وہ شیر حیدر کے ،دل چراتے لہجے معنی خیز ادھوری باتوں کو پورا مطلب پہناتے اسکی لو دیتی آنکھوں کی تپش کو اپنی پیٹھ پر محسوس کرتے گندم کے کھیتوں کے بیچ بنی پگڈنڈی پر بھاگتی ہوئی جارہی تھی۔۔
بھاگتے بھاگتے اسکی سانس پھول چکی تھی جب اسے یہ یقین ہوگیا کہ وہ کسی کی تیز گھنی میسنی آنکھوں کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے تو سانس لینے کے لیے رکی پھر تھوڑی دور لگی بکائن ( نیم کے خاندان کا ایک درخت جسکی چھاؤں بہت گہری ہوتی ہے) تلے آبیٹھی
جو کھال ( گاؤں میں نکاسی آب کے لیے بنائی جانے والی گزر گاہ) کے کنارے پر لگی تھی۔
یہ کھال چوہدریوں اور سکھوں کی زمینوں کے بیچ سے گزرتے انہیں تقسیم کرتی تھی۔
کھال میں پانی چل رہا تھا اسکا مطلب تھا سکھوں نے یا شیر نے اپنی زمینوں کو پانی لگایا ہوا ہے ۔
اس نے کھال کی بنیری پر بیٹھ کر پاؤں پانی میں ڈبو دیے ہوا تو ویسے ہی چل رہی تھی جو بکائن کی ٹھنڈی چھاؤں سے ٹکرا کر جب نیچے آتی تو کھال کا بہتا پانی اسے قدرتی طور ہر ٹھنڈا کرجاتا تھا۔۔
( کبھی موقع ملے تو آزما لیجے گا تمام بڑے برانڈز کے اے سیز کو بھول جائیں گے آپ لوگ)
کچھ سکون ملا تو شیر حیدر کی باتوں سے چھٹکارا پاتے ہی اسے بھوک بلکہ بہت زیادہ بھوک کا احساس ہوا تھا کیونکہ وہ صبح سے بھوکی تھی
بکائن کا درخت انکی طرف تھا تو سکھوں کی طرف کھال ہی پر آم کا درخت لگا تھا۔
اس نے پیٹ کو تھوڑے سے صبر کا لالچ دینے کے لیے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا لیکن جب نظر آم کے کدے پھندے درخت پر پڑی تو منہ میں پانی بھر آیا کہیں بور تھا تو کہیں چھوٹی بڑی کیریاں بن چکی تھیں ۔
وہ اور بلونت ہر سال سب کے منع کرنے کے باوجود یہاں سے کچی کیریاں توڑ توڑ کر کھاتی تھیں ۔
گرم دوپہروں کو "بور "سے کھٹی میٹھی چٹنی بنا کر تنور کی تازہ چوپڑی ( گھی لگی)
روٹیوں کے ساتھ مزے لے لے کر کھاتیں نمکین لسی تو کبھی گھڑے کے ٹھنڈے ٹھار پانی میں گھلا لال شربت کھانے کا مزہ دوبالہ کردیتا تھا
اس نے پکا سوچ لیا کہ گھر جاکر بلونت کو پیغام بھجوائے گی
اور کل ہی وہ لوگ یہ شاہی دعوت اڑائیں گی
پیٹ میں کسی چوہے نے بھنگڑ ڈالا تو دوبارہ للچائی نظروں سے آم کے درخت کی طرف دیکھنے لگی جس نے اس بار کافی سے زیادہ" بور " اٹھایا تھا اور جسکی کھٹی میٹھی خوشبو اسے اپنے حواسوں پر چھاتی محسوس ہورہی تھی۔۔
شاید اپنے ساتھی کا اکیلے بھنگڑا ڈالنا باقیوں سے برداشت نا ہوا
یا
شاید آنکھوں کے سامنے نظر آتے آم کے لدے پھندے درخت کی کرامات تھیں اسکے پیٹ میں سب چوہوں نے مل کر بھنگڑا ڈالنا شروع کردیا۔
پھر
وہ جو تھی سب سے عقلمند شیر حیدر کی مہراں؟؟ ۔
اس نے اپنی عقل سے بڑی ہی بے عقلی کا منصوبہ بنا یا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی
سچ کہتے ہیں دنیا کی سب سے ظالم چیز بھوک ہے یہی سب سے بڑی حقیقت ہے
بھوک انسان کو اچھے برے کی تمیز بھلائے بلکہ سب کچھ ( شیر حیدر،) بھلائے
کچھ بھی کرنے پر مجبور کردیتی ہے
