لانگ ڈرائیو سے واپسی پر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی وہ دونوں مسلسل خاموش تھے۔
ایک بات پوچھو؟ اس نے زیان کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
ہاں کہو۔ وہ احتیاط سے ڈرائیونگ کر رہا تھا
آپ کو کیسی لڑکیاں پسند ہیں؟ میرا مطلب ہے آپ کس طرح کی لائف پاٹنر چاہتے ہیں؟ ایمل نے نظریں چراتے ہوۓ کہا
مجھے تو اپنی گڑیا جیسی لڑکیاں پسند ہیں ہنستی مسکراتی ہوئی۔ وہ اس کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنسا
اور لائف پاٹنر اس میں بہت سی خوبیاں ہونی چاہییں۔ اس نے مسکراتے ہوۓ کہا
کون کون سی خوبیاں؟ ایمل نے ایک اور سوال داغا
خوش اخلاق ہونی چاہیے، بڑوں اور بزرگوں کی عزت و احترام کرنے والی اور سب سے بڑی اور اہم بات ایمان اور حیا والی۔ زیان نے مسکراتے ہوۓ کہا
وہ بھی کھلکھلائی۔
اس وقت وہ بھول چکی تھی کہ یہ وہی زیان ہے جسے چند ماہ پہلے وہ "بھائی بھائی" کہتے نہ تھکتی تھی مگر وہ بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کر چکی تھی اس نے لوگوں کی باتوں پر بغیر کسی تحقیق کے کان دھر لیے تھے۔
بارش کے برسنے میں اب تیزی آتی جا رہی تھی۔وہ سوچوں میں اسقدر محو تھی کہ گاڑی پورچ میں رکی تو وہ سوچوں سے باہر نکلی۔
گاڑی سے گھر کے رہائشی حصے کی طرف جاتے ہوۓ وہ مکمل بھیگ چکے تھے۔
لاؤنج میں رابی انہی کی منتظر کھڑی تھی دونوں کو بھیگا ہوا آتے دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئی۔
کہاں سے آرہے ہو تم دونوں؟ رابی نے کرخت لہجے میں پوچھا
وہ ممی لانگ ڈرائیو پر۔ زیان نے ماتھے سے ٹپکتے ہوا پانی ہاتھ سے پونچھتے ہوۓ کہا
شرم کرو ایمل آخر کب یہ تمہارا بچپنا ختم ہوگا جاؤ جا کر کپڑے بدلو۔ وہ اسکے بدن سے چپکے ہوۓ کپڑے دیکھ کر بولی ایمل زیان کو معذرت خوانہ نظروں سے دیکھتی ہوئی کمرے میں چلی گئی
اور زیان تم وہ تو نادان ہے مگر تم تو سمجھدار ہو اس موسم میں کوئی باہر جانے کی تُک بنتی ہے۔ رابی کا رخ اب زیان کی طرف تھا۔
ممی آپ تو جانتی ہیں نا میں اسکی کوئی بات ٹال نہیں سکتا۔زیان بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا
یہ لاڈ پیار بگاڑ دیگا اسے۔ وہ تاسف سے سر ہلاتی رہ گئی۔
۞۞☜☜
نہ شکایتیں نہ گلہ کرے
کوئی ایسا شخص ہوا کرے
جو میرے لیے ہی سجا کرے
مجھ سے ہی باتیں کیا کرے
کبھی روۓ جاۓ وہ بے پناہ
کبھی بے تہاشا اداس ہو
کبھی چپکے چپکے دبے قدم
میرے پیچھے آکر ہنسے کرے
میری قربتیں میری چاہتیں
کوئی یاد کرے قدم قدم
میں طویل سفر میں ہوں اگر
میری واپسی کی دعا کرے
اس نے ایک نظر اپنی ڈائری پر لکھی ہوئی غزل پر ڈالی اور ڈائری رکھ کر وہ ٹیرس پر آکھڑی ہوئی مگر کچھ یاد آنے پر وہ رابی کے پاس آئی
ماما آپ نے بلایا تھا۔ رابی الماری میں گرم کپڑے رکھ رہی تھی
ہاں بلایا تو تھا۔ موسمِ سرما شروع ہو چکا ہے شاپنگ کرنے تم خود جاؤ گی یا میں خود ہی کر آؤں۔ وہ ہنوز اپنے کام میں مصروف تھی۔
