یہ خاموشی اورتنہائی۔۔۔۔ اسے روح میں اترتی محسوس ہورہی تھی۔ قمست سے اسے ہزاروں شکوے تھے۔۔۔۔ پہلے امی کی ناگہانی موت، ابا کی دوسری شادی اور پھر اس کی دربدری۔۔۔۔ ممانی جان کا احساس ہی تھا جو اسے اپنے ساتھ یہاں لے آئی تھیں ورنہ سوتیلی ماں تو اس کا وجود بھی برداشت کرنے کو تیار نہ تھی۔۔۔۔ صرف تیرہ سال کی عمر میں ہی ماں کے ساتھ ساتھ اس نے باپ کو بھی کھو دیا تھا۔۔۔۔ ممانی مزاج کی تھوڑی تیز تھیں لیکن کم از کم اسے ایک گھر کی پناہ تو مل ہی گئی تھی۔ باقی سب کبھی اسے اپنے گھر کے ایک فرد کی طرح ہی سمجھتے تھے اور سب سے اچھا تو ارشد تھا۔۔۔۔ جس نے اپنی محبت سے اس کا دامن بھر دیا تھا۔۔۔۔ یہ ارشد کی بے پایاں محبت ہی تو تھی جو اداسیوں اور محرومیوں کے سائے میں اس کے لیے روشنی کا استعارہ بنی ہوئی تھی، جنہوںنے اس کے ہمیشہ کے اداس لبوں کو مسکرانا سکھا دیا تھا اور اس کی نم آنکھوں میں بھی مسرت کی کرنیں جگمگاتی نظر آتیں تھیں۔ ارشد کا ساتھ اس کے لیے بہت معنی رکھتا تھا لیکن غزالہ کی ارشد میں روز بروز بڑھتی ہوئی دل چسپی اسے کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ لگ رہی تھی۔۔۔۔ ڈراسے ارشد کے پلٹ جانے کا نہیں تھا کہ اس کے جذبوں کی گہرائی سے وہ بخوبی واقف تھی بلکہ خوف تو اسے ممانی جان کے ارادوں سے آرہا تھا کہ وہ غزالہ کو اپنی بہو بنانے کا سوچ رہی تھیں اور اس کے لیے سب سے ہیول ناک بات یہ تھی کہ کہیں اس کی وجہ سے ماں بیٹے میں کوئی تلخ کلامی نہ ہوجائے اور یہ بات اسے کسی طور گوارا نہیں تھی کیوںکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ دونوں ہی ضدی مزاج کے مالک ہیں اور ان کا ٹکراﺅ تو اکثر ہوتا رہتا تھا لیکن اس کی ذات درمیان میں آنے کی وجہ سے وہ ہی عتاب کا نشانہ ٹھہراتی۔۔۔۔ اپنی انہی سوچوں میں غلطاں وہ آنکھیں بند کئے نہ جانے کب سے کھڑی تھی کہ اپنے کندھے پر بھاری ہاتھ کا لمس محسوس کرکے بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
”ارشد۔۔۔۔“ اپنے وجدان پر اسے اس قدر بھروسا تھا کہ اس نے بنا پلٹے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
”پنکی۔۔۔۔“اچانک وہ بوجھل اور افسردہ سی آواز میںبولا۔ اجنبی آواز سن کر بری طرح گھبراتے ہوئے اس نے آنکھیں کھول دیں اوردو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اس کے سامنے ارمان کھڑا تھا۔
”آپ “پنکی کے ہونٹ محض کپکپا کر رہ گئے۔
”جی میں۔۔۔۔جانے کیا کہنے آیا تھا
لیکن اچھا ہوا، کچھ کہنے سے پہلے ہی آپ کے بے ساختہ لفظوں نے مجھ پر حقیقت آشکار کردی “اس نے پھیکی سی ہنسی ہنس کر کہا لیکن اس کی آنکھوں میں اداسی کا بہت گہراتاثر تھا۔
”جی۔۔۔۔“اس کی گھنی پلکیں لرز کر رہ گئیں لیکن جو وہ کہنے آیا تھا وہ کہہ نہیں پایا، وہ اس نے اس کی آنکھوں میں بخوبی دیکھ لیا تھا۔ ارمان کی خاموشی نظریں کچھ دیر پنکی پر جمی رہیں پھر وہ اسی خاموشی سے تیزی سے باہر نکل گیا۔
”یا اللہ۔۔۔۔یہ اب تقدیر میرے ساتھ کون سا کھیل کھیل رہی ہے“ وہ گم صم سی وہیں دیوار کے سہارے بیٹھی چلی گئی۔
