میرا پرس پکڑو پکڑو چور چور چور ___________
ایک نوجوان لڑکی سڑک کے کنارے کھڑی شور مچا رہی تھی
جس کے ہاتھ سے تین موٹر سائیکل سوار ٹین ایج لڑکے پرس لے کر تیز رفتاری سے رفو چکر ہو چکے تھے _________
رک رک ہادی روک بھی لو اب بائیک کو اب کیا دنیا کے آخری کونے میں لے کر جاؤ گے؟
ایک یہ گھٹیا سا پرس ہی ہے کوئی بینک تو نہیں لوٹ لیا تم نے جو یوں ہوا میں اڑے جا رہے ہو______
پیچھے بیٹھے ارحم نے اس کے بار بار کہنے کے باوجود بائیک نہ رو کنے پہ لیکچر سناتے ہوئے کہا
میری بات سنو تم دونوں ولید اور ارحم
میں آج کے بعد تم دونوں کے ساتھ مل کر کوئی واردات نہیں کروں گا ایک تو میرے گھر والوں کو مجھ پہ شک ہو گیا ہے اور دوسرا مجھے خود اب یہ چوری کرنا اور راہ چلتے لوگوں سے پرس چھیننا برا لگنے لگا ہے
ہادی نے بائیک روک کر اپنے پیچھے بیٹھے دونوں ساتھیو کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا
ارے جگر کونسی واردات ؟
کونسی چوری؟
ہم تو تینوں ملکر کر ایڈونچرز کرتے ہیں
گریٹ فن ؟
کتنا مزہ آتا ہے نہ لوگوں کو یوں تنگ کر کے ____
چلو کبھی کبھار تھوڑے بہت روپے ہاتھ لگ جاتے ہیں مگر یار لوگ کونسے بیگ میں قارون کا خزانہ لے کر گھومتے ہیں دو تین پانچ ہزار بس اس سے زیادہ تو کبھی ہوتے نہیں
ولید نے ارحم کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا
اچھا چلو اس بیگ میں تو دیکھیں کیا ہے اب مجھ سے اور صبر نہیں ہو رہا کھولو اسے ارحم نے پرجوش ہوتے ہوئے ولید سے کہا
اور تینوں سڑک کے کنارے سے ذرا کافی دور ہٹ کے کھیتوں کے قریب جا کر پرس کھولنے لگے
لو یہ لو دو سو روپے اور یہ چند فضول کاغز ولید نے باہر نکال کر پرس کو الٹا کر دیا اور ارحم نے پرس کو غصے سے ٹھڈا مار کر دور پھینک دیا
اتنا بڑا رسک لیا بیچ سڑک کے _____
پر کوئی فائدہ نہیں ہوا ولید نے مایوسی سے کہا
شکل و صورت سے تو کسی کھاتے پیتے گھر کی لگ رہی تھی سالی
اور پرس میں صرف دو سو روپے سارے موڈ کا ستیاناس مار دیا پٹرول کے پیسے بھی پورے نہیں ہوں گے _____________
ولید نےجیب سے سگریٹ نکال کر لیٹر سے سلگاتے ہوئے کہا_______
باقی دونوں بھی ولید کے ساتھ مل کر سگریٹ پیتے ہوئے دھوئیں کے مرغولے اڑانے لگے
___________________
ولید ارحم اور ہادی تینوں گہرے دوست تھے تینوں گریڈ نینتھ میں زیر تعلیم تھے
ارحم اور ولید کھاتے پیتے گھروں سے تعلق رکھتے تھے
ارحم کا باپ بزنس مین
جبکہ ولید کا باپ شہر کا جانا مانا سرجن تھا
ہادی ایک غریب گھرانے کا چشم و چراغ تھا ہادی کا باپ ایک فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا لیکن اپنے بیٹے کو اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر شہر کے سب سے مہنگے اور اچھے تعلیمی ادارے میں تعلیم دلوا رہا تھا
ارحم اور ولید کے گھر والوں کے پاس انھیں دینے کے لیے بے شمار پیسہ تھا مگر وقت نہیں تھا
ان دونوں کے والدین بہت مصروف رہتے تھے
