یہ آفت نا گہانی ٹھگوں کی کٹنی تفوسی اور اس کے بھڑوے خصم تفوسا کی کہانی ہے۔ داستان گو کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اشہب قلم کی جولانیوں سے معاشرتی زندگی سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے اور بے ہنگم تضادات اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے زخم رفو کرنے کی سعی کرتا ہے۔ جب کہ پیمان شکن، دروغ گو، حرص و ہوس کے اسیر موقع پرست اور گرگ آشتی کو وتیرہ بنانے والے خود غرض درندے سدا اپنے منھ میاں مٹھو بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ قحبہ خانے کی رسوائے زمانہ نائکہ تفوسی کے خاندان کے مورث نے برطانیہ کے ایک دُور افتادہ قصبے کوپ لینڈ کمبریا (Copeland Cumbria) میں دریائے ارٹ (River Irt) پر تعمیر کیے گئے سینٹون پُل (Santon Bridge) کے مقام پر ہونے والے عالمی مقابلۂ کذب و افترا میں دنیا کے سب سے بڑے جھوٹے کا مقابلہ کئی بار جیتا۔ نائکہ تفوسی اور بھڑوا تفوسا ہرسال نومبر میں اس جشن میں شرکت کرتے رہے جو کوپ لینڈ میں سینٹون پُل پر نہایت تزک و احتشام سے ہر سال منعقد ہوتا ہے۔ تفوسی بے پر کی اُڑاتی، سفید جھوٹ بولتی، ملمع سازی سے لوہے کو سیم و زر بتاتی اور رنگوں کی بصارت سے محروم افراد کو رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کا استعارہ قرار دیتی تھی۔ برطانیہ میں رسوائے زمانہ کذاب وِل رِسٹن (Will Riston: 1808-1890) کی دروغ گوئی کی منحوس یاد تازہ رکھنے کے لیے اس جشن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگ نائکہ تفوسی اور بھڑوے مسخرے تفوسا نے زندگی بھر اپنے سفلی پیشوا وِل رِسٹن کی کورانہ تقلید کو وتیرہ بنائے رکھا۔ تفوسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ممتاز مورخ ضیا الدین برنی(1285-1357) نے اپنی مشہور تصنیف تاریخ فیروز شاہی(1356) میں نائکہ تفوسی کے ٹھگ خاندان کا ذکر کیا ہے۔ قدرت کاملہ نے بر صغیر میں ہر عہد کے سلاطین کو ٹھگوں کے اس طوفان سے آشنا رکھا۔ بر صغیر میں خلجی سلطنت کے بانی جلال الدین خلجی (1220-1296) نے اپنے عہدِ حکومت میں نائکہ تفوسی کے خاندان کے ایک ہزار ٹھگوں کو پابند سلاسل کر دیا۔ نائکہ تفوسی کے خاندان کے طالع آزما اور مہم جُو تیر اندازوں، نیزہ بازوں اور شمشیر زنوں نے نادر شاہ درانی (1688-1747) کے مسلح دستوں میں شامل ہو کر 1739 میں دہلی شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور تیس ہزار بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ نائکہ تفوسی کے خاندان کا قبیح کردار، قتل و غارت کی مہلک غلطیاں، دروغ گوئی اور بے لگام جنسی جنون اس کے مالی استحکام کا سب سے بڑا حربہ تھا۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں آگہی رکھنے والے بزرگوں سے سنا ہے کہ نائکہ تفوسی کے خاندان کے مورث ادنیٰ ابلیس نژاد گرگ جمعداربہرام ٹھگ (1765-1840) نے اپنے عہد میں شمالی ہند کی ریاست اودھ کے باشندوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ اپنے آبائی شجرہ نسب کے حوالے سے تفوسی اس بات پر سدا فخر کرتی کہ اس کے خاندان کے سرغنہ بہرام ٹھگ نے پچیس سال کی عمر میں ٹھگی کی وارداتوں کا آغاز کیا۔ اس کے بعد اس سفاک ٹھگ نے پچاس سال (1790-1840) کے عرصے میں نو سو اکتیس (931) بے بس و لا چار اور مظلوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر خوف اور دہشت کی ایسی فضا قائم کی کہ پورے بر صغیر پر اس خطرناک ٹھگ کی ہیبت طاری ہو گئی۔ ایک راجبوت سورما یوگیش سنگھ رانا کے ساتھ تصادم میں بہرام ٹھگ شدید زخمی ہوا۔ سال 1840 میں بہرام ٹھگ کو برطانوی پولیس نے گرفتار کر لیا۔ ہندوستانی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر جبل پور میں انگریز مجسٹریٹ کرنل ہینری سلیمان (Col. Henry Sleeman) کی عدالت میں اس خون آشام درندے اور عیار ٹھگ پر مقدمہ چلایا گیا اور عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اسے دار پر کھنچوا دیا گیا۔ تفوسی کے خاندانی ذرائع سے معلوم ہوا کہ بہرام کی پھانسی کے بعد اس کے کالی زبان والے اور سبز قدم آباء و اجداد جنوبی ہندوستان کی ریاست نظام آباد (آندھرا پردیش) میں منتقل ہو گئے۔ یہ سب کالی دیوی کے پرستار تھے اور صحنِ چمن میں جس طرف بھی جاتے ہر شاخ پر زاغ و زغن، بُوم و شپر اور اُلّو کا بسیرا رہتا۔ اس کے خاندان کے سفہا اور اجلاف و ارذال ٹھگوں کا ذکر جن قدیم مورخین نے کیا ہے ان میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم کپتان جیمزپیٹن (Captain James Paton) بھی شامل ہے۔
قحط الر جال کے موجودہ دور میں عادی دروغ گو کی تلاش میں کسی کو طویل مسافت طے کرنے کی ضرورت نہیں۔ مسلسل شکستِ دِل کے باعث وہ بے حسی ہے کہ ایک جھوٹے کو ڈھونڈنے نکلو تو راہ میں ایک ہزار عادی دروغ ہنہناتے اور دُم ہلا کر غراتے دکھائی دیں گے۔ خانے وال میں اپنے آبائی قحبہ خانے اور چنڈو خانے کو شادی مرکز میں بدلنے کے بعد تفوسا اور تفوسی کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں۔ شہر کے ایک با رونق بازار میں ’’جھٹ پٹ مرکز بیاہ‘‘ کی صورت میں ان ٹھگوں نے لُوٹ مار کا ایک اڈہ بنا لیا تھا۔ جھُٹ پُٹے کے وقت یہاں شادی کے خواہش مند عیاش، اوباش اور دولت مند نوجوان جوق در جوق پہنچتے۔ یہاں سب مست بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر رقص کرتے اور شرم و حیا کو دریا بُرد کر کے رات گئے تک جنس و جنوں کی محفل سجائی جاتی۔ طوائف صبوحی اور نائکہ تفوسی رقص و سرود اور جنس و جنوں کی ان محفلوں کی روح رواں تھیں۔ جب رقصِ مے تیز ہوتا اور ساز کی لے بلند ہوتی تو رذیل جسم فروش طوائف صبوحی کی ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز طوائفیں برملا کہتیں:
’’تخریب کچھ تو بہرِ خرافات چاہیے۔‘‘
