جیک ان سب سے نپٹنے کہ بعد بابا کہ پاس گیا بابا کو پتہ تھا کہ جیک اب دھیرے دھیرے سیدھے راستے کی طرف آرہا ہے ۔۔۔۔۔
"جو چیز تیرے پاس نہیں اس کی دو صورتیں ہیں، یا تو وہ تیری قسمت میں ہے یا کسی اور کی قسمت میں۔ اگر تیری قسمت میں ہے تو تجھے ضرور ملے گی تو ضرور اس کے قریب لے جایا جائے گا، عنقریب وہ تجھے مل جائے گی اور جو چیز تیری نہیں، پس تو اس سے موڑا گیا ہے اور وہ تجھ سے پھیر لی گئی ہے، پس تیرا اور اس کا ملاپ نہ ہوگا، تو اس چیز کے لیے اپنے رب سے منہ موڑ رہا ہے اور اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے، اپنے موجودہ حال اور وقت میں ادب ملحوظ رکھ، اپنا سر نہ اٹھا اور خدا تعالیٰ کے سوا کسی چیز کے سامنے اپنا سر نہ جھکا۔
(شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی)
جی میں سمجھ گیا اب مجھے اپنی حقیقت بتانی ہے سبکو ۔۔۔۔۔دعا کریں بابا آپ میرے لئے ۔۔۔
دونوں نے د عا کہ لئے ہاتھ اٹھا ۓ
اے اللہ!!
ہمیں مانگنے کا سلیقہ نہیں آتا، پھر بھی ہر روز ہاتھ پھیلائے اس یقین کے ساتھ تجھ سے مانگتے ہیں کہ تیرے سوا ہماری دعاؤں کو قبول کرنے والا کوئی نہیں۔
اے مالک! ہماری ٹوٹی پھوٹی دعاؤں کو نہ دیکھ، ہمارا تجھ پہ جو یقین کامل ہے اس کو دیکھ اور ہماری حاجتوں کو پورا کر
آمین!!
……………………..
ارحم کو ہوسپٹل شفٹ کر دیا گیا ۔۔۔
فوری طور پر آپر یشن شروع کیا گیا
یہ چار گھنٹے زین کو سو لی پر لٹکے ہوۓ محسو س
ہوۓ
"ڈاکٹر ۔۔۔ارحم کی طبیت کیسی ہے اور بلڈ زیادہ تو نہی بہ رہا ؛“
"حوصلہ رکھیں۔۔اب و ہ بلکل ٹھیک ہیں ۔انہیں روم میں شفٹ کر دیا ہے آپ ان سے مل سکتے ہیں۔“
اوکے ۔زین فورا ار حم کے پاس گیا ۔
"ار حم ۔۔،زین نے ار حم کو پر یشا نی سے پکا را
ار حم نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور ہلکا سا مسکرا یا
"کیا ہو گیا زین ۔تو تو میرا شیر ہے ۔چل اب فکر نہ کر میں ٹھیک ہوں ۔میجر زا یا ن کو گھر بھیج دو اسے کس نے بلا یا تھا ؟؟؟۔۔میری ماما اور دیا کو بلا لو مجھے دیا سے سب کے سامنے معا فی مانگنی ہے اور پلز اس لڑکے کو بھی بلا ؤ جس نے ہماری اتنی مدد کی ہے “
زین نے سب سے پہلے جیک کو ار حم کے پاس بھیجا اور خود ار حم کی ما ما کو کال کرنے گیا ۔۔
جیک جیسے ہی اندر آیا ار حم پر نظر پڑ تے ہی و ہ بڑ بڑا یا ۔۔۔angry man….
