وہ دھڑکتے دل کے ساتھ نیچے آئی تھی
خوشی اسکے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی ۔
مہرالنساء
وہ چپ کرتے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی جب اسکی امی کی آواز نے اسے ٹھٹھکادیا تھا
کیونکہ وہ اسکا پورا نام شازونادر ہی پکارتی تھیں
خاص کر جب غصے میں ہوتیں
سارے خوشنما خواب ایک جھٹکے میں اڑن چھو ہوئے اور وہ خشک ہوتے حلق کے ساتھ پلٹی
جی ماں جان؟
بیٹا جن لڑکیوں کے سر پر باپ نام کی چھت اور آس پاس بھائی نام کی دیواریں نا ہوں
انکی عزت نازک آبگینے کی طرح ہوتی ہے ہلکی سی ٹھوکر سے کرچیوں میں بٹ جانے والی
اگر ایک بار انکی ذات کرچیوں میں بٹ جائے تو ساری عمر لگ جاتی ہے کرچیاں سمیٹتے ہوئے
انکی چبھن ساری عمر انگلیوں کے پوروں کو زخمی کرتی رہتی ہیں
مگر افسوس یہ کہ زخم زخم ہوجانے کے بعد بھی عورت بے اعتبار کم قیمت اور ہلکی رہتی
اماں وہ وہ
شیر تو
وہ سب سمجھ چکی تھی جبھی دکھی لہجے میں بولی ۔۔
عورت کے محرم صرف چار رشتے ہوتے مہراں
باپ
بھائی
بیٹا
شوہر
پانچواں صرف دھوکا پھر چاہے اس دھوکے کو زم زم سے نہلا دو وہ دھوکا ہی رہے گا
شیر کے ساتھ تمہارے تین تعلق نہیں بن سکتے لیکن خدا کرم کرے گا جلد سے جلد چوتھے رشتے کی صورت وہ تمہارا محرم بن جائے گا
جب تک اپنی اور اپنی بیوہ ماں کی ذات کو بکھرنے نا دینا بیٹا۔
وہ کہنا چاہتی تھی کہ شیر تو آپکے ہاتھوں میں پلا بڑھا ہے ایسا بلکل نہیں ہے لیکن چپ کرکے گردن ہلاتے اندر چلی گئی تھی۔
پیچھے کھڑی اسکی ماں نے اتنی فرمانبردار اولاد پاکر شکرگزاری کے تحت آسماں کی طرف دیکھا تھا ۔
وہ جانتی تھیں کہ شیر حیدر انکی سوچ سے بڑھ کر حیادار اور غیرت مند ہے
لیکن تھا تو نا محرم؟؟؟
اسی لیے انہوں نے صبح ہوتے ہی جیٹھ جیٹھانی کو ہاں کہنے کا تہہیہ کیا تھا۔
---------------------
شیر حیدر سے تھپڑ کھانے کے بعد وہ گھر جانے کی بجائے مہراں کی طرف گئی تھی وقتی غصہ تھا جو اتر گیا۔
(ہاں تو سہی ہی کہتا ہے شیر آج سے پہلے تک تو وہ مجھے مہراں ہی کی طرح سمجھتا تھا اور میت کی بہن
لیکن اب اسے پتا چل گیا ہے کہ میں اسے بلکل بھائیوں جیسا نہیں سمجھتی
اب وہ سوچے گا تو میرے پریم کی آگ میں جلتا خود آئے گا میری طرف
اگر نا آیا تو میں مجبور کردوں گی اسے
آخر مرد ہے اور حسن پارساء سے پارساء مرد کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتا ہے ))
صنف مخالف مقناطیس ہوتی جبکہ مرد لوہا جو تھوڑے فاصلے سے ہی سہی مگر ہر وقت کھنچتا رہتا ہے
اور اگر مقناطیس خود سارے فاصلے مٹا دے تو))
