ٹیکسی بالاج ناٸیک ہوٹل چینز کے سامنے رکی تو وہ پیسے ادا کرت اتر آٸی۔
ہوٹل کی داٸیں جانب آفس بنا ہوا تھا، وفا نے قدموں کی رفتار تیز کی اور آفس کی طرف چلی آٸی۔
وہاں کافی رش لگا ہوا تھا۔
وفا بھی انتظار کے لیے بیٹھ گٸ، آہستہ آہستہ رش کم ہوا تو ہ اندر چلی گٸ۔
ویٹرس کے لیے بھی باقاعدہ انٹرویو لیا جا رہا تھا۔
وفا نے پراعتماد لہجے میں ہر سوال کا جواب دیا۔
” اوکے یو ول نیڈ آ پارٹ ٹاٸم جاب۔“
سنہری بالوں کے حامل نوجوان نے اسے دیکھا۔
” ییس۔“
وفا نے اثبات میں سر ہلایا۔
” سوری، دیر از نو سپیس فار اینی جاب، بٹ یو کین ڈو دس جاب فار ون سٹینڈ آن بالاج شاپنگ مال اوپننگ سرمنی۔“
Sorry there is no space for any job,but you can do this job for one night stand On Balaj shoping Mal openng cermony.
نوجوان نرم لہجے میں بولا۔
” شیور۔“
وفا نے مسکرانے کی سعی کی۔
” دس گرل از فاٸنل فار سرمنی ویٹرسز۔“
نوجوان نے کسی سے کہا اور اسے ایک پیپر تھما دیا۔
” آل انسٹرکشنز آر ڈسکراٸب آن دس، فال دیم اینڈ جواٸن اس ایٹ دس ڈیٹ۔“
لڑکا مسکرا کر بولا۔
“ گو دٸیر پلیز۔“
اس نے اسے سامنےجانے کا اشارہ کیا۔
کمپیوٹر پر بیٹھے لڑکے نے اسکی انفامیشن کلیکٹ کی اور اسے انٹری کارڈ دے دیا۔
وفا شکریہ کہتی نکل آٸی۔
اوپننگ سرمنی میں دس دن باقی تھے، اور دو سو ڈالرز کی رقم درج تھی۔
ناچاہتے ہوۓ بھی اسے ویٹرس بننے کے لیے من کو راضی کرنا پڑا۔
” جب جیت کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہوگا، میں سب کوششیں بھول جاٶں گی۔“
اس نے گہرا سانس لیا تھا۔
اٹھارہ سو ڈالرز کی پریشانی اب بھی اسکے سر پر قاٸم تھی۔
” اگر دینے والا اتنے دے سکتا ہے تو باقی کا انتظام بھی ہو جاۓ گا۔“
اس نے واپسی کی راہ پکڑی تھی۔
ایان کی گاڑی اپارٹمنٹ کے باہر دیکھ کر اسے حیرت ہوٸی تھی۔
” آپ یہاں۔؟“
ایان کو گاڑی سے ٹیک لگاۓ دیکھ کر بولی۔
” آپ نے عینا سے کیا کہا ہے۔؟“
وہ ٹیک چھوڑ کر اس کے سامنے آ گیا۔
” یہی کہ ہماری شادی محض ایک کانٹریکٹ ہے۔“
وفا نے نارمل لہجے میں کہا، سرمٸ بادل اپنی چھٹی منا کر لو آۓ تھے، ہوا میں خنکی محسوس ہونے لگی تھی۔
شام کے ساۓ پھیل رہے تھے، کیلگری پر شفق بکھری ہوٸی تھی۔
” آپ سے ایسا کہنے کے لیے میں نے کہا تھا۔؟“
ایان بازو سینے پر باندھے تیکھے تیوروں سے بولتا بے حد سنجدہ لگ رہا تھا۔
وفا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
” آپ ہی نے کہا تھا شاید، کہ میں اس شادی کا فاٸدہ اٹھانے کانہ سوچوں، میں نے وہی کہا جو حقیقت تھی۔“
وفا سنجیدہ لہجے میں کندھے اچکا کر کہا۔
” حقیقتیں بیان کرنا لازم ہے کیا۔؟“
انداز سوالیہ مگر ہنوز سنجیدگی لیے ہوۓ۔
”اور حقیقت پر پردہ ڈالنا بھی لازم ہے کیا۔؟“
وفا اسی کے انداز میں بولی۔
ایان نے اسے گہری نظروں سے دیکھا۔