"تمہارا بہت شکریہ ۔تم کوئی بھی ہو میں یہ نہی جانتا لیکن ایک احسان اور کردو مجھ پر ۔۔۔۔میری کزن کو کسی نے کڈ نیپ کیا ہے اسے ۔۔۔۔۔“۔۔اس سے پہلے کے ار حم کچھ اور کہتا ۔۔جیک فورا بول پڑا ۔۔
"
دیا کو میں اسی وقت ان کے چنگل سے چھڑا کر گھر ڈرا پ کر چکا ہوں “جیک بول کر پچھتا یا
"تم تمہیں کیسے پتا دیا ؟؟اور تم ہو کون ؟؟؟ار حم نے حیرانگی سے پوچھا
"میں کون ہوں؟ میں ایک ایسا انسان ہوں جسے آپ شروع سے ہی نا پسند کرتے ہیں ۔۔۔اگر تعا رف کروا دیا تو آپ مجھے کھڑے کھڑے ہی یہاں سے نکال دینگے “ جیک نے آج ار حم کو سب کچھ بتا نے کا سوچا کیوں کے و ہ اب دیا کو کسی بھی قیمت پر کھونا نہی چا ہتا تھا
پہلیاں مت بھجوا ؤ اور بتاؤ کون ہو تم؟ ؟ار حم نے کرا ہتے ہوۓ کہا
میرا نام ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میجر زايان اپنی مهندی کی فنکشن میں آپ غائب تھے لیکن کیا نکاح میں شریک ہونا پسند کرینگے ؟؟““
مسز آفندی نے مجبورا زا يان کو کال کی کیوں کہ سب انتظار کر رہے تھے
"جی جی امی میں راستے میں ہی ہوں ابھی ہسپتال سے نکلا ہوں ““
خیریت هسپیتال ؟؟
"جی امی و ہ آ ر می چیف ار حم کو گولی لگ گیی تھی لیکن اب اللّه کا شکر و ہ ٹھیک ہیں !!!““
"اللّه کا شکر کہ و ہ ٹھیک ہے !!اسکی امی کو پتہ ہے و ہ تو یہاں آیی ہوئی ہیں شادی میں ؟؟؟“
"نہی امی نہی بتایا و ہ پریشان ہوں جاتی !!!چلیں میں آ رہا ہوں ““
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زا يان نے اپنی شادی میں تمام میجر ،کیپٹن اور آفیسر ز تما م فیملیز کو مد عو کیا تھا لیکن گینگ کو اریسٹ کرنے کی وجہ سے کوئی بھی مهندی اور باقی فنکشن میں شریک نہ ہو سکا
ارحم کی مدر بھی آیی ہوئی تھی اور دیا بھی ۔،۔
قسمت نے انہیں ملنے کا موقع دیا ۔۔۔۔
"دیا پلز معا ف کردو مجھے بھی ار حم کو ““
"یہ آپ کیا کر رہی ہیں تا ئ ۔۔آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں ۔““
"بیٹا ار حم کو معا ف کردو و ہ ایک پل بھی سکون میں نہی رہا “
دیا کہ کچھ بولنے سے پہلے ہی انکا موبائل بجنے لگا ۔کال ریسیو کرتے ہی اونہیں ان ہونی کا احساس ہوا اور دوسری طرف سے زین نے جو خبر دی اسے سن کر انکے ہاتھ سے موبائل گر پڑا
دیا نے فو را آگے بڑھ کر انہیں سمبهالا ۔۔۔
ار حم کو گولی ۔۔۔۔۔انکی زبان سے الفاظ بھی ادا نہی ہو رہے تھے
"آ نٹی و ہ اب ٹھیک ہیں !!زا يان بھی ہا ل پہنچ گیا تھا
"مجھے میرے بیٹے کہ پاس لے کر جاؤ ۔۔دیا پلز تم بھی ساتھ چلو “