شہر میں ’’جھٹ پٹ مرکز بیاہ‘‘ نے عیاشی، بد معاشی اور لُوٹ مار کے ایک خطر ناک اڈے کی صورت اختیار کر لی۔ صبوحی کی صورت میں تفوسی کو ایک ایسی ماڈل میسر تھی جسے دکھا کر وہ پتھر کو بھی جو نک لگا لیتی تھی۔ بے غیرتی، بے ضمیری اور بے ایمانی کو وتیرہ بنانے والی ان طوائفوں نے جن لوگوں کو اپنی لُوٹ مار کا نشانہ بنایا ان میں زیادہ تر بوڑھے ریٹائرڈ ملازم شامل تھے۔ یہ ضعیف چراغ سحری تھے اور چاہتے تھے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کے سر پر سہرے باندھ کر ایک خوشی دیکھ سکیں۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ یہ رذیل جسم فروش طوائفیں ضعیف ریٹائرڈ ملازمین کی آنکھوں میں دھُول جھونک کر نہایت راز داری اور عیاری سے اُن کی زندگی بھر کی جمع پونجی ہتھیا لیتیں۔ ان جلاد منش طوائفوں کی ٹھگی، درندگی اور لُوٹ مار کا نتیجہ یہ نکلتا کہ آلام روزگار کے پاٹوں میں پِس کر بوڑھے تو عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیتے مگر ان الم نصیب جگر فگار ضعیفوں کے پس ماندگان کے گھر کے اُداس بام، کھلے در اور دیواروں پر حسرت و یاس بال کھول کر آہ و فغاں میں مصروف رہتی۔ قحبہ خانے میں اپنا شباب گزارنے کے بعد تفوسا کے ساتھ شادی کا بندھن تفوسی کے لیے انوکھا تجربہ ثابت ہوا۔ وہ اپنے قحبہ خانے کی طوائفوں کو یہ بات سمجھاتی رہتی:
’’مری تربیت سے نوجوان طوائف صبوحی اپنے پیشے میں اتنی ماہر ہو گئی ہے کہ یہ لال کنور سے بھی بازی لے گئی ہے۔ روزانہ بیسیوں لُچے، تلنگے، مسخرے اور بھڑوے کالا دھن لیے اس نوجوان جسم فروش طوائف کو نوچنے اور اپنا منھ کالا کرنے کے لیے قحبہ خانے میں پہنچ جاتے ہیں۔ صبوحی کی الھڑ جوانی اور چاندی کی گردن میں سونے کی گانی دیکھ کر جنسی جنونی مرد اس طوائف پر مر مٹتے ہیں۔ شادی کے بعد طوائف کو بے شمار پرستاروں کی ہوس سے نجات مِل جاتی ہے اور اُسے شوہر کی صورت میں صرف ایک بھڑوے پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ شادی کے بندھن کے بعد طوائف کو آرام کے لیے کچھ وقت مِل جاتا ہے۔ میں نے خرچی کی کمائی سے اس قدر جائیداد بنا لی ہے کہ اب ہمارا شمار کھرب پتی رؤسا میں ہوتا ہے۔ ہمارے قحبہ خانے اور چنڈو خانے میں آنے والے جنسی جنونیوں کو جب میری لے پالک بیٹی صبوحی مے گل فام سے سیراب کرتی ہے تو وہ سب چلّو میں اُلّو بن جاتے ہیں۔ وہ اپنا زر و مال میرے قحبہ خانوں کی نیم عریاں حسیناؤں، لے پالک بیٹیوں اور رقص و سرود کی ماہر طوائفوں پر نچھاور کرنے کے بعد جہاں دار شاہ کی طرح ان کے قدموں میں ڈھیر ہو جاتے ہیں۔‘‘
بھڑوا تفوسا بھی اپنی اہلیہ کے خیالات سے متفق تھا۔ تفوسی اور صبوحی نے اس نکھٹو کے لیے آرام و آسائش کے فراواں مواقع پیدا کر دئیے تھے۔ اس کی تن آسانی اور عیاشی دیکھ کر سب لوگ لاحول پڑھتے تھے۔ ہوش و خرد سے عاری یہ خضاب آلود بڈھا کھوسٹ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا اور حسین دوشیزاؤں کے جھرمٹ میں راجا اِندر بن کر خوب ہنہناتا تھا۔ زمین کا بوجھ تفوسا جب زمین کو ٹھوکر مار کر اکڑتا ہوا چلتا تو دو طرفہ خست و خجالت، ذلت و تخریب اور ندامت اس کے ساتھ ساتھ چلتی جب یہ نشے میں ٹُن ہوتا تو اکثر یہ بات دہراتا:
