اپارٹمنٹس کے سامنے گاڑی روکی تو وفا نے گہرا سانس خارج کر کے ایان کی سمت دیکھا۔
” تھینکس فار یوری تھنگ۔“
وفا نے دھیمے لہجے میں کہا اور اترنے لگی۔
ایان بھی اسکے ساتھ باہر آگیا۔
” کتنے پیسے چاہیے ہیں۔؟“
ایان ہنوز سنجیدہ لہجے میں بولا۔
” میں مینیج کر لوں گی۔“
وفا آہستگی سے کہہ کرپلٹنے لگی تھی، جب ایان نے آگے بڑھ کے اسکی کلاٸی تھام کے اسکا رخ اپنی طرف موڑا۔
” تم سمجھتی کیا ہو خود کو۔؟“
ایان شدید غصے میں لگ رہا تھا، وفا نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا۔
” میں مزید آپ کے احسان نہیں لے سکتی۔“
وفا خوفزدہ آواز میں بولی۔
ایان نے اسکی کلاٸی چھوڑ کے ہاتھ سینے پر باندھ لیے۔
” جو میں نے تم پر کیا، وہ احسان نہیں ہے ، تمہیں اسکی قیمت چکانی ہوگی سمجھی تم۔“
ایان سخت لہجے میں چبا چبا کر آہستگی سے بولا۔
وفا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
” اب بولو کتنے پیسوں کی ضرورت ہے۔؟“
وہ نرم ہوا تھا۔
” دو ہزار ڈالز۔“
وفا نے سر جھکے کہا۔
ایان نے اسے یکھتے نفی میں سر ہلایا۔
” آج کے بعد میں تمہیں، ویٹرس کے روپ میں نا دیکھوں۔“
ایان نے پیسے اسکی طرف بڑھاتے ہوۓ تنبیہہ کی۔
” کیوں۔؟“
وفا نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
” کیوں ایک لاجواب لفظ ہے۔“
” اور میں ویسے بھی کسی کے سوالوں کا جواب نہیں دیتا۔“
ایان نے والٹ جیب میں ڈال ک سنجیدگی سے کہا۔
وفا پلٹ گٸ۔
” بے مروت لڑکی، شکریہ بھی نہیں کہو گی۔“
ایان بلند آواز میں بولتا گاڑی سے ٹیک لگا گیا، وفا نے پلٹ کر اسے دیکھا۔
” شکریہ۔“
وفا نے خوب تابعداری کا مظاہرہ کیا۔
” اونہہ۔۔۔۔ناٹ ایکسیپٹڈ۔“
ایان نے نفی میں سر ہلایا۔
وفا نے الجھ کے اسے دیکھا۔
” ون کافی ود می۔“
ایان نے کہا۔
”لیٹس گو۔“
نرمی سے بولتا وہ ڈراٸیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
وفا الجھن سے چلتی ہوٸی آ کر گاڑی میں بیٹھ گٸ، کیلگری پر رات کافی بیت چکی تھی۔
قریبی کافی شاپ پر پہنچ کر ایان نے دو کافی آڈر کیں اور اسکی طرف دیکھا، اسکے سفید رخسار پ بالاج کی انگلیوں کےنشان چھپ چکے تھے، ایان نے لب بھینچ کے رخ موڑ لیا۔
” تم کینیڈا کس کے لیے آٸی ہو۔؟“
ایان نے کافی کے ڈسپوزیبل گلاس کو دیکھا۔
وفا نے دھیمے لہجے میں اسے تھوڑا بہت بتا دیا، ایان نے نگاہیں اسکے چہرے پر ٹکاٸیں۔
” تمہارے بابا۔۔۔۔؟
ایان نے ہاتھ ٹھوڑی تلے ٹکاۓ اسے پرنگاہیں مرکوز کیں، ناٸک فیملی کی پارٹی چھوڑ کر وہ رات کے اس پہر اس سے باتیں کر رہا تھا، یہ اسکے لیے بھی حیران کن تھے۔
” وہ ڈیڑھ سال پہلے گزر گیے تھے۔“
وفا نے ایان کی طرف دیکھا۔
” آپ کی جگہ کوٸی اور لڑکی ہوتی،تو رو رو کر ہلکان ہو گٸ ہوتی۔“
ایان اسکی ہمت سے متاثر لگ رہاتھا۔
” سہنے کی ہمت ہو تو انسان بڑے سے بڑے دکھ کو سہن کر جاتا ہے۔“
