میرا رشتہ طے ہو گیا ہے۔دور خلاؤں میں گھورتے ہوۓ اس نے ثمن تک یہ بریکنگ نیوز پہنچائی۔وہ دونوں چھت پر بیٹھی سردیوں کی نرم دھوپ سینک رہی تھی۔
کب؟ بتایا نہیں تم نے مجھے۔ ثمن کو حیرت ہوئی کل تک تو ایسی کوئی بھی بات نہیں سنی تھی۔
مجھے خود بھی آج ہی بتایا گیا ہے۔وہ اسکی طرف دیکھے بغیر بولی۔
میں نے تو حِرا کے رشتے کی سنی تھی پر تمہارا کیسے؟ تفصیل سے بتاؤ پہیلیاں کیوں بجھوا رہی ہو۔ ثمن کو بات جاننے کی جلدی تھی کیونکہ اسے رابی کی پڑوسی ہونے کیساتھ ساتھ بہترین دوست کا بھی درجہ حاصل تھا۔
حِرا کے لیے جس لڑکے کا رشتہ آیا ہے وہ لڑکا ایک بچے کا بھی باپ ہے۔حِرا نے اس رشتے پر انکار کر دیا ہے۔ اس نے ثمن کیطرف دیکھ کر کہا۔
اور یقیناً تمہیں ہی قربانی کا بکرا بنایا گیا ہوگا۔ثمن بات کی تہ تک پہنچ گئی تھی۔اس کی بات رابی سر جھکا گئی تھی۔
خدا کے لیے رابی تم کب اپنے حق کے لیے لڑنا شروع کرو گی۔ان کی بات پر جس طرح تم سر ہلاتی ہو یہ لوگ تمہیں۔ وہ تاسف سے اسے دیکھتی رہی۔
ماموں کے مجھ پر بہت احسان ہیں ثمن، میں اس قدر ان احسانوں میں دبی ہوئی ہوں کہ ان کی کسی غلط بات پر بھی میں سر اٹھا کر انکار نہیں کر سکتی۔ جب ہمیں باپ نے دھتکار کر گھر سے نکالا تھا اس وقت سے پناہ دے رکھی ہے ماموں نے بے شک ممانی جان کا مجھ سے اور امی سے برا سلوک تھا مگر گھر سے تو نہیں نکالا۔ امی نے ہمیشہ صبر کیا اور میں بھی عافیہ بیگم کی بیٹی ہوں۔
اس کی باتوں نے چند ساعت کے لیے ثمن کی بولتی بند کر دی۔
میں نے اپنا معاملہ اللّٰہ پر چھوڑ دیا ہے ان شاء اللّٰہ سب بہتر ہوگا۔اس نے مسکرا کر ثمن کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ جانتی تھی ثمن کو اس کی کتنی فکر تھی۔
تم تو کہتی تھی لڑکا دولت مند ہے، حرا اور اسکی عمر میں تھوڑا سا ہی فرق ہے مگر شادی شدہ کا تو نہیں بتایا تھا۔
ہمیں خود بھی نہیں معلوم تھا۔رشتہ لے کر آنے والوں کیساتھ اسکا پانچ سالہ بیٹا بھی آیا تھا اور سب کے سامنے اسکے بیٹے نے بھانڈا پھوڑ دیا اسے بابا کہہ کر۔رابی نے اسے تفصیل سے آگاہ کیا
اگر تمہارا معاملہ بیچ میں نہ آتا تو میں جی بھر کر اس بات ہر ہنستی۔
تم اب بھی ہنس سکتی ہو۔
لڑکا دکھنے میں کیسا ہے؟ ثمن نے ایک اور سوال داغا
میں نہیں گئی ان کے سامنے۔
تم کچن میں ماسی بنی ہوئی تھی تم کہاں جاتی۔مجھے تو یاد ہی نہ رہا۔ثمن کے اسطرح کہنے پر وہ کھلکھلائی۔
اچھا میں اب جا رہی ہوں۔رابی جلدی سے اٹھی
ہاں ہاں جاؤ تمہارا ہی انتظار ہو رہا ہو گا۔ثمن نے پھر ایک ٹھنڈا میٹھا سا طنز کیا
وہ سنی ان سنی کرتی سیڑھیاں اترنے لگی۔
۞۞
رابیکا عرف رابی عافیہ بیگم کی اکلوتی اولاد تھی۔عافیہ بیگم کو ان کے شوہر نے بہن کی باتوں میں آکر طلاق دے دی تھی اور وہ چھے سالہ رابی کو لے کر اپنے بھائی سہیل احمد کے در آپڑی۔
شروع شروع میں سہیل احمد کی بیوی ناصرہ کا ان سے اچھا سلوک تھا مگر آہستہ آہستہ اس نے اپنے رنگ دکھانا شروع کر دیے۔