شاید اسی وجہ سے ان کی تربیت میں بہت خامیاں تھیں
اس لیے دونوں نے اپنی زندگی اپنے حساب سے سیٹ کر لی تھیں
دونوں نے اپنی زندگی گزارنے کے تمام نظریات فلموں اور ڈراموں سے حاصل کیے تھے
جو وہ کسی فلم یا ڈرامے میں کوئی سین یا ہیرو کا کوئی سین دیکھتے تو اسے حقیقت میں بھی ادا کرنے کی کوشش کرتے
آج کی یہ واردات بھی ایک ایسی ہی فلم سے متاثر ہو کر دونوں نے کی تھی
اور ہادی بیچارا زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم ارحم اور ولید کے ساتھ اپنے بچپن کی ان تمام ادھوری خواہشوں کو مکمل کر کے دلی طور پر خوشی محسوس کرتا
جیسے بائیک چلانا سگریٹ پینا آئے دن مہنگے مہنگے ہوٹل اور کلب میں پارٹی وغیرہ
اور دوسرا وہ بہت ذہین تھا ارحم اور ولید کی پیپرز کے دنوں میں بہت مدد کرتا جہاں موقع ملتا نقل بھی لگواتا اس لیے بھی دونوں اسے ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے
فی الحال تینوں سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگا کر آج کی ناکامی کا خاموشی سے سوگ منا رہے تھے
ولید یہ کیا ہے
ارحم نے زمین پہ پڑی ایک کتاب اٹھا کر اسے پکڑاتے ہوئے کہا
ولید نے کتاب کو سیدھا کر کے دیکھا تو بڑے بڑے سیاہ رنگ کے الفاظ میں لکھا تھا
The mystery of death_____
ارحم مجھے لگتا ہے______
کہ کوئی انگلش ہارر ناول ہے _______
ولید نے بنا پڑھے کتاب کے صفحے اُلٹتے ہوئے تصویروں سے اندازہ لگا کر کہا
ادھر دیکھاؤ تو مجھے ہادی نے ولید کے ہاتھ سے کتاب چھنتے ہوئے کہا
یار مجھے تو یہ کوئی بلیک میجیک کی بک لگ رہی ہے
ہادی نے دو تین صفحات پہ سرسری سی نظر ڈال کر کہا
ارے وہ بنگالی بابا والا کالا جادو
ایک ہی عمل میں محبوب آپ کے قدموں میں
شوہر کو پہلی رات ہی میں مٹھی میں بند کریں
پرائز بانڈ میں پہلا انعام حاصل کریں وغیرہ وغیرہ
اس قسم کے جادو بتائے ہیں اس میں
ارحم نے مزاق اڑاتے ہوئے کہا
اس قسم کے جادو لکھے ہیں سنو ذرا سب
یہاں لکھا ہے کہ چاند گرہن کے شروع ہوتے ہی تین پانچ یا سات افراد مل کر ایک دائرے میں بیٹھ جائیں
درمیان میں ایک سیاہ رنگ کی مرغی رکھ لیں
پہلے سب مل کر باری باری اس کے زندہ ہی پر اتاریں گے پھر ایک اس کی ایک ٹانگ پاؤں کے اوپر سے کاٹے گا دوسرا وہی ٹانگ اس سے تھوڑی اوپر کاٹے گا اور تیسرا دوسری ٹانگ بالکل ایسے ہی طریقے سے اکیلا کاٹے گا اس کے بعد مرغی کے مرنے سے پہلے اس کا دل نکال کر جتنے افراد ہوں گے اتنے ہی اس دل کے ٹکڑے کاٹنے ہیں اور سب نے یہ نام لے کر کھا لینا ہے
اس کے بعد وہ سب لوگ اس گیم کا حصہ بن جائیں گے جس کا نام ہے
دی مسٹری آف ڈیتھ
اور جو اس کھیل میں جیت گیا اسے اس کا منہ مانگا انعام دیا جائے گا چاہے وہ اس دنیا کی بادشاہت کی کیوں نہ مانگ لے وہ بھی اسے مل جائے گی
اور ہارنے والے کو سزا موت ہو گی ایک ایسی درد ناک موت جس کا وہ خود اپنے لیے انتخاب کرے گا
ہادی نے تفصیل پڑھ کے سنائی
یار اگر مرغی چھوٹ کے بھاگ گئی تو ؟
ولید نے سوال پوچھا
سب ہنسنے لگے
