وہ کمرے میں لگے واحد چھوٹے سے شیشے کے سامنے کھڑی آنکھوں میں کاجل گا رہی تھی
آتشی پٹیالہ شلور کے ساتھ کچے گلابی گول گھیرے والی قمیض جس پر کہیں کہیں آتشی اور گولڈن شیشے لگے تھے پہنے تقریبا تیار تھی
پھر اس نے نفیس سا کالا کھسہ پہنا جس پر گلابی اور آتشی بیل بنی ہوئی تھی
کھسہ پہنے اس نے خود کو گھوم پھر کر ایک ناقدانہ نظر سے دیکھا
گھومنے سے اسکے مختلف گہرے رنگوں کے بڑے پھمن والے پراندے میں لگے گھنگھرو جھنجھنا اٹھے تھے یا جیسے انہوں نے عجیب سا ساز چھیڑا تھا
گھنگھروؤں کے انہی سازوں میں بہتے اس نے خیالوں میں خیالوں شیر حیدر کو مخاطب کیا تھا
ہے کوئی میرے جیا سوہنا پورے پنڈ میں؟ ؟ ؟
اس، نے ایک اداِ شاندار سے کہا تھا
شیر حیدر جھکی آنکھوں سے مسکرادیا اور کچھ یوں مسکرایا تھا کہ بلونت کور کے چہرے میں یکلخت کئی رنگ آکر گزر، گئے تھے
وے کملے تیری نیوی آنکھوں کے وار بھی میرے سوا کسی نے نہیں جھلنے ۔( جھیلنے)
اس بار شیر حیدر نے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر کو جھکا دیا
اور ایک بات
تیرے نال میرے سوا ہور کوئی نہیں سجنا چوہدری جی
جھکی آنکھوں سے مسکراتے جان لیتے شیر حیدر کے عکس سے کہتے ہوئے وہ باہر نکل آئی تھی جہاں بے بے کھجور کے پتوں سے پٹی ( چارپائی بنانے میں استعمال کی جاتی ہے جو گاوں کی عورتیں گھر میں بناتی ہیں) بنا رہی تھیں ۔
بے بے میری پیاری بے بے سارے کام مکا دیے ہیں اب میں چلی جاواں؟ اس نے خوشامدانہ انداز، میں بے بے کو جپھی ڈالی تھی ایسے اسکے کانوں مین پڑے بڑے بڑے چاندی کے جھمکے جن میں چھوٹے چھوٹے شیشے لگے تھے بے بے کی تھوڑی سے ٹکرائے تھے ۔
نی کہاں چلی جاواں ؟ انہوں نے دل ہی دل میں اپنی اس اکلوتی بیٹی کی نظر اتارتے سرسری سا پوچھا تھا
مہراں کے گھر اور کہاں؟
حد ہوگئی تسی پوچھ تو ایسے رہے ہو جیسے میں پورے پنڈ میں چکراتی پھرتی ہوں
بات کے آخر تک وہ خود ہی مسکرائی تھی دنداسہ لگے مسوڑھوں میں دانتوں نے موتیوں کی سی جھلک دی تھی
بے بے رخ پھیر گئیں تھیں انہیں خدشہ ہوا کہیں انکی بیٹی کے ہوش ربا حسن کو انہی کی نظر نا لگ جائے
آج شب برات ہے اور میں نے مہران کے ساتھ مل کر ماسی سے مکھڈی حلوا بنانا سیکھنا ہے -۔
اب تو دن چڑھ آیا ہے میں جاؤں؟
وہ چاہتی تھی کسی نا کسی طرح پرانے کنوے والے کھیتوں میں پہنچ جائے
جہاں آجکل چوہدریوں کہ فصلیں لگ رہی تھیں دن کا بیشتر حصہ شیر حیدر کھیتوں، میں ہی گزارتا تھا
لیکن وہ تو شام کو حلوا بناتے ہیں اب جانے کا کی فیدا؟ بے بے کی اپنی منتک تھی ۔
