رات کے ساڑھے نو بجے عمر کی کال توفیق کمال کے موبائل پہ آئی۔
ڈیڈی مانو کہاں ہے ؟ عمر نے پوچھا
کیا مطلب عمر ، ایمان گھر نہیں پہنچی اب تک ؟کمال ہے، جہانزیب نے اسے ابھی تک ڈراپ نہیں کیا۔ توفیق کمال عمر کی بات سن کر حیران تھے ۔ انکے حساب سے سات بجے کی گئی ایمان اب تک گھر پہنچ گئی ہو گی۔
ڈیڈ، ایمان اپنی گاڑی میں گئی ہے اور اب تک واپس نہیں آئی۔ عمر نے جیسے بم پھوڑا۔
تم نے چوکیدار سے پوچھا؟ توفیق کمال نے سر پکڑ لیا تھا۔
جی میں ابھی پہنچا ہوں اور ایمان کی گاڑی کو پورچ میں نہ پا کر میں نے چوکیدار سے پوچھا اور اس نے کہا ایمان قریباً چھ بج کر چالیس منٹ پر اپنی گاڑی لے کر گھر سے نکلی تھی اور اب ساڑھے نو سے زیادہ ہو رہے ہیں۔ عمر نے تفصیل بتائی
اچھا میں اور تمہاری ممی آ رہے ہیں ۔ مختصر بات کر کے توفیق کمال نے لائن کاٹ دی
ایمان ابھی تک گھر نہیں آئی یہ بات پریشانی والی نہ تھی ، ایمان ان سے پوچھے بغیر رات کو اپنی گاڑی لے کے باہر نکل گئی اس بات نے انہیں شدید ڈسٹرب کیا تھا۔
دس بجے توفیق کمال اور حرا گھر پہنچے ، ایمان اب تک نہیں آئی تھی ، ضعیم بھی گھر آچکا تھا۔ عمر اسوقت گھر میں جلے پاؤں کی بلی کی طرح گھوم رہا تھا۔
اب تک نہیں آئی ڈیڈ۔ توفیق کمال کو اندر آتا دیکھ وہ پریشانی سے بولا
تم نے ایمان کو کال کی؟ انہوں نے تفکر سے پوچھا حالانکہ وہ خود راستے میں کئی بار اسکے سیل فون پہ ٹرائی کر چکے تھے
وہ کال نہیں اٹینڈ کر رہی۔ عمر نے کہا
جہانزیب سے پوچھا؟ حرا نے کہا
نہیں شائد یہ مناسب نہیں ۔ توفیق کمال نے برجستہ کہا
وہ نہیں چاہتے تھے کہ سکندر ملک کی فیملی کو اس بات کی بھنک بھی پڑے اور ابھی محض دس ہی بجے تھے، ہو سکتا ہے وہ جہانزیب کے ساتھ ہو۔
لیکن رات کے گیارہ بجے جب ایمان نہیں آئی تو مجبوراً توفیق کمال کو جہانزیب کو فون کرنا پڑا۔
وہ تو پورے نو بجے اواری سے نکل گئی تھی میرے ساتھ ہی اس نے پارکنگ سے اپنی گاڑی نکالی تھی- کیا اب تک ایمان گھر نہیں پہنچی؟ جہانزیب نے تفکر سے کہا
نہیں ۔ توفیق کمال کی آواز بہت دور سے آئی تھی
اور پھر عمر گاڑی لے کر اسے دیکھنے نکل گیا تھا۔ کیا پتا کوئی حادثہ نہ پیش آگیا ہو، یا پھر گاڑی خراب ہو۔ اس نے سوچا ۔ لیکن دونوں صورتوں میں ایمان کو فون کرنا چاہیئے تھا ۔
پچھلے بلاک میں اسے ایمان کی گاڑی مل گئی تھی ، وہ سڑک کے کنارے پارک تھی اور لاک تھی اندر ایمان کا بیگ، سیل فون اور مخمل کا سیاہ ڈبہ، سیٹ پہ رکھا تھا۔ایمان وہاں نہیں تھی۔
سکندر ملک اور جہانزیب بھی کمال ہاؤس پہنچ چکے تھے ۔ پولیس یا باہر کے کسی بھی فرد کو ایمان کی گمشدگی کی خبر نہیں تھی لیکن سکندر کمال کی فیملی سے یہ بات پوشیدہ نہ رکھی جا سکی تھی، گھر کے ملازمین بھی اس راز سے باخبر تھے۔ پوری رات اس گھر کے ہر فرد نے آنکھوں میں کاٹی، سب کا دھیان فون کی طرف تھا شائد کسی نے اسے تاوان کےلئے اغواء کر لیا ہو ۔ اس وقت ان کے ذہن میں یہی خیال آیا تھا ۔ چند ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں فون کرنے کے بعد اب اس کے آگے کا لائحہ عمل صرف یہی تھا کے وہ خود کسی خبر کا انتظار کرتے۔
حرا کا رو رو کر برا حال تھا ۔ وہ سب ہی اتنے متفکر تھے کہ کوئی کسی کو دلاسہ دینے کی کیفیت میں نہ تھا۔ سکندر ملک اور جہانزیب بھی واپس جا چکے تھے لیکن توفیق کمال سے وہ مسلسل رابطے میں تھے۔ پوری رات اور پھر اگلا پورا دن سارے گھر نے اذیت میں گزارا۔ کیا کیا وہمات تھے، کتنے خدشات ۔ ایمان کی گاڑی کا گھر کے پاس ملنا اسی بات کا ثبوت تھا کہ اسے اغواء کیا گیا ہے لیکن جب دن میں بھی کسی نے رابطہ نہ کیا تو عمر نے پولیس کو اس معاملے میں انوالو کرنے کا سوچا ۔
