یوسف مجھے بھی تمہارے ساتھ کیھلنا ہے اس نے یوسف کے پاس آ کر کہا تھا جس نے ابھی بولنگ کرنے کے لئے گیند پکڑی ہی تھی وہ اسے دیکھ کر حیران ہوا پھر سب سے معذرت کر کے اسے تھوڑا فاصلے پر لے آیا میں اکیلا تو نہیں کیھل رہا نہ سیم میرے ساتھ اور بھی لڑکے کھیل رہے ہیں اور وہ تمھیں کھلانے پر راضی نہیں ہونگے یوسف نے اسے سمجھایا نہیں مجھے کچھ نہیں پتا مجھے بھی تمہارے ساتھ کھیلنا ہے سیم نے ضد کی یوسف جانتا تھا کہ وہ بہت ضدی ہے اس لئے اب اسے کچھ سوچنا ہی پڑا سب سے پہلے اس نے سیم کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا اس نے پیلے رنگ کی ٹی شرٹ پہنی تھی اور نیچے کالے رنگ کی پینٹ تھی اسکے بواۓ کٹ بال تھوڑے سے ماتھے پر آ رہے تھے یوسف مطمئن ہوگیا اور پھر کچھ سوچ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر باقی لڑکوں کی طرف لے گیا دوستو ذرا میری بات سنو اس نے اونچی آواز میں کہا سب لڑکے اس کے ارد گرد جمع ہو گئے یوسف نے اک نظر ان سب کو دیکھا اور پھر بڑے اعتماد سے بولا یہ سیم ہے میرا کزن اور یہ ہم سب کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے سب لڑکوں نے سیم کو دیکھا اور سیم نے حیرانی سے یوسف کو ہاں ٹھیک ہے کھیلا لیتے ہیں سیم تم فیلڈنگ کر لو گے اک بڑے لڑکے نے پوچھا ہاں کر لے گا یوسف نے جواب دیا سیم نے بھی سر ہلا دیا سب لڑکے اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے تم نے جھوٹ کیوں بولا یوسف اس نے پوچھا کیوں کے ہم لڑکیوں کو نہیں کھلاتے اگر میں بتا دیتا تو کوئی تمھیں کھیلانے پر راضی نہ ہوتا سمجھی سیم نے سر ہلا دیا اچھی سی فیلڈنگ کرنا اب ناک مت کٹوانا یوسف نے اسے کہا اور بولنگ کرانے کے لئے چلا گیا سیم نے بھی اپنی جگہ سنبھال لی وہ سوچ رہی تھی کہ اسے بہت اچھے سے فیلڈنگ کرنی ہے ورنہ تو یوسف کی ناک کٹ جائے گی اور ناک کے بغیر تو وہ کتنا برا لگے گا نہ اس نے سوچ کر ہی جھرجھری لی تبھی بال اسکے پاس سے گزر کر باؤنڈری لائن پاس کر گئی سیم نے پہلے مڑ کر بال کو اور پھر دور کھڑے یوسف کو دیکھا جو غصے سے اسے ہی دیکھ رہا تھا سیم نے شرمندگی سے سر جھکا لیا
-------------------------------------------------------------------------------
سمعیہ بیٹا آ کر کھانا کھا لو سعدیہ بیگم نے کمرے میں داخل ہو کر کہا پر پورے کمرے پر نظر دوڑانے کے باوجود وہ انہیں کہیں نظر نہیں ای شائد واشروم میں ہو انہوں نے سوچا اور واشروم کی طرف بڑھ گئیں پر تبھی انکی نظر سمعیہ کے چھوٹے چھوٹے پیروں پر پڑی وہ پردے کے پیچھے تھی سعدیہ بیگم پریشان ہو گیں کیوں کہ جب بھی وہ یہاں ہوتی تو مطلب وہ رو رہی ہوتی تھی انہوں نے اگے بڑھ کر پردے ہٹا دیے چھوٹی سی روتی ہوئی سمعیہ پہلے حیران ہوئی اور پھر جلدی سے آنسو صاف کر لئے کیا ہوا ہے سمعیہ رو کیوں رہی ہو انھوں نے جھک کر پوچھا مما یوسف میری وجہ سے میچ ہار گیا اور اب وہ مجھ سے بات بھی نہی کر رہا اس نے مونھ لٹکا کر بتایا سعدیہ بیگم کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ آ گئی تم پریشان نہ ہو بیٹا میں صبح ہی جا کر یوسف کے کان کھنچتی ہوں انہوں نے اسے تسلی دی نہیں مما کان مت کھنچنا کان کھنچیں گی تو یوسف کو درد ہو گی نہ اس نے معصومیت سے کہا سعدیہ بیگم ہنس دی اچھا تو پھر کیا کروں اس کے ساتھ انہوں نے اس سے ہی پوچھا مما اپ بس تھوڑا سا اسے ڈانٹ دینا لیکن زیادہ مت ڈانٹنا اچھا بابا نہیں جیسا تم کہو گی ویسا ہی کروں گی اب جلدی چلو پاپا اور بہن انتظار کر رہے ہیں کھانے پہ سعدیہ بیگم نے کہا اور انگلی پکڑ کر اسے اپنے ساتھ نیچے لے گیں
----------------------------------------------------------------------
سیم ادھر آؤ یوسف نے پوکارا وہ جو جھولے پر بیٹھی جھول رہی تھی فوراً اسکی بات سننے کے لئے بھاگی تم نے چچی سے میری شکایت لگائی ہے کہ میں تم سے ناراض ہوں یوسف نے غصے سے پوچھا سیم نے سر جھکا لیا اس لئے میں لڑکیوں سے دوستی نہیں کرتا تم لڑکیاں کتنی شکایتی ہوتی ہو یوسف نے پھر غصہ کیا میں نے شکایت تو نہی لگائی صرف سچ بتایا مما کو سیم منمنائی ہنہ سچ یوسف نے غصے سے مونھ پھیر لیا میں مما کو جا کر بتاتی ہوں کے یوسف پھر مجھ سے ناراض ہو گیا ہے اور غصہ بھی کر رہا ہے سیم نے اسکے سامنے آ کر کہا یوسف نے اسے گھورا سیم میں نے تم سے دوستی صرف اس لئے کی کیوں کہ تم نے کہا تھا تم لڑکیوں جیسی حرکتیں نہیں کرو گی پر تم پھر کر رہی ہو اچھا نہ نہیں لگاتی شکایت پر تم مجھے بھی میچ کھلانے لے چلو سیم نے کہا نہی تم پھر میچ ہروا دو گی آج نہیں ہرواؤں گی پکا سیم نے یقین سے کہا ٹھیک ہے اگر تم نے ہروایا تو پھر تمھیں میرا ہوم ورک کرنا پڑے گا یوسف نے شرط رکھی پر یوسف تمہاری رائٹنگ بہت گندی ہے اگر میں بائیں ہاتھ سے بھی لکھوں تو تمہارے جیسا نہیں لکھ پاتی سیم نے معصومیت سے کہا یوسف شرمندگی سے سر کھجانے لگا
کیوں کہ سیم سچ ہی تو که رہی تھی
---------------------------------------------------------------------------
سمعیہ اور یوسف کزن تھے یوسف کے والد کمال صاھب بزنس مین تھے اور یوسف کی امی ہاجرہ بیگم گھر سنھبالتی تھیں یوسف انکی اکلوتی اولاد تھا سمعیہ کے والد جمیل صاھب کا بزنس الگ تھا اور انکی بیوی سعدیہ بھی گھر ہی سنھبالتی تھیں سمعیہ اور رمشا انکے آنگن کی کلیاں تھیں کمال صاھب اور جمیل صاھب کے گھر باہر سے تو الگ ہی لگتے تھے پر اندر سے اک بگیچے کے ذرئیے ملے ہووے تھے اور شام کو سب اسی بگیچے میں مل بیٹھتے تھے اس وقت بھی یہاں سب لوگ جمع تھے تمام بڑے اپنی باتوں میں مصروف تھے سمعیہ اور رمشا تھوڑے فاصلے پر بیٹھیں اپنا ہوم ورک کر رہیں تھی اور یوسف صاھب ویڈیو گیم کیھلنے میں مصروف تھے انہیں ہوم ورک کی فکر نہیں تھی کیوں کے آج پھر وہ سیم کی وجہ سے میچ ہار چکے تھے اور اب اسکا ہوم ورک سیم ہی کو کرنا تھا سیم پوری دلجمی سے گندی رائٹنگ کرنے میں مصروف تھی یوسف تھوڑی تھوڑی دیر بعد آ کر دیکھ جاتا تھا سمعیہ تمھیں کیا