آج ثنا کی سالگرہ تھی اور ہمیشہ کی طرح آج وہ ایمان کو ٹریٹ دینے کے لئے اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ میں لے آئی تھی۔ استقبالیہ پہ دو لوگوں کا کہہ کر وہ دونوں اپنی ٹیبل سیلیکٹ کرچکی تھیں۔ ریسٹورنٹ میں بیٹھے لوگوں کو نظرانداز کرکے اب وہ اپنی پسندیدہ اسنیک کی ٹیبل کی طرف جا رہی تھیں۔
السلام علیکم ایمان ۔ خوبصورت لہجے میں کوئی بہت دھیمے انداز میں بولا تھا
ایمان نے چونک کر پیچھے دیکھا، ساتھ والی ٹیبل پہ چایئنیز بوفے سرو تھا اور وہ اسی ٹیبل سے اپنے لئے کھانا لے رھا تھا
جہانزیب آپ؟ ایمان نے آنکھوں میں حیرت لئے کہا
جی – یہ میرا پسندیدہ ریسٹورنٹ ہے اور پاکستان میں تھا تو یہاں بہت آتا تھا اسلئے سوچا آج پھر اس کو آزمایا جاۓ ۔دیکھیں کیا اب بھی اسکا معیار اتنا ہی اعلیٰ ہے۔ خوش مزاجی سے مفصل جواب دیتے وہ مسکرا رہا تھا۔
جی اس میں کوئی شک نہیں کہ روائیتی پاکستانی کھانوں کے لئے اس سے بہتر جگہ کوئی نہیں اور پھر یہاں کا انٹیرئر ۔ ایمان اب نارمل انداز میں اس سے بات کر رہی تھی
آہم- آہم – ثنا نے دونوں کو باتیں کرتے دیکھا تو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے گلا کھنکھارہ
یہ ثنا ہے۔ میری بیسٹ فرینڈ اور کلاس فیلو میرے ساتھ بی بی اے کر رہی ہے –
ثناء یہ جہانزیب ہیں۔ سکندر انکل کے بیٹے۔ ایمان نے تعارف کروایا اور جہانزیب کی مسکراہٹ کم ہو گئی۔
آج میری برتھ ڈے ہیں اور میں ایمان کو یہاں ٹریٹ دینے کیلئے لائی تھی ۔ ایمان کے نامکمل تعارف پہ سیخ پاٰ ہوتی ثناء خود ہی بولی۔
اوہ- وش یو آ ویری ہیپی برتھ ڈے ۔ جہانزیب نےثنا کو مبارکباد دی
آپ بھی ہمیں جوائن کریں نہ؟ ثنا نے مسکراتے ہوۓ کہا
میں ضرور کرتا مگر اب تو میں اپنا لنچ تقریبا ختم کر چکا ہوں، انشااللہ پھر کسی دن۔ خوش اخلاقی سے معذرت کرتا وہ اپنی ٹیبل تک گیا تھا اور پھر ٹھوڑی ہی دیر میں وہ ریسٹورنٹ سے جا چکا تھا۔ یہ ایمان کی سہیلی کی طرف سے برتھ ڈے ٹریٹ تھی اور بن بلایا مہمان ہونا اسے پسند نہ تھا ۔ ویسے بھی ایمان نے اس کا تعارف کرواتے ہوئے جو اختصار برتا وہ سن کر جہانزیب کے لئے وہاں رکنا مشکل ہو گیا تھا
ایمان کی نظروں نے ہال سے باہر جاتے جہانزیب کا تعاقب کیا۔
کیا ڈیشنگ پرسنیلٹی ہے یار۔ ثنا نے جذباتی انداز میں کہا ۔ ایمان مسکرا دی
تھوڑا اکڑوں نہیں ہے۔ ثنا نے تبصرہ جاری رکھا
نہیں – اس نے کہا نہ وہ اپنا کھانا ختم کر چکا تھا ۔ ایمان آہستہ سے بولی۔
ایمان کا ذہن اس دن والی کال میں اٹکا تھا جب جہانزیب نے ایمان کو اچانک کال کرکے حیران کر دیا تھا اور ایمان گھبراہٹ میں جہانزیب سے اچھی طرح بات بھی نہ کر پائی تھی۔ شائد وہ اسی لئے خفا ہو، ویسے بھی اس دن کے بعد اس نے ایمان کو دوبارہ فون بھی نہیں کیا تھا-ایمان نے سوچا ۔
