وہ سویا ہوا تھا جب اسے محسوس ہوا کوئی اسکے پاؤں کے تلوے گدگدا رہا ہے ۔۔
پھر اسے لگا کوئی اسکے گھنے بالوں میں سے بال نوچ رہا ہے
ایک جھٹکے سے اس نے آنکھ کھولی اور اسکی بازو پکڑ کر مروڑ دی ۔
آآ آ. آ آ بھاؤ میں تو آپکو جگا رہی تھی کھانا لائی ہوں نا ؟؟
نرم و نازک سانولی سی کلائی جس میں بھر بھر کر ہری چوڑیاں پہنی ہوئی تھیں ۔
صاف شفاف نمکین سے نین نقش لیے وہ سانولا سا چہرہ بہت عام نا سہی لیکن بہت خاص بھی نہیں تھا۔
ہاں ایک چیز اسے خاص بناتی تھی وہ تھیں اس سانولے سے چہرے پر سجی بڑی بڑی کانچ جیسی آنکھیں جو موقع کی مناسبت سے رنگ بدلتی تھیں ۔
شیر حیدر نے مہراں کی آنکھوں پے کبھی غور نہیں کیا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ اسکی آنکھوں کا کوئی ایک رنگ نہیں ہے
لیکن نہیں
اس نمکین چہرے میں کانچ جیسی آنکھوں کے علاوہ بھی کچھ خاص تھا وہ خاص آج سے پہلے اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی
وہ خاص بدلا ہوا زاویہ نظر تھا
جس نے مہراں کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا تھا ۔
آج اس نظر سے دیکھا تو بڑی شدت سے دیکھا بڑی فرصت سے دیکھا
جی بھر کر دیکھا
بھاؤ چھڈ دو بانہہ ( بھائی چھوڑ دو بازو) مہراں اپنی کلائی چھڑاتے اس سے کہہ رہی تھی
دھت تیرے کی وہ مہراں کے بھائی کہنے پر اچھا خاصہ تلملایا تھا
پھر اس سے پہلے کہ وہ مہراں کو نظروں کے بدلتے زاویے اور دل کی بدلتی دھڑکنوں سے آگاہ کرتا کسی نے پانی کا پورا جگ اس پر پھینکا تھا ۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا
سامنے بلونت کور کو کیل کانٹوں سے لیس دیکھ کر اسکی تیوری چڑھ گئی۔
اگرچہ خواب کا اینڈ بلکل اچھا نہیں تھا لیکن شروع اور بیچ کا دورانیہ بہت حسین تھا۔
حقیقت میں نا سہی خواب میں ہی سہی اس نے مہراں کو اُس اِس بلکہ ساری ہی نظروں سے دیکھ لیا تھا
وہ اسے ہر نظر سے ہر بار اچھی نہیں بہت اچھی لگی تھی بلکہ اتنی اچھی لگی تھی کہ اب اسے اماں کو جاکرفوراً ہاں کہنی تھی
اور ہدایت دینی تھی کہ منگنی کے بجائے شادی کردیں
ورنہ کم از کم نکاح ہی کردو اللہ والیوں
لیکن آنکھ کھلنے پر یہ آفت سر پر منڈلا رہی ہوگی اسے اندازہ نہیں تھا ۔۔
نی کی ہوگیا بلونتِ کیا زلزلہ آگیا یا تیرے ویر نے میلا جیت لیا؟
پہلی ایک بے اختیاری نظر کے بعد اسنے جھکی نظروں سے کہا تھا۔
سخت غصے کے باوجود وہ بہت نرمی سے مزاق کے موڈ میں بولا تھا آخر اسکے یار گورمیت سنگھ کی بہن تھی عزت دینا اسکا فرض تھا دوسری وجہ مہراں کی اکلوتی سہیلی تھی
شیر اسے مہراں کی طرح ہی ٹریٹ کرتا تھا مہراں کا تو اب رتبہ اور جگہ بالکل ہی بدل گئی تھی
سو ٹریٹ کرنے کا انداز، بھی بدل جانا تھا لیکن گورمیت سے وہ پہلے ہی کی طرح بچوں جیسے بات کررہا تھا۔۔
لیکن اسوقت نجانے نئے نویلے جذبے کا خمار تھا یا حسین خواب کی چمک اسکے چہرے پر بڑی الوہی سی مسکان تھی
ایسی کہ گورمیت جو اتنے دن سے شیر حیدر کو من مندر، میں بسائے ہوئے تھی
مبہوت سی رہ گئی کیا کوئی مرد اس حد تک بھی خوبصورت مسکرا سکتا ہے؟
