شیر حیدر نے اس رات کے بعد گھر والوں کو گرین سگنل دے دیا تھا جس کے بعد فوراً ہی جمعہ کی مبارک دن انکا نکاح رکھ دیا گیا۔
رخصتی بیساکھی ( فصلوں کی کٹائی) کے بعد طے پائی جس میں پانچ ماہ باقی تھے۔
پورے گاؤں میں منادی کروادی گئی
گاؤں کی جس جس لڑکی نے بھی سنا اس نے مہراں کے نصیبوں پر رشک کیا حسد کیا تو کوئی خوش ہوئی تھی
سوائے بلونت کور کے جو یہ خبر سنتے ہی زخمی ناگن کی طرح بل کھانے لگی تھی ۔۔
لیکن چپ رہی اسے بہت حکمت عملی سے شیر حیدر چوہدری کے دل تک پہنچنا تھا کیونکہ جانتی تھی شیر مردوں کی غیرت مند قبیلے سے ہے جن کے لیے خوبصورت چہرہ نرم و نازک جسم اور ریشم میں لپٹے ہیجان انگیز جذبات کوئی معانی نہیں رکھتے تھے ۔۔
انہی سوچوں کے تانے بانے بنتی وہ مہراں لے گھر پہنچی تھی ۔۔
ہائے او ربا
نی مہراں توں نے مجھے بتایا بھی نہیں آپو آپ سب طے کرلیا؟
نی کہاں گئے تیرے بہن بہن کہنے والے دعوے؟
وہ اکڑو چوہدری کتنا گھنہ نکلا
ہائے مجھے پتا بھی نا چلا میری بہن پر ڈورے ڈالتا رہا
بلونت نے مہراں پر نظر پڑتے ہی مصنوعی ناراضگی بھرے شوخ لہجے ۔میں شکوے شروع کردیے
مہراں جو گزرے دو تین دن سے کبیر کے بے دھڑک بھابھی جی کہنے تو کبھی شیر حیدر کی ہمہ وقت جھکی رہنے والی نظروں کو اب مستقل خود پے نثار ہوتے دیکھتی تو ساری حویلی مین گلنار ہوئی پھرتی۔۔
بلونت کو دیکھ اسکا تھوڑا حوصلہ بڑھا تو اسکی آخری بات پر پھر سے چھوئی موئی ہوگئی تھی۔
بلونت اسکا ہاتھ تھام کر پیچھلے صحن میں جھولے کے پاس لے آئی تھی۔
نی مہراں توں بڑی میسنی نکلی ہیں
پنڈ کا سب سے سوہنا گھبرو جوان لے اڑی
سچی سچی بتا کیا گھول کر پلایا اسے؟
ششششش چپ اماں سن لیں گی یہ کیا بک بک کیے جارہی ہے؟
مہراں نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کرڈپٹا مبادہ پہلے کی طرح کوئی باڑے مین چھپ کر بیٹھا سن نا رہا ہو
نی کیوں چپ کروں میں تو بولوں گی ٹھوک بجا کر بولوں گی ۔
بلونت مزاق مزاق میں دل کی بھڑاس نکال رہی تھی
قسم رب کی بلونتے مجھے تو خود نہیں پتا یہ سب کیسے ہوگیا مہراں شب برات والی رات سے لے کر اب تک ساری بات بتاتی چلی گئی جبکہ بلونت کا چہرہ نفرت سے سیاہ پڑنے لگا تھا۔
وہ بھا.اا
چٹاخ
بلونت کا ہاتھ گھوما تھا جو مہراں کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا۔
مہراں منہ پر ہاتھ رکھے پھٹی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی
بلونت نے اندر کی جلن نکالنے کے بعد کمال اداکاری سے تاثرات بدلے اور مسکراتے ہوئے بولی تھی
ہی ہی ہی ہی
مرجانیے
اب تو بھاءء نا بول
اب تو وہ تیرا ہونے والا خصم ہے
وہ کیا کہتے ہیں تمہارے دھرم میں؟؟؟؟
ہیں
ہاں یاد آیا
وہ تیرے سر کا سائیں بننے والا ہے
ہا ہائے
نی مہراں پنڈ کی ایک سے ایک سوہنی کڑی اس شیر کی نیوی آنکھ کے ہلکے سے اشارے کی مار تھی ادھر وہ اشارہ کرتا ادھر کڑیاں اپنا سب کچھ اسکے نام لگا دیتیں.۔۔
لیکن اسکی جھکی نظر اٹھی بھی تو تجھ پر ؟؟ آخر کیا انوکھا ہے تجھ میں
اگر گاؤں کی لڑکیوں کو رنگ روپ کے حساب سے لائن میں کھڑا کیا جائے تو تیرا لمبر آخر والوں میں ہوگا۔
بلونت کے لہجے میں پھر سے جلن حسد کی بو آنے لگی تھی ۔
اس نے بات کے اختتام پر مہراں کی طرف دیکھا جو ابھی تک اسے ہی تک رہی تھی جبھی بات بدل کر بولی
لیکن نصیبوں میں سب سے بازی لے گیئں تم؟
اب شیر حیدر چوہدری اپنے دل دماغ جسم سمیت پورا کا پورا تیرا ہوجائے گا؟؟
( جو مین ہونے نہیں دوں گی)
مہراں گال کا درد بھلائے لال پیلی ہونے لگی تھی
نی سوچ مہراں جب وہ تیری بانھ پھڑ ( بازو پکڑ) کر پنڈ کی گلیوں میں سے گزرے گا تومجھ سمیت ساری کڑیاں ٹھنڈی آہیں بھریں گیں
مہراں کے کان دھکنے لگے تھے ۔
تو اسکے دل کی گھر کی مالکن بن جاے گی
نی زرا سوچ جب سیالے ( سردی) کی ککر ( برف) جیسی راتوں کو وہ تیرے
ہاہ ہ ہ ہ ہ
بلونت تو منہ پھٹ اور بے حیا تھی مگر مہراں نے عادت کے مطابق شرم اور حیا کے زیر اثر ہاہ ہ ہ کی تھی ۔
