پچھلے دو گھنٹے سے ٹیرس میں بیٹھا وہ بیسیؤں سگریٹ پھونک چکا تھا ۔ ایمان کی سسکیاں اس کے کانوں میں پگھلے سیسے کی طرح جا رہی تھی۔
فجر کے وقت احمر کمرے میں آیا تو ایمان نڈھال پڑی تھی۔ اسکا چہرہ بخار سے سرخ تھا۔ اسکے تپتے ماتھے کو احمر نے چھوا اور پھر اسے بمشکل بخار کی دوائی دے کر سلایا تھا۔ اگلے چند گھنٹوں میں اسکا بخار اتر چکا تھا مگر بے بسی نے احمر کو جکڑ لیا تھا۔
میں اپنے کئیے پر شرمندہ ہوں ایمان، تمھارا اس سب میں کوئی قصور نہ تھا۔ احمر نے تاسف سے کہا
پچھلے ایک ہفتے میں ان دونوں کے درمیان ہونے والی شائد یہ پہلی بات تھی۔
ایمان نے سوالیہ نظروں سے احمر کو دیکھا۔
کیا اس بند کمرے میں میرے کردار پہ اٹھے سوال پلٹ جائیں گیں؟ کیا میرے پیرنٹس اس رسوائی کو بھول پائیں گے؟ ایمان نے تلخی سے کہا۔
میں پاک دامن تھی مگر رسوائی میرا مقدر ٹہری اور آپ گنہگار ہو کر بھی معتبر بنے رہے۔
ایمان نے زخمی نظروں سے احمر کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
اور یہ سچ تھا احمر کے پاس اسکی کسی بات کا جواب نہیں تھا۔
احمر کو لگتا تھا وہ اپنے دل کی بات ایمان کو کبھی نہیں کہہ سکے گا۔
ایمان مجھے افسوس ہے ۔ میں نے اس نہج پہ نہیں سوچا تھا۔ احمر نے پچھتاوے سے کہا
احمر میں نے اپنے ڈیڈا کی بے بسی اور انکا جھکا سر دیکھا ہے۔ چور نظروں سے وہ سکندر انکل کو میرے لاپتہ ہونے کی صفائیاں دے رہے تھے۔ میں نے انہیں کبھی اتنا کمزور نہیں دیکھا تھا۔ میری وجہ سے ان کے کندھے جھک گئے ۔ آنسوؤں کی لڑیاں اب اسکے رخساروں پہ در آئیں تھیں۔
مجھ سے انکا جھکا سر اور آنکھوں کی شرمندگی نہیں دیکھی گئی تھی۔ میں نے پہلی بار انکے کسی فیصلے کو رد کیا ۔ میں نے خود جہانزیب سے خلع لیا ۔ میں اپنے ڈیڈا کو کسی کے آگے جھکتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے بھیگے رخساروں کو صاف کرتے ہوئے ایمان نے کہا۔
احمر کو ایمان کی اس بات نے حیران کر دیا تھا۔ اس سے پہلے وہ یہی سمجھ رہا تھا جہانزیب نے بدگمانی میں ایمان کو طلاق دی ہے۔
پچھلے دس منٹ سے بیڈ کی دیوار پہ نظریں جمائے وہ پینٹنگ کو دیکھ رہی تھی۔ پینٹنگ میں محو ایمان کو اسکی پشت پہ کھڑا احمر بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
ایمان کے لئے احمر کے گھر میں وہی دلچسپیاں تھیں جو اسکے اپنے گھر میں تھیں۔اس کمرے میں اسے اپنے کمرے کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ فرنچ ونڈو سے لان پہ نظر پڑتی تو اپنے کمرے سے اپنے لان کا منظر یاد آتا۔ احمر کی میوزک کلیکشن اور لائبریری ایمان کو حیران کرتی تھی۔
