وہ اپنے کمرے میں موجود تھی جب خالدہ نے اسے ممانی جان کا پیغام دیا کہ وہ اسے اپنے کمرے میں بلا رہی ہیں۔ آج کتنے دنوں بعد ممانی جان نے اسے اپنے کمرے میں آنے کی اجازت دی تھی،یہ سوچ کر وہ حیران بھی تھی اور پریشان بھی۔۔۔۔ انہی سوچوں میں گھرے وہ ممانی جان کے کمرے میں جاپہنچی۔ وہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی تھیں۔
”دروازہ بند کردو“اسے اندر آتا دیکھ کر انہوں نے سپاٹ سے انداز میں کہا تو اس نے دروازہ بند کردیا اور کسی قدر جھجکتے ہوئے ان کے بیڈ کے قریب آکر کھڑی ہوگئی۔
”بیھ جاﺅ۔۔۔۔ مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں“ ان کے اندر میں سردمہری صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔
”میں زیادہ تمہید نہیں باندھوں گی، صاف اور دو ٹوک انداز میں کہتی ہوں، ارشد کی زندگی سے نکل جاﺅ“انہوں نے سفاکانہ انداز میں کہا اور وہ پھٹی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھتی رہ گئی۔
شاید اس کے چہرے پر پھیلی بے یقینی اور کرب انہوں نے دیکھ لیا تھا، اس لیے اس بار جب وہ بولیں تو ان کے لہجے میں نرمی اور ہلکی سی بے بسی کا احساس نمایاں تھا۔
”میں سمجھ سکتی ہوںکہ اس وقت تم پر کیا گزری ہے۔۔۔۔ لیکن میں بھی تو مجبورکرسکتی ہو۔۔۔۔ ایک ماں تو ہار چکی ہے۔۔۔۔ اگرمیں چاہوں تو اپنے کئے گئے احسانوں کا بدلہ مانگ سکتی ہوں تم سے ۔۔۔۔لیکن میں ایسا کروں گی نہیں۔۔۔۔بلکہ میں چاہتی ہوں کہ تم ایک ماں کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے خود فیصلہ لو۔ ویسے تو ارمان بھی تم میں انٹرسٹڈ ہے لیکن میں صفیہ کو اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔۔وہ کبھی نہیں مانے گی۔۔۔۔میری نظر میں ایک اور اچھا پرپوزل ہے۔۔۔۔مسز سہیل یاد ہیں تمہیں۔۔۔۔ انہوں نے خود اپنے بیٹے کے لیے تمہارا رشتہ مانگا ہے۔۔۔۔اب اگر تم کہو تو۔۔۔۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔تم اچھی طرح سوچ لو۔۔۔۔لیکن اگر ارشد کے آنے سے پہلے سب کچھ طے ہو جائے تو تم دونوں کے لیے اچھا ہآگے تم خود عقل مند ہو۔۔۔۔“
انہوں نے بڑی چالاکی سے اسے گھیرا تھا، سب کچھ اسے جتا بھی دیا تھا اور فیصلے کا حق اسے دیا ضرور تھا لیکن اس طرح کہ اس کے سامنے کوئی اور راستہ ہی نہیں چھوڑا تھا۔ وہ شکستہ قدموں سے چلتی واپس اپنے کمرے میں آگئی اور خود کو بیڈ پر گرا لیا۔ اسے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ تھوڑی دیر پہلے ممانی جان نے جو کچھ اس سے کہا، وہ سچ تھا۔ بے بسی اور اکیلے پن کا احساس پوری طرح اس پر غالب آچکا تھا۔ کب کے رکے آنسو تیزی سے اس کے گالوں پر بہنے لگے اور اس کے تکیے میں جذب ہوتے چلے گئے۔
اگلے دن صبح ہی اس نے ممانی جان کو اپنی رضامندی دے دی کہ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔ ویسے بھی وہ انکار کرکے خود غرضی کا مظاہرہ نہیں کرسکتی تھی کہ بہرحال اس گھر کے اس پر بہت سے احسانات تھے۔ممانی جان نے اس کی رضامندی ملتے ہی رسمی طور پر بابا سے بھی اجازت مانگی۔ بھلا انہیں کیا اعتراض ہوسکتا تھا، وہ تو پہلے ہی اس کی ذمہ داری ان پر ڈال کر اسے بھلا چکے تھے اس لیے انہوں نے آرام سے سارے فیصلوں کا اختیار ممانی جان کو دے دیا۔ ممانی جان نے اگلے ہی دن مسز سہیل کو بلوا لیا اور وہ آکر اسے کاشف کے نام کی انگوٹھی پہنا گئیں۔
