وہ دبے قدموں گھر کے پیچھے دروازے سے باہر نکلی تھی
چاند کی پر نور چاندنی نے سارے امرتسر کو اپنی میٹھی چھایا میں لے رکھا تھا ۔۔
فصلیں کاٹی جاچکی تھیں جسکی وجہ سے چند دن پہلے نظر آنیوالے ہرے بھرے اور سنہری سونا اگلتے کھیت اب چٹیل میدان کا سا سماں پیش کررہے تھے ۔۔
اس نے آنکھیں چندھیا کر دیکھا انکی زمینوں میں دور چوہدریوں کی حویلی کی پیچھلی طرف برگد کے نیچے ہلکی سی روشنی نظر آئی تھی ۔
بے اختیار ہی اسکا دل دھڑکا اور چہرے پر ہنسی آگئی
اسے بخوبی اندازہ ہوگیا کہ گھنا میسنا شیر چوہدری رات کے اس پہر شمع روشن کرکے ہڑھ رہا ہوگا مہراں نے اسے بتایا تھا کہ ،مقابلے کا امتحان دے کر مجسٹریٹ لگنا شیر کا خواب ہے
تم تمہاری سنگت میرا خواب ہو چوہدری جی جیسے تم اپنے خواب سے دستبردار نہیں ہوسکتے اسی طرح میں بھی تمہیں کسی کا ہوتے نہیں دیکھ سکتی ۔
وہ دہلیز پر کھڑی خیالوں میں شیر حیدر سے مخاطب تھی جب رکھوالی کے لیے رکھے گئے کتے کے بھونکنے پر ہوش میں آئی تھی ۔
کتے کو پچکارتے اس نے چہار سوں پھیلی چاندنی کو دیکھا پھر ہاتھ میں پکڑی لالٹین پھر پاس کھڑے دم ہلاتے کتے کو دیکھا تھا
گھر والوں کی طرف سے وہ بلکل مطمئن تھی کہ ان میں سے کوئی بھی صبح سے پہلے نہیں اٹھے کا لیکن ہاتھ میں پکڑی لالٹین کی وجہ سے کوئی بھی اسے کوسوں دور سے دیکھ سکتا تھا جبھی اس نے کسی خیال کے تحت لالٹین کی لو بلکل مدھم کی اور دروازے کے ساتھ دیوار میں بنے درے میں رکھ دی ۔،
(( جب لائٹ وغیرہ نہیں ہوتی تھی تب شہروں اور گاوؤں، میں گھر کے اندر مختلف جگہ پر اور باہر دروازے کے ساتھ روشنی کے انتظام کے لیے درے ( شمع دان) بنائے جاتے تھے ۔
پھر سرے شام گھر میں بجگہ ضرورت اور گھر کے باہر بنے درے میں شمع یا لالٹین روشن کہ جاتی تھی تاکہ اندھیرے کے بعد آنیوالوں کو باآسانی پہچانا جا سکے)
لالٹین رکھ کر اس نے کتے کو دوسری طرف بھگایا ڈوپٹے کو سر سے اتار کر پیچھے پاوں کی طرف ڈھلکا کا دیا ایسے کے وہ زمین پر لگنے لگا تھا۔۔
ہرطرف سے مطمئن ہوکر اس نے دور برگد کے پیڑ کے نیچے اپنے خوابوں کی منزل پانے کے لیے محنت کرتے شخص کی طرف قدم بڑھا دیے دوسرے لفظوں میں اپنے خواب کو پورا کرنے کی طرف قدم دیے تھے۔..