میں آپ کیساتھ جاؤنگی۔ کب چلنا ہے؟
کل زیان سے کہتی ہوں لے چلے تمہارے بابا کو تو فرصت ہی نہیں ہے اور احد بھائی بھی شاید اس ہفتے پاکستان آئیں۔
اوہ واؤ۔ ان کے بچے بھی ساتھ آئیں گے۔ اس نے ویڈیو کال پر احد اور اسکے بیوی بچوں سے بات کی تھی اب انکا آنے کا سن کر وہ خوش ہوئی تھی۔
ہاں وہ بھی آئیں گے اتنے سالوں بعد تو آرہے ہیں۔اور جب تک پاکستان میں رہیں گے ہمارے گھر ہی انکا قیام ہوگا یہ شاہزیب کا فیصلہ ہے۔اور تم کمرے صاف کرنے میں میری مدد کرو گی۔رابی نے اسے انگلی اٹھا کر کہا
کیا ہے ممی آپ تو میری ساس بن کر مجھ سے بات کرتی ہیں۔اس نے منہ بسورا۔
اسکی بات پر رابی مسکرائی
میری جان میں چاہتی ہوں تم آہستہ آہستہ گھرداری میں دلچسپی لو آخر بیٹیاں گھر رکھنے کی چیز تو نہیں ہوتی انہیں کبھی نہ کبھی بیاہنا ہوتا ہے۔رابی نے اسے پیار سے اپنے ساتھ لگایا
اور تمہارے ابھی سے ہی اتنے پرپوزل آۓ ہیں کہ اب شاہزیب بھی اس سوچ میں۔۔۔
ممی پلیز اس ٹاپک پر بات مت کریں۔ ایمل نے اسکی بات کاٹی۔ابھی مجھے پڑھنا ہے۔
تو ہم کونسا ابھی شادی کر رہے ہیں۔پڑھائی مکمل کرلو۔ رابی نے اسکا خراب موڈ دیکھ کر بات سمیٹی۔اسکا لاسٹ سمسٹر چل رہا تھا اور زیان اب شاہزیب کا بزنس میں ہاتھ بٹاتا تھا یہ زیان کا ہی فیصلہ تھا کہ پہلے ایمل کا فرض ادا کرنا چاہیے۔
۞۞☜☜☜
احد اور نشاء کے گھر آجانے کے بعد کافی رونق ہوگئی تھی ایمل کی سُنبل (جو احد کی بڑی بیٹی تھی) اور مزمّل (چھوٹے بیٹے) سے دوستی ہو گئی وہ کالج سے آکر انہی کیساتھ باتیں کرنے میں وقت گزارتی اور جب زیان آتا تب وہ چاروں لُڈّو کھیلتے۔
ان کے آنے سے شاہزیب کے ذہن میں بہت سی یادیں تازہ ہوئی تھی مگر خدا نے اسے ایک اچھی شریکِ حیات رابی کی صورت میں عطا کی تھی وہ پہلی بار رابی پر آشکار ہوا تھا اس نے بہت سی باتیں ذیشان اور ایمل کے بارے میں رابی سے کی تھی مگر وہ ایمل سے محبت کا راز اب بھی چھپا گیا تھا۔
۞۞
ان کو پاکستان آۓ ہفتہ ہو گیا تھا۔رات کو ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے مرد حضرات اپنی باتوں۔میں مصروف تھے جو بزنس سے شروع ہو کر بزنس پر ختم ہوتی تھی جن میں زیان بھی شامل تھا اور عورتیں اپنی باتوں میں مصروف تھی جو فیشن کے نت نئے ڈیزائن پر تبصرے اور میک اپ پر منحصر تھی اور وہ تینوں کچن میں چاۓ بنا رہی تھی۔چاۓ بنانے کا کام تو سنبل سر انجام دے رہی تھی اور مزمل اور ایمل باتیں بھگار رہے تھے۔
ایمل آپی آپکی اپنی گاڑی ہے تو کل شاپنگ پر یا کہیں باہر آؤٹنگ پر چلیں۔ مزمل نے کہا
کالج سے بہت چھٹیاں ہو گئی ہیں میری ممی نے میری جان لے لینی ہے۔ ایمل نے ڈراؤنے انداز میں کہا۔
ہاہاہا تو کوئی اس ویک اینڈ پر کوئی پلان بنا لیتے ہیں ہیں۔مزمل بضد تھا
اوکے اوکے میری ممی سے اجازت لو۔ ایمل نے ساری بات رابی کے سر پر ڈال دی
آنٹی سے اجازت لے لونگا میں۔ وہ خوش ہو گیا تھا۔
زیان بھائی بھی کو ساتھ لے چلیں گے۔ مزمل نے ایمل کے دل کی بات کہہ دی۔