وفا نے کڑوی کافی کا سپ لیا۔
” آپ کو یہ ہمت کون دیتا ہے۔؟“
ایان نے کافی گھونٹ درد گھونٹ انڈیل رہا تھا۔
” میرا یقین مجھے ہمت دیتا ہے، جن کا کوٸی سہارا نہیں ہوتا، ان کا اللہ ہوتا ہے۔“
وفا پر یقین لہجے میں بولی، کچھ لمحے قبل عزت نفس جو مجروح ہوٸی تھی، اسکا دکھ ایان کی موجودگی میں قدرے کم ہو گیا تھا۔
” اس دن جب آپ کا تماشہ بنایاجا رہا تھا، تب اللہ نے آپ کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔؟ آج پھر آپ کا تماشہ بن گیا، اگر اللہ پر آپ کو یقین ہے تو کیوں بار بار آپ تماشہ بن رہیں ہیں۔“
ایان نے سنجیدگی سے اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھا، رخسار کی سرخی اور انگلیوں کے نشان ہنوز قاٸم تھے۔
” دیا ہے اللہ نے میرا ساتھ، اس دن بھی آپ کو بھیجا اور آج بھی۔۔۔۔۔۔۔“
” میں کوٸی پارسا یا مومنہ نہیں ہوں، جس کے لیے معجزے ہوں، جتنا میرا یقین ہے اتنا ہی مجھے مل جاتا ہے، میں اللہ کے ساتھ یقین کی تجارت کی ہے، اور مجھے اس سے کٸ گنا زیادہ انعام ملتا ہے، جو میرے یقین کی گرہیں مزید مضبوط کرتا ہے۔“
وفا دھیرے سے نرم لہجے میں بول رہی تھی۔
” تمہیں نہیں لگتا ہے یہ تمہارا وہم یا تمہاری سوچ ہے۔؟“
ایان نے دایاں ابرو اٹھایا تھا، اسکی کافی ختم ہو چکی تھی۔
” نہیں۔“
وفا نے بد مزہ سی کافی کا ایک اور سپ لیا۔
” اتنی پختہ اور پازیٹیو تھنکنگ۔۔۔کیسے۔؟“
ایان متاثر ہو رہا تھا، اب وہ تیکھا سا ایان نہیں لگ رہا تھا۔
” ہر انسان کے پاس دو راستے ہوتے ہیں، پازیٹیو اور نیگٹیو، پازیٹیو راستہ تھوڑا مشکل مگر سچا راستہ ہوتا ہے، جس پر بہت کم لوگ خود چلتے ہیں، کسی کو اس راستے پر علما ٕ کھینچتے ہیں، کسی کو کوٸی واقعہ کھینچ لاتا ہے، مجھے اس راستے پر میری تنہاٸیاں کھینچ لاٸیں، منفی سوچوں کے بار بار حملے کے باوجود میں نے اپنے قدم ڈگمگانے نہیں دیے، اب پازیٹیویٹی میری عادت بن گٸ ہے۔“
وفا سادگی سے مسکراٸی تھی۔
رات کا پہر تھا، ایان ملک، اپنی ریزروڈ پرسنیلٹی بھول بیٹھا تھا۔
” تمہیں دکھ نہیں دیتیں یہ تنہاٸیاں۔؟“
” کبھی اکیلا پن محسوس نہیں ہوا۔؟“
” جب میں سات کی تھی، ایک دن شعیب سے جھگڑا ہوگیا، امی نے بہت مارا، میرے ناک سے خوب بہنا شروع ہو گیا تھا، میں ڈر سے سٹور روم میں جا چھپی، سارا دن نہیں نکلی، شام کو بابا گھر آۓ تو امید کا دیا لے کر انکے پاس جا بیٹھی، وہ اپنی فاٸلیں پھیلاۓ بیٹھے تھے، میں کتنی ہی دیر انہیں دیکھتی رہی، پر انہوں نے مجھ پر دھیان نا دیا، میں روتے ہوۓ انہیں پکارا تو انہوں نے اپنی پریشانی میں مجھے جھڑک دیا، میں ڈر سے پیچھے ہوٸی اور بیڈ سے گر گٸ، انہوں نے ایک بار بھی نہیں دیکھا، میں ان سے خفا ہو گٸ اور جانتے ہیں، میں پندرہ سال ان سے خفا رہی ، انہیں خبر ہی نا ہوٸی میں