’’ہمارے قحبہ خانے کی مکین مست طوائفیں بندِ قبا کھول کر عیاش دولت مندوں کی جیب خالی کرنے کا فن خوب جانتی ہیں۔ ہماری عیاشی کی راہ میں جو دیوار بنے گا وہ باقی نہیں رہے گا۔ سماجی زندگی میں ایک عام آدمی جب اپنے ابنائے جنس سے تصادم کے نتیجے میں کسی شخص کی زندگی کی شمع بجھا دیتا ہے تو اسے قاتل کہا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس جب ایک خونخوار جنگلی جانور کسی نہتے آدمی کو اپنا لقمۂ تر بناتا ہے تو اسے جانور کی سر کشی، درندگی اور سفاکی پر محمول کیا جاتا ہے۔ ہم نے مے خانے، قحبہ خانے اور چنڈو خانے بنا کر زوال پذیر معاشرے کی ایک ضرورت پوری کی ہے۔ جس طرح ہر گھر میں ایک بیت الخلا کی اشد ضرورت ہے اسی طرح ہر معاشرے کو ایک قحبہ خانے کی احتیاج ہے۔ ہمارا قحبہ خانہ دورِ انحطاط میں اخلاق باختہ معاشرے کی تمام عفونت اور سڑاند کو چُوس لیتا ہے۔‘‘
نائکہ تفوسی ایسی سنگ دِل کٹنی تھی جس کی لُوٹ مار سے کئی امیر خاندان کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے۔ اپنے مکروہ عزائم کے بارے میں وہ مگرمچھ کے آ نسو بہاتے ہوئے نہایت ڈھٹائی سے کہتی:
’’اہلِ ثروت کے گھروں میں زیورات اور مال و دولت کی فراوانی دیکھ کر میرے دل میں لُوٹ مارکی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ ٹھگی کی وارداتوں میں ہماری توجہ صرف لُوٹ مار پر ہوتی ہے مگر لُوٹ مار کے دوران میں جب ہمیں للکارا جاتا ہے تو ہمارا صبر و ضبط جواب دے جاتا ہے۔ ایسے حالات میں قتل و غارت کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہتا۔ میرے قحبہ خانے کی حسین و جمیل نوجوان لڑکیاں بگڑے ہوئے رؤسا اور گھٹیا عیاشوں پر اپنا جسم و جاں نذر کرتی ہیں، اپنا کردار، وقار اور اعتبار چند ٹکوں کے عوض بیچنا بڑے جان جوکھوں کا کام ہے مگر ہم ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘
تفوسی اپنی لے پالک نوجوان بیٹیوں کو کچھ عرصہ تو قحبہ خانے کی زینت بناتی مگر جب ان طوائفوں کا شباب ڈھلنے لگتا تو کسی عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پُورے عیاش نوجوان سے ان کی شادی کر دیتی۔ ان خون آشام ٹھگوں کے بے گناہ انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔ نسل در نسل لوگوں کے دلوں میں ان ٹھگوں کے خلاف نفرت کے جذبات پروان چڑھتے رہے۔ تفوسی کے قحبہ خانے کی رقاصہ، مغنیہ اور رذیل جسم فروش طوائف صبوحی کے خط و خال تو واجبی سے تھے مگر ماہر مشاطہ محنت سے اس انداز میں اس کی لیپا پوتی کرتی کہ دیکھنے والے دھوکا کھا جاتے۔
راوی نے بتایا کہ سال 2014 میں کمال نامی ایک ضعیف طبیب ٹھگوں کے اس گروہ کے چنگل میں پھنس گیا۔ اسی سال کا بوڑھا طبیب کمال جلد از جلد اپنے نوجوان بیٹے رافع کی شادی کی خوشی دیکھنے کا آرزو مند تھا۔ اس نے اپنے معمتد ساتھیوں سے اس سلسلے میں مشورے کیے۔ طبیب کمال کی خواہش کے بارے میں جب ٹھگوں کے اس ٹولے کو معلوم ہوا تو نائکہ تفوسی اپنی بیٹی صبوحی کلموہی کو لے کر وہاں جا پہنچی اور اپنے مکر و فریب کا جال بچھا کر کہنے لگی:
’’میری چندے آفتاب چندے ماہتاب بیٹی صبوحی حاضر ہے۔ اگر تم اسے اپنی بہو بیٹی بنا لو تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا۔‘‘
