آسمان کالے گرے بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ صبح سے مسلسل ہوتی بارش کا زور اب کافی حد تک تھم چکا تھا لیکن پھر بھی ہلکی ہلکی پھوارکی صورت بوندیں اب بھی برس رہی تھیں اور ٹھنڈی پختہ سڑک جل تھل ہورہی تھی۔ دسمبر کی اس بارش نے جہاں یک لخت ہی سردی کی شدت میں اضافہ کردیا تھا وہاں لوگوں کو صبح سے ہی اپنے گھروں میں قید بھی کررکھا تھا۔ اتوار کا دن تھا اور ان سب کا ارادہ آج لانگ ڈرائیو پر نکلنے کا تھا لیکن بارش نے ان کی ساری پلائنگ پر پانی پھیر کر رکھ دیا تھا۔ اب وہ سب کزنز اپنی بوریت دور کرنے کے لیے صبح سے ہی لاﺅنج میں موجود ایک دوسرے پر فقرہ بازی کے ساتھ ساتھ مختلف حیلے بہانوں سے اپنا وقت گزارنے میں مصروف تھے۔ ارمان ایزی چیئر پر نیم دراز ،ساﺅنڈ سسٹم پر مکیش کے اداس گیت لگائے، خود بھی اداس ہونے کی کوشش کررہا تھا۔ گرم گرم کافی کا مگ اپنے ہونٹوں پر لگائے شاہین ہلکے ہلکے سپ لے ہی تھی۔ خالدہ اور غزالہ گہرے سرخ قالین پر کشن لیے بیٹھی گپیں لڑانے کے ساتھ ساتھ چلغوزوں سے شغل بھی فرما رہی تھیں جبکہ ارشد سفید کھلے گریباں کی قمیص اور سیاہ پینٹ میں ملبوس کھڑکی کے قریب صوفے پر بیٹھا اختر شیرانی کی غزل پڑھنے میں پوری طرح محو تھا اور کمرے میں گونجتی مکیش کی درد بھری آواز سے اپنے ہی دل کی پکار محسوس ہو رہی تھی۔
”بس بہت ہوگیا۔۔۔۔صبح سے بیٹھے بیٹھے بور ہوگئے ہیں۔ اتنا پیارا موسم ہورہا ہے۔ چلو آئس کریم کھا کر آتے ہیں“ غزالہ نے اچانک چلغوزے کھاتے کھاتے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا۔
”جی۔۔۔۔ کیا فرمایا۔۔۔۔ پیارا موسم۔۔۔۔ یا را مان! تمہاری بہن کے پاس تھوڑا بہت دماغ بھی ہے یا نہیں“ ارشد نے اس کی فرمائش سن کر کتاب سے نظریں ہٹائے بغیر طنزیہ انداز میں کہا۔
”اب بھی شک کی کوئی گنجائش باقی ہے۔۔۔۔“ ارمان نے پھیکی سی ہنسی ہنس کر کہا۔
”ویری فنی۔۔۔۔ اپنے بارے میں کیا خیال ہے“غزالہ نے کسی قدر گھور کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”چلیں کیرم کھیلتے ہیں۔۔۔۔“خالدہ نے بات کو خواہ مخواہ طول پکڑتے دیکھ کر فوراً ہی کہا۔
”ہاں۔۔۔۔ لڑنے سے تو کم از کم یہ بہتر ہی ہے“ ارشد نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سے کتاب میں گم ہوگیا۔ اس کے اتنے بے فکر انداز پر غزالہ محض ہونٹ کاٹ کر رہ گئی۔ وہ جتنا اس کے قریب جانے کی کوشش کرتی تھی ،وہ اتناہی اس سے دور بھاگتا تھا۔ ایک ہفتہ ہوگیا تھا اسے اور ارمان کو لاہور سے یہاں آئے ہوئے لیکن ارشد کا انداز اس کے ساتھ ہمیشہ ہی بڑا عجیب سا ہوتا تھا حالانکہ وہ اسے اپنے دل میں ایک خاص مقام دے چکی تھی۔ اس سے بھی اور وہ کچھ ایسی ہی توقع رکھتی تھی لیکن اس کی نظریں اسے ہمیشہ کسی اور کو ڈھونڈتی نظر آتی تھیں اور آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ پنکی ہاتھ میں کھانے کی پلیٹیں لیے کچن سے نکلی تو اس کی موجودگی محسوس کرکے فوراً ہی ارشد نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ لاﺅنج سے گزرتے ہوئے پنکی کی نظریں ایک پل کے لیے اس سے ٹکرائیں تو ارشد کی پرشوق نظ ریں اورہونٹوں پہ بکھرا تبسم دیکھ کر اس کے چہرے پرحیا کی سرخی پھیل گئی۔
