۔۔۔
وہ اس سے تھوڑا دور ہٹا اور اپنے ہاتھ کے قید سے اسکے ہاتھ آزاد کیے تو زشیہ کو جیسے زندگی کی ایک کرن نظر آئی۔
وہ اپنے درد کرتے بازوں کی پروا کیے بغیر جلد جلد کانپتے دروزہ کھولنے لگی ۔۔
جب کھلا تو ایک سانس کے ساتھ وہ باہر بھاگنے لگی۔۔پر ویکس نے اسے ڈرانے کے لیے اسکے پنک اسکاف جو کندھوں پر تھا پکڑ لیا۔۔
زشیہ کی تو جیسے روح کسی نے کھینچ لی ہو۔وہ ایک دم بند سانس سے رکی پھر سر نیچے کرکے اپنے اسکارف کو دیکھا۔ایک جھٹکے سے کھینچ کر خود سے الگ کیا اور ریل گاڑی کی طرح بھاگی۔۔
ویکس تو اسکی حالت پے مزا لیتے قہقہہ لگا اٹھا۔۔
وہ اپنے گھر میں دروزہ بند کرکے اسکے ساتھ لگی سر گھٹنو میں دئے بیٹھی تھی۔اور مسلسل آنسو بہا رہی تھی۔ مسز کارتھن گھر میں نہیں تھی اگر اسکی حالت دیکھتی تو وہ خود سخت پریشان ہوجاتی۔
کون ہو تم کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ ایسا کیا بگاڑا ہے مینے تمہارہ کیوں ہر کوئی تکلیف دیتا ہے مجھے۔ ۔وہ سسکتی روتی خود سے بولرہی تھی۔ ۔کاش وہ آج جاتی نہیں یونی۔ ۔ہر کسی کے قید میں جکڑ رہی تھی ۔کون بچائے گا اسے۔ ۔
رات کی سیاہی سنسان گھنے جنگل میں وہ اسکے سامنے ٹھر ٹھر کانپ رہی تھی۔ ۔
پ۔۔لیز ووو۔۔ویلنس ممجھے تھوڑا وقت دو میں کسی دوسرے راستے سے زشیہ کو تمہاری طرف لاوُں گی۔ لیزی اسکے سامنے گڑگڑاتی التجا کر رہی تھی۔
ویلنس کے دو بڑے دانت تھے جن سے خون ٹپک رہا تھا۔میدے جیسی رنگت پر جگہ جگہ چیر تھے جن سے خون بہہ رہا تھا لال آنکھیں اور سینے میں لگا خنجر۔ ۔وہ ایک بڑی عمر کا ویمپائر تھا۔
اسکے پاس وقت کم تھا موت لمحہ لمحہ قریب آرہی تھی جو اسے پاگل بنا رہی تھی۔
وہ ایک پل میں اسکے پیچھے آیا اور اپنے کالے بڑے ناخوں والے ہاتھ سے اسکے بالوں کو جکڑ کر اسکے سر کو پیچھے جھٹکا دیا ایک چیخ سے سر پیچھے کو ہوا ۔۔
اگر وہ تھوڑا زور دیتا تو اسکا سر تن سے الگ ہو جاتا۔ ۔
اور کتنا وقت دوں تم میری حالت نہیں دیکھ رہی مجھے جلدی اسکا خون چاہیے ۔۔وہ اسکے کان کے قریب دھاڑا ۔
ممیں ککوشش کر رہی تھی پر بیچ میں ووہ ویکس آگیا۔ مجھے صرف ایک بار موقعہ دو میں خود زشیہ کو تمہارے پاس لاوُں گی۔ ۔۔اسنے ڈرتے روتے کانپتے ایک موقعہ مانگا۔ اور ویلنس کے پاس اسے ایک موقعہ دینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ۔
ایک جھٹکے سے اسے دور پھیکا وہ سیدہ منہ کے بل زمین پر گری جس سے اسکے ہاتھ کی ہتھیلیوں میں کانٹے چب گئے۔
آہہہہ۔ ۔وہ درد سے کراہ اٹھی۔
صرف ایک موقعہ اگر اس بار کچھ نا کر سکی تو میں وہ حال تمہارہ کروں گا جو اسکا کرنا چاہتا ہوں ۔۔اسکی دھمکی پر وہ سر سے پیر تک لرز اٹی۔
ننن ۔۔نہیں میں لاوُنگی ۔۔۔
