اسے آج ہر حال میں اپنا کام شروع کرنا تھا، گروسری سٹور سے نکل کر وہ اندرون کیلگری کی طرف قدم بڑھانے لگی، بلند و بالا ، خوبصورت عمارتیں پورے قد سے کھڑیں تھیں، کشادہ سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر وہ سر اٹھاٸے، مطلوبہ عمارت پر نظر پڑتے ہی اسکے چہرے پر پالینے کی خوشی جھلکنے لگی۔
قدموں کی رفتار میں تیزگی آنے لگی اور وہ خود کو پر اعتماد کرتی اندر داخل ہو گٸ۔
فرسٹ فلور پر ہی ایک جانب آفس تھا، وہ گلاس ڈور دھکیلتی اندر داخل ہوٸی، کرسی پر بیٹھا پینتالیس سالہ شخص سر سیٹ کی پشت پر رکھے آنکھیں موندے ہوۓ تھے، گلابی و سفید رنگت کے حامل چہرے پر بے زاری تھی۔
وفا کے قدموں کی چاپ سے اس نے آنکھیں کھول کو ٹیک چھوڑی اوہ کہنیاں ٹیبل پر رکھ لیں۔
وفا نے مسکرا کر دیکھا اور ارد گرد نگاہیں دوڑاتی کرسی پر بیٹھ گٸ، ٹیبل کے داٸیں جانب سفید ریک فاٸلوں سے بھرا پڑا تھا، چھوٹا سا آفس قدرے صاف تھا۔
وفا نے بیگ کی اندرونی زپ کھولی اور ایک کاپی نکال کر اسکے سامنے رکھی، اور ہاتھ مسلتے ہوۓ اسے اپنے مسٸلے سے آگاہ کیا۔
ٹیبل کے اس پاربیٹھے شخص نے اسے کوفت سے دیکھا اور صاف انکار کر دیا۔
” پلیز۔“
وفا نے ٹیبل پر ہاتھ رکھتے ہوۓ منت بھرے لہجے میں کہتے ہوۓ امید سے اسے دیکھا۔
” آٸی سیڈ نو۔“
پیشانی پر بل لیے اس نے نہایت بے زاری اور غصے سے وفا کو دیکھا، اور کرخت لہجے میں بولا۔
” اٹس اللیگل۔“
زمانے بھر
کی بے زاری چہرے پر سجاۓ وفاکو دیکھا اور کرسی موڑے دیوار کی طرف رخ کر گیا۔
وفا نے لب بھینچے اور آہستہ روی سے چلتی آفس سے نکل آٸی۔
آسمان کی سمت امید سے نگاہیں دوڑاٸیں اور سامنے سے آتی ٹیکسی کو روکا اور بیٹھ گٸ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالاج چینز آف ہوٹیلز اب کینیڈا میں بالاج شاپنگ مال کی اوپننگ کر رہے تھے۔
” عینا، اوپننگ سرمنی کے انویٹیشن کارڈ بن گیے ہیں۔؟“
بالاج ناٸیک لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹاتے ہوۓ عینا کی طرف دیکھ کر بولا۔
” ییس سر، شہروز سر کی نگرانی میں کارڈ دے دیے گٸے ہیں۔“
عینا مٶدب انداز میں بولی۔
” مجھے کوٸی گڑبڑ نہیں چاہیے، ہر چیز تمہارے زمے ہے۔“
بالاج ناٸیک تنبیہہ کرتے ہوۓ بولا۔
” ایوری تھنگ از پرفیکٹ سر۔“
عینا گھبرا کر بولی، بالاج ناٸیک کو ہر چیز پرفیکٹ چاہیے تھی۔
واٸٹ تھری پیس میں ملبوس، چہرے پر زمانے بھر کی سنجیدگی اور دولت کا غرور سجاۓ اس نے دراز سے سگھار نکالا اور سلگھا کے منہ میں دباتے ہوۓ کرسی کی پسشت سے ٹیک لگا لی، نظریں لیپ ٹاپ کی سکرین پر مزکوز تھیں۔
” اوپننگ سرمنی کے لیے ویٹرس ہمارے ہوٹلز کی ہونی چاہیے۔“
بالاج نے سگھارکا دھواں چھوڑتے ہوۓ کہا۔
” اوکے سر۔“
عینا نے سر اثبات میں ہلایا اور آفس سے نکل آٸی۔
اسے جلد از جلد ویٹرس ارینج کرنی تھیں۔
” سر ویٹرسز آر ارینجڈ۔“
عینا کو جیسے ہی میسیج موصل ہوا، اس نے بالاج ناٸک کے گوش گزار دیا۔
” گڈ۔“
بالاج نے سرمنی کی باقی تیاریاں دیکھیں اور آفس سے نکل گیا۔