نہیں بلکل نہیں یہ ایکو اک ہے شیر حیدر چوہدری
بلونت کور نے کوئی جواب دیے بغیر خود پر باندھے سارے بند توڑتے اس کا ہاتھ پکڑا لیا تھا چوہدری جی تم مجھے بڑے چنگے لگتے ہو
اچانک ہوا تیز ہوئی تھی شیر حیدر اپنی عادت کے مطابق نظر نیچے کیے ہوئے بلونت کور کی حرکت دیکھ نہیں پایا تھا
لیکن اس کا ہاتھ مس ہوتے ہی جھٹک دیا تھا۔
یہ کیا کر رہی ہے کڑیے؟
شیر حیدر بچہ نہیں تھا جو اس حرکت کو سمجھ نا پاتا
وہ ایک ادا سے ہنسی تھی
لے یہ بھی میں بتاؤں چوہدری جی؟
اتنے تو کاکے نہیں ہو گورمیت ویر جی کے جوٹی دار( گہرے دوست) ہو
اسکی شادی کو دوسرا سال ہو گیا ۔۔
تم نے نہیں کرنی کیا اس نے ایک بار پھر سے شیر حیدر کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔
وہ بلونت کور کے منہ سے ایسی باتیں سن کر گنگ رہ گیا تھا؟
بلونتےِ تیرا دماغ تو ٹھیک ہے بچے
اپنے پِتا جی کی بھنگ تو نہیں پی لی
اس نے بات کو مزاق کا رنگ دینا چاہا
چل گھر بھاگ جا
شام کو آؤں گا تو بات کروں گا چاچا جی سے
ایک تو اب بچہ نہ کہنا سترہواں سن لگ چکا مجھے اور پتا ہے میری ماتا کی شادی سولہویں سن میں ہوگئی تھی۔
بلونت اسے بیچ میں ٹوک کر بولی تھی
واہے گرو کی قسم بڑے چنگے لگتے ہو جی پریم کرتی ہوں آپ سے اور میں نے تو من ہی من میں آپکو اپنا پتی بھی مان لیا ہے چوہدری جی
وہ جو بات کو مزاق میں ٹالنا چاہتا تھا اسکا ہاتھ ایک دم اٹھا تھا اور بلونت کور کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا تھا۔
چپ ایک دم چپ خبر دار جو ایک لفظ بھی نکالا تو
او تجھے شرم نا آئی ایسی بات کہتے میں تیرے ویر کا میت ( دوست) ہوں
تیرے بھائیوں جیسا ہوں
وہ جو تھپڑ لگنے پر غم اور حیرت سے اسے تک رہی تھی
بھائیوں جیسے ہو بھائی نہیں ہو
باپو سے آپ کیا بات کرو گے میں خود کہہ دوںگی کہ شادی کرونگی تو صرف شیر حیدر چوہدری سے ورنہ اسی پرانے کنوے میں ڈوب کے مر جاؤں گی
بلو نت چل بھاگ جا اس سے پہلے کہ میرا ہاتھ دوبارہ اٹھ جائے چل جلدی
جارہی ہوں جارہی ہوں مگر میری ایک بات یاد رکھو چوہدری صاحب بلونت کور کسی اور کی توکبھی ہوگی نہیں اور آپکو کسی.کا ہونے نہیں دے گی
---------------------
وہ کافی عرصے سے مہراں کے کان میں ادھر ادھر کی الٹی سیدھی باتیں کرتی رہتی تھی
مہراں کبھی تو شرم سے سرخ پڑ جاتی کبھی اسے ہاتھ سے لعنت دے کر چپ رہنے کا کہتی اور کبھی کان بند کیے اسکی بک بک سنتی چلی جاتی
آج بھی وہ پیچھلے کئی دن کی طرح بیری کے درخت پر لگے جھولے میں جھولتے اپنا پسندیدہ موضوع (شیر حیدر جی) کو لیے بیٹھی تھی۔۔
نی مہراں تیرا یہ بھاؤ وڈا جو ہے نا
اس مرجانے نے کسی دن میرے ہاتھوں مرجانا ہے ۔۔۔
ہااااااا
مہراں نے اپنی عادت کے مطابق ہاتھ منہ پر رکھ کر ہاااا کی
نی اب وڈی ہوجا ہر بات پر ہاااا کرتے بوتھا نا کھول لیا کر
بلونت کافی تپی ہوئی ۔
اور وہ جو پہلی بار ہااا کا کھلا منہ بند کرنے لگی تھی ایک بار پھر کھول بیٹھی
ہااااااا
لخ لعنت نی تیرے پر بند کر منہ نہیں تو مکھی چلی جانی ہے۔
بلونت نے اسے دھموکا مارا ۔۔