اس دن کے بعد سے پنکی کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ وہ ارمان کے سامنے کم سے کم جائے۔ جب بھی سب لوگ لاﺅنج میں خوش گپیوںمیں مصروف ہوتے تو وہ کام کا بہانہ بنا کر وہاں سے اٹھ جاتی۔ اس دن رات کے کھانے کے بعد ماموں اور ممانی تو اپنے کمرے میں چلے گئے جب کہ باقی ینگ پارٹی کاموڈ کافی کا تھا، اس لیے وہ سب لاﺅنج میں براجمان ہوگئے۔ پنکی نے کافی تیار کرکے خالدہ کے ہاتھ بھجوا دی اور خود کچن سمیٹنے میں لگی گئی۔ کچن سے فارغ ہوکر وہ سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
لاﺅنج سے ان سب کی باتوں کی آواز اب تک آرہی تھی، جس سے صاف ظاہر تھا کہ ان میں سے کسی کا بھی فی الحال سونے کا ارادہ نہیں۔ ابھی وہ بستر پر جانے کا سوچ رہی تھی کہ خالدہ چلی آئی اور پھر اس نے ہزار منع کرنے اور لاکھ تاویلیں دینے کے باوجود اسے لاﺅنج میں لے آئی۔ اسے دیکھ کر ارشد کی آنکھوں کی چمک میں یک دم ہی اضافہ ہوگیا تھا جبکہ ارمان کے چہرے پر حسرت کے سائے لرزاں دکھائی دے رہے تھے اور پنکی قصور وارنہ ہوتے ہوئے بھی خود کو قصوروار سمجھ رہی تھی۔ وہ سر جھکائے شاہین کے ساتھ جاکر بیٹھ گئی۔ ارشد کی آنکھوں کی چمک غزالہ کی نظروں سے بھی پوشیدہ نہیں رہی تھی اور اسے یک دم ہی پنکی سے جیلسی محسوس ہونے لگی۔
”پنکی ! تم ہر وقت کام کرتے کرتے تھکتی نہیں ہو“غزالہ نے بڑی گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”اپنے گھر کاکام کرنے میں تھکن کیسی“ اس کے لب دھیمے سے مسکرائے۔
”ایسا صرف تم سوچ سکتی ہو پنکی! سب نہیں“ارشد کا انداز کچھ جتاتا ہواتھا اور غزالہ اپنی جگہ جزبز ہوکر رہ گئی۔
”گھر اپنا ہو تو ایسی سوچ واقعی بہت اچھی ہے لیکن تم تو۔۔۔۔ اینی وے میں تو کہتی ہوںکہ جب ہم نوکر افورڈ کرسکتے ہیں تو کیوں نہیں۔
کیا ضرورت ہے خود کو خوار کرنے کی۔۔۔۔“ غزالہ نے اس بار بڑا سوچ کر وار کیا تھا اور پنکی کے ساتھ ساتھ باقی سب کو بھی غزالہ کا یہ گستاخ انداز برا لگا۔ پنکی نے تو کچھ کہا نہیں کہ وہ اس گھر میں مہمان تھی اور ممانی کی چہیتی بھی۔ اس کے خلاف بول کر وہ ایک نیا محاذ نہیں کھولناچاہتی تھی لیکن ارشد سے اس کی بے عزتی برداشت نہیں ہوئی۔
”اس گھر پر پنکی کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارا۔۔۔۔ یہ یہاں اجنبی نہیں بلکہ ہمارے ہی گھر کا ایک فرد ہے“ارشد نے ہونت چباتے ہوئے کہا اور ایک خفگی بھری نظر اس پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔
پنکی کی بھیگی آنکھیں اور ارشد کی خفگی دیکھ کر ارمان سے چپ نہ رہا تھا اور وہ بھی بول پڑا”غزالہ! کبھی تو سوچ سمجھ کر بولا کرو، تمہارے یہ سخت الفاظ دوسروں کو کتنی تکلیف پہنچاتے ہیں، کبھی اس بارے میں بھی سوچ لیا کرو“۔
”کمال ہے۔۔۔۔ میں نے ایسا بھی کیا کہہ دیا ہے کہ سب کے سب میرے ہی پیچھے پڑ گئے ہیں“غزالہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
