ایمان کی رخصتی ہو چکی تھی۔ ارمانوں کی سیج پہ وہ دلہن بنی بیٹھی تھی۔اٹالین کنٹمپریری فرنیچر سے سجا کشادہ کمرہ، اپنے مکین کے اعلیٰ زوق کا ترجمان تھا۔
احمر نے منع کردیا۔ ورنہ میری تو خواہش تھی فلورل ارینجمنٹ کروانے کی۔ امیرہ نے جھجکتے ہوئے کہا۔ شاید وہ سوچ رہیں تھیں ایمان کا کمرہ نئی دلہن کو مایوس کرے گا۔
بلیک گلاس ٹیبل پہ ایک نفیس گلدستہ سجا تھا۔ جس میں سفید ٹیوب روز کے ساتھ کاسنی سپرنگ آئرس اور للی تھے۔ کمرہ کسی بھی برائیڈل ڈیکور سے عاری تھا۔
سیاہ اٹالین سٹائل بیڈ پہ بیٹھے اس نے ایک طائرانہ نگاہ کمرے پہ ڈالی۔ دائیں طرف ایک سیاہ لیدر کا سیکشنل صوفہ رکھا تھا ۔ اسکے سامنے سیاہ شیشے والی کافی ٹیبل جس پہ وہ سفید اور کاسنی پھولوں والا دلنشین گلدستہ رکھا تھا۔ سامنے کی دیوار پہ ٹی وی اسکرین لگی تھی جس کے ساتھ دیوار میں اینٹرٹینمنٹ سیٹ فکس تھا۔ کچھ میوزک سی ڈیز بھی ایک ریک میں قرینے سے لگی تھیں۔
احمر کا میزک سینس بہت اچھا ہے۔ عاشق ہے وہ کاسیکل میوزک اور غزلوں کا۔ ایمان کو میوزک سسٹم کی طرف دیکھتا پا کر امیرہ نے بتایا۔
ایمان نے مسکرا کر سر جھکا دیا۔
احمر کا مزاج کافی مختلف ہے، اسے آرٹ، میوزک اور کتابوں سے عشق ہے ۔ اپنی پڑھائی کے دوران بھی اس نے یونیورسٹی میں کم اور آرٹ گیلریوں میں زیادہ وقت گزارا ہے۔ وہ اب مزید بتا رہی تھیں اور احمر کی باتیں کرتے ان کے لہجے میں جو اسکے لئیے چاہت تھی وہ ایمان کو بتا رہی تھی کہ امیرہ جاوید اپنے بیٹے کی ہر عادت اور شوق کو دل و جان سے چاہتی ہیں۔
کمرے کے سرمئی ٹائل فلور پر بچھے نفیس قالین کمرے کے ڈیکور کو چار چاند لگا رہے تھے۔ کیزن رگ پہ تو ایمان کی نظر کمرے میں داخل ہوتے ہی پڑ چکی تھی۔
احمر کو میں اکثر کہتی ہوں ، تمھیں ٹیکسٹائل انجیئر نہیں کوئی شاعر یا مصور ہونا چاہیئے تھا۔
اچھا تو احمر صاحب ٹیکسٹائل انجینئر ہیں۔ امیرہ نے اسکی معلومات میں اضافہ کیا تھا۔
تم بیٹھو- میں احمر کو بھیجتی ہوں۔ امیرہ آنٹی نے اسکے گالوں کو چھوتے ہوئے کہا تھا۔ ان کے لہجے میں محبت کے سارے رنگ تھے۔
ایک گھنٹے بعد احمر نامہ ختم ہوا تو اس نے سکون کا سانس لیا۔
میرون رنگ کے قیمتی برائیڈل لہنگے میں اسکا دلکش حسن نکھر آیا تھا۔ گلے میں نفیس ڈائمنڈ اور روبی کا نیکلس جو اسکی بیوٹی بون کو نمایاں کر رہا تھا۔ کہنیوں تک ہاتھوں میں رچی مہندی کے خوشنما رنگ اور ان میں بھری طلائی چوڑیاں۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں خود کو ایک نظر دیکھا۔
کاش وہ آنکھیں آج مجھے دیکھ پاتیں۔ اپنے سراپے کو دیکھتے اسکے دل نے کتنی شدت سے یہ خواہش کی تھی۔بوجھل قدموں سے وہ بیڈ کی طرف بڑھی اور پہلی بار اس نے بیڈ کی سامنے کی دیوار پہ لگے فریم کو دیکھا۔ اسکے قدم رک گئے۔
کی نقل قیمتی فریم میں لگی تھی ۔ بیڈ کے اوپر پہلی نظر میں دیکھنے والے کو وہ پینٹنگ نہیں بلکہ کوئی کھڑکی یا چوکھٹہ معلوم ہوتا تھا جہاں سے آسمان دکھائی دے رہا ہوں ۔گیس لیمپوں کی ٹمٹماتی روشنیوں کا عکس۔ فان گوگ کا فیلڈ آرٹ، بلخصوص یہ پینٹنگ ایمان کو بے حد پسند تھی ـــــ ایمان کو لگا آج کے دن میں اس سے اچھی بات شائد ہی ممکن ہو۔
دروازے پہ ہلکی سی آہٹ ہوئی تھی۔ وہ چونکی اور جلدی سے بیڈ پہ واپس بیٹھ گئی۔ اسوقت کمرے میں احمر کے سوا اور کون آئے گا۔ اس نے سوچا۔
ویسے یہ شادی کافی مشکل کام نہیں۔ بہت تھکاوٹ ہو گئی آج تو۔ تم بھی یقیناً تھک گئی ہو گی۔ وجیہ آواز میں بے تکلفی سے بولتا وہ بیڈ پہ کافی ریلکیس موڈ میں بیٹھا تھا ۔ جیسے ایمان کو برسوں سے جانتا ہو۔
وہ مدھم سا مسکرائی۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔
مجھے خواتین کی شاپنگ کا کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن یہ ڈی بیئر کی ایٹرنٹی کلیکشن ہے ، میں امید کرتا ہوں تمھیں پسند آئے گی۔اسکا نازک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس نے ایک قیمتی ہیرے جڑی انگوٹھی ایمان کی انگلی میں پہنائی۔
اس نے پلکوں کو ہلکی سی جنبش دی اور اپنے ہاتھ کو دیکھا جو اب تک احمر کے ہاتھ میں تھا۔
میں اتنا گیا گزرا بھی نہیں کہ آپ کی ایک نظر التفات کے قابل بھی نہ ہوں۔ گھمبیر لہجے میں کہتا وہ ایمان سے شرارت کے موڈ میں تھا۔
ایمان کو احمر کے اس جملے نے کافی خجل کیا۔ وہ ان لفظوں کا مطلب جانتی تھی۔ شادی سے پہلے ایمان نے حرا اور توفیق کمال کو احمر سے ملنے یا تصویر دیکھنے سے منع کر دیا تھا اور شائد یہ بات احمر کے علم میں تھی۔
ایمان نے آہستہ سے پلکیں اٹھائیں ۔ اور کچھ کہنے کے لئے لب کھولے۔
اسکی نظریں احمر کی ٹھوڑی سے ہوتیں، اسکے بھرے بھرے ہونٹوں پہ گئیں ۔ اسکے اوپر والے ہونٹ کا کٹاؤ بہت واضح تھا۔ اسکی ناک ستواں اور مغرور تھی۔ اسکی گندمی رنگت میں اسکے چہرے کے نقش سونے پہ سہاگہ تھے۔ اسکی آنکھیں ـــــایمان کی نظریں اسکی آنکھوں پہ گئیں۔ وہ آنکھیں ـــــ گہری سیاہ تھیں۔ ان میں کسی وادی سا سکوت تھا، ان مین سو بھید تھے، ان کو دیکھ کر صرف عشق ہو سکتا تھا ۔ وہ کسی جزیرے سا اسرار رکھتی تھیں۔ ان آنکھوں کو دیکھ کر ایمان پلکیں جھپکنا بھول گئی تھی۔ اسکے بھنویں بھری بھری اور پیشانی چوڑی تھی جس پہ بکھرے سیاہ بال ۔
ایمان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔ ان آنکھوں نے کیا کیا طوفان مچائے تھے اسکی زندگی میں اور آج ایک بارپھر، یہ اتنی ہی زندگی سے بھرپور اسے دیکھ رہی تھیں ۔ شائد وہ اپنے تخیل کی انتہا پہ تھی کہ آج پھر اسکا خواب سچ بن کر اسکے سامنے آ بیٹھا تھا۔ ابھی چند لمحے پہلے اس نے خواہش کی تھی کہ یہ آنکھیں اسے آج دیکھ سکتیں۔ تو کیا دل میں اٹھی وہ تمنا اتنی شدید تھی یا پھر کوئی قبولیت کا وقت تھا کہ وہ بن مانگی دعا کی طرح سامنے آ گیا تھا۔
کیا بگاڑا ہے میں نے تمھارا؟ کب تک میں اس آسیب میں گرفتار رہوں گی؟ کیوں زندگی تنگ کرتے جا رہے ہو مجھ پر؟ چلے کیوں نہیں جاتے میری زندگی سے؟ وہ ہذیانی کیفیت میں چلا رہی تھی اور
احمر ہکا بکا اسے دیکھ رہا تھا۔
پچھلے دو گھنٹے سے وہ ٹیرس میں بیٹھا تھا۔ کرسی کی بیک سے سر ٹکائے ٹانگیں اس نے سامنے پڑی میز پہ رکھی ہوئی تھیں ۔ یہ رات اسکی زندگی کی طویل ترین رات تھی۔ وہ بے شمار سگریٹ پھونک چکا تھا اور نیند سے اسے پپوٹے دکھ رہے تھے۔ لیکن اسکا دماغ اسے پندرہ سال پیچھے لے گیا تھا۔
اپنے مڈل سکول میں ہونے والے انگلش لینگویج پروجیکٹ کیلئیے موضوع کا انتخاب وہ کر چکا تھا۔ پیرنٹل ابیوز اور اگنورنس کے موضوع کو اس نے سلائیڈوں اور انگلش شاعری سے ڈسپلے کرنا تھا ۔ اور پچھلا پورا ہفتہ اس نے اس کام کی نظر کیا تھا۔
تم تو تقریبا اسے پورا کر چکے ہو احمر۔اسکے بہترین دوست نے اسے سراہا۔
بس اب اسکو چارٹ پہ بنانا باقی ہے۔ مجھے یقین ہے میرا کونسیپٹ سب سے الگ ہوگا۔ اس کی آنکھوں میں جیت کا جذبہ تھا ۔
ایک ہفتے بعد اسکول آڈیٹوریم میں پیرنٹل ابیوز اور اگنورنس کے موضوع پر ایک نہیں دو پروجیکٹ ڈسپلے ہوئے جن کی سلائیڈز اور انداز بھی کافی ملتا جلتا تھا ۔ احمر کے پروجیکٹ کو مقابلے میں رکھنے سے منع کر دیا گیا کیونکہ دو پروجیکٹس ایک دوسرے کی کاپی تھے۔
