آج تو آپ اپنی تعریف کرنے سے نہیں روک سکتی طلحہ نے انعم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
انعم نظریں جھکا گئی اور کہنے لگی آپ تو میرے محرم ہیں اب آپ کو اجازت ھے
یہ سنتے ہی طلحہ مسکرا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احتشام اپنے والدین کے ساتھ پری کے گھر موجود تھا۔
انکا رشتہ طے ہو گیا تھا
پری بہت زیادہ خوش تھی
اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔
وہ بار بار اللّہ کا شکر ادا کر رہی تھی کیونکہ اسکی دعا قبول ہو گئی تھی
اسکی محبت اسکی محرم بننے جارہی تھی۔
ارحم نے جب یہ سب سنا رنج کے عالم میں باہر چلا گیا تھا
اس پر سکتہ طاری ہو گیا تھا یا اللّہ یہ کیا ہو گیا اسکی آنکھیں پرنم ہو گئی تھی اسکا دل افسردہ ہو گیا تھا۔
میرے رب آپ تو دعا قبول کرنے والے ہیں مگر ایسا کیوں یارب العالمین پری کے ساتھ کچھہ بھی برا مت کرنا یہ کہتا ہوا مسجد کی جانب نماز کے لیے چل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پری اپنی شادی کے دن بہت خوبصورت لگ رہی تھی
سرخ جوڑا اس پر خوب جچ رہا تھا
ہر چیز میچنگ تھی
وہ بالکل پری لگ رہی تھی۔
ارحم کی نظریں رکنے لگی تھی مگر اسنے جھکا لی تھی۔
ارحم نے پری کو دیکھا وہ مسکرا رہی تھی۔
اسے ارحم کو دیکھ کر غصہ بھی نہیں آرہا تھا
کیونکہ احتشام کے ساتھ اسکی شادی ہونے جا رہی تھی بارات آچکی تھی احتشام اور پری کو ایک ساتھ سٹیج پر بٹھایا گیا۔
عریشہ پاس ہی کھڑی تھی اور سارے انتظامات دیکھ رہی تھی۔
پری آج تو آپ بہت خوب صورت لگ رہی ہیں احتشام نے پری کی جانب دیکھتے ہی تعریف کی
میں اس دن کا شدت سے انتظار کر رہا تھا۔
پری یہ سن کر شرما گئی۔
نکاح کی رسم ادا کی گئی اسکے بعد کھانا کھلایا گیا ۔
پری کی شادی میی انعم+طلحہ ،سبیحہ اور احمد بھی توجہ کا مرکز تھے۔
وہ بھی سب میں نمایاں نظر آرہے تھے۔
اگر موجود نہیں تھے خوشی کے موقع پر وہ پری کے بھائی تھے وہ مصروفیات کی وجہ سے آنہیں سکے تھے۔
پری کی اداسی دیکھ کر سبیحہ نے حوصلہ دیا۔
اور کہنے لگی اپنی شادی کے پر مسرت موقع پر دلہن اداس اچھی نہیں لگتی۔
اوکے اپیا پری مسکرانے لگی۔
اچانک احتشام کو کال آئی وہ اٹھ کر چلا گیا پری حیرانی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی
پانچ منٹ بعد احتشام سامنے سے آتا دکھائی دیا۔
کدھر چلے گئے تھے آپ پری نے پوچھا ۔
کہی نہیں بس دوست کی کال تھی انتظامات کا پوچھ رہا تھا احتشام نے جواب دیا۔
تھوڑی دیر بعد رخصتی ہوئی ارحم وہاں موجود نہیں تھا۔
میں خود اپنی لائف پارٹنر کو ڈرائیو کرکے لیکر جاؤں گا احتشام نے خواہش کی۔
سب حیران ہوئے اور خوش بھی کہ کتنا چاہتا ہے پری کو۔
اوکے احتشام بھائی ہمیں کوئی اعتراض نہیں آپ خود لے جا سکتے ہیں عریشہ نے جواب دیا۔
کیسا لگ رہا ہے تمہیں پری احتشام نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
مطلب پری نے پوچھا
آج تو آپ میرے ساتھ رشتے میں بندھ گئی ہیں احتشام نے گاڑی چلاتے ہوئے کہا۔
بہت اچھا احتشام میں نے بہت دعائیں مانگی تھی میری محبت میرا محرم بن جائے۔
