"آئی ایم رئیلی سوری مستقیم میں نے آپ کی لائف ڈسٹرب کر دی شاید! آپ میرے محسن ہیں۔ میری ماں کی وفات کے بعد اس کالی رات میں جب اپ نے میری جان بچائی میں تو اس وقت سے ہی آپ کی قرض دار ہو گئی تھی۔ آپ نے مجھے سہارا دیا رہنے کے لئے چھت دی اور پھر نکاح کی پیشکش بھی! ایک معاہدے کا نکاح! کہتے ہیں نکاح کے بولوں میں بہت طاقت ہوتی ہے یہ دو دلوں کو ایک ڈور میں باندھ دیتے ہیں اور میرا دل تو پہلے سے ہی آپکا اسیر تھا تو اس کو کیوں نہ اپ سے محبت ہوتی۔ میں بہت چاہنے لگی آپ کو مستقیم۔ آپ کی قربت میں گزارا ایک ایک پل میرے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ آپ نے اظہار محبت کیا تو میں بھی اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتی آپ کی محبت پر ایمان لے آئ پر آج مجھے احساس ہو گیا ہے کہ میں واقعی آپ کے لئے ایک معاہدہ ہی تھی محض۔ میں یہاں سے جا رہی ہوں ہمیشہ کے لئے۔ کہاں یہ میں بھی نہیں جانتی پر اتنا ضرور جانتی ہوں کے بس آپ کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں وہ پھر چاہے جس کے ساتھ مرضی رہیں آپ۔ خدا حافظ! "
یہ کیا کیا آپ نے حریم؟ بس اتنا ہی یقین تھا آپ کو مجھ پر اور میری محبت پر۔ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا حریم!
وہ اپنی آنکھیں رگڑتا اس کو تلاش کرنے نکل پڑا۔
******
وہ لاکھ مزاحمت کرتی پر کب تک؟ آخر تھی تو ایک نازک سی لڑکی ہی نا۔ اس کا دل شدت سے فاتح کو پکار رہا تھا۔ وہ وجود اس کو ہوٹل کے پچھلے حصّے میں لے گیا جو اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کو لے جا کر زمین پر پهينكا ۔ اس کے منہ سے تکلیف کے مارے چیخ نکل گئی کیوں کہ اس کی کہنی بہت زور سے زمین پر لگی تھی۔ وہ وحشت زدہنگاہوں سے اس وجود کو دیکھنے لگی جس کی بڑی بڑی مونچھیں سیاہ رنگت اور پیلے دانت اسے مزید خوف میں مبتلا کر رہے تھے۔ اس نے ہمت کر کے اٹھ کے بھاگنا چاہا تو وه اس کی كلائی دبوچ گیا ۔
"پپ۔۔۔پلیز مجھے جانے دو۔۔میں نے تمہآرا کّک ۔۔کیا بگاڑا ہے۔"
وہ روتی تڑپتی اس جانور نما انسان سے فریاد کر رہی تھی جو اس وقت نشے میں دھت اس پر قابض ہونا چاہ رہا تھا۔
"ارے اتنا مست پیس ہاتھ لگا ہے ایسے ہی جانے دوں۔ آج رات تو جشن ہوگا جشن۔ ہاہاہا"
وہ مکروہ قہقہہ لگاتا اس کی شال کھینچ کر دور پھینک گیا۔
اس سے پہلے کہ وہ اپنا ہاتھ اس کے گریبان تک لے جاتا فاتح نے پیچھے سے اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا اور اس کے چہرے پر ایک زوردار مکّا مار کر دعا کو اس سے دور کیا.
وہ اونچی آواز میں روتی اس کے گلے لگ گئی۔ فاتح نے نرمی سے اسے الگ کیا اور اس سانڈ کی طرف بڑھا۔ وہ جنونی ہو کر اس پر پل پڑا اور اسے لاتوں مکّوں اور ٹھوکروں سے دھنک کر رکھ دیا۔ اتنی دیر میں وہاں سیکورٹی آ گئی اور فاتح کو بہت مشکل سے اس سے الگ کیا جسکی مرنے والی حالت ہو چکی تھی۔ فاتح شرٹ کے كف سے اپنے ہونٹوں سے بہتا خون صاف کر کے دعا کی طرف بڑھا اور اسے چادر اوڑھا کر اپنے حصار میں لیتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
اسے کمرے میں کر دروازہ لاک کیا اور اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود بالوں میں انگلیاں پهنسا کر کمرے میں چکر لگانے لگا۔ دعا خوفزدہ نظروں سے اس کے غصیلے چہرے کو دیکھنے لگی۔ وہ اب تک ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔ فاتح غصے سے اس لی طرف لپكا اور اسے دونوں بازوں سے تھام کر اپنے سامنے کیا۔
"کیا کہا تھا میں نے آپ سے؟ کہ کمرے سے باہر نہیں آنا اکیلے۔ کہا تھا کہ نہیں کہا تھا جواب دیں مجھے آپ!"
