مستقیم کی سنگت میں زندگی بہت حسین ہو گئی تھی۔ وہ اپنی پرانی ساری محرومیاں اس کا ساتھ پا کر بھول چکی تھی۔ دی جان سے بھی اکثر بات ہوتی رہتی تھی۔ آج اتوار تھا اور مستقیم گھر ہی تھا۔
اسکی باہوں کے حصار میں پڑی حریم نے آنکھیں کھول کر دیوار پر ٹنگی گھڑی کی طرف دیکھا جو 9 بجنے کا اعلان کر رہی تھی۔ وہ اس کی باہوں کا حصار توڑ کر اٹھی اور کندھے پر بکھرے بالوں کو سمیٹ کر جوڑے میں لپیٹا۔ جمای روکتے ایک بھرپور انگرائی لی اور مڑ کر مستقیم کے ماتھے پر بوسہ دے کر اٹھتی فریش ہونے کے لئے باتھروم کی طرف بڑھ گئی۔
وہ فریش ہو کر واپس آئ تو مستقیم اب تک گہری نیند میں سو رہا تھا۔ وہ اس پر ایک مسکراتی ہوئی نظر ڈال کر کچن کی طرف بڑھ گئی تا کہ اسپیشل بریک فاسٹ کا انتظام کر سکے۔
وہ توے پر پراٹھا ڈالے کھڑی تھی جب پیچھے سے مستقیم اسے اپنے حصار میں قید کر گیا۔
"گڈ مارننگ میری جان!"
وہ اپنی ٹھوڑی اس کے کندھے پر ٹکا کر بولا۔
"گڈ مارننگ! اچھا ہوا خود ہی اٹھ گے آپ میں آپ کو ہی اٹھانے جا رہی تھی ناشتے کے لئے۔"
وہ اسے دیکھ کر مسکرا کر کہتی پھر سے توے کی جانب متوجہ ہو گئی۔
"دیکھ لیں بیوی آپ نے یاد کیا اور ہم سر کے بل آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔"
اس کے کہنے پر وہ کھکھلا کر ہنس دی۔
"بہت نوازش حضور! بندی آپ کی یہ مہربانی ہمیشہ یاد رکھے گی۔"
وہ بھی شرارت سے بولتی لب دبا گئی۔
"آہاں!"
اس کی شرارت پر وہ ابرو اچکا گیا۔
"چلیں نا مستقیم بہت بھوک لگی ہے مجھے۔"
اس کے کہنے پر وہ اب کے شرافت سے پیچھے ہٹ گیا اور برتن ڈائننگ ٹیبل پر لگانے لگا۔
ایک دوسرے کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتے نوک جھوک کرتے وہ اپنی زندگی کے حسین پل سمیٹ رہے تھے۔
ہر ویکینڈ کی طرح یہ ویکینڈ بھی ان دونوں نے خوب موج مستی کرتے ایک دوسرے کی سنگت میں بتایا تھا۔
*********
دعا کے پیپرز بہت اچھے ہو گئے تھے۔ پیپرز کے بعد دس چھٹیاں تھی۔ فاتح نے سوچا تھا کہ یہ چھٹیاں وہ دونوں کسی اچھے سے ٹور پر گزاریں گے۔ وہ اپنی اور دعا کی ٹکٹس بھی کروا چکا تھا پر ایک دن پہلے ہی اسے ایک بہت ضروری میٹنگ کے لئے آوٹ آف سٹی جانا پڑ گیا اور وہ نا چاہتے ہوئے بھی اسے دعا کو سارا بیگم کی طرف چھوڑ کر میٹنگ کے لئے جانا پڑا۔
دعا بھی بہت پرجوش تھی فاتح کے ساتھ پہلی دفعہ ایسے لمبے ٹور کے لئے۔ پر ان کا سارا پلان ہی خراب ہو گیا۔
وہ آج صبح بھی برے موڈ کے ساتھ ہی کالج آئ تھی پر چوتھے لیکچر میں جو خبر اسے ملی وہ خوشی سے چیخ پڑی۔ کالج سٹوڈنٹس کے لئے نوردرن ایریاز کا ٹور پلان کیا تھا۔
کالج میں اسے فاتح سے اس موضوع پر بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ گھر آتے ہی وہ بےصبری سے فاتح کا انتظار کرنے لگی۔ روز فاتح اسی وقت پر آتا تھا پر آج دعا کو یہ وقت کچھ زیادہ ہی لمبا محسوس ہو رہا تھا۔
" السلام علیکم!"