ویسے تو اس دن کے بعد اگلے چند دن جہانزیب کے آفس میں کافی مصروف تھے ، اسے فیکٹری جانا تھا ، کچھ تعارفی میٹنگز اٹینڈ کرنی تھیں ، ایک دو آفیشئل ڈنر تھے جو انکے کاروباری دوستوں نے جہانزیب کی پاکستان آمد اور کمپنی میں شمولیت کے پیش نظر دیئے تھے۔ مگر وہ فری بھی ہوتا تو ایمان کو دوبارہ فون کرنے کی حماقت نہ کرتا۔ شائد ایمان کو فون کر کے پہلے ہی وہ غلطی کر چکا تھا۔ اس رات سب لوگ ڈنر میں مصروف تھے جب جہانزیب کے موبائل پہ ہونے والی بیل نے سب کو اسکی طرف متوجہ کر دیا۔
ایک دوست کا فون ہے۔ ایکسکیوز می کہتا وہ جلدی سے ڈائیننگ ٹیبل سے اٹھا تھا۔
موبائل اسکرین پہ ایمان کا نمبر دیکھ کر اس نے بہانہ بنایا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔
ہیلو – تیزی سے اپنے کمرے کی طرف جاتے اس نے کال ریسیو کی تھی
آپ مصروف تو نہیں تھے۔ ایمان نے خوبصورت لہجے میں پوچھا۔
میں مصروف ہوں پھر بھی آپ جتنا مصروف ہرگز نہیں ہوتا کہ ڈھنگ سے بات ہی نہ کر پاؤں۔ جہانزیب نے بدلہ چکایا۔
میں معذرت چاہتی ہوں ۔ آپ کی اچانک کال آگئی اور پھر میں اس دن کالج سے لیٹ ہو رہی تھی اسلئے آپ سے مناسب بات نہ کر سکی۔ ایمان نے وضاحت کی۔
چلیں چھوڑیں اس قصے کو یہ بتائیں سکندر انکل کے بیٹے کو اس وقت فون کیسے کیا۔وہ بھی اتنی جلدی معاف کرنے والوں میں سے نہ تھا۔
آپ خفا ہیں۔ ایمان نے ڈرتے ہوئے کہا۔
میری کیا مجال جو توفیق انکل کی بیٹی سے ناراض ہوں۔ مسکراتے ہوئے وہ اسے شرمندہ کرنے میں مصروف تھا۔
ویسے کیا ہمارا بس یہ تعارف ہے۔ جہانزیب بولا
اس سے زیادہ ہے بھی کہاں۔ایمان نے جتاتے ہوئے کہا۔
اوہ تو یہ گلہ ہے محترمہ کو ۔ پھر کرا دیتے ہیں اپنا تعارف بتائیں کب اور کہاں؟ جہانزیب نے بے تکلفی سے پوچھا
جہانزیب میرا یہ مطلب نہیں تھا ۔ ایمان گڑبڑا کے بولی
لیکن میرا تو یہی مطلب تھا۔ بتاؤ کب اور کہاں ملو گی۔ ویسے بھی تمہاری ایک چیز تمہیں پہنچانی ہے۔ جہانزیب کا موڈ خاصہ خوشگوار تھا اور ایمان سے تو وہ پہلے ہی ملنا چاہ رہا تھا اب جہاں اتنی باتیں ہو رہی تھیں تو ملاقات کا پلان بھی بنا لیا تھا۔
لیکن یہ کیسے ممکن ہے۔ سب لوگ کیا سوچیں گے۔ جہانزیب کی بات سن کے ایمان تو گھبرا ہی گئی۔
یہی کہ مسٹر اینڈ مسز شادی سے پہلے ملنا چاہتے ہیں۔ جہانزیب شوخ لہجے میں بولا
تم فکر نہ کرو میں توفیق انکل سے خود پوچھ لوں گا۔ تم صرف اتنا بتاؤ کب ملو گی۔ جہانزیب نع گویا اسے بڑا آسان سا حل بتایا۔
اس ویک تو نہیں کچھ مصروفیت ہے میری بیسٹ فرینڈ کی شادی ہے اور پھر نیکسٹ ویک سے فائینل ایگزام بھی ہیں ۔ اسکے بعد سوچا جا سکتا ہے۔ ایمان نے اپنا سارا پروگرام بتا دیا۔
کافی لمبا انتظار کروا رہی ہیں بیگم صاحبہ۔ چلو کوئی نہیں میں بھی ذرا آفس میں دو دو ہاتھ کر لوں۔ آج کل ویسے بھی مصروفیت کچھ زیادہ ہے۔ خوشگوار موڈ میں جہانزیب نے کال بند کی۔ آج ایمان کی کال نے اسے ریلیکس کر دیا تھا۔