وہ انہی خوش گمانیوں سمیت مہراں کے گھر پہنچی تھی پھر حلوا بنوانے کے بعد جب وہ دونوں پیچھلے صحن میں جھولے پر آ بیٹھیں تو اسکا رہا سہا غصہ بھی ہوا ہوگیا
دل ایک بار، پھر نرم گرم جذبات لیے خواب بننے لگا تھا
پھر وہ انہی خوابوں کی انگلی تھامے مہراں کے گھر سے نکلی تھی اسے خبر ہونے دیے بغیر کہ وہ شیر حیدر کا صافہ چپ کر کے اٹھا لائی تھی۔
----------------------
سعدیہ کو فوراً اپنی بد تہذیبی کا احساس ہوا تو بچوں کا بہانا کر کے اٹھ گئی ۔
اس نے اندر آکر خود کو سرزنش کی پھر نجانے کیا سوچتے اسکی آنکھ سے چند آنسو نکلے
اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگی ۔۔۔۔
اور باہر جاکر بوا کو اماں نسائی کو پیچھلے کمرے میں لیجانے کا کہا
خود کچن میں کھانا بنانے چلی گئی کھانا بناتے اسکا ذہن ماضی کے دھندلکوں میں کھونے لگا تھا۔
اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے کئی لڑکیوں کی عزت لٹتے دیکھی تھی ظالم بلوائی لٹے پھٹے قافلوں پر بھوکے بھیڑیوں، کی طرح پل پڑتے تھے ۔
کتنی ہی ماؤں کی گود اجڑی تھی کتنی بہنوں نے جوان بھائی کھوئے تھے ۔
کتنی ہی نئی نویلی بدنصیب دلہنوں کے سہاگ اجڑے تھے پھر ان مرتے ہوئے بدنصیب شوہروں نے بلکل آخری سانسوں کے درمیان اپنی عزتوں کو تار تار ہوتے غیرت کا جنازہ اٹھتے دیکھا تھا۔
ظالموں نے نا کوکھ کا دودھ پیتا بچہ دیکھا نا کسی کے سفید بالوں کا لحاظ کیا جہاں جہاں سے گزرے ظلم اور بربریت کی تاریخ رقم کرتے چلے گئے ۔
وہ بھی اپنے خاندان کے ہمراہ کسی ایسے ہی قافلے کے ساتھ تھی طبعیت خرابی کے باعث اسکی ماں نے ایک بیل گاڑی پر اسے بستروں کے درمیان سلایا تھا بستر اور کچھ دیگر سازو سامان نے اسے مکمل ڈھک رکھا تھا بس سانس لینے کے لیے ایک چھوڑ سا درہ رکھا گیا تھا جہاں سے وہ باہر کا منظر دیکھ سکتی تھی ۔۔۔
وہ نیم غنودگی میں تھی جب اچانک گھوڑوں کے ٹاپوں کے ساتھ خواتین کی چیخوں نے اسے ہڑبڑا دیا تھا .
پھر اسکی آنکھوں نے وہ وقت دیکھا جب نا آسمان پھٹا نا زمین لرزی قافلے کے دیگر مردوں کے ساتھ اسکے باپ اور بھائیوں کو جانوروں، کیطرح ذبح کیا گیا ۔۔
ہونٹ گنگ تھے تو زبان ساکت یہ سکتا تب ٹوٹا جب ( جئے بولے سونیہال ست سریکار)
(جئے رام جی کی جئے )
جیسے نعروں کے ساتھ اسکی چھوٹی دونوں بہنوں کی درد میں ڈوبی چیخوں نے آسمان کو لرزایا تھا ۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ چیختی کسی نے وہ درہ بند کردیا جس سے وہ باہر کامنظر دیکھ رہی تھی۔
اسکی کم سن بہنوں کی چیخیں آتی رہیں اسکا دل ہولتا رہا ۔
یہاں تک کہ چیخیں آہستہ آہستہ گرگراہٹ میں بدلتے دم توڑ گئیں اس نے بہت کوشش کی مگر سامان پر دہرے بوجھ کی وجہ سے وہ اٹھ نہیں پائی تھی ۔
