اجالا نے دروازہ کھولا تو سامنے اماں جی کھڑی تھی۔جوہاسٹل میں ملازمہ تھی۔
جی کہیے اماں جی!
آپ دونوں کو کوئی لینے آیا ہے۔ گارڈنے آکر اطلاع دی ہے۔
آپ لوگ جلدی آجائیں۔
آپ جا کر کہہ دیں ہم آرہے ہیں۔
یہ کہہ کر دروازہ بند کردیا۔
سبز رنگ کے فراک،گولڈن چوڑی دار پاجامہ،شانوں پر سبز دوپٹہ،کیچر کیے ہوئے بال،کانوں میں جھمکے،ہلکا سا میک اپ کیے ہوئے اجالا بہت پیاری لگ رہی تھی۔
چلو اجالا اب کتنی دیر تک خود کو آئینے میں کھڑی دیکھتی رہو گی۔
پری نے اجالا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو آئینے میں خود کو سراہا رہی تھی۔
اچھا بھئ چلتے ہیں۔آپ کو تو اپنے شہزادے کی فکر ہے۔
بیچارہ کب سے دھوپ میں کھڑاانتظار کر رہا ہے۔
بےوقوف لڑکی کبھی تو سوچ کر بولا کرو۔
ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے بولی۔
اوکے میڈم پری جی۔
چلو چلتے ہیں۔پھر دونوں گیٹ کی جانب چل پڑی۔
میڈم سعدیہ ارحم کو لائبریری میں انویٹیشن کارڈ دینی آئی تھی۔
سر یہ لیجئے آپ کا کارڈ۔
کس لئے ہے یہ کارڈ۔
ارحم نے پوچھا۔
جی آج ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے تقریب ہماری یونیورسٹی میں منعقد ہونے جا رہی ہے۔
چ
جس میں غریب اور یتیم بچوں کو تحائف دئیے جائیں گے اور فنڈ جمع کیا جائے گا۔
اس لیے آپ کو دعوت دی جاتی ہے۔
اوکے میڈم میں آجاؤں گا۔
ارحم یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
ارحم نے ایک سیکنڈ کےلئے بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔
یہی بات میڈم سعدیہ کے دل میں گھر کر گئی تھی۔
پری اور اجالا جیسے ہی گیٹ پر پہنچی۔
احتشام کی نظر پری پر پڑی۔
اسکی نظریں جیسے ٹھہر سی گئی ۔
دل کی دھڑکن جیسے رک سی گئی ہو۔
اجالا نے احتشام کے آگے آکر ہاتھ سے چٹکی بجائی۔
اور کہنے لگی۔
کن یادوں میں گم بیٹھے ہو کسکی یاد ستائے ہاہاہا
احتشام تھوڑا سا جھجک گیا۔
کہیں نہیں بس آپ لوگوں کا انتظار کر رہا تھا۔
اتنی دیر لگا دی تقریب بھی شروع ہونے والی ہوگی۔
بےفکر رہیے آپ احتشام بھائی!
اجالا نے پھر بات کاٹتے ہوئے کہا۔
آپ کا ہوائی جہاز وقت پر پہنچا دے گا ہاہاہا
سہی کہا نا پری.
ہاں بھئی تم تو ہمیشہ سہی کہتی ہو پری نے جواب دیا۔
آداب آداب پری اجالا نے پھر جواب دیا۔
چلو اب اجالا ۔
اجالا گاڑی کی طرف جانے لگی۔
احتشام نے پیچھے سے آکر پری کے قریب ہو کر کان کے قریب ہلکی سی آواز میں کہا۔
""تیری ہر ادا پہ میں نثار
تیری ہر مسکراہٹ کا میں شکار"""
"You are looking so beautiful Pari"
یہ سن کر پری جھینپ سی گئی۔
اور خاموشی سے گاڑی میں جاکر بیٹھ گئی۔
یوں تینوں Lahore Garrison University کی جانب گامزن ہوئے۔
اسلام علیکم! ممانی جان۔
طلحہ نے اپنے چھوٹے ماموں سلمان کے گھر داخل ہوتے ہی سلام کیا۔
وعلیکم السلام! اکیلے آئے ہو بیٹا ۔
جی ممانی۔
گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا۔
سوچا آپ لوگوں کی خیریت دریافت کرتا جاؤں۔
ا چھی بات ہے بیٹا جی۔
باقی سب کدھر ہیں ممانی۔
زین کالج گیا ہے۔
اور ارحم یونیورسٹی گیا ہے۔
یونیورسٹی؟؟
بیٹا ارحم کی جاب ہوگئی ہے۔اسکا آج پہلا دن ہے۔
مبارک ہو ممانی۔
آج تو چائے پی کر ہی جاؤں گا اس خوشی میں۔
طلحہ نے مزید بات کو بڑھاتے ہوئے کہا۔
کیوں نہیں بیٹا!
میں ابھی انعم کو چائے بنانے کا کہتی ہوں۔
طلحہ کی خوشی انعم کا نام سننے کے بعد مزید بڑھ گئی۔
کیونکہ اس کی ایک جھلک دیکھنے اور بات کرنے ہی وہ یہاں آیا تھا۔
"""اپنے خیالوں میں ایسے بسا لوں تجھے
سوچوں تو تجھے سوچوں ڈھونڈں تو تجھے ڈھونڈں""""
انعم ادھر آؤ بیٹا!
حمیدہ سلمان نے انعم کو آ واز دی۔
جی آئی.
اسلام علیکم! انعم نے سب سے پہلے باادب لہجے میں آکر سلام کیا۔
وعلیکم السلام! طلحہ نے آہستہ سے جواب دیا۔
جی امی!