عینا اسکی رفتار کے ساتھ تقریباً بھاگتے ہوۓ مل رہی تھی۔
سیکورٹی گارڈ ے مٶدب انداز میں گاڑی کا دروازہ وا کردیا۔
بالاج ناٸک گاڑی میں بیٹھا، عینا نے فرنٹ سیٹ سنبھالی، آگے پیچھےگاڑیاں قطار میں نکل گٸیں۔
” بالاج شاپنگ مال۔“
بالاج نے مختصر کہا اور موباٸل میں مصروف ہو گیا۔
شاپنگ مال، کیلگری کے وسط میں بنا ہوا تھا، اسکی بلڈنگ نہایت خوبصورت اور پرنٹڈ گلاسز سے بناٸی گٸ تھی، مال ہر طرح کی سہولت سے آراستہ تھا۔
گاڑیاں پارکنگ میں رکیں، بالاج گارڈز کے ہمراہ مال کے اندر داخل ہوا۔
موباٸل ہاتھ میں لیے، وہ مال کا جاٸزہ لے رہا تھا، اوپننگ دس دن بعد تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناٸک سافٹ وٸیر کمپنی کے خاص اراکین میٹنگ ہال میں جمع تھے۔
ایان نے کوفت سے گھڑی کو دیکھا اور پھر سامنے ، جہاں ساریہ ناٸک ابھی تک نہیں پہنچیں تھیں۔
چند ثانیے گزرے اور ساریہ ناٸک گارڈز اور اسسٹنٹ کے ہمراہ اندر داخل ہوٸی۔
سب ہی ورکرز ویلکم کے لیے کھڑے ہو گیے۔
” ہیو آ سیٹ پلیز۔“
ساریہ ناٸک نے ماٸک سنبھالتے ہوۓ مسکراہٹ اچھالی۔
” ٹو ڈے آٸی وانٹ ٹو ٹیل یو آ گڈ نیوز۔“
Today I want to tell u a good news.
ساریہ ناٸک نے اراکین کی جانب دیکھتے ہوۓ کہا۔
” ماٸی سن، بالاج ناٸک اوپن آ نیو شاپنگ مال، بالاج شاپنگ مال، اینڈ دا آل سپیشل پرسن آف ناٸک سافٹ ویر کمپنی ہیز بین انواٸٹڈ۔“
My Son, Balaj naiq has open a nw shopping mall, Balaj Shopping Mall ad the workerz of Naiq Softwear Company has been invited.
اس نے فاتحانہ نظروں سے سب کی طرف دیکھا۔
میٹنگ ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
” دس از آ بگ آنر فار اس۔“
ساریہ ناٸک مسکراٸی تھی، ایان نے بے زاریت چھپاۓ بنا ہینڈز فری کانوں میں اڑسیں اور میوزک پلیر آن کر لیا۔
ساریہ ناٸیک نے مال کی ڈیٹیلز اور سرمنی کے مہمان امرا کی لسٹ گنواٸی۔
ایک گھنٹے کے بعدمیٹنگ ہال خالی ہونے لگا، ایان کوفت سے بڑبڑاتا ہوا نکلا اور اپنے آفس میں آگیا۔
کنپٹاں مسلتے ہوۓ اس نے سر سیٹ کی پشت سے لگا لیا۔
” ڈرامہ کوٸین۔“
بے زاریت سے ساریہ کو لقب سے نوازا اور پانی کا گلاس لبوں سے لگا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا آج پھر اسی آفس میں زمانے بھر کی بے زار شخصیت کے سامنے بیٹھی تھی۔
” پلیز سر۔“
وفا منت بھرے لہجے میں بولی۔
” آر یو کریزی۔“
Are u crazy?
پینتالیس سالہ جیم نے کوفت سے اسے دیکھا۔
وفا نے اثبات میں سر ہلایا، اگر وہ پاگل نا ہوتی، تو سات سمندر پار کیوں دوڑی چلی آتی۔
” دین گو ٹو اینی ساٸیکیٹرسٹ۔“
Then go to any sycetrist.
جیمز نے مفت کا مشورہ دیا تھا۔
” آٸی نیڈ اٹ، اٹس دا بیس آف ماٸی لاٸف۔“
وفا نے التجا کی تھی۔
” یو آر سچ آ میڈ گرل، ہاٶ کین آٸی فاٸنڈ ٹوانٹی فاٸیو اٸیرز اولڈ فاٸلز۔“
You are such a mad girl, How can I find twenty five year old files.
جیمز زچ ہو کر بولا۔
” آٸی کین ہیلپ اف یو ڈانٹ ماٸینڈ۔“
I can help? If u don't mind.?