جہانزیب سے بات کرکے ایمان پرسکون ہو گئی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی انکے رشتے کے آغاز میں ہی اختلافات یا غلط فہمیاں جگہ بنالیں اسے اپنی پوری ایمانداری سے اس رشتے کو نبہانا تھا اور جہانزیب کو کبھی ایسا تاثر نہیں دینا تھا کہ ایمان کے دل میں کسی اور کی تصویر بسی ہے۔ جس چہرے کو اس نے آج تک کبھی دیکھا ہی نہیں اور پھر کیا پتا ایسا کوئی ہے بھی یا نہیں۔ اور اگر ہو بھی تو ایمان ہرگز جہانزیب سے اپنے تعلقات کو خراب کرنے کا نہیں سوچ سکتی ۔ یہ اسکے ڈیڈا کا فیصلہ ہے جو انہوں نے حق سے کیا ہے۔ ایمان انہیں کبھی لیٹ ڈاؤن نہیں کرے گی۔
*****************************************************************
کافی کا کپ لے کر وہ اسٹدی کے دروازے پہ کھڑی تھی۔
عمر بھائی مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ اسٹڈی میں لیپ ٹاپ پہ انگلیاں چلاتے عمر کے سامنے اس نےکافی کا کپ رکھا۔
بولو مانو۔ عمر کی نظریں اسکرین پہ جمی تھیں اور دھیان ایمان کی طرف۔
حبہ کی شادی ہے، کل مہندی کا فنکشن ہے اور ضعیم کو کل اپنے فرینڈ کے ساتھ جانا ہے ۔ آپ مجھے پک اینڈ ڈراپ کر لیں گے نہ؟ اپنی سہیلی کی شادی پہ جانے کیلئے اسے عمر سے پک اینڈ ڈراپ درکار تھا کیونکہ توفیق کمال کو ایمان کا نائٹ ٹائم ڈرائیونگ کرنا پسند نہ تھا جبکہ ڈرائیور کے ساتھ ایمان کہیں نہیں جاتی تھی ایسے میں اگر اسے شام کو کہیں جانا ہوتا تو اکثر ضعیم ہی پھنستا تھا لیکن آج وہ صاف بچ کے نکل گیا تھا ۔
کہاں ہے فنکشن؟ عمر نے ایک نظر ایمان کو دیکھا
ڈیفنس کلب میں ۔ ایمان نے فنکشن کا وینیو بتایا
اچھا میں تمھیں ڈراپ کر دونگا اور جب واپس آنا ہو مجھے کال کر دینا میں آجاؤں گا۔
ایمان کو معلام تھا عمر اسے انکار کرہی نہیں سکتا تھا ۔
گلابی اور پیلا کامدار ٹخنوں تک لمبا انگرکھا پہنے، چوڑی دار پائجامہ ساتھ پاؤں میں قیمتی تین اینچ لمبی ہیل والی گولڈن سینڈل ، ماتھے پہ سنہری بندیا اور کانوں میں بڑے بڑے آویزے ۔ کھلے بال اور اپنے مخصوص میک اپ میں وہ پرستان کی پری معلوم ہو رہی تھی۔
عمر نے پیار بھری نظر ایمان پہ ڈالی، جلد ہی اسکی مانو دلہن بننے والی تھی ۔ اسے ایمان کا یہ سجا سنورا روپ بہیت پیارا لگا تھا اور اس نے دل سے اسے خوش رہنے کی دعا دی تھی۔
حبہ کی مہندی کیلئے ایمان اور ثنا بہت پرجوش تھیں۔ وہ ان دونوں کی مشترکہ دوست تھی اور دوران تعلیم ہی اس کی شادی طے ہو گئی تھی ۔ اسکی شادی ان دونوٰں کیلئے ایک دلچسپ تجربہ تھی۔
عمر ، ایمان کو ڈراپ کرنے آیا تھا ، باہر ہی حبہ کے والد سے سلام دعا کے بعد وہ جانا چاہتا تھا لیکن اصغر صاحب اسے زبردستی اندر لے آئے ، لیکن پھر دس منٹ بعد ہی عمر ان سے اجازت لے کر نکل گیا تھا ۔ ایمان اس دوران عمر کے ساتھ ساتھ تھی اور جب وہ چلا گیا تو ایمان حبہ کے پاس چلی گئی۔
تو پھر آج ہم مل رہے ہیں ۔ جہانزیب نے حکم سنایا تھا۔ ایمان کے امتحانات ختم ہو چکے تھے اور اگلے دن جہانزیب نے کال کر دی تھی اور اچانک ہی ملنے کی فرمائش کر دی۔
