آفس پہنچا تو پتہ چلا کہ کمپنی کی ایم ڈی صاحبہ تشریف لا چکیں ہیں۔
” اوہ آج تو میٹنگ تھی۔“
ایان نے آنکھیں میچ کے غصہ ضبط کیا اور میٹنگ روم کی طرف چلا گیا۔
میٹنگ روم میں سب ہی لوگ موجود تھے، ایان نے اپنی نشست سنبھالی۔
سربراہی کرسی پر بیٹھی خاتون کی عمر پینتالیس سال تھی، لیکن اسکے انداز و اطوار اور لک سے وہ تیس کی لگتی تھی۔
سنہری بھورے بال، بھوری آنکھیں، چھوٹی سی ناک، اور سفید بے داغ رنگت، اس نے ابھی تک خودکو مینٹین رکھا ہوا تھا۔
ناٸک سافٹ وٸیر کمپنی کی ایم ڈی ساریہ ناٸک سخت مزاج کی عورت تھیں، اگر کمپنی کا مقام نہیں ہوتا تو ایان کبھی وہاں کام کرنے کو ترجیح نا دیتا۔
میٹنگ شروع ہوٸی اور گیارہ بجے کے قریب سب ہی میٹنگ روم سے نکلے، ایان نے گہرا سانس ہوا کی سپرد کیا اور گھڑی دیکھتا آفس میں چلا آیا۔
” مسٹر ایان، کم ان دا آفس۔“
ساریہ نے انٹر کام پر حکم دیا، ایان فاٸل بند کرتا اٹھ کے آفس سے نکل کر لفٹ کی طرف بڑھا، ساریہ ناٸک کاآفس آٹھویں فلور پر تھا۔
” میم کم ان۔“
ایان سنجیدہ تھا۔
” ییس۔“
ساریہ ناٸک بنا فاٸل سے نظریں اٹھاۓ بولی، انکی اسسٹنٹ جولی داٸیں جانب مٶدب انداز میں کھڑی تھی۔
” ہیو آ سیٹ۔“
ساریہ نے فاٸل سے نظریںہٹا کر اسے دیکھا، وہ ایک خوبرو مرد تھا۔
” وی ہیو ٹو لانچ آور سافٹ وٸیر ایز سون ایز پاسبل، بی فار ماٸکروسافٹ کمپنی۔“
ساریہ نے سنجیدگی سے کہا۔
” سافٹ وٸیر از اب فاٸنل پراسیس۔“
ایان نے نارمل لہجے میں قدرے سنجیدہ ہو کر کہا۔
” میک اٹ سون، ناٶ گو۔“
ساریہ نے فاٸل پر نظریں رکھتے ہوۓ کہا۔
ایان جی جان سے جلتا، کڑھتا آفس سے نکل کر لفٹ کی طرف آیا۔
” اتنی سی بات انٹر کام پر بھی کہی جا سکتی تھی۔“
اسے شدید غصے نے آن گھیرا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا کی جان کنفرم ہو گٸ،اسکا بیشتر وقت ظہیر صاحب کے ساتھ گزرنے لگا۔
” اتنی محبت تو میرے بابا بھی مجھے نا دے سکے کبھی۔“
بالکونی میں کھڑے اس نے اوپر آسمان کی سمت دیکھا تھا۔
” وفا۔۔۔!!!!“
دروازے پر ظہیر صاحب کی آواز پر چونکی اور سٹالر کندجے پر رکھتی دروازے کی سمت بڑھی۔
” آ جاٶ ، کھانا کھاٸیں۔“
انہوں نے بے حد اپناٸیت کا اظہار کیا، وفا نا چاہتے ہوۓ مسکرا کر انکے ساتھ چل دی۔
” آپ کی فیملی کہاں ہے انکل۔؟“
کھانا کھاتے ہوۓ وفا نے سوال کر دیا۔
” میری کوٸی فیملی نہیں ہے، بیٹا۔“
ظہیر صاحب آزردہ ہو گیے۔
” ایم سوری۔“
وفا شرمندہ ہو گٸ۔
” نہیں بیٹا، میری منگیتر تھی، صبا، مجھے اس سے بہت محبت تھی، میں ہاٸیر سٹڈیز کے لیے کینیڈا آگیا، اور اسکے دل میں کوٸی اور بس گیا۔“
وہ نم لہجے میں بولے، ہاتھوں سے نوالہ چھوٹ کر پلیٹ میں جا گرا، وفا کو سخت افسوس ہوا۔
” میں دوڑا واپس گیا، میرا فاٸنل سمیسٹر تھا، میں نے پرواہ نہیں کی، اس نے بھی پرواہ نہیں کی۔“
ان کے ہاتھ کپکپانے لگے تھے۔