” وہ آپ سے بہت محبت کرتی ہے، سچی محبتیں ٹھکرایا نہیں کرتے۔“
وفا افسردہ لہجے میں نرمی سے بولی۔
” میں نے مشورہ نہیں مانگا۔“
ایان خفگی سے بولتا کار میں بیٹھ گیا۔
وفا نے کندھے اچکاۓ اور پلٹ گٸ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” جاب کا کچھ بنا۔“
ظہیر صاحب اسے اپارٹمنٹ کا لاک کھولتے دیکھ کر بولے۔
” جاب تو نہیں ملی، سرمنی کے لیے ون ناٸٹ سٹینڈ پر دو سو ڈالر ملیں گے۔“
وفا نے تھکن زدہ لہجے میں کہا اور لاک کھول کر اندر آگٸ۔
” کھانا کھا لو بیٹی۔“
ظہیر صاحب نے کھانے والے ڈش اسکے پاس رکھی۔
” آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔“
وفا نے نم آنکھوں سے دیکھا۔
اسے تو احساس بھی کبھی بھیک میں بھی نہیں ملا تھا، اور ظہیر صاحب احساس سے ہی اسکے لیے واحد رشتہ بن گیے تھے۔
” تکلیف کیسی، برسوں بعد لگتا ہے جیسے کوٸی اپنا ملا ہے۔“
وہ اسکے سر پر دست شفقت رکھتے دروازے سے نکل گٸے۔
وفا کتنے ہی لمحے دروازے کو تکتی رہی تھی،وہ جو اسکا باپ تھا، کبھی یوں بھی اسکے سر پر ہاتھ نہیں رکھ پایا تھا، اور جو اسکی ماں تھی، کبھی پلٹ کر دیکھاہی نہیں تھا۔
” اللہ کی زات نے مجھے پیدا کیا ہے، تو میری زات بے مقصد نہیں ہو سکتی۔“
اس نے یقین سے کہا اور ہاتھ دھو کر کھانے کی طرف متوجہ ہوٸی۔
کھانا کھا کر بالکونی میں آگٸ۔
کیلگری میں اس نے آسمان پر تارے کم ہی دیکھے تھے، سوچ کی پرواز اڑان بھرتی ایان ملک پر اتری تھی۔
” عجب مزاج کا انسان ہے، کب خوش ہوتا ہے کب خفا، پتہ ہی نہیں چلتا۔“
وفا نے سر جھٹکتے ہوۓ کہا، چند ثانیے بیتے کہ روٸی کے نرم نرم گالوں جیسے برفباری آسمان سے برسنے لگی تھی۔
وفا حیرت سے برف کو چھونے لگی، یہ اس کا خواب نہیں تھا۔
پہلی بار وہ مسمراٸز ہوٸی تھی، دل کی بنجر زمین کو پہلی بار کچھ بھایا تھا، خوبصورتی کے رنگوں کی خوبصورتی پہلی بار اسپر آشکار ہوٸی تھی۔
مسکراہٹ آج اسکے سنجیدہ گلابی لبوں پر کھیلنے آٸی تھی۔۔۔۔۔وہ دل سے مسکراٸی تھی، بھوری آنکھوں میں وہ چمک لوٹنے لگی تھی، جو کبھی ان میں ہوا کرتی تھی۔
مایوسیاں تا دیر قاٸم رہیں تو دل مردہ ہو جاتے ہیں۔
وہ مایوس کبھی نہیں ہوٸی تھی، لیکن دل پھر بھی زندہ نہیں تھا، دل کو زندہ رکھنے کے لیے مسکرانا پڑتا ہے، اور مسکرانے کے لیے وجہ کا ہونا ضروری ہوتاہے، وجہیں یا تو اپنے دیتے ہیں، یا دوست۔۔۔۔وفا کا نہ تو کوٸی اپنا تھا نا دوست۔
کبھی کسی نے اس کےسنجیدگی کے خول کو توڑنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
” میں زمانے بھر کی غریب لڑکی ہوں، کیونکہ میں دوست نامی نعمت سے محروم ہوں۔“
اداسی نے اسے پھر سے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
” اپنی ادھوری خواہشوں کی لاشیں دل میں دفن کر کر کے شاید یرا دل اسی کے لیے رہ گیا ہے۔“
وہ خود پر اسہزایہ ہنسی تھی۔
