ایان آفس کے وقت پر تیار ہوا اور ناشتے کی ٹیبل پر آگیا۔
” تمہیں لگتا ہے، وہ تمہیں مزید جاب پر رکھیں گے۔؟“
اکاش ملک نے طنز کیا۔
” ڈیڈ۔۔۔۔۔۔وہ مجھے یا نکالیں گے، انکی جاب انکے منہ پر مار کے آٶں گا۔“
ایان نارملی بولا تو اکاش ملک چڑ گٸے۔
” تم چاہتے کیا ہو ہم سے۔؟ اور کتنا رسوا کرو گے ہمیں۔؟“
اکاش ملک اس سے بری طرح تنگ آۓ ہوۓ تھے۔
” مام یہ ناشتے کی ٹیبل ہی ہے نا، جسے آپ کے ہزبینڈ نے کورٹ کا وٹنس باکس بنا ڈالا ہے، ہر روز ان کا نیا سوالنامہ تیار ہوتا ہے۔“
ایان زچ ہو کر بولا۔
” تو تم اپنی حرکتیں سدھار لو۔“
راٸنہ بیگم ڈپٹ کر بولیں۔
” اوہ۔۔۔۔میں تو بھول ہی گیا تھا، آپ بھی ان ہی کی واٸف ہیں۔“
ایان نے طنزاً کہا۔
عناٸیہ چپ چاپ کھانا کھارہی تھی۔
اکاش ملک نے سخت نظر اس پر ڈالی۔
ناشتہ کر کے وہ اٹھ کے چلا گیا۔
گاڑی ناٸک سافٹ وٸیر کمپنی کی پارکنگ لاٹ میں رکی، وہ آرام سے چلتا اندر داخل ہوا، آج اس کے ہاتھ میں بیگ نہیں تھا۔
وہ اندر داخل ہوا تھا۔
ساریہ ناٸک بے حد غصے میں لگ رہیں تھیں، مطلب ورکرز کی شامت آٸی ہوٸی تھی۔
” ویلکم مسٹر ایان۔“
ساریہ ناٸک اسے دیکھتے ہوۓ طنزاً بولی۔
ایان نے کندھے اچکاۓ اور اسکی طرف بڑھا، ورکرز اور آفیسرز کے رنگ فق ہوۓ تھے۔
” یو آر۔۔۔۔۔“
ساریہ ناٸک بولنے لگی تھی جب ایان نے اسکی بات کاٹ اور ریزینیشن لیٹر ٹیبل پر پھینکا۔
” عزت دل سے ہوتی ہے ساریہ ناٸک، زبان سے صرف خوشامد ہوتی ہے، اور ایان ملک خوشامد نہیں کرتا۔“
ایان روکھے لہجے میں فرنچ میں بولا تھا۔
” تمہارے لیے یہاں کسی کے دل میں عزت نہیں ہے، صرف ڈر ہے۔“
ایان اسکے متغیر ہوتے چہرے کی پرواہ کیے بغیر بولتا رہا۔
ساریہ ناٸک ضبط کی انتہا پر تھی۔
” کسی کے دل میں ڈر پیدا کرنا آسان ہے، اور عزت پیدا کرنا مشکل ہے“
آیان استہزایہ ہنسا تھا۔
” ان سب ہی لوگوں کو آپ کا ڈر نہیں ہے، جاب جانے کا ڈر ہے، تب ہی آپ سے ڈرتے ہیں، اور آپ جیسے لوگ اسے اپنا کمال سمجھ بیٹھتے ہیں۔“
ایان نے تمسخر سے اسے دیکھا، ساریہ ناٸک کا مارے خفت کے برا حال تھا۔
” گیٹ لاسٹ فرام ہیر۔“
ساریہ ناٸک دھاڑی تھی۔
ایان اسے گھورتے ہوۓ آفس بلڈنگ سے نکل آیا۔
اسکا رخ اپنے ایک دوست کی طرف تھا، وہ اپنا بزنس سٹارٹ کرنے کی سوچ رہا تھا۔
اسے بالاج ناٸک کو ہرانا تھا، اور اسنے ٹھان لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ رہا اس لڑکی کا ایڈریس اور اس سٹور پر وہ جاب کرتی ہے۔“
عینا نے فخریہ نظوں سے اکاش ملک کی طرف دیکھا، جو مسکرا رہے تھے۔
” بہت خوب۔“
وہ مبہم سا مسکراۓ۔
” راٸنہ بیگم، آپ بھی چلیں۔“