دیکھ بے بے سارے کام کر چکی ہوں اس دن گڑیا کی شادی پر بھی غیروں کی طرح ٹیم و ٹیم گئی تھی
سارے پنڈ کی کڑیاں مزاق بنارہی تھیں
اسکا منہ بن گیا تھا اسے خدشہ ہوا کہ اب ایک منٹ بھی لیٹ ہوئی تو اسکی ساری تیاری اکارت جائے گی
چڑھتی جوانی کے اولین خواب کا خمار تھا جو وہ ہر وقت بہکنے کو تیار رہتی تھی ۔
بلونتِ توں بندے کی پتر کب بنے گی
اب بچی نہیں رہی جوان جہان ہے یہ لور لور پھرن والے کام چھڈ دے
بے بے کو پتا نہیں کس بات پر غصہ تھا
بلونت سنتے ہی جذباتی بلیک میل کرنے لگی
بے بے حد ہوگئی سارے گھر کا کام کاج کرتی ہوں
ڈنگروں ( مال مویشی) کا دودھ تک دھو دیتی ہوں
اور تجھ سے میری چھوٹی سی خوشی برداشت نہیں ہوتی؟؟
نا نا میری سوہنی ایسی گل نہیں ہے
توں یہ بھی دیکھ نا کہ مہراں تو کبھی نہیں آئی ساڈے گھر
ہمیشہ توں ہی بھاگی بھاگی جاتی ہے تیرے ویر گورمیت سنگھ کو اچھا نہیں لگتا
اور تیرے ماما جی کا تار آیا تھا کہتا یہ مسلے ملک الگ کرنے کی سوچے جاوت ہیں ۔۔
انکا جو مسٹر جناح ہے وہ بہت فسادی بندہ ہے
کوئی فساد ہی کروائے گا اسی لیے مسلوں سے میل جول کم کر دو
واہے گرو کا کہر ٹوٹے اس مسٹر جناح پر ہم بہن بھائیوں کو الگ کرنے کی ٹھانے ہوئے ہے
بےبے زبان کی ہی کڑوی تھیں ورنہ اندر سے ساری گاؤں والی ماوں کہ طرح سیدھی سادھی تھی اسی لیے فوراً سے نرم پڑ کر جواز، پیش کیا۔
بے بے انکا دھرم الگ ہمارا دھرم الگ اسی بات کو وجہ بنا کر مسٹر جناح نے علامہ اقبال کی تجویز پر کام شروع کیا ہے
ویسے بھی ایک بات تو سچ ہے یہ ہندو بنیے بہت تنگ کرتے مسلمانوں کو اور پتا نہیں سارے سکھوں کو بھی بھڑکاتے ہیں
تے رہ گئی مہراں کی بات تو انکا دھرم کہتا ہے کہ جوان لڑکی کو اس طرح کہیں آنا جانا نہیں چاہئے ۔
ورنہ مہراں اور اسکے گھر والے مجھ سے بہت پیار کرتے اور یہ بھی تو دیکھ ناکہ ماسی تو ہر دوجے تیجے دن آتی ہے اسکی تائی بھی آپکی بیلنی ( دوست) ہے
اچھا بس بس بوھتی بک بک نا کر چلی جا لیکن اک شرط ہے
ساری شرطیں منطور بے بے جلدی جلدی بتا بلونت خوشی سے اچھل پڑی تھی۔
آکر تھاپیاں ( اپلے) تم ہی بناو گی
بات کے آخر تک بے بے کے ہونٹ ہلکی سی مسکان میں ڈھلے تھے کیونکہ وہ جانتی تھیں بلونت کور دنیا کا ہر کام کرسکتی ہے سوائے گوبر کے اپلے بنانے کے
لیکن اس وقت بلونت نے بغیر کسی تردد کے ہاں میں گردن ہلائی اور بھاگ کر دروازہ پار کر گئی
--------------------
گرمیاں کا موسم تھا انہوں نے اس بار دھان. ( چاول) کپاس کہ فصل بھی لگائی تھی چاول کی فصل کو ابھی کچھ دن پڑے تھے جبکہ کپاس تیار کھڑی تھی