ممانی جان کو شاید زیادہ ہی جلدی تھی، اس لیے اسی ہفتے ہی سادگی سے نکاح اور رخصی ہونا قرار پائی تھی۔ گھر میں سب ہی اس اچانک فیصلے سے حیران تھے۔ خالدہ تو باقاعدہ اس سے لڑپڑی تھی کہ وہ ارشد اور اس کے جذبات سے بخوبی آگاہ تھی لیکن پنکی نے اپنے ہونٹوں پر لگے قفل نہیں کھولے تھے، بس بے حسی سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔ ممانی جان کو ہاں کہنے کے بعد اس کے لبوں پر چپ کی مہر لگ گئی تھی اور شاید یہ مہر اب ہمیشہ کے لیے تھی۔
ممانی جان اس سے بہت خوش تھیں اس لیے باقاعدہ اسے رخصت کرنے کی تیاریاں کررہی تھیں۔ پنکی نے خو د کو کمرے تک محدود کرلیا تھا اور انہوں نے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا تھا بلکہ شاہین اور خالدہ پر کچن کی ذمہ داری ڈال دی تھی۔ خالدہ نے اس سے بات چیت بالکل بند کررکھی تھی۔ ارشد کو مزید دو دن اور اسلام آباد میں رکنا پڑا تھا۔ اس کا فون آیا تھا لیکن اسے کسی نے بھی کچھ نہیں بتایا جب کہ پنکی نے تو اس سے بات نہیںکی تھی۔ اس دن ممانی اور شاہین باجی بازار گئی ہوئی تھیں اور خالدہ ابھی کالج سے نہیں لوٹی تھی۔ وہ گھر میں اکیلی تھی اس لیے کمرے سے نکل کر لاﺅنج میں چلی آئی۔ اسی وقت لاﺅنج میں رکھا فون بجنے لگا۔ پہلے تو اس نے نظر انداز کردیا لیکن فون کالر بھی بڑا ہی مستقل مزاج تھا، جب گھنٹی مسلسل بجتی چلی گئی تو ناچار اس نے اٹھ کر فون اٹھا لیا۔
”ہیلو“ اس کی آواز میں حد درجہ بیزاریت تھی۔
”ہیلو پنکی!۔۔۔۔ یہ میں ہوں ارمان“ دوسری طرف سے بڑی عجلت میں کہا گیا۔
”جی ارمان صاحب! ۔۔۔۔ کہیے؟“ارمان کی آواز سن کر اس نے کسی قدر حیرت سے کہا۔
”پنکی! یہ سب میں کیا سن رہا ہوں، خالہ تمہاری شادی کررہی ہیں۔۔۔۔ لیکن تم تو۔۔۔۔“ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا اس نے درمیان میں ہی اس کی بات کاٹ دی۔
”آپ نے ٹھیک سنا ہے“
”لیکن کیوں؟ کیا ارشد نے کچھ نہیں کہا؟“ اس نے بے یقینی سے پوچھا۔
”کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔ کیا اتنا کافی نہیں کہ یہ شادی میں اپنی مرضی سے کررہی ہوں“اس نے سپاٹ سے انداز میں کہا۔
”میں تو سمجھتا تھا کہ تم۔۔۔۔خیراگر سچ وہی ہے جو تم کہہ رہی ہو تو کم از کم تمہیں مجھے ایک موقع تع دینا چاہیے تھا تاکہ میں اپنے جذبوں کی سچائی ثابت کرسکتا“اس نے شکایت بھرے انداز مین کہا۔
”جذبوں کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ اپنا آپ خود منوا لیتے ہیں اورفیصلہ ہوچکا ہے“
”لیکن“
”پلیز ارمان صاحب! کچھ مت کہیں، تقدیر اور حالات پر انسان کا بس نہیں چلتا۔ اس لیے میں نے خود کو حالات کے سپرد کردیا ہے۔ اب زندگی جہاں لے جائے، رکھتی ہوں، ابھی بہت سے کام باقی ہیں“ اس نے آہستگی سے کہہ کر اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر فون رکھ دیا۔
ابھی زخم تازہ تھا، اس لیے ہمدردی بھی زخموں میں ٹیسیس سی مچا دیتی تھی۔ آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے تھے۔ وہ اپنے کمرے میں چلی آئی۔