آج رات دیکھ لو عمر ، شائد کوئی صورت نکل آئے۔ توفیق کمال نے ٹوٹے لہجے میں کہا۔ایک ہی دن میں وہ کتنے بوڑھے دکھ رہے تھے
ڈیڈ ، آپ حوصلہ رکھیں ۔ انشاءاللہ جلد ایمان مل جائے گی ۔عمر نے ان کا ہاتھ تھام کر کہا
حرا جاۓ نماز بچھائے سجدے میں گری تھیں ۔ انکی پھول سی بچی پتا نہیں کن حالات میں ہو گی
اے اللہ میری معصوم بچی کو اپنی حفاظت میں رکھنا۔سجدے میں بس ایک ہی التجاء ان کے لبوں پہ جاری تھی۔
صبح کے ساڑھے پانچ کا وقت تھا۔ توفیق کمال فجر کی نماز پڑھ کر لونگ روم میں آ گئے تھے۔ پچھلی دو راتوں میں وہ چند لمحے بھی نہ سو سکے تھے۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ آج عمر نے اپنے ایک جان پہچان والے اے سی پی سے ملنا تھا ، وہ اسی کے متعلق سوچ رہے تھے جب مین ڈور پہ بیل ہوئی۔
صبح کے ساڑھے پانچ بجے کون ہو سکتا ہے۔ توفیق کمال نے سوچا
بیل مسلسل تھی ، جیسے کوئی انگلی اٹھانا بھول گیا ہو۔
چوکیدار دروازہ کھول رہا تھا جب توفیق کمال بھی ڈرائیو وے تک پہنچ گئے۔
ایمان میری بچی۔ ایمان کو دروازے پہ دیکھ کر وہ بے اختیار لپکے ۔
ایمان نے انہیں دیکھا اور اس کا وجود بے جان ہوتا گیا۔ اس سے پہلے کے وہ زمین پہ گر جاتی توفیق کمال نے اسے اپنے مضبوط بازوؤں میں سنبھال لیا۔
مسلسل بیل کی آواز سے عمر اور ضعیم بھی اپنے کمروں سے نکل آئے تھے ۔ سوئے تو وہ بھی نہ تھے اور اب توفیق کمال کو ایمان کو تھامے دیکھ کر فوراً دونوں بھائی آگے بڑھے۔
ایمان کو اس کے کمرے میں پہنچا کے ضعیم حرا کو بتانے بھاگا۔
ایمان کو ہوش آیا تو وہ اپنے کمرے میں تھی۔ حرا اسکے بیڈ پہ بیٹھی کچھ پڑھ کر اس پہ دم کر رہی تھی۔ ایمان کو ہوش میں آتا دیکھ کر اس نے تو فیق کمال کو بلایا۔
ایمان میری بچی-کیسی ہو میری جان، کہاں چلی گئی تھی۔ ایمان کے ماتھے کو چومتے حرا اس سے پوچھ رہی تھیں۔
عمر اور ضعیم بھی وہاں تھے ۔وہ سب کو دیکھ کر رونے لگی۔
مانو کیوں رو رہی ہو بچے۔عمر آگے بڑھا۔ ایمان کو روتا دیکھ کر اس کے دل کو کچھ ہوا تھا۔
اور پھر عمر کے پوچھنے پہ اس نے ساری بات بتائی تھی ۔
حیرت سی حیرت تھی، کسی نے دیدہ دلیری سے ایمان کو اغواء کیا- اسے دو راتیں کوئی نقصان پہنچائے بغیر اپنے پاس رکھا اور بغیر کسی تاوان کے دروازے پہ چھوڑ گیا۔
ایسا کون ان کا دشمن تھا جس نے انہیں اپنی طاقت کا نمونہ دکھایا تھا۔ یا پھر وہ غلطی سے ایمان کو لے گیا اور اپنی غلطی کا احساس ہونے پہ ایمان کو واپس چھوڑ گیا تھا۔ عمر اور توفیق کمال ایمان کے کمرے سے نکل آئے تھے اور اب اسی بارے میں ڈسکس کر رہے تھے۔
وہ جو بھی تھا عمر ، ہماری عزت کو دو کوڑی کا کر سکتا تھا یا پھر کر چکا ہے۔ توفیق کمال نے اپنے بدترین خدشات کا اظہار کیا۔
سکندر ملک اور جہانزیب ایمان کی واپسی کا سن کر ملنے آئے تھے۔ طیبہ انکے ساتھ نہیں آئیں تھیں۔
اللہ کا شکر ہے توفیق، ایمان بحفاظت گھر پہنچ گئی۔ میرا خیال ہے کچھ غلط فہمی ہو گئی ہو گی۔ سکندر ملک نے اپنے لہجے کو خوشگوار کرتے ہوئے کہا لیکن ان کی ہچکچاہٹ کو توفیق کمال محسوس کر گئے تھے۔ جہانزیب خاموشی سے بیٹھا ان لوگوں کی باتیں سن رہا تھا۔
مجھے تو اس سارے قصے میں ایک پرسنٹ بھی سچ نہیں لگ رہا ہے۔ طیبہ اس سارے واقعے سے اچھی خاصی خائف تھیں۔