جبکہ درہ کے آگے کوئی کھڑا تھا جیسے اپنے وجود سے اس درے کو چھپانا چاہتا ہو کہ کہیں اس طرف سکھ بلوائیوں کی نظر نا پڑ جائے۔
یا جیسے کوئی اسے قیمتی خزانے کی طرح چوری ہونے سے بچانا چاہتا ہو۔
پھر کچھ ہی دیر بعد یہ معاملہ بھی حل ہوا جب اسے چھپائے ہوئے وجود کے پیٹ میں برچھی آر پار ہوئی تھی ۔۔
اور وہ کٹے شہہ تیر کی طرح تھوڑا دور گرا تھا جلدی سے سرک کر آگئے ہوتے اسکی نظر اہنے محافظ پڑی تو کلیجے پر ہاتھ پڑا تھا
وہ محافظ کوئی اور نہیں اسکا ماں جایا اسکا بارہ سالہ بھائی سلیم تھا۔۔
وہی سلیم جس نے اسکی گود میں آنکھ کھولی تھی
وہی سلیم جسکو اس نے بانہوں کے جھولے میں جھلایا تھا۔
وہی سلیم جو اسے آپا جانی کہتا تھا۔
اسی سلیم نے آج اپنے ناتواں چھوٹے سے وجود، سے اپنی آپا جانی کی عزت کو بچاتے بلا خوف و خطر اپنی ننھی سی جان دیتے
جھولا جھلانے کے گود، میں کھلانے کے بلکہ سارے کے سارے قرض یکلخت چکا دیے تھے ۔۔
کیونکہ بہنوں کی عزت باپ بھائیوں کے لیے ہیرے جواہرات سے بڑھ کر ہوتی جب بات بہنوں کی عزت پر آتی ہے تو غیرت مند بھائی خوشی خوشی قربان ہوجاتے ہیں پھر چاہے بھائی چھوٹا ہو یا بڑا کیا فرق پڑتا ہے ۔۔
( کاش وہ کم عقل لڑکیاں سمجھ پاتیں کہ جو چند خوشنما خوابوں چند چکنی چپڑی جھوٹی باتوں میں لپٹی چند روزہ وقتی محبت کو سب کچھ جان کر خوبصورت نظر آنیوالے بدصورت مردوں کے لیے نا دن کا اجالا دیکھتی ہیں نا رات کی تاریکی اور باپ بھائی کی عزت کو نیلام کیے اپنے خوابوں کی دنیا بسانے چلی جاتی ہیں۔
وہ شاید نہیں جانتی کہ رات کی تاریکی میں خیانت کرتے ہوئے محبتیں لٹانے والے کو مرد نہیں کہتے ۔
مرد تو وہ ہوتا ہے جو دن کے اُجالے میں ساری دنیا کے سامنے باعزت طریقہ سے آپکو اپناتا ہے اپنا نام دیتا ہے اپنی زندگی میں مقام دیتا ہے .)
وہ دیوانہ وار ہاتھ پاؤں چلانے لگی تھی اوپر دھرے سامان میں کوئی چیز سرکی تھوڑا راستہ بنا تو وہ فوراً سے نیچے اتر کر سلیم کی طرف بھاگی تھی دوپٹہ بیل گاڑی کے ساتھ کہیں اڑ کر اتر گیا تھا ۔
سلیم میرے بچے سعدیہ نے روتے ہوئے اسکا سر اپنی گود، میں رکھا تھا۔۔
آ آپا
جی آپا کی جان
وہ آپا کی اس نحیف سی سدا پر تڑپی تھی
آپا
جی آپا کی جا
سعدیہ بات پوری بھی نہیں کر پائی اور ساکت ہوگئی پھر آسمان والوں نے ایک جان روح کو جھنجھوڑتا دلخراش منظر دیکھا تھا جب بارہ سالہ سلیم جسکے پیٹ میں پیوست برچھی کی وجہ سے بھل بھل کر خون بہہ رہا تھا موت بڑی بے رحمی سے جس ننھی سی جان کے سر پر منڈلا رہی تھی
اس نے اپنے ہی لہو سے رنگی ( چادر) کو ننھے ننھے ہاتھوں سے پھیلا کر بہن کا سر ڈھکا تھا۔۔