آپ نے ڈیڈا سے بات کی؟ ایمان نے پوچھا
وہ بھی کر لیتا ہوں تم تو ایسے کر رہی ہو جیسے میں کوئی غیر ہوں۔ میں جانتا ہوں توفیق انکل تمہاری طرح ری ایکٹ نہیں کریں گے۔
اور پھر حرا نے خود اسے جہانزیب کے ساتھ ڈنر پہ جانے کا کہا تھا ۔ جہانزیب صحیح کہہ رہا تھا اسکے ڈیڈا نے بھلا کیوں انکار کرنا تھا۔
سنو میں ابھی آفس سے باہر ہوں اور مال روڈ سے نزدیک ہوں، مجھے یہاں کچھ کام ہے اور تمہیں پک کرنے ڈیفینس آیا تو پھر ہم لیٹ ہو جائیں گے ۔ تم ایسا کرو ابھی گھر سے نکلو جتنی دیر میں تم اواری پہنچو گی میں بھی فری ہو کے وہیں آجاؤ گا۔مصروف سے لہجے میں بولتا وہ ساتھ ساتھ کچھ کام بھی کر رہا تھا ۔
کچھ سال پہلے توفیق کمال ماڈل ٹاؤن سے ڈیفینس شفٹ ہو گئے تھے اور سکندر ملک اب ان کے ہمسائے نہیں تھے اور اگر ہوتے بھی تو جہانزیب اسوقت فیروز پور روڈ پہ واقع پی سی ایس آئی آر کے ہیڈ آفس میں تھا، اسکا ایمان کے ساتھ سات بجے کا ٹائم سیٹ تھا اور اب چھ بج کر چالیس منٹ ہو رہے تھے ، اسے ابھی یہاں مزید آدھا گھنٹہ رکنا تھا ایسے میں وہ پہلے ڈ یفنس جائے پھر ایمان کو پک کر کے دوبارہ مال پہ آئے اسکی بجائے اسے یہی مناسب لگا کہ ایمان خود اواری آ جائے اور وہ اپنا کام ختم کر کے دس منٹ میں ہوٹل پہنچ جائے گا۔
اچھا میں ابھی کچھ بزی ہوں، تم پہنچ کے مجھے کال کرنا ، مل کے بات ہو گی۔ اپنی مصروفیت کا بتا کر جہانزیب کال بند کر چکا تھا لیکن ایمان کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔
توفیق کمال اور حرا کسی ڈنر کیلئے نکل گئے تھے ، عمر ابھی گھر نہیں پہنچا تھا ، ویسے بھی وہ اکثر لیٹ گھر آتا تھا اور ضعیم ابھی ابھی کچھ دوستوں کے ساتھ باہر گیا تھا وہ اکثر کمبائن اسٹڈی کیلئے ایک دوسرے کے گھر اکٹھے ہوتے تھے، ایمان کو جہانزیب کے ساتھ ڈنر پہ جانا تھا اور جہانزیب نے ہی اسے پک کرنا تھا یہ بات سب کو معلوم تھی لیکن اب اچانک جہانزیب نے پروگرام تبدیل کر دیا تھا شائد وہ نہیں جانتا تھا ایمان کو رات میں گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت نہ تھی۔
مرتا کیا نہ کرتا کے مترادف ایمان نے اللہ کا نام لیا اور گاڑی نکال کر مین بلیوارڈ کی طرف چل پڑی۔ یہ اسکا اپنا شہر تھا یہاں وہ دن میں بے جھجھک گھومتی پھرتی تھی مگر رات میں اکیلے وہ کبھی نہیں نکلی تھی ، اکتوبر کے آخری دن تھے اور آجکل مغرب پونے چھ بجے ہو جاتی تھی ۔ وہ کوئی ڈرپوک لڑکی ہرگز نہیں تھی بس اپنے ڈیڈا کے اصولوں کو نظرانداز کرنا اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
ہمت کرکے وہ اکیلی ہی اواری آگئی تھی۔ اسے آئے دس منٹ ہو چکے تھے لیکن جہانزیب ابھی تک نہیں آیا تھا البتہ اسکا فون آگیا تھا کہ وہ راستے میں ہے۔
اتنا ٹریفک جام ، مجھے ہرگز امید نہیں تھی کہ میں ٹائم پہ پہنچ پاؤں گا۔ بے تکلفی سے کرسی کھینچتا وہ اسے لاہور کی سڑکوں پہ ہونے والے ٹریفک کا بتا رہا تھا۔