” مجھے ان پلوں کو محسوس کرنا چاہیے۔“ اس نے خود کو باور کروایا اور آنکھیں موند کے گہرا سانس خارج کیا، تازگی کی کٸ لہریں، خنکی میں لپٹی اسکے نے نتھنوں سے ٹکراتی اندرداخل ہوٸیں۔
سردی کا احساس ہوا تو اس نے بالکونی کا دروازہ بند کیا اور بستر پر آ گری۔
تھکن جتنی بھی ہوتی تھی، وہ خود کو وقت دینا نہیں بھولتی تھی، اگر خود کیلیے خود کو میسر نا کرتی تو واقعی تنہاٸیاں اس کی جان لے لیتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارٹی کی رات۔
وہ ویٹرس کے یونیفارم میں ملبوس تھی، واٸٹ شرٹ اور ریڈ سکرٹ پہنے ہوۓ تھیں، اس نے سکرٹ کے ساتھ ریڈ جینز پہن لی اور گلے میں سفید سٹالر ڈال لیا۔
سرمنی مال کے لاسٹ فلور کی چھت پر تھی، سجاوٹ میں پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا تھا۔
چھت نہایت وسیع وعریض تھی، امیرزادے ہاتھوں میں واٸن گلاس تھامے خوش گپیوں میں مصروف تھے، وفا نا چاہتے ہوۓ بھی اس گناہ میں ملوث ہو گٸ تھی، وہ سب کو واٸن پیش کر رہی تھی۔
ناٸک فیملی کی آمد کا شور بلند ہوا۔
سب لوگ نیچے کی جانب بڑھے۔
وفا باقی ویٹرسز کے ساتھ سیڑھیاں اترتی نیچے آٸی، ناٸیک فیملی کا استقبال بہت شانداز انداز میں کیا گیا، ہر جھلک لاٸیو ریکارڈ ہو رہی تھی، وفا پیچھے سرک گٸ۔
میڈیا اوپننگ سرمنی کی لاٸیو کوریج دے رہے تھے۔
بالاج ناٸک نے ربن کاٹا اور ویٹرس کو پانچ پانچ سو ڈالز دینے کا کہہ کر آگے بڑھ گیے۔
پارٹی شروع ہو گٸ، کیلگری کے مشہور و معروف گلوکار اور رقاصاٸیں مدعو کی گٸیں تھیں۔
” اوہ۔۔۔۔۔واٹ آ پلیزنٹ سرپراٸیز۔“
گولڈن خوبصورت شرٹ اور شارٹ سکرٹ زیب تن کیے عینا وفا کی ڈش سے واٸن گلاس اٹھاتے ہوۓ تمسخر بھری حیرت سے بولی۔
وفا نے گردن جھکاٸی اور ضبط سے پلٹ گٸ۔
عینا کی نظریں اسی پر تھیں۔
ناٸک کمپنی کے خاص اراکین پہنچ چکے تھے، گو کہ ایان کی نظر اس پرنہیں پڑی تھی۔
” ہیلو مسٹر ایان ملک۔“
عینا نے بشاشت سے اسے پکارا۔
ایان نے ابرو اٹھا کہ سنجیدہ نظر اس پر ڈالی۔
”انا پرست تو بہت ہو، پر تمہاری بیوی میں شاید انا نام کی بھی نہیں ہے۔؟“
عینا طنزاً بولی۔
” بے چاری ویٹرس ہے، اور وہ بھی یہاں۔“
عینا تمسخرسے ہنستی ہوٸی بولی، اور چلی گٸ۔
ایان کی بھنویں تن گٸ، اس نے سب ویٹرسز کے چہروں پر نگاہیں دوڑاٸیں لیکن کہیں وفا نہیں تھی، اس نے گہرا سانس خارج کیا اور رخ موڑا ہی تھا کہ سامنے وفا ویٹرس کا روپ دھارے کھڑی تھی۔
وفا شدید شرمندگی سے پلٹ گٸ۔
ایان نے ضبط سے لب بھینچے اور اس کی طرف بڑھا۔
” بات سنو میری۔“
رعب اور غصے سے بولتا ہوا مڑ گیا، وفا کپکپاتی ٹانگوں سے اسکے پیچھے چلی آٸی۔
” تم یہاں کیا کر رہی ہو۔؟“
ایان اسکا بازو دبوچتے ہوۓ دبی دبی آواز میں دانت پیس کر بولا، آنکھیں غصے کی شدت سے سرخ ہو رہیں تھیں۔
عینا نے دور سے انہیں دیکھا۔
” جاب۔“