گھر میں عافیہ بیگم کی حیثیت ملازموں جیسی ہی تھی وہ دن بھر گھر کا کام کرتی رہتی۔رابی کالج سے آتی تو ان کی مدد کر دیتی تھی۔وہ رابی کو بھی سمجھاتی رہتی اسے صبر کی تلقین کرتی اور وہ انکی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتی۔عافیہ بیگم کے انتقال کے بعد رابی جیسے تپتے صحرا میں آگئی۔ناصرہ نے کالج چھڑوا کر اسے گھر کے کاموں میں لگا دیا۔ سہیل احمد نے اس کے کالج چھڑوانے پر اعتراض اٹھایا تھا مگر ناصرہ نے انہیں سمجھا بجھا کر چپ کروا دیا۔
سہیل احمد اور ناصرہ کی ایک بیٹی حرا بھی تھی۔رابی سے اسکا سلوک نہ بہت اچھا تھا نہ برا۔جب کبھی موڈ ہوتا رابی کی مدد کر دیتی مگر زیادہ تر اپنی ذات میں ہی مگن رہتی تھی۔
۞۞
لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر کریم یزدانی پر پڑی رات کے اس پہر ان کو وہاں دیکھ کر وہ ٹھٹھک گیا۔
اسلام علیکم بابا جانی۔ وہ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولا
وعلیکم سلام۔ان کی آنکھوں میں شکوہ تھا
آپ ابھی تک سوۓ نہیں۔
تمہیں مبارک باد دینی تھی۔انکا لہجہ ہنوز خشک تھا۔لڑکی والوں نے ہاں کر دی ہے۔
وہ بے یقینی سے انہیں دیکھ رہا تھا وہ چاہ کر بھی ان سے اپنی حیرت نہ چھپا سکا۔
شاہ صاحب اگر شادی پر راضی ہوۓ ہو تو دل سے راضی ہو جو آپ نے جو ڈرامہ رچایا تھا نہ مجھے امید نہیں تھی وہ لوگ ہاں کرینگے مگر اللہﷻ کی مرضی۔
وہ اسے اس وقت شاہ صاحب کہتے تھے جب سخت ناراض ہوتے یا اچھے موڈ میں ہوتے۔
اب رشتہ ہو گیا ہے تو زوبیہ سے کہوں گا وہ ڈائریکٹ شادی کرنے کی بات کرے یہ نہ ہو آپ کوئی اور منصوبہ بندی کر لو۔
زیان سو گیا ہے۔اس نے انکی بات یکسر نظرانداز کر دی۔
ہاں سو گیا ہے۔انہوں نے ایک ناراض نظر اس پر ڈالی
اوکے آپ اب سو جائیں شب بخیر۔ وہ اٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
مجھے سمجھ نہیں آتی تمہاری شاہ زیب۔ وہ تاسف سے سر ہلاتے رہ گئے۔
اپنے کمرے میں آکر اس نے بے خبر سوۓ ہوۓ زیان پر نظر ڈالی جو سوتے ہوۓ بہت معصوم لگ رہا تھا۔
اس نے بے اختیار اس کے دونوں گالوں پر چٹاچٹ پیار کیا اور لمحہ بھر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔
پھر سگار سلگا کر ٹیرس پر نکل آیا جو کمرے کیساتھ ملحقہ تھا۔
یہ اسکے روز کا معمول تھا۔وہ کھڑے کھڑے ٹیرس پر سگریٹ پھونکتے رات گزار دیتا یا اسٹڈی میں ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوۓ۔
۞۞
☜ماضی
یہاں کیا کر رہے ہو شانی؟وہ باہر جا رہا تھا جب سیڑھیوں پر بیٹھے ذیشان پر اسکی نظر پڑی۔
رو رہے ہو تم؟ وہ اسکی سسکیاں سن کر پاس آیا اور اسکے ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھتے ہوۓ اسے خود میں بھینچ لیا
میری جان بس بہت ہو گیا اب اور آنسو نہیں بہانے۔وہ اسکے آنسو صاف کرتے ہوۓ بولا۔
ممی کیوں چلی گئی مجھے چھوڑ کے بھائیا۔میں انہیں بہت یاد کرتا ہوں۔انہیں واپس بھلا لیں نا۔ اس نے معصومیت سے کہا
وہ واپس نہیں آسکتی انہیں اللہﷻ میاں نے اپنے پاس بلا لیا ہے اور وہ اچھے لوگوں کو جلد اپنے پاس بلا لیتا ہے۔