” محبت کی شدت انسان کو بربادی کے دہانے پر لے جا کر چھوڑ دیتی ہے، مجھے بھی چھوڑ دیا، محبت کا ماتم مناتے میں نے سٹڈیز چھوڑ دیں اور ہمیشہ کے لیے کینیڈا میں بس گیا۔“
وہ بات ختم کرتے آزردگی سے مسکرانے کی سعی کرنے لگے۔
” مجھے افسوس ہوا، آپ کو دکھی کر کے۔“
وفا واقعی افسردہ ہو گٸ تھی۔
”تمہارے پنے سے تنہا زندگی میں سکون کے چند پل میسر ہوۓ ہیں، دیار غیر کے ان اپنوں میں وہ چاہ کہاں ہے، جو اپنے دیس کے غیروں میں ہے۔“
وہ ہتھیلی کی پشت سے آنکھیں رگڑتے مسکراۓ۔
” آپ واپس چلے جاٸیں پاکستان۔“
وفا نے پانی کا گلاس انکی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا۔
”وہ میرے بھاٸی کی بیوی ہے۔“
ظہیر صاحب نے آہستگی سے جواز دیا تھا، وفا نے حیرانگی و افسردگی سے ظہیر صاحب کو دیکھا، وہ بھی محبت کے اجاڑے ہوۓ تھے۔
”جانے محبت نے کتنے ہنستے گھر اجاڑے ہیں۔“
وفا افسردگی سے سوچتی اپنے اپارٹمنٹ میں واپس آگٸ۔
” لیکن میرے دل میں محبت کی کوٸی جگہ نہیں ہے، مجھےبس تلاش ہےانکی جنہوں نے محبت کے سوال کو حل کر کے چھوڑ دیا۔“
اس نے گہری سانس خارج کی اور تکیے پر سر رکھے آنکھیں موند لیں۔
” تو تم کبھی محبت نہیں کروگی۔؟“
ایان اسکے سامنے ہاتھ جیبوں میں گھساۓ سنجیدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
” نہیں، نا محبت کروں گی، نہ ہونے دونگی، نہ محبت کو اپنی زندگی میں کبھی جگہ دوں گی، اپنے مقصد کے بعد کچھ گنجائش نکلی تو دیکھوں گی۔“
وفا نے ہمیشہ کی طرح سادگی سے کہا۔
” محبت تمہیں ضرور ہو گی، تمہاری انا کو ہرا کے رکھ دےگی محبت۔“
ایان کا لہجہ پریقین سا تھا۔
”مجھے محبت ہو بھی جاۓ گی تب بھی میں محبت نہیں کروں گی، محبت مجھے کیا ہراۓ گی، میں محبت کو ہرا دینے کی طاقت رکھتی ہوں۔“
وفا کے لہجے میں طاقت تھی، ایان نے الجھ کر اسے دیکھا گویا اسکی بات سے خوش نہیں تھا۔
وفا سنجیدگی سے پلٹ گٸ تھی۔
وفا نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں، کمرے کا سیاہ اندھیرا دیکھ اسے خواب کا احساس ہوا۔
” لیکن میرے خواب میں ایان کیوں۔؟“
وہ پہلی بار الجھی تھی۔
” دن بھر سوچ لیا ہوگا کچھ ان کے بارے میں۔؟“
گلاس میں پانی انڈیلتی بڑبڑاٸی اور اٹھ کے بالکونی کا دروازہ کھول دیا، ٹھٹھرتے ہوا کے سرد جھونکے نے اسکا استقبال کیا، سردی کا احساس ہوتے اس نے دروازہ بند کیا اور آ کر لیٹ گٸ۔
نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، وہ اپنا پلان بنانے لگی، اسے جلد بازی نہیں کرنی تھی، دوسال کی محنت سے وہ یہاں تک پہنچی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چلتیں جا رہیں تھیں۔
” پھوٹو کی گیا مسٸلہ ہے۔؟“
عناٸیہ نے خفگی سے عینا کو دیکھا۔
” تمہارے بھاٸی سے بڑا کوٸی مسٸلہ ہو سکتا ہے۔؟“
وینا نے طنزاًپوچھا۔
” تمہیں بھی دل دینے کے لیے وہی ملا تھا۔“
عناٸیہ چشمہ انگلی سے ٹھیک کرتی ہنسی تھی، عینا تقریباً جل ہی گٸ۔