مجھے لگا میں لاہور نہیں لندن میں ڈرائیو کر رہا ہو ۔ نو سال میں کافی تبدیلی آ گئی ہے نہ ۔ پانی کا گلاس پیتے اس نے تبصرہ کیا۔
اس دن کے برعکس آج وہ بلیک ٹو پیس میں تھا ۔ گرے بشرٹ پہ بلیک اور گرے سلک ٹائی ، بالوں کو جیل سے پیچھے کئے وہ کافی اسمارٹ لگ رہا تھا۔ اس نے ایک نظر ایمان کو دیکھا جو بلیک شیفون کے ایوننگ وئیر میں کافی دلکش لگ رہی تھی مگر اسے یکسر نظرانداز کرتا وہ اسے ٹریفک جام اور اپنی آج کی مصروفیت کے قصے سنا رہا تھا۔
ہونٹوں پہ مدہم سی مسکراہٹ اور دل میں بےتحاشہ بیزاری لئے وہ خاموشی سے اسکی باتیں سن رہی تھی۔ وہ بزنس کی اسٹوڈنٹ تھی اور گھر میں بھی اسکے ڈیڈا اور عمر بھائی کاروباری باتیں کرتے تھے مگر اسوقت جہانزیب کے ساتھ ڈنر کرتے وہ کاروباری مصروفیات، لندن اور پاکستان کی زندگی کے فرق اور پاکستان میں بڑھتے کرائم اور کرپشن کی شرح پہ سیر حاصل بحث کرنے کے موڈ میں تو قطعاً نہیں تھی ۔ اس ڈنر پہ وہ کافی بدمزہ ہوئی تھی ۔
اسے لگا جہانزیب اسے جان بوجھ کر اگنور کر رہا تھا یا پھر وہ اپنے سامنے کسی کو خاطر میں لاتا ہی نہیں تھا ۔ وہ دونوں پہلی بار اکیلے ملے تھے ، وہ اسکی بیوی تھی مگر جہانزیب کی باتوں میں اس رشتے کے حوالے سے کچھ نہ تھا ۔ حالانکہ اس دوران وہ کافی خوشگوار موڈ میں تھا مگر ایمان بہت بور ہو رہی تھی۔ دھیان بار بار اسی بات پہ جا رہا تھا کہ ابھی اسے اکیلے ڈرائیو کر کے گھر واپس جانا ہے اور پھر ڈیڈا کی ڈانٹ –حالانکہ توفیق کمال نے ایمان کو کبھی نہیں ڈانٹا تھا لیکن ایمان نے کبھی ایسا کچھ کیا ہی کہاں تھا جو توفیق کمال کو برا لگتا۔
تم بور تو نہیں ہو رہی۔ اسٹیک کا ٹکڑا کاٹ کر کانٹے سے لگائے اس نے ایمان سے کہا۔
بلکل نہیں۔ آپکی اتنی معلوماتی باتوں پہ بور ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ویسے بھی اس ریسٹورنٹ کے ماحول میں کرنٹ اور فارن افئیرز پہ بڑی اچھی گفتگو ہو سکتی ہے۔ ایمان نے طنزیہ کہا ۔
اور اس کی بات پہ جہانزیب ہنسنے لگا۔
اچھا بھئی سوری۔ کیا کروں پہلے کبھی ڈیٹ پہ نہیں گیا کسی کے ساتھ ۔ جہانزیب نے چڑاتے ہوئے کہا۔
ایکسکیوز می ۔آپ سے کس نے کہا میں آپ کے ساتھ ڈیٹ پہ آئی ہوں۔آپ نے کہا تھا آپ کو مجھ سے کوئی بات کرنی ہے شائد اسی لئے میں نے ملنے کی حامی بھری تھی۔ ایمان نے فوراً کہا۔
اچھا ــــ میں خوامخواہ ایکسائیٹڈ تھا کہ آج ایک حسین لڑکی کے ساتھ ڈیٹ پہ جا رہا ہوں۔ جہانزیب نے اس کے چہرے کو اپنی نگاہوں میں رکھتے ہوئے کہا۔ایمان کے چہرے پہ دھنک کہ رنگ بکھے تھے۔
یہ تمھارے لئے۔ سیاہ مخمل کی ڈبیا ایمان کی طرف بڑھاتے جہانزیب نے کہا۔
کھانا کھاتے وقت وہ جتنی سنجیدہ باتیں کر رہا تھا اور جس انہماک سے اس نے اپنا کھانا ختم کیا لگتا تھا وہ فقط ڈنر کیلئے ہی آیا ہے۔
ایمان نے اسکی طرف دیکھا۔ایک نازک سا ڈائمنڈ کا لاکٹ وائٹ گولڈ کی چین میں جگمگا رہا تھا ۔