یار تو کوئی ایسی مرغی لینا جسے دوڑنا پسند نہ ہو
ہر وقت بس بستر پہ بیٹھ کر کھا پی کے بیڈ توڑتی رہتی ہو ارحم نے جواب دیا
ارے چلو واپس کتنی دیر ہو گئی ہے ہادی چلو یار پھینکو اس کتاب کو اس پانی میں کیا فضول بکواس لکھی ہے اس میں رائٹر نے کالے جادو کا کونسا زمانہ رہا ہے یہ تو سائنس کا دور ہے لوگوں کو بیوقوف بناتے رہتے ہیں مال بٹورنے اور کتاب کی زیادہ سیل کے لیے
ولید نے ہادی سے کہا اور خود بائیک کی طرف بڑھ گیا
ہادی نے کتاب اٹھا کر قریب بنے گندے پانی کے جوہڑ میں پھینکی اور واپس مڑ گیا
ویسے ارحم تمھارا کیا خیال ہے یہ کتاب کس کی ہو سکتی ہے
ولید نے سوچتے ہوئے پوچھا
مجھے لگتا ہے یہ کتاب اسی لڑکی کے بیگ سے گری ہے جس کا پرس ہم نے چھینا تھا
اوہ یار وہ دو سو روپے وہیں رہ گئے ہماری آج کی محنت اور حق حلال کی کمائی بھی لٹ گئی
ارحم نے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا
اور تینوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا
ہادی جو عمل اس کتاب میں لکھا تھا کتنا عجیب تھا
ایک زندہ مرغی کے ساتھ اتنا ظلم یار اسے کتنی تکلیف ہوتی ہو گی
ولید نے ہادی سے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا
ولید کالا علم نام ہی اس ظلم اور بے حسی کا ہے جتنا انسان بے حس اور ظالم ہو گا وہ اتنا بڑا جادوگر ہو گا________
مطلب کالے جادو کے لیے اپنے اندر سے ہر قسم کی انسانیت کا خاتمہ کرنا پڑے گا
ولید نے پھر پوچھا
بالکل ولید ہمارے گھر کے پاس ایک کالے علم کا عامل رہتا تھا اس کے چہرے پہ کیا پھٹکار برستی تھی جس کی طرف دیکھنے کو دل نہیں کرتا تھا
وہ لوگوں سے پیسے لے کر ان کے کام کرتا جیسے
میاں بیوی میں طلاق __تندرست انسان جو مریض بنا دیتا ___رشتے بند کروا دیتا یہاں تک کہ موت کے منہ میں بھی انسان کو پہنچا دیتا تھا
یار خود وہ پچاس ساٹھ سال کا تھا مگر بیوی اس کی سولہ سترہ برس کی بہت خوبصورت تھی ایک بار اس لڑکی کے گھر والے اس کے پیچھے آئے تب سب کو پتہ چلا کہ یہ لڑکی کو گھر سے بھگا کر لایا ہے مگر لڑکی نے اپنے والدین کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا پتہ نہیں کیا جادو اس لڑکی پہ اس نے پھونکا ہوا تھا ہر وقت اس کی تعریفیں کرتی رہتی میرا تو اس کی شکل دیکھنے کو دل نہیں کرتا تھا
ہادی نے ولید کو جواب دیا
کیا بات ہے ولید کہیں تمھیں بھی اس کالے جادو میں انٹرسٹ تو پیدا نہیں ہو گیا جو اتنی تفصیل سے ہادی سے پوچھ رہے ہو ارحم نے ولید کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا
ارے نہیں یار یہ بھی ایک علم ہی ہے بس اس کے بارے میں تھوڑا جاننے کی کوشش کر رہا تھا
ولید نے جواب دیا
ہادی پیچھے دیکھو اس بیک مرر سے کیا تمھیں نظر آ رہا ہے ؟
ارحم نے یک دم خوف سے زرد ہوتے چہرے کے ساتھ ہادی کو کہنی مارتے ہوئے کہا
اور تینوں کی نظروں بیک وقت بیک مرر پہ جم گئی
وہ شیطانی کتاب برق رفتاری سے اڑتی ہوئی ان کے پیچھے آ رہی تھی