شیر حیدر کے پاس پہنچ کر اسے سخت مایوسی ہوئی کیونکہ کتاب اسکے سرہانے پڑی تھی اور وہ شمع کو مدھم کیے سکون سے سویا ہوا تھا۔
شیر حیدر کی بند آنکھوں والے چپرے کو دیکھتے بلونت کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی کتنا بے رعیا اور روشن چہرہ تھا وہ کچھ دیر کے لیے کھو سی گئی تھی۔
اسے ایسالگا کہ آس پاس کو چاند یا لالٹین کی روشنی نے نہیں بلکہ شیر حیدر کی روشن پیشانی سے جھلکتے نور نے روشن کیا ہوا ہے
(ہائے گرو جی جس سے محبت ہوتی ہے ہر روشنی ہر اچھا احساس اسی کے وجود سے کیوں منسلک لگتا ہے؟؟)
اس نے دل پر ہاتھ رکھتے اسے قابو کرتے گرو جی کو مخاطب کرکے کہا تھا. اسکے قدم شیر حیدر کی چارپائی کی طرف تھے۔
( یہ محبت کا نہیں کردار کانور ہے شیر حیدر کا پاکیزہ کردار اسکی نیک سیرت ہے جو نور بن کر چمک رہی ہے) بلونت کے اندر کی اچھائی نے آواز بلند کی تھی۔
نہیں ایسا نہیں ہے اگر، ایسا ہوتا تو وہ مہراں، کے ساتھ بھی ویسا ہی برتاؤ جیسا میرے ساتھ کرتا ہے۔
اصل میں یہ مرد ذات بڑی بدذات ہوتی ہے ہمیشہ موقعے کی تلاش میں رہتی ہے جیسے ہی انہیں موقع ملے شرافت اور نیک چلنی کا چولہ اتار پھینکتے ہیں اور اپنے اصلی روپ میں آجاتے ہیں مرد اور، ہوس کا چولی دامن کا ساتھ ہے مرد جتنا بھی پارسا ہو اپنی فطرت سے نہیں بھاگ سکتا اور آج میں شیر حیدر کو موقع دوں گی اپنا شرافت کا چولہ اتار پھینکے میں اسے مجبور کروں گی کہ وہ اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوجائے ۔)
اس نے ایک بار پھر سے اپنے اندر کی آواز کو دبا کر بیہودہ تاویلوں سے اپنے عزائم کو پختہ کیا تھا
آگے بڑھی کر اس نے درخت کے ساتھ لٹکی لالٹین بجھائی اور شیر حیدر کے پاس جاکر بیٹھتے اسکے بال سہلانے لگی تھی
پھر اچانک
---------------------------
وہ دن بھر کا تھکا تھا جبھی تھوڑی دیر پڑھنے پر ہی نیند آنے لگی تو اس نے لالٹین کی لو دھیمی کی کتاب بند کرکے سرہانے رکھی اور سر کے نیچے بازو رکھ کر لیٹتے ہی غنودگی میں چلا گیا تھا
آج پہلی رات تھی جب اسے مہراں کی یاد یا اسکے ساتھ گزرنے والے کسی لمحے کا خیال نہیں آیا اور نا ہی ہی بار کی طرح آج اس نے آنیوالے وقت کے بارے کچھ خوبصورت سوچا تھا..
اسے تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ دوپہر کو اس نے مہراں سے اسوقت ملنے کی فرمائش کی تھی۔۔
ابھی اسے سوتے کچھ ہی دیر ہوئی جب کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی پھر قدموں کے ساتھ کسی کی پائل کی کھنکھناتی آواز نے سوتے میں اس کے لب کھلا دیے تھے
اسے محسوس ہوا وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے یہ پائل کی آواز وہ ہزاروں میں پہچان سکتا تھا کیونکہ اسی چھن چھن میں اسکا دل دھڑکتا تھا۔
آواز پاس آنے لگی اسکا ذہن محبت بھرے خواب کے ساتھ مزید نیند میں اترنے لگا تھا
پھر اسے بند آنکھوں سے ایسا لگا جیسے ہر سو ابدھیرا چھا گیا ہو لیکن اب پائل کے ساتھ کسی کی چوڑیاں بجی تھیں
پائل کے ساتھ چوڑیوں کی بجتی آواز نے نیند ہی میں اسکے دل کی دھڑکنوں کے سُر تال بدلے تھے پھر اس سے پہلے کہ وہ نیند سے جاگ حیقیقت کا ادراک کرتا اس نے خود کو اتنے حسین خواب میں رہنے دیا۔
