”پنکی!۔۔۔۔“ اس کے لبوں نے بے آواز جنبش کی تھی۔
”یہی سچ ہے‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی کہ ارشد کی یہ قربت اسے کم زور کر رہی تھی اور وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔ اسے یوں اٹھتا دیکھ کر وہ بھی ایک جھٹکے سے اٹھا اور اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف گھما ڈالا۔
”یہ تم نہیں بول رہی ہو۔۔۔۔ ورنہ مجھ سے یوں نظریں نہ چرا رہی ہوتی۔
”ارشد!پلیز۔۔۔۔ میری مشکل میں اور اضافہ مت کریں۔۔۔۔“ اس نے بے بسی سے لب کاٹتے خود کو اس کی گرفت سے آزاد کروانا چاہا لیکن اس کی گرفت بہت مضبوط تھی۔
”کیوں کررہی ہو تم ایسا۔۔۔۔ جب میں کہہ رہا ہوں کہ امی مان جائیں گی تو پھر۔۔۔۔“
”اب بہت دیر ہوچکی ہے۔۔۔۔اب کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ وہ لوگ رشتہ جوڑ گئے ہیں اور پرسوں میری شادی ہے۔۔۔۔“ پنکی نے اپنا بایاں ہاتھ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تو اس کی تیسری انگلی میں انگوٹھی دیکھ کر اس کی گرفت خود بخود کم زور پڑ گئی اور اس نے ڈھیلے سے انداز میں اس کے بازو چھوڑ دیے۔
”تم انکار کردو“ اس نے دل گرفتہ ہوکر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”اور اس انکار سے اس گھر کی اور ان لوگوں کی جو بدنامی ہوگی وہ۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ میں اتنی خود غرض نہیں ہوں۔۔۔۔ مان لیجیے ہماری قسمت میں ہی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں“ اس نے نظریں جھکا کر آنسوﺅں کو بہنے سے بڑی مشکل سے روکا۔
”میں مرجاﺅں گا پنکی!“اس کے لہجے میں حسرتیں پنہاں تھیں لیکن پنکی نے کوئی جواب نہیں دیا بس اس سے رخ موڑ کر کھڑی ہوگئی۔
وہ کچھ دیر اس کو دیکھتا رہا اور پھر شکستہ قدموں سے چلتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ اس کے قدموں کی شکستگی محسوس کرکے وہ سسک اٹھی لیکن اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
آج اس کی شادی تھی لیکن اس کی حالت دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ شادی کا جوڑا نہیں بلکہ کفن پہننے جارہی ہے۔ ارشد صبح کا گھر سے نکلا اب تک نہیں لوٹاتھا۔ کئی بار اس کا موبائل ٹرائی کیا گیا لیکن وہ بھی بند تھا۔ اس کی اتنی لمبی غیر حاضری پر ممانی جان بھی پریشان ہوگئی تھیں۔ ماموں اس کے سب دوستوں کو فون کرکے دیکھ چکے تھے لیکن کیس کو اس کے بارے مٰں کچھ معلوم نہیں تھا۔ تھوڑی سی دیر میں بارات پہنچنے والی تھی لیکن اس سے زیادہ سب کو ارشد کی فکر تھی کیوں کہ وہ اتنی غیر ذہ داری کا مظاہرہ کبھی نہیں کرتا تھا۔ماموں اور ممانی لاﺅنج میں پریشان حال ٹہل رہے تھے جبکہ اندر کمرے میں خالدہ اور شاہین دونوں مل کر اسے دلہن بنا رہی تھیں۔ اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثر سے عاری تھا۔ اسی وقت لاﺅنج میں رکھے فون کی گھنٹی بج اٹھی اور ممانی نے آگے بڑھ کر فون اٹھالیا۔
”ہیلو۔۔۔۔ارشد۔۔۔۔“انہوں نے فون اٹھاتے ہی بے تابی سے کہا لیکن دوسری طرف سے آنے والی آواز ارشد کی نہیں تھی۔
”کیا۔۔۔۔“ ان کی آواز چیخ سے مشابہ تھی اور ان کے ہاتھ سے ریسیور چھوٹ گیا وہ ٹیلی فون اسٹینڈ کے سامنے ہی لہرا کر گر پڑیں۔
”خالدہ۔۔۔۔شاہین۔۔۔۔جلدی آﺅ۔۔۔۔اپنی امی کو سنبھالو۔۔۔۔“لاﺅنج سے آئی پریشان حال آواز سن کر ان دونوں کے ساتھ ساتھ پنکی بھی باہر کی طرف بھاگی لاﺅنج کا منظر ان سب کے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا۔
”امی!“خالدہ اور شاہین ایک ساتھ ہی ان کی طرف لپکیں اور وہ حیران سی کھڑی بہت غور سے ماموں جان کے چہرے کے پل پل بدلتے تاثرات کا جائزہ لے رہی تھی جو فون پر کسی سے بات کررہے تھے اور پریشانی ان کے چہرے سے عیاں تھی۔
