آج دیر ہو گئی سوری عون صبح دیر سے آنکھ کھلی تھی -
اس نے جلدی سے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھلولتے ہوئے کہا -
اور بیگ پیچھے رکھ کر دروازا لاک کر دیا-
عون نے بنا کچھ کہے گاڑی اسٹارٹ کر دی -
عون اپ کو پتا ہے آج میں کتنی خوش ہوں ہائے آج وہ کمینا اوپس میرا مطلب کھڑوس سر نہیں آئے گا ہم سب نے مل کر اسے بھگا دیا ہر بار مجھے کلاس سے باہر نکال دیتا تھا -
آرزو بولتی جا رہی تھی اور عون چپ چاپ گاڑی چلا رہا تھا -
ویسے بھی آرزو کو بولنے کی بیماری تھی وہ کبھی چپ نہیں ہوتی تھی کوئی اس کی بات سنے نا سنے وہ بولتی رہتی تھی -
اور عون پتا ہے رات کو میں نے ایک ہارر فلم دیکھی اف کیا بتائوں کتنی ڈرائونی چڑیل تھی یے لمبے لمبے دانت اور تو اور دادو کے ڈنڈے جتنے لمبے ناخن
وہ ابھی بول رہی تھی گاڑی رکی کالج آ گیا تھا عون خاموشی سے اتر گیا آرزو نے اس کی طرف دیکھا تو
ارے یے کیا یے محترم تو چلے گئے
کالج آگیا مجھے پتہ ہی نا چلا "
آرزو گاڑی سے اتر کر عون کے پیچھے بھاگی
اللہ عون کتنا تیز چلتے ہیں آپ مجھے بھاگ کر چلنا پڑتا ہے -
آرزو نے ہانپتے ہوئے کہا-
تو کس نے کہا ہے میرے ساتھ چلو "
عون نے چلتے ہوئے بیزاری سے پوچھا"
مجھے تو ساری زندگی آپ کے ساتھ چلنا ہے آخر کو نکاح ہوا ہے ہمارا-
عون بنا کچھ بولے اپنے فرینڈس کے پاس چلا گیا جو کے اسی کا ہی انتظار کر رہے تھے -
عون کا فائنل یئیر تھا اور آرزو ابھی سیکنڈ یئیر میں تھی دونوں کا نکاح پانچ سال پہلے ہو گیا تھا دونوں چچا زاد تھے اور نکاح انکی دادی فرحہ شاہ کی خواہش پر ہوا تھا
فرحہ شاہ اور اکرم شاہ کے دو بیٹے تھے
بڑے بیٹے کا نام مشتاق شاہ اور ان کی بیگم ثمینہ ان کے دو بیٹے تھے بڑا عون اور چھوٹا حیدر-
چھوٹے بیٹے کا نام عثمان شاہ اور ان کی بیگم زرمین ان کی ایک ہی بیٹی تھی آرزو جو کے عون سے تین سال چھوٹی تھی وہ بچپن سے ہی عون کو پسند کرتی تھی اور اب تو ان کا نکاح بھی ہوگیا تھا اس لیئے وہ بہت خوش تھی -
اکرم شاہ تین سال پہلے ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے -
آرزو سب کی لاڈلی تھی پر سب کو اس کے زیادہ بولنے عادت بلکل پسند نہیں تھی ایسا کوئی دن نہیں ہوتا تھا جس دن وہ خاموش ہو وہ تو دو پل کے لیئے بھی خاموش نہیں ہوتی تھی -
اور دوسری طرف ہے عون بلکل سنجیدہ اور خاموش ضرورت کے وقت بولنا ہی اسے پسند تھا زیادہ بولنے والے لوگ اسے زھر لگتے تھے
غصہ تو ہمیشہ اس کا ناک پر رہتا تھا -
کیسی ہو کمینیوں "
آرزو نے کلاس میں داخل ہوتے اپنی دوستوں سے پوچھا-
جب تک بڑی کمینی نہیں آئی تھی تب تک تو ٹھیک تھے پر اب کہاں شیطان کی نانی کی اینٹری جو ہو گئی -
آصفہ نے اسے دیکھتے ہی چڑ کر کہا-
کیوں کی کل آرزو کی وجہ سے اسے بھی کلاس سے نکال دیا گیا تھا-
کمینی جل ککڑی تو تو جل جل کے ہی مر جانا -
آرزو نے اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا-