تفوسا کو بھی شکار پھانسنے کا ہنر خوب آتا تھا۔ اس نے اپنی اہلیہ کی تائید کرتے ہوئے کہا:
’’صبوحی کے لیے بہت رشتے آ رہے ہیں۔ رافع ہمیں بہت عزیز ہے اس لیے ہم اپنی بیٹی صبوحی کا رشتہ اسے دے رہے ہیں۔‘‘
طبیب کمال نے تفوسا اور اس کی اہلیہ تفوسی کی باتیں سن کر کہا:
’’میں اس کے بارے میں پہلے اپنے اہلِ خانہ سے مشورہ کروں گا۔‘‘
’’تم بڑے شوق سے مشورہ کر لو۔‘‘
نائکہ تفوسی کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے بولی ’’ہمارے گھر میں صبوحی کے رشتے کے لیے نوجوان لڑکوں کا تانتا بندھا ہے۔ تم ایک ہفتے کے اندر ہمیں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دینا۔‘‘
طبیب کمال نے یہ ساری باتیں تفوسا کے ضعیف پڑوسی کرم داد کو بتائیں تو کرم داد تڑپ اُٹھا اور بولا:
’’میرے بھائی! حیف صد حیف نائکہ تفوسی نے شرم و حیا کو بارہ پتھر کر دیا ہے۔ شہر کا شہر صبوحی کے حربوں سے آگاہ ہے۔ ہر روز یہ حرافہ اس طرح بن ٹھن کر اپنے قحبہ خانے سے باہر نکلتی ہے جس طرح پیشہ ور شکاری بندوق تھام کر شکار کے لیے نکلتا ہے۔ متلون مزاجی سے اعتماد مجروح ہوتا ہے مگر جو شخص خلوص، مروّت اور شفقت سے محروم ہو وہ کردار اور وقار سے عاری ہو جاتا ہے۔ کاروبار میں ہونے والے نقصان کی تلافی تو ممکن ہے مگر دھوکا دہی اور فریب کاری سے انسان جن صدمات سے دو چار ہوتا ہے وہ ناقابلِ اندمال ثابت ہوتے ہیں۔ ہر ماہ تفوسی کے قحبہ خانے میں اس کی رذیل طوائف بیٹی صبوحی کی منگنی کی تقریب ہوتی ہے۔ اب تک یہ ٹھگ اپنی تیس سالہ بیٹی صبوحی کی منگنی تین سو مرتبہ کر چکے ہیں۔ اس سے پہلے ان عادی دروغ گو ٹھگوں کی یہ بیٹی اپنی منگنی کی تین سنچریاں پوری کر چکی ہے۔ ان کی چال دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ ان کی یہ بیٹی اپنی منگنی کی چار سنچریاں پوری کرے گی۔ اونہہ! صبوحی کی منگنی کوئی نئی بات نہیں۔ میں تو اس عیار لڑکی کی منگنی کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں:
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
اس کی منگنی مدام ہوتی ہے‘‘
نوجوان سارق جو صبوحی کا زخم خوردہ تھا وہ یہ باتیں بڑی توجہ سے سن رہا تھا۔ اس نے اپنے تلخ تجربات کے حوالے سے بتایا:
’’صبوحی کے کوٹھے پر جو امیر نوجوان وارد ہوتا ہے صبوحی کو اس کی منگیتر بنا دیا جاتا ہے۔ جو لوگ صبوحی کو محض طوائف سمجھتے ہیں وہ سخت نادانی کرتے ہیں۔ صبوحی جہاں ایک رذیل جسم فروش طوائف ہے وہاں یہ کلموہی ایک پیشہ ور ٹھگ بھی ہے۔ اپنی ماں تفوسی کے ساتھ صبوحی نے کچھ عرصہ حافظ آباد میں میرے گھر گزار آئی۔ وہاں اس چڑیل نے جو گل کھلائے اور چاند چڑھائے وہ آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔ اپنا سب اثاثہ لٹوانے کے بعد میں یہی کہتا ہوں کہ اللہ ہی اس کا حافظ ہے۔ ڈائن صبوحی نے میرے گھر کا سکھ اور چین غارت کر دیا۔ اب میں اپنے گھر کی شکستہ دیواروں کی مرمت کر رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس ہوائے بے اماں میں اپنی اس پناہ گاہ کو بچا لوں۔‘‘