ان سے خفا تھی، اور تب تک تنہاٸیاں میرے اندر بس گٸ تھیں، میں نے دوست بنانا چھوڑ دیے، لوگوں کے سامنے رونا چھوڑ دیا، اللہ سے قریب ہو گٸ تھی، دو سال قبل انہیں احساس ہوا کہ انکی بیٹی ان سے بہت دور ہوگٸ ہے، اس دوری کا ازالہ کچھ یوں کیا کہ اپنی دو مہنگی دوکانیں میرے نام کر دیں، لیکن کبھی اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا جس کی میں متلاشی تھی۔“
” تب سے تنہاٸیاں میری عادت ہیں اور میں خود کے لیے ہی خود کو میسر کردیتی ہوں۔“
وفا مدھم لہجے میں بولی تو بولتی چلی گٸ، ایان اسے بغور سن رہا تھا، اسکے چہرے کے اتار چڑھاٶ محسوس کر رہا تھا۔
”ان بلیو ایبل، یو کین لو الون یور لاٸف۔“
ایان نےگہراسانس خارج کر کے اسے دیکھا، کافی شاپ پر اکا دکا لوگ ہی آرہےتھے۔
رات کا آخری پہر تھا، وفا نے جیسے تیسے کافی ختم کر لی۔
ایان نےبل آرڈر بک میں رکھا اور وفا کے ساتھ باہر نکل آیا۔
” میرا پہلا تجربہ ہے، کسی سے کھل کر بات کرنے کا۔“
ایان آج پھر مسکرایا تھا۔
” آپ نے نہیں بتإیا، آپ نے میری ہیلپ کیوں کی۔؟“
وفا نے اسکی جانب دیکھا تھا۔
” مام ڈیڈ، شادی کے لیے فورس کر رہے تھے، بٹ مجھے کوٸی لڑکی پسند نہیں تھی، میری فیانسی بھی نہیں، اسلیے انہیں ٹالنے کے لیے تم سے شادی کر لی، تمہاری ہیلپ ہو گٸ اور مام ڈیڈ کا روز کا واویلہ بھی ختم۔“
ایان نارمل لہجے میں بول رہا تھا۔
” عینا اچھی لڑکی ہے۔“
وفا سادگی سے بولی۔
” جانتا ہوں اسے۔“
ایان استہزایہ ہنسا۔
” ” پھر کیسی لڑکی چاہیے آپ کو۔؟“
وفا نے ہاتھ سینے پ باندھے اسے دیکھا۔
” جس میں میرا غصہ برداشت کرنے کی سکت ہو، جو بات بات پر واویلہ مچاۓ، جو میرے کاموں میں ٹانگ اڑانے کی بجاۓ سمجھنے کی کوشش کرے۔“
ایان بول رہا تھا کہ وفا ہنس دی۔
” کیا ہوا۔؟“
ایان نے رک کر اسے دیکھا، اسے آج پتہ چلا تھا، وفا خیام کے رخساروں پر ڈمپل بھی پڑتے ہیں، اسکی ہنسی کھنکھتی سی تھی۔
یا شاید اسنے ہی اب غور کیا تھا۔
” ایسی کوالٹیز یاملازمہ میں ہو سکتیں ہیں یا گاۓ میں۔“
وفا نے مسکراتے ہوۓ کہا، مبہم سی مسکراہٹ، اب کی بار ڈمپل واضح نہیں ہوۓ تھے۔
”میں ۔۔۔ایان ملک گاۓ سے شادی کروں گا۔؟“
ایان ہلکے پھلکے انداز میں بولا اور ہنس دیا، وفا سر اثبات میں ہلاتے ہوۓ اسکے ساتھ ہنسی تھی۔
” ہیو آ گڈ ٹاٸم ود یو۔“
وفا اپارٹمنٹ کے سامنے گاڑی سے اتری تو ایان کی آواز پر پلٹنے پر مجبور ہو گٸ۔
” مجھے بھی۔“وفا مسکراتی ہوٸی پلٹ گٸ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ایان ملک ۔۔ دا سن آف بزنس مین اکاش ملک، سلیپڈ ٹو مسٹر بالاج ناٸک ایٹ ہز اوپننگ سرمنی، جسٹ فار آ ویٹرس، ہو از دس ویٹرس۔۔۔۔؟
Ayan Malik the son of Akash Malik Slapped to Mr Balaj Naiq at his Opening Cermony just for a Waitres, Who is she …..?
