السلام و علیکم ما موں اور مما نی ۔۔۔۔۔۔۔۔
"
وعلیکم السلام بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔اٹھ گئی آپ
آفندی صاحب نے اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا ۔۔۔۔
اور زایرہ کیا حال چال ہیں ۔۔
بلکل فٹ ممانی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایشال کہاں ہے مما نی ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ زا را کے ساتھ کچن میں ہے ۔۔۔۔۔
آہا میں مل کر آتی ہوں ۔۔۔۔۔
ا وہ ہو بہت ہی پیار جتا یا جا رہا ہے نند اور بھابھی میں ۔۔زائرہ نے ا یشال کے گلے لگتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔۔۔
"یو ایڈ یٹ۔۔کب سے ہم آے ہوۓ ہیں اور تم اٹھنے کا نام ہی نہی لے رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارے میری اتنی مجال کے میں یہ گستاخی کروں ۔۔۔۔۔جیسے ہی آپی نے بتا یا میں فورا اٹھ گیئی “۔۔۔۔۔زا آئر ہ نے معصو میت سے کہا ۔۔۔۔۔۔
"ڈر ا مے بازی تو کوئی تم سے سیکھے مس چلی ۔۔۔۔““
آریان جو کچن میں پانی پینے آیا تھا زا یرہ کی بات میں ٹانگ اڑ ا ئ......
"تمہاری یہ زبان آ ری سے کاٹنی پڑے گی خڑ وس انسان “
"اچھا اچھا بس بعد میں لڑ لینا تم دونوں ۔۔۔ابھی میری بات سن لو ۔۔۔۔۔“۔
ا شال نے بیچ میں ٹوکتے ہوۓ کہا
"یہ ہوئی نہ بات ڈیر کزن ۔۔۔۔“ آریان مسکرا تے ہوے وہاں سے کھسک گیا
چلو تم دونوں بھی ڈ را ئنگ روم میں ۔۔۔میں چا ۓ لیکر آتی ہوں ۔۔۔زارا نے دونوں کو وہاں سے بھجا کیوں کے وہ جانتی تھی کے توپوں کا رخ اب اسکی طرف ہوگا اور بہت تنگ کرے گی دونوں مل کر ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باس ۔۔دروازہ کھولو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسنے فورا اٹھ کر تصویر وارڈ روب میں رکھی
اور دروازہ کھولا ۔۔۔آنے والا تبریز تھا ۔۔۔۔
باس ۔۔ایک بیڈ نیوز ہے ۔۔۔۔۔
ہما رے گینگ میں سے آپنے جسے جاسوسی کے لئے بھیجا تھا اس نے بتایا ہے کے ارحم نامی آ رمی آفیسر نے ہمارے خلاف ثبوت اکھٹے کرنے کے لیے
گروپس بناۓ ہیں اور انکا ٹارگٹ ہم بن چکے ہیں اور انکا ایک گروپ ہما رے. ایک گر و ہ تک پہنچ گیا تھا لیکن شبیر نے وقت پر عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوۓ انہیں شک بھی نہی ہونے دیا ۔۔۔۔۔
یہ نیوز سن کر جیک ا یک لمحے کے لئے پریشان ضرور ھوا لیکن فورا نارمل ہو گیا ۔۔۔۔۔
"باس ہمیں بھی اپنا کام مکمل کر کے یہاں سے کچھ دنو ں کے لئے جانا چا ہۓ “
تبریز ایک بات کان کھول کر سن لو جیک کبھی بھی بھاگتا نہی ہے اور نہ ہی ڈرتا ہے کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے سے ۔۔اگر تم چا روں کو جانا ہے تو چلے جاؤ لیکن میں اپنا کام مکمل کیے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا ۔۔۔۔۔