سکندر ملک اور جہانزیب ابھی ابھی کمال ہاؤس سے واپس آئے تھےاور طیبہ کو ساری بات بتا رہے تھے۔
بھلا ایسا ہو سکتا ہے لڑکی دو راتیں گھر سے غائب رہے اور اغواء کرنے والا حفاظت سے خود گھر چھوڑ جائے۔ کیا خوب کور سٹوری بنائی ہے توفیق بھائی نے۔ طیبہ اس بات کو کسی صورت ماننے کو تیار نہیں تھیں کہ ایمان اس سب مسئلے میں بے قصور ہے۔
لیکن طیبہ ایمان نے یہی بتایا ہے۔ سکندر ملک نے دھیمی آواز میں کہا
اور اسکا کہا تو حدیث ہے ۔ کیا پتا خود ہی کسی کے ساتھ چلی گئی ہو اور اب من گھڑت کہانی سنا کر سب کو بیوقوف بنا رہی ہو۔ طیبہ نے زہریلے لہجے میں کہا۔
طیبہ خاموش ہو جاؤ۔ میری آنکھوں کے سامنے پلی بڑھی ہے وہ، اسکی تربیت میں کھوٹ نہیں۔ سکندر ملک غرائے
مجھ پہ مت چلایئں سکندر ، ایمان کا اس سارے قصے میں کوئی قصور نہ بھی ہو تو کیا یہ سچ نہیں وہ دو راتیں کسی غیر مرد کے پاس گزار کرآئی ہے اور کیا جہانزیب اس بات کو اگنور کر دے گا؟ طیبہ خاموش ہونے والیں نہ تھی
جہانزیب ان دونوں کی بحث خاموشی سے سن رہا تھا ۔ انکی باتوں سے بیزار ہو کر پیر پٹختا، وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
اس واقعے نے اس کی عقل سلب کر لی تھی ، توفیق کمال کا جھکا سر اور ایمان کی خاموشی اپنی جگہ لیکن طیبہ کی باتیں ، وہ ان کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتا تھا۔
کیا اسے ایمان سے خود بات کرنی چایئے؟ جہانزیب نے سوچا
کیا پوچھوں گا اس سے۔ وہ زیر لب بڑبڑایا۔
طیبہ کا دل ایمان سے متنفر تھا کیونکہ وہ ایک روائتی ماں اور ساس کی طرح سوچ رہی تھیں مگر جہانزیب تو ایک روائتی مرد نہ تھا۔ اتنے سال ایک آزاد خیال معاشرے میں رہا تھا ۔ اعلیٰ تعلیم اور پھر اسکی کلاس جہاں لڑکے لڑکیوں کا آپسی میل جول کوئی بڑا ایشو نہیں تھا خود اسکی کتنی لڑکیوں سے یونیورسٹی میں دوستی تھی مگر یہ اسکے ماں باپ کی اچھی تربیت تھی کے وہ کبھی اپنی حد سے آگے نہ بڑھا تھا۔مگر یہ بھی سچ تھا کہ عمر، ایمان اور ضعیم کو بھی ان کے پیرنٹس نے بہت کنزرویٹو انداز میں پالا تھا۔ لیکن جہانزیب کے اندر کا روائیتی مرد اسے بے چین کر رہا تھا
طیبہ کی باتیں اسے مسلسل پریشان کر رہی تھیں۔ دو راتوں سے وہ سویا نہیں تھا۔ آفس نہیں گیا تھا اور پھر اس ساری صورتحال سے بچنے کا رستہ اس نے فرار میں ڈھونڈا۔ ایک کمزور انسان کی طرح اس نے اس ساری سچویشن سے پیچھا چھڑانے کیلئے لندن جانے کا ارادہ کیا۔
پاپا میں کل لندن جا رہا ہوں۔ جہانزیب نے ڈائیننگ ٹیبل پہ بیٹھے سکندر ملک سے کہا۔
ایسے اچانک۔ سکندر ملک کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
میں اس ساری سچویشن سے کافی ڈسٹرب ہوں پاپا اور مجھے لگتا ہے کچھ وقت اس ماحول سے دور رہ کر شائد میں کوئی بہتر فیصلہ کر سکوں۔ جہانزیب نے قطعیت سے کہا۔
میرا خیال ہے تم ایک بار ایمان سے مل لو۔ سکندر ملک نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
میرا نہیں خیال ابھی اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکلے گا ۔ جہانزیب بولا۔
لیکن تمھارے ملنے سے ایمان کو حوصلہ ہو گا۔ سکندر ملک اسکے ایمان سے ملے بغیر لندن چلے جانے کا سن کر پریشان ہو گئے تھے۔
ابھی تو میں خود کو ہی سنبھال نہیں پایا ۔ کسی کو کیا حوصلہ دوں گا پاپا۔ آپ پلیز مجھ پہ دباؤ نہ ڈالیں ۔ میں نہیں چاہتا اس سب کا کوئی ایسا نتیجہ نکلے جس سے آپ کی دل آزاری ہو۔ جہانزیب نے تلخی سے کہا۔