اکاش ملک انہیں کہہ کر چینج کرنے کی غرض سے چلا گیا۔
کچھ ہی دیر میں گاڑی کیلگری کی شفاف سڑکوں پر دوڑتی جا رہی تھی۔
عینا پچھلی سیٹ پر بیٹھی، کچھ ہی دیر میں لگنے والے تماشے کی منتظر تھی۔
” وہ اس وقت جاب پر ہوگی۔“
عینا نے کہا تو اکاش ملک نے گاڑی مارکیٹ کی طرف موڑ لی۔
سٹور پر رک کر وہ اترے اور راٸنہ کے ہمراہ چلتے ہوۓ اندر آگیے، وفا کسٹمرز ڈیل کر رہی تھی۔
” بات سنو لڑکی۔“
اکاش ملک نے گاگلز اتارتے ہوۓ اسے دیکھ کرکہا۔
وفا سنجیدگی سے انکی طرف بڑھی۔
” تم سے کچھ بات کرنی ہے، ہمارے ساتھ چلو۔“
اکاش ملک نے گویا حکم دیا تھا، وفا ظہیر صاحب کو بتاتی انکے ساتھ باہر آگٸ۔
اکاش ملک گاڑی میں بیٹھے اور چند قدم پر کافی شاپ کے سامنے گاڑی روک کر اتر آۓ۔
وفا کو رات کا وہ آخری پہر یاد آیا، جب وہ ایان کے ساتھ باتیں کر رہی تھی۔
” تم ایان کو چھوڑنے کے کتنے پیسےلو گی، جتنے پیسے بھی چاہیے، اس چیک میں لکھ لو، اور اسکی جان چھوڑ دو۔“
اکاش ملک ہر لحاظ بالاۓ طاق رکھ کر روکھے پن سے مخاطب ہوۓ ۔
وفا نے سنجیدگی سے انہیں دیکھا۔
” ہمارے درمیان ایسا کوٸی رشتہ نہیں ہے، جو آپ کے لیے پریشانی کا باعث ہو۔“
وفا سادگی سے سنجید لہجے میں بولی۔
“ ہماری سب سے بڑی پریشانی تم ہو، تمہارے جیسی لڑکی کو ہم بہو تسلیم نہیں کرسکتے۔“
اکاش ملک چبا چبا کربولتے اسے چھلنی کر گے تھے۔
وفا نے ضبط سے آنکھیں میچیں۔
تن تنہا لڑکی پر بدکردار کا ٹیگ کیوں لگ جاتا ہے، وہ سمجھ نہیں پاٸی تھی۔
”آپ میرے کردار کی بات اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں۔“
وفا نے سوال کیا تھا۔
” تم جیسی لڑکیاں پیسوں کے لیے ہی امیر زادوں کو پھانستی ہو، گھر سے کسی اور کے لیے بھاگ کے آٸی اور دبوچ ہمارے بیٹے کو لیا ہے۔“
اکاش ملک چبھتے لہجے میں بول ہے تھے۔
” انف ڈیڈ۔“
ایان سنجیدگی سے بولا تو اکاش ملک نے چونک کر سر اٹھایا۔
” آپ وفا کے کردار کو تول نہیں سکتے، میں نے کل بھی کہا تھا، مجھے وفا کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں سننا۔“
ایان چبا چبا کر بول رہا تھا۔
” اور تم۔۔۔۔۔تمہیں جو بھی کہے گا، اس کے ساتھ چل پڑو گی، عقل نام کی چیز کو استعمال میں لے آٶ۔“
ایان کی توپ کا رخ وفا کی طرف ہوا تھا، وفا نے بھیگی آنکھوں سے سر جھکا لیا۔
” میری لاٸف ہے، پلیز مجھے مجبور مت کریں کے میں وفا کو لےکر شفٹ کر جاٶں۔“
ایان نے سختی سے کہتے ہوۓ وفا کی کلاٸی تھامی اور لے گیا۔
” دیکھ لی اپنی لاڈلے کی کرتوت۔“
اکاش ملک سیخ پا ہوتے ہوۓ کافی شاپ سے نکلے، ایان انکی گاڑی سے دور وفا پر برس تھا۔
وفا کسی مجرم کی طرح سر جھکاۓ کھڑی تھی۔