اور وہ فوراً ہی ڈائینگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی۔ ارشد نے بڑی ہی دلچسپی سے اس کے چہرے پر بکھرے رنگوں کو دیکھا تھا اور پھر ہاتھ میں پکڑی کتاب سائیڈ پر رکھ کر خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑا۔ غزالہ نے نظروں کا یہ تصادم دیکھا تو اس کے اندر حسد کی چنگاریاں سی جل اٹھیں لیکن ارشد اسے نظر انداز کرتا کب کا جاچکا تھا۔ اس نے بھی خود کو دوبارہ اس ماحول کا حصہ بنانا چاہا لیکن اب اس کا دل ایک دم ہی ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا۔
”ہائے۔۔۔۔“ اس نے بہت آہستہ سے اس کے کان کے پاس سرگوشی کی تھی لیکن وہ پھر بھی ڈر گئی۔
”ہائے۔۔۔۔ کون۔۔۔۔“ اس نے گھبرا کر پلٹ کر دیکھتے ہوئے کہا۔
”ایک توناں ۔چڑیا جتنی تو جان ہے تمہاری، کبھی عقل سے بھی کام لے لیا کرو۔ میرے علاوہ کسی کی اتنی مجال ہے کہ تمہارے اتنا قریب بھی آجائے اس نے ذرا خفگی سے کہا“۔
”آپ جائیں یہاں سے، ممانی جان نے اگر آپ کو اس وقت یہاں دیکھ لیا تو میری شامت آجائے گی“اس نے بڑے ہی ڈر ے ہوئے لہجے میں کہتے ہوئے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔
”یار! کبھی تو بغیر ڈرے پیار سے بات کرلیا کرو۔ جب دیکھو حواس باختہ سی رہتی ہو۔۔۔۔ ترس گیا ہوں کہ کبھی تو تم میرے ساتھ ہو کہ میرے پاس بھی ہو لیکن نہیں“ اس سے پہلے کہ وہ اور زیادہ غصے میں آجاتا پنکی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر چپ کر گیا۔
”اچھا بابا! سوری۔۔۔۔ اب رونا مت شروع کردینا۔۔۔۔آئی نو، اس میں تمہارا بھی کوئی قصور نہیں تمہارے حالات نے ہی تمہیںاتنا کم زور کردیا ہے کہ ۔۔۔۔اینی وے۔۔۔۔ہاپئر تو میں ہورہا ہوں لیکن کیا کروں یہ غزالہ بی بی فضول میں ہی مجھے غصہ دلاتی رہتی ہے۔۔۔۔ خیرچھوڑو اسے تم پریشان مت ہو۔۔۔۔ بس مجھ پر بھروسا رکھو۔۔۔۔ بھروسا ہے نہ۔۔۔۔“ اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پاکر اس نے گھور کر اسے دیکھا تو اس نے جلدی سے اثبات میں سرہلا دیا۔
”بے وقوف لڑکی“ اس کے اتنے فرمانبردار انداز پر ارشد نے مسکراتے ہوئے آہستہ سے اس کے سر پر چیت لگائی اور واپس پلٹ گیا۔ اسے جاتے دیکھ کر پنکی کے لب بھی دھیمے سے مسکرا اٹھے۔
اس گھر میں تھا ہی کیا سوائے ارشد کی محبت کے۔۔۔۔کم از کم پنکی کے لیے تو دنیا ارشد سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوجاتی تھی۔ سرخ کھپریلوں سے بنی یہ کوٹھی اپنے اندر نرالے لوگوں کو چھپائے رکھتی تھی۔۔۔۔ ممانی جان جنہوں نے ابا کی دوسری شادی کے بعد ازراہ ترحم اسے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ انٹر کے بعد ممانی جان نے گھر کی پوری ذمہ داری اس پر ڈال دی تھی، لہٰذا اسے پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ سوائے ارشد اور خالدہ کے کسی نے بھی اس کے یوں پڑھائی چھوڑنے پر اعتراض نہیں اٹھایا تھا لیکن ان کے اعتراض کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی تھیں۔ حسین اور نازک سی شاہین باجی، سوشیالوجی میں ایم۔اے کرنے کے بعد آج کل گھر میں ہر وقت کتابوں میں منہ چھپائے رہتی تھیں۔ جانے یونیورسٹی لائف میں کس چوٹ نے انہیں دنیا سے اس حد تک بے زار کردیا تھا کہ اب وہ شادی کے نام سے بھی الرجک تھیں۔ ان سے دو سال چھوٹی شوخ وشریرنٹ کھٹ سی خالدہ، بی۔اے فائنل کی اسٹوڈنٹ تھی اور پنکی کی اس کے ساتھ بہت گہری دوستی تھی۔ ان کے علاوہ ارشد تھا، جو ایک کیمیکل فرم میں جنرل مینجر کے عہدے پر فائز تھا اور اب پنکی کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور خواہش بن چکا تھا۔ وہ اس کی محبت پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئی تھی لیکن پچھلے کچھ دنوں سے صفیہ خالہ کے بچے ارمان اور غزالہ سیر وتفریح کی غرض سے یہاں آئے ہوئے تھے۔ تب سے ہی ان جانے ڈر اور وسوسے اسے پریشان کررہے تھے۔ ایک طرف غزالہ کی بے باک حسین نگاہیں ارشد کو اپنے دام الفت میں الجھانے کی ہر ممکن کوشش کررہی تھیں تو دوسری طرف ارمان کی بہگی بہگی پیام لٹاتی نظریں اسے خوفزدہ کیے رکھتی تھیں۔
موسم کے تیوروں میں کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا تھا بلکہ رات ہوتے ہوتے تو بارش میں ایک بار پھر تیزی آگئی تھی۔ پنکی کے لیے آج کا دن بہت ہی مصروف رہا تھا سب کے گھر میں موجود ہونے کی وجہ سے اس کا پورا دن کچن کی ہی نذر ہوگیا تھا۔ کھانا بنانے کے ساتھ ساتھ ہر دو گھنٹے بعد تو چائے یا کافی کا دور چل رہا تھا، ایسے میں اسے بالکل بھی فرصت نہیں ملی تھی۔ رات کے کھانے کے بعد کچن سمیٹ کر وہ اپنے کمرے میں چلی آئی۔ کمرا کیا تھا ایک چھوٹا سا سٹور تھا لیکن اس کے لیے یہ بھی بہت تھا۔ پورے دن میں رات کا ہی وقت ہوتا تھا، جب وہ اس کمرے کی تنہائی میں اپنے آپ سے کچھ باتیں کرلیتی تھی ورنہ تو سرا دن گھر کے کاموں میں الجھ کر اسے اپنے کمرے میں آنے کا وقت بھی نہیں ملتا تھا۔ اب بھی اتنا مصروف دن گزار کر تھکن کا احساس ہونے کے باوجود نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ کمرے میںاکلوتی کھڑکی کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ بند کھڑی کے شیشوں پر ٹکراتی بوندیں رات کی اس خاموشی میں ایک عجیب سی موسیقی پیدا کررہی تھیں۔ کمرے میں آتش دان تو تھا نہیں، اس لیے ٹھنڈک کا احساس ہوتے ہی اس نے اپنی کالی چادر کو اور اچھی طرح سے اپنے گردلپیٹ لیا۔ باہر اندھیرا اس قدر گہرا تھا کہ سٹریٹ لائٹ کی روشنی بھی کچھ دھند لی پڑ گئی تھی۔ وہ دونوں ہاتھ باندھے کھڑکی کی دیوار سے ٹیک لگائے سوچوں میں ڈوب سی گئی۔
اس کے اطراف بے کراں سناٹوں کا سمندر تھا۔