اور سکندر ملک خاموش ہوگئے تھے۔ جہانزیب کوئی ٹین ایج لڑکا نہیں تھا جس کو سکندر ملک حکم دیتے اور وہ انکے آگے کچھ نہ بولتا۔وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ، خود مختار ستائیس سالہ مرد تھا جس کے فیصلے پہ سکندر ملک کا بس نہیں تھا ۔ وہ اسے سمجھا سکتے تھے مگر اس پہ اپنے فیصلے مسلط نہیں کر سکتے تھے۔
یہ طیبہ کی سخت باتوں کا اثر تھا کہ جہانزیب ایمان سے ملے بغیر لندن چلا گیا تھا۔
جہانزیب کے لندن جانے سے جہاں توفیق کمال پریشان ہوئے وہیں سکندر ملک شرمندہ تھے لیکن دونوں نے اس بارے میں کوئی بات نہ کی۔
ایمان ان دنوں پہلے سے زیادہ خاموش اور اداس رہنے لگی تھی۔ ایک طرف وہ شخص نہ بھولتا تھا تو دوسری طرف جہانزیب کا اسے کچھ کہے سنے بغیر چلے جانا ایمان کو تکلیف پہنچا رہا تھا۔ وہ جو اپنے ٹوٹے دل کے ٹکڑوں پہ چلتی اس صبح گھر پہنچی تھی ، ابھی اس غم سے نبٹنے کا موقع بھی نہ ملا تھا کہ جہانزیب کی بے رخی اور طیبہ کے سرد رویے نے اسے شدید اذیت میں مبتلا کر دیا تھا۔ جہانزیب اس سے ایک بار بھی نہیں ملا تھا، اس نے کوئی سوال کیا تھا نہ دلاسہ دیا تھا ۔ جو راہ میں آئی پہلی مشکل میں ساتھ چھوڑ جائے وہ تاعمر ساتھ کیا نبھائے گا۔
اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں
ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
کمرے مین نیرہ نور کی آواز دھیمے سروں میں بج رہی تھی۔
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ
یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر ، بے داد نہ کر
پچھلے دو ماہ میں ایک بار بھی جہانزیب یا طیبہ نے ان سے رابطہ نہ کیا تھا ، سکندر ملک تو مشترکہ کاروبار کی وجہ سے توفیق کمال سے ملتے رہتے تھے مگر ایمان کے حوالے سے دونوں طرف خاموشی تھی ۔ وہ آج بھی جہانزیب کے ساتھ منسوب تھی مگر پچھلے دوماہ میں وہ اپنا مقام جان چکی تھی اور اسے ایک بدگمان رشتے میں قید رہنا منظور نہ تھا۔ اسے لگا فیصلہ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
ایمان کی خاموشی، اسکا سب سے الگ تھلگ اپنے کمرے میں رہنا، توفیق کمال اور طیبہ کو دن رات پریشان کرتا تھا۔وہ تو پہلے بھی بہت شور مچانے والوں میں شامل نہیں تھی مگر اس حادثے کے بعد بہت چپ چپ رہنے لگی تھی ۔ انہیں اپنی بیٹی کے اداس چہرے سے تکلیف ہوتی تھی۔ ماں باپ کتنے بھی طاقتور کیوں نہ ہوں ، بیٹیوں کیلئے وہ بہت بےبس ہوتے ہیں۔
اب وہ سکندر ملک اور طیبہ سے سامنے سے بات کر کے اپنی بیٹی کی قدر گھٹائیں ایسا تو بہرحال ممکن نہ تھا۔
ٹیبل پہ پڑا اسکا موبائل کافی دیر سے بج رہا تھا، عجلت میں اس نے فون کی طرف دیکھا اور پھر اسکرین پہ آنے والے شناسہ نمبر کو دیکھ کر اس نے کال اٹینڈ کی۔
ہیلو۔ لہجے میں اجنبیت در آئی۔
ہیلوــــمیں ایمان بات کر رہی ہوں۔ دوسری طرف خوبصورت آواز میں سنجیدگی تھی۔
ہاں-کیسی ہو ایمان۔ خود کو لاپرواہ پوز کرتے جہانزیب نے کہا
میں ٹھیک ہوں ۔ آپ سے کچھ ضروری باتیں کرنی تھیں ، اگر آپ مصروف نہ ہوں تو؟ نپے تلے لفظوں میں ایمان نے کہا۔
نہیں –ایسی کوئی خاص مصروفیت نہیں ۔ تم کہو۔ اپنے سامنے پڑی فائل بند کرتے اب وہ ایمان کی طرف متوجہ تھا