” آج کے بعد تم مسز ایان ملک ہو، جب تک میں نہ کہوں، تم کسی سے کچھ نہیں کہو گی۔“
ایان آخری بات قدرے سختی سے کہی۔
”آپ ختم کریں اس سلسلے کو، میں بار بار اپنے کردار کی اڑت دھجیوں کی تکلیف محسوس نہیں کرنا چاہتی۔“
وفا کی آنکھوں سے آنسو پھسل کر گرے تھے ، ایان کو سخت پچھتاوے نے آ گھیرا۔
” آٸندہ ایسا نہیں ہوگا۔“
ایان نے اسکے آنسو بے اختیاری میں اپنے پوروں پر چن لیے۔
اکاش ملک نے غصے سے گاڑی سٹارٹ کی اور زن سے دوڑا لی۔
” ایم سوری فار دیٹ۔“
ایان نے لہجے کو نرم کرتے ہوۓ کہا۔
وفا کے رخسار پر رات کے تھپڑ کے نشان اب بھی موجود تھے۔
” اپنے لیے بولنا سیکھو پلیز۔“
ایان سنجیدگی سے بولا تھا۔
وفا خاموشی سے پلٹ گٸ، ایان نے دور تلک اسے دیکھا، وہ جانتا تھا وہ رو ہی ہے،ایان کو جانے کیوں د کھ نے آگھیرا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظہیر صاحب نے وفا کی خاموشی دیکھتے ہوۓ کچھ نا پوچھا، جاب کے بعد وہ اپارٹمنٹ میں بند ہو گٸ۔
” جانے کیوں ہر طرف میرے کردار کو بیچ میں کیوں لے آتے ہیں۔؟“
وفا بے حد دکھی لگ رہی تھی۔
سنگل بیڈ پر گھٹنوں کے اوپر سر رکھے، وہ افسردہ نظر آ رہی تھی۔
دروازے پر دستک ہوٸی تو وفا بستر سے اتر کر دروازے کی سمت بڑھی۔
دروازہ کھولا تو ظہیر صاحب کے ساتھ ایان بھی تھا۔
وفا ایک طرف ہٹ گٸ۔
” مجھے نہیں پتہ ، کل کیا ہوا وفا بیٹا، تمہارے رخسار پر یہ کیسا نشان ہے۔“
ظہیر صاحب اور ایان بیڈ کے ساتھ رکھی دو سنگل کرسیوں پر تشریف فرما چکے تھے۔
” اور آج کون لوگ تھے، جو تمہیں ملنے آۓ تھے، تمہیں اپنے شوہر پر بھروسہ کرنا چاہیے۔“
ظہیر صاحب سنجیدگی سے بولے، وفا نے پلکوں کی باڑ اٹھاٸی تو ایان اسے ہی تک رہا تھا۔
” زندگی کوجینا سیکھو، ابھی تو تمہاری ہنسنے کی عمر ہے وفا بیٹا۔“
ظہیر صاحب متفکر سے بولے اور اس کے سرپر ہاتھ رکھتے واپس پلٹ گٸے۔
” آپ میرے پیرینٹس کی وجہ سے پریشان ہیں۔“
ایان نے اسے نظروں کے حصار میں رکھتے ہوۓ پوچھا۔
” نہیں۔“
وفا اداسی سے بولی۔
” اپنے کردار کی پارساٸی پر اب میرا بھی یقین ڈگمگانے لگا ہے۔“
وفا آزردگی سے بلی تھی، پریشانی ، دکھ اسکے چہرے سے عیاں ہو رہاتھا۔
” لوگ تو باتیں کرتے ہی ہیں، ویسے آپ پرواہ کرتی تو نہیں ہیں۔“
ایان نرمی سے بول رہا تھا۔
” ہر زبان سے ایک ہی بات انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔“
وفا سنجیدگی سے بولی اور بالکونی میں چلی آٸی، ایان بھی اسکے پیچھے چلا آیا، آسمان آج قدرے صاف تھا۔
” ایسا کچھ نہیں ہے، ظہیر صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں۔“
ایان نے نظریں اسکے چہرے پر رکھیں۔