مگر اللہﷻ میاں نے مجھے کیوں اکیلا کر دیا۔اس نے معصومیت سے پوچھا
نہیں آپ اکیلے تو نہیں ممی کی جگہ اللہ میاں نے آپکو باباجانی اور بھائیا دیے ہیں۔
اس نے کچھ سمجھتے ہوۓ سر ہلایا۔
اس نے شانی کے ماتھے پر بوسے دے کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔اسکا دل بھی تو دکھی تھا مگر وہ اپنا دکھ ظاہر نہیں کرتا تھا نہ کسی کے سامنے روتا تھا۔
دور سے ان دونوں بھائیوں کو ایک ساتھ دیکھ کر کریم یزدانی کی آنکھیں نم ہو گئی تھی۔
وہ کبھی اپنے بڑے بیٹے کو نہیں سمجھ پاۓ تھے ان کا خیال تھا وہ جذبات اور احساسات سے عاری شخص ہے۔جس لڑکے کی آنکھوں میں ماں کی موت پر ایک آنسو نہیں آیا تھا وہ چھوٹے بھائی کو تسلی دیتے ہوۓ رو رہا تھا ہاں یہ بات اور تھی کہ وہ اپنے ماں کی تدفین کے بعد اپنے کمرے میں آکر پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔
وہ وقت سے پہلے ہی سمجھ دار ہو گیا تھا اور کچھ ماں کی وفات نے اسے تنہائی پسند اور کم گو بنا دیا تھا۔
کریم یزدانی کے دو ہی بیٹے تھے شاہ زیب یزدانی اور ذیشان یزدانی۔ بیوی کی وفات کے بعد انہوں نے دوسری شادی نہیں کی تھی بلکہ اپنے بچوں کیساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دی۔
وقت گزرتا گیا۔وہ دونوں بچپن سے نکل کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے۔
ذیشان کالج سے یونیورسٹی لیول تک پہنچا تب شاہ زیب کریم یزدانی کا بزنس میں ہاتھ بٹاتا تھا۔
ایک دن اس نے اچانک ہی کریم یزدانی سے بیرون ملک جانے کی بات چھیڑ دی۔
باباجانی میں لندن جانا چاہتا ہوں۔وہ کسی فائل میں سر دیے بیٹھے تھے شاہ زیب کی بات پر انہوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
کیوں؟
میں وہاں تجربہ حاصل کر کے بزنس کرنا چاہتا ہوں۔اس نے سر جھکا کر کہا
یہاں کیوں نہیں؟ بیٹا اپنا ملک ہے رہنا تو تم نے ادھر ہی ہے اور پھر میں چاہتا تھا تمہاری شادی کر دوں کتنے برس ہو گئے کوئی خوشی نہیں دیکھی گھر میں بھی رونق ہو جاۓ گی۔
نہیں بابا جانی میری شادی کے بارے میں ابھی سوچیے گا بھی مت، ہاں ذیشان کی کر دیں۔
کیوں تم نے کنوارہ رہنا ہے تمام عمر۔
ایسی بات نہیں ہے بابا جانی مگر ابھی میرے کچھ خواب ہیں کچھ مقاصد ہیں جو پورے کرنے ہیں اور شادی کر کے میں کچھ نہیں کر پاؤں گا۔
ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔میں کبھی تمہارے راستے میں حائل نہیں ہوں گا میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔وہ بہت سی دعاؤں سے اسے نواز رہے تھے مگر اسکے دور جانے کا انہیں ملال بھی بہت تھا۔
ذیشان نے شاہ زیب کا بیرون ملک جانے کا سنا تو بہت واویلا کیا بہت مشکل سے اسے شاہ زیب نے سمجھایا۔
لندن جانے سے دو دن پہلے وہ اپنے بہترین دوست احد سے ملنے اس کے گھر آیا ہوا تھا۔
وہ کھڑکی کے پاس کھڑے باہر کے مناظر دیکھنے میں مصروف تھا جب تیزی سے بولتی ایک لڑکی کمرے میں داخل ہوئی
"بھائی میں کب کی ریڈی ہوں آپ کمرے سے باہر کیوں نہیں نک۔۔