اور اٹھ کر چلنے لگی
لیکن بلونت وہ تو تجھے بہت اچھے لگتے تھے مہراں نے فوراً سے منہ بند کیا اور اسکے ساتھ چلتے توجیح پیش کی
اب تو زہر لگتا ہے تو مان یا نا مان
مرجانے کی شیلی ( نشیلی) آنکھوں میں کسی دن میں نے سواہ. ( راکھ) ڈال دینی ہے ۔
اس بار وہ منہ کھولنے لگی تھی لیکن بلونت کا تپا تپا چہرہ دیکھ کر بولی
نا. نی ( نا یار) اب ایسا تو نا کہو
تم ہی کہتی ہو انکی آنکھیں سارے پنڈ میں سب سے سوہنی ہیں ان جیسا گھبرو جوان پورے پنجاب میں کوئی نہیں ہے ۔۔
بلونت کور اپنے غصے میں توجہ ہی نہیں دے پائی کہ مہراں نے آج شیر علی کے لیے لفظ بھاؤ ( بھائی) استعمال نہیں کیا تھا۔۔
وہ لوگ باتیں کرتے ہوئے پیچھلے صحن میں بنے بھینسوں کے باڑے تک چلی آئیں تھیں ۔
ویسے مہراں میں تو ایویں اندازے سے کہتی ہوں کہ اسکی آنکھیں نشیلی ہیں تم بتاؤ کیسی ہیں تم نے تو دیکھی ہونگی کس رنگ کی ہیں؟
لے میں کیا بتاؤں
کبھی انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت کی ہو تب نا؟
مہراں کے لہجے میں عجیب سا شکوہ تھا
دو دن پہلے اماں نے اسے رشتے کی بابت بتایا تھا ۔
تب سے وہ شیر حیدر کی ہمراہی میں آنیوالی برسات راتوں بہار دنوں کے خواب دیکھنے لگی تھی اور شیر حیدر کا لہجہ اسکا بچوں کی طرح ٹریٹ کرنا اسے برا لگنے لگا تھا
کچی عمر کا اولین خواب تھا نا ( یہ کچی عمر کے خواب بھی بڑے جان لیوا ہوتے ہیں ہر دم ہر وقت ہر قیمت پر انکی تعبیر اپنی من مشاء پانے کے لیے بچیاں حد سےگزر جاتی ہیں
پھر یہی خواب اگر پورے نا ہوں تو دل تو اُجاڑتے ہیں ہی آنکھیں بھی نوچ لیتے ہیں)
میں یہ نہیں کہتی خواب نا دیکھیں
دیکھیں بھئی ضرور دیکھیں لیکن خدا راہ انہیں خواب رہنے دیں انکےتعاقب میں کبھی نا نکلیں
کیونکہ کچی عمر کے ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں عورت کو تاعمر لہولہان رکھتی ہیں)
ان دونوں دوستوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھی بس وجہ اتنی تھی مہراں نے فلحال خواب کو خواب ہی رکھا تھا جبکہ بلونت کور نے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے تگ و دو شروع کردی تھی۔
لے یہ کیا بات ہوئی مہراں تم لوگ ایک ہی گھر میں رہتے ہو ہر وقت کا آمنا سامنا ہوتا ہے یار
اس نے نا سہی تم نے تو دیکھا ہی ہوگا
آخر کو نظر انداز، کرنے والی چیز تو بلکل نہیں ہے تیرا وہ بھاؤ وڈا بلونت کا اشتیاق دیدنی تھا۔
لے مجھے کیا لوڑ پڑی ہے بے حیاؤں کیطرح انکو دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھوں؟
وہ لوگ باڑے کی کھڑکی کے پاس پہنچ گئی تھیں جب مہراں پھر سے بولی
بلونت کہیں پیچھے رہ گئی تھی مگر اسکی آواز سن کر باڑے میں موجود کوئی چونکا تھا۔
ویسے بھی انہوں نے مجھے کون سا کبھی کہہ دیا لیں بی بی مہراں جی بھر کر دیکھوں میری آنکھوں میں اور بتاو کس رنگ کی ہیں؟
قسم سے وہ مجھے تو بلکل نکی کاکی سمجھتا ہے ۔۔