دیا کو مجبو را انکے ساتھ جا نا پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا نام ملک شہروز ہے angry man ۔۔
Ms gang means Malik shehroz.gang
"وہاٹ تم شہروز ۔۔۔اور اسکے ساتھ ہی ار حم نے اٹھ کر اسے گلے لگانے کی کوشش کی لیکن شہروز نے آگے بڑھ کر اسے دوبارہ لٹا دیا ۔۔۔۔
"تم لوگوں نے مجھے مریض بنا کر رکھ دیا ہے بس آج مجھے ڈس چارج ہونا ہے اور زا يان کی شادی کو سیلیبر یٹ کرنا ہے !“
"اور پلز شہروز مجھے معا ف کردو ۔۔اگے بتاؤ تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا ؟؟؟کہاں چلے گیے تھے تم لوگ ؟؟؟“
"اس دن تمہارے گھر سے آنے کے بعد میرے نام نہاد باپ نے زبردستی وہاں سے کہیں اور شفٹ کیا ۔کیوں کے انکے کرتو ت ایسے تھے کے ایک جگہ مستقیل طور پر نہی رہ سکتے تھے
مجھے کچھ عرصے کے بعد پتا چلا کہ مرا باپ ایک گینگ میں شامل ہے اور انکے لیے کام کرتا ہے ۔۔لڑکییوں اور ڈرگس کی سمگلنگ انکے با ئیں ہاتھ کا کھیل تھا اسکے علاوہ بھی بہت سے نا جا ئز کاموں میں ملو ث تھے ۔۔۔۔میں نے اونهیں بہت روکا لیکن و ہ میرے بھی خلاف ہو تے گیے
انکا باس کام کے معاملے میں بہت سخت گیر تھا ۔۔ایک لڑکی میرے باپ سے بچ کر اپنی جان بچا تے ہوۓ بھاگ گیئی ۔۔۔۔۔یہ دن ملک شہباز میرے والد صاحب کی زندگی کا بچی کچھی غیرت کا آخری دن تھا ۔۔و ہ گرمیو ں کی ایک دوپہر تھی ۔۔۔۔
کہاں ہے و ہ تمہاری بیٹی ۔۔ملک شهباز نے گھر میں داخل ہوتے ہوۓ کہا
"و ہ اپنے روم میں ہے ۔کیوں آپ کو کیا کام ؟خیریت آج آپ کو اپنی بیٹی کی یاد کیسے آ گیئی “
"زیادہ بک بک نہ کرو اسے ساتھ لیکر جانا ہے ۔۔اسکا ضروری سا ما ن وغیرہ پیک کردو ۔۔۔“
"کہاں لیکر جاؤ گے میری بیٹی کو ؟؟ندا بیگم نے دہل کر پوچھا ۔۔
"تم اپنے کام سے کام رکھو ۔۔اور گڑ یا کے روم میں جانے لگے
"نہی نہی تم نھی کر سکتے ایسا ۔۔خدا کا خوف کرو ملک شہباز ۔۔تم ایک باپ ہو تمہارے دل میں ذرا بھی شفقت اور انسا نیت نہیں ۔۔۔میں اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے زہر دے دنگی لیکن تمہارے ساتھ کبھی بھی جانے نہی دنگی ۔۔ارے باپ تو تحفظ دیتا ہے تم کیسے باپ ہو جو اپنی بیٹی کو اپنی ہی عیا شیوں کی بھینٹ چھڑہا رہا ہے ۔“
شور کی آواز سن کر شہروز اور گڑیا بھی اپنے روم سے باہر آے
ایک لمحے کے کے لئے ملک شہباز کا دل بھی لرزا لیکن اگلے پل اپنی جان جانے کا خوف ۔۔۔
"ہٹ جاؤ میرے سامنے سے ۔۔۔ملک شہباز نے ندا کو زور سے دھکا دیا جسکی وجہ سے انکا سر زمین پر رکھے لوہے (جس میں کیل تھے)