وہ نیند میں مسکرائے جارہا تھا جیسے خواب میں صرف پائل چوڑی نہیں بلکہ پوری مہراں اسکے ساتھ بیٹھی ہو اور ہر بات پر منہ کھول کر ہا ہ ہ ہ کرتی ہو
جیسے دوپہر میں بیٹھی تھی
وہ انہی سوچوں میں تھا جب کوئی نرم و نازک سا وجود اسکی چارپائی پر آکر بیٹھا تھا جسکے لبادے سے اٹھتی مہک شیر حیدر چوہدری کو اپنے حواسوں پر چھاتی محسوس ہوئی تھی ۔
پھر کسی نے اسکے ماتھے پر پھیلے بال سہلائے تھے۔
شیر حیدر نے کچی نیند میں فطری جذبوں کے شیر اثر کروٹ اسکی طرف لے کر ماتھے پر دھرا ہاتھ اپنی طرف کھینچا تھا
---------------------------
وہ سر پر ڈوپٹہ رکھے ایک ہاتھ سے اسے تھوڑی پر جمائے دوسرے ہاتھ سے لالٹین کو روشن کرکے تھوڑا اونچا کیے چلی جارہی تھی ۔
حالانکہ کے جانا اسے حویلی کی بلکل پیچھلی طرف تھا وہ پیچھے کے دروازے سے بھی جاسکتی تھی لیکن وہاں اسے اپنی اماں کے اٹھ جانے کا ڈر تھا اسی لیے سامنے سے ہوتے لمبا چکر کاٹ کر وہاں تک جارہی تھی
وہ اپنی حویلی کا موڑ مڑی ہی تھی جس کی دوسری طرف بلکل سامنے شیر حیدر چارپائی ڈالے ہوئے تھا کہ اسے کسی کی چوڑیوں کے کھنکے کی آواز آئی کسی نے کسی کی بازو پکڑی ہو
پھر اسے پائل بجنے کی آواز آئی جیسے کسے نے دونوں پاؤں آپس میں ٹکرائے ہوں
اتنے میں وہ موڑ مڑ چکی تھی اور سامنے برگد کے پیڑ تلے چھائے اندھیرے نے اسکا دل سہما دیا تھا
اسے دادی اور تائی سے انی جانے والی تمام ڈراونی کہانیاں یاد آئیں کہ کس طرح چڑیل کسی کا سب کچھ چھین کر اسے مار دیتی ہے
کس طرح وہ کسی اپنے کی شکل میں آکر خون چوستی ہے اور بے سانس وجود چھوڑ دیتی ہے
لیکن ان سب سوچوں اور ڈرتے دل کے ساتب وہ آگے بڑھتی جارہی تھی
برگد کے نیچے ڈلی چارپائی پر اسے شیر حیدر کے ساتھ کسی اور کا گمان ہوا تھا
اب وہ برگد کے تنے سے لٹکی شاخوں سے جھک اندر داخل ہوئی تھی
چارپائی پر پڑے نفوس میں سے ایک چونک کر اسکی طرف متوجہ ہوا تھا ۔
--------------------------
وہ دل میں، مہراں مہراں کا ورد کرتے پیچھلے صحن میں آیا تھا جہاں سے ابیہا کے مسکرانے کی آواز آرہی تھی
وہاں پہنچ کر اسے منہ کہ کھانی پڑی تھی کیو کہ ابیہا کو انکی نئی نوکر اماں نسائی کھلا رہی تھی جو بار بار اپنی جلی بازو پر پہنی بے رنگ چوڑیوں کو بجاتی تھی جس سے ابیہا کھلکھلا کر ہنستی تھی ۔
اس نے بھی شاید شیر حیدر کی آہٹ پالی تھی جبھی آدھے سر اور چھپے چہرے کو اسنے گھونگھٹ لٹکا کر بلکل چھپا لیا تھا
شیر حیدر کونجانے کیوں دس سالوں میں پہلی بار بے انتہا غصہ سا آیا تھا جسکا اظہار کرنے میں اس نے دیر نہیں لگائی تھی
اے مائی
ج ج جی صاحب
کچھ دیر بعد کسی کی آنسوؤں مین ڈوبی مری مری سی آواز بلند ہوئی تھی
بیگم صاحبہ کہاں ہیں تمہاری اور یہ بچی کو کس سے پوچھ کر پیچھلے صحن میں لائی ہو؟
ڈرا کر مارنا ہے کیا؟
اسے خود نہیں پتا چلا تھا کہ وہ کتنے سکت الفاط کہہ گیا ہے
لاو ادھر مجھے دو اور آئندہ اس کے آس پاس مجھے نظر نا آوتم
اس نے ابیہا کو تقریباً اماں نسائی سے چھین کر قدم اندر کی طرف بڑھا دیے تھے
وہ دیکھ نہیں پایا تھا کہ گھونگھٹ والی نوکرانی نے چھ ماہ میں پہلی بار اسکی موجودگی میں پورا گھونگھٹ الٹا تھا اور جسکی آنکھوں میں بے انتہا درد کے ساتھ آسو تھے