ضرورت ہے یوسف کا کام کرنے کی چھوڑ دو وہ خودی کر لے گا رمشا نے اسے ڈانٹا آپی اگر میں نے نہ کیا تو وہ مجھے کل اپنے ساتھ کھلانے نہی لے جائے گا سیم نے بتایا ہان تو نے نہ لے جائے تم میرے اور میری دوستوں کے ساتھ کھیل لینا کل ہم گریا کی شادی کرنے والے ہیں رمشا نے بتایا نہیں اپی مجھے گریا سے کھلنا پسند نہیں ہے سیم کام کرتے ہووے بولی اف سمعیہ تم یوسف کے ساتھ رہ رہ کر بلکل لڑکوں جیسی ہو گئی ہو گریا سے نہی کھلتی چوکلٹ نہی کھاتی اور کپڑے بھی لڑکوں جیسے پہنتی ہو میری سب دوستیں تمہارا مذاق اڑاتی ہیں سمعیہ رمشا نے غصے سے کہا سمعیہ نے لاپرواہی سے کھندے اچکاۓ دیے جیسے کے اکثر یوسف کیا کرتا تھا تم بلکل یوسف کی طرح بنتی جا رہی ہو سمعیہ رمشا نو غصے سے کہا اور اٹھ گئی سمعیہ مسکرا دی یہی تو وہ چاہتی تھی اس کی طرح بنا
یوسف باگیچے میں لگے درخت کے نیچے بیٹھا ویڈیو گیم کھیل رہا تھا اور ساتھ ساتھ سیٹی بھی بجا رہا تھا
سمعیہ بھی اسی کے پاس آ کر بیٹھ گئی کیا کر رہے ہو یوسف ! اس نے پوچھا
یوسف نے ویڈیو گیم پر ہی توجہ مرکوز رکھی
سیم کیا تم اندھی ہو اس نے پوچھا
نہیں تو بلکل بھی نہی سمعیہ نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا
اگر تم اندھی نہیں ہو تو تمھیں یہ بھی نظر آ رہا ہوگا کہ میں کیا کر رہا ہوں تمھیں نظر آ رہا ہے نہ اب کی بار اس نے نظر اٹھا کر پوچھا
ہان آ رہا ہے سیم نے ہمیشہ کی طرح شرمندگی سے سر جھکا لیا
تو جب نظر آ رہا ہوتا ہے تو تم لڑکیاں یہ سوال کیوں پوچھتی ہو اس نے ڈانٹ کر پوچھا
تم مجھے لڑکیوں کے طعنے کیوں دیتے ہو میں تو لڑکوں جیسی ہوں نہ سب لڑکیاں مجھے لڑکا ہی کہتی ہیں اس نے فخر سے بتایا
یوسف نے بس کھندے اچکا دیے سیم نے بھی اسکی دیکھا دیکھی بلکل ایسے ہی کھندے اچکاۓ
تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد وہ پھر بولی یوسف تم تھوڑی دیر پہلے سیٹی بجا رہے تھے نہ یوسف نے اسے گھورا وہ گڑبڑا گئی
ہان میں نے سنا تھا تم سیٹی بجا رہے تھے میں تو بس ویسے ہی پوچھ رہی تھی
تمھیں بھی سیکھنی ہے یوسف نے ویڈیو گیم بند کر کے پوچھا
سمعیہ نے خوشی سے سر ہلا دیا وہ یہی تو کہنا چاہ رہی تھی یوسف نے اسے اک دفع سیٹی بجا کر دکھائی پر سمعیہ کے مونھ سے صرف پھونک ہی نکلی پھر تقریباً دس منٹ کی بھرپور کوشش کے بعد سمعیہ سیٹی بجانے میں کامیاب ہوئی پر اس کا چہرہ سرخ گلاب کی طرح ہوگیا کچھ خوشی سے اور کچھ پھونکیں مار مار کہ پر جب یوسف نے اس کے لئے تالی بجائی تو اسکی ساری محنت جیسے وصول ہو گئی
----------------------------------------------------------------------------------- سیم تمہارے ساتھ آخر مسلہ کیا ہے وہ اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی ہوم ورک کر رہی تھی جب وہ دندناتا ہوا اسکے کمرے میں آیا اور غصے سے پوچھا اب میں نے کیا کیا سیم اسکی طرف موتوجہ ہوئی
تم نے چچی سے کہا کہ میں نے تمھیں سیٹی بجانا سکھائی ہے اس نے غصے سے گھورتے ہووے بتایا