اس نے بات کرکے سامنے دیکھا تو بلونت ابھی تک پیپل کے نیچے ہی کھڑی تھی اور ہاتھ میں پکڑی شیر حیدر کی دھوتی کو دیکھتے کھوئی ہوئی تھی( گاؤں کے نوجوان بوڑھے الغرض تمام مرد حضرات کندھے پر تو کبھی سر پر سفید یا رنگین کپڑا رکھتے تھے جنہیں صافہ یا دھوتی کہتے تھے)
بلونت تو متوجہ نہیں تھی مگر باڑے میں بھینسوں کا دودھ دھوتے نشیلی آنکھوں والے کے ہونٹوں پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ آئی تھی۔
بلونت کورے اسنے بلونت کو آوازدی جو فوراً سے صافہ تھامے اس تک چلی آئی۔
توں تو جھلی ہے مہراں اگر، میں تیری جگہ ہوتی اور میرے تائے کا پتر اتنا سوہنا گھبرو ہوتا تو میں اسے کم از کم بھائی کبھی نا بناتی بلکہ سیاں جی بناتی اور اب تک ہمارے
اس بار ہااااا تو مہراں نے کی تھی لیکن ہاتھ اس نے بلونت کور کے منہ پر رکھا تھا۔
نی توں کتنی بے حیا ہوگئی ہے اتنی شرم والی باتیں یوں کہتے ہیں بھلا؟
مہراں نے بلونت کو لتاڑتے نامحسوس طریقے سے اسکے ہاتھوں سے شیر حیدر کا صافہ لے لیا تھا ۔
بلونت نے ایک جھٹکے سے اسکا ہاتھ ہٹایا نی بس کردے توں اتنی بی بی جاحن نا بن وہ تجھے سہی نکی کاکی سمجھتا ہے---
میں تو ایویں ہی بات کر رہی تھی۔
او ہو توں تو ناراض ہوگئی یار
مہراں اسے مناتے ہوئے بولی
میں تو یہ کہہ رہی تھی اسے سب کو دودھ پیتا بچہ سمجھ کر خودہی چاچا تاج دین بننے کا شوق ہےتو میں کیا کرسکتی ہوں؟
مہراں کی پھسی پھسی سی آواز نکلی
چل چھڈ آجا حلوا کھائیں بلونت نے اسے کہتے قدم واپسی کی طرف بڑھا دیے
جبکہ پیچھے باڑے میں کام کرتے نوجوان کی مسکراہٹ جاندار قہقہے میں بدلی تھی۔
پہلے کی بات اور تھی مہراں بی بی اب میں تجھے نکی کاکی یا دودھ پیتی بچی بلکل نہیں سمجھتا
انہیں جاتا دیکھ ہنستے ہوئے اس نے سوچا تھا۔۔
-----------------------
وہ دفتر جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا جب سعدیہ بچوں کو بھیج کر کمرے میں چلی آئی ۔۔
اسے اندازہ ہورہا تھا کہ سعدیہ کچھ کہنا چاہتی ہے جبھی پہلے اسکے بولنے کا انتظار کرتے اپنی تیاری مکمل کرنے لگا ۔
پرفیوم لگا کر پلٹا تو وہ بیگ لیے کھڑی تھی ایک اچٹی سی نظر ڈال کر خود ہی بول اٹھا
ہاں جی جناب خیر تو ہے؟
کوئی بات کرنی ہے آپکو؟
وہ جو بات شروع کرنے کو لفظ ڈھونڈ رہی تھی سٹپٹا گئی
وہ ایسا ہی تھا کبھی اتنا لا تعلق کے سعدیہ کو گزرے دس سالوں، میں گزرے اچھے دن اور خوبصورت راتیں ایک خواب سا لگتی تھیں تو کبھی اسقدر اپنائیت سے بات کرتا کہ ایسا لگتا ان میں ہر رشتے سے بڑا رشتہ محبت کا ہے ۔
لیکن عرصہ ہوا اس نے وقتی میٹھے لہجے سے بہلنا چھوڑ دیا تھا جبھی بولی ہاں جی خیر ہے ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے
وہ کہتے باہر نکل گئی جبکہ شیرحیدر پرسوچ سے انداز میں چلتا باہر نکل گیا ۔
وہ ناشتہ کر کے باہر آیا ہی تھا جب سعدیہ نےپیچھے سے آواز دی
بات سنیں
شیر کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آکر چلی گئی
جی سنائہے
ویسے بیگم صاحبہ دس سال سے آپ ہی کی سن رہا ہوں ۔
کل بوا آئیں تھیں ۔ وہ سمجھ نہیں پائی بات کیسے شروع کرے
بوا تو ہر ماہ آتی ہیں شیر حیدر نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے سرسری سا کہا