یار آرزو خدا کا واستہ ہے آج کوئی پنگا مت کرنا پلیز "
وانیہ نے تو اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے -
اچھا اچھا کچھ نہیں کروں گی اپنی شکل ٹھیک کر فقیرنی لگ رہی ہو بلکل -
آرزو نے اس پر احسان کر دیا "
شکر ہے وانیہ نے سکھ کا سانس لیا
آرزو ہمیشہ لیکچر کے دوران ایسی حرکتیں کر دیتی تھی جس سے ان تینوں کو کلاس سے باہر نکال دیا جاتا تھا """
آج اس نے ان پر احسان کیا اور سارے لیکچر آرام سے نوٹ کیئے آج اس نے کوئی شیطانی نہیں کی تھی -
شکر ہے آج تونے کچھ نہیں کیا ورنا آج بھی کلاس سے باہر ہوتے
وہ تینوں پارکنگ ایریا کی طرف جا رہی تھی تب آصفہ نے کہا-
یار تم لوگ نا ایسے مجھ سے تنگ ہو میں اتنی بھی بری نہیں ہوں جتنا سب سمجھتے ہیں -
آرزو نے منہ بسورتے ہوئے کہا
ہا تو اس سے بھی زیادہ بری ہے بیٹا-
وانیہ نے اسے چڑاتے ہوئے کہا
دیکھ لینا جب مر جائوں گی نا تب سب کو میری قدر ہوگی -
آرزو نے نقلی آنسو صاف کرتے ہوئے کہا -
ہاہاہاہاہا اب ہماری قسمت اتنی بھی اچھی نہیں کے تجھ سے چھٹکارا مل جائے اللہ بھی تجھ سے تنگ ہوگا وہ تجھے اپنے پاس بلکل نہیں بلائے گا-
آصفہ نے مزاک اڑاتے ہوئے کہا-
تو نا بات ہی نا کر مجھ سے کمینی -
آرزو نے ناراض ہوتے ہوئے کہا -
ارے یار مزاک کر رہی ہوں تو تو سریئز ہی ہو گئی -
آصفہ نے اسے مناتے ہوئے کہا-
ہاہا مجھے پتا تھا تو مزاک ہی کر رہی ہے ورنہ مجھ جیسی پیاری سے لڑکی سے کون بیزار ہوگا-
آرزو نے اتراتے ہوئے کہا -
سوائے عون بھائی کے
وانیہ نے آصفہ کے ساتھ تلائی بجاتے ہوئے شرارت سے کہا-
تم لوگوں کو کس نے کہا وہ مجھ سے بیزار ہے غلط فھمی ہے تم لوگوں کی آرزو نے منہ بنا کے کہا-
جائو وہ دیکھو تمہارے شوہر صاحب انتظار کر رہے ہیں -
آصفہ نے اسے دھکا دیتے ہوئے کہا-
اور وہ گرتے گرتے بچی -
آرزو تمہیں ٹھیک سے چلنا نہیں آتا کیا ابھی گر جاتی تو "
عون نے اسے غصے سے کہا-
آپ کو یے دکھا کے میں گرنے والی تھی پر یے نہیں دکھا کے اس چڑیل نے مجھے دھکا دیا تھا -
آرزو نے گاڑی میں بیٹھتےہوئے کہا-
عون چپ رہا
وہ چپ ہوتا تھا تب بھی وہ اتنا بولتی تھی اب اگر بات کرےگا تو پتا نہیں کتنا بولے گی اس لیئے چپ بیٹھنا ہی سمجھداری ہے
عون بڑے پاپا نے آپ کو کہا تھا نا مجھے شاپنگ کرانے کے لیئے ایک ہفتہ ہوگیا ہے آپ مجھے نہیں لیکر گئے -
آرزو نے اسے گھور کے کہا-
میں نے کہا تھا میں بزی ہوں تم حیدر کے ساتھ چلی جائو تم نہیں گئی اب ایک ہفتہ اور انتظار کرنا ہے تو کرو کیوں کے میرے تو ٹیسٹ چل رہے ہیں -
عون نے بے نیازی سے کہا -
ٹھیک ہے میں انتظار کر لوں گی -
آرزو نے اداس ہوتے ہوئے کہا-
عون نے کچھ پل اسے دیکھا اور پھر سے اپنی نظریں پھیر دیں -
تم جائو مجھے کچھ کام ہے میں رات میں آئوں گا سب کو بتا دینا -
گھر کی گیٹ پر کار روکتے ہوئے عون نے اس سے کہا-
ٹھیک ہے میں بتا دوں گی