یہ میں لندن سے لایا تھا اور تمہیں مل کر ہی دینا چاہتا تھا۔ مسکراتے ہوئے جہانزیب نے اسے بتایا
ایمان کی آنکھوں میں جگنو در آئے تھے۔ کچھ لمحے دل میں چھپے ستار کے تاروں کو چھیڑ دیتے ہیں اور پھر کوئی مدھر سی دھن آپ کے انگ انگ میں بجنے لگتی ہے۔
بہت خوبصورت ہے، شکریہ ۔ اب مجھے چلنا چاہیے ، کافی ٹائم ہو گیا ہے۔ ایمان نے کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھتے کہا۔
ارے ہاں میں تمہیں بتانا تو بھول ہی گیا۔ جہانزیب نے اٹھنے سے پہلے کہا
اس ویک اینڈ پہ ممی ، پاپا تمہارے گھر آئیں گے۔
اور آپ؟ ایمان جو سمجھ رہی تھی کہ پتا نہیں کیا خاص بات ہے اور کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف پا کر اب سرسری انداز میں پوچھنے لگی۔
میں تو آنا چاہ رہا تھا لیکن ممی نے کہا شادی کی ڈیٹ لینے لڑکے خود نہیں جاتے۔سنجیدگی سے کہتے اس نے ایمان کو دیکھا جس کے چہرے پہ حیا کے رنگ تھے۔
چلو پھر تمہیں لیٹ ہو جائے گا- گاڑی کی چابی اور اپنا موبائل سنبھالتا وہ کھڑا ہو گیا۔
یہ شخص اسے سچ میں حیران کر رہا تھا ۔
نو بجے وہ دونوں ریسٹورنٹ سے باہر نکلے اور پارکنگ کی طرف بڑھے ۔ ایمان کو بائے کہتا جہانزیب اپنی گاڑی کی طرف چلا گیا۔
ساڑھے نو ہو رہے تھے اور ایمان جانتی تھی ابھی توفیق کمال اور حرا گھر نہیں پہنچے ہونگے عمر تو اکثر ہی لیٹ آتا تھا ۔اب تک کسی نے اسے فون نہیں کیا تھا ۔ اسکی گاڑی اسوقت گھر نہ پا کر وہ لوگ ضرور اسے فون کرتے اسکا مطلب گھر پہ کوئی نہیں تھا۔ وہ جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتی تھی۔ کتنا اچھا ہو کسی کو پتا ہی نہ چلے وہ اکیلی رات کو نکلی تھی لیکن چوکیدار، چوکیدار کو تو وہ منع نہیں کر سکتی تھی مگر کیا ڈیڈا چوکیدار سے انکوائری کریں گے۔ اس نے سوچا۔
نہیں ۔ اسکے ڈیڈا کے پاس اتنا فالتو وقت ہوتا ہی کہاں ہے۔
تمام رستے اسکا دھیان اسی بات میں الجھا رہا۔ حالانکہ وہ آج جہانزیب کے بارے میں سوچنا چاہ رہی تھی۔ اسکا دیا پہلا گفٹ۔ اسکی زبان سے نکلے چند تعریف کے لفظوں کو ۔ اسوقت اسے صرف جہانزیب یاد تھا ۔ وہ اسکی زندگی کی حقیقت تھا ۔ اسکے سامنے تھا اور وہ خواب، اسکی احمقانہ آئیڈئل پرستی۔ وہ سب کہیں بہت پیچھے رہ گئے تھے۔
مین بلیوارڈ پہ مڑنے کی بجائے اس نے شارٹ کٹ کے لئے اپنے گھر کی پچھلی سوسائٹی کا رخ کیا، یہاں ابھی سارے مکانات بنے نہیں تھے۔ کافی بڑے بڑے پلاٹوں کے بلاک خالی تھے اور کچھ زیر تعمیر مکانات بھی تھے۔ جو تعمیر تھے وہاں اس وقت ہلکی ہلکی لائٹیں جل رہی تھیں ۔ وہ لوگ اکثر اس راستے سے اپنے گھر کی طرف مڑ جاتے تھے ، یہ راستہ اندر گلیوں سے ہوتا انہیں کم وقت میں انکے گھر پہنچا دیتا تھا۔ ایمان نے بھی اس راستے سے جلد گھر پہنچنے کا فیصلہ کیا ایسے میں وہ مین روڈ کے ٹریفک سے بھی بچ جائے گی۔ اس نے خود کو تسلی دی تھی۔