یہاں تک کہ پہلو ِ یار میں گزرے حسین لمحوں کی دل دھڑکاتی یادوں سے سجے خیالوں کو بھلا کر کچی کیریاں چوری کرنے پر مجبور کردیتی ہے ۔۔
( آم یا کسی بھی پھل دار درخت کا پھل جب بلکل ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے تو اسے. بور. کہتے ہیں ) ۔
---------------------
چاند کب سے اپنے گھر جاچکا تھا لیکن وہ ایک ہاتھ سینے پر باندھے اور اسی ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو پکڑے کھڑکی سے ٹیک لگائے چاند کی چھوڑی جانے والی جگہ کو تک رہا تھا۔
جیسے ابھی تک وہاں چاند موجود ہو؟
ٹھیک اسی طرح جیسے وہ پیچھلے دس سال سے مہراں کے ناہونے پر بھی اسکے ہونے پر یقین رکھتا تھا
اس نے مہراں کی جگہ کسی کو نہیں دی تھی
سٹڈی کا دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ سیدھا ہوا تھا۔
ارے حیدر آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں ؟؟
سعدیہ شاید نیند سے جاگی تھی
وہ کافی سنبھل چکا تھا ۔
آں ہاں بس کام ختم ہوچکا ہے سونے جارہا تھا
کیا ٹائم ہوا ہے؟
تم سوئی نہیں؟
حالانکہ اسکے چہرے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ ابھی نیند سے اٹھی ہے ۔
ہاں جی بس پیاس کی وجہ سے آنکھ کھلی تھی
چلیں اب بہت ہوگیا تھوڑا آرام کر لیں پھر نماز کے لیے بھی اٹھنا ہے
سعدیہ جمائی لیتی آگے بڑھی کھڑکی کے پردے برابر کیے اور واپس جانے لگی۔
تم بہت اچھی ہو سعدیہ
وہ دروازے تک پہنچی تھی جب اسنے شیر حیدر کی جذبوں سے لبریز آواز سنی تھی۔
سعدیہ خوشگوار مسکراہٹ لیے پلٹی تھی جناب تو کیا آپکو آج پتا چلا کہ میں اچھی ہوں
لیکن میں تو پہلے دن سے ہی اچھی ہوں۔
سعدیہ کا لہجہ نا چاہتے ہوئے بھی چھبتا سا تھا۔
ہاں شاید مجھے ہی یہ تسلیم کرنے میں کچھ زیادہ دیر لگ گئی کہ تم سب سے اچھی ہو
شیر حیدر کے ہارے ہوئے جواب نے اسکو چونکا دیا تھا۔
کیوںکہ پہلے جب بھی انکی اس ٹاپک پر بات ہوتی تھی وہ خاموش ہوجایا کرتا تھا سعدیہ کے بار بار چاہنے کے باوجود بھی اسکی یہ خاموشی دنوں پر محیط ہوتی اور جبھی ٹوٹتی جب وہ اپنی جبلت سے مجبور فطری ضروت کے تحت اس تک آتا تھا۔
چوہدری شیر حیدر صاحب
خیر تو ہے
آج ہی سارے انکشافات کرکے آپکا مجھے مارنے کا ارادہ تو نہیں ہے میں بتا رہی ہوں ابھی میرا مرنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ
سعدیہ نے اسکی سنجیدگی سے کی گئی بات کو مزاق کا رنگ دینا چاہا تھا۔
اسکی بات آدھی تھی جب شیر حیدر آگے بڑھا اور اسے ساتھ لگا لیا۔
شیر کے سینے سے لگے دس سالوں میں پہلی بار سعدیہ نے اسکی دھڑکن سنی تھی یا شاید شیر حیدر نے اسے اپنی دھڑکن سننے کاموقع دیا تھا۔
وہ ان لمحوں میں جینا چاہتی تھی اسے محسوس ہوا تھا کہ شیر حیدر کا دل تو بس اسکے لیے ہی دھڑک رہا ہے اسکے رات میں کہے گئے الفاظ اسکے کانوں میں گونجنے لگے تو خود سپردگی کی خواہش آپ ہی آپ سعدیہ کے رگ وپے میں سر اٹھانے لگی جبھی اسنے بھی شیر حیدر کے گرد بازو کا گھیرا بنانا چاہا تھا۔