ارشد شام کو ہی لوٹا تھا اور پرسوں اس کی شادی تھی۔ خالدہ نے آتے ہی اسے سب کچھ بتا دیا۔ وہ غم وغصے کی کیفیت میں گھرا ان کے کمرے میں جا پہنچا۔ غصہ اتنا شدید تھا کہ وہ سارے آداب بھول گیا اور ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوگیا۔وہ بیڈ پر کچھ کپڑے پھیلائے بیٹھی تھیں دروازے کی آواز پر انہوں نے چونک کر نظریں اٹھائی تھیں اور اسے بغیر اجازت لیے اندر داخل ہوتے دیکھ کر قدرے ناگواری سے بولیں
”ارشد!۔۔۔۔ یہ کیا ہے۔۔۔۔ تم اتنے بد تہذیب تو کبھی نہیں تھے
”اب بھی نہیں ہوں امی!۔۔۔۔لیکن آپ نے جو کیا ہے۔۔۔۔ وہ بھی تو تہذیب کے کسی دائرے میں نہیں آتا۔۔۔۔“ اس کے چہرے کے تاثرات سے صاف ظاہر تھا کہ اس نے بڑی مشکل سے خود کو کوئی سخت جواب دینے سے باز رکھا ہے۔
”ایسا کیا کردیا ہے میں نے جو تم اس لہجے میں مجھ سے بات کررہے ہو“
”میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی چھیننے کے بعد بھی آپ ایسا کہہ رہی ہیں۔۔۔۔ کیا آپ پنکی کے حوالے سے میرے احساسات سے بے خبر تھیں۔۔۔۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی آپ نے ۔۔۔۔“اس نے کہتے کہتے سختی سے لب بھینچ لیے۔
”کیا ہوا رک کیوں گئے۔۔۔۔ کہو۔۔۔۔ اب کہتے کیوں نہیں۔۔۔۔ کوئی اور الزام بھی رہ گیا ہو تو وہ بھی لگا دو ماں پر۔۔۔۔ کیا جنم دینے والی ماں کو اتنا بھی اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے فیصلے کرسکے۔۔۔۔ اور یہ سب سوال تم اس سے جا کر کیوں نہیں پوچھتے۔۔۔۔ یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی مرضی سے ہورہا ہے۔۔۔۔میں نے کسی کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کیط جاکر پوچھو تو پہلے۔۔۔۔“
انہوں نے بڑی ہوشیاری سے خود کو ہر الزام سے آزادی کروالیا کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ اب پنکی وہی کہے گی جو وہ چاہتی ہیں۔ ارشد نے بے یقینی سے ایک نظران کی طرف دیکھااور فوراً ہی پنکی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو پنکی بیڈ پر نیم دراز چھت کو گھور رہی تھی۔ آہٹ پر اس نے دروازے کی طرف دیکھا اور ارشد کو دروازے ایسے آتا ہوا دیکھ کر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ایک پل کے لیے دونوں کی نظریں ملیں اور اسی ایک پل میں وہ اس کی آنکھوں میں اترتے جزن وملال کے سائے دیکھ چکا تھا۔
وہ آہستہ روی سے چلتا اس کے سامنے گھنٹوں کے بل بیٹھ گیا۔
”پنکی! مجھے معاف کردو، تمہیں اتنا سب کچھ اکیلے ہی سہنا پڑا۔ جب تمہیں میری سب سے زیادہ ضرورت تھی اس وقت میں تمہارے پاس نہیں تھا اور اس کے لیے میں خود کو کبھی معاف نہیں کروں گا لیکن تم فکر مت کرو اب میں آگیا ہوں نا۔ اب سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ شادی تو میں نہیں ہونے دوں گا، امی کو میرے بات ماننی ہی پڑی گی“اس نے پر عزم لہجے میںکہتے ہوئے پنکی کا ہاتھ تھام لیا۔
”نہیں ارشد! آپ ایسا کچھ نہیں کریں گی“پنکی نے آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑایا تھا لیکن اس کی نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھیں۔
”لیکن کیوں؟“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
”کیوں کہ یہ جو کچھ ہورہا ہے، میری مرضی سے ہورہا ہے“آخر اس نے تمام ہمتیں مجتمع کرکے کہہ دیا اور ارشدشاکڈرہ گیا۔