مر جا نی یہ میرے سامنے بڑی شرماں والی بی بی بنتی ہے
یہ ہاااا. ہوو اسکے سامنے کی ہوتی تو بات یہاں تک نا پہنچتی
لیکن میں کہہ رہی ہوں مجھے آئیندہ سے ہر بات بتانی ہے نہیں تو وہ حال کروں گی کہ سارا پنڈ تھو تھو کرے گا ۔
بلونت سے مہراں کے چہرے کے رنگ دیکھنا محال ہوگیا تھا جبھی اسے وارن کرتی چلی گئی
جبکہ مہراں جو شروع سے ہی عقل کی پوری ساری تھی کچھ دیر تو اسکی باتوں میں الجھی رہی ۔
پھر سر جھٹک کر آنیوالی ٹھنڈی سرد برسات راتوں اور اور بہار دنوں کے خیالوں میں کھو گئی تھی۔
--------------------
جمعہ کے مبارک دن انکا نکاح ہوا سارے گاؤن میں مٹھائی بانٹی گئی تھی
تیجا سنگھ نے دوستی کا حق ادا کرتے ہوءے نکاح کے روز سارے گاؤں کو دعوت دی تھی۔
بہت سی خوشیاں منائی گئیں لیکن نکاح کے دوسرے دن کی صبح ریڈیو ہندوستان پر پاکستان بننے کی تحریک کے زوروں پر ہونے کا اعلان ہوا تھا۔
جس نے شیر حیدر اور مہراں کے نکاح کی خوشی کو مانند کردیا تھا۔
سکھ اور ہندو جو چوہدریوں کے قد تک نہیں پہنچتے تھے اور دل ہی دل میں تیجا سنگھ کے چوہدریوں کی طرف جھکاؤ سے حسد کرتے تھے اکھٹے ہونے لگے کچھ دن گزرے تو انکی باقاعدہ مجلسیں ہونے لگیں
سکھوں اور ہندوؤں کے گھر گھر جاکر مسلمانوں اور خاص کر چوہدری خاندان کے خلاف کاروائی کی باتین ہونے لگیں
ایک بار شیر حیدر کی پک چکی فصل میں کسی نے پانی چھوڑ دیا جسے اتفاق سمجھا گیا
لیکن کنوے والے ڈیرے پر لگے پھل دار درختوں کو جب آگ لگی تو چوہدریوں کے ساتھ تیجا سنگھ کے بھی کان کھڑے ہوگئے
(سچ ہے جو لوگ ہمارے قد تک نہین پہنچ پاتے پھر وہ ہمیں ہرانے کے لیے اپنے جیسے حسدوں کی ٹیم بناتے ہیں اوچھے سے اوچھا ہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں
لیکن وہ جانتے نہیں ہم چاہے جتنے بھی چالاک ہوں جیسے بھی ذہین ہوں ہماری ساری چالیں ہم پر الٹ دی جاتی ہیں جب تک کے اوپر سے حکم نا ہو۔)
ان حاسدین کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا کیونکہ دوسرے ہی دن. تیجا سنگھ نے سارے گاؤن کو اکھٹا کرکے وارن کیا کہ اگر آئندہ کے بعد چوہدریوں کا کوئی بھی نقصان ہوا تو ذمہ دار ثابت ہونے والے پورے خاندان کو گاؤں سے بے دخل ہونا پڑے گا۔
مزید اسنے شیر حیدر کو دن کے وقت اور اپنے بیٹے میت کو چبد ساتھیوں کے ساتھ رات کے وقت چوہدریوں کے ڈیرے کی حفاظت پر مامور کردیا گیا۔۔
اسکا کہنا تھا بٹوارہ ہو یا نا ہو ۔
یہ گاؤں یہ وطن عبداللہ چوہدری کا ہے
واہے گرو خیراں رکھے
میرے جیتے جی کوئی ماں کا لعل انہیں بے دخل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
تیجا سنگھ کے اس اعلان اور اقدام کے بعد مخالفوں کے دلوں میں غصے اور حسد کی جگہ نفرت نے لینی شروع کردی ۔
--------------------
سن 1946ء
یہ انکے نکاح تقریباً ایک ماہ بعد کا دن تھا ۔
گاؤں میں ایک شادی پر وہ سب دوستیں اکھٹی ہوئی تھیں وہ
ہ سب اس وقت شادی والے گھر کے برآمدے میں کھڑی تھیں جسکی بیک پر کچن بنا ہوا تھا
نمبرادروں کی لڑکی نے اس سے پوچھا مہراں شیر حیدر چوہدری
تمہارے شیر تمہیں نکاح کا تحفہ کیا دیا؟
ہیںں
کونسا تحفہ نکاح پے کون تھفہ دیتا ہے بھلا؟
نکاح کے بعد مہراں کے رنگ ڈھنگ ہی الگ تھے یہ سب نے محسوس کیا تھا لیکن بلونت کور نے کچھ زیادہ ہی محسوس کیا تھا لیکن ان دو ماہ میں وہ بہت کوشش کے بعد بھی کچھ نہیں کر پائی تھی۔۔۔
جبھی اپنی حاسد فطرت اور چھوٹی سوچ سے مجبور ہو کر بول اٹھی
ارےےےےے
اس نے اپنا آپ پورا کا پوار سونپ دیا ہے
اپنا سارا دن پوری رات اسی کے نام تو کر دیا بے چارے نے
اب تو ہمیں اگلی بیساکھی کا انتظار کرنا چاہئے
بھلا اس سے بڑا بھی کوئی تحفہ ہوتا ہے۔
اس نے سب کو مشترکہ آنکھ مارتے ہوئے بڑے بھدے سے لہجے میں کہا تھا۔
اسکی بات کے جواب میں سب کا مشترکہ
اووووووو بلند ہوا تھا
جبکہ مہراں کو اسکی بات ھد سے زیادہ بری لگی تھی ۔