دائیں گلی سے اسی وقت ایک گاڑی تیز رفتاری سے ایمان کی گاڑی کے سامنے آکر رکی۔ ایمان اگر بروقت بریک پہ پاؤں نہ رکھتی تو لازماً اسکی گاڑی سامنے والی سیاہ گاڑی سے ٹکرا جاتی۔
ایسے سڑک کے بیچوں بیچ گاڑی روکنے پہ اسے غصہ تو بہت آیا تھا اور وہ اپنے غصے کا اظہار کرنے کیلئے گاڑی سے نکلنے ہی لگی تھی مگر پھر بجلی کی طرح ایک خیال ذہن میں کوندہ – رات کے اس پہر ، اندھیری سڑک پر اس کی گاڑی کو ایسے روکنا، یہ کوئی مجرمانہ کاروائی بھی تو ہوسکتی ہے۔ اور پھر خوف کی ایک سرد لہر اسکے پورے بدن میں سرائیت کر گئی۔ اس کا دھیان اسوقت اپنے پرس اور جیولری کی طرف تھا ۔
میں سب دیدوں گی ۔ اخبارات میں آنے والی آئے دن ڈکیتی اور قتل کی وارداتیں جن میں مزاحمت کرنے والے کو نقصان پہنچایا جاتا تھا ذہن میں آتے ہی اس نے سوچا۔
کوئی ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر اب اسکی طرف آرہا تھا۔ اندھیرے میں وہ زیادہ دیکھ نہیں پائی اور پھر پریشانی نے اسے بدحواس بھی کر دیا تھا۔
تیزی سے اس نے ایمان کی گاڑی کا دروازہ کھولا اور اس کا بازو سختی سے پکڑ کر اسے باہر نکالا۔
وہ جو بھی تھا اس نے چہرے کو رومال سے ڈھکا ہوا تھا ۔
ایمان نے اس اچانک افتاد پہ چیخنے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ اس شخص کا مضبوط ہاتھ اسکی ناک تک آیا۔ ایمان اپنے ہواس کھوتی چلی گئی۔
اسکا سر بھاری ہو رہا تھا۔ چند لمحے اپنی آنکھوں کو مسل کر اس نے کھولنے کی کوشش کی اور پھر دھندلائی نظروں سے اپنے اردگرد کا جائزہ لیا۔ خود کو اجنبی جگہ پا کر وہ گھبرا کے اٹھ بیٹھی۔ وہ اسوقت ایک بڑے سے آبنوسی پلنگ پہ بیٹھی تھی۔ کمرہ کافی کشادہ اور سجاوٹ والا تھا۔ بھاری پردے اور قیمتی قالین ۔ کمرے میں ایک صوفہ نما کرسی بھی رکھی تھی اور ٹانگ پہ ٹانگ رکھے وہ اس کرسی پہ انتہائی اطمینان سے بیٹھا تھا ۔ ایمان کو اٹھتا دیکھ کر بھی وہ اپنی جگہ پرسکون تھا۔
کون ہو تم اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟ وہ تقریبا چیختے ہوئے بولی۔
اسکی آواز کی لرزش اس بات کا واضح ثبوت تھی کہ وہ بے حد خوفزدہ تھی۔
دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا ۔
میں پوچھتی ہوں تم ہو کون ۔ اپنی ہمت ایک بار پھر جمع کر کے وہ بولی۔
کرسی پہ بیٹھے شخص میں حرکت ہوئی، دھیمے قدموں سے چلتا وہ ایمان کے بلکل سامنے آ بیٹھا تھا۔ اتنا قریب کے اب اسے دیکھنے کے لئے ایمان کو اپنی آنکھوں کو گھمانے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔
میں تمھیں یہاں کوئی نقصان پہنچانے نہیں لایا بس کچھ پرانا حساب نکلتا ہے ۔ ایمان کی طرف دیکھتے اس نے معنی خیز نظروں میں کہا۔ اسکا لہجہ بہت سادہ مگر پر اثر تھا۔ لیکن ایمان اسوقت کچھ نہیں سن پائی۔وہ اسوقت صرف اپنے سامنے بیٹھے اس شخص کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ۔ ان آنکھوں کو وہ سینکڑوں میں پہچان سکتی تھی ۔