پڑا اور و ہ وہیں بیہوش ہو گیئی لیکن آخری الفاظ ان کے یہی تھے "خدا کے لئے میری بیٹی کو مت لےکر جاؤ “
"امی امی و ہ دونو ں اپنی امی کی طرف بڑھے لیکن ملک شہباز نے گڑیا کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ لے کر جانے لگا
"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری بہن کو ہاتھ لگانے کی ۔۔نہیں ہے یہ تمہاری بیٹی ۔۔تم جیسا انسان باپ کہلا نے کے بھی لائق نہیں “شہروز انکے راستے میں حا ئل ہو گیا
و ہ جو تمہاری ماں ہے و ہ بھی یہی کہ رہی تھی لیکن دیکھو اسکا حال “ملک شہباز نے حقارت سے اپنی بیوی کو دیکھا
اچانک شہروز کے سر پر ایک ضرب پڑی جس سے شہروز بھی اپنے ہوش و حواس کھونے لگا ۔۔ اسی گروہ کے آدمی نے شہروز پر پیچھے سے وار کیا جس کئی وجہ سے شہروز سمبھل بھی نہ سکا
"گڑیا مت جانا اس غلیظ انسان کے ساتھ ۔۔۔۔۔یہ انسان نہا یت ہی ذلیل ۔۔۔۔۔“ اور شہروز کی آنکھیں بھی بند ہوتی چلی گیئی
گڑیا نے نہا یت ہی دکھ سے اس انسان کی طرف دیکھا جس نے باپ جیسے مقدس رشتے کو پاما ل کیا اب جو بھی کرنا تھا گڑیا کو ہی کرنا تھا اسے موت قبول تھی لیکن اسکے ساتھ جانا منظور نہیں تھا ۔۔۔۔ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا کر و ہ كمرے میں گیئی اور اور بہت زیادہ مقدار میں و ہ گولیاں لی جو اسکے دما غ پر فورا اثر کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ بوڈی بھی سن ہوتی جاتی ہے اسکے ساتھ ہی انسا نی جسم کے سیل نا کا رہ ہو جاتے ہیں اور انسان کی ڈ یٹھ ہو جاتی ہے ۔۔۔
ملک شہروز اپنی بیٹی ،بیوی اور بیٹے کو گالیاں دیتے ہوۓ انکو اسی حالت میں چھوڑ کر گھر سے باہر نکل گیے ۔۔۔
آس پڑو س کے لو گوں نے ان تینو ں کو ہسپتال پھنچایا
ندا اور گڑ یا کی ڈیتھ ہو چکی تھی جب کے شہروز کی حالت کافی دن دن تک نا ساز تھی ۔۔۔۔۔۔
ار حم سانس روکے شہروز کی باتیں سن رہا تھا جیک (شہروز کے چہرے پر ایک تاریک سا سایہ لهرایا )
اس کے بعد میرا ساتھ دینے والا کوئی نہ تھا میں دربدر بھٹکتا رہا ایسے حالات میں مجھے ڈیوڈ ملا جس نے مجھے جیک کے روپ میں بدل دیا ڈیوڈ ایک مطلب پرست انسان تھا اور غلط کاموں میں ملوث بھی ۔۔۔۔جس طرح ملک شہباز ایک گروہ گینگ کا ساتھی تھا اسی طرح ڈیوڈ بھی ایک گینگ بنانا چاہتا تھا لیکن وہ ایک ڈرپوک انسان بھی تھا اسے میری طاقت کا اندازہ ہوا اور مجھے استعمال کرنا شروع کیا لیکن مجھے اس کی باتوں پر عمل بھی کرنا تھا کیوں کہ کیونکہ مجھے گینگ کے بارے میں پتا نہیں تھا ۔اور مجھے ملک شہباز کے بارے میں بھی معلوم کرنا تھا ۔۔۔آہستہ آہستہ میں ڈیوڈ کا ساتھ دیتا گیا اور ڈیوڈ نے مجھے اپنا بازو مان لیا اور پھر جب مجھے ساری ڈیٹیل پتہ چل گیئی میں انکے خلاف کام کرنے لگا ۔۔انکی پلاننگ کو نا کام بناتا گیا ۔۔