وه انہی سوچوں میں غرق تھی جب فاتح نے آ کر سلام کیا۔ اسکی آواز ایک دم سن کر وہ اپنی جگہ سے اچھل پڑی ۔ فاتح نے آگے بڑھ کر حسب معمول اس کی پیشانی چومی۔
"اف ڈرا دیا آپ نے تو مجھے۔"
وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنا سانس بحال کرتی ہوئی شکوہ کرنے لگی۔
"اچھا تو محترمہ صاحبہ ایسے کن خیالات کی سیر کو نکلی ہوئی تھیں کہ میری آواز سنتے ہی ڈر گئیں؟"
وہ ابرو اچکا کر سوالیه نظروں سے اسے دیکھنے لگا تو دعا کو اپنی خوشی پھر سے یاد آئ۔
وہ اچھل کر فاتح کی بلکل پاس کھڑی ہو کر دونوں ہاتھ اس کے سینے پر جما گئی۔
"اپ کو پتا ہے میں آج بہت بہت زیادہ خوش ہوں۔ کب سے آپ کا ویٹ کر رہی تھی۔"
وہ اپنی اس قدر نزدیکی سے فاتح کے اندر برپا ہونے والے جذبات سے بےخبر اپنی ہی ہانکے جا رہی تھی۔
"آہاں! اور یہ خوشی یقیناً کالج ٹور کی خبر کی وجہ سے ہوگی۔ ایم آئ رائٹ؟"
اس کے پوچھنے پر وہ تیزی سے اثبات میں سر ہلا گئی۔
"اف کتنا مزہ آئے گا نا۔ مجھ سے تو ابھی سے ہی صبر نہیں ہو رہا ۔"
دعا کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ اس کے معصوم چہرے کو دیکھتا اسکی آنکھوں پر پیار بھرا لمس چھوڑ گیا۔ ہمیشہ کی طرح وہ اس کی حرکت پر جھینپ گئی۔
" آپ جانا چاہتی ہیں؟"
وہ اس کے گالوں کو چھوتی بالوں کی لٹ کو انگلی پر لپیٹنے لگا۔وہ اس کی نظروں کی تپش محسوس کرتی محض سر ہلا گئی۔
"اوکے پھر ہم ضرور جائیں گے۔!"
وہ جھک کر اس کے گالوں کو باری باری چھو کر اپنے لمس سے معتبر کرنے لگا۔
"یاہوو ! وہ جوش سے کہتی اس کی گردن کے گرد اپنے بازوؤں کا ہار بناتی اس کے سینے کا حصّہ بن گئی۔
فاتح کا تیزی سے دھڑکتا دل ساکت ہونے پر آ گیا۔وہ پیچھے ہٹنے لگی تو فاتح نے اس کی کمر پر ہاتھ جما کر اس کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔
"اتنی جلدی بھی کس بات کی ہے؟"
اس کی گھمبیر آواز بہت نزدیک سے دعا کے کانوں سے ٹکرائی تو کانوں پر پڑتی اس کی سانسوں کی گرمی دعا کو پاگل کرنے لگی۔
"وو۔۔وہ ہمیں شش ۔۔۔شاپنگ بھی کرنی ہو۔۔ہوگی نا؟"
وہ گهگيا گئی۔
"یس! شاپنگ بھی کریں گے۔ آپ ایک کپ کافی پلا دیں میں فریش ہو کے چینج کر لوں پھر ہم شاپنگ پے چلتے ہیں اور ڈنر بھی باہر ہی کریں گے۔"
وہ اسے پیچھے کرتا اس کا گال تھپتھپا کر اپنے کپڑے لیتا باتھروم کی طرف بڑھ گیا تو وہ بھی اپنے سرخ گال شیشے میں دیکھتی شرما کر کچن کی طرف رخ کر گئی۔
**********
مستقیم آفس جا چکا تھا۔ اسے کل سے اپنی طبیت گری گری محسوس ہو رہی تھی پر اس نے مستقیم کو محسوس نہ ہونے دیا کیوں کہ جانتی تھی وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس بیٹھ جاۓ گا اور ٹینشن الگ لے گا۔
دوپہر کو ایسے ہی اس کے دماغ میں خیال آیا کیوں نا لنچ بنا کر آفس لے جاۓ مستقیم کے لئے پھر اس کے ساتھ ہی واپسی پر ڈاکٹر کو بھی چیک کروا لے۔
اس خیال کو عملی جامہ پہناتے جلدی سے اٹھی لنچ تیار ہوا اور خود بھی ہلکا پھلکا تیار ہوتی گھر لاک کر کے مستقیم کے آفس کی طرف بڑھ گئی۔
وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے اندر داخل ہوئی۔ جیسے ہی اسکی نگاہ سامنے اٹھی وہ