احمر خفا ہونے سے زیادہ حیران تھا۔ عمر کمال اسکا بہترین دوست تھا اور وہ ہمیشہ اپنی نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں عمر سے ڈسکس کرتا تھا مگر ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ عمر نے اپنے ذہن سے کام کرنے کی بجائے پورا پروجیکٹ کاپی کر لیا تھا۔
اور پھر یہ اکثر ہوا جب عمر خاموشی سے احمر کی باتیں سن کر اسکے موضوعات کو نقل کر لیتا ۔ لیکن احمر اسے کچھ بھی کہنے کی بجائے فراخدلی سے اگنور کر دیتا۔ عمر اسکا بہترین دوست تھا اور اسے یہ دوستی بہت عزیز تھی۔
ہائی سکول میں برناڈ شاء کے Androcles And The Lion
پہ ڈرامہ ہونا تھا ۔ جس کیلئے ہفتے کے دن فائینل آڈیشن تھے۔اسکول میں چھٹی ہوتی تھی اسی لئے ڈرامیٹک سوسائٹی نے یہ دن منتخب کیا تھا تاکہ طلبا کی پڑھائی کا حرج نہ ہو۔جمعہ کی شام میں عمر کا فون آیا اور یہاں وہاں کی بات کرنے کے بعد اس نے احمر سے کہا کہ کل آڈیشن منسوخ ہو چکے ہیں اور اب نیا نوٹس پیر کو لگے گا۔
کیا واقعی ۔ میں جلدی نکل گیا تھا اس لئے نوٹس بورڈ پہ نظر نہیں پڑی۔ احمر نے حیرت سے کہا۔
ہاں کل آڈیشن نہیں ہونگے۔ میں نے دیکھا تھا جا کر نوٹس بورڈ پہ لکھا تھا ۔ میں سمجھا تمھیں علم ہو گا۔عمر نے سنجیدگی سے کہا۔
اچھا ہوا تم نے بتا دیا ورنہ میرا تو بیکار میں چکر لگتا۔ احمر ، عمر کا ممنون تھا جس نے اسے بروقت بتا دیا ۔
اور پھر اسی شام اپنی فیملی کے ساتھ وہ اپنے فارم ہاؤس چلا گیا تھا۔ پیر کو مین نوٹس بورڈ پہ کے کردار کیلئے لکھا تھا۔ آڈیشن کے فائینلسٹ کی لسٹ تھی جس میں عمر کا نام Androcles کے کردار میں لکھا تھا۔
اس واقعے کے بعد احمر نے دوبارہ عمر سے کبھی بات نہیں کی تھی۔ وہ صلح جوء طبیعت رکھتا تھا اور اس میں برداشت بہت تھی لیکن اس بات نے اسے اتنا دلبرداشتہ کیا تھا کہ اس نے اپنا او لیول مکمل کرنے کی بجائے دو ماہ بعد ہی اپنا مایئگریشن زیورچ کے سیکنڈری سکول میں کروا لیا تھا۔ عمر سے اب اسکا رابطہ مکمل ختم ہو چکا تھا۔
یورپ میں اسکی دلچسپیوں کے ڈھیروں سامان موجود تھے۔ وہ آرٹ کا دلدادہ تھا اور یورپ میں آرٹ اور کلچر کی دنیا آباد تھی۔ عمر کی مقابلہ بازی کو اس نے ایک برے حادثے کی طرح فراموش کر دیا تھا۔ وقت بڑے بڑے حادثے بھلانے کی قدرت رکھتا ہے یہ تو پھر دو دوستوں کی رقابت تھی۔
تین سال پہلے اس نے کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیوسٹی سے اپنا پوسٹ گریجویشن مکمل کیا تھا اور پاکستان میں جاوید حسن کے کاروبار کو جوائن کیا تھا۔ اسکا ارادہ ایک نیا اسٹچنگ یونٹ کھولنے کا تھا۔ دنیا بھر میں جانی مانی برانڈز پولو اسپورٹس اور چیپس رالف لارین سے لے کر گیپ اور کیلون کلائن تک پولو شرٹس کی سپلائی تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے ممالک بلخصوص پاکستان سے ہوتی ہے۔ لیبل کسی بھی امریکن یا یورپین کمپنی کا لگا کر پاکستانی اسٹچنگ یونٹس میں کام کرنے والے لاکھوں ملازمین کم پیسوں میں یہ کام کرتے ہیں جنھیں بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈالروں میں فروخت کیا جاتا ہے ۔ فیکٹری مالکان بھی ان شپ منٹوں سے کڑوڑوں کماتے ہیں۔ اکثر سڑک کنارے بکنے والی دو سو روپے کی پولو شرٹیں انہی شپ منٹوں میں کوالٹی کنٹرول سے نکلنے والا کنڈم مال ہوتا ہے۔
احمر کا پلان تھا کہ ایک ایسا اسٹچنگ یونٹ جہاں ملنگ، ڈائینگ، کٹنگ اور اسٹچنگ کی تمام سہولیات کو ایک چھت کے نیچے منتقل کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ ورکرز کے لئے رہائیش کا انتظام بھی اسی جگہ ہو۔ چند غیر ملکی کمپنیوں سے وہ پہلے ہی اس سلسلے میں بات چیت کر چکا تھا۔