بلونت ِزبان سنبھال کر بات کیا کر ہر وقت تیری زبان نا موقع دیکھتی ہے نا محل کینچی کی طرح چلنا شروع ہوجاتی ہے۔۔
ہماری روایات ہمارا مذہب تم لوگوں سے کافی مختلف ہے میں تمہاری طرح نہیں ہوں نا ہی میری تربیت اتنے کھلے ماحول میں ہوئی ہے ہمارے ہاں ایسے کام نہیں ہوتے نا ہی ہمارا مذہب اجازت دیتا ہے۔
وہ آج بولنے پر آئی تو اچھا خاصہ بول گئی۔
سب ساکت سی اسکا منہ دیکھنے لگی پھر بلونت کا سکتہ ہی توٹا تھا ۔۔
وااہ وااہ اپنی مہراں کو بھی زبان لگ گئی ہے؟
دیکھوں میں نا کہتی تھی کہ اپنا شیرحیدر اسے
بلونت کور؟؟؟
مہراں ایک دم غصے سے بولی تھی
اسے رکنا پڑا
او ہو نی جھلی ہوئی ہے؟
میں تو مزاق کررہی تھی یار
ویسے بھی کچھ غلط نہیں کہا میں نے تمہارے دھرم میں تو سب سے اہم چیز نکاح ہوتا ہے نا؟؟
ہاں بلکل ہمارے مذہب میں سب سے اہم۔چیز نکاح ہوتا ہے نکاح ہی دو انجان لوگوں کو ایک دوسرے کا محرم بناتا ہے
مہراں اسکی بات بیچ مین ہی ٹوک کر شروع ہوچکی تھی۔
نکاح ہی کی وجہ سے انکا رشتہ انکا ایک دوسرے سے ملنا جلنا حلال قرار دیا جاتا ہے
مگر
وہ سب جو بہت دھیان سے اسے سن رہی تھیں چونکیں
مگر اخلاقیات اور روایات بھی کچھ چیزیں ہوتی ہیں ۔
انہی اخلاقیات پر معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔
ہمیں ہماری تہزیب ہمارا معاشرہ اجازت نہیں دیتا کہ شادی سے پہلے اور نکاح کے بعد ایک ہوسکیں۔۔
اللہ کا شکر ہے ہم مذہب کے تابع ہیں اور ہمیں اپنی روایات کی پاسداری بھی عزیز ہے ۔
اور رہ گئی تحفے کی بات؟
سب کو مسکرا کر دیکھتے اس نے سب سے آخر میں بلونت کور کو دیکھا تھا۔
سہی کہتی ہو تم جب دل جسم روح سمیت شیر حیدر سارا کا سارا میرا ہے تو اسکے بعد مزید کسی تحفے کی گنجائش رہ جاتی ہے بھلا؟؟
وہ اپنی بات مکمل کرکے رکی نہیں تھی ۔۔
اور وہ جو شادی کے کام نبٹا رہا تھا اسے گھر جانے کی جلدی تھی جبھی سب کام نبٹا کر سالن کی بچی ہوئی دیگ کچن میں رکھنے آیا تھا اس چہچہاتی آواز پر رکا تھا۔
پھر دل نے اسے برآمدے کے باہری ستون تک جانے پر مجبور کیا دل کا کہنا مانتے وہ فوراً ستوں کے ساتھ آکر کھڑا ہوگیا
اسکی سماعتوں نے سونے من موہن چھوٹے سے مبلغ کہ تقریر سننے کی سعی کی تھی ۔
وہ چپ چاپ سنتا رہا مہراں کی آخری بات پر جہاں اسکے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے وہیں ہاتھ سینے کی بائیں جانب آکر ٹکا تھا جیسے دل کو قابو کرنا چاہ رہا ہو
ہم جنہیں چاہتے ہیں جب وہ ہماری محبت کا دم بھرنے لگیں چاہے پیٹھ پیچھے ہی سہی ہمیں ہماری محبت سمیت تسلیم کرنے لگیں تو دل یونہی بے قابو ہوتا ہے ۔
اور ایک بار نہیں بار بارہوتا ہے جب کبھی محبوب کا اقرار کانوں مین رس گھولتا ہے تو دل بے قرار ہوتا ہے اسے قابو کرنے کے لیے ہاتھ اکثر بائیں پہلو تک چلا جاتا ہے ۔۔
وہ بھی دل کو صبر کی تھپکی دیتے سہی وقت کا انتظار کرنے کو کہتے باہر نکل آیا تھا
لیکن اب وہ جسے گھر جانے کی جلدی تھی؟؟
اب کہ اسکا رخ گھر کی بجائے بازار کی جانب تھا
بھلا کیوں؟؟
ارے بھئی بے شک وہ تن من دھن سے اپنی ہونے والی بلکہ نہیں ہوچکی بیوی کا تھا ۔
مگر اسے نکاح کا تحفہ بھی تو دینا تھا کہ نہیں
تاکہ اگلی بار دوستوں میں سبکی نا ہو؟؟
سچ کہتی ہے بلونت کور
یہ شیر چوہدری بڑا گھنا میسنا ہے
ہےکہ نہیں؟؟؟
( گاؤں میں سب کی خوشی غمی سانجھی ہوتی ہے خاص کر کسی فوتگی یا کسی کی بیٹی کی شادی پر سارے گاؤن کے لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں
اس بات سے قطع نظر کے وہ وڈیرہ ہے یا گاون کا چوہدری)
------------------------
دو دن پہلے دوستوں سے ہوئی تکرار اسکے ذہن میں گونج رہی تھی ۔
انہین تع جواب دے دیا تھا لیکن دل تھا کہ عجیب سے ابہام کا شکار تھا۔
یہی سب سوچتے آ ج اس نے شیر حیدر کو کھیتوں پر کھانا خود دینے جانے کا سوچا تھا۔
لیکن مسلہ یہ تھا کہ وہ اماں کو یا بڑی ماں کو کیسے کہے کہ وہ شیر کو کھانا دینے جانا چاہتی تھی..