وفا نے درد سے آنکھیں بند کر کے کہا اور کراہ کے اسکے ہاتھ سے اپنا بازو نکالنے کی کوشش کی۔
” تمہیں یہی جاب ملی تھی۔“
ایان کابس نہیں چل رہا تھا، اسے غاٸب کر دے۔
” مجھے پیسوں کی ضرورت تھی۔“
وفا کی آنکھوں سے آنسو نکل کر رخساروں پر بہہ گیے، ایان نے اپنی گرفت ڈھیلی کی۔
” ایم سوری۔“
ایان نے لہجے ک نارمل کرتے ہوۓ کہا۔
” آپ ک یہ جاب زیب نہیں دیتی، پلیز لیو ناٶ۔“
ایان نرم لہجے میں حکمیہ انداز میں بولا اور چلا گیا۔
” تم نے مجھ سے دشمنی پال لی ہے۔“
عینا واٸن کے ہلکے ہلکے سپ لیتے ہوۓ بولی، اسکی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں۔
” گو دٸیر اینڈ سرو دیم۔“
عینا نے حکمیہ لہجے میں ناٸک فیملی کی طرف اشارہ کیا۔
وفا نے ٹیبل سے ڈش اٹھاٸی اور ناٸک فیملی کی طرف بڑھ گٸ۔
” گو اینڈ ڈو یور ورک۔“
عینا سنجیدگی سے دوسری ویٹررس کو دیکھ کر بولی۔
وفا ناٸک فیملی کے آگے ڈش کر رہی تھی، جب اسے دھکا لگا اور ڈش سے گلاس بالاج ناٸک کے اوپر گر گٸے۔
” یو بلاٸینڈ۔“
بالاج کا ہاتھ گھوما اور زور دار طمانچہ وفا کے نازک رخسار پر لگا، وہ لڑکھڑا کر گر پڑی۔
” بالاج کول۔“
ساریہ نے اسے سمجھانا چاہا۔
وفا ساکت و ششدر سی رخسار پر ہاتھ رکھے اٹھ کھڑی ہوٸی۔
” آٸی ول کل ہر۔“
بالاج دندناتا ہوا اسکی طرف بڑھ رہا تھا، جب ایان وفا کے سامنے آگیا۔
” سر غلطی سے ہوا سب۔“
ایان غصہ ضبط کرتے ہوۓ لہجے کو نارمل رکھ کر بولا۔
” کین آٸی آسک یو۔“
” تم سے پوچھا۔“
بالاج نے ایان کو گریبان سے پکڑ لیا۔
وفا ایان کے پیچھے چھپ گٸ تھی، احساس شرمندگی سے وہ سر نہیں اٹھا پا رہی تھی۔
” بالاج لیو ہر۔“
ساریہ اور شہروز ناٸک بالاج سے مخاطب تھے۔
” ہاٶ ڈیر ہی از، ٹو کٹ ماٸی وے۔“
How dare he is to cut my way.
بالاج دھاڑا تھا، ان کے ارد گرد مہمان اکٹھے ہو گیے تھے۔
” سر پلیز۔“
ایان نے سنجیدگی سے اپنا گریبان چھڑوانے کی کوشش کی۔
” یو ہیو جسٹ آ بیگر ان فرنٹ آف می، اینڈ یو ٹیل واٹ آٸی کین ڈو۔“
you have just a begger in front of me and you tell me what i can do.
بالاج اسے جھٹکتے ہوۓ تنفر سے بولا۔
ایان نے لب بھینچ کے غصہ ضبط کیا، عینا حیرت سے غش کھانے کو تھی۔
ایان اس کے لیے اپنی سیلف ریسپیکٹ کو ساٸڈ پر رکھ چکا تھا۔
” اینڈ یو آ کال گرل۔۔۔۔۔۔۔“
بالاج بولا ہی تھا کہ۔
” تڑاخ۔“
ایان کا ہاتھ گھوما اور بالاج کے منہ پر نشان چھوڑ گیا۔
” یو ڈیزروڈ اٹ“
You deserve it.
ایان کاٹ دار لہجے میں بولا اور وفا کا بازو تھامتے ہوۓ لفٹ کی طرف بڑھ گیا۔
وفا ساکت سی اسکے ساتھ کھنچتی چلی جا رہی تھی، وہ حیران تھی۔
ایان نے اسے تقریباً گاڑی میں پٹخا اور خود ڈراٸیونگ سیٹ سنبھال لی۔
گاڑی فل سپیڈ سے خالی سڑک پر فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔
وفا نے آنکھیں بند کر لیں، اسکا دل ڈوبنے لگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