پچھلے دو ماہ میں اس نے جب بھی ایمان کے بارے میں سوچا اس کا دل بے قرار ہو جاتا تھا لیکن اس کے اندر کا روایئیتی مرد ہر بار اسے طیبہ کے الفاظ یاد دلاتا اور وہ خود کو اناء کے خول میں بند کر لیتا مگر آج ایمان کی آواز سن کر وہ بے چین ہو گیا تھا۔ اسکے معصوم اور دلکش نقوش کسی آبشار کی مانند دل کی شاہراہ پہ لہرانے لگے تھے اور پھر ان کی بوچھاڑ نے اسکی روح میں جل تھل کر دی تھی۔ آج میں اپنے گزشتہ رویے کی معافی مانگ لوں گا ۔ اس نے سوچا تھا۔
جہانزیب میں کچھ دن میں آپ کو خلع کے پیپر بھجوا رہی ہوں ۔ آپ ان پہ دستخط کر کے مجھے بھجوا دیں ۔ اچھا ہے تمام باتیں گھر میں ہی ہو جائیں ورنہ عدالتوں کے چکر میں دونوں گھروں کی ساکھ متاثر ہو یہ مجھے مناسب نہیں لگتا۔ ایمان کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔
اور وہ جو اپنے دل میں ایمان سے اپنے گزشتہ رویوں کی معافی مانگنے کا سوچ کر مطمئعن ہو گیا تھا اسکے لئیے ایمان کی یہ بات کسی بم کی طرح تھی۔
ایمان ــــــمیں تم سے۔ لفظ کہیں راستہ بھول چکے تھے ۔ اور وہ جو اب تک ایمان کو نروس کرتا آیا تھا آج اسکی خوداعتمادی ایمان کے سامنے ہوا ہو گئی تھی۔
آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں جہانزیب، یہ فیصلہ میں نے بہت سوچنے کے بعد کیا ہے۔ جس رشتے کی بنیاد میں یقین کی مٹی شامل نہ ہو۔ رشتے کی وہ عمارت پہلے ہی جھٹکے سے زمیں بوس ہو جایا کرتی ہے۔ ایمان نے تلخی سے کہا۔
مجھے لگا وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جہانزیب نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
آپ جس وقت کی بات کر رہے ہیں میں نے اس وقت میں پل پل اذیت جھیلی ہے۔ بے اعتباری اور بے حسی کو سہا ہے میں نے۔وقت کی بے رحمی نے کیسے میری روح کو گھاؤ لگائے ہیں آپ کو تو اس کا احساس بھی نہیں ہے۔ اس وقت نے مجھے کتنی تکلیف دی ہے آپکو اسکا اندازہ ہوتا تو آپ مجھے فون کرتے ، میں آپ کو فون نہ کرتی۔ ایمان نے آنسو پیتے کہا۔ پچھلے دو ماہ کی بے بسی آج آنکھوں کے بندھ توڑنا چاہتی تھی۔
لیکن میں نے تم سے کوئی صفائی نہیں مانگی ۔ جہانزیب بولا
کیوں نہیں مانگی صفائی؟ حق تھا آپ کو سوال کرنے کا ۔ مجھ سے پوچھتے۔ ایمان کیا ہوا تھا اس رات ۔ میں بتاتی ــــ میں سب سچ بتاتی۔اور نہیں تو کوئی دلاسہ ہی دیتے۔ تسلی کا کوئی لفظ مجھے حوصلہ دیتا ۔ مگر آپ نے صرف اپنا سوچا اور آج بھی آپ اپنے بارے میں ہی سوچ رہے ہیں۔ اس نے ہذیانی کیفیت میں کہا
ایمان مجھے لگا وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ جہانزیب نے ہار مانتے ہوئے کہا
وقت وہی تھا جب مجھے اپنے شوہر کا اعتماد چاہئیے تھا۔اور پچھلے دو ماہ میں سے اس وقت کا انتظار کر رہی تھی ۔ اور آپ نے کیا کیا؟ آپ نے مجھے میرے نا کردہ گناہ کی سزا دی ۔ آپ کی خاموشی نے مجھے مجرم ثابت کر دیا۔ سزا تو میں بھگت چکی جہانزیب مگر اب مجھ میں تمام عمر کٹہرے میں کھڑے ہونے کا حوصلہ نہیں ہے۔ میں تمام عمر صفائیاں نہیں دے پاؤں گی۔ ایمان نے قطعیت سے کہا۔
اس سے پہلے کہ جہانزیب کچھ کہتا دوسری طرف سے لائن کاٹی جا چکی تھی۔
اگلے دن ایمان نے اپنے فیصلے سے توفیق کمال کو آگاہ کر دیا تھا۔ وہ ساری زندگی جہانزیب اور اسکے گھر والوں کے سامنے مجرموں کی طرح زندگی گزارے، اس کے ہر قدم کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے اور پھر جو جہانزیب آج ایک حادثے کے باعث اسے کچھ کہے سنے بغیر تنہا چھوڑ گیا وہ کل کسی اور بات پہ اسے اپنی زندگی سے بآسانی نکال سکتا تھا۔