میرا خیال ہے پاپا رائیونڈ والی زمین فائینل کر دی جائے۔ احمر نے جاوید صاحب سے کہا۔ وہ اسوقت ان کے آفس میں بیٹھا تھا اور اپنے پراجیکٹ کیلئے دیکھے جانے والے ڈیڑھ سو کنال رقبے کے پلاٹ سے متعلق بات کر رہا تھا۔
بلکل۔ لوکیشن بہترین ہے اور پیسے بھی مناسب ۔ تم جلد ہی بیعانہ کر لو۔ جاوید حسن نے کافی کا سپ لیتے احمر سے کہا ۔
ٹھیک ہے تو پھر میں کل ہی مقصود صاحب سے بات کر لیتا ہوں۔ میرا خیال ہے اس ہفتے میں ڈیل ہو جائے گی۔ احمر نے کافی کا آخری گھونٹ بھرا۔
تم نے کاغذات کی پڑتال کروا لی ہے ۔ جاوید صاحب اب ایک فائل کھول رہے تھے۔
جی پاپا۔ کاغذات چیک کروا کر ہی میں نے آپ سے بات کی تھی۔ احمر نے سنجیدگی سے جواب دیا
پھر تو مسئلہ ہی ختم ۔ اب تمھیں دیر نہیں کرنی چاہیئے۔ جاوید صاحب نے مسکرا کر کہا۔
اچھا پھر میں ڈیلر کو کل ٹوکن کا کہہ دیتا ہوں ۔جاوید صاحب کی مصروفیت کو بھانپ کر احمر نے سیٹ سے اٹھتے ہوئے کہا۔
گڈ۔ جاوید صاحب نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا اور نظریں دوبارہ فائل پہ جھکا لیں۔
اگلے چند دنوں میں ٹوکن ہو چکا تھا۔ کاغذات کی جانچ پڑتال پہلے ہی مکمل تھی بس اب آخری مرحلہ زمین کی ملکیت کا انتقال اور زمین کی مالیت کی بنک میں منتقلی تھا کہ ایک فون کال نے احمر کی ساری پالننگ ملیامیٹ کر دی۔
مقصود صاحب یہ بچوں کا کھیل ہے؟ بیعانہ ہو چکا ہے۔ ڈیل فایئنل ہے اب اچانک وہ لوگ کیسے ہمیں زمین بیچنے سے انکار کر سکتے ہیں۔ احمر کو ابھی رئیل اسٹیٹ ڈیلر کی کال آئی تھی اور اس نے جیسے احمر پہ یہ بات کہہ کر بم پھوڑا تھا کہ وہ پارٹی بیعانہ واپس کر رہی ہے اور اب زمین احمر کو نہیں بیچنا چاہتے ہیں۔
احمر صاحب وہ ڈبل ٹوکن واپس کر رہے ہیں۔ مقصود صاحب نے اطلاع دی
مائی فوٹ۔ سر میں ماریں انکے ڈبل پیسے۔ احمر نے غصے سے میز پہ ہاتھ مارا۔
سر بات دراصل یہ ہے وہ زمین انکے کوئی جاننے والے خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہاں سے انھیں آفر بھی ہم سے زیادہ مل رہی ہے۔ مقصود صاحب نے اصل وجہ بتائی۔
تو پہلے وہ جاننے والے سوئے ہوئے تھے۔ کمال ہے کوئی پروفیشنل ایتھکس ہی نہیں ہیں ۔ احمر نے جل کر کہا۔
سر میں آپ کو دوسری لوکیشن دکھا دیتا ہوں ۔ اس سے بہتر قیمت۔۔۔۔۔
خریدار کون ہے؟ مقصود کی بات ابھی نامکمل ہی تھی کہ احمر نے سوال کیا۔
عمر کمال ـــــمقصود نے کہا تھا۔
دوسری طرف لائن منقطع ہو چکی تھی۔
عمر کمال ـــــــ کسی زمانے میں اسکا بہترین دوست اور اسکا بدترین حریف۔
اس بار میں تمھیں معاف نہیں کروں گا عمر کمال۔ احمر نے غصے سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
ان دنوں اس پہ شدید ڈپریشن طاری تھا اور ایسے میں ممی کو اپنے کزن کی بیٹی کی شادی پہ اسے ہر حال میں لے کر جانا تھا۔
احمر تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے ؟ امیرہ کی آواز پہ اس نے چونک کے دیکھا تھا۔
اتنی قریبی رشتے داری ہے ہماری تم نہ گئے تو کتنا معیوب لگے گا۔ انہوں نے التجائیہ نظروں سے بیٹے کو کہا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ تیار ہونے چلا گیا تھا۔
آج مہندی تھی اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں امیرہ کی فرمائش پر شامل ہو رہا تھا۔مہندی کا فنکشن ڈیفنس کلب میں تھا اور وہ لوگ وقت سے پہلے ہی وہاں موجود تھے ۔ وہ ہال سے نکل رہا تھا جب اس نے اصغر انکل کے ساتھ عمر کو دیکھا۔ اکیس بائیس سال کی ایک لڑکی اسکے ساتھ ساتھ تھی اور جس طرح اس نے عمر کا بازو پکڑا ہوا تھا اسے اندازہ ہو رہا تھا یہ لڑکی اسکے کافی قریب ہے۔