نننن نہی باس ہم کیوں جائنگے۔۔۔۔۔اوکے باس۔۔۔۔ ۔،۔۔۔۔۔۔ گڈ نائٹ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرسی پر برا جمان ٹانگ پر ٹانگ چڑھاۓ وہ کسی سوچ میں مگن تھا ، آنکھیں غیر مر ئی نقطے پر ساکت تھی ۔۔۔۔۔بہت سی الجھنوں کو سلجھا نے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔
کیا سوچ رہے ہو تم ؟؟؟زین نے انٹر ہوتے ہوۓ پوچھا ۔۔۔۔
"یہی سوچ رہا تھا کے تمہارے ولیمے میں کو نسا ڈریس پہنوں گا “۔۔ارحم کو کسی کی بھی مداخلت بہت بری لگتی تھی اس لئے تنک کر جواب دیا لیکن مقابل میں بھی زین تھا ۔۔۔۔۔۔۔
"ہاہا ہا یہ ہوتے ہیں دوست ۔بیوٹی پا رلر کا نام بھی ابھی سے سوچ لو اور ہاں ایک کام کرو ابھی سے جائے نماز پر بیٹھ کر میری شادی کی دعا کرو تا کے ولیمے میں تم اپنی ساری حسرتیں پوری کرلو ۔۔۔۔۔زین نے قہقہ لگاتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔
"زین چپ کر جاؤ اس سے پہلے کے میں تمھیں نکلوا ؤں یہاں سے“
اور یہ دھمکی کار آمد ثابت ہوئی کیوں کے زین جانتا تھا کے ار حم سچ میں کچھ بھی کر سکتا ہے
اوکے سر تو آپ MS گینگ کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔۔ذرا آپ بتانا پسند کرینگے کے اس وقت آپکے دماغ میں کو ن سے نادر خیا لات اور منصو بے چل رہے ہیں ؟؟زین نے مود با نہ انداز سے کہا ۔۔۔۔
فلم ہو تم پوری زین !!!! ارحم نے اسے گھورتے ہوۓ دل میں سوچا ۔۔
"جاؤ میجر زايان کو بلا کر آؤ“
ووہاٹ ۔۔۔۔زین نے صدمے سے کہا اب میں اس کام کے لئے رہ گیا ہوں قدر کر لو میری ارحم ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔
اوو و سوری سر ۔۔۔ارحم کے مسلسل دیکھنے پر
زین وہاں سے رفو چکر ہو گیا
تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔۔مے آئ کم ان سر ۔۔۔۔۔
یس کم ان میجر زا يان ۔۔۔۔۔۔
sit both of u major zain and zayan
thank you sir !!!!!!
so tell me what's the situation right now ???
"سر و ہ گینگ بہت چا لاک ہے ۔۔اپنے خلاف کوئی بھی ثبوت نہی چھوڑتی لیکن انشااللہ ہمیں بہت کچھ پتا چل جائے گا“ میجر زا يان نے کہا
"اور سر ایک گروپ کی دی ہوئی انفارمیشن کے مطا بق بہت جلد ہمیں اس گینگ کے ایک گرو ہ کا پتا چل جائے گا ۔۔ڈرگز ،لڑکیوں کی سمگلنگ کے علاوہ بہت سے نا جائز کاموں میں ملو ث ہے ۔۔میجر زین نے مزید کہا ۔۔۔۔
اوکے بیسٹ آف لك ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوا ۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا دیا بیٹا ۔۔۔کچن سے بوا نے آواز دی ۔۔
بوا کتنی دفع منع کیا ہے آپکو کے مت کیا کریں کام ،کچن میں کھڑا ہوکر کام کرنا آپکی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ۔۔آپ کے گھٹنوں میں درد ہے مجال ہے کے آپ کبھی آرام سے بھی بیٹھ جائیں ۔،۔۔۔
او ہو بیٹا ۔۔کچھ نہی ہوتا ۔۔۔۔