آرزو مسکرا کے بول کر چلی گئی -
وہ ایسی ہی تھی کبھی کسی سے زیادہ دیر تک ناراض نہیں ہوتی تھی -
گھر پہچ کر اس نے سب کو عون کا پیغام دیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی کچھ دیر بعد اسے دادی کا بلاوا آیا تو ان کے کمرے میں چلی گئی -
اسلام علیکم دادی جان آپ نے بلایا::
آرزو نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا -
واعلیکم سلام -آئو ادھر مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے -
دادی نے اسے اپنے پاس بلاتے ہوئے کہا-
آرزو کل رات تم کیوں رو رہی تھی -
انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا-
م میں کہاں روئی تھی دادو آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی میں بھلا روتی ہوں کیا-
آرزو نے مسکراتے ہوئے کہا-
آرزو میں تمہارے باپ کی ماں ہوں تم مجھ سے نہیں چھپا سکتی -
میں کل رات آئی تھی تمہارے کمرے میں میں نے دیکھا تھا تم رو رہی تھی کسی نے کچھ کہا ہے کیا عون نے کچھ کہا-
دادو نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے پوچھا-
وہ دادو مجھے امی کی یاد آ رہی تھی اگر اس دن میں مر گئی ہوتی تو امی آج زندہ ہوتی اور بابا بھی خوش ہوتے -
آرزو نے نظریں نیچے کرتے ہوئے نم لہجے میں کہا-
میری جان وہ ایک حادثہ تھا اس میں تمہاری غلطی نہیں تھی -
دادو نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا-
نہیں دادو میری غلطی تھی امی نے مجھے منا کیا تھا باہر کھیلنے مت جانا میں پھر بھی کھیلنے گئی بابا نے بھی روکا تھا پھر پتا نہیں کیسے ایک تیز رفتار گاڑی میری طرف بڑھتی ہوئی آئی مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا مجھے لگا میں مر جائوں گی میں نے اپنی آنکھیں بند کردیں کسی نے مجھے دھکا دیا اور میں روڈ پر گر گئے اور پھر جب میں نے اپنی آنکہیں کھولیں تو وہاں گاڑی نہیں تھی دادو وہاں میری امی خون میں لت پت پڑی تھی اور بابا ان کو اٹھا رہے تھے
امی نے میری جان بچانے کے لیئے اپنی جان دائو پر لگا دی اور میں بچ گئی کاش کے امی مجھے نا بچاتی کاش کے ان کی جگہ میں مر گئی ہوتی
اس دن سے بابا مجھے ان کی موت کا زمیدار سمجھتے ہیں اس دن میں نے صرف اپنی ماں ہی نہیں بلکے باپ کو بھی کھو دیا دادو
وہ پہوٹ پہوٹ کر رو دی دادی کی آنکہیں بھی نم ہوگئی انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگایا -
بس کر جا میری جان کیوں اپنی بوڑھی دادی کو تکلیف دے رہی ہو -
دادی نے اسے چپ کراتے ہوئے کہا -
اور وہ ان سے الگ ہوئی اور اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی ،،،
میں نہیں روتی دادو آپ پریشان نا ہو میں بہت بہادر ہوں آپ جانتی ہو نا-
دادو نے اسے پیار کیا
کھانا کھایا تم نے-
آرزو نے ان کی گود میں سر رکھ دیا اور دادو نے اس کی بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا -
نہیں مجھے بوکھ نہیں تھی -
آرزو نے لاڈ سے کہا-
اوو شٹ دادو مجھے تو اسائیمینٹ کمپلیٹ کرنا ہے بھول گئی -
آرزو نے اپنے سر پر مارتے ہوئے کہا اور جلدی سے اٹھ کر بھاگنے لگی -
آرزو بیٹا کھانا کھا لینا -
اسے پیچھے سے دادو کی آواز آئی -
وہ پیچھے دیکھتے ہوئے آگے جا رہی تھی -
جی جی دادو کھا لوں گی -
اس نے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا اور جیسے ہی مڑی ٹھا وہ کسی ٹکرا گئی -
اففف دن میں تارے نظر آگئے
آرزو نے اپنا سر مسلتے ہوئے کہا -
اور جیسے ہی نظر اوپر اٹھی سامنے عون کھڑا تھا جو غصے سے اسے گھور رہا تھا اسے آرزو کی یے ہی عادتیں بری لگتی تھی -
تم کبھی دیکھ کر چل سکتی ہو -
عون نے غصے سے کہا-
ایک منٹ مجھے تھوڑا ہوش آ جائے پھر بات کرتی ہوں میرا سر ابھی تک چکرا رہا ہے آخر کو اسٹون مین سے ٹکرائی ہوں ---
آرزو نے اپنا سر دائیں بائیں گھما کر کہا-
تم سے تو بات کرنا ہی بیکار ہے -
اس بار عون نے بیزاری سے کہا-
آپ مجھ سے بات ہی کب کرتے ہیں ہمیشہ میں ہی بولتی رہتی ہوں -
آرزو نے نروٹھے پن سے کہا-
پتا نہیں کہاں پہنس گیا ہوں -
عون نے اسے اپنے سامنے سے ہٹاتے ہوئے کہا اور چلا گیا-
ہونہو کبھی سیدھے منہ بات نا کرنا
ہمیشہ ہٹلر کا ابا ہی بنا رہے گا کھڑوس -
آرزو نے منہ بنا کے سوچا اور چلی گئی -
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
آرزو کہاں ہو مجھے شرٹ پریس کر کے دو میرے دوست کی برتھ ڈے ھے اور مجھے یے شرٹ پہن کے جانا ہے -
حیدر اسے ڈھونڈتے ہوئے اس کے کمرے میں آ گیا اور اس کی طرف شرٹ پھینک دی جو اس کے ہاتھ میں تھی -
کیا ہے دکھ نہیں رہا میں پڑھائی کر رہی ہوں رجو سے بولو وہ کر کے دے گے جب دیکھو یے کر کے دو وہ کر کے دو -
آرزو نے شرٹ اس کی طرف پھیکتے ہوئے کہا-
رجو دوسرے کام کر رہی اس لیئے ٹائیم ویسٹ مت کرو اور جلدی سے پریس کرو اس نے پھر سے شرٹ اس کی طرف اچھالی -
اور اس کی بکس ہٹاکر بیڈ پر ترچھا لیٹ گیا-
رجو کام کر رہی ہے تو کیا میں تمہاری نوکرانی ہوں کیا-
آرزو نے اسے کشن مارتے ہوئے کہا جو کے اس نے آرام سے کیچ کر لیا -
تم نوکرانی نہیں میری پیاری سی دوست پلس بہن پلس بھابی ہو اپنے اک لوتے دوست پلس بھائی پلس دیور کا اک چھوٹا سا کام نہیں کر سکتی تم-
حیدر نے معصومانہ انداز میں کہا-
تم نا بہت کمینے ہو ہمیشہ اپنا کام نکلوا لیتے ہو -
وہ کتاب سمیٹتے ہوئے بولی اور شرٹ لے کر چلی گئی -
یے ہوئی نا اچھی بہنوں والی بات -
حیدر نے پیچھے سے ھانک لگائی پر وہ جا چکی تھی -
حیدر آرزو سے چھے مہینے بڑا تھا وہ بچپن سے دوست تھے -
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آج آرزو جلدی تیار ہوکر آ گئی تھی کل والی عون کی گھوریاں اسے یاد تھی بھلے ہی وہ کچھ نہیں بولا تھا پر اسے غصہ بہت آیا تھا----
آج اس نے بلیک حجاب لیا ہوا تھا وہ بہت پیاری لگ رہی تھی -