ڈ یو ڈ نے مجھے اور میرے ساتھ پانچ لڑکوں کو یونی بھجا اسکا مقصد یہی تھا کے لڑکوں اور لڑکییوں کو منشیات کا عادی بنا کر ان کی سمگلنگ کی جائے لیکن اتفاق کی بات کے اس یو نی میں دیا بھی تھی ۔۔دیا مجھے نہی پہنچا نتی تھی لیکن اسکی آنکھوں میں آنسو اور اسکی اداسی مجھے طیش دلا تی تھی
میں صحیح موقع کے انتظار میں تھا ۔۔ملک شہباز اس دن بہت برا کام کرنے جا رہا تھا اس سے انکا باس بہت خوش ہو جاتا لیکن میں نے تمہیں کال کر کے انہیں ان کے ناپاک عزائم سے روک دیا ۔۔۔۔
اور اب ڈیو ڈ بھی پکڑا جا چکا ہے ۔۔۔۔مری زندگی کا مقصد ہی یہی ہے کے ایسے لوگوں کے عز ا ئم کو ناکام بنا دیا جائے ۔۔““
ار حم بہت فخر محسوس کر رہا تھا کے ایسے نوجوان کبھی بھی اس ملک دشمن لوگوں کو کام ياب ہونے نہیں دینگے ۔۔۔۔
"شہروز مجھے معا ف کر دو ۔۔میرا رو یہ تمہارے ساتھ بہت خراب تھا بچپن سے لیکن اب جو میں فیصلہ کرنے جا رہا ہوں امید ہے کے تم ما ن لوگے ۔۔دیا کا خیال تم سے بہتر کوئی بھی نہی رکھ سکتا ۔۔ابھی اور اسی جگہ تم دونوں کا نکاح ہوگا “ان دونوں کے نکاح کے بعد ہم سب زا يان کی شادی کا مزہ دو بالا کرينگے “
باہر کھڑے دیا اور ار حم کی مدر کے پیروں تلے زمین سرک گیئی ان دونو ں نے ساری باتیں سن لی تھی ۔۔دونوں اندر آئ
ار حم مرا بچہ تم ٹھیک تو ہو ؟؟
"جی امی میں بلکل ٹھیک ہوں آپ پریشان مت ہوں ۔۔دیا پلز مجھے معاف کردو اور میری ایک آخری بات ما ن لو ۔۔تمہارا نکاح ابھی اور اسی وقت ھو گا جیک کے ساتھ ““
"ہاں دیا معا ف کردو میرے بیٹے کو ۔۔بہت ازیت میں رہا ہےاور نکاح ثانی میں کوئی برا ئ نہی ۔۔۔۔انہوں نے دیا کے سامنے ہاتھ جوڑ تے ہوۓ کہا
"تا ئ امی یہ کیا کر رہیں ہیں آپ ۔۔میں نے معا ف کردیا ہے ۔۔اور نکاح کی بات تو آپ لوگ پلز بوا کو بھی بلا لیں “
خلاف توقع دیا ما ن گیئی۔۔۔
۔بوا ،زا ئرہ اور کچھ قریبی لوگوں کو بلا کر شہروز اور مدیحہ کا نکاح ہو گیا
یہ اتنی اچا نک نکاح ؟؟اور دیا تم کیسے مان گیئی ؟؟زا ئرہ اسکے پاس بیٹھ کر سوال کری جا رہی تھی
جیک شہروز ہے ۔۔۔۔۔اور تم نے سہی کہا تھا کے و ہ میرا بہت خیال رکھے گا ۔۔۔و ہ مجھ سے دور ہوتے ہوۓ بھی میرا محا فظ تھا اور ایک لڑکی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو سکتی ہے “! !