چلیں آئیں ...دیا نے بوا کا ہاتھ پکڑ کر کچن سے باہر نکال کر روم میں بیڈ پر بٹھایا ۔۔۔۔اور ۔۔ گود میں سر رکھ کر ماضی کے اوراق پلٹنے لگی ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد صدیقی کے دو بیٹے شکیل صدیقی اور اعوان صدیقی ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔احمد صدیقی ایک مشور بزنس مین تھے ۔۔انہوں نے اپنی وفات سے قبل ہی اپنی جائد اد تقسیم کر لی تھی ۔۔۔گھر بہترین انداز سے بنایا گیا تھا جس میں دو پو رشن تھے ۔۔۔۔۔ایک پورشن میں شکیل صدیقی اپنی بیوی زہرہ کے ساتھ رہتے ہیں ۔۔۔۔۔انکا ایک ہی بیٹاہے ارحم جو ابھی دو سال کا ہے سبکی جان اس میں بستی ہے ۔
دوسرا پور شن ابھی فلحال خالی ہی ہے کیوں کے ا عوان صد یقی کی ابھی شادی نہی ہوئی اور و ہ اپنے بھائی کے ساتھ ہی رہ رہا ہے
اعوان صدیقی کو اپنی کلاس فیلو مريم پسند آتی ہے
چٹ منگنی پٹ بیاہ اور مريم انکے دل کے ساتھ ساتھ انکے گھر کی ملکہ بھی بن جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔
مريم کو بھی ارحم بہت پیارا لگتا ہے اور وہ اسکے لاڈ ا ٹھا تے نہی تھکتی ۔۔۔۔ار حم کو اپنی یہ چاچی بہت اچھی لگتی ہیں اور اسکا زیادہ تر ٹائم اب اسی پو ر شن میں گزرتا ہے ۔۔۔۔۔۔
" تا تی (چا چی ) ہما لے گھل میں کوئی بچا کیوں نہی جس کے سات میں کھیلوں“ ؟؟؟ارحم اپنی توتلی زبان میں سوال کر رہا تھا ۔۔۔۔ارحم اب بڑا ہوتا جا رہا تھا اسے بھی کوئی ساتھی چاہیے تھا جس کے ساتھ وہ کھیلے ۔۔۔۔۔۔
"چا چی کی جا ن ۔۔میں ہوں نہ آپکے ساتھ، آپکے ساتھ کھیلنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔اور آپ اللّه سے دعا کرو ۔۔ “
اللّه میلی بات ما ن لینگے ؟؟؟؟
ہاں اللّه سب کی دعا قبول کرتا ہے ۔۔۔۔
تھیک ہے میں اللّه پاک سے دعا کروں گا کے وہ مجھے ایک ڈول دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
...............
" تا تی (چا چی ) ہما لے گھل میں کوئی بچا کیوں نہی جس کے سات میں کھیلوں“ ؟؟؟ارحم اپنی توتلی زبان میں سوال کر رہا تھا ۔۔۔۔ارحم اب بڑا ہوتا جا رہا تھا اسے بھی کوئی ساتھی چاہیے تھا جس کے ساتھ وہ کھیلے ۔۔۔۔۔۔
"چا چی کی جا ن ۔۔میں ہوں نہ آپکے ساتھ، آپکے ساتھ کھیلنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔اور آپ اللّه سے دعا کرو ۔۔ “
اللّه میلی بات ما ن لینگے ؟؟؟؟
ہاں اللّه سب کی دعا قبول کرتا ہے ۔۔۔۔
تھیک ہے میں اللّه پاک سے دعا کروں گا کے وہ مجھے ایک ڈول دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اور اس لمحے مر یم کو ار حم پر ٹوٹ کر پیار آیا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے “، نرس کی یہ بات سن کر سب کے چہروں پر خوشی کی لہر آ گیئی ۔۔۔ اعوان نے اسی وقت اپنے رب کے حضو ر سجدہ ریز ہو کر اللّه کا بہت شکر ادا کیا ۔۔۔۔...