وفا نے ملتجی نظروں سے اسے دیکھا۔
” نو۔“
جیمز تیکھے لہجے میں تنک کر بولا۔
” پلیز، اٹس آ ہمبل ریکویسٹ۔“
please its a humble request.
وفا رو دینے کو تھی۔
” اوکے، آفٹر ٹو تھاٶزنڈ ڈالرز۔“
Ok , After two thousand dollers.
جیمز کچھ نرم پڑتے ہوۓ پر سوچ انداز میں بولا۔
وفا نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
” آٸی ول ارینج ایز سون ایز پاسبل۔“
وفا مسکراتے ہوۓ اٹھی اور آفس سے نکل آٸی۔
” مجھے ایک اور پارٹ ٹاٸم جاب ڈھونڈ لینی چاہیے۔“
اس نے پیشانی سے سوچا۔
اکاٶنٹ میں موجود رقم وہ ایان کو دینے کے لیے فاٸنل کر چکی تھی۔
اسے کسی کا احسان نہیں لینا تھا۔“
وہ سوچ چکی تھی۔
” ہے رکو۔“
کسی کی آواز پر وفا نے پلٹ کر دیکھاڈ سفید رنگت، سنہری بال، نیلی جھیل سی آنکھیں لیے ایک خوبصورت لڑکی اسکی طرف بڑھ رہی تھی۔
وفا نے حیرت سے اسے دیکھا، دیار غیر میں ایان اور ظہیر صاحب کے علاوہ وہ کسی سے بھی واقف نہیں تھی، یا وہ چند کسٹمرز جو گروسری سٹور پر اس سے فرینک ہوۓ تھے۔
وفا نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
” ہاٶ آر یو مسز ایان ملک۔“
اس کے لہجےمیں گہرے طنز کی کاٹ کی۔
” وفا خیام۔“
وفا نے نام پہ زور دیتے ہوۓ کہا۔
عینا ہنس دی۔
” لیکن اب تو یہی تمہاری پہچان ہے نا۔؟“
عینا سنجیدہ ہوتے ہوۓ بولی۔
” نہیں۔“
وفا نے ہاتھ سینے پر باندھے سادگی سے کہا۔
” تم نے ایان کومجھ سے چھین لیا۔“
عینا دکھ سے بولی۔
وفا نے سر نفی میں سر ہلایا۔
” مجھے تم سے حسد ہو رہا ہے۔“
عینا نے طنزیا نظریں وفا کے چہرے پر ٹکاٸیں۔
” آپ کو حسد کرنے کی ضرورت نہیں، وہ شادی محض ایک کانٹریکٹ ہے، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔“
وفا سنجیدگی سے بولی اور اسکے ساتھ سے گزر کر آگے بڑھنے لگی۔
” واٹ ڈو یو مین۔“
عینا نے اسے بازو سے تھام کر روکا اور اسکے سامنے آگٸ۔
” تم جھوٹ بول رہی ہو، وہ تو تمہیں اپنی بیوی مانتا ہے۔“
عینا نے ہوا میں تیر چھوڑا۔
” مجھے نہیں پتہ، وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔“
وفا نے بازو چھڑوایا اور ٹیکسی کی طرف بڑھ گٸ۔
” میں تمہاری خوشیاں نوچ لوں گی۔“
عینا غصے سے چلاٸی۔
وفا نے پلٹ کر اسے دیکھا اور استہزایہ ہنسی۔
” لاٸیک سیرٸسلی۔“
اور پلٹ کر ٹیکسی میں جا بیٹھی۔
عینا نے سلگھتی نظروں سے ٹیکسی کو دور تک دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” مجھے پارٹ ٹاٸم جاب چاہیے انکل۔“
وفا نے اپنی پریشانی ظہیر صاحب کے سامنے رکھی۔
” کیوں بیٹا۔؟“
ظہیر صاحب نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔
” مجھے دو ہزار ڈالرز کی ارجنٹ ضرورت ہے۔“
پریشانی وفا کے چہرے سے عیاں ہو رہی تھی۔
” تم اپنی پریشانی شٸیر کر سکتی ہو۔؟“
ظہیر صاحب نرم لہجے میں بولے۔
” میں صحیح وقت کی منتظر ہوں۔“
وفا آہستگی سے بولی تھی۔
” ٹھیک ہے، میں کسی جاننے والے سے بات کرتا ہوں۔“