میں جانے کو تیار کھڑی ہوں تم سب کی اجازت تو لو۔ ایمل نے پلیٹ سے بسکٹ لے کر منہ میں رکھا۔
سنبل نے چاۓ کے کپ ٹرے میں رکھے۔ایمل نے جلدی سے لوازمات کی ٹرے اٹھا لی اور ہنس کر بولی
سنبل آپی اتنا کام تو میں کر سکتی ہوں۔ سنبل اس سے دو تین ماہ بڑی تھی مگر وہ ایمل کی طرح شوخ اور چنچل نہیں تھی البتہ ایمل اور مزمل کی گاڑھی چھنتی تھی۔
سنبل نے سب کو چاۓ سرو کی اور خود اپنا کپ لے کر صوفے پر بیٹھ گئی۔
زیان کی نظریں بار بار اسکے سراپے میں الجھ رہی تھی۔ قمیص شلوار میں گلے میں دوپٹہ ڈالے چہرے پر سنجیدگی طاری کیے وہ خوبصورت لگ رہی تھی۔رابی کی شاطر نظر نے زیان کی چوری پکڑ لی تھی اور وہ سوچ چکی تھی کہ سنبل ہی اس گھر کی بہو بنے گی۔
۞۞
آنٹی۔ وہ اسوقت لاؤنج میں بیٹھی تھی جب مزمل اسکے پاس آیا۔نشاء اور احد کسی جاننے والوں کے گھر گئے تھے۔
جی بیٹا۔ رابی اسکی طرف متوجہ ہوئی
ایمل آپی سے کہیے نا آؤٹنگ پر چلتے ہیں ان کی اپنی گاڑی ہے۔ مزمل نے مسکین سی شکل بنا کر کہا
کہاں جانا ہے آپکو؟ رابی نے پوچھا
بس کہیں بھی لے چلیں۔کھلی فضا میں سانس تو لوں اتنے دن ہو گئے گھر میں قید ہوۓ۔ مزمل نے منہ بسورا
جبکہ سیڑھیوں سے اترتی سنبل نے اسے گھوری دی۔
ہاہاہاہا۔ایمل کالج سے آۓ تو اسے کہوں گی۔ رابی نے مسکراتے ہوۓ کہا.
سنبل مزمل کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
آپ زیان بھائی سی بھی کہیے گا وہ ہمیں اسلام آباد کے مشہور جگہوں کی سیر کروائیں اور مری نتھیا گلی بھی لے کر چلیں۔ سنبل نے اسے زور سے چٹکی کاٹی مگر وہ اس نے اپنی بات مکمل کر کے چھوڑی
ارے آپی چٹکیاں کیوں کاٹتی ہیں؟ مزمل نے سنبل کو مخاطب کیا اور وہ رابی کے سامنے شرم سے پانی پانی ہو گئی۔
منا لوں گی بھئی زیان کو۔ پہلی بار تو پاکستان آۓ ہو ہر جگہ کی سیر کرواۓ گا۔ رابی نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
اگلے چند دن ایمل نے ان کو ڈھیر ساری شاپنگ کروائی۔جن جگہوں پر وہ پہلے جا چکی تھی وہاں مزمل اور سنبل کو بھی گھما لائی تھی۔مزمل بہت خوش ہوا تھا۔ایک ماہ پاکستان رہ کر وہ واپس جا چکے تھے اور ان سب کی پھر وہی پرانی روٹین شروع ہو گئی۔
۞۞
وہ آنکھیں موندھے بستر پر لیٹا تھا سر میں درد ہونے کیوجہ سے وہ آفس سے بھی جلدی لوٹ آیا تھا تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔
یس۔۔۔۔
ایمل کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا۔
بزی تو نہیں تھے آپ۔ اس نے ہاتھ میں نوٹ بک اور پن اٹھائی تھی۔
نہیں تم بتاؤ کس طرح آنا ہوا۔زیان نے مسکرا کر کہا
میں یہاں بغیر کام کے بھی آنے کا حق رکھتی ہوں مگر ابھی یہ میتھ کے سوال سمجھ نہیں آرہے آپ سمجھا دینگے دو دن بعد اسکا پیپر ہے۔ اس نے زیان کو نوٹ بک پکڑائی اور خود بھی ٹانگ پہ ٹانگ چڑھا کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
سب سوالات سمجھ کر وہ نوٹ بک لے کر جانے لگی تھی جب زیان نے اسے آواز دے کر روکا.