رات کا وقت تھا باہر سیاہی اپنی چادر پھیلا چکی تھی۔۔وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹا چھت کو گھور رہا تھا۔۔
اس شہر میں تو وہ اپنے کام سے آیا تھا پر شاید قسمت بھی ان دونوں کو پھر سے ملانا چاہتی تھی ۔۔ اس لیے اسے زشیہ مل گئی اپنے نام کے ساتھ۔۔
پہلے تو اسکا دل کیا وہ اسے لے جاکر سب کچھ سنے اسکے منہ سے پر اسکی اسکے باپ کی ایسی حالت کرے کہ اپنے پیدہ ہونے پر بھی افسوس ہو۔۔پر پھر جب اسکے چہرے کے سامنے ایک معصوم سنہری آنکھوں والی چھوٹی بچی کا چہرہ لہرایا تو اسکے دل میں ایک ٹیس اٹھی ۔۔۔
اسکے دل نے فورن گواہی دی کہ اسکی زشیہ یا انکل کارتھن ایسا نہیں کر سکتے تھے۔۔۔۔
جہاں مارک کے اتنے بڑے جال میں پھنس کر اسنے اپنے اتنے سال اس سے نفرت کرتے گذارے اب وہ ایسی کوئی بیوقوفی نہیں کرے گا۔۔۔
اسنے زشیہ کو اتنی بڑی سزا اس لیے دی تھی کیوں کے اسنے مارک کو اپنے دل میں جگہ دینے کی کوشش کی تھی ۔جو صرف ویکس کی تھی اسکے ویکس کی۔۔
آج وہ صرف اسے ویلنس سے دور کرنا چاہتا تھا ۔۔پر پتا نہیں کیو دل اسکے قریب ہونے لگا۔۔اور ویکس نے اپنے آگے کسی کی سنی کہاں ہے جو اب سنتا اسکی۔۔
وہ بہت خوش تھا آخر اسکی زی اسے مل ہی گئی تھی۔۔
اسکے خوبصورت چہرے پر دلکش مسکراہٹ ابھری ۔۔
اسنے ایک گہرہ سانس لیا اس سانسوں میں زشیہ کی خوشبو بھی تھی۔۔۔
وہ حیران ہوکر اٹھ بیٹھا ۔۔
یہاں وہ کہاں ہوگی۔۔اسنے سوچا پھر کچھ یاد آنے پر مسکرا کر اپنے ساتھ بیڈ پر پڑے اسکے اسکارف کو دیکھا اور ہاٹھ بڑھا کر اٹھایا ۔۔اپنے دل میں ابھرنے والی خوائش پوری کرنے لگا۔۔اسنے اسکارف بیڈ پر اپنے سامنے بیچھایا اور آنکھیں بند کر کہ کچھ پڑھنے لگا۔۔جس سے اسکارف ہوا میں اٹھا اور اس پر لپٹ گیا۔۔
وہ سمجھتا کیا ہے خود کو کوئی اتنی گھٹیا حرکت کرتا ہے کسی لڑکی کے ساتھ۔۔وہ بیڈ پر بیٹھی جب کچھ سنبھل گئی تھی تو اب مسلسل یاد کر کے کڑ رہی تھی۔۔اسنے اپنی کلائی کو دیکھا جہاں اسکے مضبوط انگلیوں کے سرخ نشان تھے۔۔
اسنے تو حد کردی ہے بدتمیزی کی اب اگر وہ میرے تھوڑا بھی قریب آیا میں اسکا دیواروں سے سر پھار دونگی۔۔اسکا ہاتھ خودبخود اپنے نشانوں اور گردن پر گیا۔۔جس پر وہ لال ٹماٹر ہوگئی۔
اففف۔۔۔کتنا بدتمیز انسان تھا۔۔۔وہ اسکے لمس کو محسوس کرتی جل کر کہنے لگی۔۔۔
میں کیوں اسے باربار یاد کر رہی ہوں ۔۔وہ جھنجھلا گئی۔۔پر جب دماغ میں کچھ آجائے تو اتنا آسان نہیں ہوتا اس سے پیچھا چھڑوانا۔۔اسکا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر گیا جس پر وہ شرما کر چہرہ تکیے میں چھپا گئی۔۔
اسکا دل اپنے مقام پر پہنچ کر میٹھے ساز میں دھڑک رہا تھا۔۔چہرے پر مسکان پھیلنے لگی۔۔
پر اچانک سب کچھ بدل گیا۔چہرے پر مسکان کی جگہ غم نے لےلی تھی۔ آنکھوں کے سامنے سنہری آنکھیں لہرانے لگی۔۔منہ سے ایک سسکی نکلی۔۔اپنے بچپن کے ساتھی کو یاد کرکے۔۔ویکس کاش تم زندہ ہوتے میرے ساتھ ہوتے۔۔