ایمان ٹھیک کہہ رہی تھی ۔ یہی سچ توفیق کمال کو ایمان سے نظر نہیں ملانے دیتا تھا ۔ انہوں نے اسکی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ اس سے پوچھے بغیر کیا تھا ۔ اپنی عقل سے انہوں نے اس کے لئیے ایک بہترین ساتھی کا انتخاب کیا تھا۔ وہ خوش شکل تھا، اعلیٰ خاندان، دولت اور پھر اسکی تعلیمی قابلیت ان سب سے بڑھ کر تھی لیکن جہانزیب انکی بیٹی کو بےوقعت کر دے، اسکا اعتبار نہ کرے۔ انہیں ایمان کے لئے ایسا جیون ساتھی تو نہیں چاہئیے تھا۔
عمر نے خود وکیل سے خلع کے کاغذات بنوا کے جہانزیب کو فیڈیکس کئیے تھے۔ ان کی ایمان اتنی ارزاں نہ تھی۔
زندگی آہستہ آہستہ اپنی روش پہ واپس آ رہی تھی۔ ایمان نے اپنا پانچواں سمیسٹر شروع کیا تھا۔ عمر اپنی فیکٹری میں مصروف تھا اسکا کام آج کل بہت بڑھ گیا تھا۔ ضعیم آج کل امریکہ میں اپنے ایڈمیشن میں مصروف تھا۔ توفیق کمال اور سکندر ملک آج بھی مشترکہ کاروبار کر رہے تھے۔ ان دونوں میں آج بھی پہلے والی دوستی قائم تھی ایمان اور جہانزیب کے بارے میں ان کے درمیان کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔دونوں نے اس معاملے میں رواداری نبھائی تھی۔ پچھلے چھ ماہ میں زندگی معمول پہ آگئی تھی۔
ہسٹری چینل پہ اسوقت فان گوگ میوزیم پہ پروگرام دکھایا جا رہا تھا۔ اٹھارویں صدی کے معروف مصور ونسنٹ وان گوگ کی تصاویر جو ایمسٹریم میں واقع ایک میوزیم میں رکھی گئی ہیں اور جس کا نام بھی مصور کے نام پہ ہے۔ ایمان پوری یکسوئی کے ساتھ اس پروگرام کو دیکھ رہی تھی۔ رنگوں میں بھیگی فیلڈ آرٹ کی مایہ ناز تصاویر ، میوزیم کے وسیع دالانوں میں رنگ بکھرے تھے۔ وان گوگ کی مشہور زمانہ پینٹنگ کو دیکھ ایمان کی آنکھوں میں جگنو در آئے تھے۔وہ اس پروگرام کو بہت انجوائے کر رہی تھی۔
کیا ہو رہا ہے ماما کی جان ــــحرا وارفتہ نظروں سے بیٹی کو دیکھتیں اس کے کمرے میں داخل ہوئیں۔
کچھ خاص نہیں ممی، بس یہ پروگرام دیکھ رہی تھی۔ اس نے ٹی وی کی طرف اشارہ کرتے کہا۔
کچھ خاص نہیں ، تو پھر چلو میرے ساتھ۔ حرا نے مسکراتے ہوئے کہا
کہاں جانا ہے ۔ ایمان اس پروگرام کو ہرگز مس کرنے کے موڈ میں نہ تھی۔
آج ایک ایگزیبیشن ہے لان کی سوچا آج دونوں ماں بیٹی تھوڑی شاپنگ کر آئیں۔ حرا نے اسے اپنا پروگرام بتایا۔
ممی، آپ کو پتا ہے مجھے یہ شاپنگ کافی بور لگتی ہے۔ایمان نے جان چھڑانے کی غرض سے کہا
جی ـــــ آپ کو تو رومنٹک غزلیں، آرٹ گیلیریز اور کتابوں کے سوا سب کچھ بورنگ لگتا ہے ۔ لیکن ابھی تو ہم شاپنگ پہ ہی جائیں گے۔ حرا نے اس کا موڈ بھانپ لیا تھا اور اب ذرا حکمیہ لہجہ بنا کر بولیں۔
اچھا تو پھر چلیں۔ ایمان نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
وہ دونوں آگے پیچھے کمرے سے باہر نکل آئیں۔
سفید کاٹن نیٹ کے ایمبرایڈری والے لمبے کرتے پہ بڑا سا دوپٹہ اور چوڑی دار پائجامہ، آنکھوں میں کاجل اور ہونٹوں پہ لپ گلوس لگائے وہ آج بھی اپنی دلکش سادگی میں دل کو چھو لینے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔
ہیلو حرا ـــ ہوٹل کی لابی سے نکلتے کسی نے انہیں آواز دی تھی۔ دونوں نے ایک ساتھ پیچھے مڑ کر دیکھا۔
ہیلو امیرہ۔ حرا نے پہنچاتے ہوئے گرمجوشی سے کہا۔
کتنے دنوں بعد نظر آئی ہو، لاسٹ ویک مرتضیٰ صاحب کے گھر پارٹی تھی تم وہاں بھی نہیں آئی۔ ارے یہ ایمان تو ما شاءاللہ بہت کیوٹ ہو گئی ہے۔حرا سے شکوہ کرتے اب وہ ایمان سے مل رہی تھیں۔