”ارشد کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔۔۔۔ میں ہاسپٹل جارہا ہوں تم لوگ اپنی امی کا خیال رکھنا۔۔۔۔ وہاں پہنچ کر میں تمہیں صحیح صورت حال بتاﺅں گا، انہوں نے فون رکھ کر کہا تو وہ تینوں ہی اپنی جگہ سن سی رہ گئیں۔
پنکی کے پاس سے گزرتے ہوئے انہوں نے تاسف سے ایک نظراپنی بیگم پر ڈالی پھر شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے۔
”اس کے لیے دعا کرنا بیٹا!۔۔۔۔ ایک انسان کی ضد کس طرح بہت سی زندگیوں کو برباد کردیتی ہے کاش اس کا اندازہ اسے ہوتا۔۔۔۔“ وہ کہہ کر چلے گئے اور وہ وہیں گم صم سی کھڑی رہ گئی۔
ارشد کے ایکسیڈنٹ نے سب کچھ بدل کررکھ دیا۔ ممانی کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انہوں نے نہ صرف شادی ملتوی کردی بلکہ مسز سہیل سے معذرت بھی کرلی۔ اب وہ دل وجان سے پنکی کو اپنی بہو بنانے پر راضی تھی۔ پنکی جہاں اس کا یاپلٹ کا حیران تھی وہیں ارشد کا سوچ کر پریشان بھی تھی حالانکہ ماموں نے فون کرکے بتا دیا تھا کہ ارشد خطرے سے باہر ہے لیکن وہ اپنے دل کا کیا کرتی جو جب تک اسے دیکھ نہیں لیتا، اسے قرار نہیں آنا تھا حالانکہ خالدہ اور شاہین ہاسپٹل جارہی تھیں تو ممانی نے اسے بھی جانے کو کہا تھا لیکن وہ انہیں اکیلا کیسے چھوڑ دیتی۔ بیٹے کے ایکسیڈنٹ نے انہیں ایک ہی دن میں صدیوں کا بیمار بنا دیا تھا اور بالکل ہی بستر پر پڑ گئی تھیں۔ ان کا بلڈ پریشر خطرناک حد تک بڑھ چکا تھا اور ڈاکٹر نے انہیں مکمل بیڈ ریسٹ بتایا تھا اس لیے ان کے کئی بار کہنے پر بھی انہیں ہاسپٹل نہیں لے جایا گیا ۔اگلے دن خالدہ اور شاہین گھر پر رک گئی تھیں اور پنکی ماموں جان کے ساتھ ہاسپٹل چلی آئی۔
”یہ ہی کمرا ہے، تم جاﺅ، میں ذرا ڈاکٹر سے مل کرآتا ہوں“ ایک کمرے کے سامنے رک کر ماموں نے کہا اور خود آگے بڑھ گے۔
پنکی نے ایک نظر انہیں جاتے دیکھا ور پھر بند دروازے کو کھول کر بناآواز پیدا کیے اندر داخل ہوگئی۔ سامنے ارشد بیڈ پر آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔ اس کے چہرے پر زردی چھائی تھی اور سر پر پٹیاں بندھی تھیں۔ وہ آہستہ روی سے چلتی اس کے سرہانے آکر کھڑی ہوگئی۔ وہ بے اختیار اس کا چہرہ تکنے لگی۔ شاید یہ اس کی نظروں کی تپش بھی جس نے اسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کردیا۔
”آخر میں نے تمہیں اپنے پاس آنے پر مجبور کرہی دیا نا“اس نے آنکھیں کھول کردیکھا تو اسے سامنے پاکر روہ اپنی بے اختیاری امڈ آنے والی مسکراہٹ کو روک نہیں پایا۔
”اپنی ضد منوا کر خوش ہیں نا“پنکی کا لہجہ ہلکی سی خفگی لیے ہوئے تھا، اس کے انداز سے ہی وہ سمجھ گئی تھی کہ خالدہ اسے سب کچھ بتا چکی ہے۔
”بہت“
”اور اگر آپ کو کچھ ہوجاتا تو۔۔۔۔ایک بار بھی نہیں سوچا کہ ہمارا کیا ہوتا۔۔۔۔“
”تم میں سے کسی نے میرے بارے میں سوچا تھا، جو میں سوچتا “ اس نے بھی بالکل اسی کے انداز میں جواب دیا۔
”ہاں بس ،یہی تو آتا ہے آپ کو“اس نے روٹھے پن سے کہا۔
”ویسے یار! یہ تم میری تیمارداری کرنے آئی ہو یا کھنچائی“
”دونوں“
”اچھا ، وہ کس حق سے؟“اس نے پنکی کے چہرے پر نظریں جمائے پوچھا جہاں اس کی بات نے کتنے ہی رنگ بکھیر دیے تھے۔
”وہ تو آپ کو ممانی جان بتائیں گی“ اس نے شرمیلی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے نظریں جھکا کرکہا۔
”سب کچھ ہی بتائیں گی یا کچھ تم بھی بتاﺅ گی“
”میں کیا بتاﺅں“ اس نے معصومیت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”پاس آﺅ گی تو بتاﺅں گانا“اس نے شوخ ہوتے ہوئے کہا تو وہ جھینپ کر مزید دو قدم پیچھے ہٹ گئی اور وہ ہنسنے لگا۔
شرم سے گل نار چہرہ لیے پنکی کے دل نے بے اختیار ان خوشیوں کے ابدی ہونے کی دعا کی
ختم شد ۔