”تم نے کچھ نہیں، بہت کچھ کہہ دیا ہے۔۔۔۔“ارمان کے لئجے میں غصہ ہنوز برقرار تھا۔
”پلیز آپ لوگ میری وجہ سے آپس میں نہ لڑیں“ اس سے پہلے کہ بات مزید بڑھتی پنکی نے اٹھتے ہوئے کہا اور پھر فوراً ہی وہاں سے چلی گئی لیکن اس کی آنکھوں میں ہلکورے لیتا درد ارمان نے بخوبی دیکھ لیا تھا۔
”کاش ۔۔۔۔ اگر میرے بس میں ہوتا تومیں ان آنکھوں میں کبھی آنسو نہ آنے دیا۔۔۔۔ لیکن ان آنکھوں میں تو کوئی اور بستا ہے اور میرے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔“پنکی کو جاتے دیکھ کر اس نے تاسف سے سوچا اور پھر ایک خفگی بھری نظر غزالہ پر ڈال کر وہاں سے اٹھ گیا۔
”حد ہوتی ہے۔۔۔۔ سب ایسے بی ہیو کر رہے ہیں جیسے میں نے کسی کا قتل کردیا ہے۔۔۔۔ ہوں ۔۔۔۔“غزالہ نے نخوت سے گردن جھٹکتے ہوئے کہااور غصے میں اٹھ کر پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی۔
”یہ غزالہ باجی بھی نا۔۔۔۔ پتا نہیں کیا سمجھتی ہیں خود کو۔۔۔۔ میں تو امی سے کہنے والی ہوں کہ اگر ان کا بھائی سے ان کی شادی کروانے کا کوئی ارادہ ہے بھی، تو فوراً بدل دیں۔ ان کا گزارہ صرف بھائی کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہمارے ساتھ بھی مشکل ہے“
”ہاں یہ تو ہے۔۔۔۔لیکن امی کب کسی کی سنتی ہیں۔۔۔۔ دیکھو کیا ہوتا ہے۔۔۔۔“ شاہین نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہا اور پھر وہ دونوں کافی دیر تک اسی موضوع پر باتیں کرتی رہیں۔
صبح ماموں اور ارشد کے جانے کے بعد وہ چائے کا کپ لے کر باہر لان میں آگئی۔باقی سب گھر والے ابھی تک سو رہے تھے۔ اس لیے اس وقت اس کے پاس فراغت ہی فراغت تھی۔ سردیوں کے دن تھے اور تین دنوں کی شدید دھند کے بعد آج سورج نے اپنی شکل دکھائی تھی۔ اس لیے اس ہلکی ہلکی نرم گرم سی دھوپ میں، لان میں تہلتے ہوئے چائے پینا اسے اچھا لگ رہا تھا۔ اس نے سوچوں کو پیچھے دھکیل دیا تھا اور اس وقت وہ بس اس خوبصورت موسم کو انجوائے کررہی تھی۔ اس کے ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی جس نے چہرے کی شادابی میں کئی گنا اضافہ کردیا تھا اور یہ سب کچھ صرف ارشد کی بدولت ممکن ہوا تھاورنہ کچھ عرصہ پہلے تک تو وہ ہر وقت بس اپنے ماضی میں کھوئی اداس رہا کرتی تھی لیکن ارشد نے اسے جینا سکھا دیا تھا۔۔۔۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونا، خوبصورت لمحوں کو مٹھی میں قید کرلینا، دکھوں کو ایک طرف رکھ کرآگے بڑھنا۔۔۔۔ یہ سب اس نے ارشد سے سیکھا تھا ورنہ پرانی پنکی ہوتی تو رات کے واقعہ کے بعد اب تک اداس پھرتی۔
ارمان اٹھ کر کھڑکی کے پاس آیا تو پنکی کو لان میں ٹہلتے دیکھ کر وہیں کھڑا ہوکر اسے دیکھنے لگا۔ وہ سبز کپڑوں میں ملبوس اس وقت اسی منظر کا ہی ایک حصہ معلوم ہورہی تھی۔ اس کے چہرے پہ کھلتے رنگوں میں ارشد کی محبت اسے اتنی دور سے بھی صاف نظر آرہی تھی۔