احتشام یہ سن کر مسکرا دیا۔
جب گاڑی تھوڑا جنگل کے قریب پہنچی تھی تو احتشام نے گاڑی روک دی۔
احتشام کیا ہوا گاڑی کیوں روک دی۔
پری کو اندھیری رات اور سنسان سڑک سے خوف آنے لگا۔
سامنے سے ایک گاڑی آکر رکی۔
باہر نکلو پری احتشام نے پری کو کہا۔
کیا ہوا احتشام پری نے آہستہ سے پوچھا۔
اب تو نکل ہی آئیں بھابھی جی ایک لڑکے نے دوسری گاڑی سے نکلتے کہا مم مم میں نہیں نکلتی پری خوف زدہ ہوگئی تھی۔
احتشام نے ہاتھ پکڑ کر گاڑی سے کھینچا اور سڑک پر گرا دیا۔
احتشام کیا کر رہے ہو۔
ابھی کیا کیا ہے بھابھی جی ایک لڑکے نے کہا۔
اچانک احتشام کا بدلہ روپ دیکھ کر پری حیران رہ گئی تھی۔
احتشام تم ہو یہ پری نے کہا ہاں میں ہی ہوں پارسا سبحان ۔
احتشام آپ نے میرے ساتھ نکاح کیا ہے آپ اپنی بیوی کی عزت کو پامال نہیں کر سکتے۔
پری کی آنکھوں سے آنسوں چھلک پڑے تھے اس نے روتے ہوئے کہا۔
نکاح ہاہاہا تم تو اس قابل نہیں تھی جو احتشام مرتضیٰ تم سے بات کرتا۔
میں تو تم سے بدلہ لینا چاہتا تھا ۔
کس چیز کا بدلہ پری نے روتے ہوئے پوچھا۔
یاد تم نے تھپڑ مارا تھا۔
ورنہ تم جیسی ہزاروں آگے پیچھے پھرتی ہیں تبھی تمہیں پیار کے چنگل میں پھنسایا۔
میں نے اسی دن سوچ لیا تھا تم سے بدلہ لیکر رہوں گا جو ساری زندگی تم یاد رکھو۔
احتشام نکاح کی لاج رکھ لو تماشا مت بناؤ ۔۔ ہاہا بھابھی آپ کی بھول ہے سب ۔
احتشام تم اتنے گھٹیا نکلو گے مجھے پتا نہیں تھا اللّہ پری نے چیخ کر کہا۔
ارحم سہی کہتا تھا سب آپ گھٹیا انسان ہو پری زور سے چلائی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
میں نے کیوں اندھا یقین کیا کیوں کیا یہ کہتے ہوئے وہ بھاگنے لگی۔
احتشام پکڑو اسکے دوست نے کہا۔
پری ویران سڑک پر دلہن کا لباس پہنے بھاگی جارہی تھی ۔
رات کا اندھیرا تھا اسے پتا نہیں تھا کدھر جا رہی تھی وہ زاروقطار رو رہی تھی اور اللہ کو پکار رہی تھی۔
احتشام اور اسکے دوست اسکے پیچھے بھاگ رہے تھے ۔
اچانک پری کا پاؤں پتھر سے ٹکرا گیا۔
وہ منہ کے بل جا گری۔
احتشام اور اسکے دوست اسکے آگے آگئے تھے۔
وہ آگے بڑھنے لگے تھے۔
دور رہو مجھ سے پری نے چیختے ہوئے کہا۔
ہاہاہا ابھی سے دور بیگم جی احتشام نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
جب انسان پر شیطان حاوی ہوتا ہے تو وہ محرم اور نامحرم کو بھول جاتا ہے
پری نے روتے ہوئے جواب دیا اور پھر بھاگنے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
مگر احتشام کے زوردار تھپڑ سے گر پڑی۔
اب کون بچائے گا تمہیں احتشام نے آگے بڑھتے کہا۔
میرا خدا پری نے درد بھرے لہجے میں کہا۔
ہاہاہا تمہارا خدا ایک لڑکے نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
تم لوگ میرا کچھہ نہیں بگاڑ سکتے۔
ہاہاہا تماری سوچ ایک اور لڑکے نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
پری پھر سے بھاگنے لگی اور کہنے لگی۔۔۔ یا اللّہ مدد۔۔۔۔