اسی لیے پیچھلے کچھ دنوں سے کپاس کی چنائی کا کام شروع تھا ( کپاس کے پودوں پر پھل لگتا جو پکنے کے بعد پھٹ جاتا جس میں سے کپاس نکلتی کسان اسکو پھل سے الگ کر لیتے جسے کپاس چننا کہتے)
گرم موسم کی وجہ سے سب لوگ صبح منہ اندھیرے آجاتے اور دن گرم ہونے تک کام ختم کر لیتے تھے
شیر حیدر ایک پرانے کنوے کی سائیڈ پر بکائن کر نیچے چارپائی ڈالے بیٹھا رہتا یا کبھی کبھار کھیت کا چکر لگا کر دیکھ لیتا کہ کام سہی ہورہا ہے ۔
آج موسم کافی حد تک خوشگوار تھا شاید کسی علاقے میں بارش ہوئی تھی جبھی دھوپ کے باوجود ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔
دو دن پہلے تقریباً چاول کے کھیتوں کو لگے پانی کی وجہ سے کچی پکی باسمتی کی خوشبو ہر طول عرض میں ہھیلی ہوئی تھی
( جو لوگ گاؤں کے ہین وہ جانتے ہوں گے کہ چاول کے کھیتوں کی خوشبو بہت پیاری ہوتی)
کنوے کے اطراف کچھ سکھ چین اور مولسری کے درخت تھے جن پھر لدے پیلے جامنی اور سفید پھولوں کی بھار کے ساتھ ہلکی ہلکی کھٹی باس نے سب جگہ کو گھیرا ہوا تھا
سب لوگ کام ختم کرکے جا چکے تھے ملازم آج کی چننی جانے والی فصل کو تھوڑی دور ڈیرے پر بنے کمرے میں منتقل کرنے گئے تھے
شیر حیدر پر گہری اور، ٹھنڈی ہوا کے ساتھ چاول کے کھیتوں سے اٹھتی خوشبو نے سرور سا طاری کردیا تھا جبھی وہ اٹھ کر ڈیرے پر، جانے کی بجائے وہی بان کی چارپائی بازو کا تکیہ بنائے رات اماں بابا سے ہوئی باتوں کے بارے سوچے جارہا تھا
اماں اور بابا کا مشترکہ خیال تھا کہ اب اسکی شادی کردی جائے اس بات پر وہ بھی تھوڑا شرمایا تھا یا دل میں خوش ہوا تھا
لیکن اماں کی اگلی بات نے اسے چونکا دیا تھا
اماں کا کہنا تھا چونکہ مہراں کو سولواں سن لگ چکا ہے اب اور دیر نہیں کرنا چاہئے اور اس بار فصل گھر لاتے ہی بہو گھر لے آنی چاہئے
اماں لوگوں نے اس سے پوچھا نہیں تھا بس اپنی خواہش اور ارادہ بتایا تھا پھت اب سونے چلے گئے وہ رات کافی دیر سوچتا رہا تھا
مہراں کو آج تک اس نے اس نظر سے نہیں دیکھا تھا جب کہ مہراں بھی اسے وڈے بھاء جی کہہ کر بلاتی تھی ۔
رات تو وہ سو گیا تھا لیکن اب جیسے ہی فراغت ہوئی چھم سے مہراں کا خیال اسکے ذہن میں چلا آیا
لیکن بہے سوچنے پر بھی کوئی قابل گرفت بات اسکے ذہن میں نہیں آئی جو مہراں کو اسکی نظر میں پرکشش ثابت کرتی
پہلے کبھی اسے ایسی نظر سے دیکھا جو نہیں اسکے ذہن نے نکتہ اٹھایا؟؟
چلو اب آئندہ ایسی ہی نظروں سے دیکھوں گا