اس نے اپنے بازو واا کیے تھے جب اسے احساس ہوا شیر حیدر کا جسم ہولے ہولے لرز رہا ہے وہ ایک جھٹکے سے سیدھی ہوئی شیر حیدر کے چہرے پر نظر پڑتے اسکا دل حلق تک آیا تھا ۔
آنکھیں سرخ انگارہ ہورہی تھیں ۔
حیدر یہ کیا حیدر سعدیہ نے فوراً سے اسکا چہرہ ہاتھ میں لیا تو اسے یوں لگا جیسے اسکا ہاتھ تپتے ہوئے ہیٹر سے لگا ہو تبھی اسکا دھیان اسکے کپڑوں پر گیا تھا
اللہ اللہ حیدر آپ نے رات کو گیلے کپڑے نہیں بدلے تھے اور پھر کھڑکی میں کھڑے رہے؟
زبان سے کہتے اس نے دل میں سوچا تھا
( یعنی آج رات پھر اسکی یاد نے آپکو اپنا آپ فراموش کردیا))
وہ چپ چاپ اسے دیکھے جارہا تھا
حیدر خدا کے لیے بتائیں کیا ہوا ہے
( لیکن اسکا ذکر مت کیجے گا)
چلیں ادھر آئیں وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر سٹڈی سے بیڈ روم میں آئی پھر اسے بیڈ پر بٹھایا
الماری سے کپڑے نکال کر باتھ روم میں ہینگ کیے
آپ جلدی سے کپڑےبدل لیں میں گرم دودھ اور میڈیسن لے کر آتی ہوں ۔
وہ کچن جانے کے لیے پلٹی تھی لیکن شیر حیدر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر واپس اپنے پاس کھینچا
وہ چپ چاپ اسکے پاس بیٹھ کر بولی طبعیت زیادہ خراب ہے تو ڈاکٹر کو فون کروں؟؟؟
میں تھک چکا ہوں
حیدر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا
سعدیہ نے سب سمجھتے ہوئے نا سمجھی سے اسے دیکھا ؟؟؟
میں بہت چلا ہوں
بہت ڈھونڈو ہے اسے
میں تھک گیا
لیکن وہ نہیں ملی ۔
میں ٹوٹ چکا ہوں مجھے سنبھال لو پلیز
اتنے کہتے اسکے آنسو نکلے تھے پھر وہ زارو قطار رونے لگا۔
میں بھاگتا بھاگتا ٹوٹ چکا ہوں
اس نے روتے ہوئے سعدیہ کی گود میں سر رکھ لیا تھا۔
وہ مر گئی تھی
وہ تو تب ہی جل کر مر گئی تھی مجھے فون آیا تھا اسے ظالموں نے جلا دیا تھا ۔
وہ بچوں کی طرح ہچکیاں لینے لگا تھا
وہ جو میری مہراں تھی نا ؟
سعدی
میری مہراں نے اپنی عزت بچانے کے لیے خود کو قربان کردیا تھا ۔۔
وہ آگ میں کود گئی تھی۔
سعدیہ کے دل میں نا چاہتے ہوئے بھی ہمدردی کے بجائے کمینی سی خوشی عجیب سے سکون نے احاطہ کیا تھا۔
پھر اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے بہت دکھی لہجے میں بولی
بس حیدر پلیز بس کریں
جو اللہ کو منظور تھا
ہمیں اسکے لیے دعا کرنی چاہئے
لیکن دیکھیں نا اللہ نے پھر بھی آپکو سب کچھ دیا ہمارے بچے گھر بار
وہ بات مکمل کررہی تھی جب شیر حیدر نے روتے ہوئے کہا تھا۔
""میری زندگی پرسکون اور اچھی گزر سکتی تھی ""
سعدیہ کا ہاتھ ساکت ہوکر اسکے سر سے ڈھکا تھا۔
تو کیا میری دس سالہ رفاقت نے ایک پل کا بھی سکون نہیں دیا آپکو؟؟
اس نے بہت دکھے دل کے ساتھ سوچا تھا
میں دودھ لے کر آتی ہوں پھر چاہ کر بھی نا اسے دلاسہ دے پائی نا وہان رک پائی تھی
اس رات کی صبح بلکل الگ تھی کیونکہ دس سالوں میں پہلی بار سعدیہ سب کے ہوتے ہوئے بھی چپ چاپ خاموش تھی جبکہ شیر حیدر اپنی عادت کے برخلاف بچوں کے ساتھ ہنس کھیل رہا تھا ۔
اماں نسائی نے آکر اسکے آگے لال مرچ اور نمک والا پراٹھا لا کر رکھا تو وہ چونکا تھا ۔