” مجھ سے کبھی ڈھنگ سے بات نہیں کرتا، جب جاب چاہیے تھی، تب عینا، عینا کرتا پھرتا تھا۔“
عینا سخت ناراض لگ رہی تھی۔
” تو گویا تم نے میرے بھاٸی پہ احسان کیا ہے؟“
عناٸیہ آنکھیں سکوڑ کے بازو سینے پر باندھ اسے گھورا۔
” نہیں، ورنہ اب تک سو بار جتا دیتی۔“
عینا سنجیدگی سے بولی تھی۔
” وہ تو سارہ کے لیے بھی نہیں مان رہا، اللہ جانے اسے کیسی لڑکی چاہیے“
عناٸیہ سر جھٹکتے ہوۓ سامنے دیکھ کر بولی۔
” تم کچھ کرو، وہ تمہارا بھاٸی ہے۔“
عینا منت بھرے لہجے میں بولی تھی۔
” اگر تمہیں یاد ہو، وہ تمہارا دوست بھی ہے۔“
عناٸیہ نے انگلی ٹھوڑی کے ڈمپل پر رکھ کر عینا کو دیکھا۔
” ہے نہیں تھا۔“
عینا نے تھا پر زور دے کر کہا۔
” میرا مشورہ مانو، بھول جاٶ۔“
عناٸیہ سنجیدہ ہوٸی۔
عینا نے سنجیدہ مگر خفا نظر اس پر ڈالی۔
” تم بھی اپنے بھاٸی جیسی ہو۔۔۔“
عینا منہ پھلاتی چلی گٸ، اور عناٸیہ نے عہد باندھا کہ ایان سے ضرور بات کرے گی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عناٸیہ اسکے کمرے کے دروازے تک آٸی وہ صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا۔
اسکی پشت عناٸیہ کی طرف تھی۔
” بزی ہیں۔؟”
عناٸیہ اسکے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ لیپ ٹاپ پر دیکھ کر بولی۔
ایان نے لیپ ٹاپ کی طرف اشارہ کیا، گویا تم دیکھ سکتی ہو؟
” مجھے کچھ بات کرنی تھی۔“
عناٸیہ لاپرواہی سے بولی۔
ایان جانتا تھا، وہ اب ٹلنے والی نہیں ہے۔
” بولو۔“
ایان نے سنجیدہ نظر اس پر ڈالی۔
” آپ نے اسے پھر ناراض کر دیا،سب جانتے ہوۓ بھی۔“
عناٸیہ پرشکوہ لہجے میں بولی۔
” عینا کو۔؟“
ایان نے تصدیق چاہی۔
عناٸیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
” جب ایک بار منع کر چکا ہوں تو سمجھتی کیوں نہیں، محبت کو بے عزت کر رہی ہے، اسے کہہ دو اگر واقعی محبت ہے تو بار بار اسکا واویلہ کرنا چھوڑ دے۔“
ایان تیکھے لہجے میں بولا۔
” اسے واقعی ہی محبت ہے۔“
عناٸیہ نے اسے دیکھ کر خفگی سے کہا۔
” اس نے محبت کر کے مجھ پر احسان نہیں کیا، اس محبت نامے کو بند کردے تو اس احسان کو مان سکتا ہوں۔“
ایان کڑے تیوروں سے بولا تھا۔
عناٸیہ افسردگی سے ایان کو دیکھتی رہ گٸ، بے شک وہ بے حد بےوجیہہ تھا، اس کا ریزرو لہجہ اور پرسنیلٹی آگ پر تیل کا کام کرتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھکا ہارا آفس سے لوٹا تو گیراج میں ایک گاڑی کا اضافہ دیکھ چڑ سا گیا، شاٸنہ پھر سے شادی کا واویلہ مچانے آۓ گی۔
ایان بیگ لیے اندر داخل ہوا۔
لاٶنج میں سب کے سنجیدہ چہرے دیکھ کر ہی معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگا چکا تھا، بنا کسی کو مخاطب کیے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
” بچپن کی منگنی ایسے کیسے ختم کر سکتا ہے۔؟“