کیا یہ عمر کی بیوی ہے یا پھر بہن۔ وہ کچھ حتمی فیصلہ نہ کر سکا تھا۔ عمر کو لان چئیر پہ اصغر انکل کے ساتھ بیٹھتے دیکھ کر وہ غصے سے دوسرے دروازے سے نکل گیا تھا ۔ اسے وہ فنکسن اٹینڈ نہیں کرنا تھا جس میں عمر کمال شامل ہو۔ وہ عمر کمال کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اور پھر امیرہ کے لاکھ کہنے پر بھی وہ شادی میں شریک نہیں ہوا تھا۔
اس دن عمر کمال کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی۔ تم لوگ انھیں جانتے ہو۔ حبہ اپنے شوہر کے ساتھ انکے گھر دعوت پہ انوائٹ تھی جہاں موقع ملتے ہی احمر نے حبہ سے پوچھا تھا
ایمان کی بات کر رہے ہیں آپ احمر بھائی؟ وہ تو میری بیسٹ فرینڈ ہے اور عمر بھائی اسی کو ڈراپ کرنے آئے تھے۔بڑی لاڈلی ہے ایمان انکی۔ حبہ کافی باتونی تھی اور احمر کے ایک سوال پر اس نے ساری تفصیلات من و عن بتا دی تھیں۔آپ عمر بھائی کو جانتے ہیں؟ حبہ نے اچانک پوچھا تھا
نہیں بس ایک دو بزنس پارٹیوں میں ملاقات ہوئی ہے۔ احمر نے لاپرواہی سے کہا۔
تو وہ عمر کمال کی بہن ہے۔اس نے سوچا۔اور پھر عمر سے بدلہ لینے کی پوری پلاننگ اسکے ذہن میں آگئی۔ عمر کو اسکی دھوکے بازی کا جواب صرف ایک وار میں دینے کا وقت آگیا تھا۔ عمر میں ایمان کی جان ہے یہ بات اگر احمر کو پتا نہ بھی ہوتی تب بھی کسی غیرت مند بھائی کی عزت پہ بہن کا لاپتہ ہونا کیسی کاری ضرب لگا سکتا تھا۔ایک طنزیہ مسکراہٹ اس کے لبوں پہ آئی۔
کچھ ہی دنوں میں اسے ایمان کا پورا شیڈول پتا چل چکا تھا جس سے اسے قدرے مایوسی ہوئی۔ ایمان صرف اپنے کالج کیلئے اکیلی نکلتی۔ وہ اکثر اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوتی یا پھر اپنی دوست کے ساتھ ایسے میں اسے کسی جگہ روکناــــ صورتحال کافی مایوس کن تھی
وہ اسوقت اواری میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھا ڈنر کر رہا تھا جب ایمان بلیک شیفون سوٹ میں ایک ٹیبل پہ اکیلی بیٹھی نظر آئی۔ اس کا سارا دھیان اب اس لڑکی پہ تھا۔ فیصل نے دو تین بار اسے ٹوکا مگر اسکا ذہن ایمان کی یہاں موجودگی میں اٹکا ہوا تھا۔ اسی دوران ایک ہینڈسم سا لڑکا جو کافی سوبر ڈریسنگ میں تھا ایمان کی ٹیبل پہ کرسی کھینچتا اس کے ساتھ بیٹھا۔ احمر اب ان دونوں کا مشاہدہ کر رہا تھا ۔ وہ لڑکا اس سے کافی باتیں کر رہا تھا لیکن ایمان کی آنکھوں کی بیزاری وہ فاصلے سے بھی دیکھ سکتا تھا۔ پھر اس لڑکے نےکچھ ایسا کہا کہ ایمان کے چہرے کے رنگ بدل گئے ۔ اسکی آنکھوں میں شرم کی لالی آئی تھی۔ احمر کو اسکا یوں شرمانا ڈسٹرب کر رہا تھا۔ پھر اس لڑکے نے اسے ایک سیاہ مخمل کا کیس پکڑایا جسے دیکھ کر ایمان مسکرانے لگی۔ احمر کو اس لمحے اپنا دل ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہوا۔ سیاہ لباس میں اسکی مسکراہٹ جیسے اندھیری رات میں چاندنی بھر گئی ہو۔ قریباً نو بجےوہ لوگ وہاں سے اٹھے۔ ایمان کی گاڑی پارکنگ سے نکلی۔ احمر نے اپنی گاڑی کا ڈیش بورڑ کمپاؤنڈ کھول کر بیہوشی کی دوا کی تصدیق کی جو اس نے کچھ دن پہلے ہی حاصل کی تھی۔
مین بلیوارڈ کی بجائے اس نے شارٹ کٹ لیا تھا ۔ اس غیر آباد علاقے میں ایمان کی گاڑی کو داخل ہوتے دیکھ کر احمر کو اپنا کام اور بھی آسان نظر آیا۔ اس نے تیزی سے پچھلی سڑک پہ گاڑی موڑ کر ایک ذیلی سڑک سے گاڑی دوبارہ مین سڑک پہ نکال لی۔ لیکن اب اسکی گاڑی ایمان کی گاڑی سے آگے تھی اور پھر اچانک اس نے گاڑی ایمان کی گاڑی کے عین سامنے روک دی۔ اپنے چہرے کو رومال سے ڈھک کر اس نے بیہوشی کی دوا والی شیشی سے دوا ٹشو پہ انڈیلی۔ ایمان کافی بوکھلائی ہوئی تھی۔ اس نے گاڑی سے باہر کھینچ کر ایمان کی ناک پہ تیزی سے ٹشو رکھا اور پھر چند لمحوں میں وہ بیہوش ہو چکی تھی۔ اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ ایمان کو ڈال کر اس نے ایمان کی گاڑی کو روڈ سائیڈ پہ پارک کیا۔ اسکا سارا سامان گاڑی مٰیں بحفاظت لاک کر کے وہ اپنی گاڑی کی طرف آیا۔