بس آجکل ضعیم کے ایڈمیشن کا سلسلہ چل رہا ہے کچھ توفیق بزی ہیں تو گیٹ ٹوگیدرز میں کم ہی جایا جاتا ہے۔ حراکو اپنی مصروفیت کا بتاتے انہوں نے اپنے پارٹی میں نہ آنے کا بہانہ تراشہ۔ ورنہ پچھلے ہفتے اور اس سے پہلے ایسی کئی محفلیں جہاں طیبہ کی شرکت لازمی تھی وہ نہیں جایا کرتی تھیں ۔ توفیق کمال بھلے سکندر ملک سے اپنی دوستی نبھائیں مگر حرا کو انکی فیملی سے ملنے میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔
دراصل میں تمہیں فون کرنے ہی والی تھی اور تم سے یہاں ملاقات ہو گئی۔امیرہ جاوید نے کہا۔
ممی میں گاڑی میں ہوں یہ بیگ رکھ دوں ۔ ایمان نے ہاتھ میں پکڑے چند لفافوں کی طرف اشارہ کیا ۔ شائد وہ اب ان کی باتوں سے بیزار ہو رہی تھی اور ان محترمہ کی کسی کہانی میں اسے تو کوئی دلچسپی نہ تھی اسلئیے لابی سے نکل کر وہ پارکنگ کی طرف چل پڑی۔
اچھا نیکسٹ ویک اینڈ کا کیا پلان ہے۔ امیرہ کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تھی۔اب وہ مین گیٹ تک پہنچ چکی تھی۔
ممی آپ یہاں ہیں اور میں آپ کو ساری جگہ دیکھ چکا ہوں۔ خوبصورت لہجے میں کہتا وہ ان دونوں کے قریب آگیا۔
ارے احمر ــــ کیسے ہو بیٹا۔ حرا نے پیار سے پوچھا
میں بلکل ٹھیک ہوں آنٹی ۔ آپ کیسی ہیں اور توفیق انکل۔ اس نے خوش اخلاقی سے کہا۔
چھ فٹ قد۔ گندمی رنگت ، اٹھی ہوئی ناک، آنکھوں میں ذہانت اور سنجیدگی۔ دلکش نقوش اور خوبصورت لب و لہجہ – غرضیکہ وہ بھرپور مردانہ وجاہت کا حامل تھا۔ وہ اور عمر ہم عمر تھے ۔ حرا نے آج اسے لمبے عرصے بعد دیکھا تھا۔
آپ یہاں ہیں ااور پاپا مجھے کہہ رہے ہیں تمہاری ممی یقیناً ایگزیبیشن دیکھنے چلی گئی ہیں۔ میں ابھی ہال کا چکر لگا کہ آیا ہوں۔ مسکراتا ہوا، اب وہ امیرہ سے بات کر رہا تھا۔
مجھے حرا نظر آگئی تو میں اس سے ملنے چلی آئی۔احمر سے کہہ کر وہ حرا کی طرف پلٹیں۔
اچھا حرا اس ویک اینڈ میں اور جاوید تمہاری طرف آنا چاہ رہے تھے ۔ کوئی پروگرام تو نہیں تم لوگوں کا؟ امیرہ نے جلدی سے کہا۔
احمر کے چہرے کا رنگ بدلا تھا۔
نہیں کوئی خاص پروگرام نہیں ۔ یو آر موسٹ ویلکم۔ حرا نے خوشدلی سے کہا۔ حالانکہ وہ کافی حیران تھیں کہ امیرہ جاوید اتنے سالوں میں پہلی بار انکے گھر آنے کا کہہ رہی ہے۔ اپنی حیرت کو ان دونوں سے چھپاتے انہوں نے بائے کہا اور پارکنگ کی طرف چل پڑیں۔
جاوید حسن، ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ایک مقبول نام تھا۔ توفیق کمال اور وہ ایک ہی کاروبار میں ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے اچھا تعارف رکھتے تھے۔ کاروباری اور پرسنل پارٹیوں میں اکثر ملاقات رہتی اور امیرہ جاوید سے حرا بھی انہی پارٹیوں میں ملتی جلتی تھیں ۔ انکے دونوں بیٹوں ، احمر اور شیراز سے بھی اچھی طرح واقف تھیں۔ مگر آج پہلی بار امیرہ ان کے گھر آنے کی بات کر رہی تھیں ۔ اس بات نے حرا کو ہی نہیں توفیق کمال کو خاصہ حیران کر دیا تھا۔
ایمان کو اس دن تمھارے ساتھ دیکھا تو بس میں نے سوچ لیا تھا میرے احمر کیلئیے ایمان ہی بہترین میچ ہے۔ ڈنر کے بعد جاوید حسن، امیرہ جاوید ، توفیق کمال ، حرا اور عمر ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے کافی کا سپ لیتے امیرہ نے اپنی آمد کا مقصد بتایا۔
ایمان اور احمر کی شادی؟ حرا کی آنکھوں میں خوشگوار حیرت تھی۔جبکہ توفیق کمال نے حرا کو پرسکون چہرے سے دیکھا تھا۔ عمر نے پہلو بدلا تھا۔
آپ لوگوں کو کوئی اعتراض ہے کیا؟ امیرہ نےحرا کے اس سوال پہ مخمصے سے پوچھا