شاٸنہ ایان کی سنجیدگی اور اسکا رویہ دیکھ کر تقریباً چلاٸی۔
ایان نے ناگواری سے سے جھٹکا اور زور کی آواز سے کمرے کا دعوازہ بند کیا۔
سب کی نظریں بے اختیار اسکے بند دروازے تک گٸیں۔
” وہ نہیں مانے گا، ہم آپ سے معافی مانگتے ہیں۔“
اکاش ملک نے سنجیدگی سے انکار کر دیا۔
” چلو شاٸنہ۔“
شاٸنہ کے ہزبینڈ خاصی سختی اور غصے سے بولے تھے۔
” آپ نے ہمیں رشتے داری ختم کرنے پر مجبور کیا ہے۔“
شاٸنہ سخت نظروں سے گھورتی ہوٸی چلی گٸ۔
راٸنہ نے افسردہ اور ناراض نظر اکاش ملک پر ڈالی اور اٹھ کے کمرے میں چلی گٸیں۔
اکاش ملک نے ٹیبل سے اخبار اٹھایا اور پڑھنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینیڈا آۓ ایک ماہ گزر چکا تھا، آج اسے اپنے مقصد کی شروعات کرنی تھی، اور وہ بلکل تیار تھی۔
دل میں عجب سی خوشی اور بیس سال کے انتظار کی آگ تھی، وہ پر جوش تھی، انتظار کے ختم ہونے پر۔۔۔۔۔
پر وہ یہ نہیں جانتی تھی، کچھ منزلیں، کچھ راستےادھورے ہی اچھے لگتے ہیں، کہیں پر مقصد کی تکمیل سے زیادہ لزت انتظار میں ہوتی ہے۔
اسکی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں تھی، ہلکے بخار نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا، وہ آرام کرنے کے موڈ میں نہیں لگ رہی تھی۔
جاب کے لیے ورک پرمٹ بن چکا تھا، تیار ہوکر نکل گٸ۔
” تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں لگ رہی وفا۔“
ظہیر صاحب نے تفکر سے اسے دیکھا۔
”کچھ نہیں ہوا مجھے، آپ فکر مند نہ ہوں۔“
وفا مسکراٸی، گو کہ سر درد شدت اختیار کر گیا تھا۔
شام تک بخار تیز ہو گیا تھا، لیکن اسے پرواہ نہیں تھی، وہ تیز قدموں سے نکلی اور داٸیں جانب بڑھ گٸ۔
سر درد شدید ہو گیا تھا، روڈ کراس کرتے تیز رفتار گاڑی دیکھ سر چکرا گیا تھا۔
بمشکل چکراتے سر کو تھامتی وہ فٹ پاتھ پر بیٹھتی چلی گٸ۔
اسکی آنکھ کھلی تو ایک خوبصورت کمرہ تھا، بیڈ کے داٸیں جانب ڈریسنگ ٹیبل، اور اسکے ساتھ قد آدم کھڑکی، جس کے آگے دبیز پردے گرے ہوۓ تھے۔
سامنے دروازے کے ساتھ صوفے تھے، ہوش کی دنیا میں قدم رکھا تو باہر سے شور کی آوازیں آٸیں۔
” میں کہاں ہوں۔؟“
وفا گھبراتے ہوۓ بیڈ سے اتری، بیڈ کی پشت پر اوپر ایان کی تصویر فریم میں جڑی ہوٸی تھی۔
” اوہ۔“
وفا سمجھ گٸ، وہ ایان کے کمرے میں ہے، عجلت میں بیگ اٹھایا اور دروازہ کھول کر کمرے سے نکل آٸی۔
سامنے ایان اپنے مام ڈیڈ سے لڑ رہا تھا، ایک طرف دو لڑکیاں کھڑیں صورتحال دیکھ رہیں تھیں۔
ایان کی نظریں اس پر پڑیں تو چپ ہو گیا۔
” آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔؟“
ایان نے لہجے کو حتی المکان نارمل رکھا، جو باعث حیرت تھا۔
” اب ٹھیک ہوں۔“
وفا نے مسکرانے کی کوشش کی۔
” السلام وعلیکم۔“
وفا نے اس کے مام ڈیڈ کو سلام کیا، جنہوں نے تنفر سے منہ پھیر لیا۔
وہ نہیں جانتی تھی، ایان کی بیوی کے روپ میں اس کا تعارف ہو چکا ہے۔