راستے میں کال کر کے اس نے فارم ہاؤس کے چوکیدار کو جانے کا کہا۔ چوکیدار کے علاوہ دو اور ملازم فارم ہاؤس کی دیکھ بھال کے لئے موجود ہوتے تھے لیکن وہ دونوں صرف دن میں وہاں آتے تھے۔ احمر کے پاس فارم ہاؤس کی چابیاں تھیں اور اسوقت احمر کو فارم ہاؤس خالی چاہئیے تھا۔
وہ عمر کمال کو تکلیف پہنچانا چاہتا تھا ۔ ایمان کی ذات کو تقصان پہنچانا اس میں شامل نہ تھا۔ بیہوشی کی دوا شائد زیادہ استعمال ہو گئی تھی اسی لئیے ایمان کو اگلے دن شام کو ہوش آیا تھا۔ وہ بہت سہمی ہوئی تھی۔ احمر کو دیکھ کر اس نے ایک دو سوال کئیے اور پھر بے آواز رونے لگی۔ احمر کو اس کا رونا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اسے روتے دیکھ کر احمر نے بےچینی سے پہلو بدلا۔
وہ اسکے دشمن کی بہن تھی پھر بھی اسکا دل چاہ رہا تھا کہ اسکی خوبصورت آنکھوں سے گرتے موتیوں کے قطرے وہ اپنی ہتھیلی پہ جمع کر لے۔ اپنی انگلی کی پوروں سے اسکے سفید گالوں پہ گرتی آبشار کو روک لے۔ وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔
بہت دیر سسکیوں کی آواز اسے سنائی دیتی رہی۔ پھر آواز آنا بند ہو گئی۔ شائد وہ روتے روتے تھک کر چپ کر گئی تھی۔ اس نے کمرے میں جھانکا۔ وہ بیٹھی بیٹھی سو رہی تھی۔اسکا سر بیڈ کے کراؤن پہ ٹکا تھا۔ آنسوؤں کی لکیریں اسکے گلابی چہرے پہ نشان چھوڑ گئیں تھیں۔ اسکے ریشمی بال بکھرے ہوئے تھے ۔ ان میں چمکتے سونے سے جھلمل تار اسکی رنگت پہ خوب سج رہے تھے۔ بند آنکھوں پہ سیاہ گھنی پلکیں اسکے حسن کو چار چاند لگا رہی تھیں۔
سیاہ لباس میں اسکا حسن قاتل تھا۔ کسی شاعر کی غزل جیسا سحر آفریں۔ کسی مصور کے رنگوں سے بنا دلنشیں اسکیچ۔ ایک مجسمہ ساز کا تراشہ ہوا کرشمہ۔ دل کو چھو لینے والے حسن سے مالامال اس لڑکی سے وہ شدید محبت میں مبتلا ہو چکا تھا۔صبح کے چار بجے اسے جگا کر احمر نے واپسی کا بتایا۔ بغیر کسی ردعمل کے ایمان اسکی ہر بات مان رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کی اداسی احمر کے دل کو تڑپا رہی تھی۔ کیسی بے بسی تھی کہ وہ اسے اپنے دل کا حال بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔
ایمان کو اس نے بحفاظت اسکے گھر کے باہر چھوڑا تھا لیکن اپنا بہت بڑا نقصان کر لیا تھا۔ اور اس سے بھی بڑا نقصان اس نے ایمان کا کیا تھا ۔ وہ عمر کمال سے بدلہ لینا چاہتا تھا لیکن اسکی قیمت ایمان کو چکانی پڑے گی یہ بات احمر نے نہیں سوچی تھی۔
امیرہ کو احمر کی شادی کی فکر تھی اور احمر کے دل و دماغ پہ ایمان چھائی تھی۔ اس واقعہ کو چند ماہ گزر چکے تھے۔
یہ تیسرا پرپوزل ہے جو تم نے ریجیکٹ کیا ہے اب خود ہی بتا دو کون ہیں وہ محترمہ جو احمر جاوید کے دل پہ قابض ہیں۔ امیرہ بے تکلفی سے گویا ہوئی تھیں ۔ وہ احمر کے شروع سے بہت قریب تھیں اور احمر ان سے بہت اٹیچ تھا اسی لئیے وہ جلد احمر کی اس کیفیت کو سمجھ گئی تھیں۔
کم آن ممی۔ کیا یہ ضروری ہے میں نے یہ پرپوزل کسی لڑکی کی وجہ سے ہی منا کئے ہیں۔ اس نے ٹالتے ہوئے کہا۔
احمر میں تمھاری ماں ہوں اور تم اپنے دل کی بات کم از کم مجھ سے نہیں چھپا سکتے ہو۔وہ اپنے بیٹے کے مزاج سے خوب واقف تھیں ۔ وہ بہت سوبر اور آرٹسٹک طبیعت کا مالک تھا لیکن پچھلے دو ماہ سے اس نے جو جوگ لیا تھا وہ امیرہ کی آنکھوں سے چھپا نہیں رہا تھا۔