وہ کچھ پل کھڑی اس کا انتظار کرنے لگی تب ہی سامنے سے عون آتا نظر آیا ہمیشہ کی طرح چہرے پر سنجیدگی آنکھوں میں روب وہ بہت ہینڈسم تھا آرزو یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی کاش عون مجھے بھی کبھی ایسے دیکھتا جیسی میں دیکھتی ہوں "
آرزو نے حسرت سے سوچا -
وہ قریب پہچ گیا آرزو نے اپنی نظریں جھکا لیں
وہ اس کے وقت پر تیار ہونے سے حیران تو ہوا بٹ بولا کچھ نہیں اور خاموشی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا -
مجال ہے جو یے بندا کچھ بول دے مجھے طعنا ہی دے دیتا کے یے سورج آج کہاں سے نکلا ہے پر نا جی یے کہڑوس بابا تو چپی کا روزا رکھتا ہے اگر کچھ بولے گا تو گناہ ہو جائے گا نا-
آرزو منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگی گاڑی کا ہارن سن کر وہ چپ ہوئی اور چپ چاپ آکر گاڑی میں بیٹھ گئی -
اس کے بیٹھتے ہی عون نے گاڑی بھگا لی -
عون بڑی ماں بول رہی تھی کے آپ لنڈن چلے جائیں گے دو سال کے لیئے پلیز نا جائیں نا میں آپ کے بنا کیسے رہوں گی -
آرزو نے مایوسی سے کہا-
میں تمہارے ساتھ رہتا ہی کہاں ہوں -
عون نے بے نیازی سے کہا-
پر میرے سامنے تو رہتے ہیں نا -
جواب ترنت آیا -
عون واپسی پر آپ مجھے گول گپے کھلائیگا آپ کو پتا ہے نا میں اداس ہوتی تو گول گپے کھاتی ہوں -
آرزو نے معصوم سی شکل بنا کے کہا -
اس دن تو تم بول رہی تھی کے جب تم خوش ہوتی ہو تو گول گپے کھاتی ہو-
عون نے خفگی سے کہا-
میں نے ایسا بولا تھا کیا لگتا ہے بھول گئی شاید -
آرزو نے معصومیت سے کہا-
اور عون بے ساختہ مسکرا دیا -
تو اس کا مطلب آپ مجھے گول گپے نہیں لے کر دے گے -
میں نے ایسا تو نہیں کہا -
عون نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا-
مطلب لے کر دیں گے ہائے میں جانتی تھی آپ بہت اچھے ہیں آپ میری بات ہمیشہ مانتے ہیں اور آپ نا اداس مت ہوئی گا مجھ سے دور ہونے کی وجہ سے آپ دیکھیئے گا دو سال چوٹکیوں میں گزر جائیں گے "
آرزو نے مسکراتے ہوئے کہا وہ جانتی تھی اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا اس سے دور ہونے سے
اداس تو وہ خد ہوگی پر وہ ایسی باتیں کر کے خد کو تسلی دیتی تھی -
تمہیں کس نے کہا میں تمہارے بنا اداس ہو جائوں گا ؟
عون نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا-
ہمم میرے دل نے -
آرزو نے سوچتے ہوئے جواب دیا -
تمہارا دل بھی تمہاری طرح پاگل ہے-
عون نے گاڑی روکتے ہوئے کہا کیوں کی وہ لوگ کالج پہچ گئے تھے-
ہا آپ کی محبت میں آرزو نے دل میں کہا "
سوچا نہیں اچھا برا دیکھا سنا کچھ بھی نہیں
مانگا خدا سے رات دن تیرے سوا کچھ بھی نہیں
سوچا تجھے دیکھا تجھے چاہا تجھے پوجا تجھے
میری خطا میری وفا تیری خطا کچھ بھی نہیں
جس پر ہماری آنکھ نے موتی بچھائے رات بھر
بھیجا وہی کاغذ اسے ہم نے لکھا کچھ بھی نہیں
اک شام کے سائے تلے بیٹھے رہے وہ دیر تک