________
وہ زیان کی طرف مڑی۔
"جی"
ادھر آؤ میرے پاس۔ زیان نے اسے ہاتھ سے اشارہ کیا۔سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتی بیڈ پر آبیٹھی۔
"یہ بات مجھے زیب تو نہیں دیتی مگر اب میری ایمی بڑی ہو گئی ہے۔ماما جو کہا کریں ان کی بات مانا کرو اور ڈریسنگ ماما جیسی کیا کرو"
وہ بلیک جینز اور وائٹ جیکٹ میں ملبوس تھی اور شانوں پر جھولتا دوپٹہ جو شاید وہ زیان کے کمرے میں آنے سے پہلے اس نے شانوں پر رکھ لیا تھا۔زیان کو اسکا یی لباس قطعی پسند نہیں تھا
ایمل نے ایک نظر اپنے پوشاک پر نظر ڈالی اور شرمندگی سے زیان کو دیکھنے لگی۔
"سوری"
سوری کہنے کی ضرورت نہیں ہے ایمی۔ بھیا کی بات مانو گی نہ۔ زیان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
اس نے زور و شور سے سر ہلایا۔
"اب جاؤ" زیان نے اسے اجازت دی وہ جلدی سے اٹھی اور اپنے کمرے میں آکر سانس بحال کرنے لگی۔
کچھ ہی دیر بعد وہ ریڈ شلوار اور یلو قمیص جس پر ریڈ موتیوں کی کڑھائی کا کام کیا ہوا تھا پہنے زیان کے کمرے میں کھڑی تھی سرخ دوپٹہ اب بھی شانوں پر ہی جھول رہا تھا۔
"اب کیسی لگ رہی ہوں"
"ماشاءاللہ بہت پیاری بلکل گڑیا جیسی" زیان نے نرمی اور پیار سے کہا وہ ہنستی ہوئی واپس باہر نکل گئی۔
۞۞
اگلے چند دن اسکے ایگزام میں گزرے تھے جس دن اس کا لاسٹ پیپر تھا اسی دن زیان احد کے گھر بیرون ملک چلا گیا تھا۔
گزشتہ دنوں کی نیند پوری کر کے وہ چاۓ کے دو کپ لے کر کریم یزدانی کے کمرے میں آگئی۔
یہ لیں داداجانی گرما گرم چاۓ۔ وہ سائڈ ٹیبل پر چاۓ رکھتے ہوۓ بولی
اوہ میرے بچے نے آج اتنی بڑی کرم نوازی کی ہے ہم پر۔ کریم یزدانی نے ہنستے ہوۓ کہا
داداجانی ایسا تو نہ کہیں۔وہ بیڈ کے کنارے بیٹھ گئی۔بلیک قمیص شلوار میں ملبوس وہ بہت ہشاش بشاش اور نکھری لگ رہی تھی۔
کیسے ہوۓ امتحان؟ کریم یزدانی نے چاۓ کا کپ ہاتھ میں لیتے ہوۓ کہا
بہت زبردست دادا جان۔ مجھے امید ہے اچھے نمبروں کے ساتھ پاس ہو جاؤں گی۔ اس نے فخر اور امید سے کہا
"ایمل تم یہاں ہو"تبھی رابی بھی اسے ڈھونڈتے یہاں آگئی۔
جی ماما کیا ہوا؟ ایمل نے چاۓ پیتے ہوۓ کہا
ویسے ضروری بات کرنی تھی تم دادا جان کے ساتھ وقت گزارو۔ وہ مسکراتے ہوۓ باہر چلی گئی۔
تم بیٹا ماں کی بات سن آؤ۔ کریم یزدانی نے چاۓ پی کر اسے کپ تھمایا وہ کپ کچن میں رکھ کر رابی کے کمرے میں آگئی۔
"جی امی" وہ صوفے پر بیٹھ کر رسالہ اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگی جو کچھ دیر پہلے رابی پڑھ رہی تھی۔
"اب تو تمہارے ایگزام ہو چکے ہیں تو میں اور تمہارے بابا جانی نے فیصلہ کیا ہے اب تمہارے فرض سے سبکدوش ہو جائیں" رابی نے بات کا آغاز کیا ایمل خاموشی اور غور سے اسکی بات سن رہی تھی۔