____________
اس نے گردن گھما کر لڑکی طرف دیکھا اور اس پر سے نظریں ہٹانا بھول گیا۔لیمن کلر کے لباس میں ہلکا سا میک اپ اور چہرے پر معصومیت طاری کیے وہ شاہ زیب کو بہت ہی بھلی لگ رہی تھی۔
احد کی جگہ انجان شخص کو دیکھ کر اس کی باتوں کو بریک لگا وہ سخت شرمندہ نظر آرہی تھی شاید وہ شاہ زیب کی آمد سے بے خبر تھی۔
وہ ،میں بھائی سے۔۔ وہ بے ربط جملے کہتے باہر بھاگ گئی۔
شاہ زیب اسکے کمرے سے نکلنے کے بعد خوابوں کی دنیا سے باہر آیا بے اختیار اسکے لبوں کو مسکراہٹ چھو گئی۔
تھوڑی دیر بعد احد بھی چاۓ اور لوازمات کی ٹرے لے کر کمرہ میں آگیا اور وہ اسکے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا۔
دو دن بعد وہ ائیر پورٹ پر لندن جانے کے لیے تیار کھڑا تھا۔بابا جانی اور ذیشان اسے سی آف کرنے آۓ تھے
وہ باباجانی سے مل کر ذیشان سے ملا۔
ارے پگلے یہ کیا عورتوں کی طرح رو رہے ہو واپس لوٹ آؤں گا۔اس نے ذیشان کے آنسو دیکھ کر کہا وہ روتے روتے مسکرا دیا۔
وہ دونوں کو ہاتھ ہلاتا جہاز میں بیٹھ گیا۔
سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر اس نے آنکھیں موندھ لی۔ایک چہرہ اسکی آنکھوں سے سامنے آگیا ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔نہ جانے کیوں اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنا دل اسی کے پاس ہی چھوڑ آیا ہے۔
"اب واپس جا کر بابا جانی سے بات کروں گا"اس نے دل میں سوچا بے اختیار اسے ایک شعر یاد آیا۔
زندگی کو تلاش تھی جن کی
نادر وہ لوگ ہم کو بڑی دیر سے ملے
۞۞
اگلے ہفتے ہی زوبیہ بیگم نے رابی کے گھر جا کر ڈائریکٹ شادی کی بات کر دی وہ لوگ تو یہی چاہتے تھے فوراً ہاں کردی مگر شادی کی تیاریوں کے لیے ایک ماہ کا وقت مانگ لیا تھا۔
ایک ماہ بعد رابی حجلہ عروسی میں شاہ زیب کے کمرے میں موجود تھی مگر شاہ زیب کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا۔
اسکے انتظار میں بیٹھے بیٹھے اسکی کمر اکڑ گئی تھی اس نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا لی بہت سی سوچیں اسکے ذہن میں ابھر رہی تھی جو اسے پریشان کر رہی تھی۔
رات کے دو بج رہے تھے جب دروازہ کھلنے سے چڑچڑاہٹ پیدا ہوئی وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور گھونگھٹ تھوڑا آگے سِرکا لیا۔
شاہ زیب اندر آیا اور واش روم کیطرف بڑھ گیا واپس آیا تو نائٹ ڈریس میں ملبوس تھا۔
"آپ ایسے ہی سوئیں گی یا چینج کرینگی" شاہزیب وہاں کھڑا سوالیہ انداز سے اسے پوچھ رہا تھا۔پہلی بار اسے ہتک محسوس ہوئی تھی۔
"کیا میں اتنی بے وقعت ہوں" وہ سوچتے ہوۓ اٹھی اور ڈریسنگ ٹیبل کر سامنے جا کر کھڑی ہوئی۔وہ آئینے میں اسے دیکھ رہی تھی جو اب لیٹ چکا تھا۔
اس نے نوچتے ہوۓ زیور اتارا اور الماری میں سے سوٹ نکال کر واش روم کی طرف بڑھی۔
وہ جی بھر کر رو کر واش روم سے باہر نکلی"کیا کیا خواب سجا کر وہ پھولوں کی سیج پر بیٹھی ہوئی تھی جو سب ٹوٹ گئے تھے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کمرے کی ایک ایک چیز اس پر ہنس رہی ہے اسکا تمسخر اڑا رہی ہے"