اس کے جارحانہ انداز میں پوچھنے پر دعا کے منہ سے چیخ نکل گئی اور مزید رونے لگی۔ فاتح اسکی سرخ پڑتی ہری آنکھوں میں دیکھنے لگا اور اسے ایک دم کھینچ کر اپنے سینے سے لگا گیا۔ وہ بھی روتی اس کی گرد حصار قائم کر گئی۔
جب اسکا رونا کم ہوا تو فاتح نے نرمی سے اسے خود سے الگ کیا اور بیڈ پر بیٹھا کر خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا . اس نے گلاس میں پانی ڈالا اور اس کے منہ سے لگا دیا۔ جب وہ پانی پی چکی تو وہ باقی بچا ہوا پانی خود پی کر گلاس سائیڈ پر رکھ گیا۔ گلاس رکھ کر وہ اٹھ کر اپنے بیگ کی طرف بڑھا اور اس میں سے اپنا ایک ٹرائوزر اور شرٹ نکال لایا۔
"اٹھیں اور چینج کر کے آئیں جلدی۔"
وہ کپڑے اسے تھما کر بولا تو وہ چپ چاپ کپڑے پکڑتی باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔ اس کے جانے کے بعد فاتح نے شرٹ بدلی اور ہیٹر چلا دیا.
وہ کپڑے بدل کر باہر آئ تو اس سیریس حالت میں بھی فاتح سے اسکی حالت دیکھ کر ہنسی ضبط کرنا محال ہو گیا۔ شرٹ کے بازو بھی فولڈ کیے گئے تھے اور ٹرائوزر کے پوھنچے بھی۔ وہ اس وقت ایک کیوٹ سی بچی لگ رہی تھی۔
وہ دروازے کے پاس ہی کھڑی رہی تو فاتح نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے لا کر بیڈ پر بٹھایا۔ بیڈ پر پڑا تولیہ اٹھایا اور اس کے بال خشک کرنے لگا۔ بال خشک کر کے تولیہ باتھ روم میں رکھ کر آیا اور کمرے کی لائٹ بند کر کے سائیڈ ٹیبل لمپ جلا دیا ۔ دعا ابھی تک ویسے ہی بیٹھی تھی۔ چپ۔ ساکت۔ جامد۔
وہ بیڈ پر آ کر لیٹا اور پیچھے سے اسے بھی کھینچ کر اپنے حصار میں لے گیا۔ فاتح نے اس کا سر اپنے کندھے پر رکھا اور اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔
"سنیں!"
اس کی پکار پر وہ جھک کر اس کے سبز نگینوں میں دیکھنے لگا۔
"سنائیں"
لہجے میں پیار کے علاوہ ہر تاثر مفقود تھا جسے محسوس کرتے پھر سے دعا کی آنکھوں سے سیلاب رواں ہوا تھا ۔
"شاید میں ایک بری لڑکی ہوں اللّه پسند نہیں کرتا مجھے اس لئے سزا دے رہا ہے مجھے." وہ بھیگی آنکھوں اور سرخ ناک کے ساتھ سسکتی ہوئی بول رہی تھی۔
"سزا کیوں؟ہو سکتا ہے کے یہ صرف آزمائش ہو اور آزمائش تو اللّه کے پسندیدہ بندوں پر آتی ہے نا." وہ اسکے حسین چہرے کو دیکھتے ہوئے بہت پیار سے اسے سمجھا رہا تھا ۔
"پر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟ پہلے بغیر کسی غلطی ور گناہ کے بدکردار ثابت کیا گیا اور آج اگر آپ وقت پر نہ اتے تو۔"
وہ اس کے سامنے سسکتی اسے تکلیف میں مبتلا کر رہی تھی۔
"شش چپ! کیوں نہ آتا میں۔ اللّه نے مجھے آپ کی حفاظت کا ذمہ سونپا ہے تو کیسے نہ آپ کی حفاظت کے لئے آتا میں۔"
وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتا اس کے گال سہلاتا اسے پر سکون کر رہا تھا۔
وہ آنکھیں بند کر گئی تو وہ اس کے چہرے پر جھک گیا۔ وہ اس کے اور اپنے درمیان تمام دوریاں آج مٹا دینا چاہتا تھا۔وہ اس کا خوف اپنی پیار بھری قربت سے دور کر رہا تھا اور وہ بھی مزاحمت کیے بغیر اس کی محبت کو وصول کر رہی تھی۔
صبح فاتح پرنسپل کو بتا کر دعا کو ساتھ لئے وہاں سے گھر کی طرف نکل آیا کیوں کہ وہ خود اب مزید وہاں نہیں رکنا چاہتی تھی اور فاتح بھی اس کی خواہش کا احترم کرتے اسے وہاں سے لے آیا۔
*******