زا ئرہ کو احساس بھی نہی ھوا کے و ہ مسلسل کسی کی نظروں کے حصار میں ہے
"
مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے تمہارے دل میں گھنٹی بج رہی ہے “ ار حم نے زین کو کہا جو کافی ٹا ئم سے زا ئرہ کو ہی دیکھا جا رہا تھا
"گھنٹی تو بہت پہلے ہی بج چکی ہے سیکنڈ ٹا ئم دیکھ رہا ہوں اسے “ زین نے مسکرا تے ہوۓ کہا
"او ھو ۔۔۔مطلب اب تمہاری بھی شادی کرنی ہوگی ۔۔۔ میں ہوں نہ بس اب دیکھتے جاؤ ۔۔۔۔۔
ارحم نے اسے چھیڑ تے ہہوۓ کہا
"نھی تم کچھ نہی کرو گے ۔۔ہم دونوں ساتھ شادی کرینگے ۔۔۔۔بھول گیے کیا تم “؟ زین نے اسے ایک دهپ رسید کرتے ہوۓ کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زارا آفاق سے مسز زا يان بن کر کیسا فیل ہو رہا ہے ؟““زا يان نے اپنے برا بر میں اسٹیج پر بیٹھی ہوئی زارا کے دلکش روپ کو دیکھا جو دلہن بن کر بھت غضب ڈھا رہی تھی ۔۔
"جی ۔۔۔۔“زارا نے شر ما تے ہوۓ سر جھکا لیا ۔۔۔۔۔
"آپکا یہ انداز ۔۔۔۔۔اور جیسے ہی زا يان نے سامنے دیکھا و ہ فورا کھڑا ہو گیا کیوں کے ار حم ،زین ،شہروز اور باقی اعلیٰ افسرآن آ رہے تھے ۔۔۔
زا يان اسٹیج سے اتر کر انکے پاس گیا اور گرم جوشی سے ان کا ا ستقبال کیا
"آپ لوگوں نے آ کر میری شادی کو چار چاند لگا دیے““
چار چاند نہیں ۔۔آٹھ چاند کیوں کے اب تمہارے ساتھ شہروز اور مدیحہ کی شادی کا بھی فنکشن ہے اور و ہ بھی آسی ہا ل میں ““
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیو ٹیشن دیا کے حسن کو مزید چار چاند لگا چکی تھی ۔۔دیا بہت پیاری لگ رہی تھی
زا ئرہ نے دل ہی دل میں اسکی نظر اتاری
"یار دیا مجھے یقین نہی آ رہا میں نے بہت کچھ سوچا تھا تمہاری شادی کے لئے لیکن اتنی اچانک یہ سب ہو گیا ۔۔۔
خیر میری زندگی کا حسین ترین دن ہے میری بہن اور عزیز دوست کی شادی ایک ہی دن ۔۔۔““
"ہاں چلو بس اب نکلو یہاں سے “ شہروز نے روم میں انٹر ہو کر مداخلت کی
"کیوں جاؤں میں یہاں سے ۔۔پہلے مجھے پیسے دیں
میں آپ کی بہن بھی ہوں اور دیا کی اکلو تی عزیز جان سہیلی بھی ہوں ۔۔۔۔۔۔““
"اچھا اچھا ٹھیک ہے اب بھاگو یہاں سے ،مجھے اپنی مسز سے بات کرنی ہے ““
"او ۓ ہو ۓ مسز ۔۔۔۔۔چلیں میں جا رہی ہوں لیکن یاد رکھے گا ۔۔رسم کے نام پر میں آپ کو لوٹو ں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی بہانا نہی چلے گا “۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
"جا رہی ہو تم یا ۔۔۔۔۔۔۔۔““
"اوکے اوکے کر لیں آپ اپنی مسز سے بات “ زا ئرہ ہنستے ہوۓ روم سے نکل گیئی
"جی تو مسز ۔۔کیا حال ہیں آپ کے “ دیا تو لفظ مسز سن کر ہی سمٹ گیئی
یار شرما ؤ مت ۔۔۔میں تو شہلوز ہوں تمهالا بچپن تا دوست ““
شہروز نے مدیحہ کو اسکی بچپن کی کمزوری یاد دلائ
شہروز ۔۔۔۔دیا نے اسے گھورتے ہوۓ کہا
"جی مسز ۔۔۔۔بس میں کوئی لمبے چو ڑ ے و عد ے نہیں کرنگا لیکن میں تمہاری آنکھوں میں کبھی بھی آنسو آنے نہیں دنگا۔۔۔ تمہاری ساری تكالیف کا مداوہ