وہ آنسو صاف کرتی بیڈ کی دوسری طرف لیٹ گئی پہلے جو آنکھیں نیند کی وجہ سے بوجھل تھی اب نیند کوسوں دور تھی وہ شاہزیب کی طرف سے رخ موڑے بے آواز روتی رہی اور شاہزیب اسکے رونے کی سوں سوں کی آواز سے خود کو کوستا رہا۔
۞۞
اگلے دن شاہزیب نے اپنے گزشتہ رویہ کی اس سے معافی مانگ لی تھی اور اس سے کافی باتیں بھی کی جو وہ خاموشی سے سنتی رہی۔
"جو رشتے مجھ سے وابستہ ہیں آپ ان کی عزت کریں میں چھوٹا تھا جب ماما جانی کی وفات ہو گئی تھی تب سے بابا جانی نے ہی ہمارا ماں اور باپ کی طرح خیال رکھا وہ بہت مشکلات اور تکالیف جیل چکے ہیں آپ ان کا خیال رکھیں گی مجھے بہت خوشی ہو گی اور زیان اسکے ساتھ کسی قسم کی کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرونگا وہ بن ماں باپ کے بچہ ہے اسے یہ احساس نہیں ہونا چاہیے آپ اسکی آنٹی ہیں"
رابی غور سے اسکی بات سن رہی تھی مگر اسکی آخری بات پر وہ ٹھٹھکی۔
زیان آپکا بیٹا نہیں ہے کیا؟ اس نے پہلی بار شاہزیب کے سامنے زبان کھولی۔
"میرا بھتیجا ہے مگر میں چاہتا ہوں اسے ماں باپ کی کمی محسوس نہ ہو وہ مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے"
اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا
آپ کا کوئی اور بھائی؟ وہ شاہزیب کو اپنی طرف دیکھتا پا کر ہچکچائی۔
تھا اب نہیں ہے۔
رابی کو افسوس ہوا اسے معلوم تھا بن ماں باپ کے بچوں کو کن دکھوں اور احساس کمتری کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ خود اس اذیت سے گزر چکی تھی۔
کیا سوچ رہی ہیں آپ؟ اس نے سوچوں میں گم رابی کو کہا
ک۔کچھ نہیں۔
آپ بے فکر ہو جائیں آپکو مجھ سے کسی قسم کی شکایت نہیں ہوگی۔ اس نے دل سے کہا
شاہزیب اسکی بات پر پھیکا سا مسکرا دیا۔
رابی نے اس بات پر عمل بھی کیا وہ کریم یزدانی کا باپ کیطرح خیال رکھتی اور زیان کو بیٹا کہتی ہی نہیں سمجھتی بھی تھی وہ بھی اسکے ساتھ گھل مل گیا تھا اور رابی کے کہنے پر ہی اسے ماما کہتا تھا۔کریم یزدانی بھی اسکے حسنِ اخلاق سے بہت خوش تھے خوشیوں نے انکی گھر کی راہ دیکھ لی تھی۔
۞۞
وہ شادی ہوۓ آج پہلی بار آفس گیا تھا واپس آکر بھی وہ کمرے میں فائلز میں سر دیا بیٹھا تھا تبھی زیان دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا۔
بابا بابا۔وہ اس کی کرسی کے پاس آکر کھڑا ہوا۔
ہوں۔ اس نے بغیر اسکی طرف توجہ دیے کہا
بابا جانی۔ اب اس نے پیار اور لاڈ سے اسے بلایا
جی میرا بیٹا۔وہ اسکی چالاکی اچھی طرح جانتا تھا اپنی بات منوانی ہو تو وہ اسے ایسے لاڈ سے بابا جانی بلایا کرتا تھا۔
آئس کریم کھانے لے چلیں پلیز ماما بھی جائیں گی۔ اسکے لہجے میں منت بھی تھی۔
نہیں ابھی دیر ہو گئی ہے سو جاؤ کل شام کو چلیں گے۔ اس نے رسٹ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوۓ کہا گھڑی کی سوئیاں "9" بجا رہی تھی۔
"بابا پل..."