"ارحم بیٹا ۔۔۔تمہاری دلہن تمہاری ڈول آ گئی ۔۔۔زہرہ شکیل نے ار حم کو مسکرا تے ہوۓ کہا ۔۔۔۔ارحم جو کے اپنے ننھے ننھے ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہا تھا فور ا اپنی امی کے پاس آیا ۔"۔ملی دلہن .ملی ڈول “
اللّه نے ملی بات مان لی اللّه بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔۔ارحم بہت بہت خو ش تھا ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اپنی ڈول کو دیکھنا ہے ۔۔۔
نہی بیٹا ابھی نہی چاچی جب گھر آئگی تب آپ دیکھ لینا اپنی ڈول کو ۔۔۔۔۔
ار حم کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گیئی کے ڈول اسی کی ہے ارحم کی دلہن ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔
(چا چی )پلز مجھے کھیلنے دیں ڈول تے ساتھ ۔۔۔۔۔۔
ایک مہینے پہلے مدیحہ کی ولادت نے ارحم کو بہت خوشی دی ۔۔۔۔ مریم اور اعو ان اللّه کا شکر ادا کرتے نہی تھکتے اللّه نے انھیں رحمت سے نوازا
"چا چی کی جا ن ۔۔۔ابھی تو ڈول سو گیئی ہے اگر و ہ جاگ گیئی پھر تو ڈول بہت روۓ گی اور آپکو نہی پسند کے آپکی ڈول رو ۓ
ملی ڈول د لہن سوتی بہت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توئی بات نئی نا تاتی دے دیں نا میکو۔۔۔۔۔ مجھے ڈول تاہیے ۔۔
مر یم یہ سن کر مسکرا دی اسے ارحم پے ایک دم سے بہت پیار آیا۔۔۔۔
تاتی اس کا نام تیا ہے؟؟ ارحم نے اپنے توتلے انداز میں پوچھا ۔۔۔
مدیحہ ہے تمہاری ڈول کا نام۔۔۔(ارحم کو نام بلکل سمجھ نہیں آیا تھا) تب اس نے اپنی تمام تر کوشش کے بعد اس کا نام لینے کے کوشش کی تو وہ دیا بن گیا۔ اس دن کے بعد سے وہ چھوٹی روئی کامے گالوں والی ڈول ارحم کی دیا بن گئی۔۔ ۔۔۔۔۔ ارحم کی دیا۔ ارحم کی دلہن ۔ار حم کی ساتھی
یہ واقعہ ذہن میں آتے ہوئے ارحم کی آنکھوں سے آنسو آ رہے تھے اور وہ مسلسل سیگریٹ پی رہا تھا ۔ دیا کو یاد کرتے وقت وہ ہوش وخرد سے ایسا بیگانہ ہوا تھا کہ اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی کہ جتنا ضروری مشن ہے جو اسے سر انجام دینا تھا ۔ اس وقت اسے بس دیا چائیے تھی جسے وہ نادانی میں کھو بیٹھا تھا۔ پچھتاوا اب زہر کی طرح نس نس میں سرائیت اختیار کر گیا تھا۔
دیکھیں ! پتا نہیں کیسے لیکن ہم لوگوں کے پلان کا پتا MS gang کو لگ گیا تھا جسکی وجہ سے ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم میں سے ہی کوئی ہے جو اندر کی خبریں باہر پہنچا رہا ہے۔ بھلا خود سوچو اس بات کا علم صرف ہمیں اور ہماری ٹیم کو تھا ۔ اس کا مطلب ہے ہم میں ہی کوئی غدار موجود یے۔۔۔۔ ارحم نے بہت رسان سے اپنی بات ختم کی ۔ اس وقت اس کے کیبن میں صرف زین اور زایان موجود تھے اور وہ بہت غور سے ارحم کو سن رہے تھے۔ میٹنگ کے اختتام پہ یہ طے پایا کہ اب کا سارا پلان صرف افسران بالا کے پاس رہے گا۔ اگر کوئی بھی اور انسان اس پلان کو جاننے کے لیے ٹھوہ کے گا اور دلچسپی دکھائے گا اس پہ کڑی نظر رکھی جائے گی۔