بیٹا طلحہ کےلئے چائے بنا دو۔
ٹھیک ہے امی ابھی بنا دیتی ہوں یہ کہہ کر وہ کچن میں چلی گئی۔
طلحہ کی بے چینی بڑھنے لگ گئی۔
کہ وہ کیسے بات کرے انعم سے جاکر۔
اتنے میں حمیدہ سلمان کو بیگم فریال کی ملازمہ بلانے آگئ۔
میں ابھی آتی ہوں طلحہ بیٹا یہ کہہ حمیدہ سلمان چلی گئی۔
طلحہ موقع غنیمت جانا اور کچن میں چلا گیا۔
آپ یہاں!
پلیز جائیے یہاں سے!
انعم نے طلحہ کو دیکھتے ہی کہا۔
اگر کسی نے دیکھ لیا کوئی پتا نہیں کیا سوچے گا۔
میں نہیں چاہتی کوئی میرے بارے میں کبھی غلط سوچے۔
آپ جائیے پلیز۔
کوئی نہیں دیکھتا بس دو منٹ بات کرنی ہے۔
طلحہ نے جواب دیا۔
جلدی کہیے جو کہنا ہے انعم چائے کی پتیلی چولہے پر رکھتے ہوئے بولی۔
انعم میں آپ کو پسند کرتا ہوں۔
انعم نے حیرانی سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو!
کسی کو پسند کرنا گناہ تھوڑی ہے۔
لیکن آپ کو یہ بات مجھ سے کرنے کی بجائے میرے والدین سے کرنی چاہیے تھی۔
جو فیصلہ میرے والدین کا ہوگا وہی مجھے قبول ہوگا۔
کیونکہ والدین کبھی بھی غلط فیصلہ نہیں کرتے۔ انعم نے طلحہ کو جواب دیا۔
ہممم سہی طلحہ نے بس اتنا ہی کہا۔
یہ بات میرے لیے ناپسندیدہ ہے انعم نے مزید جواب دیا۔
ٹھیک ہےطلحہ نے جواب دیا۔
اب آپ جاسکتے ہیں کچن سے۔۔
انعم یہ کہہ کر چائے بنانے لگ گئی۔
طلحہ خاموشی سے آکر ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھ گیا۔
اتنے میں حمیدہ سلمان بھی آ گئ تھی اور انعم بھی چائے لے آئی تھی۔
طلحہ نے چائے پی کر خدا حافظ کہا اور باہر کی جانب چل پڑا"""
پری ،اجالااور احتشام Lahore Garrison University
کے باہر پہنچے۔
وہاں پہلے سے ہی گاڑیوں کی لمبی قطاریں تھی۔
کافی لوگ آئے ہیں اجالا نے گاڑی سے نکلتے ہوئے کہا۔
آپ لوگ چلئیے۔
میں گاڑی پارک کرکے آتا ہوں یہ کہہ کر احتشام گاڑی پارک چلنے گیا۔
پری اور اجالا نشستوں پر جا کر بیٹھ گئی۔
احتشام بھی آکر انکے ساتھ بیٹھ گیا۔
تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔
"
اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم۔
پناہ مانگتا ہوں اللّہ سے شیطان مردود کی ۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
شروع اللّہ کے نام سے جو مہربان رحم کرنے والا ہے۔"""
پری نے حیران کن نظروں سے دیکھا۔
کیونکہ آواز بہت جانی پہچانی تھی۔
تلاوت قرآن پاک سے تمام حال میں خاموشی چھا گئی تھی۔
اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ(۲)
"رحمٰن نے قرآن سکھا یا"
جیسے تلاوت قرآن پاک شروع کی پری کی بے چینی بڑھ گئی۔
چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
ارحم! پری کی منہ سے اچانک نکلا۔
یہ ادھر کہاں!
کون ارحم ساتھ بیٹھی اجالا نے پوچھا۔
میرا کزن ارحم جو تلاوت کر رہا۔
اچھا تمہیں کیا ہوگیا پسینے کیوں آرہے؟
اجالا نے پری کی حالت دیکھ کر پوچھا ۔
کچھ نہیں بس پری یہ کہہ کر خاموش ہوگئی۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ(۳) عَلَّمَهُ الْبَیَانَ(۴)
"انسان کو پیدا کیا۔اسے بیان سکھایا"
اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍۙ (۵)
"سورج اور چاند حساب سے ہیں"
وَّ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ(۶)
"اور بغیر تنے والی نباتات اور درخت سجدہ کرتے ہیں"
کتنی پیاری آواز ہے۔
بہت بااثر اور سکون سا ہے آواز میں۔
میڈم سعدیہ تعریف کیے بنا نہ رہ سکی۔
اس پر ایک سحر طاری ہوگیا تھا۔
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸)
" اور آسمان کو اللّہ نے بلند کیا۔اور ترازو رکھو کہ تولنے میں نا انصافی نا کرو"
وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ(۹)
"اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ"
صداق اللہ العظیم•
جیسے ہی ارحم نے تلاوت قرآن پاک کا اختتام کیا۔
میڈم سعدیہ نے اپنی آنکھیں کھولی۔
ورنہ وہ تلاوتِ قرآنِ پاک اور ارحم کی آواز میں کھو گئی تھی۔
پھر ویلفیئر سوسائٹی کے عہدے دار محمد جنید نے آکر اپنی تقریر کا آغاز کیا۔
اللّہ یہ ارحم ادھر کیسے..
پری نے سوچتے ہوئے کہا۔
پری اس بات سے بے خبر تھی کہ ارحم کہ ارحم کی Lahore Garrison University میں پروفیسر کی حیثیت سے جاب ہوگئی تھی۔
پری کو ارحم پر بہت غصہ تھا۔
اسکا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ چلی جاتی۔
ارحم کی کہی باتیں وہ ابھی تک نہیں بھلا پائی تھی۔