پچھلے دو گھنٹے سے وہ مسلسل رو رہی تھی۔ نہ کوئی سوال کیا تھا نہ التجاء ، بس خاموشی سے وہ آنکھیں مینہ برسا رہی تھیں ۔ کچھ دیر وہ اسے روتے دیکتھا رہا اور پھر نہ سمجھنے والے انداز میں سر ہلاتا دوسرے کمرے میں چلا گیا تھا۔ اسکے رونے کی ہلکی ہلکی آواز اب بھی اسے سنائی دے رہی تھی۔
کب یہ رات گزرے اور میں اس مصیبت سے جان چھڑاؤں ۔ اس نے جھنجھلاتے ہوئے سوچا تھا ۔
تمہیں بھوک لگی ہوگی۔کچھ کھا لو۔ برگر کا ڈبہ اور کوک کا کین ایمان کے سامنے رکھتے اس نے کہا۔
وہ جو اب کچھ دیر سے اپنا رونے کا پروگرام موقوف کر چکی تھی اسے دیکھتے ہی پھر آنسو اس کے رخساروں پہ چلے آئے ۔
کندھے اچکاتے ہوئے اس نے ایمان کو دیکھا اور پھر کمرے سے باہر نکل گیا ۔
صبح کے چار بجے وہ آیا تو ایمان اسی حالت میں بیٹھی تھی ، اس نے کھانے کے سامان کو چھواء بھی نہیں تھا۔ فرق صرف اتنا تھا وہ اب سو رہی تھی۔ آنسوؤں کی لکیر اسکے گالوں پہ نمایا ں تھی، گھٹنوں پہ سر ٹکائے وہ بہت معصوم لگ رہی تھی۔ وہ چند لمحے اسکے معصوم حسن کو دیکھتا رہا۔
چلو تمہیں گھر چھوڑ آؤں۔ ایک سنجیدہ آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تو ایمان نے آنکھیں کھولیں اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
اسکے ہاتھ مٰیں کپڑے کا ماسک تھا جو اس نے ایمان کی طرف بڑھایا، ایمان نے چپ چاپ وہ ماسک پہن لیا ۔ اب وہ رسی سے اسکے ہاتھ باندھ رہا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی اسوقت وہ کہاں ہے اور اسے کتنا وقت یہاں اس کمرے میں بند رکھا گیا تھا۔ شائد ایک دن یا پھر چند گھنٹے یا اس سے زیادہ۔ سر درد سے پھٹا جا رہا تھا اور بھوک سے حالت خراب تھی۔
راہداری سے گزار کر اب وہ ایمان کو گھر کے باہر لے آیا تھا ۔ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر اسے گاڑی میں دھکیلا اور پھر دروازہ زور سے بند کر دیا۔ تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا وہ اب گاڑی کو مین گیٹ سے باہر نکال رہا تھا۔
رستہ طویل تھا یا شائد ایمان کو لگ رہا تھا قریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد گاڑی رک گئی تھی۔
میں تمہیں تمہارے گھر کے کونے میں اتار رہا ہوں لیکن جب تک میں گلی سے نکل نہ جاؤں ، خبردار تم نے اپنا ماسک اتارا یا شور مچایا ورنہ کبھی دوبارہ اپنے گھر والوں کی شکل نہیں دیکھ پاؤ گی۔ غصیلی آواز میں اسکو دھمکاتا اب وہ ایمان کو پچھلی سیٹ سے باہر نکال رہا تھا ۔ ایمان چپ چاپ گاڑی سے نکل آئی اور بغیر کسی مزاحمت کے اسکے جانے کا انتظار کر نے لگی ۔
گاڑی کی آواز اب دور جا چکی تھی، ایمان نے مرے مرے ہاتھوں سے ماسک کو اپنے چہرے سے جدا کیا ۔ سورج ابھی نہیں نکلا تھا اور سڑک پہ خاموشی تھی ۔ اداس نظروں سے اس نے رستے کو دیکھا جہاں چند لمحے پہلے اس کی گاڑی کے ٹائروں کے نشان بنے تھے۔