” آپ مت آیا کریں، میری عادت بگڑ گٸ تو مجھے تکلیف ہو گی۔“
وفا نے سر جھکاۓ کہا تھا۔
ایان خاموش رہا تھا۔
” میں آپ کے لیے نہیں آتا، خود کے لیے آتا ہوں۔“
ایان تیکھے لہجے میں کہہ کر پلٹ گیا تھا، وفا نے پلٹ کر نہیں دیکھا، وہ دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی، ایان اسکی زندگی میں کہیں نہیں تھا، نہ وہ اسے اپنے تخیلات میں بسانا چاہتی تھی۔
وفا نے گہری سانس لے کر آسمان کی سمت دیکھا تھا، امید کی ایک نٸ جوت اسکی آنکھوں میں پھر سے چمکنے لگی تھی، اسی جوت کے بل پر وہ اپنی تلاش کی راہ پر محو سفر تھی۔
آج اس نے ظہیر صاحب سے چھٹی لے لی تھی۔
بہت دیر تک وہ سوٸی رہی تھی، پرسکون نیند کی خریدنے کے لیے اسے ایک رات کی نیند بیچنی پڑی۔
بالکونی کے بند دروازےپر لگے چوکور گلاس سے وہ باہر اجلی روشنی دیکھنے لگی، سست روی سے اٹھی، سنہری بھورے بالوں کو جوڑے کی شکل دی اور چینج کر کے بال سلجھانے لگی، رخسارکا نشان کافی مدھم ہو گیا تھا۔
سنجیدگی کا خول چٹخنے کی بجاٸے مزید مضبوط ہوتا دکھاٸی دے رہا تھا۔
اس نے افسردگی سے ایان کے بارے میں سوچا۔
” آپ کو ہرٹ نا کرتی، تو میری زندگی مزید بیس سال بکھر جاتے۔“
وفاافسردگی سے گویا۔
” تین ماہ بیت چکے ہیں، نو ماہ تک مجھے سیٹیزن شپ مل جاۓ گی، میں آپ کی زندگی سے نکل جاٶں گی۔“
وفاانجانے میں اس سے مخاطب تھی۔
پیسے بیگ میں رکھے اور بیگ کندھے پر ڈال کر دروازے کی طرف بڑھی، اسکا رخ سینٹرل کیلگری کے اس آفس کی طرف تھا،جس کی زمہ داری ایک خرانٹ بڈھے جیمز پر تھی۔
کیلگری پر سورج اپنی سنہری کرنوں کی برسات کررہا تھا، وفا نے سورج کی کرنوں کو دیکھنے کی ناکام کوشش کی اور آنکھیں میچ کر سڑک پر آتی ٹیکسی کو ہاتھ دیا۔
کچھ ہی وقت بعد وہ جیمز کے سامنے تھی۔
” ٹو تھاٶزنڈ ڈالرز۔“
وفانے ٹیبل پر رکھتے ہوۓ جیمز کی طرف دیکھا۔
جیمز نے سنجیدہ نظر اس پر ڈالی اور پیسے اٹھا کر جیب میں بھر لیے۔
” آٸی ول ٹراٸے۔“
جیمز نے بےزار سی شکل لیے اسے دیکھا، وفا کا دل ڈوب سا گیا۔
” ٹراٸے۔۔۔۔“
وفا زیرلب بڑبڑاٸی۔
” ناٶ لیو۔۔۔۔۔“
جیمز نے ہمیشہ کی طرح کرسی کا رخ دیوار کی طرف موڑ لیا۔
وفا بوجھل قدموں سے باہر کی سمت بڑھی۔
” دو ہزار ڈالرز ڈوب گٸے تھے۔“
بے دلی سے قدم اٹھاتی ہوٸی بڑبڑاٸی تھی۔
ٹیکسی پکڑی اورسٹور پر چلی آٸی۔
ظہیر صاحب نے مسکراکر اسکا استقبال لیا۔
وفا جواباً مسکراٸی تھی،لیکن وہ مسکراہٹ بہت کھوکھلی اور بے جان سی تھی۔
ظہیر صاحب نے افسردہ نظر اس پرڈالی۔
” جانے کن مشکلات میں پھنسی ہوٸی ہے۔“
ظہیر صاحب نے افسردگی سے سوچا اور کام کرنے لگے۔