ابھی وہ انہیں سوچوں میں تھی جب اسکا موبائل بجا۔۔اسنے چہرہ صاف کرکے موبائل دیکھا تو لیزی کا نام جگمگا رہا تھا۔۔
اسکی صبح کی باتیں یاد کرکے اسکے چہرے پر ناگواری پھیلی۔۔
اسے مسلسل بجتا دیکھ کر اوکے کر کے کان سے لگایا پر بولی کچھ نہیں۔۔
زشیہ پلیز مجھے معاف کردو۔لیزی کی شرمندہ آواز آئی۔۔زی پھر بھی کچھ نا بولی۔۔
زی پلیز میں بہت شرمندہ ہوں مینے بہت غلط کہا تم سے تمہیں ہرٹ کیا۔۔مجھے تمہاری پرسنل لائف میں یوں نہیں آناچاہیے تھا پلیز زی مجھے سکون نہیں مل رہا تمہیں ہرٹ کر کے۔۔کہنے کے ساتھ وہ روپڑی جس پر زشیہ گھبرا گئی۔
لیزی تم رو تو نا میں تم سے ناراض نہیں ہوں ہاں وقتی غصہ تھا پر اب تو وہ بھی بلکل نہیں ہے۔۔
تم سچ کہہ رہی ہونا زی۔۔اسنے تصدیق چاہی۔۔
ہاں میں سچ کہہ رہی ہوں ۔۔زی ہمیشہ کی بیوقوف پہلے مشا کے جال میں پھنس گئی پھر اب لیزی کے۔۔
تو کیا میں اپنے فارم ہاوُس پر پارٹی دونگی تم آوُگی۔۔لیزی اپنے مقصد کے طرف آئی۔۔
لیزی یار میں وہاں نہیں آسکوں گی وہ بہت دور ہے۔۔زشیہ پریشان ہوگئی۔۔
مجھے پتا تھا تمنے مجھے اپنے دل سے معاف نہیں اگر کیا ہوتا تو ضرور آتی۔۔
نہیں لیزی ایسی بات نہیں ہے۔۔
تو کیسی بات ہے زی انسان سے غلطیاں ہوجاتی ہیں ۔۔وہ پھر رونے کا ناٹک کرنے لگی۔۔۔۔۔
اچھا تم پھر سے نہ رو میں آنے کی کوشش کروں گی۔اسنے جلدی سے کہا ۔۔۔جس پر لیزی خوش ہوگئی۔۔
تھینکس سویٹی آئی لو یو۔۔آنے کی کوشش نہیں کرنی آنا ہے ورنہ اگر تم نا آئی تو میں اپنی جان دیدونگی ۔۔۔وہ کہہ کر کال کاٹ گئی۔
وہ صدمے میں آگئی کوئی ایسے بھی کرتا ہے اتنی بات پر ۔۔اسنے جانے کا فیصلا کیا کہیں وہ سچ میں ایسا نا کردے۔۔
کچھ دیر ایسے ہی بیٹھی رہی ۔جب ٹائم زیادہ ہونے لگا تو اٹھی دروازہ کھڑکی اچھے سے بند کی اور بیڈ پر آکر لائیٹ آف کرکے سونے لگی۔۔
اسے ابھی آنکھیں موندیں کچھ ہی دیر ہوئی تھی ۔جب اسے اپنی گردن پر کسی کی تیز سانسیں محسوس ہوئی۔ایسا لگ رہا تھا کوئی اسکی خوشبو کو اپنے اندر اتار رہا ہو۔۔
اسنے گھبرا کر آنکھیں کھول دی اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔اپنے ماتھے پر آئے ننھے ننھے قطروں کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرنے لگی۔۔ کمرے میں پھیلی ہلکی روشنی میں اردگرد دیکھنے لگی پھر ہاتھ بڑھا کر پورا کمرہ روشن کردیا۔
بیڈ سے اتر کر پورے کمرے کا جائزہ لینے لگی ۔۔
پر کوئی نہیں تھا۔کھڑکی دروازہ بھی بند تھا۔۔وہ کمرے کے بیچ کھڑی تھی۔۔
شاید میرہ وحم ہو ۔۔کہتی وہ آگے بڑھنے لگی پر بڑھ نا سکی۔وہ کسی کے حصار میں قید تھی۔وہ سر سے پاوُں تک لرز گئی۔۔
پھر سے کسی کی سانسیں اپنے اوپر محسوس ہوئی۔