آسمان گنگ تھا تو سعدیہ نے بند ہوتے دل کے ساتھ منہ پر ہاتھ رکھتے صدمے اور حیرت سے بس اتنا کہا تھا ۔۔
سلیم
آ آ آ
آ آ پا
اس بار لفظ سلیم کے منہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکلے تھے
جی آپا کی جان
جی میرے شہزادے،
آپا واری اپنے ویر کے
آپا صدقے اپنے ویر کے
سعدیہ روتی جاتی تھی اور لاڈ سے کہتے اسکا چہرہ بے تحاشہ چومے جاتی تھی
آپ پاااک سرزمین جانا
وہ دیکھ رہی تھی کہ سلیم پیلے ہوچکے چہرے کے ساتھ آہستہ آہستہ غنودگی میں جارہا ہے پھر بھی خود کو تو کہیں سلیم کو بہلاتے ہوئے بولی تھی
ماں صدقے
پاک سر زمین اپنی آپا کے ساتھ میرا شہزادہ بھائی بھی جائے گا
لیکن اسکا لہجہ کھوکھلا تھا۔
نہیں میں کیسے جاؤں گا
میں تو
آپا
میں تو
اس بار ایک ساتھ کئی آنسو اس باہمت غیرت مند بھائی کی آنکھ سے نکلے تھے اور بہن کے دل و جگر کی ساری رگیں ادھڑ گئیں تھی ۔۔
سعدیہ نے ایک التجائیہ نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی وہ رونا چاہتی تھی دھاڑیں مارنا چاہتی تھی
آپا میرے ساتھ بولیں
سلیم کی ڈوبی ڈوبی سی آواز اسکے کانوں میں پڑی
( جب سے قیام پاکستان کی تحریک نے زور پکڑا تھا یہ سلیم کا مشغلہ تھا اسے وقت بے وقت گھیر کر بولتا تھا آپا میرے ساتھ بولیں اور اس بیچاری کو بولنا پڑتا تھا۔
وہ اب بھی وہی سب دہرانے کا کہہ رہا تھا )
نہیں نہیں منہ کو آتے کلیجے کے ساتھ سعدیہ نے فوراً نا میں سر، ہلایا تھا ۔۔۔
( میری سونی مونی مٹھی پیاری
آپا جانی بس ایک بار)
سلیم میاں میں کہے دیتی ہوں ٹھیک سے سمجھ لیجئے کہ اب کی بار آخری ہوگی
وہ حددرجہ چڑ کر کہتی
جو حکم جناب عالی کا مگر خدا راہ دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر تھوڑی قوت سے کہیے گا تاکہ سب سن سکیں)
اسکی آنکھوں کے سامنے اٹھکلیاں کرتا ساز باز کرتا شرارتی سا سلیم لہرایا تھا ۔
پااا ا کس تا ن ( پاکستان)
سلیم کی ڈوبتی آواز اسکے کانوں میں پڑی تبھی
سعدیہ نے باآواز بلند کہا تھا
زندہ باد
پاکستان
سلیم کے اس بار صرف ہونٹ لہرائے تھے
وہ روتے ہوئے اور زیادہ زور سے چیخی تھی
زندہ باد
زندہ باد
زندہ باد
پاکستان کی صدا لگانے والا کب سے پرسکون ہوچکا تھا
جبکہ وہ روتے ہوئے دونوں ہاتھ منہ پر رکھے پوری قوت سے بار بار زندہ باد کی صدائیں لگاتی جارہی تھی ۔
ایک انجانے سے احساس کے تحت اس نے چپ ہوتے نیچے جھولی میں لیٹے سلیم کی طرف دیکھا اگلے پل اسکی درد میں ڈوبی چیخیں آسمان تک جا پہنچی تھیں
اس بار شاید آسمان سے بھی برداشت نہیں ہوا تھا ۔
جبھی سعدیہ کے آنسوؤں کے ساتھ وہ بھی کھل کر برسنے لگا تھا۔