ہھر جب وہ دوپہر کے قریب سرسوں کے ساگ کو مکھن کا تڑکا لگاکر ساتھ تنور کی تازہ مکھن لگی روٹیاں باندھ رہی تھی کچھ یاد آنے پر فوراً سے سٹور مین گئی واپسی پر اسکے ہاتھ ہری مرچوں کے اچار کی کٹوری تھی
روٹیوں کے بیچ کٹوری باندھ کر کبیر کو آواز دینے لگی تو پتا چلا گھر میں سوائے بڑی ماں کے کوئی نہیں ہے
صغراں بخار سے پڑی ہے تو کبیر اسکی اماں کے ساتھ بازار گیا ہے۔۔
مہراں میری دھی توں آپے دے آ آ جاکر کھانا میرا بچہ بھوکا ہوگا
اسکے دل کی مراد بر آئی تھی
فوراً سے روٹی اور ساگ سر پر ٹکایا اور ٹھنڈی لسی کی گاگر پہلو پر ٹکائے گھر سے نکل گئی؟؟
----------------
صبح سے اسکی نظر گھر سے آنیوالے راستے کی پگڈنڈی پر ٹکی تھی ۔
ایک بے ضرر سی بے چینی بے کلی نے اس سمیت سارے ڈیرے کا احاطہ کیا ہوا تھا ۔
آج کے سارے کام بھی ادھورے پڑے تھے
جب بھی کام کرنے بیٹھتا نظر بھٹک کر راستے پر جاٹکتی تھی ۔
اس یاد آیا کہ کن جتنوں سے اس نے ابا جی کو چاچا تیجا سنگھ کے ڈیرے پر بھیجا تھا جھوٹ بول کر کہ چاچا اکثر آپکا پوچھتے ہیں
پھر دوسرے مرحلے پر کبیر جو اپنے سکول کی وردی اور دوسری چیزوں کے لیے کافی دن سے اسکے پیچھے پڑا تھا۔
اسے کافی سے بھاری رشوت دے کر اس بات پر راضی کیا تھا کہ وہ چھوٹی ماں کو ضد کرکے ساتھ لے جائے۔
اپنی طرف سے اس نے تمام کاروائی کرتے سارے راستے صاف کرتے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ کھانا مہراں لے کر آئے ۔
(شیر چوہدری گھنا میسنا. )
اس سے پہلے کہ انتظار شدت اختیار کرتے انتظار کی حدوں کو توڑتا اسے دور سے مہراں کہ جھلک نظر آئی تھی۔
دل کو یک گونا سکون آیا تھا
دوپہر گرم تھی لیکن اسکے بجائے پیپل کے گھنے درخت اور اطراف میں پھیلی گندم کی فصل جسے ایک دو دن پہلے ہی پانی لگا تھا ڈیرے پر کافی سکون کیے ہوئے تھے
جو کثر رہتی تھی وہ شیر حیدر نے کنوے سے پانی نکال کر سب جگہ چھڑکاو کرکے پوری کردی تھی۔
تاکہ مہراں جب گرمی سے آئے تو اسے ٹھنڈک کا احساس ہو
وہ اسے تب تک دیکھتا رہا جب تک کہ اس سے کچھ فرلانگ دور نہیں ہوگئی تھی۔
سر پر کھانے کی گھٹڑی ٹکائے ایک ہاتھ سے ڈوپٹہ سنبھالتے دوسرے ہاتھ سے پہلو پر گاگر ٹکائےوہ بہت سہج سہج کر چل رہی تھی دھیان نہین دے پائی کہ دور پیپل کے پیڑ تلے کھڑے کسی کا دل اسکے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ لپٹتا جاتا تھا۔
جب وہ ڈیرے پر پہنچی تو شیر حیدر کو آرام سکون سے چارپائی پر سوئے ہوئے پایا۔
اس نے کھانا اتار کر رکھا اپنی سانس بحال کی پھر گاگر سے لسی کا کٹورہ بھر کر خود پیا؟
وہ اسکی ساری کاروائی ایک آنکھ وا کر کے دیکھتے دل ہی دل میں لوٹ پوٹ ہورہا تھا
جب مہراں بی بی کو لسی کے دو ڈونگے پینے کے بعد کچھ سکون آیا تو خیال سوئے ہوئے بندے کی طرف گیا
اپنے آپ سے ہی کچھ بدبدائی پھر آواز کو اونچا کرتے ہوئے بولی
سنیں
شیر جی
خدا راہ بات سنیں
اسکے آس پاس کوئی کوئل سی کوکی تھی
وہ جو جان بوجھ کر سونے کا ڈرامہ کررہا تھا اس پکار پر چاہ کر بھی ڈرامے کو طول نا دے سکا۔
کیونکہ اس پکار میں اتنی مٹھاس تھی کہ اسے لگا اگر ایک بار پھر اس میٹھی بولی والی نے
""شیر جی
سنیں """
کہا تو اسے پکا ذیابیطس کا مرض لاحق ہوجانا ہے اور بھری جوانی میں وہ مریض بنتا اچھا لگتا
بھلا؟؟
شیر جی
جی مہراں جی
اسنے فوراً سے اٹھ کر کہا تھا۔
وہ جو اسکا کندھا ہلانے کے لیے جھکی تھی ہڑبڑا کر پیچھے ہوئی اور توازن کھو بیٹھی
اس سے پہلے کے وہ نیچے گرتی شیر نے اسکی بازو تھام لی تھی۔
آہ ہ ہ
مہراں کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی شاید بازو اب تک درد کرتی تھی ۔
شیر حیدر نے اسکو سہارا دیتے کھڑا کیا پھر بازو کو دیکھا جہاں ہلکے ہلکے نشان تھے۔
اور کہر آلود نظر اس پر ڈالی ۔
ایک ماہ سے اوپر ہوگیا ہے یہ زخم اب تک ٹھیک کیوں نہیں ہوئے۔
جو دوا لاکر دی تھی لگائی یا نہیں ؟
شیر حیدر نے اسے ایک ماہ پہلے گزری رات کا حوالہ دے کر پوچھا تھا۔
مہراں کی آنکھیں اس رات کے حوالے پر جھک گئی تھیں تو رخسار دہکنے لگے تھے۔
بولو
شیر کا لہجہ سنجیدہ تھا۔
وہ
وہ دوا لگائی تھی پھر گم گئی
گرمی کا موسم ہے سارا دن اماں اور بڑی اماں سے چھپانے کے لیے آستین نیچے کیے رکھتی ہوں اسی وجہ سے شاید؟
مجھے لگتا تھا بے وقوف دنیا سے ختم ہوچکے ہیں
لیکن تمہیں دیکھ کر لگتا ہے ابھی نہیں۔۔
شیر حیدر نے اسے تپانے کی غرض سے کہا تھا۔
اور وہ تپ ہی تو گئی تھی۔
آپ لوگوں سے زیادہ عقلمند ہوں میں؟؟
اچھاااا