او ہاں سب ٹھیک تو ہے نا؟
مطلب کوئی مسلہ ہے انکے گھر؟
وہ ایسا ہی تھا سب کا خیال رکھنے والا سب کا بھلا چاہنے والا
سب ٹھیک ہے اللہ کا شکر ہے اصل میں انکی کوئی جاننے والی ہے اس کو کام کی تلاش ہے
ماں باپ بلکہ سارا خاندان بٹوراے کی نظر ہوگیا بے چاری اکیلی پہنچی تھی یہاں، پیچھلے کئی سال سے تو بوا نے اپنے پاس رکھاہوا تھا مگر اب انکی بہو کو یہ شک ہے کہ اسکا شوہر اس چاری میں دلچسپی لینے لگا ہے
بوا چاہتی ہیں اس سے پہلے کہ کوئی بڑی بات ہو اسے وہاں سے نکال دیں
سعدیہ نے ایک ہی سانس میں ساری تفصیل بتا دی مبادہ شیر حیدر آدھی بات میں ٹوک ہی نا دے۔۔
وہ کچھ دیر سوچتا رہا
اچھا یار تم خود دیکھ لو جو مناسب لگے کر لو کہتا باہر نکل گیا ۔
سعدیہ کے اپنے ساتھ ایسے ہی حالات پیش آئے تھے جبھی دل میں اس انجان عورت کے لیے ہمدردی لیے ہوئے تھی
شیر حیدر کے ہاں کہنے کے بعد اسنے فوراً سے بوا کے پڑوس میں آنے کے لیے فون کردیا تھا۔۔
ابھی بچے سکول سے لوٹے ہی تھے جب بوا ایک برقعہ پوش عورت کو لے کر آ پہنچیں
سلام بیٹا میں( اماں نسائی )کو لے آئی ہوں
برقعے والی عورت نے اسے سلام کیا اور زمین پر بیٹھ گئی
وعلیکم سلام اماں کیا حال ہے کیسی ہیں آپ سعدیہ کے اردگرد تینوں بچے بھی آ بیٹھے
جی بی بی ٹھیک ہوں جی
اماں نسائی کی آواز میں عجیب سی کشش تھی ۔
سعدیہ کے اشارہ کرنے پر بوا بولیں
چل ہن برقعہ اتار دے
پہلے وہ ہچکچائی لیکن پھر بوا کے ٹہوکا دینے پر برقعہ اتارنے لگی
جس وقت اس نے برقعہ چہرے سے ہٹایا سعدیہ کہ تینوں بچے چیخ مار کر اندر کیطرف بھاگے تھے
سعدیہ نے خود استغفار پڑھتے چہرہ موڑ، لیا تھا
کیونکہ اماں نسائی کا آدھا چہرہ گردن سمیت جلا ہوا تھا اگر چہ کوئی زخم نہیں تھا مگر ادھڑی ہوئی جلد بہت کریہہ لگ رہی تھی ۔۔۔
سعدیہ دیکھ ہی نا پائی کہ اس کے استغفار پڑھنے پر بوا کے منہ سےٹھنڈی ہا اور اماں نسائی کی آنکھ سے آنسو ایک ساتھ نکلے تھے
-----------------------
آج شب برات تھی بلونت مکھڈی حلوا خود کھا کر اور گھر والوں، کے لیے لے کر چلی گئی تھی ۔
دن ڈھلے ہی بادل چھا گئے تھے جبھی شام رات کا سماں پیش کررہی تھی گاؤں کے اکثر گھروں، میں لالٹینیں روشن ہونے لگی تھیں۔
وہ سفید چوڑی دار پجامے کے ساتھ سرخ گھٹنوں سے نیچے آتا فراق پہنے ہوئے تھی
اس نے بھی سب کمروں کے بعد صدر دروازے پر لالٹین جلائی
اور آکر مغرب کی نماز پڑھنے لگی ابھی وہ جائے نماز لپیٹ کر رکھ رہی تھی جب کوئی دھپ سے اندر چلا آیا
آپا کہاں ہیں آپ؟
جلدی آئیں یہاں خداراہ
آپ مجھے نظر کیوں نہیں آرہیں
یہ شیر حیدر کا سب سے چھوٹا بھائی دس سالہ کبیر حیدر تھا۔
ہاں جی چھوٹے بدمعاش بتائیں کیا ہوا ہے
اور یہ آپ ہوا کے گھوڑے پر کیوں سوار، ہیں ۔
وہ ہنستے ہوئے اسکے بال بگاڑنے لگی ۔
ارے آپا اب آپ بڑی ہوجائیں اور یہ بچوں جیسی عادات کو چھوڑ دیجیے ورنہ
وہ کبیر کے یوں طعنہ دینے پر ہااا کرنے لگی تھی جب لفظ ورنہ پر تپ کر بولی
ورنہ کیا؟
ورنہ کچھ نہیں اس پر پھر کبھی بات کریں گے ابھی تو چلیں چھت پر ہم بہت سارے چراغ لائے ہیں چراغاں کرتے ہیں؟