ساکت ہو گئی۔ابھی ہی تو اسکی آنکھوں نے حسین خواب بننے شروع کیے تھے پر خوابوں کا محل بننے سے پہلے ہی چکنا چور ہو چکا تھا۔ سامنے ہی وہ کرسی پر براجمان تھا اور وہ سرخ بالوں والی چڑیل اس پر مکمل جھکی ہوئی تھی۔ دروازے کی آواز پر اس کی طرف متوجہ ہوتے وہ جھٹکے سے اس لڑکی کو خود سے دور کر چکا تھا۔سامنے ہی وہ بے یقینی سے کبھی اسے اور کبھی اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی جس کے حلیے سے اسے ایک لڑکی ہوتے ہوئے بھی شرم محسوس ہو رہی تھی۔
"ہنی پلیز جسٹ لسن ٹو می!"اس نے جیسے ہی اسے باہر کیطرف بڑھتے دیکھا تیزی سے اسکی طرف لپکا۔
"یو ڈونٹ ہیو ٹو سے سوری سر! انفیکٹ سوری مجھے کرنی چاہیے بغیر ناک کیے اندر آنے اور آپ کے پرائویٹ مومنٹ کو ڈسٹرب کرنے کے لیے۔ آئی ایم ریئلی سوری سر!" وہ اس کی سرخ آنکھوں میں نمی دیکھتا تکلیف سے دوچار ہوا تھا۔ وہ تیزی سے پلٹتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔
وہ غصے سے لیلیٰ کی طرف پلٹا ۔
"تم گھٹیا ترین عورت تمہارا تو میں بعد میں بندوبست کرتا ہوں."
وہ غصے سے تن فن کرتا وہاں سے نکلا تو پیچھے وہ قہقہہ لگا کر مکروہ ہنسی ہنس دی۔
" مجھے ریجیکٹ کیا تھا نا مستقیم فارس اب بھگتو خود بھی۔ لیلیٰ اپنی ریجیکشن معاف کیسے کر دیتی۔ ہنہ!"
وہ ہنکار بھرتی وہاں سے نکلتی چلی گئی کیوں کہ اس کا کام یھاں ختم ہو چکا تھا۔
وہ شروع سے مستقیم کو پسند کرتی تھی جس کا اظہار بھی وہ کر چکی تھی پر اس نے یہ کہہ کر اسے ریجیکٹ کر دیا کہ وہ اسے صرف دوست سمجھتا ہے اور کسی اور لڑکی سے پیار کرتا ہے۔ پچھلے دنوں جب اسے پتا چلا مستقیم کی شادی کا وہ تب سے انگاروں پر جل رہی تھی۔ آج وہ ویسے ہی آئ تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی بیوی بھی وہاں آ جاۓ گی اچانک۔ وہ مستقیم کو بہکانے کے لئے اس پر جھکی تھی پر اسی وقت حریم آ گئی۔ خیر لیلیٰ کا کام تو آسان ہی ہوا تھا نا!
وہ تیزی سے پارکنگ کی طرف بڑھا پر وہ کہیں بھی نہیں تھی۔ مستقیم نے جلدی سے گاڑی بهگائی۔ ابھی وہ آدھےراستے میں پہنچا تھا جب گاڑی بند ہو گئی۔
"شٹ!"
اس نے غصے سے ہاتھ سٹیرنگ وہیل پر مارا ۔ اس گاڑی کو بھی ابھی خراب ہونا تھا۔ وہ گاڑی لاک کر کے باہر نکلا اور كيب کروا کر فلیٹ کی طرف بڑھا۔ وہ گھر داخل ہوتے ہی حریم کو آوازیں دینے لگا پر وه ہوتی تو ملتی نا۔ سائیڈ ٹیبل پر پڑا ایک سفید کاغذ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ مستقیم نے کانپتے ہاتھوں اور دھڑکتے دل کے ساتھ اس کاغذ پر لکھی تحریر پڑھی تو ساکت ہو گیا اور کاغذ چھوٹ کر اس کے ہاتھوں سے نیچے جا گرا۔
********
وہ لوگ کالج سے نکل چکے تھے۔ سب سے پہلے انہیں ناران جانا تھا۔ وہ کالج بس میں امايا کے ساتھ بیٹھی پرجوش نظر آتی تھی جب کہ فاتح دو اور ٹیچرز کے ساتھ بس کے پیچھے ہی اپنی گاڑی میں تھا۔ پر موسم میں کچھ خرابی کی وجہ سے دوسرے ٹیچرز کے اسرار پر اسے گاڑی وہیں چھوڑ کر بس میں سوار ہونا پڑا۔ وہ دعا کے بلکل ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ دعا کی تو خوشی سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ وہ اسے دیکھتا منہ نیچے کر کے مسکرا دیا۔جھلی!