پھر زرا ہمیں بھی تو پتا چلے کے مہراں شیر حیدر علی کیسے ہم سے زیادہ عقل مند ہے
مہراں کی کلائی اب تک اسکے ہاتھ میں تھی وہ دھیان نہیں پائی کہ بات کو طول دیتے شخص کی آنکھوں کا سنجیدہ رنگ مکمل شرارت میں بدل چکا تھا۔
اس طرح عقل مند ہوں کہ سب گھر والوں سے یہ زخمی بازو چھپائے پھرتی ہوں جو اگر کسی نے پوچھ لیا کہ اس رات ؟
ایک پل کو وہ رکی مقابل کی طرف دیکھا جسکی آنکھوں میں شوق کا اک نیا جہاں آباد تھا۔
ک کیا ہوا تھا کہ بازو
اٹک اٹک کر بھی بات پوری نہیں کر پائی تھی جبھی نظریں جھکا کر چپ ہو گئی؟؟
بولو بھئی
شیر کا لہجہ ہر بار ایک نیا رنگ لیے ہوتا تھا اب بھی مہراں کو لگا کہ اسکے لہجے میں تھوڑی دیر پہلے پی جانے والی لسی سے زیادہ مٹھاس ہے جو اسکے دل میں سکون بن کر اتر رہی تھی۔
بولو بھی
سب سے عقلمند مہراں ؟
کس رات کا کہہ رہی ہو
اور کیا ہوا تھا بھلا ہمیں بھی پتا چلے
یہ کہتے ہی شیر حیدر نے اپنے دائیں ہاتھ کی پشت کو اونچا کرکے دیکھا تھا جس پر سیاہ دھبہ تھا۔
اسکا ہاتھ دیکھتے اور معنی خیز جملوں کا مطلب سمجھتے وہ شرم سے مرنے والی ہوگئی تھی۔
پھر اس سے پہلے کہ وہ مر ہی جاتی ۔
میٹھی لسی سے زیادہ میٹھے لہجے والے نے اسکے کانوں کے پاس تھوڑ ے فاصلے سے جھکتے ہوئے کہا تھا۔
کوئی پوچھ لے تو بتا دینا
اس رات شیر حیدر نے پکڑی تھی میری بازو پھر اس نے اِس گستاخی پر خود کو سزا بھی تھی ۔
اور پھر رب نے رحمت کی خود کو دی گئ سزا پر کسی نے مجھے بنا مانگے منہ مانگا انعام
ہاہ اااااااااا
اسکی بات مکمل۔نہیں ہوئی تھی کہ مہراں کی ہاہ ہ نے ماحول پر چھایا سارا فسوں توڑ دیا ۔۔
وہ تپ کر چارپائی پر بیٹھ گیا اور کھانا کھولنے لگا
شہزادی
تمہاری یہ ہاہ اااااا نے کسی دن مجھ سے بہت برا کروانا ہے اس بات کو پلے باندھ لو
وہ تپے تپے لہجے میں کھانا کھانے لگا تھا
مہراں ہنسی دباتی چارپائی کی دوسری طرف بیٹھ کر اسے ڈوپٹے سے ہوا دینے لگی۔
کھانا کھا کر شیر اسے گہری نظروں سے دیکھتے برتن سمیٹنے لگا
وہ اسے ڈوپٹے سے ہوا دیتے کسی اور ہی جہان میں کھوئی ہوئی تھی جب شیر حیدر نے پکارا
مہراں؟
ہاں جی ہاں
وہ چونک کر سوچوں سے نکلی تھی
میں نے کہا
شہزادی کن سوچوں میں گم ہے؟
مہراں نے کوئی جواب نہیں دیا برتن اٹھا کر کھڑی ہوگئی
وہ جانے کے لیے پلٹی تھی جب شیر حیدر کی آوازاسکے کانوں سے ٹکرائی
کیوں بھئی سب سے عقلمند مہراں
اپنے نکاح کا تحفہ نہیں لینا کیا؟
وہ ایک دم سے رکی پلٹی جس کام کے لیے وہ یہاں آئی تھی اور سوچے جارہی تھی کہ بات کیسے شروع کرے شیر حیدر نے وہی بات کی تھی۔
انہیں کیسے پتا چلا کہ میں
ابا جی کہتے ہیں
سوچی پیا تے بندہ گیا
اب تم سوچوں میں چلی گئی تو تمہاری دوستوں کو یہ نکاح کا تحفہ کون دکھائے گا وہ جیب سے چاندی کی پائل نکال چکا تھا۔
ہاہ ااااا اسکی بات پر مہراں نے صرف دل میں ہاں کی تھی کیونکہ کچھ دیر پہلے والی وارننگ اسے یاد تھی
اللہ جی
بلونت سہی کہتی ہے
(کتنے گھنے میسنے ہیں یہ)
لگتا ہے آج کا دن تم نے سوچوں کی نظر کرنا ہے مگر مہراں بی بی مجھے بہت کام ہیں ابھی
یہ کہہ کر وہ ایک گھٹنے کے بل نیچے بیٹھ گیا۔
پھر اسکا پیر اٹھا کر اپنے گھٹنے پر رکھا اور پائل پہنانے لگا
مہراں یہ سب خواب سمجھ رہی تھی پھر جب وہ دوسرے پاؤں میں پائل پہنا کر کھڑا ہوا تو بولا
اب اگر کوئی تحفے کا پوچھے تو کہہ دینا
شیر حیدر نے اپنا دل تمہیں تحفے میں دیا ہے بلکہ تمہارے پیروں میں باندھ دیا ہے۔۔۔
ہاہ اااااااا
اس نے ساری وارننگز کو بھلا کر عادت کے مطابق ہاہ کی تھی
اور وہ جو بات مکمل کر کے پھر سے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ تلاش کررہا تھا اس نے ہنستے ہوئے کانچ کی چوڑیاں برآمد کیں اور اسکی کلائی پکڑ کر پہنانے لگا
میں نے محسوس کیا تھا اس رات کے بعد تم نے ہاتھوں میں چوڑیاں نہیں پہنی تو مجھے لگا
کہ کیا پتا
مہراں نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا شیر حیدر کی سرخ آنکھیں اسی پر جمی ہوئی تھیں
شہزادی مہراں
چاہتی ہو میں یعنی کہ میں جس نے تمہاری چوڑیاں توڑی تھیں
وہ چوڑیاں تقریباً پہنا چکا تھا
وہی یعنی کہ میں خود تمہیں اپنے ہاتھوں سے پہناؤں۔۔
مہراں کا پہلے سے کھلا منہ مزید کھل گیا تھا
ہاہ اااا اللہ
(گھنا میسنا شیر چوہدری)
منہ میں بڑابڑاتے اس نے کلائی چھڑانی چاہی تھی
اور تمہیں کہا تھا کہ تمہاری یہ ہاہ ااا مجھ سے کچھ برا کروائے گی
تو میں نے سوچا ہے وہ برا ابھی ہی کیوں نا ہو جائے
مہراں جو منہ بند کرنے لگی تھی بے اختیار پھر سے کھول بیٹھی پھر فوراً سے ایک جھٹکے میں کلائی چھڑاوتے برتن لیے بغیر واپس بھاگی تھی