جیسے ہی وہ اٹھے زایان باہر کال لینے گیا تبھی زین نے ارحم سے پوچھا۔۔ ارحم سب ٹھیک ہے نا ۔۔ کچھ پریشان لگ رہے ہو۔ آخر کیا بات ہے ۔۔ کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ۔
ارحم کے ہونٹوں پہ ایک زہریلی مسکراہٹ ابھری۔۔ مسئلہ کیا ہونا ہے مجھے تو اس کے ہجر نے مارا ہے زین۔۔
ہم نےکاٹی ہیں ہجر کی راتیں
ہم نےجلتا گلاب دیکھا ہے
چشمِ قاتل کی یورشیں دیکھیں
اہل دل پرعتاب دیکھا ہے
ہم نے، کوشش کو رائیگاں کرتا
اک مسلسل عذاب، دیکھا ہے
اوئے پری کہاں گم ہو ہاں!! تب سے آواز دے رہی ہوں کان خراب ہیں کیا؟؟؟؟ زائرہ نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ کہا۔۔۔
ہیںںںںںں؟؟؟ کب سے آوازیں دے رہی ہو بھلا تم ذرا مجھے بھی بتانا!!! مدیحہ نے حیرت سے پوچھا۔
ارے وہ سامنے والے بلاک کی دوسری منزل سے اتنی اونچی بلایا میں نے. زائرہ نے معصومیت سے کہا۔
اس بات پہ پری نے اسے ایک گھوری سے نوازا اور کہا قسم سے کیا نمونہ ملا ہے اس بھری یونیورسٹی میں مجھے۔۔۔ اللہ جی ایک اچھی سوجھ بوجھ والی سہیلی مجھے بھی دے دیتے بھلا ۔اور یہ بات کہتے پری آگے کو دوڑ گئی ۔ اور زائرہ نے شکر کا سانس لیا کیونکہ اس نے دور سے پری کو اپنے آنسو صاف کرتے دیکھا تھا۔ وجہ اسے معلوم نہیں تھی لیکن وہ جاننے کا عزم کر چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
چا چی دیا کہاں ہے ؟؟آٹھ سالہ ارحم مریم سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔
بوا کے پاس دیکھ لو انکے پاس بیٹھی فیری سٹوری سن رہی ہوگی ۔۔۔۔
اوکے میں دیکھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
بوا کو کچن میں دیکھ کر ارحم فو ر ا دیا کے روم میں گیا ۔۔۔۔۔۔۔ارحم جیسے ہی روم میں انٹر ہوا مدیحہ اپنی پونياں بنانے کی کوشش کر رہی تھی جسکی وجہ سے اسکے بال مزید الجھ رہے تھے ۔۔۔۔
"یہ کیا کر رہی ہو تم دیا ۔۔اپنے بال خراب کر رہی ہو “
میں اپنے بال بنا نے تی تو شش کل رہی ہوں ۔۔۔۔۔
منہ بسورتے ہوۓ مدیحہ نے کہا
پانچ سال کی ہونے کے باوجود مدیحہ توتلا بولتی تھی ۔۔۔۔
ادھر دو مجھے تم ۔،۔۔۔مدیحہ کے ہاتھ سے comb لیکر وہ خود اسکے بال بنا نے لگا
تم نے اپنا ہوم ورک بھی نہی کیا دیا ۔۔۔۔آٹھ سالا ارحم مدیحہ کی ہر بات کا ہر ضرورت کا خیال رکھتا ۔۔۔۔
ہوم ورک کے نام پر دیا نے اپنے گال پھلا لئے اور اپنا نچلا لب کاٹنے لگی ۔۔اسکی یہ حرکت ارحم کو بہتہوم ورک کے نام پر دیا نے اپنے گال پھلا لئے اور اپنا نچلا لب کاٹنے لگی ۔۔اسکی یہ حرکت ارحم کو بہت پسند تھی ۔۔۔۔۔۔
کل لنگی ہوم ولك ۔۔۔۔۔آپ نے اتنی اچھے بال بناے ملے ۔۔۔۔۔۔آپ ہمیشہ بنانا ملے بال۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں تم مری دلہن ہو میں ہی کرنگا تمہارے سارے کام ““
تلہن ۔۔۔۔وہ جیسے پچھلے ہفتے ہم تب گیے تھے شادی میں ۔۔مزہ آیا تھا بہت ۔۔۔۔ ایسے میں بھی تلہن ۔۔۔۔کب ؟؟
"ابھی نہی ابھی ہم چھوٹے ہیں بہت جب ہم بڑے ہو جائےگے پھر ۔۔۔
اتنی بڑی تو ہوں میں ۔۔۔۔۔دیا نے پھر سے منہ بناتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔۔
اوکے ابھی ہوم ورک کرنے کا ٹائم .........
...........