دل نے بے ایمان سی بات کہی تو اسکے ہونٹ خودبخود مسکرا دیے
پھر مہراں کو مسکراتے ہونٹوں اور کسی اور نظر سے سوچتے وہ کب سویا اسے خود، پتا نہیں چل سکا
-----------------
چوہدریوں کی حویلی انکی حویلی سے کوئی پانچ منٹ کی مسافت پر تھی ۔
چوہدریوں کے گھیت انکی حویلی کی بیک اے ہی شروع ہوجاتے تھے جنکا دوسرا سرا تیجا سنگھ کے کھیتوں اور حویلی کی ایک سائیڈ سے جاکر ملتا تھا ۔
وہ گھر سے نکلی تو سیدھے راستے پر جانے کی بجائے حویلی کی پیچھلی جانب کھیتوں سے گزرتی پکڈنڈی پر ہولی
لہک لہک کر چلتے پرندے کو گھماتے وہ بڑی ادا سے چلی جا، رہی تھی ۔
جب اچانک اسکی نظر سامنے سے آتے گورمیت سنگھ پر پڑی
ساری تیزی تراتری ہواہوگئی اس سے پہلے کے کسی فصل کی آڑ، لیتی میت بھی اسے دیکھ چکا تھا
بلونت پتر کدھر نوں چلی؟
میت کا انداز سرسری تھا لیکن لہجہ سرد
بلونت کور کی ریڑھ کی ہڈی سنسنا اٹھی تھی
اسے تو لگا بے بے اسے ڈرانے کے لیے میت کا حوالہ دیا تھا لیکن
وہ وہ ویرے آج مہراں اور میں پرانے کھو پر جارہے ہیں
سٹے کھانے ( چاول کی کچی پکی سٹیوں کو آگ پر بھون کر کھایا جاتا ہے)
بلونت کور اپنی گھبراہٹ میں دیکھ نیں پائی تھی کہ مہراں کے ذکر پر میت کے چہرے کا رنگ بدلہ تھا اور سختی کی جگہ ہنسی نے لے لی تھی
او اچھا اچھا وہ شیر حیدر کی پتریر ( چچا زاد) میت کا یو نہی پوچھنا بھی کسی جذبے کی چغلی کھا رہا تھا لیکن توجہ دیتا کون؟
ہاں جی ہاں جی اک وہی تو پکی سہیلی ہے اسکے سوا ہے ہی کون
وہ اب تک کافی سنبھل چکی تھی
او ٹھیک ہے ٹھیک ہے لیکن انکے گھر جانے کی کوئی لوڑ نہین کنوے سے ہی واپس آجانا
وہ تو آتی نہیں تم بھاگی بھاگی جاتی ہو ہم کوئی چوڑے ہیں
میت نے عجیب سے لہجے میں کہا
جواب میں بلونت بے بے کو دیا حوالہ میت کو نہیں دے پائی تھی اس لیےصرف گردن ہلانے پر اکتفا کیا
چل فیر جلدی جا مسلوں کی کڑی راہ تک رہی ہونی تیرا
تے اسے کہا کر کبھی وہ بھی ہماری حویلی آجایا کرے ہم کوئی غیر نہیں اس کے اپنے ہیں
میت نے ہنستے ہوئے کہا اور آگے چل پڑا
بلونت اسکی باتوں کو سمجھتے چلی جارہی تھی
جب اچانک اسکی سامنے نظر پڑی تو گہرے سرخ ہونٹ پھیل سے گئے تھے
کیونکہ کنوے کے اس پاس کے کھیت بلکل خالی تھے جسکا مطلب تھا کام کو آئے سارے لوگ واپس جاچکے ہیں
لیکن مسکرانے کی وجہ بکائن کے نیچے چارپائی پر بازو کا تکیہ بنائے بے سدھ سویا وہ سوہنا سابندہ تھا
جو شیر حیدر چوہدری تھا جس کی آنکھوں کا رنگ آج تک اس نے نہیں دیکھا تھا اور جسکی نیوی آنکھوں پر سارے پنڈ کی کڑیاں مرتی تھیں۔۔