پیچھے ایک جاندار خوبصورت سا مردانہ قہقہہ چوہدریوں کے ڈیرے کے اطراف میں گونجا تھا ۔۔
وہ بھی کھیتوں کے بیچ و بیچ بنی پگڈنڈی پر بھاگتے ہوئے مسکرا دی تھی۔۔
دن ڈھلنے لگا تو ہوا چلنے لگی تھی جاکی وجہ سے گندم کے پودے لہلہا رہے تھے
جیسے
جیسے اسکے پیا نام کی پائل کی چھن چھن سارے انہیں جھومنے پر مجبور کررہی ہو
حویلی کی طرف مڑتے ہوئے اسے رکنا پڑا تھا
---------------------
شیر حیدر حیرت سے پھٹی آنکھوں اور سفید ہوتے چہرے کے ساتھ اس لڑکی کے پائل والا زخمی پاؤں کو دیکھ رہا تھا ۔
اسکی حیرت کی وجہ نا وہ لڑکی تھی نا اسکا زخمی پاؤں
لیکن اسکے کہے گئے جملے اور پاؤں میں پہنی پائل کو دیکھتے شیر حیدر کو کسی کی یاد آئی تھی اور بڑے برے وقت پر آئی تھی ۔
کیونکہ آج ہی تو اس نے اپنے کمبخت دل سے تنگ آکر یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ مہراں کو بھولنے کی کوشش کرے گا اور سعدیہ کے ساتھ خوش رہنا شروع کرے گا۔
لیکن یہ لفظ یہ لہجہ یہ شکوہ اور یہ آواز؟؟
اس سے پہلے کہ وہ کوئی حتمیٰ فیصلہ کرتا یا لڑکی کے پیچھے جاتا
سعدیہ نے اسکے چہرے کے سامنے چٹکی بجائی تھی
حیدر کہاں کھو گئے آپ؟؟
وہ ایک دم چونکا پھر خود پر قابو پاتے ہوئے بولا
ہاں
آں ہاں کچھ نہیں بس سوچ رہا تھا ۔
یہی کہ آج کل کے ٹین ایجرز کا جنون اور شوق؟
سعدیہ نے اس سے پہلے بات مکمل کی پھر ہنسنے لگی ۔
شیر حیدر ہنس نہیں سکا تھا لیکن اثبات میں سر ہلادیا۔
اچھا چلیں گھر چلتے ہیں
سعدیہ دھیمی سی ہنسی کے ساتھ بولتے چلنے لگی
ہاں چلو
اسنے کھوئے سے لہجے میں جواب دیا پھر سعدیہ کے پیچھے چلنے لگا۔
گھر آنے اور چینج کرنے کے بعد سعدیہ نے شیر حیدر سے چائے کا پوچھا مگر اس نے نرمی سے منع کرتے اسے کو سونے کا کہا اور خود کام کا بہانا کرکے سٹڈی میں آگیا۔
وہ کافی دیر سے آرام کرسی پر بیٹھا سوچ میں گم تھا
کون تھی وہ ؟
وہ آواز کیوں اتنی جانی پہچانی تھی؟
وہ لہجہ وہ الفاظ؟
اور وہ پائل؟؟؟؟
لڑکی کی زنگ آلود پائل کو یاد کرتے اسکا دل دس سال بعد پہلی بار دس سال پہلے والے انداز میں دھڑکنے لگا تھا ۔
دل کی غیر ہوتی حالت کے ساتھ وہ گھبرا کر کرسی سے اٹھا تھا۔
ایسے کے ساتھ پڑے ٹیبل سے ہاتھ ٹکرا گیا۔
ٹیبل کی شاید کوئی کیل نکلی کوئی تھی جو اسکے ہاتھ کی پشت پر چبھی تھی ۔
اووو کی آواز کے ساتھ اس نے فوراً سے دائیاں ہاتھ اٹھا کر دیکھا جس کی پشت پر ہلکا کالا تقریباً مٹ چکا داغ سا تھا جیسے ماضی میں کہیں جلا ہو
داغ کو دیکھتے اسکے لب آپ ہی آپ مسکرائے تھے اور پھر کھڑی میں آکر کھڑے ہوتے اور چاند کو تکتے اسکا ذہن دل روح بلکہ وہ پورا کا پورا دس سال پہلے میں کہیں کھوتا چلا گیا۔۔
----------------------
مہراں کے جانے کے بعدکافی دیر وہ ہونٹوں پر بڑی دل لبھاتی مسکراہٹ سجائے آنیوالے ٹھنڈے میٹھے روح کو گرماتے لمحات کے احساسات میں گھِرا کھڑا رہا تھا
پھر جب نیند آنے پر نیچے جانے کے ارادے سے منڈیر کی دیوار کے پاس آیا ۔
تو صحن میں ٹاہلی ( شیشم )کے درخت تلے پڑی چارپائیوں پر کسی کو سوتے ہوئے پایا ایک چارپائی کے ساتھ لالٹین پڑی تھی جسکی روشنی کافی مدھم رکھی گئی تھی۔
چھت سے ہی وہ جان گیا تھا کہ چاچی اور مہراں سوچکے ہیں رات چاندنی تھی لیکن چاند شاید روٹھا روٹھا تھا جبھی اس نے پھر سے دیا اٹھا لیا۔۔
سیڑھیاں اترتے اسے بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اسکی چھوٹی بہن (صغراں )بھی یہیں سوئی ہے کیونکہ سامنے نظر آنیوالی چارپائی پر وہ دونوں اور اس سے پیچھلی پر چاچی سوئی تھیں
شاید رات کو مہراں کے ساتھ عبادت کرنے آئی ہو پھر یہیں سو گئی ہو
اسی سوچ کے تحت دیے کی لاٹ کو کم کرتے نہایت آرام سکون سے اترتے تاکہ کسی کی نیند خراب نا ہو وہ سیڑھیوں کے موڑ پر پہنچا جس سے مڑ کر مزید پانچ سٹیپ پر صحن تھا
لیکن موڑ پر اسے ٹھٹھک کر رکنا پڑا تھا۔
شاید کسی کی نازک سلونی کلائی میں پڑی کانچ کی چوڑیاں الجھی تھیں یا شاید انہوں نے کسی من چاہے شخص کو چونکانے کے لیے باقاعدہ ایک دوسرے سے لڑائی کی تھی۔۔۔۔
شیر حیدر کو اچھی طرح پتا تھا کہ صغراں کو کانچ کی چوڑیوں سے حد درجہ چڑ تھی جبکہ انکی حویلی میں چوڑیوں کی دیوانی ایک ہی تھی جو ہمہ وقت کلائیوں میں ہری نیلی لال پیلی چوڑیاں سجائے رکھتی تھی۔۔
چوڑیوں کی اس دیوانی کا خیال آتے ہی سوچ پھر بھٹکی تو دل نے دھڑکنے کا انداز پھر سے بدلا اور جسم میں خون کی روانی انتہائی حد تک تیز ہوئی تھی ۔.