احمر اور ایمان کی پسند میں حیرت انگیز مماثلت تھی۔ اسکی آنکھوں کے بعد یہ وہ دوسری بات تھی جو ایمان کے دل میں احمر کے لئے کشش کا باعث تھی۔ لیکن ان باتوں کا اظہار احمر سے کرنا جس نے اس پہ ترس کھا کر اور اپنی غلطی کو سدھارنے کیلئے اس سے شادی کی تھی۔ ان باتوں سے احمر کو بھلا کیا مطلب ہو سکتا تھا۔ اس نے تو ایمان پہ احسان عظیم کیا تھا۔ اپنی غلطی کا ازالہ کیا تھا اور اپنے پچھتاوں کو کم کرنے کیلئے اس نے ایمان کو اپنی زندگی میں شامل کیا تھا۔ ایمان اپنی بے بسی پہ مسکرا دیتی۔
لیکن آخر احمر نے مجھے اغواء کیا ہی کیوں تھا۔ وہ اکثر سوچتی۔
احمر کا زیادہ وقت آفس اور فیکٹری میں گزرتا اور ایمان کو یہ سب غنیمت لگتا۔ اسے احمر کو سامنے دیکھ کر ہمیشہ لگتا کہیں اسکی بے خودی اسکے چہرے سے عیاں نہ ہو جائے۔
آج دوپہر احمر ، توفیق کمال کے آفس آیا تھا جہاں اس نے اقبال جرم کیا تھا کہ اپنے اور عمر کے اختلافات سے خائف ہو کر اس نے ایمان کو اس رات اغواء کر لیا تھا۔ وہ اپنے کئے پر شرمندہ تھا اور توفیق کمال سے معذرت کر رہا تھا۔ توفیق کمال اور احمر کی باتیں عمر سن چکا تھا اور اب توفیق کمال کے سامنے بیٹھا تھا جو اس سے پوچھ رہے تھے کہ ایسے کونسے اختلافات تھے جس نے احمر جیسے بردبار انسان کو اس مجرمانہ کاروائی کیلئے اکسایا۔ جسکا خمیازہ ایمان نے بھگتا اور عمر کمال سوچ رہا تھا کاش وہ اپنی حریص فطرت پہ قابو رکھتا تو آج اسکے خاندان کو وہ سب نہ دیکھنا پڑتا جو انہوں نے پچھلے چند ماہ میں فیس کیا۔
آج یوم حساب تھا۔ عمر اپنا تجزیہ کرنے بیٹھا تو ضمیر کے آئینے میں کتنا بھیانک چہرہ ابھرا تھا۔
اسکول کے وہ دو بہترین دوست ــــ یا پھر عمر کا بہترین دوست احمر اور عمرـــ احمر کا بد ترین دشمن۔ کب ان دونوں کی دوستی رقابت میں بدلی عمر کو پتا ہی نہیں چلا تھا۔ پڑھائی میں عمر کسی طرح احمر سے کم نہ تھا مگر کچھ تھا احمر میں جو وہ ہر جگہ بازی لے جاتا تھا۔ اسکی تخلیقی صلاحیتیں بہر صورت عمر سے منفرد تھیں۔ اسکی اسائینمنٹ، اسکے آئیڈیاز اتنے الگ ہوتے کہ اساتذہ کی ستائش احمر کے حصے میں آتی۔ عمر کو یہ سب اچھا نہ لگتا۔ آہستہ آہستہ یہ جذبہ نفرت میں بدل گیا تھا۔ اور پھر اس نے احمر کے کام بگاڑنا شروع کر دئیے۔ احمر اس سے ڈسکس کرتا، اپنا دوست سمجھ کے اپنی باتیں شئیر کرتا اور وہ اسکو کاپی کر لیتا۔ یوں اسکا مقصد صرف احمر کا کام بگاڑنا ہوتا۔ لیکن احمر نے کبھی اس سے کوئی شکوہ نہیں کیا تھا۔ اس میں درگزر بہت تھی۔ وہ سب بھول کر عمر کے ساتھ پہلے جیسی دوستی قائم رکھتا اور عمر کو احمر کا یہ انداز اور چڑا جاتا۔ اس دن ڈرامہ آڈیشن میں احمر کے آنے کا مطلب میں کریکٹر اس کا تھا اور عمر کو ہر حال میں اس پلے میں لیڈ رول لینا تھا۔ اسے معلوم تھا اسکول کی ڈرامیٹک سوسائٹی کے قوانین سخت ہیں اور احمر کیلئے بھی ان میں کوئی گنجائش نہیں ہو سکے گی۔جھوٹ بول کر اس نے احمر سے اس دن وہ لیڈ رول چھین لیا تھا مگر اپنا سب سے بہترین دوست وہ ہمیشہ کیلئے گنوا چکا تھا۔ اس واقعے کے بعد احمر نے عمر سے کبھی بات نہیں کی تھی یہاں تک کہ اس نے جلد ہی اسکول چھوڑ دیا تھا۔ سننے میں آیا وہ یورپ چلا گیا ہے۔ لیکن عمر کو اس کی چنداں پرواہ نہ تھی۔ بلکہ دل کے کسی کونے میں احمر کا سامنا کرتے جو جھجک محسوس ہوتی تھی اب اس سے بھی نجات مل گئی تھی۔ عمر نے احمر کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ وہ بھول گیا تھا کبھی احمر جاوید اسکا دوست تھا۔لیکن اتنے سالوں بعد ایک بار پھر اسکا سامنا احمر سے ہو گیا تھا۔ ایک بار پھر احمر اسکے راستے میں آگیا تھا۔ وہ ان دنوں اپنے لئیے نئی فیکٹری پلان کر رہا تھا۔ توفیق کمال نے اسے پوری آزادی دی تھی کہ وہ اس معاملے میں سرمائے کی پرواہ کئے بغیر اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرے۔ اس سے پہلے وہ لوگ ڈیزائینر لان مارکیٹ میں سپلائی کر رہے تھے لیکن عمر چاہتا تھا کہ الگ یونٹ میں کڑھائی اور چکن کی نئی برانڈ تیار ہو اور جلد ہی اسے مارکیٹ میں متعارف کرایا جائے۔زمین وہ پسند کر چکا تھا اور اسکی لوکیشن اور رقبہ عمر کی فیکٹری کےلئے آئیڈیل تھا مگر اسےم پراپرٹی ڈیلر نے اسے اس زمین کے سودے کی اڑتی اڑتی خبر دی تھی۔ اپنے پراجیکٹ کے پہلے مرحلے میں ناکامی ـــــ عمر کو یہ ناکامی منظور نہ تھی۔ وہ تقدیر کو تدبیر سے بدلنے کا قائل تھا۔ اپنے ذرائع سے وہ مالکان کا پتا لگا چکا تھا اور اب تو اسے یہ بھی پتا چل چکا تھا کے خریدار احمر جاوید ہے۔ اتنے سالوں بعد ایک بار پھر احمر جاوید اسے ہرانے آ گیا تھا اور اس بار بھی اسے احمر سے ہارنا نہیں تھا۔ احسن قریشی کسی زمانے میں اسکا کالج فیلو تھا، یہ پراپرٹی انہی کی تھی اور اب وقت تھا ان تعلقات کے صحیح استعمال کا ۔ حالانکہ اسکے والد ٹوکن لینے کے بعد اس سودے کی واپسی کے لئے تیار نہ تھے اور توفیق کمال نے بھی عمر کو سختی سے منع کیا تھا کہ وہ اس سودے میں اپنی ٹانگ نہ پھنسائے لیکن عمر کیلئے یہ ڈیل اب جنگ میں بدل چکی تھی۔ اس نے احسن قریشی کو شیشے میں اتار لیا تھا اور پھر زمیں کی زیادہ قیمت کے ساتھ اپنی نئی فیکٹری میں شئیرز کی آفر کر کے وہ اس جنگ کا فیصلہ اپنے حق میں کروا چکا تھا۔ انا کی جنگ کا نتیجہ اس نے اپنے حق میں کروا کر سوچا تھا بازی وہ جیت چکا ہے مگر یہ اسکی غلط فہمی ۔ فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا۔اور وہ فیصلہ اتنا بھیانک ہو گا اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
ابھی ابھی وہ احمر سے ملنے آیا تھا اور اپنے تمام رویوں کی معافی مانگ رہا تھا ۔ وہ دونوں اسوقت احمر کی اسٹڈی میں بیٹھے تھے۔
مجھے معاف کر دینا احمر ۔ میری حاسدانہ فطرت نے مجھ سے میرے بہترین دوست کو جدا کر دیا اور میری غلطیوں کی سزا میری جان سے عزیز بہن نے بھگتی۔ آج جب اپنا احتساب کیا تھا تو اقبال جرم میں کیسی شرم ۔ عمر کمال کے ضمیر کی ملامت نے اسے احمر کے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔
نہیں دوست شرمندہ تو میں ہوں۔ اتنا بڑا قدم اٹھا لیا میں نے ، شائد اسی لئے غصے کو حرام قرار دیا گیا کہ یہ انسان کی ہر اچھائی پہ حاوی ہو جاتا ہے۔ میرے ایک غلط قدم کا خسارہ تمھارے پورے خاندان نے بھگتا۔ احمر نے تاسف سے کہا ۔شائد آج پچھتاؤں کا دن تھا۔
تم کیوں شرمندہ ہو احمر ؟ تم نے تو آج بھی اپنا بڑا پن ثابت کیا ہےاپنے گناہ کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔ میری بہن سے شادی کر کے تم نے ہم پہ جو احسان کیا ہے اس کے لئے میں تمھارا شکرگزار ہوں۔عمر نے جذباتی ہو کر کہا
احسان ؟
کفارہ ؟
نہیں عمر کمال۔ میں نے کوئی احسان نہیں کیاہے اور نہ ہی اپنی غلطی کا ازالہ کیا ہے۔ ایمان سے شادی میں نے کسی پچھتاوے یا افسوس میں آکر نہیں بلکہ میں ایمان سے شدید محبت کرتا ہوں۔ اس دن جب میں نے ایمان کو روتے دیکھا تو اسوقت اپنےجذبوں کو میں کوئی نام نہیں دے سکا تھا مگر پھر مجھے احساس ہوا میں ایمان کو چاہنے لگا ہوں۔ میں نے ممی کو ایمان کے لئے پرپوزل لیجانے کا کہا بھی تھا مگر انہوں نے بتایا کہہ ایمان تو کافی سالوں سے جہانزیب سے منسوب ہے۔ میں اپنی خواہش سے دستبردار ہو گیا لیکن جب میں نے یہ سنا کہ ایمان اور جہانزیب کی علیحدگی ہو چکی ہے تو میں خود کو روک نہیں پایا۔احمر روانی میں عمر سے کہہ رہا تھا
میری مانو خوش قسمت ہے جسے تم جیسا بہترین محبت کرنے والا ہمسفر ملا ہے۔ عمر نے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
مانو؟ احمر نے نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