سچ توفیق بھائی ـــ مجھے تو لگتا ہے ایمان ہی وہ خوشی کی کرن ہے جو میرے گھر میں روشنی بھر دے گی۔ امیرہ نے فرط جذبات سے کہا۔
بھلا ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ توفیق کمال کی زبان سے نکلے الفاظ نے حرا کو پر سکون کر دیا تھا۔ احمر کو دیکھ کر ان کے دل میں بھی یہی بات آئی تھی ۔ اتنا ہونہار اور خوش شکل لڑکا ، کاش یہ انکی ایمان کا نصیب ہو سکتا ۔ مگر پچھلے نو سال سے ایمان اور جہانزیب کا نکاح زبان زد عام تھا ۔ اور پھر ان دونوں کی طلاق ــــ یہ بات تو صرف دونوں خاندانوں کے درمیان تھی ۔ ایسے میں کون سامنے سے ایمان کی شادی کا ذکر کرتا۔
لیکن ان لوگوں کو کیسے پتا چلا کہ ایمان اور جہانزیب کا طلاق ہو چکا ہے۔ حرا نے سوچا۔
احمر جاوید ــــ جاوید حسن کا ہونہار بیٹا۔ جس نے دو سال پہلے انکا بزنس جوائن کیا اور ایک مختصر عرصے میں اپنی پہچان بنائی تھی۔ ایمان کے لئیے احمر سے بہتر رشتہ توفیق کمال کہاں تلاش کر سکتے تھے اور پھر جس چاہ سے انہوں نے ایمان کے لئیے سوال کیا تھا ۔ توفیق کمال کفران نعمت نہیں کرنا چاہتے تھے۔
انکار کی تو کوئی گنجائش ہی نہ تھی ۔ پھر بھی توفیق کمال ، ایمان سے ایک بار پوچھنا چاہتے تھے۔ اس لئیے انہوں نے وقت مانگا تھا۔
آپ کو جو مناسب لگتا ہے ، آپ وہ فیصلہ کریں ۔ مجھے آج بھی آپ کے کسی فیصلے سے اختلاف نہیں ہے۔ ایمان نے پختہ لہجے میں کہا۔ ابھی ابھی توفیق کمال ، ایمان کے کمرے میں اس کی رائے جاننے آئے تھے اور ایمان نے انہیں کہہ دیا تھا کہ انہیں اس کے لئے کوئی بھی فیصلہ کرنے کے مین اسکی کی اجازت درکار نہیں ہے۔
انہوں نے شفقت سے بیٹی کے سر پہ ہاتھ رکھا اور دل میں اسکی اچھی قسمت کی دعا کرتے نم آنکھوں سے باہر نکل آئے۔
ڈیڈ ، احمر جاوید ہی کیوں؟ عمر نے ناراض لہجے میں توفیق کمال سے کہا۔ وہ اپنی اسٹڈی میں تھے اور ابھی ابھی عمر ان سے اس رشتے کے متعلق بات کرنے آیا تھا۔
عمر تمھیں ابھی کچھ وقت لگے گا ذہنی پختگی آنے میں۔ توفیق کمال نے معنی خیز لہجے میں کہا۔
لیکن ڈیڈ ، احمر کوئی واحد رشتہ تو نہیں ہے مانو کے لئیے ۔ ہم کوئی بہتر لڑکا ڈھونڈھ سکتے ہیں۔ عمر نے جھنجلاتے ہوئے کہا۔
اور احمر میں کیا خرابی ہے؟ توفیق کمال نے سوالیہ نظروں سے عمر کی طرف دیکھا۔
عمر نے نچلا لب دانتوں سے کاٹا۔
عمر کمال ، کاروبار اور ذاتی زندگی کو الگ رکھو۔ میں آج تک اس فرق کو لے کر چلا ہوں اسی لئیے میرے دشمنوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ توفیق کمال نے سنجیدگی سے کہا۔
عمر پیر پٹختا اسٹڈی سے باہر آ گیا۔
توفیق کمال جانتے تھے احمر ، ایمان کے لئیے بہترین ساتھی ہے وہ اسکی سلجھی ہوئی طبیعت اور تحمل مزاجی سے اچھی طرح واقف تھے۔اور پھر کسی بھی لمبے چوڑے پروگرام کے بجائے دونوں گھروں نے ڈائریکٹ شادی کو ترجیح دی تھی۔ ضعیم کا سمیسٹر شروع ہونے والا تھا اور اسے امریکہ جانا تھا اس سے پہلے وہ ایمان کی شادی اٹینڈ کرنا چاہتا تھا ۔ حرا نے ایمان سے احمر کو ملنے کا پوچھا تھا جسے ایمان نے صاف منع کر دیا تھا ۔ اس نے اپنی قسمت کا فیصلہ اپنے ماں باپ کے ہاتھ میں چھوڑا تھا، جب وہ نہیں تو کوئی بھی سہی ۔ ان گہری آنکھوں کو یاد کرتے اس نے سوچا تھا جو اب بہت مدت سے اسکے خوابوں میں نہیں آتی تھیں ۔ جب سے اس نے ان جیتی جاگتی آنکھوں کو اپنے قریب دیکھا تھا ایمان کو وہ خواب آنا بند ہو گیا تھا۔
تجھے خواب ہی میں دیکھوں، یہ بھرم بھی آج ٹوٹا
تیرے خواب کیسے دیکھوں، مجھے نیند ہی نہ آئی