دل کی بدلتی حالت اور بھٹکتی سوچوں کو سنبھالتے جیسے ہی اس نے نیچے کی طرف قدم بڑھائے چاند بادلوں کی اوٹ چھوڑ کر باہر نکلا اور ٹھیک اسی وقت صغراں کے اس طرف سوئے نفس نے کروٹ لی تھی ۔۔
چادر چہرے سے ہٹی تو کلائی چارپائی سے نیچے ڈھلکی چوہدری حویلی کے کونے کونے تک بجتی چوڑیوں کی جلترنگ پہنچی تھی۔
پھر بھلا اس تک کیسے نا پہنچتی جسکا دل آج اور ابھی ہی ان چوڑیوں کی ردھم پے دھڑکنا شروع ہوا تھا۔۔۔
وہ مبہوت سا ہوا دیکھے جارہا تھا جب چاند نے سب جہاں کو چھوڑ کر چارپائی پے کروٹ لیتی لڑکی کے چہرے کے ساتھ کلائی پر چاندنی بکھیری تھی۔۔
اسے وہاں کھڑے مہراں کے چاند چہرے کو دیکھتے کچھ دیر ہوئی تھی.
لیکن شاید مہراں وراثت علی کو نیند میں بھی اپنا آپ یوں بے خودی سے دیکھے جانا بھایا نہیں تھا ۔
وہ ہلکا سا کسمسائی پھر بازو کو تھوڑا اوپر کیا شیر جو اسکی ہر جنبش پر نظر رکھے ہوئے تھا اچانک سے چونکا اور پلک جھپکنے میں سیڑھیاں اتر کر مہراں کی چارپائی کے پاس پہنچا تھا۔
اس سے پہلے کے مہراں کا ہاتھ چارپائی کے سرہانے پڑی لالٹین سے ٹکرا کر جلتا شیر علی نے رات بھر سے جلتی لالٹین کے آگ کی طرح دھکتے سرے پر اپنا ہاتھ تھوڑا اوپر ٹہرا دیا ایسے کہ ہتھیلی اوپر کی جانب تھی
مہراں کی چوڑیوں بھر ی کلائی اسکی
ہتھیلی پر آن ٹکی تھی۔۔
اسے ہاتھ کی پشت پر ہلکی سے تھوڑی زیادہ تپش محسوس ہورہی تھی
تو ہتھیلی جیسے دھکنے لگی تھی وہ سمجھ نہیں پایا کہ آگ کی آنچ زیادہ ہے یا مہراں کے لمس کی؟؟
اسکے دل میں عجب شور سا برپا ہوا جسم میں چنگاریاں سی بھرنے لگی تھیں۔
نجانے رات کا سحر تھا یا چاندنی کا یا شاید انکے درمیان جڑ چکے محبت کے نئے نویلے رشتے کا جادو تھا؟
شیر حیدر کا ذہن، دل، جسم لہو کو آنچ دیتے اس بے ضرر سے لمس کی تپش سے مغلوب ہوگیا تھا ۔
فطری جذبے کے زیر اثر نفس کی سدا پر لبیک کہتے وہ مہراں کی کلائی چاندنی رات میں دمکتے سلونے چہرے کو چومنے کے لیے جھکا
ہوا اچانک تھمی تو چاند نے بھی شرما کر آنکھیں موند لیں تھیں۔
پھر اس سے پہلے کہ وہ نفس کی نظر میں کوئی پیار بھری بھرپور گستاخی کرتا
محبت سمجھ کر گناہ کرتا ۔۔
شام میں کسی کو سونپے گئے اعتبار کی دھجیاں اڑتا
خوشنما نظر آنیوالے روح پرور جذبات کا مظاہرہ اس بدصورتی سے کرتا ۔۔۔
مہراں کے چہرے کی طرف جھکتے اسکے کانوں میں مسجد کے امام صاحب کی آواز گونجی تھی۔
شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے جو برائی کو آراستہ پیراستہ کرکے دکھاتا ہے
نفس وہ کتا ہے جو تب تک بھونکتا رہتا ہے جب تک کہ انسان سے کوئی گناہ نا کروا لے
پھر جیسے ہی انسان خدا کی متعین کردہ حدود سے تجاوز کرتا ہے
وہ ایک سائیڈ پر چپ ہوکر بیٹھ کر تماشہ دیکھنے لگتا ہے
اچھے لوگوں جو چیز ہمیں حلال طریقے سے ملنے والی ہو اسے حرام راہ سے حاصل کرنے والا بڑا بدبخت ہوتا ہے۔
وہ اچانک سے پیچھے ہوا تھا
افسوس اور ندامت نے اسکے اندر ڈیرے جما لیے تھے
پھر کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر اس نے اپنے نفس کو سزا دینے کے لیے ہاتھ دہکتی لالٹین پر رکھ دیا تھا۔
سسس کی آواز کے ساتھ اسکے منہ سے سسکاری نکلی تو بلکل غیر ارادی طور پر ہتھیلی سمٹی تھی
آنکھیں بند کیے جلن کی شدت کو برداشت کرتے اس نے ہاتھ میں موجود مہراں کی کلائی کو شدت سے دبوچا تھا
کڑیچ کی آواز کے ساتھ بہت سی چوڑیاں ٹوٹ کر مہراں کی کلائی میں پیوست ہوئیں تھیں
مہراں نے کراہتے ہوئے آنکھ کھولی شیر حیدر کو اپنے اتنا قریب آنکھیں بند کیے بیٹھا دیکھ اسکے اوسان خطا ہوگئے ۔
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے یک ٹک کلائی کا درد بھلائے شیر حیدر کی بند آنکھوں کو دیکھنے لگی تھی ۔
صغراں نے دوسری طرف کروٹ لی تو اس نے ہوش میں آتے فوراً سے اپنی کلائی کھینچنی چاہی
شیر حیدر نے شدت ضبط سے سرخ ہوچکی آنکھیں کھول کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے مٹھی کھول دی مہراں نظریں جھکا گئی اسکو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
اسکی جھکی نظر جب اپنی کلائی سے ہوتی ہوئی شیر حیدر کے ہاتھ اور اسکے نیچے جلتی لالٹین پر پڑی تو دل نے دھڑکنا بند کردیا تھا وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
پھر چارپائی پر بیٹھتے شیر حیدر کا پاتھ پلٹ کر دیکھا جسکی پشت جل کر سیاہ ہوچکی تھی ہاتھ منہ پر رکھ کر بے اختیار امڈنے والی چیخ کا گلہ گھونٹا مگر آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی رواں ہوچکی تھی۔