ظہیر صاحب نے حامی بھری تو وہ شکریہ ادا کرتی اٹھ کے اپارٹمنٹ میں آگٸ۔
بالکونی میں آٸی تو چاند کی مدھم روشنی دکھ رہی تھ، سر مٸ بادل آج چھٹی پر تھے۔
اسے عینا کی باتیں من و عن یاد آگٸیں۔
” نوچنے کے لیے خوشیوں کا ہونا ضروری ہے، اور یہی خوشیاں تو تلاشنے آٸی ہوں۔“
وفا خود ہی سے ہمکلام تھی۔
ارد گرد کے اپارٹمنٹس میں ڈم لاٸٹ بلب کی ملگجی دی روشنی دکھ رہی تھی، سڑک سنسان پڑی تھی۔
” پتہ نہیں ایان ملک کیا چاہتا ہے۔؟“
وفا کی دھیان بھٹک کر ایان پر جا اٹکا۔
بہت سوچ بچارکے بعد وہ تھک ہار کر بستر پر آگری،اسے تنہایوں کی عادت تھی، پیدا ہونے سے آج تک وہ تنہا ہی تو تھی۔
سوچتے سوچتے نیند نے ادے کھینچا اور وہ نیند کی وادی میں اترتی چلی گٸ۔
معمول ایک مصروف دن کا شیڈول لیے تیارا کھڑا تھا، وفا تازہ دم تھی۔
دن کا استقبال کیا اور تیاری کیے جاب کے لیے نکل گٸ۔
گروسری سٹور پر وہ کسٹمرز سے بات چیت ر ہی تھی، جب ظہیر صاحب اندر داخل ہوۓ۔
” وفا بات سنو۔“
ظہیر صاحب نے اشارہ کیا تو وہ ایکسکیوزمی کہتی انکے پاس آٸی۔
” یہ لو کارڈ، بالاج شاپنگ مال کی اوپننگ سرمنی ہے، اور بہت بڑی پارٹی ہے، انہیں ویٹرسز چاہیے، اچھا پیکج ہے، ٹراۓ کر لو شاید تمہاری بات بن جاۓ۔“
ظہیر صاحب نے تفصیل سے کہا۔
فا کارڈ تھامے سوچ میں پڑ گٸ۔
” فیصلہ تمہارا ہے بچے، جو تمہیں بہتر لگے۔“
ظہیر صاحب اسکے سر پر دست شفقت رکھتے کسٹمرز کی طرف بڑھ گٸے۔
وفا نے بہت سوچ بچار کی اور بیگ اٹھاۓ گروسری سٹور سے نکل گٸ۔
ظہیر صاحب نے مسکرا کر اسکی پشت کو دیکھا، وفا نے ٹیکسی میں بیٹھتے ہوۓ ہاتھ ہلایا اور مسکراتی نظروں سے انہیں دیکھا۔
” پتہ نہیں کس دکھ نے تمہاری مسکراہٹ پر سنجیدگی کا پردہ ڈال دیا ہے۔“
ظہیر صاحب دکھ سے سوچ سکے۔
وفا انہیں کم دنوں میں بہت عزیز ہوگٸ تھی، رشتوں کی لزت سے ترسے لوگ جب کسی سے ملتے ہیں تو خلوص کی بارشیں نچھاور کرتے چلے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے کمرے میں بیٹھا میلز چیک کر رہا تھا، جب عینا دروازہ ناک کرتی اندر داخل ہوٸی۔
ایان نے ایک نظر اس پر ڈالی اور نظریں دوبارہ موباٸل پر مرکوز کر لیں۔
” آج تمہاری بیوی ملی تھی۔“
عینا ہاتھ سینے پر باندھے اسے یک ٹک دیکھتے ہوۓ بولی۔
ایان نے یکلخت کو اسے دیکھا ۔
” تمہارے ٹیسٹ پر افسوس ہوا۔“
عینا تمسخر سے بولی۔
” آٸی ڈونٹ کٸیر۔“
ایان نے لاپرواہی سے کندھے اچکا کر اسے دیکھا۔
” وہ تو کہہ رہی تھی، شادی محض ایک کانٹریکٹ ہے۔“
عینا نے جتاتے ہوۓ کہا۔
ایان بیڈ سے اتر کر اسکے سامنے آیا۔
” تمہاری پرابلم کیا ہے۔؟“
ایان بلکل اسکے سامنے کھڑا تھا۔
” محبت۔“
عینا نے ملتجی نظروں سے اسے دیکھا۔
” لیکن مجھے نہیں ہے۔“
ایان نے سردلہجے میں کہا اور اسے بازو سے تھامے کمرے سے باہرکر کے دروازہ ٹھاک سے بند کر دیا۔
” وفا خیام، اتنی بے وقوف لگتی تو نہیں ہے۔“
ایان غصے سے بولا اور کار کی چابیاں اٹھاۓ باہر کی طرف بڑھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