کبیر بیٹا ہم نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا یہ چراغاں وغیرہ اسلام میں نہیں ہے
بلکہ نا قرآن پاک میں اسکا ذکر نا ہی کسی حدیث، شریف میں پھر آپ کیوں، لائے چراغ؟؟
مہراں کی تیوری چڑھ گئی تھی ۔
آپا میں نے بھائی جان سے پوچھا تھا انہوں نے کہا اپنی آپا سے کہنا یہ ساری مولیوں والی باتیں جاکر اپنے گھر کیجئے گا جہاں کوئی حکم کا غلام ماننے گا بھی؟؟
ابھی فلحال تو آپ چلیں میرے ساتھ ورنہ میں نے خفا ہوجانا ہے ۔۔
ارے ہوش میں تو تھے آپکے بھائی جان؟ اپنا کون سا اپنا گھر؟
بھلا یہ ہمارا گھر نہیں ہے کیا؟
اور اگر چھوٹے بھائی بات نہیں مانیں گے تو آج کے دور، میں کون حکم کا غلام بنتا ہے بھلا؟؟
ارے آپا آپ کو سمجھ نہیں آئے گی ابھی آپ چلیں پھر کبھی بتاؤں گا ۔۔
کیوں اتنی ہی کم عقل لگتی ہوں میں آپ لوگوں کو ذہانت کے وظیفے تو آپ دونوں بھائیوں کے پاس ہیں تو پھر بتا دیجئے محترم کبیر حیدر صاحب اس نے کبیر کےساتھ لالٹین پکڑے پیچھلے صحن کی طرف جاتے ہوئے اسنے طنز کیا تھا۔
ارے آپا بھائی جان کی بات کا مطلب تھا کہ اپنے میاں جی کے گھر جاکر ایسی باتیں کیجئے گا جہاں حکم کے غلام مطلب آپکے سرتاج ہر بات کو بلا کسی اختلاف کے سر تسلیم خم کریں گے؟؟؟
وہ کہتا جلدی سے سیڑھیاں چڑھنے لگا
مہراں اسکی بات کا مطلب سمجھنے لگی پھرجب سمجھ آئی تو فوراًاپنا ڈوپٹہ سنبھالتے اس کے پیچھے بھاگی تھی ۔
جو کسی ریشمی کپڑے کا تھا اور بار بار سنبھالنا پڑتا تھا
کبیر آپ بہت شیطان بنتے جارہے ہیں رکیے زرا ابھی آپکے کان کھینچ کرسبق سکھاتی ہوں ۔
----------------------
آج شب برات تھی تو مغرب کے بعد مسجد میں چھوٹا سا بیان تھا وہ سننے کے بعد گھر آیا تو اماں حلوا لے آئیں
شیر بیٹا پھر کیا سوچا تم نے؟
حلوا بہت لزیز بنا تھا اور کچھ اسے بھوک لگی تھی جبھی بھرے منہ کے ساتھ بولا
کس بارے ماں جی
جو بات کل رات کہی تھی تمہارے اور مہراں کے رشتے بارے
مہراں کے ذکر پر اسے پھندا لگا
انہوں نے فوراً سے پاس رکھے مٹکے سے اسے پانی دیا پھر کمر سہلانے لگیں
آرام سے آرام سے کہیں بھاگے نہیں جا رہے
اصل میں ماں جی حلوا بہت اچھا بنا ہے
شیر نے اپنی سی دلیل دی ورنہ تو دل مہراں کی دوپہر میں سنی باتوں کو یاد کرتے ہمکنے لگا تھا
اسکی ایک جھلک دیکھنے کو؟؟
(کیا کوئی اتنی جلدی صرف ایک دن میں آپکے دل کا قرار آپکی انکھوں کی بینائی بن جاتا ہے)
اس نے خود سے سوال کیا تھا
(ایک دن تو بہت بڑی بات کسی کو دل کا مکیں بننے میں ایک لمحہ بھی کافی ہوتا ہے یقین نہیں آتا تو آنکھوں سے پوچھ لو)
بے قرار دل نے اپنا بیان دیتے فوراً سے بال آنکھوں کے کورٹ میں پھینک دی
وہ جو دل کہ باتوں پر حیراں تھا آنکھوں سے بولا. ہاں بھئی؟
(آنکھوں نے چاروں طرف خالی خالی نظروں سے دیکھا پھر بل آخر اسے چپکے سے کہا تھا
ہمارا رزق ہے وہ صورت اسے دیکھیں تو بھوک مٹتی ہے)
شیر حیدر میں نے کچھ پوچھا ہے بیٹا تم بجائے جواب دینے کہ ہنس رہے ہو؟
اماں کی سنجیدگی بھری آواز اسے حال میں لائی تھی ۔