آنکھوں سے آنسوں جاری پاؤں میں چھالے بس میرے یارب اور نہیں بھاگا جاتا یارب رحم کر مجھ پر ۔۔ میں جانتی ہوں بہت خطاکار ہوں،میں بہت گناہ گار ہوں یارب آپ تو دل سے نکلی ہر التجا کو قبول کرتے ہیں۔اسی دوران وہی چار لڑکے سامنے آگئے خوف کی وجہ اتنی سردی میں بھی پسینے سے شرابور ہو گئ یا اللّہ مدد فرما پاؤں پتھر سے ٹکرا گیا اوندھے منہ زمین پر گر گئی اب کون بچائے گا تمہیں ہم سے وہ چیخ کر بولی۔وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُزِلُّ مَن تَشَاء
اللّہ
- جسے تو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے تو چاہے ذلیل کرتا ہے... ہاہاہاہا ایک لڑکے کا قہقہہ بلند ہوا تمہاری ساری باتیں بےکار کوئی بچانے نہیں آئے گا میرا اللہ وہ پھر چیخ کر بولی رسی جل گئ بل نہ گیا مزید آگے بڑھتے ہوا بولا خوف طاری ہوتا جا رہا تھا فوراً پڑھنا شروع کر دیا
اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم۔ پناہ مانگتی ہوں اللّہ سے شیطان مردود کی
ہاہاہا کچھ کمال نہیں ہوگا ایک لڑکے نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہابِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحیم ہے
پیچھے ہٹتے ہی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا پڑھے اسے نہیں یاد کب قرآن مجید پڑھا تھا اچانک کسی کے الفاظ یاد آگئے۔۔۔۔
وہ ارحم کے الفاظ تھے۔
پری نے پڑھنا شروع کیا۔
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ(۱) مَلِكِ النَّاسِۙ(۲) اِلٰهِ النَّاسِۙ(۳) مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ﳔ الْخَنَّاسِﭪ(۴) الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِۙ(۵) مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ۠(۶)
تم کہو: میں تمام لوگوں کے رب کی پناہ لیتی ہوں ۔ تمام لوگوں کا بادشاہ ۔ تمام لوگوں کا معبود ۔ باربار وسوسے ڈالنے والے، چھپ جانے والے کے شر سے(پناہ لیتی ہوں )۔ وہ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ جنوں اورانسانوں میں سے۔
ابھی اتنا ہی پڑھنا تھا اچانک گاڑی آکر رکی ارحم گاڑی سے نکالا سب حیران تھے ۔
یا اللہ آپ ہی دعاؤں کو سننے والے ہیں پری نے آسمان کی طرف دیکھتے کہا۔
اور اٹھ کر ارحم کے پیچھے چھپ گئ۔
ہاہاہاہا تمہارا عاشق آگیا احتشام نے ہنستے ہوئے کہا۔
بکواس بند کرو احتشام ارحم چلایا۔
نیک عورتوں پر تہمت نہیں لگاتے۔
چھوڑو پری کو ایک لڑکا آگے بڑھا۔
اگر اپنی جان پیاری ہے جاؤ یہاں سے۔
نہیں جاتا پری کو لیے بنا ارحم نے جواب دیا۔
ارحم آپ کیسے پہنچے یہاں پری نے پوچھا۔
یاد ہے پری جب احتشام کی کال آئی تھی وہ اٹھ کر چلا گیا تھا میں نے اسکی باتیں سن لی تبھی پہنچ گیا ۔
اتنا کمینہ صفت انسان نکلے گا یہ نہیں جانتا تھا۔
اچانک ایک لڑکے نے ارحم کو قابو کر لیا اور دھکا دے دیا
پیچھے سے احتشام نے پری کو کھینچ لیا۔
ارحم نے پتھر اٹھا کر احتشام کو دے مارا اور پری کو اشارہ دیا مٹی اٹھا کر آنکھوں میں ڈال دے ۔
پری نے ایسا ہی کیا دونوں وہاں سے بھاگ نکلے ۔
کافی اندھیرا تھا اور جنگل بھی تھا۔
اچانک انہیں ایک جھونپڑی نظر آئی دونوں اندر چلے گئے اندھیرا تھا ۔
ارحم نے چند لکڑیاں اکٹھی کی اور پتھروں سے آگ جلائی۔
پری ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