ٹھیک ہے میں نے تو سوچا تھا تمھاری ہیلپ کر دوں گی مگر تم خود اپنا مسئلہ حل نہ کرنا چاہو تو تمھاری مرضی۔ امیرہ نے کندھے اچکاتے ہوئے اٹھنے کا ارادہ کیا۔
ممی ــــــ احمر نے انکا ہاتھ پکڑ کر روکا۔
آپ توفیق کمال کو جانتی ہیں۔ میرا مطلب انکی بیٹی ایمان سے کبھی ملی ہیں آپ؟ احمر نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
بہت اچھی طرح ۔ اکثر ملنا ہوتا ہے حرا اور توفیق صاحب سے تو۔ کہیں تم ایمان میں انٹرسٹڈ تو نہیں۔ بات کرتے کرتے اچانک انکا ذہن احمر کی بات پہ گیا ۔
جی۔ آپ کو کیسی لگتی ہے وہ۔ احمر نے مسکراتے ہوئے کہا
بچی تو بہت پیاری ہے میں نے چند ماہ پہلے دیکھا تھا اسے حبہ کی شادی میں۔وہ کم ہی آتی ہے گیدرنگز میں لیکن کیا تم نہیں جانتے وہ تو انگیجڈ ہے۔ میرا مطلب اسکا نکاح کافی کم عمری میں سکندر ملک کے بیٹے جہانزیب سے ہو چکا ہے اور شائد پچھلے دنوں ان کی شادی کا ذکر بھی سننے میں آ رہا تھا۔ امیرہ نے تفصیلاً بتایا۔
اچانک احمر کو اواری میں اسکے ساتھ ڈنر کرتا وہ اسمارٹ بندہ یاد آیا ۔ اس کی آنکھوں میں جھلکتی بیزاری اور پھر دھنک کے ساتھ رنگ۔ احمر نے سوچا۔
زندگی ایک ایمان پہ تو ختم نہیں ہوتی نہ میری جان۔ اس سے بہت اچھی لڑکیاں بھی ہیں ۔ تم کہو تو۔۔۔۔۔۔۔امیرہ کی بات نا مکمل تھی کہ احمر بولا
ممی پلیز ــــ ہم اس ٹاپک پہ پھر کبھی بات کریں گے۔ انکی بات کاٹ کر قطعیت سے کہا۔
امیرہ خاموشی سے اسکے کمرے سے نکل آئیں تھیں۔
اس دن جم خانہ میں مسٹر اینڈ مسز جاوید ایک پارٹی میں گئے تھے اور واپسی پہ احمر کو لونگ روم میں بیٹھا دیکھ کر وہ دونوں بھی اسکے ساتھ بیٹھ گئے۔
پارٹی کی ڈسکشن ہو رہی تھی اور اب موضوع گفتگو سکندر ملک کی فیملی تھی۔
طیبہ بتارہی تھیں ایمان اور جہانزیب میں علیحدگی ہو چکی ہے اور وہ آجکل جہانزیب کے لئے لڑکی ڈھونڈ رہی ہیں۔ امیرہ نے انکشاف کیا۔
ویری اسٹرینج۔ اتنے سال پرانی دوستی اور پھر توفیق کمال کی بیٹی سے جہانزیب کا رشتہ تو بہت سال پہلے طے ہو چکا تھا۔ پورا شہر واقف ہے اس بات سے تو۔ جاوید صاحب کافی حیران ہوئے۔
ویسے بڑی پیاری بچی ہے توفیق کی میں نے دیکھا تھا اسے حبہ کی شادی میں۔ جاوید صاحب کچھ سوچ کر بولے
آپ کے خیال میں کیا وجہ ہو گی ایسے گھر بیٹھے طلاق لینے کی۔ امیرہ بہرحال خاتون تھیں اور اپنے فطری تجسس سے مجبور بھی۔
ہم کیا کہں سکتے ہیں بھئی ۔ یہ ان کا بے حد ذاتی معاملہ ہے ۔ جاوید صاحب نے امیرہ کو اس ٹاپک کو ختم کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ اب وہ اپنے کمرے کی طرف جا رہے تھے۔ امیرہ بھی ان کے پیچھے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
اور احمر جانتا تھا ایمان کی زندگ میں ایسا کیا ہوا ہے جو اتنا پرانا رشتہ شادی کی بجائے طلاق کی طرف مڑ گیا۔
ہرگز نہیں احمر۔ تم جانتے ہو تم کیا کہ رہے ہو۔ امیرہ نے سختی سے کہا
احمر نے ابھی ان سے ایمان سے شادی کے لئے کہا تھا۔ اور انکا پارہ چڑھ گیا تھا۔
ممی نے ایسا کیا کہہ دیا ہے میں نے جو آپ اتنے غصے میں ہیں۔ احمر نے احتجاج کیا تھا۔
یہ تو افسوس ہے تم جانتے ہوئے بھی انجان بن رہے ہو۔ چند ماہ پہلے طلاق ہو چکی ہے اسے اور کسی کو خبر بھی نہیں اندر خانے مسئلہ کیا تھا۔ اور تم چاہتے ہو میں اس لڑکی کو اپنے گھر کی بہو بنا لاؤں۔
آپ نہیں جانتیں مگر میں جانتا ہوں کہ ایسا کیا ہوا ہو گا جو رخصتی سے پہلے انکی علیحدگی ہو گئی۔ احمر نے تاسف سے کہا۔