”یہ دل بھی کتنا پاگل ہے۔۔۔۔ایک ایسی چیز کی خواہش کربیٹھا ہے جو نہ صرف اس کی دسترس سے دور ہے بلکہ کسی اور کی امانت ہے۔۔۔۔ ہاہا۔۔۔۔“ اس نے ایک گہرا سانس بھر کر اپنے بالوں میں ہاتھ پھرتے ہوئے سوچا۔ اسی وقت اندر سے پنکی کے نام کی آوازیں آنے لگیں اور وہ اندر چلی گئی۔ اس کے جاتے ہی ارمان کو یوں لگا جیسے اچانک اس خوبصورت منظر سے رنگ غائب ہوگئے ہوں اور وہ ایک دم ہی پھیکا اور بے جان پڑ گیا ہو۔ اس کا دل ہی اچاٹ ہوگیا اور وہ بوجھل دل لیے کھڑکی کے سامنے سے ہٹ گیا۔
ارمان اور غزالہ واپس جارہے تھے۔ پنکی نے سنا تو اسے یک گونہ سکون کا احساس ہوا کہ جہاں غزالہ کی ارشد میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اسے ہولائے دے رہی تھی، وہیں دوسری طرف ارمان کی آنکھوں سے ٹپکتی حسرتیں اسے پریشان کررہی تھیں لیکن اس کا یہ سکون بھی بس چند روز ہی ثابت ہوا۔ ابھی انہیں گئے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ گھر یں غزالہ اور ارشد کی شادی کی باتیں ہونے لگیں ماموں جان بھی اس شادی کے حق میں نہیں تھے کیوں کہ ان کے خیال میں غزالہ کسی بھی طرح ارشد کے مزاج کے مطابق نہیں تھی لیکن ممانی جان کو ان کے خیال سے بالکل بھی اتفاق نہیں تھا اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ اپنی بہن کو ہاں کرچکی ہیں اس لیے شادی ہوکر رہے گی اور ممانی جان کے فیصلے کو بدلنا کسی کے بس میں نہیںتھا۔ ارشد کو جب پتا چلا تو اس نے نہ صرف غزالہ سے شادی کرنے سے صاف انکار کردیا بلکہ واضح طور پر پنکی کانام بھی لے دیا۔۔۔۔ بس پھر کیا تھا۔۔۔۔ گھر میں اک طوفان سا آگیا۔
حالانکہ ارشد کے فیصلے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ پنکی تو انہیں بھی بہت پسند تھی لیکن ممانی جان کا رعب اتنا تھا کہ کوئی بھی صاف لفظوں میں اس فیصلے کے حق میں کچھ نہ کہہ سکا۔ سب ہی ایک دوسرے سے نظریں چرائے پھر رہے تھے اور سب سے زیادہ مصیبت تو پنکی کی لیے تھی۔ اسے بیک وقت گھر کے باقی افراد کی طرف سے ہمدردی اور ممانی جان کی قہر بھری نظروں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ ان حالات نے اسے بالکل ہی گم صم کرکے رکھ دیا تھا، جو گھر برسوں سے اس کے لیے سائبان بنا ہوا تھا، آج اس کی وجہ سے بکھرنے کے قریب تھا۔۔۔۔ماں بیٹا اس کی وجہ سے ایک دوسرے کے مقابل آکھڑے ہوئے تھے اور پنکی اس سب کے لیے خود کو ہی قصور وار مان رہی تھی۔ ممانی جان نے تو اس سے کلام تک بند کررکھا تھا،یہاں تک کہ وہ اس کے ہاتھ کا پانی کا گلاس تک نہیں لیتی تھیں۔ ارشد کا صاف انکار سن کر انہوں نے خود کو کمرے میں قید کرلیا تھا۔ بس شاہین یا خالدہ ہی ان کے کمرے میں جا کر ضد کرکے انہیں کھانا کھلا دیتی تھیں، کسی وقت وہ ان کی ضدمان لیا کرتی تھیں تو کبھی خود ضد میں آکر کھانے سے صاف انکار کردیتی تھیں۔ سب ایک دوسرے سے کترائے کترائے پھرتے تھے۔ گھر میں ٹینشن ابھی چل رہی تھی کہ ارشد کو آفس کے کسی کام سے چند دنوں کے لیے اسلام آباد جانا پڑا۔ حالانکہ جانے سے پہلے وہ خالدہ سے خاص طور پر پنکی کا خیال رکھنے کو کہہ کر گیا تھا لیکن پھر بھی وہ خود کو تنہا محسوس کرنے لگی تھی۔