اوہ ہاں۔ میں ایمان کو پیار سے مانو کہتا ہوں۔ یہ بات بتاتے عمر کی آنکھوں میں محبت کے رنگ نمایاں تھے۔
سویٹ نیم۔احمر نے ہنستے ہوئے کہا۔
اور عمر کے آنے کی خبر پا کر اسٹڈی کا دروازہ کھولتی ایمان ان دونوں کی باتیں سن کر الٹے قدموں لوٹ گئی تھی۔
احمر کے لفظوں نے کتنا حسین انکشاف کیا تھا۔ وہ تو یہی سمجھ رہی تھی کہ احمر نے پچھتاوے میں اس سے شادی کی ہے۔ اس پہ ترس کھا کر اسے اپنایا ہے۔وہ جو پور پور اسکے عشق میں ڈوبی تھی آج یہ جان کر وہ دل کے اس سفر میں تنہا نہیں اس نے دل میں سکون اترتا محسوس کیا تھا۔ احمر کے جذبے احسان نہیں ، محبت تھے۔ احمر کو کیا پتا ایمان اسے کتنا چاہتی تھی۔ اسکی آنکھوں کے عشق میں کتنا تڑپی تھی وہ۔ اسکے سپنوں نے اسے کتنا رلایا تھا۔ وہ ایمان کی دھڑکنوں میں شامل تھا اور آج وہ کہہ رہا تھا اسے ایمان سے محبت ہے۔
لیکن یہ بات میں احمر سے کیسے کہوں؟ میں تو اس سے نظر ملا کے بات بھی نہیں کر پاتی ہے۔ اس نے سوچا۔
رائل بلیو اور کاسنی رنگ کا گھیردار انگرکھا۔ اس پہ گولڈن نفیس کام ۔ ٹخنوں تک آتی قمیض کے ساتھ نیلا شرارہ پہنے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنی تیاری کو فائینل ٹچ دے رہی تھی۔اپنی راج ہنس جیسی گردن میں گولڈ کا قیمتی نیکلس پہننے کے بعد اس نے ایک بھرپور خود پہ ڈالی۔ مناسب میک اپ میں اسکا سراپا کیا خوب لگ رہا تھا۔ مگر اگلے ہی پل اس نےاپنی نظریں جھکا لیں۔ آئینے میں اسکے عکس کے ساتھ احمر بھی تھا۔
ایمان کو وارفتہ نگاہوں سے دیکھتا وہ اسکے پیچھے کھڑا تھا ایمان کے دل میں ہلچل مچا رھا تھا۔ آئینے میں بھی وہ اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے کترا گئی۔
احمر کے کزن ایان کی شادی تھی اور وہ دونوں اسی شادی میں شرکت کے لئے جا رہے تھے۔ امیرہ اور جاوید حسن تو پہلے ہی شیراز کے ساتھ جا چکے تھے اور اب احمر ، ایمان کو لے کر وہاں جانے والا تھا۔
تم نے چوری کب سیکھی؟
آئینے میں ایمان کو دیکھتے، بازو سینے پہ باندھے استحقاق بھری نظروں سے دیکھتا اسکے اتنے قریب تھا کہ اگر وہ پیچھے مڑتی تو اسکا سر اس کے سینے سے جا ٹکراتا۔ وہ پیچھے نہیں مڑی تھی۔ اس نے آئینے میں سوالیہ نگاہوں سے احمر کے عکس کو دیکھا۔
پہلےمیرا دل چرا لیا اور آج میری پسندیدہ پینٹنگ کے سب رنگ اس حسین سراپے میں قید کر لئے ہیں ۔ دیکھو تو سٹاری نائٹ کیسی پھیکی لگ رہی ہے۔ احمر نے دیوار پہ لگے فریم کی طرف اشارہ کرتے شرارت سے کہا۔