کہیں تم اور ایمان ــــــــ میرا مطلب ہے تمھاری وجہ سے تو ایمان نے رشتہ ختم نہیں کیا۔ امیرہ نے پریشانی سے کہا۔
جیسا آپ سمجھ رہی ہیں ویسا کچھ نہیں ہے ممی۔ لیکن ہاں میری وجہ سے ہی انکی علیحدگی ہوئی ہے۔اس نے نفہ میں سر ہلاتے کہا اور پھر احمر نے ساری بات امیرہ کو بتا دی تھی۔ جس دن سے اس نے ایمان اور جہانزیب کی علیحدگی کا سنا تھا اس کا پچھتاوا اور بڑھ گیا تھا۔
امیرہ سب کچھ جان کر دنگ رہ گئی تھیں۔ انکا بیٹا تو بہت سلجھا ہوا اور تحمل مزاج تھا اس سے ایسی مجرمانہ حرکت کی توقع اور اتنا غصہ ۔ وہ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ وہ جو غلط کر چکا تھا اس پہ افسوس کرنے کے بجائے اب انہیں وہ سب ٹھیک کرنا تھا جو اسکی وجہ سے غلط ہوا تھا۔
جاوید آپ کا ایمان کمال کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آج امیرہ نے جاوید حسن سے بات کی تھی۔ احمر کے انکشاف کے بعد اب وہ بھی ایمان کے لئے احمر کا رشتہ لے جانے پہ غور کر رہی تھیں لیکن اس کے لئے جاوید حسن کی رضامندی ضروری تھی۔
اچھی بچی ہے ماشآللہ کیوٹ سی۔ تم کیوں پوچھ رہی ہو۔ امیرہ کی اس بے موقع بات پہ وہ حیران تھے۔
اگر ہم احمر کے لئے ایمان کے رشتے کی بات چلائیں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا۔ انہوں نے اٹکتے ہوئے کہا۔
میرا خیال ہے مجھ سے زیادہ اعتراض تمھیں ہوگا۔ جاوید حسن نے معنی خیز لہجے میں کہا۔
جاوید دراصل احمر ایمان کو پسند کرتا ہے۔ امیرہ نے اصل بات کہی۔
اوہ ـــــ تو برخودار کو اپنے لئے آخر لڑکی پسند آ ہی گئی۔ جاوید صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بھئی بیگم صاحبہ ــــ مجھے کیا اعتراض ہو گا۔ توفیق کمال ہیرا آدمی ہے۔ اور ایمان دیکھی بھالی بچی ہے ۔ یہ حادثہ نہ ہوتا تو آج ایک سے بڑھ کر ایک رشتہ توفیق کمال کے دروازے پہ سوال لئے کھڑا ہوتا۔ جاوید حسن نے تاسف سے کہا۔
پھر اب کیا کرنا ہے؟ امیرہ نے اگلا لائحہ عمل پوچھا
حرا بھابھی کو فون کر کے کہہ دو اس ویک اینڈ چلتے ہیں انکی طرف۔ جاوید صاحب نے رضامندی دی۔
لیکن اس سے پہلے ہی حرا انہیں پی سی کی لابی سے نکلتی نظر آئیں تھیں ۔ ایمان بھی انکے ساتھ تھی اور وہ جو اپنی فیملی کے ساتھ لنچ پہ آئی ہوئی تھیں سب کو بتائے بغیر حرا کی طرف لپکی تھیں۔ باتوں باتوں میں انھوں نے اپنے ان کے گھر آنے کا ذکر بھی کر دیا تھا۔
صرف پندرہ دن میں احمر اور ایمان کی شادی ہو گئی تھی۔ دونوں خاندانوں کو یہ رشتہ قبول تھا اور خوشی کے شادیانے بج رہے تھے۔ احمر کا عمر سے دس سال بعد سامنا ہوا تھا لیکن اس موقع پہ ان دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے کوئی رنجش نہیں تھی کیونکہ ان دونوں میں ایک قدر مشترک تھی ـــــــ ایمان- ان دونوں کے دل میں ایمان کے لئے جذبات مشترک تھے۔ سچی محبت
ایمان کو پا لینا اتنا سہل تھا۔ احمر کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ خوشی کے رنگ اسکے چہرے پہ چھپائے نہ چھپتے تھے۔ شیراز اسکے بلش ہوتے چہرے کو دیکھ کر انجوائے کر رہا تھا۔
ایمان کے لئے ڈائمنڈ رنگ خریدتے ہوئے اسکی نازک انگلیاں احمر کو یاد آئیں تھیں۔ ایمان کی وہ کن لفظوں میں تعریف کرے گا۔ اپنی داستان الفت اسے کیسے سنائے گا۔ اور اسکی ان باتوں پہ وہ کیسے ری ایکٹ کرے گی۔وہ سوچ سوچ کر مسکرا رہا تھا۔اتنی باتیں سوچیں تھیں اس نے اور ایک بات جو نہیں سوچی تھی آج رات وہ ہو گئی تھی۔ ایمان اسے پہچان گئی تھی۔ وہ راز جس سے اسکے والدین کے سوا کوئی دوسرا واقف نہ تھا اور جس راز کو وہ ایمان کو کبھی بتانا نہیں چاہتا تھا ــــ وہ بات ایمان کو معلوم تھی۔