کل چلیں ضد نہیں کرتے۔شاہزیب نے نرمی سے اسکی بات کاٹتے ہوۓ کہا
"پرانے والے بابا اچھے تھے میری بات سنتے تھے آپ بہت برے ہیں کل بھی مجھے ماما کیساتھ انکے گھر نہیں جانے دیا(رابی اپنے میکے گئی تھی زیان بھی جانے کی ضد کر رہا تھا مگر شاہزیب نے اسے روک لیا تھا)" زیان کی آنکھیں لبالب آنسو سے بھر گئی۔
شاہزیب اس کی بات پر چند پل بول ہی نہ سکا پھر کرسی چھوڑ کر اسکے سامنے پاؤں کے بل بیٹھ گیا۔
کافی دیر وہ زیان کے ایک ایک نقش کو تکتا رہا پھر اسے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا۔
چلو آئس کریم کھانے۔شاہزیب نے اسے الگ کرتے ہوۓ کہا اور وہ خوشی سے نیچے رابی کے پاس بھاگ گیا۔
ماما چلیں آئس کریم کھانے۔وہ شاہزیب کو نیچے آتے دیکھ کر رابی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگا۔
تم اور بابا چلے جاؤ۔ رابی نے دھیمی آواز میں کہا
نہیں آپ بھی چلیں گی ساتھ۔بابا ماما کو کہیے نا وہ بھی چلیں۔زیان نے شاہزیب کی طرف التجا بھری نظر سے دیکھا
ہاں زیان ٹھیک کہہ رہا ہے آپ بھی چلیں۔شاہزیب کے کہنے پر اس نے ایک نظر اپنے لباس پر ڈالی
ماما بہت کیوٹ لگ رہی ہیں اس لباسں میں۔ ہیں نا بابا جانی۔زیان نے اسکا ارادہ بھانپ کر شاہزیب سے تصدیق چاہی رابی اسکی بات پر شرم سے پانی پانی ہو گئی۔شاہزیب نے اس پر ایک بھرپور نظر ڈالی۔
بلاشبہ وہ اورنج اور بلو کلر کے لباس میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
رابی نے شاہزیب کو اپنی طرف دیکھتا پا کر جلدی سے زیان کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی راہ لی اور شاہزیب کی آنکھوں کے سامنے وہی گھبرایا اور شرمندہ سا چہرہ آنے لگا۔وہ سر جھٹک کر انکے پیچھے چل دیا۔
۞۞
ان کی واپسی رات دیر سے ہوئی زیان آتے ہوۓ سو گیا تھا رابی اسے بانہوں میں اٹھا کر اسکے کمرے میں لے گئی جو کریم یزدانی کے روم کیساتھ تھا۔بیڈ پر اسے لیٹا کر اسکے گالوں پر بوسے دیے اور اپنے کمرے میں آگئی۔
"شاہزیب ابھی تک کمرے میں نہیں آۓ" اس نے باہر نکل کر نیچے جھانکا
"کہاں چلے گئے" وہ سوچتے ہوۓ ٹیرس کیطرف بڑھی اتنے دن شاہزیب کیساتھ رہ کر وہ اتنا تو جان گئی تھی کہ شاہزیب کی پسندیدہ جگہ کونسی ہے وہ کہاں زیادہ پایا جاتا ہے۔
ٹیرس پر دیکھ وہ واپس کمرے میں آکر بیڈ پر بیٹھ گئی
"کچھ دیر اور انتظار کر لیتی ہوں شاید کچھ دیر بعد خود ہی آجائیں"
کافی دیر انتظار کرنے کے بعد جب شاہزیب کمرے میں نہیں آیا وہ اٹھ کر اسٹڈی کیطرف بڑھی۔اسکا اندازہ درست تھا وہ اسٹڈی میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگاۓ آنکھیں موندھے بیٹھا تھا۔وہ دبے قدموں اسکی طرف بڑھی۔
شاہ صاحب۔ وہ کریم یزدانی کی دیکھا دیکھی اسے شاہ صاحب ہی کہتی تھی۔
شاہ ص۔ وہ دوسری بار اسے پکارنے لگی تھی جب ٹیبل پر کھلی ڈائری پر بڑے حروف میں خوبصورتی سے لکھا نام اور شعر دیکھ کر ٹھٹھک گئی وہ جسطرح دبے قدموں چل کر آئی تھی اسی طرح باہر نکل گئی۔