اماں جیسے آپ لوگ بہتر سمجھیں میں تو ایوی. ہی ہنس رہا تھا ۔
کہتے حلوے کی خالی پلیٹ رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اسکا رخ چھت کی جانب تھا جہاں کبیر چراغ جلا رہا تھا۔
--------------------
رات چاندنی تھی مگر بادلوں نے چاندا مامو کو چھپا رکھا تھا جسکی وجہ سے اندھیرا کافی گہرا تھا۔
انکی حویلی دوسرے گھروں سے تھوڑا ہٹ کر تھی جبھی چھت سے تین اطراف میں چاول اور کپاس کے کھیت دور تک نظر آتے تھے ۔
کبھی کبھی چاند بھی دور کہیں کسی بادل
سے جھانک لیتا تھا ۔
پیچھلے صحن میں لگی سدا بہار اور سیڑھیوں پر پڑے رات کی رانی کے گملوں سے میٹھی اور پھیکی خوشبو ساری کچی حویلی سمیت ایسا لگتا تھا دور دور تک کھیتوں بلکہ آسمان تک پھیلی ہوئی ہے ۔
ان لوگوں نے ساری منڈیر ہر دیے جلا لیے تھے اب پیچھلی طرف کے دو رہتے تھے جب کبیر کو نیچے سے اسکے دوستوں نے آواز دی ۔
آپا بس یہ دو ہی رہ گئے ہیں اپ جلا لیجئے میں چلا میرے میت کب سے راہ تک رہے ہونے ۔
اور خدا راہ بھائی جان کو پتا نا چلے کہ ۔میں اس وقت باہر جارہا ہوں ۔
وہ اسکے پیچھے تھوڑا دور آکر کھڑا ہوا تھا۔
ارے ایسے کیسے پتا نا چلے؟
اور ڈرنے کی ضرورت نہیں وہ کون سا آدم خور ہیں؟
میں تایا ابو سے بات کروں گی
تمہارے بھائی محترم تو لگتا آسمان سے اترے فرشتے ہیں
مجال ہے جو کبھی کوئی بات دل کو بھاتی ہو ایویں، ہی ہر وقت رعب جھاڑتے ہیں چھوڑو انہیں یہ بتاؤ یہ دیا کہاں رکھ
ایک ہاتھ کی ہتھیلی پر جلتا دیا رکھے دوسرے ہاتھ سے ڈھلکتا دوپٹہ سنبھالے شیر حیدر پر گہرا طنز کرتے وہ پلٹی تھی
ہاتھ سے دوپٹہ چھوٹا تو وہی ہاتھ منہ پر آگیا
ہااااااااااا
کیونکہ کبیر تو اسی وقت لالٹین لیے نیچے چلا گیا تھا
یہ تو کوئی اور تھا جو جھکی آنکھوں ہونٹوں پر دبی مسکراہٹ لیے کھڑا تھا۔
اس نے فوراً منہ بند کرکے نظریں جھکا لیں
ان دونوں میں جلتا دیا اور چند فٹ کا فاصلہ تھا ۔۔
اچانک ہی جھکی آنکھیں اٹھی تھی اور مقابل کی حیران پریشان کانچ جیسی آنکھوں والے چہرے پر گڑ سی گئیں تھیں ۔
مہراں کی پلکیں لرزنے لگیں اس نے لرزتے ہاتھوں سے دوپٹہ سرپر اوڑھنا چاہا جب وہ مسکراتے گنگناتے لہجے میں وہ بولا تھا
لیں جی مہراں بی بی. جی بھر کر دیکھیں اور بتائیں کس رنگ کی ہیں میری آنکھیں ؟؟
مہراں کا ہاتھ ساکت ہوا تھا اس نے ایک جھٹکے سے نظر اٹھائی تو؟؟؟؟؟
تو وقت جیسے تھم سا گیا تھا ۔
وہ آنکھیں جو ہمیشہ جھکی رہتی تھیں آج اٹھیں تو انہوں نے قیامت ڈھا دی کسی کو جیت لیا تھا ایک ہی وار میں کسی کو چارو خانے چت کردیا تھا۔۔
کچی حویلی جسکی اطراف اندھیرا اور کھیت پھیلے تھے روشنی کا اسعتارہ صرف حویلی کی چھت تھی جہاں چاروں طرف جلتے دیوں میں وہ کھڑے تھے ایک فاصلے پر ایک دوجے کے ہوتے ہوئے ۔
ٹھیک اسی وقت کبیر اور اسکے دوستوں نے گھروں سے دور انار بم اور شہنائیاں جلائی تھیں
دور ہونے کی وجہ سے آواز تو واضح نہیں تھی لیکن شہنائیں ایک سیدھ میں اوپر تک جاتیں اور بیسیوں روشنی کے جگنو بن کر نیچے زمین والوں پر برستیں