عرصہ ہی ہوا اس نے کھانے پینے میں کسی شوق یا پسند کا اظہار کرنا چھوڑ دیا تھا سعدیہ جو بھی بناتی وہ چپ کرکے کھا لیتا تھا
وہ تو بھول ہی گیا تھا کہ اسکو لال مرچ نمک والا پراٹھا انتہا کی حد تک پسند تھا ۔
ہاہ ہائے لوگ جاتے جاتے ہماری پسند ناپسند حتیٰ کے منہ کا ذائقہ تک لے جاتے ہیں ۔۔
پھر تمام سوچوں سے سر جھٹک دیا جیسا اس نے رات کو اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ماضی بھلا کر اب حال میں جینا ہے
اس نے پراٹھے کا لقمہ توڑ کر منہ میں ڈالا ہی تھا۔
کہ
----------------------
دن ڈھل رہا تھا تقریباً سب لوگ ہی کھانے سے فراغت پا کر اپنے اپنے کھیتوں کھلیانوں میں مصروف ہوچکے تھے
جبھی اسکی طرف توجہ دینے والا کوئی نہیں تھا
(یہ اسکا وہم تھا )
وہ دبے قدموں کھال کے اس پار گئی اور درخت پر پتھر مارنے لگی
بہت کوشش کے بعد وہ کامیاب نا ہوئی تو افسردہ سی ہوکر پلٹی ہی تھی جب اسنے سامنے دو کیریاں گری ہوئی دیکھیں یہ کس نے توڑیں وقت ضائع کرنے کی بجائے انہیں لیے واپس بکائن کے نیچے آکر بیٹھ گئی کھال کے بہتے پانی میں پاؤں لٹکا کر گھڑی کھولی نمک نکالا اور مزے سے کھانے لگی۔
کیریاں کھاتے وہ پانی میں پاؤں چلاتی جارہی تھی پانی اور پائل کی ملی جلی سی آواز آس پاس کے سارے ماحول پر چھانے لگی تھی ۔
لیکن شاید سننے والا کوئی نہیں تھا
لیکن شاید کوئی تھا؟؟؟
سننے کے لیے اسکے پاؤں میں پہنی پائل کی دھیمے سروں میں بجتی چھنچھناہٹ جس کی ہر چھن چھن میں کسی شخص کا نام تھا وہ جو اتنا شریف اور حیا دار تھا کہ ہمیشہ لہجہ دھیما اور نظریں جھکائے رکھتا تھا۔
وہ جو اتنا آوارہ اور بدمعاش تھا کہ جب جی چاہتا سارے امرتسر کے کھیتوں سے گنے اکھٹے کرکے انکی مٹھاس کو دھیمے لہجے میں سمو لیتا اور پھر جب پاس آکر جھکتے ہوئے اسی میٹھے گڑ جیسے لہجے میں کوئی بات کرتا تو یوں محسوس ہوتا کہ سارے کے سارے دیسی بدیسی پھولوں کی خوشبو اس نے اپنی سانسوں، میں بسا لی ہو
جو اتنا گھنا میسنا تھا کہ نیوی نیوی آنکھوں سے برسات راتوں اور بہار دنوں کا پیام دیتا تھا
دل موہ لیتا تھا ایسے کے بندہ جان سے جانے لگتا تھا۔
تو پھر آپکو کیا لگتا ہے وہ شریف بدمعاش وہ نیوی آنکھوں والا گھنا میسنا وہیں ڈیرے پر بیٹھا رہا ہوگا
اور مہراں کے پاوں میں بجتی اسکے نام چہنچناہٹ نے اپنے پیچھے آنے پر مجبور نہیں کیا ہوگا؟؟
تو پھر آپ لوگ بلکل غلط سمجھتے ہیں.
وہ گھنا میسنا شیر چوہدری
اسی پل پائل کے ساتھ بندھے دل کی دھڑکن کو رواں رکھنے کے لیے پیچھے پیچھے چلا آیا تھا
اور تو اور مہراں کی کیریاں بھی اسکے پتھر نے توڑی تھیں جبکہ وہ عقل مند اسے اپنا کارنامہ سمجھ رہی تھی ۔
اب بکائن کے موٹے تنے کی دوسری طرف مہراں کی پیٹھ سے پیٹھ ملائے بیٹھا اپنے نام کی صدائیں سن رہا تھا
جو مہراں کی بجتی ہوئی پائل سے آرہی تھیں
پھر وہ بیٹھے بیٹھے ہی پلٹا تھا اور منہ کو مہراں کے کانوں کے نزدیک کر کے بولا تھا
""چُوڑیوں کی کھنک برطرف جاناں
اب ہم مرتے ہیں تیری پائل کی جھنکار پر""
-----------------