وہ نیلی جینز پر وول کی سفید ہائی نیک پر ہلکا نیلا مفلر اور لائٹ پنک كلر کی اونی ٹوپی پہنے فاتح کی نظریں بھٹکا رہی تھی۔ فاتح کا بس نہیں چل رہا تھا کے اسے سب سے دور لے جاۓ اور خود میں چھپا لے۔ جب کہ وہ خود بھی نیلی پینٹ اور سفید ہائی نیک میں ملبوس تھا۔ ان دونوں کی ایک جیسی ڈریسنگ دیکھ کر امايا نے اسے خوب تنگ کیا تھا جس کے جواب میں وہ شرما کر سر جھکا جاتی اور امايا قہقہہ لگا دیتی۔
تھوڑا ہلا گلا کرنے کے بعد اب بس میں موجود سب سٹوڈنٹس اور ٹیچرز ہی تقریباً سو رہے تھے۔ کوئی ایک آدھ ہے جاگ رہا تھا۔ بس میں موجود بتیاں بھی سب کی نیند کے خیال سےبجھا دی گئی تھیں۔
ایسے میں فاتح اور دعا تقریباً ساتھ ساتھ بیٹھے ہی ایک دوسرے سے میسج پر بات کر رہے تھے۔
فاتح: "دعا اب سو جائیں کچھ دیر شاباش۔ بہت وقت ہو گیا ہوا۔"
دعا: "نہیں نا ایسے تو نہیں سو سکتی نا!"
فاتح: "کیوں جی ایسے کیوں نہیں سو سکتی آپ؟ یا پھر میرے سینے پر سر رکھ کر سونے کی عادت پختہ ہو چکی ہے اپ کی؟"
اس کے سوال پر وہ سٹپٹا گئی۔ فاتح اندھیرے میں بھی موبائل کی روشنی کی وجہ سے اس کے چہرے پر نظر آتا گلال دیکھ سکتا تھا۔
فاتح: " آہ ! کاش اس وقت ہم دونوں تنہا ہوتے تو میں آپ کے چہرے پر بکھری یہ شفق اپنے ہونٹوں سے چنتا!"
اس کا بے باک میسج پڑھتی وہ اور بھی سرخ ہوئی تھی۔
دعا: " اوکے گڈ نائٹ! مجھے نیند آئ ہے۔"
وہ میسج کرتی جلدی سے موبائل اوف کر کے آنکھیں بھی بند کر گئی۔ جب کہ فاتح کا دل کیا کہ زور سے قہقہہ لگاے۔ دعا نے آنکھیں موندیں تو وہ نظر بچاتا جھک کر اس کی پیشانی پر بوسہ دے گیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر خود بھی سونے کی تیاری کرنے لگا۔
*****
وہ لوگ ہوٹل پہنچ چکے تھے اور اب آرام کرنے کے لئے اپنے اپنے کمروں میں جا رہے تھے جو ان کے لئے مختص کیے گئے تھے۔ فاتح دعا کو کہہ چکا تھا کے کمرے سے باہر نہ نکلے خود اکیلے اور اگر کوئی بھی کام ہو یا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو اسے کال کر لے۔
آدھی رات پیاس کی شدت سے اس کی آنکھ کھلی تو جگ خالی پڑا تھا۔ بوتل بھی خالی تھی۔ اس نے سوچا کے فاتح کی نیند کیا خراب کرنی خود ہی پانی لے آتی ہوں۔ اس نے شال اوڑھی اور بوتل پکڑ کر باہر نکل گئی۔ وہ کوریڈور سے دائیں طرف مڑی تو کسی نے اس کے چہرے پر سختی سے ہاتھ جمايا اور اندھیرے میں ایک طرف گھسیٹنے لگا۔ نہ یہ لمس فاتح کا تھا اور نہ ہی یہ گرفت۔ وہ وہ وجود اس کو چیخنے یا مزاحمت کرنے کا موقع دیے بغیر اسے اپنے ساتھ گھسیٹ رہا تھا ۔ کاش اس نے فاتح کی بات مانی ہوتی! کاش وہ اس اندھیرے میں اکیلی کمرے سے باہر نہ نکلی ہوتی! کاش اس کا مسیحا بھی یہاں موجود ہوتا! کاش!
*******