دل کی دھڑکنوں میں کہیں اتھل پتھل ہوئی تھی۔ الفاظ تھے کہ جادو ایمان کو لگا اس سے پہلے اسے کسی نے اتنے حسین لفظوں میں نہیں سراہا تھا۔ پلکوں کی جالیاں گرائے وہ ہولے سے مسکرائی اور احمر کو اس مسکراہٹ میں بہار کے سب رنگ نظر آئے تھے۔
رنگ میرے جیون میں تم نے بھرے سجنا
مانگ بھری تاروں سے پھولوں بھرا انگنا
گاڑی میں مدھم آواز میں سی ڈی پلئیر پہ گیت بج رہا تھا اور ایمان کے دل میں جلترنگ ہو رہی تھی۔
پریت کی اک ڈوری سے تم نے مجھے باندھا
ڈور کبھی ٹوٹے نہ چھوٹے کبھی سنگ نہ
احمر کا ہاتھ سی ڈی پلئیر کی طرف بڑھا تھا۔ ایمان نے فورا اس کے ہاتھ کو تھام لیا ۔
اسے لگا احمر گانا بدلنے لگا ہے حالانکہ وہ آواز بڑھانا چاہتا تھا۔
یہ گھر ہے تمھارا ، تم دل میں ہی رہنا۔
ایمان کی آنکھوں کی میں دیکھتے احمر نے اپنا ہاتھ سی ڈی پلئیر سے ہٹا لیا۔
ایک بات پوچھوں ایمان ــــ سچ بولو گی۔ ڈرائیو کرتے احمر نے اچانک کہا۔
اسکی نظریں سامنے تھیں اور وہ پوری توجہ سے ڈرائیو کر رہا تھا۔
جی-ایمان نے رخ موڑ کر کہا۔
تمھیں مجھ سے محبت ہے؟ احمر نے کیسا سیدھا سوال کیا تھا۔
تمہیں کیا لگتا ہے۔ ایمان نے سادگی سے کہا۔ وہ اسوقت اپنے ناخنوں پہ لگی کوٹیکس کو دیکھ رہی تھی۔
مجھے لگتا ہے تم بھی مجھے پسند کرتی ہو۔ احمر نے کہا ۔ اسکی نگاہیں اب بھی سامنے تھیں
ٹھیک لگتا ہے۔ ایمان مختصراً بولی۔ دھیان اب بھی ہاتھوں پہ تھا۔
اچھا یہ بتاؤ تم مجھے دیکھ کر اس دن اتنا رو کیوں رہی تھی؟ کیا تمہیں مجھ سے خوف آرہا تھا۔ احمر نے اس رات کے حوالے سے پوچھا۔
تمہیں نہیں میں تمہاری آنکھوں کو دیکھ کر رو رہی تھی۔ ایمان نے گردن موڑ کر بائیں بیٹھے احمر کو دیکھا
کیا اتنی خوفناک آنکھیں ہیں میری کہ تم ڈر کر رونے لگی۔ احمر نے مسکراتے ہوئے ایمان کی بات سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
نہیں۔ ایمان نے سر ہلایا۔ اتنی پر کشش آنکھیں ہیں تمہاری کہ میں خود سے ڈر گئی تھی۔ ایمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
رئیلی؟ اور تم پہ یہ انکشاف اس اغواء والی رات ہوا۔ تم اپنے اغواء سے خوفزدہ ہونے کے بجائے میری آنکھوں سے امپریس ہو رہی تھی۔ احمر نے برجستہ کہا۔
یہ انکشاف تو مجھ پہ بہت پہلے ہو چکا تھا احمر۔ اسوقت جب میں تم سے کبھی ملی بھی نہیں تھی۔ جب پہلی بار میں نے تمھاری آنکھیں اپنے خواب میں دیکھیں تھیں۔ مجھے تو تب ہی پتا چلا گیا تھا کہ میں تمھاری آنکھوں سے عشق کرتی ہوں۔ ایمان نے اعتماد سے کہا
احمر نے چونک کر اسے دیکھا۔