تو کیا نہیں سکھائی سیم نے معصومیت سے پوچھا
سیم کی بچی یوسف نے غصے کو قابو کرنے کے لئے مٹھیاں بیھنچ لی
یوسف تم نے مجھے منع تو نہی کیا تھا کے میں مما کو نہ بتاؤں یوسف نے اپنے غصے کو پر قابو کیا اور سیم کے پاس ہی اک کرسی پر بیٹھ گیا
سیم لڑکے ہر بات ہر کسی کو نہیں بتاتے اس نے سمجھانے کی کوشش کی
مما پاپا کو بھی نہیں سیم اور اسکے معصومیت بھرے سوال
ہان کچھ باتیں مما پاپا کو بھی نہیں بتاتے لڑکے اس نے اک دفع پھر سمجھایا
پھر جب مجھے کوئی بات بتانی ہو تو کسے بتایا کروں سیم نے پوچھا
یوسف نے کچھ دیر سوچا
تم مجھے ساری باتیں بتا دیا کرو ہم مین ٹو مین بات کریں گے ٹھیک ہے نہ یوسف نے پوچھا
سیم نے سر ہلا دیا
پرومس یوسف نے ہاتھ بڑھایا ہان پکا پرومس سیم نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا
-------------------------------------------------------------------------------- یوسف ! وہ روتی ہوئی اس کے پاس ائی
یوسف نے آنکھیں کھولی اسے آج بخار تھا اس لئے چپ چاپ بستر پر لیٹا ہوا تھا
کیا ہوا ہے سیم رو کیوں رہی ہو اس نے فکر مندی سے پوچھا اور اٹھ کر بیٹھ گیا
وہ میں آج اکیلی ہی میچ کھلنے چلی گئی تھی ...آج پھر ٹیم میری وجہ سے ہار گئی
تم ساتھ نہیں تھے اس لئے سب بڑے لڑکوں نے مجھے بہت ڈانٹا اور کہا کے کل سے نہ آؤں اور اک نے تو مجھے گالی بھی دی..
بیشک یوسف ابھی بچہ تھا پر اسکی چھوٹی سے غیرت ابھی زندہ تھی کوئی اسکی دوست کو برا کہے اور وہ کچھ نہ کرے ابھی ایسا بھی وقت نہی آیا تھا
چلو میرے ساتھ یوسف بستر سے اٹھ کر جوتے پہنے لگا اور پھر اسے لے کر کمرے سے باہر نکل آیا
ہاجرہ بیگم کچن میں اس کے لئے سوپ بنا رہی تھیں وہ دونوں ان سے چھپ کر باہر نکل ہی رہے تھے کہ ہاجرہ بیگم کی نظر ان پر پڑ گئی یوسف اس حالت میں کہا جا رہے ہو انکی آواز پیچھے سے ای
بھاگو! یوسف نے کہا
اور سیم کا ہاتھ پکڑ کر جلدی سے باہر بھاگ گیا حجرہ بیگم فکر مندی سے چلاتی ہی رہ گیں
کیھل کے میدان میں اس وقت صرف چند ہی لڑکے تھے باقی سب جا چکے تھے
سیم تمھیں کس نے گالی دی تھی
منیر نے سیم نے سامنے کھڑے لڑکے کی طرف اشارہ کیا
یوسف غصے سے اس کی طرف بڑھا سیم بھی اس کے ساتھ ہو لی
تم نے سیم کو گالی دی یوسف نے منیر کا کالر پکڑ کر پوچھا
پہلے تو وہ حیران ہوا اس اچانک افتاد پر پھر تن کر بولا" ہان دی ہے تیرے کزن کو کیھلنا تو آتا نہیں روز ہروانے آ جاتا ہے"
اس کے اقرار کرنے کی دیر تھی یوسف نے کیھنچ کر اسکے مونھ پر تھپڑ مارا
بس پھر کیا تھا دونوں میں ہاتھا پائی شروح ہو گئی
یوسف نے اس لڑکے کو نیچے گرا دیا اور تھپڑوں کی برسات کر دی سیم نے بھی جوش میں آ کر اک دو تھپڑ لگا دیے
کچھ ہی دیر میں میدان میں جو بڑے لڑکے تھے وہ بھی آ گئے اور منیر کو چھڑوا لیا یوسف نے بغیر کچھ کہے سیم کا ہاتھ پکڑا اور وہاں سے چل دیا منیر پیچھے سے دھمکیاں ہی دیتا رہ گیا
----------------------------------------------------------------------------