پری آج تو ایسے گزار لو صبح ہوتے ہی نکل پڑیں گے۔
ارحم نے پری کو کہا اور سائیڈ پر بیٹھ گیا۔
پری سوچوں میں گم تھی آنکھیں پر نم تھی۔
پارسا اچانک ارحم نے مخاطب کیا۔
اللہ پر چھوڑ دو سب جو لوگ اللّہ پر چھوڑ دیتے ہیں وہ پھر سکون سے رہتے ہیں۔
ہممم سہی پری نے بس اتنا ہی جواب دیا۔
آج اسے پتا چلا تھا انسانوں کے دو چہرے ہوتے ہیں۔
اسکے اندر سے چیخ چیخ کر آواز آرہی تھی کاش میں یقین نہ کرتی کاش ارحم کی بات مان لیتی وہ یہ سوچتے سوچتے سو گئی۔
جب پری کی آنکھ کھلی ارحم نماز میں مشغول تھا۔
پری پہلی بار اسے دیکھ رہی تھی کتنا نورانی چہرہ تھا۔
چہرے پہ بشاشت ارحم شکریہ ،شکریہ ارحم پری دل میں یہی کہہ رہی تھی۔
ارحم نے سلام پھیرا اور پری نے فوراً آنکھیں ن
بند لیں تاکہ ارحم نہ دیکھ لے۔
ارحم نے اللّہ کا شکر ادا کیا پری سلامت تھی۔
بے شک اللّہ تیری بندگی میری زندگی ہے آپ ہی سب کچھ ہو ۔۔
یہ کہتے ہوئے اسے بھی نیند آ گئی تھی ۔
جب سورج کی کرنیں ارحم کے چہرے پر پڑیں اسکی آ نکھ کھل گئی تھی۔
اٹھو پری صبح ہو گئی ارحم نے پری کو اٹھایا ۔
دونوں باہر نکلے سامنے گدھا گاڑی نظر آئی ۔دونوں اس پر بیٹھ کر سڑک پر گئے اور ٹیکسی لیکر گھر پہنچ گئے۔
سب گھر والے پریشان ہو گئے پری کو اس حالت میں دیکھ کر ۔
پری خاموش تھی ارحم نے سب کچھ بتایا۔
سب نے شکریہ ادا کیا ۔
ماما میں نے کمرے میں جانا ہے اچانک پری بولی اوکے جاؤ بیٹا اسکی ماما نے جواب دیا۔
پری نے جاتے ہی لباس تبدیل کیا وضو کیا اور جائے نماز بچھا لی۔
دعا مانگنے لگ گئی۔
اے میرے مولا
دعاؤں کے حصار میں کھڑی ہوں
ہاتھ اٹھائے
سر جھکائے
دامن پھیلائے۔
یہ کہتے پری رو پڑی۔
اللّہ اصل زندگی تو تیری بندگی ہے ۔
میرے مولا مجھے معاف کردے۔
اور آپ کا شکر ادا کرتی ہوں آپ نے فرشتہ صفت انسان بھیج کر میری مدد کی۔
آپ تو رحمان و رحیم ہیں۔
آپ تو سب دعائیں سنتے ہیں۔
اپنے بندوں کو پانچ بار بلاتے ہیں ہم ہی نہیں لوٹتے۔
یہ کہتے ہوئے آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے۔
اور روتے روتے سجدہ میں چلی گئی۔
رات کو اچانک اجالا کی کال آئی ۔
پری بات سنو بولو پری نے کہا ۔
احتشام بھائی کی اور انکے دوستوں کی موت کار حادثے میں ہو گئی ہے۔
پری کی آنکھیں پر نم ہو گئی
اور کال کاٹ دی۔
یا اللہ برے کا انجام برا ہوتا ہے۔
جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے یہ دنیا مکافات عمل ہے ۔
یہ کہتے ہوئے عشاء کی نماز کے لیے وضو کرنے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین ماہ بعد پری ارحم کے کمرے میں دلہن کے لباس میں موجود تھی۔
ارحم کمرے میں داخل ہوا۔
ارحم نے پری کو مخاطب کیا۔
پری آپ کو بات بتاؤ۔
جی پری نے نیچے نظریں کیے جواب دیا۔
آپ کو دعاؤں میں مانگا تھا تاکہ آپ محرم بن جائیں۔
ایک بات کہوں ارحم ۔
آپ نے بولا تھا نیک لوگوں کو ہمیشہ نیک لوگ ملتے ہیں آپ مجھے مل گئے۔
چلو پری شکرانے کے نوافل ادا کرتے ہیں بے شک اللّہ کی بندگی ہی زندگی ہے یہ کہہ کر وضو کرنے چل دیئے۔
اور ایک نئی صبح انکا استقبال کر رہی تھی۔۔۔۔۔
ختم شدہ۔۔