آنکھوں سے کی باتیں بہت منہ سے کہا کچھ بھی نہیں
احساس کی خوشبو کہاں آواز کے جگنوں کہاں
خاموش یادوں کے سوا گھر میں رہا کچھ بھی نہیں
دو چار دن کی بات ہے دل خاک میں مل جائے گا
جب آگ پر کاغذ رکھا باقی بچا کچھ بھی نہیں
کیا دیکھ رہی ہو گاڑی سے اترنا نہیں ہے کیا -
عون نے اسے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو اس کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے کہا -
اور وہ ایک پیاری سی مسکراہٹ اس کی طرف اچھال کر چلی گئی -
عون بھی مسکرا دیا-
پاگل -
اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا-
اور گاڑی لاک کر کے اندر چلا گیا-
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
عون وہ مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے
عون کا دوست اسامہ اس کے پاس آکر بولا
وہ جو نیا لڑکا آیا ہے نا عمیر وہ نا بھابی کے بارے میں بکواز کر رہا ہے -
کیا مطلب کیسی بکواز -
عون نے کرخت لہجے میں کہا -
وہ اپنے دوستوں کو بول رہا تھا کے وہ آرزو بھابی سے محبت کرتا ہے اور بہت جلد انہیں پرپوز کرے گا -
اسامہ نے ساری بات اسے بتائی -
کہاں ہے وہ
عون کی غصے سے رگیں تن گئی اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اس کا بس نہیں چل رہا تھا عمیر کا منہ توڑ دے -
وہ غصے سے عمیر کی طرف گیا جو کے کینٹین میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا اور یقینن وہ اس وقت بھی آرزو کے بارے میں بات کر رہا تھا-
عون نے غصے سے اسےکالر سے پکڑ کر کھڑا کیا-
تیری اتنی ہمت جو تو آرزو کے بارے میں بکواز کر رہا ہے آج کے بعد اگر اس کا نام بھی لیا تو جان لے لوں گا -
عون نے غصے سے ایک ایک لفظ چبا چبا کے کہا-
میں کوئی بکواز نہیں کر رہا اس کے بارے میں بس میں اس پیار کرتا ہوں تم کیوں اتنا ہائیپر ہو رہے ہو شی از جسٹ یور کزن اتنا پزیسو ہونے کی ضروت نہیں "
اس نے اپنے کالر چھڑاتے ہوئے کہا-
عون نے ایک اس کے منہ پر لگائی وہ اس کا ایک پنج بھی نا سہہ سکا اور لڑکھڑا کے نیچے گر گیا -
وہ صرف میری کزن نہیں بیوی ہے آرزو عون شاہ اور مجھے بلکل برداشت نہیں کوئی میری بیوی کے بارے میں بات کرے آج پہلی غلطی سمجھ کر چھوڑ رہا ہوں پر آئیندہ اگر کبھی اس کا نام لیا تو سیدھا اوپر پہچا دوں گا -
عون نے اس کا جبڑا اپنی گرفت میں لیکر کہا اور کرسی کو ٹھوکر مارتا ہوا چلا گیا -
عمیر کے دوستوں نے اسے اٹھایا اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا -
یار تم لوگ پہلے نہیں بتا سکتے تھے وہ اس ریسلر کی بیوی ہے میں اس کا نام خواب میں بھی نا لیتا -
عمیر نے اپنے دوستوں کو غصے سے کہا-
یار ہمیں بھی نہیں پتا تھا بس یے پتا تھا کے دونوں کزنز ہیں -
چلو اب بکواز نہیں کرو اور مجھے ہوسپیٹل لے کر جائو قسم سے بہت درد ہو رہا -
اس کی حالت دیکھ کر باقی سب ہنسنے لگے اس کے دوست اسے سہارا دیکر لے گئے –
☆☆☆☆