"زیان کے دوست کا بھی پرپوزل آیا ہے جنید وہاب۔ زیان اسے اچھی طرح جانتا ہے اور تمہارے بابا نے بھی چھان بین کروائی ہے اور حرا کے سسرال سے بھی اسکے نند کے بیٹے کا پرپوزل ہے مگر میرا جی وہاں نہیں چاہتا۔ رابی روانی میں بات کہہ رہی تھی جبکہ ایمل آنکھیں پھاڑے رابی کو دیکھ رہی تھی وہ تو کب سے اپنے لیے زیان بِن ذیشان کا نام سننے کے لیے منتظر تھی۔
اب اگر تمہاری کوئی اپنی پسند ہے تو ہماری پہلی ترجیح تمہاری پسند ہی ہوگی۔ رابی نے کچھ توقف کے بعد کہا۔
آپ ان پرپوزل کو انکار کر دیں۔ ایمل نے سنجیدگی سے کہا
مگر جنید وہاب تو اچھا لڑکا ہے اور گھر کے سبھی افراد راضی ہیں تمہیں کیا مسٔلہ ہے انکار کی وجہ کیا ہے کیا تم کسی اور میں انٹرسٹڈ ہو؟ رابی نے تحمل سے پوچھا
"جی" ایمل نے سر جھکا لیا
"کون ہے وہ" رابی اسکے پاس کھڑی تھی
"زیان" اس کے دل کی بات زبان پر آ ہی گئی تھی۔
کون زیان؟ اسے زیان کے ہم نام ہونے کا حدشہ تھا مگر ایمل کی اگلا جواب سن کر حیرت سے اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔
"زیان بِن ذیشان کو پسند کرتی ہوں.اور اسی سے شادی کی خواہش۔۔۔۔"
آگے ایک لفظ مت کہنا۔ پاگل ہو گئی ہو تم دماغ جگہ پر ہے یا نہیں۔بھائی ہے وہ تمہارا۔ رابی غصے سے آگ بگولہ ہو گئی۔
"بھائی نہیں کزن ہیں وہ میرے اور کزن سے نکاح۔۔۔۔"رابی کا اٹھتا ہاتھ اسکی بولتی بند کر گیا
آج یہ بات زبان سے نکال دی ہے آئندہ یہ بات سوچنا بھی مت۔ ایسا ممکن نہیں ہے سمجھی تم۔ رابی نے اسے وارن کرتے ہوۓ کہا
وہ گالوں پر ہاتھ رکھے رابی کو حیرت سے دیکھ رہی تھی
"ایسا ممکن ہوگا میں ممکن بنا دونگی وہ میرا بھائی نہیں کزن ہے اور کزن سے نکاح جائز ہے" وہ اونچی آواز میں چیخی تھی۔
شام تک شاہزیب آیا رابی نے ساری بات اسکے گوش گزار کردی۔ ایمل اپنی بات پر قائم تھی اور اسکا ایک ہی فیصلہ تھا وہ زیان سے ہی شادی کرے گی۔وہ تینوں لاؤنج میں بیٹھے سوچوں میں گم تھے۔
یہ آپ سب کا پیار ہے جو وہ اتنا ہٹ دھرمی کرتی ہے باربار کہتی تھی اتنا پیار مت کریں یہ پیار اسے بگاڑ دے گا۔ مگر نہیں ہر بار مجھے ہی جھڑک سننے کو ملی۔ رابی نے کہا
خاموش ہو جاؤ ربیکا۔ شاہزیب کا دماغ درد سے پھٹا جا رہا تھا رابی کی بات سن کر اسے غصہ آگیا۔
"بیٹا آرام سے، بچی ہے غلطی سے کہہ دیا ہوگا پیار سے سمجھاؤ تو شاید سمجھ جاۓ وہ تو شکر ہے زیان نہیں ہے۔ کریم یزدانی نے شاہزیب سے مخاطب ہوکر کہا۔
گھر کا ماحول خراب ہو گیا تھا سبھی لوگ پریشان تھے اور ایمل کمرے میں پڑی سوگ بنا رہی تھی۔
۞۞
"دیکھو ایمل اب بھی تمہارے پاس وقت ہے تم کہہ دو یہ سب جھوٹ ہے مذاق ہے کل تک زیان بھی آجاۓ گا اور اگر اس تک یہ بات چلی گئی تو وہ برداشت نہیں کرے گا وہ تم پر جان چھڑکتا ہے اپنی"۔ رابی رونے لگی تھی مگر ایمل وہ پتھر ہو چکی تھی۔