اکاش ملک نے مزید سننا گوارہ نہیں کیا اور ٹی وی بند کر کے ریموڈ صوفے پر اچھال دیا۔
عینا نے ایک ایک بات انکے گوش گزار دی۔
” اس لڑکے نے مجھے زلیل کر کے رکھ دیا ہے۔“
اکاش ملک بھپر کے بولے تھے، راٸنہ پریشانی سے بیٹھیں تھی، ایان ابھی تک گھر نہیں آیا تھا۔
” ایک ویٹرس ہماری بہو ہے، ڈوب مرنے کا مقام ہے۔“
اکاش ملک سخت غصے میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہے تھے۔
عناٸیہ اور عینا ایک طرف کھڑیں تھیں، عینا ان کے گھر ہی رک گٸ تھی۔
تین بجے کے قریب ایان کی گاڑی رکنے کی آواز آٸی۔
” آگٸے صاحب زادے۔“
وہ ہاتھ پیچھے باندھے، طنزیا لہجے میں بولے۔
ایان ہلکے پھلکے موڈ میں اندر داخل ہوا تو اکاش ملک اور باقی سب کو دیکھ کر سمجھ گیا تھا۔
” تو تم نے زہر اگل ہی دیا۔“
ایان کارخ عینا کی طرف تھا۔
” مجھ سے بات کرو۔“
اکاش ملک غصے سے دھاڑے تھے۔
” جی فرماٸیے۔“
ایان سینے پر ہاتھ باندھے انکے سامنے کھڑا ہو گیا۔
اکاش ملک اسکے انداز پر پیچ و تاب کھا کر رہ گیے۔
” تمہیں اندازہ ہے تم کیا کر کے آۓ ہو۔؟“
اکاش ملک سر پیٹتے ہوۓ بولے
” بالاج ناٸک کو اسکی اقات دکھاٸی ہے۔“
ایان نارمل لہجے میں بولا۔
” اپنی اوقات کی بات کر لو، جس کی بیوی اسی بالاج کی ویٹرس ہے۔“
اکاش ملک زہر خند لہجے میں بولے۔
” اس نے صرف سرمنی کے لیے جواٸن کیاتھا“
ایان کو پتنگے لگ گٸے۔
” ایان ہمیں صاف صاف بتاٶ، تمہارا اس لڑکی سے کوٸی رشتہ ہے بھی یا نہیں۔“
راٸنہ بیگم اسکی طرف بڑھتے ہوۓ بولیں۔
ایان کمرے کی طرف چلا گیا، فاٸل لا کر ان کے ہاتھ پر رکھ دی۔
” کسی کو وفا پر کمینٹ کرنے کی اجازت نہیں ہے، وہ جو بھی کررہی ہے، اسکی اپنی لاٸف ہے۔“
ایان نے اکاش ملک کی طرف دیکھا اور کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔
” شادی تو واقعی کر چکا ہے۔“
راٸنہ پریشانی سے بولیں تو اکاش ملک نے ساری دستاویزات بغور دیکھیں۔
” عینا بیٹا، وہ ویٹرس ایان کی بیوی، یہ بات لیک نہیں ہونی چاہیے۔“
اکاش ملک نے عینا کو مخاطب کیا۔
” ڈونٹ وری انکل۔“
عینا مسکراٸی تھی۔
” اس لڑکی سے ملنا پڑے گا۔“
اکاش ملک صوفے پر بیٹھتے ہوٸے بولے۔
” اس سے کیا فاٸدہ ہو گا، ایان پھر واویلہ مچا دےگا۔“
راٸنہ سنجیدگٕی سے بولیں۔
” وہ ایان سے اس رشتے کو ختم کر دے۔“
اکاش ملک ٹیک لگاتے پر سوچ انداز میں بولے۔
” وہ لڑکی پاکستان سے ہے، ہمیں ایک موقع دینا چاہیے۔“
راٸنہ نے مشورہ دیا تھا۔
” پیپر میرج کے زریعے آٸی ہے تو ضرور گھر سے بھاگ کے آٸی ہوگی، اور ہم ایسی لڑکی کو بہو تسلیم نہیں کر سکتے۔“
اکاش ملک نے سنجیدگی سے ان کا مشورہ رد کیا۔
” ہم اپنے اندازے پر تو فیصلہ قاٸم نہیں کر سکتے ناں۔“
راٸنہ بیگم نے آخری کوشش کی۔
” دیکھتے ہیں۔“
اکاش ملک سنجیدگی سے بولے،راٸنہ سونے کے لیے چلی گٸیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