پھر نجانے ان شہنائیوں کے دل میں کیا سمائی کہ وہ سب جمع ہوکر سینکڑوں کی تعداد میں روشنی لٹاتے جگنو کچی حویلی کی چھت پر کھڑے نشیلی آنکھوں والے شیر حیدر اور کانچی آنکھوں والی مہراں پر برسانے لگی تھیں ۔۔
انہیں ایک دوسرے کی آنکھوں دیکھتے جانے کتنی دیر گزری تھی جب مہراں نے چہرے پر پھیلتی ست رنگی دھنک کو چھپانے کے لیے چہرہ جھکا لیا۔۔
کیوں بھئی اب کیا ہوگیا؟ جی بھر گیا کیا؟
شیر حیدر بہت آہستہ سے بولا تھا ۔
میں آدم خور بلکل نہیں ہوں اور نا ہی فرشتہ
ہاں
نا نی وہ میں حلوا
مہراں سے کوئی بات نہیں بن رہی تھی.۔۔
جب شیر مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے اسکی سائیڈ سے نکل کر پیچھے چلا آیا ۔
اب دونوں کی ایک دوسرے کی طرف پیٹھ تھی
مہراں بی بی آپکو یہ غلط فہمی کب سے ہوگئی کہ میں آپکو چھوٹی کاکی سمجھتا ہوں
شیر حیدر کا لہجہ بہکا ہوا بلکل نہیں تھا لیکن وہ لہجہ بہکانے کے سارے رنگ لیے ہوئے تھ
وہ کچھ بھی نا کہتے ہوئے وہاں سے جانے لگی جب کسی نے فوراً سے مڑتے ہوئے اسکی کلائی پکڑی تھی
نا چاہتے ہوئے بھی اسے ہلکا سا رخ موڑنا پڑا تھا اسکی طرف جو بڑی فرصت سے پورا کا پورا اسکی طرف مڑ چکا تھا۔
چند پل بیتے وہ لرزتی پلکوں سے زمین کو تو کوئی جان دیتی قربان ہوتی نظروں سے اسے دیکھتا رہا
پھر مسکراتے ہوئے بولا تھا یہ بھی غلط فہمی ہے کہ مجھے کوئی چیز نہیں بھاتی اصل میں مجھے چیزیں دیر سے بھاتی ہیں اور ایسی بھاتی ہیں کہ ان چیزوں کو اپنا بنا کر رہتا ہوں ۔
مہراں کی سانس جیسے بند ہوگئی تھی۔
آپکی یہ بات بھی غلط ہے کہ مجھے چاچا تاج دین بننے کا شوق ہے ۔
اصل میں تو مجھے ؟؟؟
مہراں نے زمین سے نظریں اٹھاتے فوراً سے
ہااااااا کرتے منہ ہر ہاتھ رکھا تھا جسکی وجہ سے شیر کو بات آدھی چھوڑنی پڑی؟
مہراں او مہراں
نیچے سے اسکی اماں کی آواز آئی تو وہ فوراً گھبرا گئی اور اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا جو شیر حیدر کب کا چھوڑ چکا تھا
پھر عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا تو وہ ہنس دیا
(یہ محبت کی قید بڑی عجیب ہوتی ہے ہم آزاد ہو کر بھی قید رہتے ہیں) اب جاؤ اس پہلے کہ چاچی آجائیں.۔۔
اچھا سنو
وہ سمجھی نا سمجھی میں سر ہلاتی سڑھیوں تک پہنچی تھی جب اسکے قدم ایل پھر سے زنجیر ہوئےلیکن پلٹی نہیں مبادہ کہ پتھر ہی نا بن جائے؟
اب کوئی پوچھ لے تو کیا بتاو گی کس رنگ کی ہیں میری آنکھیں
وہ چڑانا چاہتا تھا مہراں نے پلٹے بغیر کندھے اچکا دیے مجھے کیا پتا؟؟؟
حساب برابر کیا
تو وہ ہنس کر بولا
اگر کوئی پوچھے تو بتا دینا مہراں رنگ کی ہیں شیر حیدر کی آنکھیں
اچانک سے ہوا تیز ہوئی تھی سارے چراغ بجھ گئے تھے وہ دھڑکتے دل اور سن ہوتےدماغ کے ساتھ اندھیرے میں دیوار کو ٹٹولتے نیچے کی طرف بھاگی تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ اندھیرے میں لڑکھڑا کر گرتی سیڑھیوں پر روشنی سی ہوئی تھی ۔
اس نے پلٹ کر دیکھا تو شیر حیدر ایک ہاتھ میں دیا پکڑے دوسرے ہاتھ سے اس پر سائباں کیے اسکی راہوں میں روشنی کیے کھڑا تھا ۔۔