"یہ جھوٹ نہیں ہے ممی۔ میں اسے اتنے برس سے چاہتی ہوں اسکے خواب آنکھوں میں سجاۓ ہیں اور اب پل میں دستبردار ہو جاؤں ایسا میں سوچ بھی نہیں سکتی"۔ تبھی دروازہ کھول کر شاہزیب اندر آیا۔
"یہ صلہ دے رہی ہو ہمارے لاڈ پیار کا۔ وہ غصہ ضبط کرتے ہوۓ بولا
بابا پسند ہی تو بتائی ہے اپنی اور کیا کیا ہے۔ وہ بغیر کسی خوف کے بولی
شٹ اپ ایمل۔مجھے غصہ مت دلاؤ۔کیوں میرا سر جھکانے پر تُلی ہو کیا سوچے گا زیان کیا جواب دونگا میں اسے۔ شاہ زیب چند دنوں میں ہی کمزور لگنے لگا تھا۔یہ اولاد بھی انسان کو کن کن مشکلات میں لا کھڑا کرتی ہے تبھی تو قراٰن مجید میں اللہ تعالٰی نے اولاد اور دولت کو انسان کی سب سے بڑی آزمائش قرار دیا ہے۔
وہ تاسف سے اپنی جان سے عزیز بیٹی کو دیکھتا باہر نکل گیا۔
"ہمارے سامنے جو بکواس کی ہے نا وہ زیان کے سامنے مت کرنا ورنہ زندہ درگو کر دونگی تمہیں۔ رابی غصے سے وارن کرتی باہر نکل گئی۔
وہ بیڈ پر سر تھام کر بیٹھ گئی۔
"کیا گناہ کر دیا میں نے کہ سب مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں پسند ہی تو کیا انہیں۔"وہ بازو میں منہ چھپا کر سسکنے لگی۔
گم سُم سی رہتی ہوں اب شرارتیں نہیں کرتی
تیرے عشق نے مجھے تہذیب سِکھا دی
۞۞
زیان سڈنی سے گھر آیا تو عجیب سی گھر میں ویرانی چھائی تھی بظاہر تو سبھی نے مسکرا کر اسے ویلکم کیا مگر وہ ان کے چہرے پر پریشانی دیکھ چکا تھا۔
"یہ خاموشی کیوں ہے گھر میں، کوئی پریشانی ہے کیا؟ " وہ رابی اور کریم یزدانی لاؤنج میں بیٹھے تھے شاہزیب کی ہمت نہیں تھی وہ زیان کا سامنا کرے۔
نہیں تو۔ رابی نے بمشکل مسکرا کر کہا
"ایمی کدھر ہے؟" زیان نے اسے نہ پا کر کہا
ہو گی اپنے کمرے میں ، میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں۔نہ چاہتے ہوۓ بھی اس کے لہجے میں کڑواہٹ گُھل گئی تھی وہ اٹھ کچن میں چلی گئی۔
"میں ایمی سے مل آؤں" وہ کریم یزدابی سے کہتا اٹھ کر ایمی کے روم میں چلا گیا۔
زیان کو دیکھ کر وہ جھٹکے سے اٹھی اور اس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"کیا ہو گیا ایمی میری جان، لگتا ہے بہت مِس کیا ہے بھیا کو۔ وہ اسکا سر تھپکتا پیار سے بولا۔
ٖ"آئی لو یو" وہ بھیگے لہجے میں بولی
"آئی لو یو ٹو۔ اتنے آنسو ضائع کر دیے تم نے۔ وہ اسکے آنسو صاف کرتے ہوۓ بولا
کیا ہوا ایمی یہ تمہارا چہرہ کیوں سوجا ہوا ہے؟ زیان پریشان ہوا
ماما نے مارا ہے۔ وہ سسکتے ہوۓ بولی
کیوں مارا ہے ماما نے؟ اسے حیرت ہوئی رابی تو کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتی تھی مگر اسکی غیر موجودگی میں آخر ایسا کیا ہوگیا جو گھر کا ماحول بھی سوگوار ہے۔
"میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں"
ایمل کی بات سے اسے ایسا لگا جیسے اسکے کانوں میں کسی نے پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہو وہ جھٹکے سے پیچھے ہٹا۔... ☆