میں پچھلے ایک سال سے ایک خواب اکثر دیکھ رہی تھی جس میں تمھاری آنکھیں، پیشانی اور اس پہ بکھرے بال مجھے واضح نظر آتے تھے۔ تم اسے میری فینٹیسی سمجھو، میرا آئیڈئلزم یا پھر میری چھٹی حس۔ لیکن مجھے اپنا یہ خواب کبھی خواب نہیں لگا تھا۔ مجھے خواب یاد نہیں رہتے۔ اس خواب سے پہلے اور اسکے بعد میں نے کوئی بھی خواب اتنی جزئیات سے یاد نہیں رکھا۔ نہ ہو مجھے یاد ہے میں نے کوئی خواب کبھی دوبارہ دیکھا ہو۔ مجھے خواب میں تمھاری آنکھیں دیکھنا اچھا لگتا تھا۔ میں کب تم سے محبت کرنے لگی میں نہیں جانتی مگر اس رات جب میں نے تمہیں اپنے سامنے دیکھا تو ایک لمحے میں تمہاری آنکھوں کو پہچان لیا تھا۔ یہ آنکھیں میرا عشق خاص ہیں۔ انہیں میں کیسے فراموش کر دیتی۔ اس رات میں نے یہ تو سوچا ہی نہیں تم ہو کون۔ میں تو بس اس لئے رو رہی تھی کہ میرا خواب حقیقت بن کر سامنے بیٹھا ہے اور میں کتنی بے بس ہوں جو نہ اسے پا سکتی ہوں نہ ہی بتا سکتی ہوں۔ ایمان نے شروع سے آخر تک سب کہہ دیا تھا۔
اور میں اب تک حیران تھا تم نے مجھے شادی کی رات پہچانا کیسے۔احمر نے مسکراتے ہوئے کہا اور اسکا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا تھا۔
تم نے مجھے معاف کر دیا نہ ایمان؟ احمر اس سے پوچھ رہا تھا
میرے دل میں اپنے لئے تو تم سے کوئی گلہ تھا ہی نہیں احمر۔ میں تو اپنی فیملی کی وجہ سے ڈسٹرب تھی مگر تم نے ڈیڈا اور عمر بھائی کو سب بتا کر میرا یہ گلہ بھی ختم کر دیا۔ ایمان نے اپنے ہاتھ کو اسکے احمر کے ہاتھ مین دیکھ کر کہا۔ وہ چاہتی تھی احمر یہ ہاتھ کبھی نہ چھوڑے۔
سبزے کے قالینوں میں گھری سرمئی پتھروں سے بنی عالیشان عمارت۔ وسیع دالانوں سے گزرتے سیڑھیاں چڑھ کر وہ دونوں رنگوں میں بھیگے نمائشی ہال میں داخل ہوئے۔ ہال کی دیواروں پہ آبنوسی قدیم طرز کے دیدہ زیب فریموں میں جڑی رنگین پینٹنگز۔ ونسنٹ وان گوگ کے شاہکار انکی آنکھوں کے سامنے تھے۔
یہ انکے ہنی مون کے آخری دو دن تھے اور آج وہ دونوں ایمسٹرڈیم میں تھے ۔ اپنے وعدے کے مطابق احمر اسے وان گوگ میوزیم دکھانے لایا تھا۔ وان گوگ ایمان اور احمر کا پسندیدہ مصور تھا اور مشہور زمانہ اسٹاری نائٹ کا پوٹریٹ دیکھنا اور یہاں میوزیم میں اسکی اصل دیکھنا بلکل منفرد تجربہ تھا۔ گیس لیمپوں کی روشنی میں دمکتا نیلگوں آسمان۔ دریاۓ رہون کا نیلا کانچ پانی، کاسنی زمین اوردریائے رہون کے مغربی کنارے پہ کھڑے رنگوں میں بھیگے دو نفوس ۔ محبت کرنے والوں کی شبیہہ ۔
اس پینٹنگ کی نقل احمر اور ایمان کے بیڈ روم میں تھی اور اصل اس میوزیم میں۔ لیکن اس میوزیم میں موجود سارے رنگ محبت کے ان نگوں سے ہلکے تھے جن سے ایمان اور احمر کے وجود بنے تھے۔
ختم شد