شیر حیدر ہاتھ چھڑا کر اٹھا اور وہاں سے ہٹتا چلا گیا۔
مہراں اپنی کلائی کا درد بھلائے شاک کی حالت میں بیٹھی تھی سب کچھ اسے سمجھ آگیا تھا پھر اچانک سے شیر حیدر کے ہاتھ کی جلی پشت کی تکلیف اسے اپنی کلائی میں ہونے لگی اور آنسوؤں میں شدت آگئی ۔
اس نے بہتی آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو شیر حیدر کا آتا ہوا دھندلا سا عکس دکھائی دیا پاس پہنچ کر اس نے مہراں کی کلائی تھام کر اٹھنے کا اشارہ کیا وہ چپ کرکے اٹھ کھڑی ہوئی تو وہ ایک طرف چلنے لگا ۔
مہراں ٹرانس کی سی کیفیت میں اسکے پیچھے کھنچی چلی جارہی تھی جس کا رخ سیڑھیوں کہ طرف تھا۔
سیڑھیوں کے پاس پہنچ کر اس نے مہراں کو تیسرے سٹیپ پر بٹھایا اور خود پہلے سٹیپ پر بیٹھ کرساتھ پڑا پانی کا ڈونگا اٹھا لیا جس میں روئی بھیگ رہی تھی۔
شیر حیدر نے اسکی بازو اپنے گٹھنے میں رکھ کر باقی رہ جانے والی چوڑیاں پیچھے کیں اور روئی کو نچوڑ کر بازو سے خون صاف کرنے لگا۔۔
وہ اسکے چھا جانے والے رحمدل سحر انگیز سراپے کے زیر اثر دیکھے جارہی تھی جب درد کی ایک تیز لہر اٹھی اس نے ہلکی سی آہ کے ساتھ بازو کھینچا
وہ جھکے سر سے بولا
آں ہاں
درد ہورہا ہے مہراں نظر جھکا کر صرف ممنا سکی
تبھی
ہمالیہ کے دور دراز کلیساوں کے دیوتاؤں جیسے شخص نے آنکھیں اٹھا کر اس پر مرکوز کیں تھیں
پھر انہیں کلیساؤں میں بجتے روحوں کو قید کرتے سازوں جیسے متبسم لہجے میں گویا ہوا
مجھے پتا ہے شہزادی
کانچ چبھا ہے نکالنا ہے درد تو ہوگی ناں؟؟
لیکن مہراں کی آنکھ سے چھلکتے آنسو دیکھ اس نے اپنے شہد آمیز لہجے میں مزید چار چھ بوری شکر کی آمیزش کرتے ہوئے بولا
سنو؟؟
مہراں نے اس کی جانب دیکھا ۔
اب نہیں ہوگا
شیر حیدر اسکی آنکھوں پر نظریں مرکوز رکھے ہلکا سا جھکا پھر چبھے ہوئے کانچ کے اطراف جگہ کو دباتے پھونک ماری اور ایک جھٹکے سے کانچ نکال لیا ۔۔
مہراں نے چیخ مارنے کے لیے منہ کھولا تھا تو شیر حیدر نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔
جھلی ہوئی ہو کیا؟
تمہاری اماں تو ہٹلر کی جانشین ہیں
کیوں مروانے کا ارادہ ہے یار؟؟
شیر حیدر نے بات مکمل کر کے ہاتھ ہٹایا تو مہراں اپنی اماں کے ذکر پر مسکرا دی
اب ایسا بھی کچھ نہیں ہے بھااااااا
او آپکا ہاتھ جا جل گیا ہے
وہ جو (بھاء جی )کہنے لگی تھی شیر حیدر کی گھوری پر بات بدل گئی .۔
شہزادی مہراں
دھیمی دھیمی لو دیتی متبسم آنکھوں دل لبھاتی چھپی چھپی سی مسکان ہونٹوں پر سجائے وہ آج الگ ہی ترنگ میں بول رہا تھا۔
رشتے اور تعلق جذبات کے تابع ہوتے ہیں جذبات بدل جائیں تو رشتے خود بخود بدل جاتے ہیں ۔
لیکن مہراں کا ذہن اسکی نظریں سامنے بیٹھے نثار ہوتے جان دیتے اس شخص کے جادوئی لہجے اور دل لیتی باتوں سے بے نیاز اسکے جلے ہاتھ کی پشت پر تھیں ۔۔
جسے وہ چہرے پر سجائی ہنسی اور باتوں کے دوران بار بار نامحسوس طریقے سے جھٹک رہا تھا۔
اچانک نجانے مہراں کے دل میں کیا سمائی اس نے شیر حیدر کا ہاتھ پکڑ کر اونچا کرتے اور جلی ہوئی پشت کو چوم لیا تھا ۔
شیر حیدر کے جلتے تکلیف دیتے ہاتھ پر یکلخت ٹھنڈی پھوار سی پڑی اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا مہراں اٹھ کر واپس جاچکی تھی ۔۔
ساتھ والے گھر میں کوئی آیا تھا دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ چونک کر ماضی سے نکلا اسنے ابھی تک دایاں پکڑا ہوا تھا
پھر اس نے ایک بڑا ہی عجیب کام کیا تھا
وہ جو پینتیس سالہ عاقل و بالغ بال بچے دار مرد تھا۔
اس نے دس سال پہلے کسی سحر ذدہ رات کی تاریکی میں دل سے کی جانے والی خواہش بڑے دل س پورے حق سے پوری کی تھی ۔
اس نے اپنے ہاتھ کی پشت بڑی عقیدت بڑی محبت بڑے جذب کے ساتھ چوما تھا ٹھیک اس جگہ جہاں دس سال پہلے مہراں نے ہونٹ رکھے تھے جہاں سے آج بھی اسکی بھینی بھینی سانسوں کی مہک آتی تھی۔
پھر اسنے ہاتھ پلٹاکر اپنی ہتھیلی کو چوما تھا جہاں آج بھی مہراں کی نرمی کلائی کا خوشبو دار لمس باقی تھا
جو آج بھی پہلے دن کی طرح اسکے دل کو سارے سروں اور تمام ہی تالوں کے ساتھ دھڑکاتی تھی
اسکے جسم میں ایک نئی امید جگاتی تھی وہ ایک نئے جوش نئے ولولے سے مہراں کو چاہنے لگتا تھا ۔
کیوں کہ وہ جو دل تھا اسکے سینے میں جو دھک دھک کر کے دھڑکتا تھا وہ کہتا تھا ہے مہراں یہیں کہیں ہے ۔
جب بھی ملا نئے سرے سے بھاگیا مجھے
سو ایک شخص سے میں نے بار ہا محبت کی
-------------------------