کر نگا اور ہمیں ماضی کو بلکل بھول بھولنا ہوگا بتاؤ دوگی تم میرا ساتھ ۔۔؟دیا نے اسکے بڑھتے ہوۓ ہاتھ کو دیکھا اور اپنا ہاتھ شہروز کے ہاتھ پر رکھ دیا
~ تم سے آگے سوچ نہیں جاتی
~ تم آخری حد ہو میری•
شہروز نے اسکے ہاتھ کو ہلکا سا پیار سے دبا کا کہا
جاتے جاتے اتنا کہوں گا کے تم حد سے بھی زیادہ پیاری لگ رہی ہو
"___أنت تنتمي لي وأنا فتى أناني للغاية في حالتك
تم میری ملکیت ھو اور میں تمہارے معاملے میں بڑا خود غرض لڑکا ھوں •
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ار حم نے زین کی ماما سے خود بات کی اور انہیں اس بات پر قا ئل کیا کہ و ہ آفاق صاحب کے گھر زائرہ کا ہاتھ مانگنے جائیں ۔۔۔۔۔۔
زین دیکھا بھالا لڑکا تھا ۔۔۔آفاق صاحب نے فورا ہاں کر دی
منگنی کی چھوٹی سی رسم کی گیئی جس میں زائرہ کو زین کے نام کی انگھو ٹی پہنا دی گیئی ۔۔۔
سب بہت خوش تھے لیکن ار حم کی والدہ اور زین کو ار حم کی فکر تھی ۔۔۔۔۔
ار حم اٹس ناٹ فیئر ۔۔۔ہم دونوں ساتھ شادی کرینگے یہ طے ہو چکا ہے اور ایسا ہی ہوگا ۔۔۔۔اگر تم ما ن نہیں رہے تو میں مدیحہ کو بولتا ہوں ۔۔اسکی بات تم ما ن لوگے !!!““
"زین میں خود اسی بارے میں بات کرنے والی تھی کے ار حم کو بھی اب شادی کر لینی چا ہۓ ,ار حم اپنی ما ں کو اور پریشا ن مت کرو ۔۔اور شادی کے لئے ما ن جاؤ ۔۔۔““
"تمہیں ما ننا ہی ہوگا ار حم“ شہروز اور زین نے بھی دیا کا ساتھ دیا
یعنی تم سب مجھے قر با نی کا بكرا بنا نے پر تلے ہوۓ ہو اوکے اوکے میں نے ما ن لیا “ ار حم نے ہار مانتے ہوۓ کہا
"میرا بیٹا ما ن گیا اللّه کا شکر ۔۔چٹ منگنی پٹ بیاہ ہی ہوگا کیوں کے اس لڑ کے کا کوئی بھرو سہ نہی اور لڑکی مری کزن کی بیٹی ہے میں آج شام جا کر ہی بات پکی کر کے آتی ہوں ““
"ارے آنٹی آپ بہت فاسٹ جا رہی ہیں گریٹ “زا یا ن نے بھی اپنی موجودگی کا احسا س دلا یا
"چلیں اس موقع پر میں اپنی لائف کے تین سپیشل لوگوں ککے لئے کچھ کہنا چا ہونگی ” دیا بہت پر سکون فیل کر رہی تھی اس نے اپنے جذبات سب سے شئیر کرنے کا سوچا
سب سے پہلے میرے مجاز ی خدا
ملک شہروز ۔۔جن کی وجہ سے میں نے جانا کے محبت کیا ہوتی ہے ۔۔ان کے بغیر میں کچھ بھی نہی
جو ہرگِز نہ چھوڑی جاۓ..
وہ عادت ہو تم جاناں..
اوۓ ہو ۓ سب نے زور و شور سے تالیاں بجا ئیں
بوا ۔۔ہر قدم پر میرا ساتھ دینے دینے والیں ۔۔میری حوصلہ افزا ئ کرنے والی ۔۔میری ماں کے بعد مجھے ما ں کا پیار دینے والی ۔۔۔۔love you bwa
اور اسکے بعد میری نٹ کھٹ سی دوست زا ئرہ جس کی وجہ سے میں نے هنسنا سیکھا ۔۔میں زندگی کی طرف واپس لوٹی
You know what? I Like You!
You know why? Because you are the best.
You know why? In your own simple ways, you make me feel special.
You know when? Since the day we became friends.
" میری تعریف ہو رہی ہے ؛“ زا ئرہ سے مزید خاموش نہی رہا گیا اور بول پڑی ۔۔"اس موقع پر ایک سیلفی بنتی ہے ۔۔چلیں سب سمائل “ اور کیمرے کی آنکھ نے اس حسین منظر کو ہمیشہ کے لئے قید کر لیا ۔۔۔۔۔۔
ختم شد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